میں حسیب سے بہت پیار کرتی تھی ، وہ میرے ماموں زاد تھے۔ خاندان والے ان کے بارے کہا کرتے تھے کہ یہ لڑکا بڑا رنگین مزاج ہے۔ اسے بھلا کون بیٹی دے گا؟ میں یہ باتیں ایک کان سے سنتی اور دوسرے سے اُڑا دیتی کیونکہ مجھے حسیب سے پیار تھا۔ وہ امی کے بھائی کا بیٹا تھا، لہٰذا وہ بھی اس سے پیار کرتی تھیں۔ جب وہ ہمارے گھر آتا تو بہت آئو بھگت کرتیں۔ اگر کسی نوجوان کی شکل و صورت اچھی ہو ، باپ خوشحال ہو اور جیب خرچ کے علاوہ اسے گاڑی بھی دے رکھی ہو تو لڑکیاں ایسے نوجوانوں کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ تو رکھتی ہیں تبھی لڑکیوں سے دوستی کچھ زیادہ مشکل نہیں رہتی۔ میں ایسی لڑکی نہ تھی کہ اٹکل پچو اور سنی سنائی باتوں پر کڑھتی۔ میں نے خاندان بھر کی لڑکیوں کی چہ میگوئیوں پر دھیان نہ دیا اور امی سے کہہ دیا کہ میں حسیب سے شادی کروں گی۔ امی بھی ایسا ہی چاہتی تھیں، سو میری شادی ان سے ہو گئی اور وہ میری محبت میں گم ہو گئے۔ اگر دوسری لڑکیوں سے ان کے ناتے تھے بھی تو توڑ لئے۔ وہ اب کلی طور میرے تھے۔ خودان کا کہنا تھا کہ عمر بھر تمہارے سوا کسی کا نہیں ہو سکتا۔ اب حسیب تمہارے سوا کسی کا نہیں جو چاہے قسم لے لو۔ مجھے ان کی باتوں پر سوفی صد یقین تھا۔ ہمیشہ وقت پر گھر آتے اور میری تمام ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔ ہر ہفتے ہم سینما جاتے اور سیر و تفریح پر بھی۔ آفس کے بعد کا وقت وہ میرے ساتھ ہی گزارتے تھے۔ دوستوں کو ملنا ہوتا تو وہ گھر آکر مل جاتے ورنہ یہ شاذ و نادر ہی ان سے ملنے جاتے تھے۔ ایسے میں کون بد نصیب بیوی ہو گی جو اتنے اچھے شوہر کا شکوہ کرے گی۔ عبیرہ ان دنوں نئی نئی ہمارے پڑوس میں آئی تھی۔ خاصی تیز طرار اور شوخ لڑکی تھی۔ فیشن ایبل ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ اور خوبصورت بھی تھی۔ باتیں تو ایسی کرتی تھی کہ آدمی بس سنتا ہی رہے اور اس کے سحر میں کھویا رہے۔ اس نے حسیب کو دیکھا تھا اور نہ ہی ان کی مڈ بھیڑ ہوئی تھی۔ اکثر دونوں مجھ سے ایک دوسرے کا تذکرہ سن لیتے تھے۔ ایک دن میں اپنے میاں کا قصیدہ پڑھ رہی تھی۔ تبھی عبیرہ جھنجھلا گئی۔ بس جی بس، ذرا آزمائو تو تمہارے سارے خواب ہوا ہو جائیں گے۔ مرد خواہ کتنی قسمیں کھائے، خواہ جلتے شعلے پر ہاتھ رکھ کر بیوی سے کہے کہ میں ہمیشہ تیرا رہوں گا، اعتبار کرنے والی سوائے نادان کے اور کوئی کچھ نہیں۔ تم بڑی وفادار اور سعادت مند ہو مگر تھوڑی احمق بھی ہو۔
