Thursday, February 20, 2025

Babul Ka Ghar | Teen Auratien Teen Kahaniyan

والد کے ساتھ امی یونیورسٹی میں پڑھتی تھیں۔ دونوں نے وہاں ایک دوسرے کو پسند کیا پھر ابو رشتے کے لیے نانی کے پاس آئے۔ ہماری نانی نے کچھ ردوقدح کے بعد بیٹی کی پسند کا خیال کرتے ہوئے رشتہ قبول کرلیا۔ یوں ابو کی شادی میری ماں سے انجام پا گئی۔
بے شک یہ ان کی محبت کی شادی تھی لیکن میرے والد بے حد شکی مزاج تھے، خاص طور پر وہ میری ماں کو میکے جانے سے روکتے تھے۔ اس بات پر امی دلگرفتہ ہوتیں تب بادل نخواستہ جانے کی اجازت دے دیتے۔ دونوں میں یہی ایک اختلاف تھا جس نے ان کی زندگیوں میں تلخی گھول دی۔ امی جان کو میک اَپ پسند تھا۔ وہ فیشن کی دلدادہ تھیں۔ یہ بات ابو کو شادی سے پہلے معلوم تھی تب تو کچھ نہ سوچا مگر جب شادی ہوگئی، وہ میری ماں کو فیشن کرنے سے منع کرتے اور میک اپ سے روکتے تھے۔ ان کا کہنا تھا بری عورتیں میک اَپ کرتی ہیں۔ امی اپنی یہ آرزو میکے میں پوری کرلیا کرتی تھیں۔ ان کی خالہ کا بیوٹی پارلر تھا۔ جب نانی کے گھر آتیں، خالہ کے بیوٹی پارلر پر جاکر بھنویں بنواتیں، بال سیٹ کرواتیں اور میک اَپ کے ارمان بھی پورے کرلیتیں۔
ایک روز والد ان کو لینے نانی کے گھر آئے۔ امی کو معلوم نہ تھا کہ یہ اچانک آجائیں گے کیونکہ انہوں نے جمعہ کا کہا تھا مگر جمعرات کو آگئے کہ کچھ مہمان آئے تھے، گھر میں امی کی ضرورت تھی۔ والدہ گھر پر نہ تھیں۔ نانی کو بتانا پڑا کہ خالدہ اپنی خالہ کے گھر گئی ہے۔ والد سخت برہم ہوئے کیونکہ جانتے تھے کہ خالہ کا بیوٹی پارلر ہے۔ جس بات سے چڑ تھی، وہی ہوا۔ وہ سیدھے بیوٹی پارلر پہنچے۔ امی جان وہاں چہرے کا فیشل کروا رہی تھیں۔ اس وقت تو مجبوری تھی، مہمان آچکے تھے۔ والد امی کو گھر لے آئے لیکن اس واقعے کے بعد زندگی اجیرن کردی۔ ہر وقت کہتے کہ نجانے تم چھپ چھپ کر بیوٹی پارلر کس کے لیے جاتی ہو۔ جب میک اپ ناپسند ہے تو کس کے لیے کرتی ہو۔
انہی حالات میں سال بیت گیا اور میری پیدائش متوقع ہوگئی۔ میری پیدائش سے دو ماہ قبل امی، نانی کے گھر چلی گئیں جبکہ ابو یہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ وہاں جاکر رہیں مگر نانی نے ضد کرکے بیٹی کو روک لیا کہ پہلوٹی کی اولاد کا جنم ہوگا۔ ماں کے علاوہ اور کون خیال رکھ سکتا ہے۔ خیر میں نے جنم لیا تو نانی نے والد کو اطلاع کرا دی۔ کسی گھر میں پہلا بچہ جنم لے تو خوشیاں منائی جاتی ہیں مگر جب میں پیدا ہوئی تو والد نے امی پر الزام لگا دیا کہ تم میکے میں زیادہ رہتی تھیں، نجانے یہ بچی میری اولاد ہے بھی کہ نہیں۔ یہ ایسی بات تھی جو معمولی نہ تھی۔ امی اور نانی کے دل پر میرے باپ کے یہ جملے تیر بن کر لگے۔ بیٹی کی خوشی خاک ہوگئی اور وہ غم سے نڈھال ہوگئیں۔ یوں میری ماں شوہر سے اتنی ناراض ہوئیں کہ پھر وہ پلٹ کر سسرال نہ گئیں۔ کچھ دن تک والد امی کو مناتے رہے مگر جب ان کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو ابو کو احساس ہوا کہ ان سے کتنی بڑی بھول سرزد ہوئی ہے۔ پہلی بار بیٹی کی صورت دیکھتے ہی اللہ تعالیٰ کے کرم کا شکر ادا کرنے کی بجائے انہوں نے کیسے غلط الفاظ منہ سے نکال دیئے تھے۔
سچ کہتے ہیں کہ زبان سے نکلے الفاظ اور کمان سے نکلا تیر واپس نہیں آتے۔ ماں کے دل پر شوہر کی زبان کا ایسا گھائو لگا کہ انہوں نے والد سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔ وہ پلٹ کر شوہر کے گھر نہ گئیں حالانکہ وہ کئی بار منانے آئے۔ میں بدنصیب باپ کی شفقت سے تو محروم ہوئی ہی تھی، ماں کی محبت سے بھی دور کردی گئی۔ جب والد نے امی کو طلاق بھجوا دی۔ دو سال بعد نانا، نانی نے امی کی دوسری شادی کردی۔ والدہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں مگر نانا نے اپنے عزیز کے بیٹے راحیل سے لکھوا لیا کہ اس صورت میں نکاح ہوگا اگر وہ مجھے سگے باپ کا پیار دیں گے اور کبھی مجھے میری ماں سے جدا رہنے پر مجبور نہ کریں گے۔ راحیل نے جو نانا کے رشتے میں بھتیجے ہوتے تھے، ان شرائط کو مان لیا اور امی جان سے ان کی شادی ہوگئی۔ یہ ان کی دوسری شادی تھی۔ پہلی بیوی دو بچے چھوڑ کر فوت ہوگئی تھی۔ امی نے ان بچوں کو ماں کا پیار دیا اور یوں بھی بہت خیال رکھتی تھیں کہ راحیل اس کے عوض مجھ کو بیٹی جیسا رکھیں گے اور باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دیں گے۔
شادی کے بعد شروع دنوں میں نانی کے پاس رہی تاکہ والدہ اپنے نئے گھر میں قدم جما لیں۔ میں بہت چھوٹی تھی اور ماں کے لیے روتی تھی، ان کی سخت کمی محسوس کرتی تھی۔ جب تین برس کی ہوگئی تو ایک روز امی مجھے آکر اپنے گھر لے گئیں۔ راحیل نے کچھ عرصہ پیار دیا، بلکہ پیار جتلاتے تھے اور خیال بھی رکھتے تھے لیکن کسی اور کے بچے سے پیار کرنا، ان کی فطرت میں شامل نہ تھا۔ رفتہ رفتہ ان کا مزاج بدلنے لگا۔ وہ مجھ سے کٹے کٹے رہنے لگے۔
والدہ نے جلد ہی ان کے مزاج کے بدلائو کو محسوس کرلیا۔ ان کے سامنے میری پرورش اور پڑھائی سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ وہ خود اتنی تعلیم یافتہ تھیں کہ کوئی اچھی ملازمت کرسکتی تھیں مگر راحیل نے اجازت نہ دی وہ بولے۔ میں نے نکاح ثانی اس وجہ سے کیا ہے کہ میرا گھر اور بچے دیکھنے والی ہو۔ اگر تم ملازمت کرو گی تو بچے اور گھر نظرانداز ہوگا۔
