سب ماؤں کی طرح میری والدہ کو بھی عارف بھیا کی شادی کا بڑا ارمان تھا۔ وہ انجینئرنگ کے بعد ایک اچھی کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے۔ اماں کا خیال تھا کہ یہی وقت ہے گھر میں بہو لانے کا۔ وہ بھائی سے شادی کا ذکر کرتیں اور عارف بھیا ٹال مٹول سے کام لینے لگتے۔ دراصل وہ اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے اور ابھی تک ان کی نظروں کے سامنے ایسی لڑکی نہیں آئی تھی جو انہیں پسند آ جاتی۔ ایک دن ہمارے ایک رشتہ دار ملنے آئے۔ آنے والے مہمانوں میں فیصل صاحب کی بیگم کے ساتھ ان کی بیٹی صوفیہ بھی تھی۔ خدا کی قدرت کہ یہ لڑکی پہلی نظر میں میرے بھائی کو بھا گئی۔ سوئے اتفاق وہ امی اور ہم بہنوں کو بھی پسند آئی۔ اماں نے اس کی ماں سے باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے کسی اچھے اور شریف گھرانے کا رشتہ ڈھونڈ رہی ہیں۔ آنٹی رابعہ یہ سن کر خوش ہو گئیں اور کہنے لگیں، تمہارا بیٹا تو لاکھوں میں ایک ہے۔ اتنا اچھا اور قابل لڑکا چراغ لے کر ڈھونڈو تو نہیں ملے گا۔ اس کے لیے لڑکیوں کی کیا کمی ہے؟ پھر کہنے لگیں، کسی سے کیوں، تم ہی سے کیوں نہ کہوں؟ تمہاری صوفیہ بھی تو چندا آفتاب چندا ماہتاب ہے۔ جب اللہ بات بنانا چاہے تو ایسے ہی منٹوں میں بن جاتی ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی معاملہ ہوا اور فوراً رشتہ طے ہو گیا۔ یہ کوئی غیر نہیں تھے، دیکھے بھالے قریبی رشتہ دار تھے۔ صوفیہ کی ماں امی کی ماموں زاد اور ان کے شوہر ابا کے رشتہ دار تھے۔ اماں اس لیے بھی خوش تھیں کہ لڑکی کو ان کے بیٹے نے خود پسند کیا تھا، تبھی منگنی کی تاریخ رکھ لی گئی۔ صوفیہ ماشاءاللہ بہت خوبصورت تھی۔ من موہنی اور معصوم سی صورت والی، اس کے سب انداز دلکش اور دل کو لبھانے والے تھے۔ عارف بھائی کو تو ایک نظر میں پسند آ گئی، انہوں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ شادی اسی سے کریں گے اور والدہ کو بھی بتا دیا۔ وہ لوگ واقعی خوش قسمت ہوتے ہیں جن کی مراد پل بھر میں پوری ہو جائے۔ اس لحاظ سے عارف بھائی بھی خوش قسمت تھے مگر یہ ان کی نادانی تھی کہ آگے چل کر سچے موتیوں بھرے تھال کو ٹھوکر مار دی۔ منگنی کی رسم کے لیے بات ہو رہی تھی، مگر بھائی نے منگنی میں وقت ضائع کرنے کو بہتر نہ جانا اور امی سے بولے، اماں، کیا خبر مجھے سعودی عرب جانا پڑ جائے؟ کمپنی والوں کا ایسا ہی ارادہ ہے، لہٰذا آپ وقت ضائع نہ کریں اور جلدی میرے سر پر سہرا دیکھنے کا ارمان پورا کر لیں۔ تبھی اماں نے منگنی کی بجائے شادی کی تاریخ مانگ لی۔ وہ لوگ بھی شاید منگنی کے اخراجات سے بچنا چاہتے تھے، یوں ایک ماہ بعد صوفیہ میری بھابھی بن کر ہمارے گھر آ گئی۔