اس نے جو یوں بات کی مجھے بہت برا لگا۔ میں نے کہا۔ عبیرہ میں تو تم کو دوست سمجھ کر عزت کرتی ہوں اور تم مجھے میرے منہ پر احمق کہہ رہی ہو۔ برا مت مانو۔ میں تمہاری دوست ہوں تبھی تو ایسا کہہ رہی ہوں۔ اپنے میاں کی وفا پرایسا ہی یقین ہے تو آزما کر دیکھ لو۔ کہتے ہیں کہ دوستوں کو آزمایا نہیں کرتے۔ میں نے کہا۔ حسیب تمہارا شوہر ہے دوست نہیں۔ آگے تمہاری مرضی، میں نے تم کو ہو شیار کرنا چاہا ہے ، پھر بھی تم شترمرغ کی طرح آنکھیں بند ہی رکھنا چاہتی ہو تو احمقوں کی جنت میں رہو اور مزے کرو۔ میں نے کہا۔ تو چلو آزما ہی لیتے ہیں۔ تمہاری بات سچ نکلی تو یہ جو سونے کا بار میرے گلے میں ہے، اتار کر تمہارے گلے میں ڈال دوں گی، جو تم میرے شوہر کو بے وفا ثابت کر کے دکھائو گی۔ عبیرہ نے میری شرط قبول کر لی اور میرے میاں کے آفس کا نمبر پوچھ کر میرے سامنے ہی نمبر ملایا۔ میں حنابول رہی ہوں۔ آپ کی گزرے وقتوں ایک لڑکی رابعہ سے سلام دعا رہی ہے نا ! رہی ہو گی، گزرے وقت کو کون یا درکھتا ہے۔ اب کی بات کرو۔ اب کی بات یہ ہے کہ آپ کے پڑوس میں رہائش ملی ہے تو اس ناتے آپ کے گھر کبھی کبھار آنا جانا ہوتا ہے۔ آپ کی بیگم سے اچھی سلام دعا ہو گئی ہے۔ انہی کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ آپ کی دفتر میں استقبالیہ خاتون کی جگہ خالی ہے اسی سلسلے میں فون کیا ہے۔ ہاں ، رابعہ جاب چھوڑ کر چلی گئی ہے جو ہماری استقبالیہ لیڈی تھی۔ وہ جگہ خالی ہے تو ؟ شاید میں نے اپنی بیگم سے تذکرہ کر دیا ہو گا، مجھے یاد نہیں۔ معمولی معمولی باتیں میں یاد نہیں رکھتا بہرحال آپ اس جاب کے لئے انٹرسٹڈ ہیں کیا ؟ جی، میں گریجویٹ ہوں۔ پہلے بھی ایک کمپنی میں اسی آسامی پر کام کر چکی ہوں۔ وہاں سے کب اور کیوں جاب چھوڑی ہے؟ گھر تبدیل کرنے کی وجہ سے وہ کمپنی اب بہت دور پڑتی تھی، اس وجہ سے جاب چھوڑ دی ہے۔ ٹھیک ہے ، آپ میرے دفتر آجائے۔ میں دیکھتا ہوں، اگر آپ کی کچھ مدد ہو سکتی ہے۔ کب آئوں؟ عبیرہ نے پوچھا۔ ابھی، مجھے فراغت ہے آج آجائو ۔ کل آجائوں سر ! وہ دراصل مجھے اپنی اسناد کی فوٹو کاپیاں کروانی ہیں۔ ٹھیک ہے کل آجائے گا۔ اس کے بعد عبیرہ تقریب روزانہ لنچ ٹائم میں میرے گھر سے فون کرتی اور میرے صاحب سے تھوڑی دیر بات چیت کرتی۔ ان کی بات چیت کا باب کھل گیا۔ جب تک بات آپ جناب کے دائرے میں رہی، عبیرہ نے میرے گھر سے ہی فون پر سلسلہ جاری رکھا۔ کچھ دنوں بعد حسیب نے محسوس کیا کہ بات حد سے آگے جارہی ہے اور میری نہ صرف دل آزاری ہو گی بلکہ گھر میں لڑائی ہو گی تو معاملہ بہت خراب ہو جائے گا۔ انہوں نے اس سے بات چیت بند کر دی ۔ تب عبیرہ نے مجھ سے کہا کہ میں نے تم سے ہار مان لی۔ تم جیتیں ، میں ہاری۔ واقعی تمہارے میاں بہت شریف آدمی ہیں اور تم سے سچی محبت کرتے ہیں۔