امی نے شوہر کی خوشنودی کی خاطر ان کی ہر بات مانی تاکہ وہ مجھے برداشت کرلیں اور معصوم بچی کو ماں سے جدا نہ ہونا پڑے۔ امی بہت اچھی فطرت کی خاتون تھیں جبکہ راحیل تنگ نظر اور عجیب فطرت کے مالک تھے۔ ابتدا میں اچھا سلوک کیا بعد میں ان کی فطرت ظاہر ہوگئی۔ وہ مجھ معصوم سے کھلم کھلا دشمنی پر اتر آئے۔ اپنے بچوں کو میرے سامنے پیار کرتے، بہت محبت اور شفقت سے کھلاتے اور میں بیٹھی منہ دیکھا کرتی۔ وہ مجھے نہ پوچھتے اور نہ اپنے پاس بلاتے بلکہ دور بھگا دیتے۔ امی کاموں میں مصروف ہوتیں۔ میں ایک کونے میں دبکی باپ اور بچوں کی محبت کے یہ انداز دیکھتی اور سوچتی… کاش مجھے بھی باپ کی محبت نصیب ہوتی۔ مجھے پتا چل چکا تھا یہ میرے سگے والد نہیں ہیں بلکہ سوتیلے باپ ہیں۔ یہ خود انہوں نے ہی باور کرا دیا تھا تاکہ میں بے تکلف ہوکر ان کی گود میں نہ چڑھوں جیسے ان کے بچے چڑھتے تھے۔ والدہ ان کے اس رویے پر شاکی تھیں مگر خاموش رہتی تھیں۔ نانی سے کہتی تھیں آخر اس نے بڑے ہونا ہے، اسے پتا لگنا ہی ہے کہ یہ اس کا سگا باپ نہیں ہے تو ابھی سے پتا چل جائے، کیا حرج ہے۔
میں پانچ سال کی چھوٹی بچی ایسی باتیں کیا سمجھتی۔ مجھے تو بس ایک احساس محرومی جلانے لگتا جب وہ اپنے بچوں کو ٹافیاں، بسکٹ دیتے، کھلونے لا کر دیتے یا پیسے دیتے تب میری ماں میرے لیے اور زیادہ چیزیں لاتیں اور کہتیں۔ نِکی غم نہ کر… میں ان کے بچوں سے زیادہ دوں گی۔ اب میں تیری ماں ہوں اور میں ہی تیرا باپ ہوں۔ تمہیں کبھی باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دوں گی۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا، عقل آتی گئی۔ اب میں ماں کی بے بسی کو سمجھ سکتی تھی اور سوتیلے باپ کی فطرت کو بھی… کبھی ماں کے پیار سے جی بہل جاتا، کبھی دل خون ہوجاتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ راحیل کے رویے میں میرے لیے سخت بیزاری، بیگانگی اور روکھا پن آتا جا رہا تھا۔ وہ ہر بات پر روکتے ٹوکتے۔ یہ کرو، یہ نہ کرو جبکہ اپنے دونوں بچوں کو ہاتھوں کا چھالا بنا کر رکھتے تھے۔
ان کے اس سلوک سے میرے ذہن پر بہت برا اثر پڑ رہا تھا کیونکہ وہ کسی وقت بھی مجھے چین سے نہ رہنے دیتے تھے۔ ماں اب راحیل سے میری خاطر کنارہ کشی اختیار نہ کرسکتی تھیں کیونکہ وہ ان کے ایک اور بچے کو جنم دینے والی تھیں تبھی انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ مجھے میری نانی کے گھر بھجوا دیں گی۔
