یہ بہت پرانی بات ہے، مگر لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ ان دنوں ہم دہلی میں جامع مسجد کے پاس رہا کرتے تھے۔ پاکستان بننے سے پہلے کا زمانہ تھا۔ جن دنوں یہ واقعہ ہوا، میری عمر صرف چار برس تھی۔ یادوں کی بارات جب ذہن کی گلیوں سے گزرتی ہے، تو دل عجیب سا ہو جاتا ہے۔ بچپن کا دور بھی کتنا سہانا تھا۔ ان دنوں کی ایک ایک بات ایسے نقش ذہن میں ہے کہ بھلائے نہیں بھولتی۔ ایک دن ایک آدمی ہمارے گھر آیا۔ کہنے لگا کہ شیخ صاحب نے دفتر سے بھیجا ہے۔ انہوں نے گھی لینا ہے، گھر میں جو سب سے بڑا برتن ہو، وہ دے دو۔ میری والدہ نے سب سے بڑا دیگچہ (برتن) اسے دے دیا۔ جوں ہی وہ شخص ڈیوڑھی سے ہٹا، امی جان کو یہ خیال آیا کہ نجانے یہ کون ہو، بنا نام پتا پوچھے ہی میں نے یہ برتن دے دیا۔ والدہ نے مجھے کہا، تم ذرا دیکھ کر آنا یہ آدمی کس طرف گیا ہے۔ شام کا وقت تھا۔ میں نے گلی سے باہر کھلی سڑک پر کھڑی ہو کر دونوں طرف دیکھا۔ ایک طرف دور تک سیدھا راستہ تھا، دوسری طرف راستہ جامع مسجد کی طرف مڑ جاتا تھا۔ جس جانب دور تک راستہ نظر آرہا تھا، اس جانب وہ شخص کہیں نظر نہ آیا۔ میں نے سوچا، ضرور وہ آدمی دوسرے راستے سے مڑ گیا ہے۔ چنانچہ میں اسی طرف چل دی۔ بہت تیز بھاگتی، گلی کے کئی موڑ مڑتی ہوئی بہت کھلی جگہ جا پہنچی، جہاں سامنے جامع مسجد نظر آرہی تھی۔ دکانیں تمام بند ہو چکی تھیں۔ دوسری طرف ایک بہت بڑا پارک تھا۔ پارک کے ایک طرف چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں وہ نوجوان رہتا تھا، جو تھا تو لڑکا لیکن لڑکیوں کا سوانگ بھر کر خوشی کی تقریبات میں ناچ گا کر روزی روٹی کماتا تھا۔ بعد میں اسی لڑکے نے مجھے بچایا۔ ہوا یوں کہ جو اجنبی گھر سے ہمارا دیگچہ لے گیا تھا اور جس کی تلاش میں میں گھر سے اس قدر دور نکل آئی تھی، وہ مجھے یہاں نظر آ گیا۔ میں بے اختیار اسے آوازیں دیتی اس کے پاس جا پہنچی اور کہا، چاچا، تم کون ہو؟ نام تو بتاؤ ورنہ ہمارا برتن واپس کرو – اس نے سوچا کہ ضرور اس بچی کے پیچھے اس کے گھر کا کوئی بڑا آ رہا ہوگا، ورنہ یہ اس وقت اکیلی اتنی دور دیگچہ واپس مانگنے کیسے آ سکتی ہے۔ یہ سوچ کر وہ ڈر گیا اور اس نے وہ برتن وہیں رکھا اور خود بھاگ گیا۔ میں واپسی کا راستہ بھول گئی تھی اور رات بھی سر پر آ گئی تھی۔ میں پریشان کھڑی تھی کہ سامنے مجھے وہی نوٹنکی والا نوجوان اپنے چھوٹے سے جھونپڑی نما کمرے کے باہر نظر آیا۔ وہ مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑا حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ یہ بچی شام کے اندھیرے میں اکیلی یہاں کیا کر رہی ہے۔ شاید یہ رستہ بھول گئی ہے۔اس نے مجھ سے پوچھا، منی، کیا بات ہے؟ کیا تم اپنے گھر کا راستہ بھول گئی ہو؟ ہاں، میں نے کہا، میں اپنے برتن کے پیچھے یہاں تک آ گئی ہوں۔ ہمارا برتن لے جانے والا تو برتن یہاں چھوڑ کر بھاگ گیا ہے لیکن اب مجھے واپس جانے کا راستہ یاد نہیں۔کچھ پتہ تو بتاؤ، اس نے کہا۔ تب میں نے اسے بتایا،آپ نے کچھ دن پہلے جہاں ڈانس کیا تھا، اس گلی میں مجھے چھوڑ دو، وہاں ہی میرا گھر ہے۔ چنانچہ اس نے بڑا سا دیگچہ خود اٹھایا، میری انگلی پکڑی اور مجھے اس گھر کے سامنے لے آیا جہاں بچے کے عقیقے پر اس نے گانا گایا اور رقص کیا تھا۔یہ ہمارے ہی گھر کی تقریب تھی۔ یوں میں بخیریت اپنے گھر چلی گئی۔ اس دن میں گم ہونے سے بال بال بچی، اپنا اغوا شدہ دیگچہ بھی واپس لے آئی، لیکن گھر پر سب پریشان تھے۔ابا جی دفتر سے آتے ہی مجھے ڈھونڈنے نکل گئے تھے، اور امی پریشان بیٹھی پچھتا رہی تھیں کہ انہوں نے مجھے کیوں اس نامعلوم شخص کے پیچھے بھیجا۔ لیکن زمانہ اچھا تھا، لوگ ملنسار تھے، اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ اسی لیے میں بخیر و عافیت گھر پہنچ گئی۔
بعض اوقات ایک ہی پریشانی بار بار نصیب میں لکھی ہوتی ہے۔ اس روز تو میرے گھر والے پریشانی سے بچ گئے، مگر اگلے دن وہ پھر اسی پریشانی میں مبتلا ہو گئے۔ ہوا یوں کہ میں گلی میں اپنی ہم عمر بچیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ ان میں کچھ میری عمر کی تھیں اور کچھ مجھ سے ایک دو سال بڑی بھی تھیں۔ ان لڑکیوں میں سے ایک نے کہا، ہم اپنے ابا جان کے پاس جائیں گی جو چاندنی چوک میں دکان پر بیٹھتے ہیں۔ میرے ابا جی اس وقت گھر پر نہیں تھے۔ میں نے سوچا کہ یہ اپنے ابا جان کے پاس جا رہی ہیں تو میرے ابا جی بھی وہیں کام کرتے ہوں گے۔ یہ سوچ کر میں نے ان سے کہا کہ میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔ میں جیسے ان کے ساتھ کھیل رہی تھی، ویسے ہی بغیر بتائے ان لڑکیوں کے ساتھ باہر چلی گئی۔ چاندنی چوک بہت رش والی جگہ تھی، جہاں سنیما اور ہوٹل وغیرہ بھی تھے۔ اب وہ لڑکیاں تو اپنے والد کے پاس چلی گئیں، انہیں اپنی دکان کا پتہ تھا اور ان کے والد اپنے کام میں مصروف تھے، انہوں نے مجھے نہیں دیکھا۔ میں نے ان لڑکیوں سے کہا کہ اب میں اپنے ابا جی کے پاس جا رہی ہوں، جبکہ مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ میرے ابا جی کہاں ہوتے ہیں۔ برسات کا موسم تھا اور میرے جسم پر صرف ایک فراک تھی۔ جب میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئی، تو نڈھال ہو کر ایک جگہ کھڑی ہو گئی۔ میرا چہرہ سرخ تھا اور حالت ابتر تھی۔ آس پاس سے گزرنے والے لوگ پوچھنے لگے، یہ کس کی بچی ہے؟ میں ہر ایک سے کہتی، میرے ابا جی کہاں ہیں؟ کئی لوگوں نے کہا، ہمیں نہیں پتہ۔ اب کافی رات ہو گئی تو ایک آدمی نے پوچھا، تمہارا نام کیا ہے؟ میں نے اپنا نام بتا دیا۔ اس نے میرے ابا جی کا نام پوچھا، وہ بھی بتا دیا۔ اس نے پوچھا، گھر کہاں ہے؟ میں نے بتایا کہ جامع مسجد کے قریب ہے۔ اب وہ نیک آدمی مجھے کندھے پر بٹھا کر اتنی بڑی جامع مسجد کے چاروں طرف چکر کاٹتا اور مجھ سے پوچھتا، گھر کہاں ہے؟ مگر میرا ذہن کام نہیں کر رہا تھا۔ مجھے گھر کا محل وقوع یاد نہیں آ رہا تھا اور میں اس آدمی کی ذمہ داری بن گئی۔ اس وقت گم شدہ بچوں کو کُتوالی (تھانے) میں جمع کروایا جاتا تھا۔ اس شخص نے بھی مجھے کُتوالی میں چھوڑ دیا۔ وہاں اور بھی میرے جیسے کافی بچے تھے۔ ایک رات خیریت سے گزر گئی۔ دوسرے روز گھنگھور بادل گھر آئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے زبردست بارش شروع ہو گئی، خوب اولے بھی پڑے۔ کُتوالی والوں نے بچوں کو برتن دیے کہ اولے برتنوں میں جمع کریں۔ چنانچہ میں بھی باقی بچوں کے ساتھ برف کے اولے چننے میں لگ گئی اور ان بچوں میں ایسی گھل مل گئی کہ مجھے اپنے والدین بالکل یاد نہ آئے۔لیکن والدین کو کہاں چین تھا؟ جب سے میں کھوئی تھی، وہ مجھے ڈھونڈنے میں لگے ہوئے تھے۔ جب میں نہ ملی تو آخر انہوں نے اخباروں میں میری تصویر چھپوائی، ریڈیو پر بھی اعلان کروا دیا اور ڈھنڈورا بھی پٹوایا گیا۔ ہمارے تمام رشتہ دار دہلی میں جمع ہو گئے اور انہوں نے بھی تلاش شروع کر دی۔ اس طرح پانچ دن گزر گئے۔ سردی کافی بڑھ چکی تھی۔ میں تو یہاں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل کود کر سو جاتی، لیکن میرے والدین کا برا حال تھا۔ میری گمشدگی نے انہیں بےحال کر دیا تھا۔ رات کو والدہ چادر اتار کر پھینک دیتیں۔ گھر والے کچھ اوڑھنے کو دیتے تو کہتیں، نجانے میری شمیم کس حال میں ہے؟ اسے بھی سردی ستا رہی ہوگی، تو پھر میں کیسے چادر اوڑھ لوں؟ کھانا کھلاتے تو امی کے حلق سے نوالہ نہ اترتا کہ جانے میری بچی نے کچھ کھایا بھی ہوگا یا بھوکی ہوگی۔ یہ تھا حال ماں باپ کا میری جدائی میں، اور میں تھی کہ سب کچھ بھول بھال اپنے جیسے دوسرے گمشدہ بچوں کے جھرمٹ میں کھا پی کر، ہنس کھیل کر اور نگرانی کرنے والیوں سے مزے مزے کی کہانیاں سن کر سو جاتی تھی۔ اب امی ابو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ وہ نیم پاگل سے ہو چکے تھے۔ سب کہتے، کچھ اور دن لڑکی نہ ملی تو یہ دونوں سچ مچ پاگل ہو جائیں گے۔ میری ایک رشتے دار پھوپھی جو گونگی تھیں، جب وہ میرے جتنی بچی تھیں، وہ بھی ایک دن ایسے ہی گم ہو گئی تھیں۔ انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان کی ماں بھی نیم پاگل ہو گئی تھی۔
سب خاندان والے اس واقعے سے خوفزدہ تھے، خاص طور پر پھپھو کی گمشدگی کی وجہ سے، جو اب تک نہیں مل سکی تھیں۔ میری دادی جان کو کسی جوتشی (نجومی) کے بارے میں بتایا گیا، جو ستاروں کا علم جانتا تھا، فال نکالتا اور ہاتھ دیکھ کر مستقبل بتا دیتا تھا۔ دادی جان، امی کو لے کر اس نجومی کے پاس پہنچ گئیں۔ اس نے امی کا ہاتھ دیکھ کر کہا، جلد ہی خوشی ملنے والی ہے، لڑکی مغرب کی طرف ہے۔ اس نے ایک تعویذ بھی دیا اور کہا، اسے جتنا زیادہ وزن کے نیچے دباؤ گی، بچی جلد مل جائے گی۔ ہمارے گھر ایک آٹا پیسنے والی چکی تھی۔ میری والدہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے وہ تعویذ چکی کے نیچے دبا دیا۔ پھر دوسرے دن خبر ملی کہ مغرب کی طرف جو کُتوالی ہے، وہاں کھوئے ہوئے بچوں کو جمع کیا جاتا ہے، وہیں جا کر پتہ کریں۔ یہ ایک اتفاق تھا کہ نجومی نے بھی مغرب کی طرف اشارہ کیا تھا۔ بہر حال، سب وہاں گئے۔ وہاں کے لوگوں نے کہا، جب بچی خود پہچانے گی، تب ہی اسے واپس دیں گے۔ جو مجھے لینے آئے تھے، وہ رشتے میں میرے نانا تھے۔ کچھ عرصہ قبل میری والدہ نے بتایا تھا کہ یہ تمہارے نانا ہیں۔ مجھے ان کی شکل یاد رہ گئی تھی، چنانچہ جب میں نے انہیں دیکھا تو فوراً نانا! نانا! کہتی ہوئی ان کے پاس چلی گئی۔ جس عورت نے مجھے گود میں بھر کر نانا کے حوالے کیا، وہ گونگی تھی اور اس کے ماتھے پر ایک بڑا سا تل تھا، جسے عرفِ عام میں مکوڑی کہا جاتا ہے۔ نانا اس نوجوان لڑکی کو غور سے دیکھنے لگے۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ بھی نانا کو حیرت سے تک رہی تھی۔ دفعتاً اس نے مجھے گود سے اتارا اور نانا سے لپٹ گئی۔ پتا چلا کہ یہ ان کی کھوئی ہوئی گونگی بیٹی ہے، جو بیس سال پہلے گم ہو گئی تھی۔ یوں میری وجہ سے ان کی بچھڑی ہوئی بیٹی بھی مل گئی۔ اس کا نام بانو تھا۔ بانو اپنے والد کو پہچانتی تھی، لیکن نانا نے اس کے ماتھے کے نشان اور گونگی ہونے کی وجہ سے اپنی لختِ جگر کو پہچان لیا۔یوں ضروری کارروائی کے بعد ہم ایک نہیں، بلکہ دو گم شدہ لڑکیاں اپنے خاندان کو واپس مل گئیں۔ اسے قدرت کا کرشمہ ہی کہنا چاہیے۔ جب میں باہر آئی تو وہاں بہت ساری رشتے دار عورتیں کھڑی تھیں، جن میں میری والدہ بھی شامل تھیں۔ میں بھاگ کر اپنی والدہ سے جا لپٹی۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگیں کہ کچھ لینا ہے؟ کیونکہ وہاں بچوں کی چیزیں بک رہی تھیں۔ میں نے کہا، کچھ نہیں لینا، بس گھر چلیں۔ جب میں اپنی والدہ کے پاؤں سے لپٹ گئی تو سب خوشی سے رونے لگے۔ نانا اور ان کی گونگی بیٹی کے ملنے پر تو کُتوالی والے بھی خوشی سے رو پڑے۔ یہ ایک ناممکن امر تھا جو ہو گیا تھا، اور میرا ملنا بھی کم معجزہ نہیں تھا۔ ایک چھوٹی سی بچی کا پانچ دن بعد مل جانا اگر معجزہ نہیں تو اور کیا تھا۔
انہی دنوں پاکستان بن گیا اور یہ رشتے کے نانا بھی ہمارے ساتھ اپنی اس گونگی بیٹی بانو کو لے کر پاکستان آ گئے، اور ہم جڑانوالہ میں رہائش پذیر ہو گئے۔ ہم سب ایک ہی مکان میں رہتے تھے، یعنی نانا اور ہماری گونگی پھوپھی بانو بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ وہ جوان تھیں، ان کی شادی تو کرنی تھی۔ اسی دوران میرے نانا جی نے یہ منت مان لی کہ جو سب سے پہلے بانو کا رشتہ مانگے گا، وہی اس کا دولہا ہو گا، خواہ وہ کیسا بھی ہو اور کسی بھی ذات سے ہو۔ حالانکہ اس وقت غیر ذات میں شادی کرنا معیوب تصور کیا جاتا تھا۔ پھوپھی بڑی سگھڑ تھیں، سلائی بھی سیکھ چکی تھیں، بہت عقلمند تھیں۔ کھانا بنانا، سینا پرونا، ہر طرح کا سلیقہ تھا اور گھر کو صاف ستھرا رکھتی تھیں۔ لیکن گونگی ہونے کی وجہ سے رشتہ نہیں مل رہا تھا۔ اچانک خدا نے نانا جان کی دعا قبول کی اور جڑانوالہ میں ان کا ایک دوست ملا۔ نانا نے اس سے بات کی کہ میری بچی اس طرح کی ہے، اس کا نکاح کسی شریف شخص سے کرنا چاہتا ہوں۔ ان کے دوست نے کہا، ایسے شریف لوگ تو ہمارے ہمسائے میں رہتے ہیں۔ وہ باپ بیٹا ہیں، نہایت شریف اور دیندار۔ یہ باپ بیٹا نہایت شریف اور دین دار تھے۔ باپ بہت بوڑھا تھا اور بیٹا بھی خاصی عمر کا تھا، اور اس بیٹے کے بھی تین بیٹے تھے۔ ان کے گھر میں کوئی عورت نہ تھی، کیونکہ دونوں بہوئیں وفات پا چکی تھیں۔ اب صورت حال یہ تھی کہ دادا کھانا پکاتا تھا، بیٹا کام کرتا تھا، اور پوتے گھر میں ہوتے تھے، جن کی پرورش باپ اور دادا خود کرتے تھے۔ نانا جی کے دوست نے اپنے ہمسائیوں سے بات کی۔ میرے ابا جی نے ان سے کہا کہ لڑکی گونگی اور بہری ہے، خوبصورت بھی نہیں، رنگ سیاہ ہے اور ماتھا چپٹا، اندر کو دھنسا ہوا ہے۔ پھر بھی وہ لوگ اتنے شریف تھے کہ بانو پھوپھو کا رشتہ قبول کرنے پر راضی ہو گئے۔ ان دنوں ہم نئے نئے پاکستان میں آباد ہوئے تھے، رشتے داروں کا پتا نہیں تھا، اور مالی حالت بھی بہت خستہ تھی۔ بالکل خالی ہاتھ تھے۔ نانا جان نے صرف چائے اور بسکٹ پر نکاح کر دیا۔ وہ لوگ بہت نیک تھے۔ پھوپھا مسجد کے امام تھے اور بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ وہ کھڈیوں پر سوتی کپڑا بھی بناتے تھے، اور گھر سامان سے بھرا ہوا تھا۔ رزق حلال تھا، اور خوب برکت تھی۔ ان کے بچے بھی سعادت مند تھے۔ بڑا بیٹا میری پھوپھو کو ماں جی کہتا تھا۔ امی نے کہا، بانو تو کچھ سن نہیں سکتی، تم جو بھی کہو۔ وہ بولا، میرے ابا جی کے گھر آ گئی ہیں، اس لیے اب یہ میری ماں جی ہوئیں، اور جب میں انہیں ماں جی کہہ کر پکارتا ہوں تو اللہ تو سنتا ہے۔ یہ بچے ہی کیا، ان کے سارے رشتہ دار خوش ہو گئے کہ ایک اجڑا ہوا گھر آباد ہو گیا تھا۔ بانو پھوپھو کے پانچ بچے ہوئے: تین بیٹے اور دو بیٹیاں۔ اب ما شاء اللہ یہ سب چھ بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ ان کے والدین اب فوت ہو چکے ہیں، لیکن جب پھوپھو بیمار ہوئیں اور آخری سفر کی تیاری کر رہی تھیں تو سب بیٹوں، بہوؤں، پوتوں، اور پوتیوں نے مل کر بہت خدمت کی۔ سوتیلے بیٹوں نے بھی ہمیشہ بہت عزت اور خیال رکھا، اور سب بہوئیں انہیں ماں جی کہتی تھیں، حالانکہ وہ یہ لفظ سننے سے قاصر تھیں۔
میری یہ پھوپھو فرشتہ صفت خاتون تھیں۔ وہ نماز کی پابند، عبادت گزار، اور رات کو جاگ کر اللہ کا ذکر کرتیں، اپنی زبان میں، جس کو صرف اللہ ہی سن اور سمجھ سکتا تھا۔ انہوں نے سوتیلے بچوں کی پرورش اور شوہر کی خدمت میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ اللہ نے انہیں گونگا اور بہرا بنایا، مگر ان کی شخصیت میں ایسے اوصاف بھر دیے جو جنتی لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے ہی نیک پھوپھا اور ان کے بچے بھی تھے۔ آج بھی جب میں ان کے بچوں، بچیوں، پوتے اور پوتیوں کو اپنی گمشدگی کے بعد بانو کے چودہ برس بعد واپس مل جانے کا واقعہ سناتی ہوں تو سب اللہ کی اس قدرت پر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