وہ واقعی اچھی لڑکی تھی۔ میرا بھائی اس سے شادی کر کے بہت خوش تھا۔ صوفیہ نے انہیں ایسی قدر و عزت اور اتنا پیار دیا کہ شاید ہی کسی خوش قسمت کو ایسا پیار نصیب ہوا ہو۔ شادی کے آٹھ دن بعد دونوں ہنی مون منانے چلے گئے۔ اس طرح گھوم پھر کر پندرہ دن بعد گھر پہنچے۔ اسی شام بھائی صوفیہ کو لے کر اس کے میکے والوں سے ملانے گئے، تبھی ان کی سالی نے بتایا کہ عارف بھائی، ہماری امی نے شادی دفتر کھولا ہے۔ وہ کسی کے گھر اس سلسلے میں اپنی ملنے والی کو لڑکی دکھانے گئی ہوئی ہیں۔ یہ سن کر بھائی سوچ میں پڑ گئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری ساس کو کیا نہیں دیا، پھر انہیں ایسا کاروبار کھولنے کی کیا ضرورت پڑ گئی؟ اگر یہ سماجی خدمت کرنی ہی تھی تو خاموشی سے بلا معاوضہ کی جا سکتی تھی۔ شادی دفتر کھول کر تشہیر کی کیا ضرورت تھی؟ اس بات پر بھائی کو غصہ آ گیا اور وہ جذباتی ہو گئے۔ ابھی وہ اس کیفیت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ساس صاحبہ تشریف لے آئیں۔ بیٹی اور داماد کو گھر میں دیکھ کر خوش ہو گئیں مگر عارف بھائی کا موڈ آف ہو چکا تھا۔ ساس نے پوچھا، کیا بات ہے عارف! کیوں اس طرح منہ لٹکائے بیٹھے ہو؟ ان کا یہ کہنا تھا کہ بھائی نے ساس اور سالی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ بولے، آپ عزت دار ہو کر دوسروں کے دروازے پر بھٹکتی ہیں۔ کیا گھر میں عزت سے بیٹھنا آپ کے لیے مشکل ہے؟ سب کچھ تو ہے اللہ کا دیا آپ کے پاس، پھر چند ٹکوں کے لیے دوسروں کے ہمراہ پھرنا، کیا آپ کو اچھا لگتا ہے؟ اس میں کون سی شان بڑھتی ہے کہ آپ نے شادی دفتر کھول لیا ہے؟ غرض جو ان کے منہ میں آیا، کہہ دیا، حالانکہ انہیں کوئی حق نہیں تھا کہ وہ اس طرح اپنی خوش دامن کے ذاتی معاملات میں مداخلت کریں۔ انہیں تو اپنی بیوی سے غرض ہونی چاہیے تھی۔ داماد کی طرف سے ان سب اعتراضات کے اظہار پر آنٹی کو غصہ آ گیا اور انہوں نے میری والدہ صاحبہ کو بلا کر خوب سنائیں۔ کہنے لگیں، عارف کو ہمارے معاملات میں اپنی رائے، اپنی پسند کو مسلط کرنے سے قبل سوچنا چاہیے تھا۔ اول تو اسے دخل اندازی ہی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اس پر امی نے جواب دیا، عارف آپ کا بیٹا ہے اور بیٹے کو حق ہوتا ہے کہ وہ گھریلو معاملات میں اپنی رائے اور پسند و ناپسند کا اظہار کرے۔ وہ تو یہ کہہ کر واپس آ گئیں، مگر گھر آ کر بھائی کو بہت ڈانٹا کہ تم کون ہوتے ہو ان لوگوں پر اعتراض کرنے والے؟ شادی کو آٹھ دن بھی نہیں ہوئے اور ناچاقیاں شروع ہو گئیں۔ خبردار، آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا۔ عارف نے اماں جان سے معذرت کی اور وعدہ کیا کہ آئندہ ایسا نہ ہو گا۔ بات آئی گئی ہو گئی، لیکن دلوں میں شاید گرہ پڑ گئی تھی۔ پھر وہ دن بھی آ گیا جب عارف بھائی کو سعودی عرب میں ایک مشہور کمپنی میں کانٹریکٹ مل گیا۔ وہ منظر مجھے اب بھی یاد ہے جب وہ اپنی پیاری بیوی سے جدا ہو رہے تھے۔ دل نہ چاہتے ہوئے بھی جانا پڑا تھا اور صوفیہ ان کی جدائی کے خیال سے ہچکیاں لے رہی تھیں۔ نئی نئی شادی تھی اور زندگی کے ان خوبصورت دنوں کو مجبوری کی بھینٹ چڑھنا پڑ گیا تھا۔ عارف بھائی کے فون آتے، وہ صوفیہ سے کہتے کہ یہاں نہ دن کو چین ہے، نہ رات کو قرار، ہر وقت تمہارا خیال رہتا ہے۔ تمہاری محبت مجھ پر چھائی رہتی ہے۔ دل کرتا ہے کہ ابھی اڑ کر تمہارے پاس پہنچ جاؤں۔ فیملی ویزے کا بندوبست بھی مشکل ہے، ورنہ تم کو اپنے پاس بلا لیتا۔ ان کو گئے بمشکل تین ماہ ہوئے تھے کہ ایک دن صوفیہ نے اپنے میکے سے بھائی کو فون کیا۔ وہ اس وقت آفس میں نہیں تھے بلکہ فیلڈ پر گئے ہوئے تھے۔ ان کا باس آفس میں بیٹھا تھا، اس نے فون ریسیو کیا۔ جب بھائی دفتر لوٹے تو ان کو بتایا کہ پاکستان سے تمہاری بیوی کا فون آیا تھا۔ یہ سن کر عارف بھائی کو افسوس ہوا کہ میں آفس سے باہر کیوں گیا۔ اور انہوں نے باس سے جھوٹ بولا کہ بیوی کا دوبارہ فون آیا ہے، کچھ ایمرجنسی ہے۔ میں ایک ہفتے کے لیے گھر جانا چاہتا ہوں۔ وہ عربی آفیسر دل کا اچھا تھا، اس نے ٹکٹ اور چھٹی کا معاملہ حل کر دیا۔ اس طرح دوسرے ہی روز عارف بھائی گھر پہنچ گئے۔ ہم سب ان کی اچانک آمد سے حیران تھے۔ ہمیں لگا کہ شاید وہ ملازمت چھوڑ کر آ گئے ہیں، مگر انہوں نے بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، بس ایک ہفتے کی چھٹی لے کر آیا ہوں، آپ لوگ پریشان نہ ہوں۔ اچانک بھائی کے آجانے سے صوفیہ بھابھی بہت خوش ہوئیں۔ ان کو بھائی کی صورت دیکھ کر قرار آ گیا۔
ایک ہفتہ پل بھر میں گزر گیا۔ بھائی کا دل نہیں چاہتا تھا کہ بیوی سے جدا ہو کر دوبارہ پردیس جائیں، مگر جانا ضروری تھا، نوکری کا معاملہ تھا۔ جاتے وقت انہوں نے سسر صاحب سے کہہ دیا کہ میں دو سال بعد یہ نوکری چھوڑ دوں گا۔ معاہدہ دو سال کا ہے، اُسے تو پورا کرنا ہی ہے۔ بولے کہ پاکستان میں ہی کام کر لوں گا۔ بے شک تنخواہ کم ملے گی لیکن بیوی ساتھ ہوگی، اور ہم اپنی مرضی سے زندگی بسر کریں گے۔ انہوں نے اس بات کا ذکر اپنے ساتھ کام کرنے والے ایک شخص سے بھی کیا۔ اتفاق سے وہ ان کے سسر کا جاننے والا نکلا۔ جب انہوں نے اس شخص کو اپنے سسر کا نام اور پتا بتایا تو پتا چلا کہ وہ انکل سلیم کے اندرونی معاملات سے بھی بخوبی واقف ہے۔ اس بدخواہ نے بھابھی صوفیہ کے بارے میں عارف بھائی کو کچھ ایسی باتیں کہیں جو سن کر بھائی کے دل میں بدگمانی پیدا ہو گئی، اور انہوں نے سوچا کہ نوکری جاتی ہے تو جائے، مگر میں اس ان دیکھے عذاب میں مبتلا نہ رہوں گا۔ اس طرح دن رات ذہنی تناؤ میں گزارنے لگے اور کام بھی ٹھیک سے نہ کر سکے۔ انہوں نے ٹکٹ کٹوایا اور پاکستان واپس آ گئے۔ ان کو بہت بعد میں احساس ہوا کہ انہوں نے جلدبازی میں اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی ہے۔ بجائے اس شخص کی فضول باتوں پر یقین کرنے کے، اسے سختی سے دھتکار دینا چاہیے تھا، مگر اس وقت وہ کانوں کے کچے ثابت ہوئے۔ اچھی بھلی نوکری کو داؤ پر لگا دیا اور بیوی کے ماضی کی پڑتال کرنے اس کے گھر پہنچ گئے۔ یہ بھی نہ سوچا کہ بیوی کی زندگی کے گزرے دنوں کو برا بھلا کہنے سے کیا ہوگا۔ اب شادی ہو چکی ہے۔ صوفیہ بھابھی ہمارے ساتھ بہت پیار اور محبت سے رہ رہی تھیں۔ بھائی کے پردیس جانے کے باوجود کتنے صبر اور شرافت سے ان کے بغیر سسرال میں رہتی تھیں۔ کبھی میکے جا کر رہنے کا نہیں کہا۔ وہ چاہتیں تو اپنے ماں باپ کے پاس جا کر رہ سکتی تھیں، جبکہ وہ لوگ ہم سے زیادہ امیر تھے، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ میرے والدین کی خدمت کے لیے ہمارے ساتھ رہنا پسند کیا۔ وہ شوہر کا مان رکھے ہوئے تھیں۔ ان کی اجازت کے بغیر کہیں آتی جاتی نہیں تھیں۔ کسی بیاہتا عورت کی اس سے زیادہ اچھائی اور کیا ہوگی۔ عارف بھائی نے آتے ہی بیوی کی محبت اور اس کی اچھائیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ماضی کے بارے میں سوالات شروع کر دیے اور ان کو اتنا پریشان کیا کہ وہ دھاڑیں مار کر رونے لگیں اور زچ ہو کر کہہ دیا کہ ہاں، ماضی میں کسی اور سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ اس بات کو اعتراف اور اقرار سمجھتے ہوئے بھائی نے کہا، اچھا، تو یہ بات ہے۔ اب تم مجھ سے معافی مانگو اور سچے دل سے کہو کہ اب ماضی کی کسی یاد کو ذہن میں نہیں لاؤ گی ، جب تک تم اپنے ماضی کے بارے میں اصل بات نہیں بتاؤ گی، میں تم کو معاف نہیں کروں گا۔ اور وہ کہہ رہی تھیں، کیا بتاؤں؟ کیا سننا چاہتے ہو؟ ماضی تھا، ختم ہوا۔ ماضی تو بھلانے کے لیے ہوتا ہے، میں نے بھی بھلا دیا۔ آپ مل گئے، تو مجھے سب کچھ مل گیا ہے۔ میرا ماضی بے داغ ہے۔ میں ان لڑکیوں میں سے ہوں جو شادی سے قبل کسی غیر کی طرف نہیں دیکھتیں۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں۔ بھائی نے مگر یقین نہ کیا۔ یہ ان کی کم عقلی تھی۔ انہوں نے اپنی بیوی کو خوب ہی رلایا، مارا بھی۔ تب امی نے بیٹے کو لتاڑا، تو انہوں نے بیوی کو معاف کیا، لیکن اس کے بعد بات بات پر طعنے دینا ان کا معمول بن گیا۔ وہ اسے طعنے دیتے اور وہ رو رو کر برا حال کر لیتیں۔ جب وہ روتیں، تو یہ اسے منانے لگتے۔ اس طرح یہ چکر چلتا رہا، مگر بھائی نے ایک دن بھی بیوی کو دل سے معاف نہیں کیا تھا، حالانکہ ان کی محبت بھی ان کے دل میں تھی۔ نجانے پھر ان کو کیا ہو جاتا تھا کہ وہ اتنے اذیت پسند ہو گئے تھے۔ انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ایک جانب نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھ گئے اور دوسری جانب وقتاً فوقتاً دل دکھانے والی باتیں کر کے صوفیہ کو تنگ کرتے رہتے۔ وہ بھی کہتے، تم مجھے دوسری شادی کے لیے اجازت نامہ لکھ کر دو، تب میں تم کو معاف کروں گا۔ جب تک تم میرے لیے یہ قربانی نہیں دو گی، میں تم کو معاف نہیں کر سکوں گا۔ آخر میں بھی تو تمہاری خاطر قربانی دے رہا ہوں۔ یہ جانتے ہوئے کہ تمہیں ماضی میں اپنا کوئی کزن پسند تھا، تمہارے ساتھ نباہ رہا ہوں۔ مجھے لگتا تھا کہ بھائی صاحب یہ باتیں صوفیہ کو دبا کر رکھنے اور اس پر رعب جمانے کے لیے کرتے تھے۔ حقیقت سے ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی وہ دوسری شادی کرنا چاہتے تھے کیونکہ انہیں اپنی بیوی سے پیار تھا۔ اگر انہیں اندازہ ہو جاتا کہ یہ کوئی مذاق نہیں، ایک گھناؤنی حرکت ہے اور اس کا انجام برا ہوگا، تو ہرگز وہ اس طرح کا طرزِ عمل نہ اپناتے۔ وہ تو اپنی طرف سے اسمارٹ بن رہے تھے، مگر صوفیہ کے دل میں نفرت جڑ پکڑتی جارہی تھی۔ اب وہ کہنے لگی تھیں کہ عارف ذہنی بیمار ہیں اور کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ انسان کتنا بھی کسی سے محبت کرتا ہو، کتنا بھی صابر ہو، مگر صبر کا پیمانہ کسی دن لبریز ہو ہی جاتا ہے۔
