شام کے بادشاہ الملک الصالح ایوبی کی عادت تھی کہ وہ رات کو بھیس بدل کر شہر کا گشت کیا کرتا تھا تاکہ لوگوں کے دکھ درد خود معلوم کر سکے۔ ایک رات وہ حسب معمول شہر میں گھوم رہا تھا کہ اس نے مسجد میں درویشوں کو دیکھا جو ایک کونے میں بیٹھے سردی سے ٹھٹھر رہے تھے اور بادشاہ کو کوس رہے تھے، ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ یہ متکبر بادشاہ خود تو عیش کر رہا ہے اور ہم غریب زمانے کی سختیاں جھیل رہے ہیں۔ اگر آخرت میں بھی اس بادشاہ کو بہشت میں جگہ ملی تو میں بہشت پر اپنی قبر کو ترجیح دوں گا۔ دوسرا کہنے لگا کہ اگر ملک صالح بہشت کی دیوار کے قریب بھی آئے گا تو میں جوتے مار مار کر اس کا سر پھوڑ ڈالوں گا۔ بادشاہ ان کی باتیں سن کر چپکے سے واپس آگیا۔ صبح ہوئی تو اس نے دونوں درویشوں کو دربار میں طلب کیا۔ جب وہ حاضر ہوئے تو ان کی بڑی تعظیم و تکریم کی اور پھر ان کو اتنا کچھ دیا کہ عمر بھر کے لیے فکر معاش سے آزاد ہو گئے۔ ان میں سے ایک نے بادشاہ سے عرض کی کہ جہاں پناہ ہم خادموں کا آپ کو کیا عمل پسند آیا کہ اس قدر الطاف واکرام کے مستحق ٹھہرائے گئے۔ بادشاہ ہنس پڑا اور کہا: میں نے آج تم سے صلح کر لی ہے۔ امید ہے کہ کل تم مجھ پر جنت کا دروازہ بند نہیں کرو گے۔