اس کے بعد عبیرہ نے وہ کر دکھایا جس کا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ اس نے دوسرے ہی دن حسیب کو یہ تاثر دے دیا کہ اس کو ملازمت مل گئی ہے اور اب اس کو ملازمت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے باوجود ان کی فون پر باتیں جاری رہیں، گویا دوستی کا باب کھل گیا تھا۔ جب تک میرے فون سے وہ حسیب سے باتیں کرتی، میں اپنے کانوں سے سنتی، اندازہ لگاتی کہ میرے میاں اُدھر سے کس انداز اور ٹون سے باتیں کر رہے ہیں؟ بعد میں اس نے اپنے گھر کے فون سے ان کے ساتھ سلسلہ گفتگو جاری رکھا۔ اب ان دونوں کی گفتگو کو میں نہیں سن سکتی تھی۔ میرے میاں اب میری برائی کرنے لگے تھے۔ پھوہڑ پن کا رونا روتے۔ یوں لگتا تھا کہ عبیرہ کے سامنے وہ میرے وجود کو تسلیم ہی نہیں کرنا چاہتے ، اس قدر میری ذات کی نفی میں لگے ہوئے تھے، محض ایک دوسری لڑکی کا دل جیتنے کے لئے۔ وہ شادی سے قبل رنگین مزاج مشہور ہوا کرتے تھے اور شادی کے بعد میرے عشق میں گرفتار نظر آئے، مجھ سے تا عمر باوفا رہنے کی قسمیں کھاتے ، بے شک میرا بہت خیال بھی رکھتے اور ایک مرد کو اچھا شوہر ثابت کرنے کے لئے خود کو ایسا ہی ظاہر کرنا بھی چاہئے۔ اب مجھے کیا پتا کہ وہ باہر کیسی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ گھر میں تو پر سکون رہتے تھے۔ مجھے بھی آرام و سکون میسر تھا اور میراگھر جنت کا نمونہ تھا۔ میں تسلیم کرتی ہوں کہ عبیرہ کی باتوں میں آکر میں نے یہ غلط کیا کہ خود اپنے شوہر کو بلکہ سارے ہی گھرانے کو آزمائش میں ڈالا۔ حسیب عبیرہ کے گھیرے میں آگئے تھے۔ ان کا بس چلتا تو خود کو کنوارہ ظاہر کر دیتے لیکن یہ ممکن نہیں تھا کہ عبیرہ ہمارے پڑوس میں رہتی تھی اور ہمارے گھر اس کا آنا جانا تھا۔ میں اندر ہی اندر سلگ رہی تھی۔ وقت سے پہلے عبیرہ سے لڑ بیٹھنا بھی اپنے پائوں پر آپ کلہاڑی مار لینا تھا۔ حسیب گھر آتے ، میں پہلے کی طرح خاطر تواضع کرتی، ماتھے پر شکن نہ لاتی اور وہ بچھ بچھ جاتے ، میرے۔ لئے نت نئے تحفے لاتے۔ میں مصنوعی خوشی کا اظہار کر دیتی مگر ذومعنی باتیں بھی منہ سے نکل جاتیں لیکن وہ نوٹس نہ لیتے کہ اس قسم کی باتیں کرنا بیویوں کی عادت ہوتی ہے۔ میں یونہی بیٹھے بیٹھے کہتی۔ حسیب سنا ہے مرد بے وفا ہوتے ہیں۔ ایک عورت پر تو اکتفا کرتے نہیں، جیسے باغ میں ہر پھول پر بھنورے کا ٹھہرنا محال ہے۔ مرد کا دل بھی ایسا ہی ہوتا ہے نا! ایک حسینہ پر ٹھہرتا نہیں۔ وہ حیرت سے مجھے تکتے اور کہتے۔ کیا ہو گیا ہے؟ تمہیں کیسی فضول باتیں کرنے لگی ہو۔ پہلے تو کبھی تم نے ایسی باتیں نہیں کہی تھیں۔ اچھا تو قسم کھائو ، تم میرے سوا کسی طرف نہیں دیکھتے؟ میں قسم کھاتا ہوں، کہو تو سمندر میں چھلانگ لگا دوں پھر تم کو یقین آجائے گا۔ میں تو کسی اور کو دیکھنا بھی گناہ سمجھتا ہوں۔ عورتوں سے فون پر تو بات ہوتی ہو گی ؟ یہ کیسی بے سروپا باتیں کرنے لگی ہو۔ میں کسی عورت سے فون پر بات نہیں کرتا۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ فضول میں گنوائوں۔ تمہارے علاوہ فون پر کسی عورت سے دل میں طمع رکھ کر بات کروں تو یہی کرسی پر بیٹھے بیٹھے مر جائوں۔
اُدھر عبیرہ سے کافی دن میرے میاں صاحب کی فون پر دل لگی چلتی رہی۔ میں حسیب کی باتیں بھی سننے کو بے چین ہوتی۔ عبیرہ کہتی، تھوڑا صبر کرو، بنا بنایا کھیل نہ بگاڑو۔ رنگے ہاتھوں پکڑ لینا، مگر مجھے سونے کا ہار جیت لینے دو۔ جلد بازی سے معاملہ انجام تک نہ پہنچ جائے گا۔ حسیب اب دیر سے گھر آنے لگے تو ادھر عبیرہ بھی گھر سے غائب ہوتی۔ میں سچ مچ اندر ہی اندر کڑھنے بلکہ مرنے لگی تھی۔ کیا کرتی؟ یہ بھی تو میرا اپنا کیا تھا کہ شہر کی وفا کو آزمانے چلی تھی۔ میں پوچھتی۔ حسیب آپ روز کیوں دیر سے گھر آنے لگے ہیں ؟ کیا کوئی حسینہ رستہ روکے رکھتی ہے۔ وہ کہتے۔ قسم ہے تمہاری، اگر کسی لڑکی نے میرے اور تمہارے درمیان آنے کی کوشش کی تو اسے گولی مار دوں گا۔ آفس میں آج کل کام کچھ زیادہ ہے تبھی دیر ہو جاتی ہے۔ اب وہ مرحلہ آگیا تھا کہ حسیب عبیرہ سے روز ملاقات کے مشتاق ہو گئے۔ محض فون تک گفتگو سے تعلق سوہان روح ہو گیا تھا۔ دونوں نے سینما ساتھ جانے کا پروگرام بنالیا۔ مجھے عبیرہ نے کہا کہ آج فلاں وقت تم فلاں سینما پہنچ جانا۔ ٹکٹ میں تم کو لا کر دے دوں گی۔ ریزرویشن میں نے کروالی ہے ، سیٹ نمبر ساتھ ساتھ ہوں گے۔ تم پہلے جا کر بیٹھ جانا اور ہم تھوڑی دیر بعد آجائیں گے۔ سینما میں ہی کیوں؟ باہر کہیں ملو اور مجھے جگہ بتا دو۔ کہنے لگی۔ ہونا احمق ! باہر مجھے ان کے ساتھ دیکھ بھی لو گی تو وہ کہہ دیں گے ایسے ہی اتفاق سے ملاقات ہو گئی ہے۔ بہت شاطر ہیں حسیب صاحب ! نہیں مانیں گے، قسمیں اتنی کھائیں گے کہ آنکھوں سے دیکھ کر بھی تم خود کو جھوٹی سمجھنے لگو گی۔ سینما ٹھیک ہے ، جہاں سے بھاگ نہیں سکیں گے۔ میں نے اس کی بات مان لی حالانکہ میں اکیلے سینما جانے سے گھبرا رہی تھی۔