ایک روز اس نے یہ ساری باتیں جا کر اپنے والدین کو بتا دیں۔ انہوں نے بیٹی کو گھر بٹھا لیا۔ ان دنوں صوفیہ امید سے تھیں، تو ماں باپ نے عارف سے بیٹی کی طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ طلاق کا سن کر بھائی سکتے میں رہ گئے۔ وہ طلاق کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، بلکہ حقیقت تو یہ تھی کہ کسی قیمت پر صوفیہ کو خود سے جدا نہیں کر سکتے تھے، خاص طور پر جب وہ ان کے بچے کی ماں بننے والی تھیں۔ یہ جو جھگڑے فساد انہوں نے کیے تھے، سراسر ان کی بے وقوفی تھی۔ انہوں نے سوچا نہ تھا کہ حالات ایسے سنگین موڑ پر پہنچ جائیں گے۔ وہ بیوی پر رعب جمانے کے چکر میں خود اپنے بنائے جال میں پھنس گئے۔ اب یہ ضد ہو گئی کہ میری بیٹی کو طلاق دو، تب بھائی کو ہوش آیا۔ جاکر ان کی منت سماجت کی، پاؤں پکڑے اور اپنی صفائی پیش کی کہ کسی بدخواہ نے ان کے دل میں بدگمانی بھر دی تھی اور وہ بہک گئے تھے۔ اب ہرگز وہ باتیں نہ دوہرائیں گے جن سے صوفیہ کو تکلیف پہنچی ہے۔ انہوں نے قسمیں کھائیں، مگر آنٹی نے مان کر نہ دیا۔ بولیں، اس سے پہلے کہ تم ہماری بیٹی پر کچھ اور طرح کے الزامات لگا کر اسے چھوڑ دو، ہمیں آج ہی طلاق لکھ دو۔ خاصا ہنگامہ ہوا۔ امی ابو نے بہت کوشش کی کہ بات سنور جائے اور صلح ہو جائے، مگر بے سود۔ انہوں نے ایک خلع نامہ لکھوایا ہوا تھا جس پر صوفیہ نے دستخط کر دیے تھے اور عارف بھائی کو ان پر دستخط کرنے پر مجبور کر رہی تھیں۔ جب دیکھا کہ معاملہ بہت گرم ہے تو بھائی نے ساس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے دستخط کر دیے۔ ان کا خیال تھا کہ جب ان کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا تو منتیں ترلے کر کے منا لیں گے، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ محض دستخط کرنے سے طلاق نہیں ہو گی۔ جب تک شوہر اپنے منہ سے طلاق کے الفاظ تین بار نہ کہے یا شرعی طریقے سے نہ دے۔ حالانکہ صوفیہ کے سب رشتہ داروں نے دباؤ ڈالا کہ عارف پہلے تین بار منہ سے طلاق کہے، پھر خلع نامے پر دستخط کرے، مگر بھائی نے ایسا نہ کیا کیونکہ ان کی نیت طلاق دینے کی تھی ہی نہیں۔ ان کے لیے تو صوفیہ کے بغیر زندگی گزارنا محال تھا۔ اس کی خاطر پردیس کی اتنی اچھی نوکری چھوڑ دی تھی۔ یوں ان میاں بیوی میں زبردستی کی جدائی پڑ گئی۔ اس کے بعد عارف بھائی کی نیندیں اُچاٹ ہو گئیں۔ وہ انگاروں پر جاگتے اور کانٹوں پر سوتے تھے۔ ان کو اپنے کیے کی بہت بڑی سزا ملی۔ وہ ایسے بد نصیب باپ بنے جس نے اپنی بچی کو کبھی نہ دیکھا۔ ایسے کم نصیب شوہر تھے کہ اتنی اچھی اور پیاری بیوی محض بدگمانی کی وجہ سے گنوا دی۔ اپنی جنت جیسی ازدواجی زندگی کو خود ہی آگ لگا دی۔