Tuesday, October 15, 2024

Bachpan Ki Muhabbat

خیام اتنا خوبصورت تھا کہ جو اسے دیکھتا ، بس دیکھتا رہ جاتا تھا۔ وہ مجھ سے عمر میں پانچ برس چھوٹا تھا۔ پھر بھی میرے دل میں بس گیا تھا۔ جانتی تھی کہ عمروں کے اس فرق کے سبب ہماری شادی نہیں ہو سکتی، خاص طور پر ہماری چچی اسے ماننے والی نہ تھیں۔ خدا کی کرنی کہ چچی کا انتقال ہو گیا، حالانکہ ان کی صحت اچھی تھی، ، معمولی سا بخار ہوا اور وہ چٹ پٹ ہو گئیں۔ ان کے اچانک انتقال پر سبھی افسردہ تھے۔ کسی کو یقین نہ آتا تھا اتنی صحت مند عورت یوں پلک جھپکتے میں دنیا چھوڑ جائے گی۔ چاچا کا اور ہمارا مکان جڑا ہوا تھا۔ بیوی کے وفات کے بعد ان کو سنبھالنے والا کوئی نہ رہا۔ خیام ان دنوں میٹرک میں تھا، اس کی بھی تعلیم متاثر ہوئی۔ چچا ریٹائرڈ ٹیچر تھے، محض پنشن سے روکھی سوکھی پر گزارا تھا۔ ان کی استطاعت نہ تھی کہ ملازمہ رکھتے، لہٰذا کبھی میں اور کبھی میری امی جان ان کے گھر کا کام کر آتے۔ میں ان کے میلے کپڑے بھی اٹھا لاتی اور اپنے گھر میں دھو کر دے آتی۔ کھانا بھی ہم ماں بیٹی کو پکانا ہوتا تھا۔ میں یہ سارے کام خوشی سے کرتی کہ مجھے چچا اور خیام سے پیار تھا۔ ابا اور چچا میں بھی بڑی محبت تھی۔ ایک روز دونوں نے مشورہ کیا کہ میری شادی خیام کے ساتھ کر دینا چاہیے۔ گرچہ عمروں میں کافی فرق تھا لیکن میری تو لاٹری نکل آئی تھی۔ خیام کی دلہن بننا میرا بچپن سے خواب تھا اور اب اس کی تعبیر سامنے تھی۔

امی نے ابا جان کو سمجھایا کہ بہار بڑی ہے جبکہ خیام چھوٹا ہے۔ ابھی یہ فرق معلوم نہ ہوگا، لیکن آگے جا کر مسئلہ بنے گا عورت مرد سے جلد بوڑھی لگنے لگتی ہے۔ میرے خیال میں تو یہ رشتہ نامناسب ہے ، خیام کو بھی شاید اس پر اعتراض ہو گا۔ میں خیام کو جانتا ہوں ، وہ ایک فرمانبردار لڑکا ہے۔ اس کو اپنے والد کے فیصلے پر ہرگز اعتراض نہ ہو گا اور پانچ سال کا فرق کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ خیام ہمارا خون ہے ، اس سے بے وفائی کا اندیشہ عبث ہے۔ وہ شریفوں کی اولاد ہے ۔ ہماری لڑکی سے شادی ہوئی تو آخری دم تک اس رشتے کو نباہے گا، تم فکر مت کرو۔ والدہ کا کیا بس چلتا، یہ مردوں کے فیصلے تھے۔ وہ بے چاری چپ سادھ گئیں، مگر میں بہت خوش تھی۔ خیام کے بارے نہیں معلوم وہ خوش تھا یا افسردہ، اس نے اپنے والد کے فیصلے پر اعتراض نہیں کیا حالانکہ میں نہ صرف اس سے عمر میں بڑی تھی، بلکہ عام سی شکل وصورت کی اور صرف مڈل پاس تھی۔ آٹھویں کے بعد امی نے مجھے سلائی سینٹر میں داخل کرا دیا تھا، جہاں میں نے دو سال کا ڈپلوما کیا تھا۔ منگنی کے وقت جب ابا اور چچا نے خیام سے پوچھا کہ بیٹے تم کو اس رشتے پر کوئی اعتراض تو نہیں؟ اس نے جواب دیا۔ مجھے آپ کے کسی فیصلے پر اعتراض نہیں، میں منگنی پر راضی ہوں لیکن شادی ابھی نہیں کرنا چاہتا۔ پہلے تعلیم مکمل کر لوں پھر شادی ہو۔ چچانے کہا کہ نہیں تم پہلے شادی کر لو ، کیونکہ گھر کو سنبھالنے والی کی اشد ضرورت ہے ، بعد میں پڑھتے رہنا۔ تمہاری پڑھائی پر تو کوئی بندش نہیں ہے ، مگر میرے مالی حالات اب اس بات کا تقاضہ کرنے لگے ہیں کہ تم کوئی ملازمت کر لو، تا کہ شادی کے بعد اخراجات بخوبی پورے کر سکو۔ اس پر میرے والد نے کہا کہ خیام صحیح کہتا ہے۔ شادی کے بعد ا گر بال بچوں کی ذمہ داریاں آپڑیں تو یہ پڑھائی نہ کر سکے گا۔ بہتر ہے کہ پہلے پڑھائی مکمل کرلے۔ رہی آپ کے گھر سنبھالنے کی ذمہ داری، وہ میری بیوی اور بیٹی اب بھی سنبھال رہی ہیں، آگے بھی سنبھال لیں گی۔ بھائی صاحب میں کالج کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ میری آمدنی کا ذریعہ بس میری پنشن ہے جو ایک قلیل سی رقم ہے۔ اس میں اب بھی بمشکل گزارہ ہو رہا ہے۔ تعلیمی اخراجات کیسے پورے ہوں گے جبکہ کالج بھی قریب میں نہیں ہے۔ یہ اخراجات میں پورے کروں گا، تم اس کی فکر مت کرو۔ خیام کو پڑھنے کا شوق ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ میٹرک پاس کو ملازمت ملی بھی تو کتنی تنخواہ ملے گی۔ یہ کبھی ترقی نہ کر سکے گا۔ اسے کم از کم گریجویشن کر لینے دو۔

غرض والد نے چچا کو قائل کر کے خیام کے تعلیمی اخراجات کا ذمہ خود اٹھالیا۔ امی البتہ کچھ پریشان نظر آئیں کیونکہ والد معمولی تنخواہ دار تھے اور ایک پرائیوٹ کمپنی میں ملازمت تھی۔ والد کی تنخواہ میں ہماری گزر بسر مشکل سے ہوتی تھی اور ابا نے نہ صرف بھتیجے کے تعلیمی اخراجات کا ذمہ اٹھالیا بلکہ مجھے بھی دوبارہ اسکول میں داخل کرادیا تا کہ میٹرک کر سکوں۔ والد اب کمپنی میں اور ٹائم کرتے تھے۔ انہوں نے خیام کو نزدیکی شہر کے کالج میں داخل کرادیا۔ بلاشبہ اسے حقیقی معنوں میں پڑھنے کا شوق تھا اور وہ ہر امتحان میں اچھے نمبر لاتا تھا، ایف ایس سی میں تو اس نے کمال ہی کر دیا۔ اپنی کلاس میں ٹاپ کیا۔ اب اس کے دل میں ڈاکٹر بننے کا شوق جاگا۔ اس آرزو کا اظہار اس نے ابا جان سے کیا تو والد صاحب نے اس کا ساتھ دینے کی ہامی بھر لی اور اسے میڈیکل کالج میں داخلہ دلوایا۔ والد صاحب نے ایک پلاٹ خریدا تھا کہ کبھی اس پر بڑا سا گھر بنوائیں گے۔ اس وقت یہ پلاٹ ویران جگہ تھا بعد میں آبادی ہو گئی۔ آبادی بڑھی تو پلاٹ کی قیمت بھی بڑھی۔ اباجان نے اسے بیچ دیا۔ ایک کنال کے پلاٹ کی بہت اچھی قیمت مل گئی۔ یہ روپیہ انہوں نے آدھا اپنے نام اور آدھا خیام کے نام بینک میں ڈال دیا تا کہ اس کے تعلیمی اخراجات میں رکاوٹ نہ آئے۔ ہر ماہ وہ باقاعدگی سے فیس بھی ادا کرتا رہے اور دوسرے تعلیمی اخراجات بھی پورے ہوتے رہیں۔ میں بھی ہر ممکن کوشش کرتی تھی کہ کچھ پیسے جوڑ لوں۔ جہاں سے سلائی کا ڈپلوما لیا تھا، وہاں انہی دنوں ایک ٹیچر کی شادی ہوئی،اس نے اسکول چھوڑ دیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ سلائی سینٹر میں جگہ خالی ہے اور ٹیچر کی ضرورت ہے تم قسمت آزمائی کرو۔ میں سینٹر گئی، ہیڈ مسٹریس اور تمام اسٹاف مجھے جانتا تھا۔ ان کو علم تھا کہ میں کتنی اچھی سلائی کڑھائی کرتی ہوں۔ انہوں نے تبھی فوراً جاب دے دی، اس طرح میری تنخواہ سے گھر کی آمدنی میں اضافہ ہوا تو خیام کے لئے میں کچھ رقم جوڑ پاتی تھی۔ میں نے خیام کی خاطر نوکری کی تھی ، تاکہ اسے کسی طرح کی بھی مالی تنگی محسوس نہ ہو۔ میڈیکل کی تعلیم کے اخراجات کافی زیادہ تھے پھر وہ اچھے لباس میں جاتا تا کہ اس کی پوزیشن بنی رہے اور کوئی اسے غریب نہ سمجھے۔ یوں ہم سب گھر والوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر اور پائی پائی جوڑ کر اس کی تعلیم کا خرچہ نکالا۔

خیام اب اور زیادہ خوبصورت ہو گیا تھا لیکن اسے اپنی خوبصورتی کا احساس نہ تھا۔ وہ تو بس پڑھائی میں مگن رہتا تھا، جبکہ مجھے اپنی دبتی صورت کا احساس تھا۔ سوچتی تھی، کیا خبر کبھی اس بات پر میرا منگیتر مجھ سے دور ہو جائے۔ میڈیکل کالج میں تو اس کے ساتھ بہت خوبصورت لڑکیاں پڑھتی تھیں اور امیر گھروں سے بھی تھیں، میں ان کا مقابلہ نہ کر سکتی تھی۔ جن کو صرف اپنی پڑھائی سے لگن ہو اور اپنے اچھے مقصد پر دھیان رکھتے ہوں، ان کو پھر کوئی نہیں لبھاتی اور نہ ظاہری حسن کی کشش پر وہ اپنا وقت برباد کرتے ہیں۔ صد شکر کہ خیام ایسے نوجوانوں میں سے تھا، جسے احساس تھا کہ اس کے تایا کس قدر نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی اسے تعلیم دلوا رہے ہیں۔ پس اس نے دوسری سب باتوں کی پروانہ کرتے ہوئے صرف اپنے مقصد پر نظر رکھی کہ اسے ایک کامیاب ڈاکٹر بننا ہے۔ غربت اور اس کے عذابوں سے نکلنے کے لئے بس یہی ایک راستہ تھا، جس پر چلنے کی اس نے دیانت داری سے قسم کھا رکھی تھی۔ محنت رنگ لاتی ہے۔ محنت سے ہی انسان کامیابی کا زینہ طے کر کے اپنے مقاصد کی بلندیوں پر پہنچتا ہے۔ خیام کی محنت اور ہماری قربانی رنگ لائی۔ وہ دن آگیا جب وہ ڈاکٹر بن گیا۔ شہر میں ہی اس نے ہاؤس جاب مکمل کی تھی، پھر وہاں پریکٹس کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ چچانے اس صورت میں اسے شہر پریکٹس کرنے کی اجازت دی کہ وہ شادی کر کے اپنی دلہن کو ساتھ شہر جائے گا۔ اس نے یہ بات مان لی اور ہماری شادی ہو گئی۔ میرے خواب کو بھی تعبیر مل گئی اوراس کے خواب بھی پورے ہونے لگے۔ شہر میں خیام نے کرایے کا گھر لیا۔ اس میں بھی میرے والد نے اس کی مدد کی اور میں اپنے شریک زندگی کے ہمراہ پہلی بار شہر آکر رہنے لگی۔ ہم دونوں کے پاس نئی زندگی شروع کرنے کے لئے کوئی خاص جمع پونجی نہ تھی۔ جو گھر ہم نے یہاں لیا تھا، اس کا کرایہ بھی والد صاحب دیتے تھے۔ شہر میں ، میں نے اپنا سلائی کڑھائی والا ہنر جاری رکھا اور اچھے پیسے کما لیتی تھی۔ ہر طرح خیام کا ساتھ دیا۔ کبھی ان کے آگے تنگی کا رونا نہ رویا۔ سال بعد اللہ تعالی نے ہمیں ایک بیٹے سے نوازا اور وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے حالات بہتر ہوتے گئے۔حالات بہتر ہوئے تو خیام اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن چلے گئے۔ اس دوران میں اپنی والدہ کے پاس رہی۔ شوہر کے جانے کے تین ماہ بعد میرے دوسرے بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ وقت بہر حال گزر جاتا ہے، یہ وقت بھی گزر گیا۔ جب وہ اسپیشلسٹ بن کر آئے تو اچھے دنوں کی امید بر آئی، لیکن ان کے آنے کے بعد میں اپنے شوہر کو جوان اور خود کو بوڑھی تصور کرنے لگی۔ وقت کی گردش کا ان پر کچھ اثر نہ لگتا تھا یا شاید میں اتنے سال خود سے بے خبر رہی تھی۔ میرے شوہر خوبصورت تو تھے ہی، باہر رہ کر آئے تو مزید خوبصورت ہو گئے۔ مجھے اپنے شوہر سے بہت محبت تھی، وہ بھی میری محبت کا دم بھرتے تھے، مگر جانے کیوں مجھے اب اپنی بدصورتی کا کمپلکس ہو گیا تھا۔ اپنی اسی پریشانی اور احساس کمتری سے جو لوگوں کی باتوں سے ہوا، بیمار رہنے لگی۔ خیام میری بیماری سے پریشان ہو گئے۔ وہ میرا بہت خیال رکھتے تھے۔ علاج معالجہ میں بھی غفلت نہ کی۔ وہ مجھے تندرست دیکھنا چاہتے تھے۔ پارٹیوں میں لے جانا چاہتے تھے مگر میں ہر بار بہانہ بنا دیتی، یوں انہیں اکیلے جانا پڑتا۔ بیمار رہنے کے باوجود کبھی گھر ، شوہر اور بچوں سے غافل نہ ہوئی۔ وقت پر ہر کام کرتی ، خیام اور بچوں کو مجھ سے کوئی شکایت نہ تھی۔

خیام کو تو میں روز اس طرح تیار کر کے بھیجتی تھی، جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو اسکول بھیجتی ہو۔ اس بات کا مذاق بھی بنتا لیکن میں نے کبھی ان باتوں کی پروانہ کی۔ لوگ میرے خاوند کی شاندار شخصیت کی بہت تعریف کرتے تو وہ جواب میں صرف یہی کہتے کہ یہ سب میری بیوی کی محبت ہے۔ اگر وہ میرا اتنا خیال نہ کرے تو میں خود اپنا اتنا خیال نہ کروں۔ وہ ہر چیز میری پسند کی لیتے۔ لباس بھی میں ہی ان کے لئے پسند کرتی۔ ہماری زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی۔ جانے ہمارے گھر کو کس کی نظر لگ گئی۔ مجھے اپنے شوہر پر خود سے زیادہ اعتماد تھا، مطمئن تھی کہ وہ جو اتنا عرصہ مجھ سے دور رہے ہیں اور کسی کے نہ ہوئے ، اب بھلا پاس ہوتے ہوئے کسی کے کیونکر ہو سکتے ہیں۔ وہ روز مجھے اپنےمریضوں کے قصے سناتے کہ فلاں مریض آیا۔ ہم دونوں معمولی معمولی بات بھی آپس میں کرتے۔ نئے گھر میں شفٹ ہوئے، ہمیں چار سال کا عرصہ گزر گیا۔ ایک دن ایک گمنام لڑکی کا فون آیا، وہ خیام سے بات کرنا چاہتی تھی۔ میں نے بہت پوچھا مگر اس نے اپنا نام نہ بتایا بلکہ فون رکھ دیا، پھر اس لڑکی کا روز فون آنے لگا۔ میں اٹھاتی تو وہ بند کر دیتی اور اگر خیام گھر پر پر ہوتے وہ فون اٹھاتے تب وہ ان سے بات کرنے کی کوشش کرتی، وہ اسے ٹالتے مگر لڑکی بار بار فون کرتی۔ اس نام فوزیہ تھا، جو ان کے زیرعلاج رہی تھی اور ان پر بری طرح فریفتہ ہو گئی۔ پڑھی لکھی خوشحال خاندان سے تھی اور خیام سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ جب بھی اس کا فون آتا، میرے شوہر اس کو بہت سمجھاتے۔ انہوں نے میرے سامنے اس لڑکی سے یہ بھی کہا کہ اگر تم نے فون کرنا بند نہ کیا تو میں تمہارے والدین سے شکایت کر دوں گا مگر وہ ڈھٹائی سے یہی کہتی تھی۔ مجھے دل پر اختیار نہیں ہے کیا کروں۔ جب میں بیمار تھی، کاش آپ نے میرا اعلاج کرنے کی بجائے مجھے مر جانے دیا ہوتا۔ اب آپ کے بغیر جینا میرے لئے مر جانے کے برابر ہو گیا ہے یا تو مجھ سے شادی کر لو یا پھر میں خود کشی کرلوں گی۔ یہ تو سمجھ رہے تھے یہ نادان جذباتی لڑکی ایسے ہی خود کشی کا کہ رہی ہے لیکن اس نے جو کہا وہ کر دکھا دیا۔ قصہ یوں ہوا کہ بہت منع کرنے پر بھی وہ روز رات کو فون کرتی، میرے شوہر میرے سامنے اس سے بات کرتے ، اس کو بھی ڈانٹتے بھی پیار سے سمجھاتے۔ فون نہ اٹھاتے تو ان کے کلینک پہنچ جاتی اور مریضوں کی قطار میں بیٹھ جاتی۔ خیام اس صورت حال سے پریشان ہو گئے۔ مجھ سے کہا۔ دیکھو بہار ! تم اس بات کا اثر نہ لینا اور نہ مجھے غلط سمجھنا۔ میرا اس کے ساتھ کچھ معاملہ نہیں ہے ،۔ یہ بیس برس کی ہے، لیکن میری عمر کے سامنے تو بچی ہی ہے۔ خود ہی تھوڑے دنوں بعد مایوس ہو جائے گی تو پیچھے ہٹ جائے گی۔ میں نے بھی اپنے شوہر کی عمر اور حالات دیکھے کہ بچے بھی جوان ہو رہے ہیں۔ اب اس عمر میں بھلا یہ کیا ایسی حرکت کر سکتے ہیں۔ میں تو یہ سوچ کر شرمندگی محسوس کرتی تھی کہ اپنے اتنے چاہنے والے شوہر کے متعلق یہ بات سوچی ہی کیوں ؟ انہی دنوں ابا جان بیمار ہو کر وفات پاگئے۔ اب امی اکیلی رہ گئیں تو میں زیادہ ان کی طرف جانے لگی۔ ان کی دلجوئی لازمی تھی۔ سوچا، عدت گزارلیں تو ان کو اپنے گھر لے آؤں گی۔ ادھر چچا کی طبیعت بھی ناساز رہنے لگی تھی مگر وہ گاؤں چھوڑ کر شہر نہیں آنا چاہتے تھے لہٰذا جب امی کی طرف جاتی تو ان کے پاس بھی ایک دو دن رہ جاتی۔

