اس قدر مہنگائی اور اتنا بڑا کنبہ ، وقت جوں توں کٹ رہا تھا اور ابا بیچارے ایک کمزور بیل کی طرح، سخت مشقت کر کے کنبے بھرا چھکڑا گھسیٹ رہے تھے۔ مجھے پڑھنے کا شوق تھا، لیکن والدین، تعلیم دلوانے سے معذور تھے۔
میں جب محلے کی لڑکیوں کو اسکول جاتے ہوئے دیکھتی تو دل سے آہ نکل جاتی۔ ایک روز کتاب لئے بیٹھی تھی کہ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ دراصل، خیالوں ہی خیالوں میں ، میں بہت دور نکل گئی تھی۔ سوچ رہی تھی کہ شاید ، میری زندگی میں کوئی ایسا سورج ہے ہی نہیں، جو کبھی مجھے اسکول کی جانب جاتے ہوئے دیکھے گا۔ والد صاحب اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑے میری محویت دیکھ رہے تھے۔ میں نے جلدی سے آنسو پونچھ لئے کہ کہیں ان کو کوئی غلط فہمی نہ ہو جائے۔ انہیں رونے کا سبب بتاتے ہوئے کہا کہ میں اسکول جانا چاہتی ہوں، تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں ۔ آپ نے مجھے دوسری جماعت سے ہٹا دیا تھا۔ وہی کتابیں بار بار پڑھتی رہتی ہوں اور سوچتی رہتی ہوں کہ میری اسکول جانے کی خواہش کبھی پوری نہ ہو گی۔ کاش میرے اتنے وسائل ہوتے کہ تم کو پڑھا سکتا۔ تم لوگوں کی روزی روٹی بمشکل پوری کر پاتا ہوں۔ اگر گھر پر رہ کر پڑھ سکتی ہو تو میں تم کو اپنے دوست کے بیٹے کی کتابیں لا دیتا ہوں۔ وہ بچہ اب تیسری پاس کر چکا ہے۔ اس کے پاس پچھلی جماعت کی کتابیں پڑی ہوئی ہیں۔ میں نے یہ بھی منظور کر لیا۔ ابا جان نے مجھے کتابیں لا دیں۔ گھر کے کام سے فراغت پاکر میں ان کو پڑھنے بیٹھ جاتی۔ بڑے بھائی آٹھویں پاس کر چکے تھے۔ وہ روز شام کو وہ گھنٹہ آدھ گھنٹہ پڑھا دیا کرتے، باقی خود کوشش کر کے پڑھتی۔ اسی تھوڑی سی مدد سے بہت کچھ سیکھنے لگی اور پھر پڑھائی لکھائی آہستہ آہستہ میرے دماغ کی گرفت میں آگئی۔ ایک وہ دن بھی آیا جب میں نے میٹرک کے امتحان کی تیاری مکمل کر لی۔ اس میں ابا نے بھی مدد کی۔ جب وقت ملتا مجھے پڑھانے بیٹھ جاتے تھے۔ میں نے امتحان دیا اور اچھے نمبروں سے کامیاب ہو گئی۔ اب تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اس کامیابی پر گھر میں سب سے زیادہ مسرورا با جان تھے۔ جب انہوں نے میری محنت اور تعلیم سے اتنی محبت دیکھی تو گھر کی بیٹھک کو کرایے پر اٹھا کر میرا داخلہ کالج میں کروادیا۔ میں نے اب اور زیادہ سنجیدگی سے پڑھائی کو مقصد زندگی بنالیا۔ جانتی تھی کہ اگر انٹر میں نمایاں کامیابی حاصل نہ کی تو آگے تعلیم جاری نہ رکھ سکوں گی۔ کالج ہمارے گھر سے کافی دور تھا، مگر یہ مسافت بھی میرے لئے گرد راہ تھی۔ جب سکینڈ ایئر میں تھی، ایک روز کالج سے چھٹی کے بعد چند سہیلیوں کے ساتھ بس اسٹاپ پر آئی۔ اسٹاپ پر کافی بھیڑ تھی۔ بسیں کھچا کھچ بھری ہوئی آرہی تھیں۔ خدا خدا کر کے ایک بس میں جگہ ملی۔ بڑی مشکل سے سوار ہو گئی۔ دو تین بس اسٹاپ گزر گئے تو بالآخر بیٹھنے کو جگہ مل گئی، تبھی ایک ادھیڑ عمر عورت سوار ہوئی۔ خواتین کی سیٹیں پر تھیں۔ وہ ذرا بھاری بھر کم تھی، کھڑے رہ کر اپنا آپا، سنبھالا نہ جارہا تھا۔ ہاتھ میں کافی بڑا بیگ بھی تھا جس کو بہت احتیاط سے اٹھائے ہوئے تھی۔ وہ میرے نزدیک ہی کھڑی تھی۔ جب بوجھ نہ سنبھال پائی تو بیگ کو کتابوں کے اوپر میری گود میں رکھ دیا اور بولی۔ بچی ذرایہ بیگ سنبھال کر رکھ لینا۔ مجھے چلتی بس میں کھڑے رہنے سے دھچکے لگ رہے ہیں۔ میں نے بیگ پکڑ لیا۔ رش بہت تھا۔ میں دیکھ رہی تھی کہ عورت بیچاری بہت تکلیف میں کھڑی، سفر کرنے پر مجبور تھی۔ ایسے میں اس کا سامان پکڑ کر مجھے روحانی خوشی ہوئی کہ چلو تھوڑی دیر کے لئے ہی اس بیچاری کا بوجھ ہلکا کر دیا۔
اگلے اسٹاپ پر عورتوں کا ایک نیا ریلا آیا۔ کچھ اتر گئیں ، نئی زیادہ چڑھ آئیں۔ اب رش پہلے سے زیادہ ہو گیا۔ یوں اسٹاپ در اسٹاپ بس چلتی رہی، عورتیں اترتی اور چڑھتی رہیں۔ جب میرا اسٹاپ نزدیک آیا تو میں نے بھیٹر میں بڑی بی کو تلاش کیا کہ ان کا بیگ ان کو تھما دوں۔ تمام عورتوں پر نظریں دوڑائیں، مگر وہ کہیں نظر نہ آئیں۔ میں پریشان ہو گئی ۔ پیچھے گھوم کر مردانہ سیٹوں کی طرف دیکھا، وہاں بھی کوئی عورت موجود نہ تھی۔ میری منزل قریب آچکی تھی اور کسی کی امانت میرے پاس تھی۔ جب اس عورت کو پانے میں ناکام ہو گئی اور بس بھی رک گئی، تب عورتوں سے پوچھا کہ یہ بیگ آپ میں سے کسی کا تو نہیں؟ کیونکہ مجھے تو ایک مسافر عورت نے پکڑایا تھا۔ کسی نے بھی ہامی نہ بھری۔ میں نے اترتے ہوئے بیگ کنڈیکٹر کو دیا اور بتادیا کہ یہ بیگ ایک مسافر عورت نے میری گود پر رکھ دیا تھا کیونکہ اسے سیٹ نہ ملی تھی۔ اترتے وقت شاید وہ مجھ سے واپس لینا بھول گئی ہے۔ ممکن ہے آپ لوگوں سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ یہ امانت تم ہی رکھ لو۔ کنڈیکٹر نے بیگ لے لیا اور میں ہلکی پھلکی ہو کر گھر کی طرف چل دی۔ ابھی چند قدم چلی تھی کہ کنڈیکٹر نے آواز دی۔ اے لڑکی، ٹھہرو۔ بس رکی ہوئی تھی اور وہ بیگ اٹھائے لپک کر میری طرف آگیا۔ یہ واپس لو اپنا بیگ۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، تو وہ میرے ہاتھ میں بیگ تھماتے ہوئے بولا۔ کس قدر چالا کی سے یہ لڑکیاں دوسروں کو بے وقوف بناتی ہیں۔ کدھر ہے تیری وہ بڑی بی بی ؟ اور یہ دیکھ کیا ہے اس میں ؟ اس نے بیگ کی کھلی ہوئی چین میں سے مجھے دکھایا۔ ایک نوزائیدہ بچہ ، سفید کپڑے میں لپٹا پڑا تھا۔ شاید اس کو کسی دوا سے بے ہوش کیا گیا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں مگر گرمی کے باعث کسمسار ہا تھا۔ میں یہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی۔ بے اختیار میرے منہ سے نکل بھائی اللہ کی قسم یہ بچہ میرا نہیں ہے، لیکن کنڈیکٹر شور مچانے لگا۔ لڑکی، تو مجھ پکڑوانا چاہتی ہے۔ یہ دھوکا کسی اور کو دینا۔ میں نہیں نہیں کر رہی تھی کہ یہ میرا بیگ نہیں ہے مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا۔ لوگ اکٹھے ہونے لگے۔ خدا جانتا ہے کہ وہ لمحات میرے لئے کس قدر قیامت خیز تھے۔ دماغ میں بھنور کی سی کیفیت تھی۔ جسم میں خون کی گردش تھم گئی تھی اور میں بت بنی کھڑی تھی۔ پسینے کے قطرے میرے چہرے پر لکیروں کی صورت بہنے لگے۔ مداری کی طرح کنڈیکٹر بیگ اٹھائے جیسے ڈگڈی بجارہا تھا۔ لوگ چاروں طرف بھیڑ کی صورت اختیار کرتے جارہے تھے اور میں حواس باختہ درمیان میں کھڑی تھی جیسے کوئی تماشے کی چیز تھی۔ وہ مجھ پر آوازیں کس رہے تھے، طرح طرح کے فقروں سے میرے کان چھلنی ہو رہے تھے۔ مجھے لگا تھا کہ یہ اس معصوم موجود کے ساتھ مجھے بھی سنگ سار کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اتنا شور تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ مرد مسافر بھی اتر کر آچکے تھے۔ ایسے ماحول میں ، میں اپنی صفائی کیسے پیش کر سکتی تھی اور میری بات کو سنتا بھی کون؟ ہجوم کو تو جیسے بھنبھنانے اور بھانت بھانت کی بات کرنے کا موقعہ مل گیا تھا۔ ان کے الفاظ تھے کہ آتشیں اسلحہ ، جو مجھ پر فقروں اور سوالات کی صورت برس رہا تھا، گویا اس ہجوم میں کوئی ایک بھی بافراست اور عقل والا شخص نہ تھا جو سب کو خاموش کروا کے طریقے کی بات کرتا۔
مجھ کو احساس نہیں تھا کہ کتنی دیر تک اس جم غفیر میں کھڑی رہی۔ میری روح فنا اور ہر احساس جیسے منجمد ہو گیا تھا صرف ایک شرمندگی کے سوا۔ لوگ کہہ رہے تھے لڑکیاں اسی لئے تو تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ تبھی دو پولیس والے اور ایک لیڈی کا لیڈی کانسٹبل ہجوم کو چیرتے میرے قریب آگئے۔ انہوں نے آتے ہی میر انام اور پتا پوچھا۔ میری زبان گنگ ہو چکی تھی اور آنسو بہہ رہ رہے تھے۔ اب میں آگے آگے پولیس والوں کے درمیان اور لوگ ہمارے پیچھے پیچھے۔ گھر سامنے موڑ مڑتے ہی تھا۔ ہم گھر پہ پہنچے۔ پل بھر میں یہ خبر ایک بم کی طرح محلے میں پھٹی ، کہ یہ کنواری لڑکی اپنا بچہ کہیں پھینک رہی تھی کہ لوگوں نے پکڑ لیا اور پولیس کو فون کر کے بلوالیا۔ محلے کی عور تیں حیرت میں ڈوبی، گنگ کھڑی تھیں۔ ان کو یقین نہیں آرہا تھا اتنی اچھی لڑکی ایسا کر سکتی ہے۔ پولیس نے محلے کے لوگوں سے میرے کردار کے بارے میں پوچھا۔ سبھی نے کہا کہ ہم نے اس لڑکی میں کبھی کوئی غلط بات دیکھی اور نہ سنی ہے۔ انہوں نے اچھے پڑوسی ہونے کا ثبوت دیا۔ اس کے بعد پولیس نے کالج سے رجوع کیا۔ پرنسپل نے بھی تعریفی سرٹیفکیٹ بنا کر دیا کہ ہمارے کالج کی یہ طالبہ اچھے کردار کی مالک ہے۔ پرنسپل صاحب یہ سر ٹیفکیٹ نہ دیتے تو شاید پولیس والے یہ بچہ میرے سر تھوپ دیتے۔ بھلا ہو ان دو اشخاص کا، جو بس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ بھی ہجوم کے ساتھ آگئے تھے شاید ان کے ضمیر نے ان کو مجبور کیا۔ پہلے تو سوچ بچار میں تھے کہ گواہی دیں یا نہیں، بعد میں کیا سوچا کہ خود پولیس اسٹیشن تک پولیس کے ساتھ گئے۔ انہوں نے گواہی دی کہ ہم خواتین کی سیٹوں کے بالکل پیچھے والی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ ایک موٹی ادھیڑ عمر عورت بس میں چڑھی تھی، جس کے ہاتھ میں بیگ تھا۔ اسے سیٹ نہیں مل سکی، اس نے تبھی بیگ اس بچی کی گود پر رکھ دیا تھا اور خود بس کے ڈنڈے کو پکڑ کر سفر کیا، لیکن رش کے سبب ہم یہ نہیں دیکھ سکے کہ وہ کب اور کہاں اتر گئی ؟ لیکن جب یہ بچی بس میں سوار ہوئی تھی اس کے ہاتھ میں صرف کتابیں تھیں۔
اس گواہی نے میرے لئے بڑا کام کیا۔ بہرحال یہاں آکر معاملہ ختم ہو گیا۔ پولیس کی تفتیش سے تو نجات مل گئی مگر جو بدنامی ہوئی، اس کو مٹایا نہیں جا سکتا تھا۔ میری تو ایسی حالت ہوئی کہ اس کے بعد کالج تو کیا جانا تھا، میں خود میں خود موجود نہ رہی جیسے میں نے اپنی ہستی کو کھو دیا ہو۔ ایک طویل عرصے تو دماغ پر اس انہونی کا اثر باقی رہا اور میں ذہنی طور پر نارمل نہ رہی۔ والد صاحب سمجھ دار تھے ،انہوں نے شفقت سے کام نہ لیا ہوتا تو شاید میں سچ مچ پاگل ہو جاتی۔ وہ بچارے سارے محلے کے سامنے کیا کم شرم سار ہوتے تھے، لیکن انہوں نے حوصلہ رکھا۔ کچھ اچھے لوگ ان کی شرافت کے معترف تھے پھر بھی گندے ذہن ہر جگہ ہوتے ہیں، ان کو کب آرام تھا۔ وہ اب بھی باتیں بناتے تھے۔ کوئی کسی کی سوچ کو پکڑ سکتا ہے اور نہ کسی کے منہ پر ہاتھ رکھا جا سکتا ہے۔ دنیا تو ہے ہی ذلت کا بازار کہ جہاں اچھائیاں بھلادی جاتی ہیں اور برائی کو پھیلانے میں لوگ پیش پیش رہتے ہیں۔ میرے ماتھے پر بدنامی کا ٹیکہ مفت میں چپک گیا۔ جانے یہ کس کی بلا تھی، جو میرے سر آئی۔ ایک یہ نقصان ہوا اور دوسرا اس سے بڑا کہ مجھے کالج سے اٹھا لیا گیا اور میں اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ گئی حالانکہ میں بہترین زرلٹ کے باعث اسکالر شپ ہولڈر تھی۔ والدین ڈر گئے تھے،زمانے کی چال بازیاں تو ایسی ہوتی ہیں کہ شرفاءان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ والدین نے میرے بیاہ کی ٹھانی مگر جب کوئی رشتہ آتا تو محلے کا کوئی بدخواہ، گزری داستان ان کے گوش گزار کر دیتا۔ میں اکیلی تو نہ تھی، میری تین بہنیں اور بھی تھیں۔ ان کو نجانے کس جرم کی سزاملی۔ خدا کا شکر کہ خالہ جان کے دل میں احساس کی شمع جل اٹھی اور انہوں نے کسی کی باتوں کی پروانہ کرتے ہوئے میری ماں کو گلے سے لگا لیا اور مجھے بہو بنا کر لے گئیں ، ورنہ تو میں شاید عمر بھر ذلت کی اسی دلدل میں دھنسی رہتی۔