ہم بچپن سے بہت گہری سہیلیاں تھیں، جب سے ہوش سنبھالا ایک دوسرے کے گھروں کو آمنے سامنے پایا۔ وہ میری بہترین راز دان تھی۔ ہم اکثر اکٹھی کالج جایا کرتی تھیں۔ ایک دوسرے کے ہوتے کسی تیسرےکی ضرورت نہ رہی تھی۔ ہماری کلاس میں ایک لڑکا ولید نامی پڑھتا تھا۔ اس کی سیٹ ہمارے بالکل پیچھے تھی۔ اچانک ہی اس نے ہم دونوں کو چھیڑنا شروع کردیا۔ وہ اچھے خاندان کا تھا لیکن شوخ و چنچل تھا۔ شرارتاً ہمارے ساتھ جملے بازی کرتا کہ ہم چڑ کر اسے سخت جواب دیں اور وہ محظوظ ہو۔ شروع میں ہم نے برا مانا۔ بعد میں اس کی جملے بازی کو شرارت سمجھ کر محظوظ ہونے لگے۔ یوں ہماری اس سےدوستی ہوگئی۔ دراصل وہ کوئی برا لڑکا نہیں تھا بلکہ ہمدرد دل کا مالک تھا۔ بدنیت بھی نہیں تھا رابعہ اور میں نے محسوس کیا کہ وہ ہماری نظروں میں مقام بنا چکا ہے۔ اس کی تصویر غیرمحسوس طریقے سے ہمارے دل کے فریم میں فٹ ہوتی جاتی تھی۔
جب ہم آپس میں بات کرتیں گفتگو میں اس کا ذکر آ جاتا اور اس کے ذکر سے دل نہ بھرتا۔ جلد ہی مجھ پر یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ میری پیاری دوست، ولید کو چاہنے لگی، اس کی چاہت کے احترام میں، میں نے ولید کا نام ’’چن ماہی‘‘ رکھ دیا۔ مجھے تو علم تھا کہ ’’رابعہ چن ماہی‘‘ کو کس قدر چاہتی ہے مگر اسے اس بات کا علم نہ تھا کہ میں، ولید کو کتنا چاہتی ہوں اور میں یہ بات اپنی رازداں سے خفیہ رکھنا چاہتی تھی جبکہ وہ اپنےدل کی ہر بات سے لمحہ لمحہ آگاہ کرتی رہتی، شاید وہ بہت بھولی تھی یا میں کائیاں تھی کہ اپنی بااعتماد اور گہری سہیلی کو بھی اس مقام پر فریب دے رہی تھی اور اسے اپنی دل کی کیفیات سے بےخبررکھے ہوئے تھی۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ولید مجھ سے زیادہ کائیاں اور ہوشیار نکلا۔ اس نے ہم دونوں میں سے کسی پر بھی یہ آشکار نہیں ہونے دیا کہ وہ کس کو چاہتا ہے، دونوں سے ایک ہی جیسی توجہ اور تکریم سے پیش آتا۔ وہ مخاطب مجھ سے ہوتا مگر نظریں رابعہ کی طرف ہوتیں اور رابعہ کی نگاہیں اس کی محبت کے احساس سے جھکی ہوتیں کہ وہ میرے اور ولید کے چہروں پر عیاں کیفیات سے بے خبر ہوجاتی۔ میں رابعہ کو بے وقوف سمجھتی کہ اس پاگل کو معلوم ہی نہیں کہ ولید اسے نہیں مجھے پسند کرتا ہے، کیونکہ میں اپنی سہیلی کی نسبت زیادہ عقلمند تھی۔ مجھ میں کچھ ایسی بھی صفات تھیں جو رابعہ میں نہ تھیں اور یہ خوبیاں چاہے جانے کی وجہ بن سکتی تھیں مثلاً میں زیادہ خوش شکل تھی اور فیملی پس منظر کے لحاظ سے بھی رابعہ سے زیادہ بہتر تھی۔ میرے والد اعلیٰ افسر تھے، جبکہ اس کے والد ایک معمولی سرکاری ملازم تھے۔ جو میری حیثیت تھی، اس کی نہیں ہوسکتی تھی۔ یہ حقیقت مجھے بعد میں پتا چلی کہ اصل میں ولید اس بونگی لڑکی کو دل سے چاہتا تھا اور میں ان دونوں چاہنے والوں کے بیچ ایک دیوار یا کوئی فالتو شے تھی۔