نانی مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں، خالہ بھی بہت چاہتی تھیں۔ میں اتنی سمجھدار ہوچکی تھی کہ ماں کی مجبوریاں سمجھنے لگی تھی۔ نانی کا پیار بھی ماں کے پیار کی طرح مجھے سکون دیتا تھا۔ ماموں، ممانی خیال رکھتے تھے۔ راحیل کی عقابی نگاہوں میں چھپی حقارت کی تپش کو اب برداشت نہ کرسکتی تھی۔ نانی کے یہاں زیادہ سکون ملتا تبھی ماں کی جدائی کو برداشت کرلیا۔ ان دنوں چھٹی جماعت میں تھی جب نانی کے گھر مستقل رہنے آگئی۔ امی ہفتہ میں ایک بار گھنٹے دو گھنٹے کے لیے آکر مل جاتی تھیں۔
ماموں اور نانی نے میری تعلیم جاری رکھی، وہی میرا خرچہ برداشت کرتے تاکہ سوتیلا باپ یہ نہ کہے کہ میں نے فائزہ کی تعلیم پر خرچہ کیا ہے۔ جہاں تک ماں کا بس چلا، میرا خیال رکھا مگر جب گھر میں ایک فرد کی نگاہوں میں نفرت ہو تو دل و ذہن پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ میری سوتیلی بہن کا نام ارم تھا۔ وہ مجھ سے پیار کرتی تھی، وہ میری جدائی کو بہت محسوس کرتی تھی۔ واپس گھر لانے کے لیے والدہ سے اصرار بھی کرتی تھی مگر نانی، خالہ اور ماموں نے جانے نہ دیا۔ میں نے بھی سوتیلے باپ کے گھر لوٹ کر جانا گوارا نہ کیا۔
ارم کو باجی کہتی تھی۔ ان کی منگنی میٹرک کے بعد پھوپی کے بیٹے سے کردی گئی۔ امی نے جب تیسرے بچے کو جنم دیا تو وہ زندگی کی بازی ہار گئیں۔ وہ بچہ بھی وفات پا گیا۔ ارم باجی کا جہیز امی نے اپنے ہاتھوں بنایا تھا۔ ارم باجی کی شادی ہوگئی۔ وہ رخصتی کے وقت اپنی ماں کو نہیں بلکہ میری ماں کو یاد کر بہت روئی تھیں۔ ماں رہی اور نہ باپ… پہلے نانی کے گھر پر تھی۔ امی کے باقی دونوں چھوٹے بچے بھی ان کو اپنے گھر لانے پڑ گئے۔ میں ان دنوں سمجھدار ہوچکی تھی۔ خالہ کی شادی ہونے والی تھی اور اب ان بچوں کو فی الحال نانی کے ساتھ مجھے سنبھالنا تھا۔
قدرت بھی کیسے عجیب کھیل کھیلتی ہے۔ راحیل کو میرا وجود برداشت نہ تھا، ان کے اپنے دو بچے اللہ نے پھر سے بن ماں کردیئے تھے۔ اگرچہ وہ میری ماں کی کوکھ سے پیدا ہوئے تھے، مجھے وہ پیارے تھے لیکن ان بچوں کے ساتھ ساتھ میری دنیا بھی اندھیر ہوگئی تھی کیونکہ وہی ماں تھیں اور وہی میرا باپ تھیں۔ میرے پاس تو ان دونوں میں سے کسی ایک کا بھی پیار نہ رہا تھا۔
نانی دو سال بعد چل بسیں۔ اب میں صحیح معنوں میں لاوارث ہوگئی۔ نانا ضعیف اور صاحب فراش تھے، بہوئیں ان کی خدمت سے قاصر تھیں۔ ان کو خالہ اپنے گھر لے گئیں۔ چھوٹے دو بچے راحیل واپس لے گئے اور میں اکیلی ماموں، ممانی کے پاس رہ گئی۔ ان دنوں آٹھویں میں تھی۔ اسکول سے آکر ممانی کے گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتی۔ میں ان پر بوجھ نہ تھی۔ وہ میرا خیال رکھتیں اور میں ان کا۔ ان کے بھی بچے تھے، جی ان سے بہلاتی مگر اپنی ماں کے بچے بہت زیادہ آتے تھے جن کی دو سال میں نے دیکھ بھال کی تھی اور اب وہ ارم باجی کے پاس تھے۔ راحیل کے اکیلے ہونے کے سبب باجی اور ان کے