ایک دن ایک گمنام شخص نے مجھے فون کیا کہ ڈاکٹر صاحب نے دوسری شادی کر لی ہے۔ میں نے خبر پر دھیان نہ دیا مگر دل میں وہم نے ضرور جگہ کر لی۔ ایک دن محسوس کیا کہ بہت پریشان ہیں۔ پوچھا کہ کیا پریشانی ہے؟ اتنا بتایا کہ ایک مریض کی حالت خراب ہے ، اس وجہ سے تھوڑی سی پریشانی محسوس ہو رہی ہے۔ ہم ڈاکٹر بھی انسان ہیں، مگر تم پریشان نہ ہو۔ یہ تو معمول کی بات ہے۔ میری پریشانی تو وہ لڑکی فوزیہ تھی جس کے اب فون آنے بند ہو گئے تھے۔ میں سمجھی کہ ڈاکٹر صاحب نے صحیح کہا تھا۔ وہ مایوس ہو گئی ہے لیکن جب فون پر کسی نے خیام کی دوسری شادی کی اطلاع دی تو مجھے کرید لگ گئی۔ کبھی کہتی دفعہ کرو اس معاملے کو شاید اسی لڑکی نے مجھے پریشان کرنے کے لئے فون کروایا ہو اور کبھی دل سے آواز آتی پتا تو کرو۔ ایک دن ڈاکٹر صاحب ٹی وی لاونج میں فون کے پاس چپ چپ بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا۔ کیا ہوا خیام ! بولے۔ کچھ نہیں، کسی مریض سے متعلق سوچ رہا ہوں۔ میں نے مذاق میں کہا۔ دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں تو کر لیں۔ آپ خوبصورت ہیں اور مجھ سے چھوٹے بھی۔ ابھی جو ان لگتے ہیں جبکہ میں اکثر بیمار رہتی ہوں۔ انہوں نے جواب میں کہا۔ تمہارے ہوتے ہوئے مجھے دوسری شادی کی ضرورت نہیں۔ مجھے تو بس تمہاری ضرورت ہے۔ تمہارے سوا میں کسی سے محبت نہیں کر سکتا۔ یوں میں ان کی محبت میں سر شار اپنے ارد گرد سے بے خبر رہتی تھی۔ اگر ہمارے جاننے والے مجھے باخبر نہ کرتے۔ میرے ایک کزن نے بتایا کہ آج کل ڈاکٹر صاحب ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ دیکھے جارہے ہیں۔ سمجھ گئی، ہو نہ ہو یہ وہی فون والی فوزیہ ہی ہے ، شاید اس نے میرے سرتاج کو رام کر لیا ہے۔ میں نے اپنے شوہر سے بات کی تو انہوں نے پھر مجھے وہی جھوٹی تسلی دی کہ تمہیں کوئی بہکا رہا ہے۔ میں نے جو کام جوانی میں نہ کئے کیا اب بڑھاپے میں کرتا اچھا لگوں گا۔ اس تسلی سے ڈھارس ملی۔ مجھے اپنے بچوں کے لئے باپ کی شفقت اور سایہ چاہیے تھا۔ اپنے شوہر پر اعتماد کیا اور اس بات کو بھولنے کی کوشش کرنے لگی مگر تقدیر کو شاید کچھ اور منظور تھا۔ ایک دن کوئی فون آیا۔ میرے شوہر آہستہ سے کسی سے کہہ رہے تھے کہ ابھی شادی کو راز میں رکھنا ہے۔ تم میرے گھر آنے کی غلطی مت کرنا۔ یاد رکھو، میراگھر خراب ہوا تو میں تم کو طلاق دے دوں گا۔ ان کے منہ سے یہ الفاظ سن کر بے ہوش ہو گئی۔ اتنا صدمہ ہوا جیسے میں مر ہی گئی ہوں۔ میں جو اعتبار میں ماری گئی کہ اتنا چاہنے والا شوہر کیسے بدل سکتا ہے ، وہ بدل گیا تھا۔ انہوں نے اقرار کر لیا کہ اس سے غلطی ہوئی۔ فوزیہ سے دوسری شادی کی ہے مگر اپنی خاطر ، اپنی خواہش اور خوشی سے نہیں بلکہ اس کی خاطر ۔ بتایا کہ میں نے اس کو بے رخی سے ٹھکرایا تو اس جنونی لڑکی نے زہریلی گولیاں کھا کر جان دینے کی کوشش کی۔ اسے میرے ہی کلینک لایا گیا کیونکہ اس کے گھر سے یہی کلینک قریب تھا۔ اس کی حالت غیر تھی اور بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ میں ہی اسے اسپتال لے گیا تھا۔ ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد بھ بھی اس کی حالت نہ سنبھلی تھی۔ وہ جان کنی کی کیفیت سے گزر رہی تھی، اس وقت میرے دل پر ایسا اثر ہوا کہ اللہ سے دعا کی کہ اس کی زندگی بچالے تو میں اس لڑکی کی خوشی کے لئے اس سے نکاح کرلوں گا۔ دعا قبول ہو گئی اور میری مرئضہ کی جان بچ گئی لیکن اللہ سے کیا وعدہ مجھے نباہنا ہی تھا۔ مجھے ڈر تھا اگر اب بھی میں نے اس کا ہاتھ نہ تھا ماتو یہ دوبارہ خود کشی کی طرف نہ چلی جائے۔ وہ بے حد ڈپریشن میں تھی، لہٰذا میں نے مجبور فوزیہ سے نکاح کیا، اس شرط پر کہ وہ کبھی تمہارے سامنے آئے گی، نہ تمہارے گھر میں قدم رکھے گی اور نہ اس شادی کو افشا کرے گی۔ یہ کہتے ہوئے وہ رورہے تھے اور ہاتھ جوڑ کر مجھ سے اپنی خطا کی معافی بھی مانگ رہے تھے۔

میرا دل عورت کا دل تھا، جو ان سے بچپن سے والہانہ محبت کرتا آیا تھا۔ آج کیسے میں ان سے منہ موڑ سکتی تھی۔ میں نے سوچا کہ اگر یہ غلطی بھی ہے تو انہوں نے کسی کمزور لمحے کی وجہ سے کی ہے۔ ان کا دل نرم پڑ گیا ہو گا اور فوزیہ کی تکلیف دیکھی نہ گئی ہو گی۔ مجھے اپنے شوہر سے پہلے بھی پیار تھا آج بھی پیار تھا۔ میں اپنے سامنے ان کی گردن کو جھکا ہوا نہ دیکھ سکتی تھی۔ ان کو اجازت دے دی کہ چاہیں تو بے شک اپنی دوسری بیوی کے پاس جا کر رہیں مگر فوزیہ کا میرے گھر سے مجھ سے یا میرے بچوں سے کوئی تعلق نہ ہو گا۔ ان کو یہ بات منظور نہ تھی۔ وہ تو ایک دن بھی اپنے بچوں سے دور نہ رہ سکتے تھے ، حتیٰ ایک رات بھی باہر نہ گزاری۔ ان کے معمول میں ذرہ برابر بھی فرق نہ پڑا تھا کہ مجھے شک ہوتا۔ شوہر کے اس اقرار بے وفائی سے میری طبیعت مزید خراب رہنے لگی۔ ان کی دوسری بیوی کو بھی میری طبیعت کی خرابی کا علم تھا۔ ایک دن اس نے مجھے فون کیا اور کہا کہ آپ مجھے معاف کر دیں۔ آپ بیمار رہتی ہیں، میں آپ کی خدمت کروں گی، مجھے گھر آنے دیں۔ میں اپنا حق لینا چاہتی ہوں کہ میں بھی خیام کی منکوحہ ہوں۔ آخر کب تک اس راز کو چھپاؤں گی اور دنیا سے چھپ چھپ کر ازدواجی زندگی گزاروں گی۔ خیام صاحب آپ کی خاطر اس کو راز رکھنا چاہتے ہیں حالانکہ راز تو کھل چکا ہے۔ ان کے کلینک پر کام کرنے والے ایک ور کرنے یہ راز اکثر لوگوں پر کھول دیا ہے۔ گویا فوزیہ اب مجھ سے اپنے حق کا مطالبہ کر رہی تھی۔ اس نے ہر طرف اپنی شادی کا چرچا بھی کر دیا تھا۔ جس نے سنا، اس کو برا بھلا کہا۔ ماں اس کی مر چکی تھی، باپ نے خیام سے خفیہ شادی کرنے کی خطا پر اس سے تعلق توڑ لیا تھا۔ جو بھی سنتا افسوس کرتا کہ ڈاکٹر صاحب کو ہر گزایسا نہ کرنا چاہیے تھا۔ وہ تو بہت شریف آدمی تھے۔ اپنے بیوی بچوں کا بھی خیال نہ کیا۔ خاندان بھر میں بھی ان کی خوب رسوائی ہوئی۔ ادھر جب چچا کو خبر ہوئی ، وہ صدمے سے اور بیمار پڑ گئے۔ تبھی ان کی شادی شدہ بیٹی ان کے پاس رہنے لگی۔ وہ گھر اور بچے لاہور میں شوہر اور سسرال کے پاس چھوڑ کر گاؤں آگئی تھی، یہ امر مجبوری اپنے بیمار باپ کی دیکھ بھال کی خاطر جبکہ یہ فرئضہ مجھے ادا کر نا تھا، مگر میں تو سوتن کے غم میں نیم جان تھی۔ یہاں تک بھی بات قابو میں تھی لیکن ایک روز خود سر فوزیہ ہمارے گھر آ پہنچی، جبکہ خیام اس وقت اپنے کلینک گئے ہوئے تھے۔ اس کے آنے سے میری طبیعت اور بگڑ گئی۔ میرے بیٹے نے باپ کو فون کر کے بتایا کہ فوزیہ آئی ہے اور امی کی طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے۔ آپ جلدی سے گھر آجائیے۔ وہ اسی وقت گھر آگئے۔ انہوں نے فوزیہ سے کہا۔ جب میں نے تم کو یہاں آنے سے منع کیا تھا پھر تم کیوں آگئی ہو ؟ ابھی کے ابھی چلی جاؤ۔ وہ نہ مانی، کہنے لگی۔ میں کیوں جاؤں؟ یہ اس کا گھر ہے تو میرا بھی ہے۔ ہم دونوں برابر کی حق دار ہیں۔ آپ نے مجھ سے نکاح کیا ہے ، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے یہ۔ جب خیام کو اس پر غصہ کرتے دیکھا تو میں نے کہا۔ خیام تمہارا غصہ بے جا ہے۔ تم اس لڑکی سے نکاح کر چکے ہو تو اب یہ تمہاری بیوی ہے۔ یہ ٹھیک کہہ رہی ہے ، شادی کو خفیہ نہیں رکھا جاتا اور اس گھر پر اس کا بھی حق ہے۔

وہ بولے کہ اس نے وعدہ خلافی کی ہے۔ میں اس کو ہرگز نہیں رکھوں گا۔ اپنے گھر سے تو کیا اپنی زندگی سے ہی نکال دیتا ہوں۔ یہ قابل اعتبار نہیں ہے۔ اس نے مجھ سے جن شرائط پر شادی کی، جو وعدے کئے ، وفا نہیں کر سکی۔ میں نے اس لئے اس سے نکاح کیا، اس کی خاطر قربانی دی اور یہ میرے بچوں کا سکون برباد کرنے چلی ہے۔ یہ میرے لئے رسوائی کا باعث بن گئی ہے۔ میرے سب جاننے والوں کو فون کروا دیئے کہ میں نے اس سے نکاح کیا ہے حتیٰ کہ ابا جان کو بھی، جو پہلے سے بیمار تھے اب اور زیادہ بیمار پڑ گئے ہیں اور میں شرم سے ان کا سامنا نہیں کر پا رہا۔ وہ غصے میں بولے جارہے تھے۔ میں نے کسی طرح ان کو سمجھا بجھا کر روکا، ورنہ وہ فوزیہ کو دھکے دے کر گھر سے نکالنے پر آمادہ تھے۔ بہرحال شام تک وہ ہمارے ٹی وی لاونج میں بیٹھی روتی رہی اور خیام صاحب کلینک چلے گئے ۔ وہ اس رات گھر نہیں آئے تب صبح کو وہ خود ہی ہمارے گھر سے چلی گئی۔ کچھ دنوں بعد مجھے کسی نے بتایا کہ دونوں میں طلاق ہو گئی ہے، کس طرح … یہ مجھے آج تک معلوم نہ ہو سکا کہ خیام نے اسے طلاق دی یا خود اس نے لے لی، لیکن میرے شوہر کا کہنا تھا کہ میں نے طلاق نہیں دی، اس نے خود لی ہے۔ اس نے تمہارے ساتھ رہنے کی ضد کی اور میرے نہ ماننے پر طلاق مانگ لی، یوں یہ قصہ تمام ہوا۔

Latest Posts

Related POSTS