ان دنوں جبکہ رابعہ کسی وجہ سے ہفتہ بھر کالج نہ گئی تو مجھے اکیلے ہی جانا پڑا۔ ایک روز سڑک پر جارہی تھی کہ ایک گاڑی میرے قریب آکر رکی یہ ولید تھا، کہنے لگا اکیلی کیوں جارہی ہو، آئو گاڑی میں بیٹھ جائو۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ مجھے تو یہ ارمان تھا کہ کبھی اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھوں۔ وہ اس وقت جب میری پیاری سہیلی ہمراہ نہ ہو۔ میں نے جھٹ پٹ اس کی پیشکش قبول کرلی۔
ہر انسان زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر خود فریبی کا شکار ہوتا ہے۔ سوچ رہی تھی مجھے تنہا پاکر وہ ضرور آج اپنے دل کا احوال مجھ پر عیاں کردے گا۔ کوئی ایسی سرگوشی جسے سن کر میں سمٹ جائوں گی۔ اس کی ایک سرگوشی پر میں اپنا سارا جہان قربان کرسکتی تھی۔ کافی دیر وہ خاموش رہا اور جب لبوں سے کوئی بات نکلی تو بس اتنی کہ تمہاری سہیلی کالج کیوں نہیں آرہی؟ اس کے بغیر کالج سونا سونا لگتا ہے۔
اپنی ذات کے کمتر ہونے کا احساس مجھے جس قدر اُس وقت ہوا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ ولید کے منہ سے رابعہ کا ذکر اچھا نہ لگا، میں اس حسین اور امیر نوجوان کی زبان سے صرف اپنا ہی ذکر سننا چاہتی تھی۔ سچ ہے انسان اپنی خواہشوں کا غلام ہوتا ہے اور جب خواہشیں راستہ دکھانے آگے چلتی ہیں اور ہم ان کے پیچھے پیچھے لگتے ہیں تو پھر عقل کا چراغ گل ہوجاتا ہے۔ میری خواہش بھی خوش فہمی بن کر میری ہمسفر ہوگئی تھی۔ آج وہ ہنسا اور نہ شرارتاً کوئی شوخ فقرہ اس کے ہونٹوں سے ادا ہوا، بلکہ اس نے سنجیدگی سے کہا۔ آج میری خاطر رابعہ کے گھر جانا اور اس سے کہنا کہ جلد آجائو، تمہارے بغیر کالج میں دل نہیں لگتا۔ گویا یہ پیغام دینے کے لئے اس نے مجھے لفٹ دی تھی، جبکہ اس کی قربت میں گزارے ان چند لمحات پر میں اپنی زندگی قربان کرنے کوتیار تھی، اس کا یہ پیغام دل پر تیر کی طرح لگا تھا۔ بے اختیار منہ سےنکلا۔ کیوں دل نہیں لگتا اس کے بنا… کیا ہم نہیں ہیں۔ بات یہ ہےکہ جس قدر تم دونوں کو ساتھ دیکھ کر میرادل پرشوق دھڑکتا ہے… ویسا تم لوگوں کو الگ الگ دیکھ کر نہیں دھڑکتا۔ خوشی کی جو تصویر میرے دل میں ہے۔ تم دونوں کو ساتھ دیکھ کر مکمل ہوجاتی ہے، اس نے بات بنانے کیلئے ایک اوٹ پٹانگ سی بات کردی۔
اس روز ہی میں نے تہیہ کرلیا کہ میں رابعہ کو کبھی ولید کا نہ ہونےدوں گی۔ ان دونوں کو جدا کرکے خود ’’چن ماہی’’ کی بن کر دکھائوں گی۔ دس روز بعد رابعہ کالج آئی تو ولید کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ خاموشی اور سنجیدگی کے اتھاہ سمندر سے نکل آیا تھا۔ چہرے سے روشنی پھوٹی پڑتی تھی اور ایک سے ایک شوخ فقرہ پھلجھڑیوں کی طرح اس کے لبوں سے پھوٹ رہا تھا۔ اس کی وارفتگی کو رابعہ نے محسوس کیا تو وہ بھی کھل اٹھی جیسے من کی مراد مل گئی ہو، بالآخر دونوں میں اظہار محبت ہوگیا اور اظہار محبت کا گواہ انہوں نے مجھے بنا یا۔ ان کی محبت پروان چڑھتی گئی۔ موقع ملتے ہی کسی پارک یا سیر گاہ میں چند گھڑیاں ساتھ رہتے، مجھے بھی ساتھ رکھتے، جیسے میرے وجود کے بغیر ان کی خوشی ادھوری رہ جاتی ہو۔ وہ ہنستے کھلکھلاتے تو میں بھی مجبوراً ان کے ساتھ ہنستی مگر دل میں سلگتی تھی۔ میرے دل میں رقابت چوٹ کھائی ناگن کی طرح بل کھاتی رہتی ہے… ایف اے کےبعد رابعہ کو اس کے والد نے کالج جانےسے روک دیا، مگر میں اور ولید اب بھی ہم جماعت اور ہم خیال ساتھی تھے۔