شوہر راحیل کے گھر آکر رہنے لگے تھے جبکہ باجی کا اپنا بھائی پڑھنے کی خاطر ہاسٹل چلا گیا تھا۔
حیرت کی بات تھی اتنی مدت تک سگے باپ اور دادی وغیرہ نے کبھی مجھے یاد نہ کیا لیکن اب پھوپی میرے بارے میں ممانی کو فون کرنے لگی تھیں کہ فائزہ کیسی ہے، اس سے ملنے اور بات کرنے کو جی چاہتا ہے۔ میرے لیے رشتے دار اجنبی تھے۔ یہ رشتہ دار اور ان کی رشتہ داری بھی میرے لیے کوئی معنی نہ رکھتی تھی۔ میں تو یہی کہوں گی ایسے رشتہ دار محبت نہیں بانٹتے، وہ صرف تماشبین ہوتے ہیں اور ان کا تصور ایسا ہی سہانہ جیسے دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔ البتہ کبھی کبھی ارم باجی اصرار کرتیں تو راحیل سے نفرت کے باوجود میں ان کے گھر چلی جاتی۔ صرف اپنی ماں کے دو بچوں سے ملنے کے لیے کیونکہ ارم باجی کو میری ماں کا پیار بھولا نہ تھا تبھی وہ مجھے پیار دیتی تھیں اور اپنے باپ کو بھی سمجھاتی تھیں کہ اس سے پیار کرو۔ اصل معنی میں تو یہ یتیم ہے۔ ماں کا پیار ہے اور نہ باپ کا پیار اس کے پاس رہا ہے۔
ان باتوں کا اس شخص کے دل پر کبھی اثر نہ ہوا۔ وہ ہمیشہ کہتا تھا۔ میری دو بیٹیاں ہیں ارم اور کرن… وہ مجھے بیٹی کہتا ہی نہ تھا۔ اس بات کا بہت گلہ تھا۔ بے شک باپ کا پیار اس کے پاس میرے لیے نہ تھا کم ازکم زبان سے بیٹی کہہ دیتا تو بھی میں سمجھتی کہ میرے دوسرے بہن، بھائیوں کے ناتے اس کا مجھ سے ایک مقدس رشتہ ہے۔
ایک روز میں ارم باجی کے گھر سے دو دن بعد ماموں کے گھر آئی تو ممانی نے بتایا کہ تمہاری پھوپی تم سے ملنے آنا چاہتی ہیں۔ یہ میری سگی پھوپی کی بات ہورہی تھی جن کو کبھی دیکھا نہ تھا۔ وہ دراصل میری ممانی کی بڑی بہن کی سہیلی تھیں، ان کے ساتھ پڑھا تھا، اسی توسط سے ممانی سے بات ہوجاتی تھی۔
آپ بڑی ہیں، جیسا مناسب سمجھیں۔ میں نے ممانی سے کہا تھا۔ پھوپی سے مل لو تو اچھا ہے بیٹی…! ٹوٹے رشتے جڑنے سے انسان بالکل تنہا نہیں رہ جاتا۔ انہوں نے سمجھایا اور اگلے دن پھوپی کو آنے کی اجازت دے دی۔ وہ بہت خوش ہوکر ملیں، دیر تک گلے لگا کر روتی رہیں۔ بولیں۔ ہمارے بھائی سے ذرا سی غلطی کیا ہوئی، تمہاری ماں نے ان کو اتنی بڑی سزا دے دی۔ تم کو بھی باپ کی محبت سے محروم کیا اور ہم کو بھی تم سے دور کردیا۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی مغفرت کرے۔ بہت زیادتی ہوئی ہے ان کی ضد کے کارن میری بچی تمہارے ساتھ۔
