Wednesday, October 16, 2024

Badshahat | Episode 11

ٹھیک اسی لمحے ملکہ الزبتھ نے فیصلہ کیا کہ انگلینڈ کی سرحد تک جانے والے قافلے کے ساتھ وہ بھی جائے گی۔
’’بلاوجہ آپ کو زحمت ہوگی۔‘‘ شہزادی مارگریٹ نے آہستگی سے کہا۔ ’’ویسے بھی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
’’زحمت کیسی مجھے تو اچھا لگے گا۔‘‘ ملکہ نے پراعتماد لہجے میں کہا۔ ’’اور جہاں تک خرابیٔ صحت کا سوال ہے تو اب میں خود کو خاصا بہتر محسوس کر رہی ہوں۔‘‘
’’پتا نہیں ڈیڈ آپ کو اس سفر کی اجازت دیں یا نہ دیں؟‘‘ مارگریٹ نے قدرے جُزبُز ہوتے ہوئے کہا۔ ’’اور پھر دادی جان سے بھی تو اجازت لینا ہوگی۔‘‘
’’ہاں یہ تو ہے۔‘‘ ملکہ خوش دلی سے مسکرائی۔ ’’تمہارے ڈیڈ سے میں اجازت لے لوں گی، البتہ اپنی دادی جان سے تمہیں خود بات کرنی ہوگی اور میں جانتی ہوں تمہاری بات کو وہ رَدّ نہیں کریں گی۔‘‘
اور پھر ایسا ہی ہوا… اپنی چہیتی پوتی کی خواہش کو لیڈی مارگریٹ ٹال نہیں سکی تھی۔ اگرچہ بادشاہ اور لیڈی مارگریٹ اس بات کے حق میں نہ تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ ملکہ کی صحت ابھی اس قابل نہیں کہ وہ سفر کرسکے۔ مگر چاہنے والا شوہر اپنی پیاری بیوی کی بات ٹال نہ سکا تھا۔ بادشاہ کی اجازت ملتے ہی ملکہ بھی سفر پر جانے کے لئے تیار ہوگئی تھی۔
موسم قدرے گرم تھا مگر ہوائوں میں ٹھنڈک کا احساس رچا ہوا تھا۔ صبح کے نمودار ہوتے ہی یہ قافلہ منزل کی طرف رواں دواں ہوگیا تھا۔ شہزادی مارگریٹ کا جہیز ستائیس خچروں پر لدا ہوا تھا۔ آٹھ گھوڑوں کی ایک خصوصی بگھی پر شہزادی مارگریٹ اپنی ماں ملکہ الزبتھ کے ساتھ موجود تھی۔ شہزادی کے ساتھ سسرال جانے کے لئے دو خصوصی خادمائیں سویٹی اور ولیانہ بھی بگھی میں موجود تھیں، اس کے علاوہ سات سو خدام تھے جو شہزادی کے جہیز میں اس کے ساتھ جا رہے تھے۔
اس قافلے کی حفاظت کے لئے ارل آف نارتھمبر لینڈ کی سربراہی میں شاہی فوج کے چار چاق و چوبند دستے بھی ساتھ تھے۔ یہ قافلہ سست روی سے چلتا شہر سے نکل کر پہاڑی ڈھلوانوں سے ہوتا سرحدی علاقوں کی طرف رواں دواں تھا۔
’’ابھی کتنا فاصلہ باقی ہے؟‘‘ شہزادی مارگریٹ نے بگھی کی کھڑکی کے پردے کو ذرا سا سرکا کر باہر جھانکتے ہوئے، قدرے اُکتائے ہوئے لہجے میں سوال کیا۔
’’کل صبح طلوع آفتاب کے ساتھ ہی اسکاٹ لینڈ کی سرحد تک پہنچ جائیں گے۔‘‘ خادمہ سویٹی نے بتایا۔ ’’وہاں بادشاہ سلامت آپ کے استقبال کے لئے بہ نفس نفیس موجود ہوں گے۔‘‘
’’دادی جان بھی ساتھ ہوتیں تو کتنا اچھا ہوتا۔‘‘ شہزادی کو اچانک اپنی چہیتی دادی لیڈی مارگریٹ کی یاد نے آ گھیرا تھا۔