اس نے کہا کہ کسی سے برقعہ مانگ لو۔ انٹرویل تک صبر سے ہماری باتیں سننا ، ٹھیک ہے ؟ اسے میرا سونے کا ہار لینا تھا اور مجھے اپنے شوہر کو کسوٹی پر پرکھنا تھا کہ کھوٹا ہے کہ کھرا۔ میں وقت مقررہ پر سینما میں جا بیٹھی۔ وہ دونوں پکچر شروع ہونے سے چند سیکنڈ پہلے آکر میرے برابر براجمان ہو گئے۔ درمیان میں عبیرہ تھی۔ شرط جیت کر میرے سونے کا ہار حاصل کرنے کے خیالوں میں کھوئی ہوئی۔ میں نے اپنے کانوں سے سنا۔ حسیب نے دھیمے لہجے میں عبیرہ سے کہا۔ ظالم ! کتنے دنوں سے تم نے مجھے تڑپا رکھا ہے۔ اب تو خوابوں میں بھی تم ہی دکھائی دیتی ہو۔ اگر آج تم میرے ساتھ سینما نہیں آتیں تو میں خود کشی کر لیتا۔ اب تمہارے بغیر زندہ رہنا محال ہے۔ اگر روزانہ نہیں ملو گی تو میں مر جائوں گا۔ وہ دبی دبی ہنسی ہننے لگی۔ آپ تو بڑے جانباز ہیں۔ کل ملے ہیں اور آج میرے عشق میں جان دے رہے ہیں جبکہ شادی شدہ اور تین بچوں کے باپ ہیں۔ کیوں اتنی رومنٹنگ فضا میں ملاقات کا مزہ کرکرا کرتی ہو؟ حسیب نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ فلم نئی تھی ، رش بھی تھا مگر یہ دونوں ایک دوسرے میں گم تھے۔ میں نقاب کی اوٹ سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ میں فلم دیکھنے تو نہیں آئی تھی البتہ فلم کے پردے پر اپنی زندگی کا دوسرا رخ دیکھ لیا۔ حسیب زیادہ سے زیادہ اس کے ساتھ کندھا ملانے اور قریب ہونے کی کوشش میں اس پر جھک جھک جا رہے تھے۔ اب یہ میرے لئے نا قابل برداشت ہو چکا تھا۔ میں نے عبیرہ کے چٹکی لی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بول پڑتی ، ہال کی بتیاں روشن ہو گئیں۔ وہ دونوں سیدھے ہو کر بیٹھ گئے، تبھی عبیرہ میری طرف رخ کر کے گویا ہوئی۔
ارے ثمینہ تم! وہ مجھ سے یوں گھل مل کر باتیں کرنے لگی جیسے بہت دنوں بعد پرانی سہیلیاں ملتی ہیں، پھر حسیب کی طرف رخ کر کے بولی۔ یہ میری پرانی سہیلی ہیں ، آج اتفاق سے یہاں مل گئی ہیں۔ میں بدستور نقاب ڈالے رہی۔ اس نے کہا۔ یہ میرے شوہر ہیں ثمینہ ! آج ہم تم کو ریسٹورنٹ میں اچھی سی کافی پلوائیں گے ، کیوں حسیب ؟ ہاں ہاں، کیوں نہیں۔ جہاں کہو گی لے چلوں گا۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ برقعہ میں مجھے پہچان نہ لیں مگر انہوں نے زیادہ غور نہیں کیا کیونکہ پہلو میں تو محبوبہ بیٹھی ہوئی تھی۔ عبیرہ بولی۔ حسیب پکچر کچھ اچھی نہیں، مجھے پسند نہیں آرہی۔ چلو کسی اچھے سے ریسٹورنٹ میں جا کر کچھ کھاتے پیتے ہیں۔ تبھی لائٹیں آف ہو گئیں اور فلم چلنے لگی ، لیکن عبیرہ، حسیب کو باہر لے چلی۔ مجھے بھی کہا کہ تم بھی اٹھو ، ہم نے تمہارے لئے ہی تو فلم چھوڑی ہے۔ جانے پھر کب ملاقات ہو۔ وہ آگے آگے اور میں ان کے پیچھے پیچھے۔ حسیب کافی تیز چل رہے تھے۔ وہ پارکنگ سے گاڑی سڑک پر لائے تب تک ہم بھی وہاں پہنچ گئے۔ انہوں نے مڑ کر مجھے نہیں دیکھا۔ عبیرہ ان کے ساتھ اگلی نشست پر اور میں پچھلی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ گاڑی اسٹارٹ تھی۔ وہ ہمیں ایک عمدہ ہوٹل لے گئے اور وہاں کار رو کی ، تو عبیرہ نے کہا۔ جان من ! جانتے ہونا، مجھے ، پھول بہت پسند ہیں۔ وہ سامنے سڑک پار پھول والے کی دکان ہے میرے لئے موتیا کے گجرے لے آیئے پلیز ! تب تک ہم فیملی روم میں جا کر بیٹھتے ہیں۔ وہ کار سے اتر گئے اور سڑک پار کر کے پھولوں کے گجرے لینے چلے گئے۔ ہم دونوں فیملی کیبن میں آگئیں۔ ذرا دیر بعد وہ بھی آگئے۔ اپنے ہاتھوں سے گجرے عبیرہ کی کلائی میں ڈالے اور بولے۔ تمہاری سہیلی اتنی زیادہ پردہ نشین ہیں کہ فیملی روم میں بھی نقاب ڈالے بیٹھی ہیں۔ دراصل یہ اتنی خوبصورت ہیں کہ اگر نقاب اٹھادی، تو آ۔ تو آپ ان کے حسن کی تاب نہ لا سکیں گے۔ یہ کہہ کر وہ ہنسی۔ حسیب کا اشتیاق سوا ہو گیا ، بولے ۔ ؟ بھئی اب نقاب اٹھا بھی دیجئے۔ ہماری بیگم اتنی اچھی ہیں، یقینا ان کی سہیلی بھی اچھی ہی ہو گی۔ اب میری باری تھی۔ میں نے اسی وقت نقاب الٹ کر حسیب کی جانب دیکھا۔ رات کے تقریباً آٹھ بجنے کو تھے، کیبن میں مدھم روشنی اور ٹیبل پر شمع کی روشنی میں بھی میں نے ان کے چہرے پر بہتے پسینے کو دیکھ لیا۔ مجھے لگا کہ وہ مٹی کے بنے ہیں، ابھی گر پڑیں گے۔ اس وقت تو یوں چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ کر ان کے ساتھ گھر آگئی مگر اس کے بعد کیا ہوا، لکھنا نہیں چاہتی۔ یہ پوری ایک الگ کہانی ہے۔ سونے کا ہار تو میں شرط میں ہار گئی مگر اپنے یقین کے ہارنے کا دکھ ، ہار کے ہارنے سے کہیں زیادہ تھا۔ کئی دن ہم میاں بیوی میں جدائی رہی، بچے الگ پریشان ہوئے ، ان کا سکون چھنا۔ بالآخر میرے بڑے بھائی اور والد کی کوششوں سے ہماری صلح ہو گئی جیسے ہرعورت کہتی ہے بس بچوں کی خاطر صلح کر لی ورنہ۔ اس ”ورنہ“ کی بدولت میں سمجھتی ہوں کہ ہزاروں گھر ٹوٹنے سے بچ جاتے ہیں اور آج بھی آباد ہیں کیونکہ بچے، میاں بیوی کے درمیان ایسی مضبوط کڑی ہوتے ہیں کہ یہ گھر کو بکھرنے نہیں دیتے۔