میں اپنی مرحومہ ماں کے بارے میں ایسی بات ہرگز سننا نہ چاہتی تھی۔ پہلی ملاقات تھی ان سے لہٰذا صبر کیا اور چپ رہی۔ کچھ دیر بیٹھ کر چلی گئیں۔ میرے لیے کچھ تحفے تحائف بھی لائی تھیں جو ممانی نے ان کی دلجوئی کو رکھ لیے تھے۔ کچھ دنوں بعد پھر ان کا فون آیا کہ میری بیٹی کی شادی ہے فائزہ اور آپ اس شادی میں ضرور شرکت کریں۔ اپنی بہن سے بھی فون کرایا جو ممانی کی کلاس فیلو تھیں۔ ممانی نے سہیلی کی خاطر ہامی بھر لی اور مجھے بھی شادی میں لے گئیں شاید وہ چاہتی تھیں میں اپنی ددھیال کو دیکھ لوں۔
شادی کی تقریب میں ایک گریس فل آدمی سے پھوپی نے مجھے یہ کہہ کر ملوایا کہ یہ ہیں تمہارے والد اور ان سے کہا جمال بھائی! یہ ہے تمہاری بیٹی فائزہ…! اچانک اس بات نے مجھے سخت جھٹکا دیا اور بڑی مشکل سے اپنے جذبات پر قابو رکھ سکی۔ یوں لگا یہ سب کچھ پھوپی نے ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت کیا تھا باپ اور بیٹی کو ملانے کے لیے۔
سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ روئوں یا ہنسوں… ابو نے آگے بڑھ کر گلے سے لگا لیا۔ شفقت پدری نے جوش مارا۔ وہ اب مُصر تھے کہ اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر جائوں گا، بہت جدائی سہہ لی ہے، اب ہمارے ساتھ رہے گی یہ اپنے باپ کے گھر میں۔
مجھے کیا چاہئے تھا۔ میں خود پریشان اور بے آسرا تھی۔ آج خدا نے میرے سگے والد سے ملا دیا تھا اور انہیں مجھ پر مہربان بھی کردیا تھا۔ والد نے ماموں سے بات کی اور ایک شرط رکھی کہ فائزہ آپ لوگوں کے گھر آئے گی مگر کبھی اپنے سوتیلے باپ کے گھر نہ جائے گی۔ ماموں کو بھلا اس بات پر کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ میری شادی میرے سگے والد کریں اور میں اپنے ابو کے گھر سے رخصت ہوں۔ جب والد کے ساتھ ان کے گھر آگئی۔ انہوں نے میری بہت قدر و منزلت اپنی بیوی اور بچوں سے کروائی۔ وہ بھی بہت پیار سے ملے۔ لگا میں واقعی اپنوں میں آگئی ہوں۔ پچھلے سارے غم بھول جائوں گی۔
بچے غلطیاں کرتے ہیں اور ماں، باپ درگزر کرتے ہیں، مگر میرے ساتھ ایسا نہ ہوا۔ مجھے والد کے گھر بہت پیار ملا مگر معافی نہ ملی۔ مجھ سے غلطی ہوگئی کہ میں نے والد کے حکم کا پاس نہ رکھا اور سوتیلے باپ کے گھر چلی گئی۔ مجھے یہاں آئے سال ہوا تھا ایک روز ارم باجی ہمارے گھر آئیں۔ وہ مجھ سے گلے مل کر خوب روئیں اور کہا کہ تمہارے دونوں چھوٹے بہن، بھائی تم کو بہت یاد کرتے ہیں۔ کرن بیمار ہے، وہ رو رو کر تم کو پکارتی ہے، ایک بار آکر اس سے مل لو۔ میں نے کہا۔ ارم باجی! ابو نے منع کیا ہے آپ لوگوں سے ملنے سے آپ ان کو یہاں لے آیئے۔ میں آپ کے والد کے گھر نہ جائوں گی۔ وہ بولیں۔ ان کا نہیں میرا گھر ہے، تم میرے گھر آئو۔ اپنے بہن بھائی سے ملنے میرے ابو سے تمہارا کیا واسطہ۔ بس ایک بار چند منٹوں کے لیے آجانا۔ میں نے وعدہ کرلیا کہ ماموں کے گھر آئی تو آپ کو فون کردوں گی۔