’’یقیناً وہ بھی تمہارے ساتھ آنے کی خواہش مند ہوں گی مگر اُن کی صحت اس طرح کے سفر کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یوں اُن کی دُعائیں اور نیک خواہشات ہمیشہ تمہارے ساتھ رہیں گی۔‘‘
ماں کا جواب سن کر اس نے محبت بھری اور ستائشی نظروں سے ماں کی طرف دیکھا۔ ’’مام! آپ کتنے اچھے دل کی مالک ہیں۔‘‘ اُس نے بے ساختہ اپنا سر ماں کے سینے پر رکھ دیا۔ ’’آپ کے دل میں کسی کے لئے غصہ ہے نہ نفرت اور نہ شکایت۔‘‘ وہ اپنی دادی لیڈی مارگریٹ کو اچھی طرح جانتی تھی وہ ایک سخت گیر غصیلی اور خودپسند خاتون تھی۔ اس کی مرضی کے بغیر محل میں پتّا بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ کبھی کبھی ملکہ الزبتھ کے لئے بھی اس کے فیصلے بہت سخت ثابت ہوتے تھے۔ الزبتھ اپنے بیمار بیٹے آرتھر کو خود سے دُور نہیں بھیجنا چاہتی تھی، مگر یہ لیڈی مارگریٹ کا ہی فیصلہ تھا کہ اُسے، لاڈلو کے محل میں بھیج دیا جائے۔ اس فیصلے کے باعث وہ شہزادے کے آخری لمحوں میں بھی اُس سے دُور رہی تھی۔ اس کے باوجود اس کے لہجے میں ساس کے لئے کوئی غصہ، نفرت یا شکایت نہیں تھی۔
’’یہ تینوں چیزیں ایک عورت کے بسنے میں بڑی رُکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔‘‘ الزبتھ نے اپنی چہیتی بیٹی کو ممتا بھری آغوش میں سمیٹتے ہوئے کہا۔ ’’اگر عورت کے دل میں غصہ ہوگا تو اُس سے گھر چھن جائے گا۔ نفرت ہوگی تو محبت اور شکایت ہوگی تو نعمت چھن جائے گی اور ایک عورت کے لئے سب سے بڑی نعمت اس کا شوہر ہے۔ شوہر کے بغیر ایک عورت کی زندگی بے وقعت، بے قیمت اور بے مصرف ہے۔ ایک عورت کی دُنیا اس کا گھر، اس کا شوہر اور اس کے بچے ہوتے ہیں۔ شوہر سے جڑا ہر رشتہ بیوی کے لئے اہم اور قابل احترام ہونا چاہئے… تب ہی سکون سے زندگی گزر سکتی ہے۔‘‘
نوعمر شہزادی نے اپنی ملکہ ماں کی تمام باتیں اپنے پلو سے باندھ لی تھیں اور اب اس کا دھیان دادی، بھائی، بہن اور باپ کی طرف سے ہٹ کر اپنے ہونے والے شوہر جیمز چہارم کی طرف چلا گیا تھا، گوکہ اس کی عمر خاصی زیادہ تھی، مگر وہ ایک خوش شکل اور باوقار انسان تھا۔
اگلا پورا دن اور رات سفر میں گزرا تھا۔ کہیں کہیں رُک کر کھانے پینے اور آرام کا اہتمام بھی ہوتا رہا تھا۔ خدا خدا کر کے یہ سفر اختتام پذیر ہوا۔ مشرقی اُفق پر صبح کاذب کے سنہرے دُھندلکے کے پھوٹتے ہی یہ قافلہ اسکاٹ لینڈ کی سرحد کے قریب جا پہنچا تھا۔
ملکہ الزبتھ کو یہیں سے واپس لوٹ جانا تھا۔ اُس نے اپنی لاڈلی کو گلے سے لگا کر اس کی دمکتی پیشانی پر الوداعی بوسہ دیا اور چند نصیحت بھری باتیں کرنے کے بعد دُوسری بگھی میں سوار ہوگئی۔ جونہی الزبتھ کی بگھی حفاظتی دستوں کے ساتھ واپسی کے لئے روانہ ہوئی، ٹھیک اُسی لمحے شہزادی مارگریٹ کا قافلہ اسکاٹ لینڈ کی سرحد عبور کرکے سرحدی قصبے میں داخل ہوا تھا۔