ہم روز ملتے، کالج میں ساتھ ہوتے مگر وہ اب بجھا بجھا سا رہتا تھا۔ اس کی اداسی کی وجہ جانتی تھی، وہ اب رابعہ سے ملنے سے قاصر تھا۔ تب ہی برجستہ اور شگفتہ فقرے اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ کچھ دن وہ فرقت کی اذیت صبر سے برداشت کرلیتا، پھر اچانک منت سماجت کرنے لگتا کہ کسی طرح رابعہ کو ساتھ لے آئو، ہم پارک میں بیٹھ کر باتیں کریں گے، ادھر رابعہ بھی اپنے چن ماہی سے ملنے کی منتظر تھی، وہ اپنی اس خوشی کے لئے میری مرہون منت تھی۔
ولید جان چکا تھا میں اس سے محبت کرتی ہوں لیکن رابعہ کو مجھ پر ایسا کوئی گمان نہ تھا۔ وہ مجھے اپنی باوفا سہیلی سمجھتی تھی۔ جو اس کو کبھی دھوکا نہیں دے سکتی تھی۔ دل کی ہر کیفیت بلا جھجھک مجھے بتاتی۔ اس کا کوئی جذبہ مجھ سے پوشیدہ نہ تھا۔ وہ کہتی کہ رفعت اگر ولید مجھے نہ ملا تو میں مر جائوں گی۔ اللہ نہ کرے جو میرا چن ماہی کسی اور کا ہوجائے۔ تب ہی میرے دل کے کسی پوشیدہ گوشےسے یہ آواز آتی کہ اللہ کرے تم مر جائو۔
اقرار ہے کہ میں ان لوگوں میں سے تھی جو اپنی محبت کو پا لینے سے خودغرض ہوجاتے ہیں۔ میں بھی خودغرض ہوگئی تھی۔ تاہم دوستی کا خول اوڑھے رکھا تھا تاکہ ان دونوں محبت کرنے والوں کے رازوں سے واقف رہوں اور وقت آنے پر اپنی رقیب کی خوشیوں پر کاری ضرب لگا سکوں جو ہر جگہ مجھے ساتھ رکھتے تھے اور میرے سامنے اپنے دل کی باتیں کرتے تھے۔ خاص طور پر رابعہ جو مجھے اپنی قابل اعتماد اور پیاری سہیلی سمجھتی تھی۔ وہ مجھے دل کی ہر بات بتاکر پوچھتی تھی۔ جان رابعہ، بتا اب میں کیا کروں؟ تب میں اسے ایسے مشورے دیتی کہ وہ سراسر خسارے میں رہتی۔
سالانہ امتحان ختم ہوگئے۔ اب ولید میری منتیں کرنے لگا کہ تم کسی طرح میرا پیغام رابعہ کی والدہ کو پہنچائو۔ تم ہی یہ رشتہ کرا سکتی ہو، اس کی ماں کو ہم خیال کرو گی تو وہ اپنے خاوند کو بھی رام کرلیں گی۔ میں نے اس سے وعدہ کرلیا کہ رابعہ سے شادی میں پوری کوشش کروں گی۔ ایک بار رابعہ سے مل کر طے کرلو کہ کس طرح رشتہ بھیجو گے، میں کیسے اور کہاں ملوں، جبکہ اس سے ملنا آسان نہیں ہے۔ اس کا بندوبست میں کرتی ہوں۔ تم لوگ کسی ریسٹورنٹ میں ملو۔ میں اسے کسی بہانے لے آئوں گی۔ وہ راضی ہوگیا۔ میں نے رابعہ سے کہا۔ تم میرےگھر آجائو وہاں سے ریسٹورنٹ جانا آسان ہوگا۔ دونوں مقررہ وقت پر ہوٹل پہنچ گئے تو میں نے رابعہ کے ابو کو فون کیا کہ انکل فوراًفلاں ہوٹل جائیں کہیں ایسا نہ ہو آپ اپنی بیٹی سے ہاتھ دھو لیں۔ وہ ایک آوارہ نوجوان کے فریب میں آگئی ہے اور میں نےاپنا فرض جانا کہ آپ کو اطلاع کردوں اسے اس بھنور سے نکال لیں، ساتھ ہی انہیں قسم دی کہ رابعہ کو مت بتائیے گا۔ میں نے آپ کو مطلع کیا ہے میں نے تو دوست ہونے کے ناتے اپنا فرض نبھایا ہے۔ رابعہ میری جان سے پیاری سہیلی ہے اس کا دل مجھ سے بدگمان ہو جائے گا مگر اس کی خیر خواہ ہوں اُسے بچانا بھی ضروری ہے۔