ماموں کے گھر گئی تب ارم باجی کو فون کیا کہ میں یہاں ہوں، آپ کرن اور ندیم کو لے آیئے۔ وہ بولیں۔ کرن بہت بیمار ہے، ابھی نہیں لاسکتی، تم دوچار منٹ کو یہاں آجائو۔ تمہارے والد کو بھلا کون بتائے گا۔ ہم ممانی سے منع کردیں گے۔ ارم باجی کے اکسانے پر میں ان کے گھر چلی گئی۔ سمجھ رہی تھی بس ایک بار کے بعد دوبارہ نہ جائوں گی مگر میری ایک بار کی غلطی پکڑی گئی۔ ابو کو خبر ہوگئی کہ میں سوتیلے باپ کے گھر ان کے منع کرنے کے باوجود گئی ہوں۔
بس یہ میرے لیے ان کی محبت کا آخری دن ثابت ہوا۔ انہوں نے مجھے اپنے پاس رکھنے سے انکار کردیا۔ میں نے معافی مانگی۔ میری طرف سے ماموں اور ممانی بولے۔ پھوپی نے ان کو بہت سمجھایا کہ بچی ہے، غلطی ہوگئی ہے، معاف کردو۔ کافی عرصے ان کے ساتھ رہی ہے، بچوں کی آپس میں ساتھ رہنے کی وجہ سے محبت ہے۔ ایسا کیا جرم ہوا ہے کہ سزا دینی لازم ہے۔ پہلے ماں نے اسے سزا دی، اب تم باپ ہو کر سزا دے رہے ہو۔
والد کا دل تو جیسے پتھر کا بنا ہوا تھا، موم ہوا، نہ پگھلا۔ میرے آنسو بھی اس پتھر پر کوئی اثر نہ کرسکے۔ میں نے ان کا پیار، اپنا گھر اس کا سکون پا کر کھو دیا۔ اس نعمت کو تو ہرگز کھونا نہ چاہتی تھی۔ ایک بار پھر سے بے آسرا نہ ہونا چاہتی تھی۔ میرے باپ کا ہاتھ میرے سر پر ایک نعمت تھا اور ان کا پیار جو پیدائش کے بعد اب ملا تھا، وہ بھولتا نہ تھا۔ بہت روتی تھی یہاں تک کہ سوتیلی ماں کو بھی مجھ پر ترس آگیا۔ انہوں نے بھی ابو کو بہت سمجھایا کہ بچوں کی غلطیوں کو معاف کرنا والدین کا کام ہے۔ معاف کردیجئے، یہ دوبارہ آپ کی اجازت کے بغیر قدم باہر نہ رکھے گی مگر والد جانے کس مٹی کے بنے تھے، انہوں نے منہ پھیر لیا اور یہ کہہ کر چلے گئے اس کو واپس اس کے ماموں کے گھر بھجوا دو۔ یہ ان ہی لوگوں کے لیے پیدا ہوئی تھی۔ مجھے ایسی نافرمان بیٹی کی ضرورت نہیں ہے۔
ماموں ہی پہلے بھی سہارا تھے، وہی پھر سہارا بنے۔ میں نے ان کے پاس رہ کر میٹرک کیا، ایف اے کیا پھر ممانی کی کوششوں سے ایک اوسط گھرانے میں شادی ہوگئی۔ دوبارہ والد نے بلایا اور نہ اپنے گھر آنے کی اجازت دی۔ آج بھی جب اپنے باپ کے پیار بھرے گھر کو یاد کرتی ہوں تو رو دیتی ہوں۔ اپنا گھر لاکھ اپنا ہے لیکن بابل کا گھر…! بابل کے گھر آنگن کی تو بات ہی کیا ہے۔ سبھی بیٹیوں کو بابل کے گھر کا مان ہوتا ہے۔ سسرال میں بھی وہ اس گھر کے مان سے با عزت رہتی ہیں لیکن مجھ بدنصیب کو آج تک یہ مان نصیب نہیں ہوا۔ یہ مان میری قسمت میں نہ تھا۔ (ن… ملتان)

Latest Posts

Related POSTS