وہ میری بات سن کر پریشان ہوگئے، دفتری امور چھوڑ اُسی وقت گاڑی نکال کر مذکورہ ہوٹل پہنچ گئے جس کے ریسٹورنٹ میں رابعہ اور ولید آمنے سامنے بیٹھے محو گفتگو تھے۔ ان کو ازحد دکھ ہوا کہ ان کی دختر نیک اختر ایک غیر لڑکے کے ساتھ بیٹھی ہے اسے باپ کی عزت و ناموس کے نیلام ہوجانے کا بھی احساس نہیں ہے۔ میں نے انکل سے درخواست کی تھی کہ اپنی بیٹی کو خاموشی سے وہاں سے لے آئیے گا اور اس کے گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دیجئے گا، اس دوران جلد کوئی اچھا رشتہ کرکے اس کے گھر کا کردیجئے تاکہ مزید بربادی و رسوائی نہ ہو اس طرح یہ قصہ ختم ہوجائے گا۔
میرا تیر نشانے پر لگا۔ رابعہ کو اس کے والد خاموشی سے لے آئے تو نوجوان کو بھی تنبیہ کردی کہ اگر اب دوبارہ رابعہ سے ملنے کی کوشش کی تو زندہ نہ بچو گے۔ گھر لاکر بیٹی کی خوب خاطر تواضع کی اور گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دی۔ ایک ہفتے کے اندر اپنے بھائی کے بیٹے سے اس کی منگنی کردی۔ وہ روتی رہ گئی۔ مجھ سے التجا کرتی تھی رفعت کچھ کرو ورنہ بے موت مر جائوں گی اور میں تسلی دیتی کہ بے فکر ہوجائو میں اور ولید مل کر حالات کو ٹھیک کرلیں گے۔ بس زبان بند رکھو۔ میں تمہاری خوشیاں لوٹا کر رہوں گی۔
شادی کی تاریخ جلد رکھی جانی تھی، مگر اس کے چچا کی اچانک وفات سے شادی تین ماہ کے لئے ٹل گئی۔ اس دوران اس کے منگیتر کو بیرون ملک جانے کا چانس ملا تو اس نے شادی کے لئے سال بھر کی مہلت مانگ لی۔ وہ بیرون ملک چلا گیا اور رابعہ کے والد نے اپنا تبادلہ اسلام آباد کرا لیا تاکہ رابعہ اور ولید پھر نہ ملنے لگیں۔
میدان صاف تھا جس کو پوجتی تھی وہ اب مجھ سے بات کرنے کے لئے بے تاب رہتا تھا۔یہ سمجھ کر کہ ایک میں ہی رابعہ سے ملنے ملانے کا وسیلہ بن سکتی ہوں۔ میرا رابعہ سے رابطہ تھا اور ولید اس کے بارے میں کرید کرید کرمجھ سے پوچھتا تھا کہ کیسی ہے اور کس حال میں ہے وہ سمجھ ہی نہ سکا کہ راہ کے اس کانٹےکو میں نے نکال دیا ہے۔ وہ رابعہ کی محبت میں ڈوبا ہر دم مجھ سے ہم کلام ہوتا، اس کی باتیں کرکے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتا اور میں اس کاغم بانٹنے کو مستعد رہتی کہ مجھ سے بڑھ کر اس کا غمگسار کون تھا۔
ایک دن میں نے اسے یہ جھوٹی خبر سنا دی کہ رابعہ کی شادی ہوگئی ہے۔ شادی کارڈ بھی چھپوا کر اسے دکھا دیا۔ وہ مایوسی کے اتھاہ سمندر میںڈوب گیا۔ اب میں اس کا جذباتی سہارا تھی۔ وہ میری طرف ہمہ وقت متوجہ رہتا۔ مجھ سے مل کر سکون محسوس کرتا اور میں رابعہ کے بارے میںمن گھڑت باتیں کرکے اس کے لئے وقتی سکون کا باعث بنتی یوں بڑے صبر و تحمل کے ساتھ رفتہ رفتہ میں اس دل شکستہ کو خود سے قریب لے آئی۔ اس کا دل بہلانے میں کامیاب ہوگئی۔ وہ ایک جذباتی نوجوان تھا۔ شریف النفس تھا ایک روز بالآخر میں نے روتے ہوئے اسے کہا۔ جو چلی گئی اس کےلئے غمزدہ رہتے ہو اور جو تم سے قریب ہے اس کی طرف دیکھنا بھی نہیں گوارا کرتے، اس کے کیا جذبات ہیں اور وہ تم کو کتنا چاہنے لگی ہے۔ اتنا جان لو کہ تم سے غمگساری محبت کے جذبات کا روپ دھار چکی ہے اور اب یہ محبت مجھے بہت دکھ دینے لگی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ احساس محرومی میری جان لے لے۔ تمہارا دل غم آشنا ہے۔ تمہیں اپنے سوا کسی کا دکھ درد محسوس نہیں ہوتا۔
میری ہچکی بندھ گئی اور اس کا دل پسیج گیا کہنے لگا۔ رابعہ کے بعد اگر کوئی دل پسند ہوتا تووہ تمہی ہو۔ اللہ کی مرضی کہ وہ میری قسمت میں نہ تھی مگر میں تمہاری قسمت کو تو سنوار سکتا ہوں۔ محبت نہ سہی نیکی سہی۔ میرے لئے یہ غنیمت تھا کہ مجھے میرا محبوب ملنے لگا تھا۔ خوش تھی کہ سانپ مر گیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی تھی، جس روز شادی تھی ولید دولہا بنا ہوا تھا، اس روز گھر میں بڑا ہنگامہ تھا۔ یہ وہ دن تھا جس کا مجھے برسوں سے انتظار تھا۔ اس دن کے لئے ہی میں نے دوستی کے ساتھ ساتھ ہر شے کو دائو پر لگایا تھا۔
میں دلہن بنی ہوئی تھی کہ اچانک شور اٹھا کہ ولید غائب ہے، نجانے دولہا کہاں چلا گیا ہے۔ اُسے ڈھونڈا جارہا تھا۔ وہ کہیں ہوتا تو ملتا… تمام رات نیر بہاتی اور انتظار کرتی رہی مگر وہ نہ آیا۔
ہوا یہ کہ ایک مشترکہ سہیلی نے رابعہ کو اسلام آباد خبر کردی کہ تمہاری عزیز از جان سہیلی کی شادی ولید سے ہورہی ہے۔ تاریخ و دن بتادیا اور رابعہ ازخود ہمارے گھر، میری شادی میں آگئی۔ ماں بیٹی رخصتی سے چند گھنٹے قبل پہنچیں، اُسی وقت ولید اپنی گاڑی سے اترا تو رابعہ کی اس سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ رابعہ نے ولید سے کہا کہ بے وفا مجھے بیوقوف بنایا اور اپنی راہ کا کانٹا سمجھ کر مجھے نکال دیا۔ اب شادی رچا رہے ہو۔
دولہا نے دیکھا کہ اس کی محبوبہ آنکھوں میں آنسو بھرے پہنچی تھی، لیکن تمہاری تو شادی ہوگئی تھی۔ ولید نے بھی شکوہ جواب شکوہ سے کام لیا۔ وہ بولی۔ کس نے کہا تم سے؟ یہ جھوٹ ہے سب… مجھے تمہاری شادی کا کارڈ رفعت نے دکھایاتھا جھوٹ کیسے ہوسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر رفعت نے ڈرامہ کیا ہے۔ اس کی سزا اُسے فوراً ملنی چاہئے… وہ کیسے میری دلہن بن گئی، جبکہ تم ابھی تک کسی کی دلہن نہیں بنی ہو۔
بس پھر بارات کے ساتھ دلہن کے گھر کی دہلیز پار کرتے ہی دولہا غائب ہوگیا۔ نکاح مجھ سے ہوا اور دلہن رابعہ بنی۔ میں سیج پر جانے کے لئے انتظار کرتی رہ گئی۔ اُس نے لاہور میں رابعہ سے نکاح کرلیا اور چند روز بعد مجھے طلاق نامہ بھجوا دیا۔ حق مہر کی رقم چیک کی صورت میں ادا کردی۔
رونے کا مقام تھا مگر جی بھر کر نہ رو سکی کہ میں نے دھوکا کیا تھا۔ انجام اس کا اچھا نہ ہوا۔ سچ ہے کہ جس کی جیسی نیت ہوتی ہے ویسی ہی اُسے مراد ملتی ہے۔ مرادوں والوں نے خوشیوں سے جھولی بھرلی اور میں بدنیت خالی دامن رہ گئی۔
(ر… کراچی)