وہاں شاہ جیمز کے قافلے کے فوجی دستے منتظر تھے۔ فوجی دستوں نے اپنی نئی ملکہ کو خیرمقدمی سلامی پیش کی تھی اور شاہ جیمز چہارم نے شہزادی کی بگھی تک جا کر اسے خوش آمدید کہا۔ بادشاہ کی آنکھوں سے جھانکتا اشتیاق اور انتظار شہزادی کے لئے تقویت اور مسرت کا باعث ثابت ہوا تھا۔ ابھی ابھی ماں سے رُخصت ہونے کا درد جو آنسوئوں کی صورت اس کی آنکھوں میں تیر رہا تھا۔ یکایک اُمید اور انبساط کا احساس بن کے دمکنے لگا اور وہ اپنے ماضی کو کہیں پیچھے فراموش کر کے درخشاں مستقبل کی طرف قدم رنجہ ہوگئی۔
شہزادی مارگریٹ کو پورے شاہی احترام و اہتمام کے ساتھ شاہی قصر کے اُس حصے میں پہنچا دیا گیا تھا جو خاص طور پر اس کے لئے آراستہ کیا گیا تھا۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد خاص خادمائیں لباس عروسی اور دیگر آرائشی اشیاء لئے آموجود ہوئی تھیں… انہوں نے اسے دُلہن کا لباس زیب تن کروا کر بڑے اہتمام سے سجایا سنوارا تھا۔ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر وہ خود حیران رہ گئی تھی۔
قصر کے شاہی چرچ میں شادی کی رسم ادا کی گئی تھی۔ عمائدینِ شہر اور شاہی خاندان کے افراد کے لئے ایک پُرتکلف ضیافت کا انتظام بھی تھا۔ رات گئے اُسے اس کی خواب گاہ میں پہنچا دیا گیا تھا۔ گوکہ بادشاہ جیمز چہارم کی خواب گاہ الگ تھی، مگر وہ رات اُس نے ملکہ مارگریٹ کی خواب گاہ میں بسر کی تھی اور پوپُھٹتے ہی وہ اپنی خواب گاہ میں واپس لوٹ گیا تھا۔
٭…٭…٭
آسمان کا نیلا رنگ بادلوں کی سیاہیوں میں گم ہو چکا تھا۔ پورا آسمان سیاہ گھٹائوں سے اَٹا ہوا تھا۔ صبح کا آغاز بارش سے ہوا تھا۔ کہیں برف باری کی اطلاع بھی تھی۔ بارش کی وجہ سے سردی میں خاصا اضافہ ہوگیا تھا۔ شاید سردی کی وجہ سے ہی ملکہ الزبتھ کو بخار ہوگیا تھا اور صبح سے اس کے سینے میں ہلکا ہلکا درد بھی تھا۔ آتی جاتی سانسیں بھی تکلیف کا احساس جگا رہی تھیں۔ وہ کمبل میں لپٹی بے دَم سی بستر پر پڑی تھی۔
کمرے کے تمام دریچے بند تھے اور اُن پر دبیز پردے کھنچے ہوئے تھے۔ آتش دان میں آگ روشن تھی، اس کے باوجود کمرے میں سردی کا احساس موجود تھا۔
’’اوہ! آج سردی کچھ زیادہ ہی ہے۔‘‘ الزبتھ کی خاص خادمہ بریٹنی نے ہتھیلیوں کو باہم رگڑتے ہوئے ٹھٹھرے ہوئے انداز میں سوچا۔ پھر وہ الزبتھ کے بستر کے قریب چلی آئی۔ الزبتھ کے چہرے پر ہلدی کھنڈی ہوئی تھی اور آنکھوں کے گرد گہرے حلقے تھے۔ جواں سال بیٹے آرتھر کی موت کا غم اُسے اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ گیا تھا۔ مارگریٹ کی جدائی کا بھی اُس نے اثر لیا تھا۔ گو کہ مارگریٹ اُس سے زیادہ لیڈی مارگریٹ سے قریب تھی، مگر وہ تھی تو اس کی ماں، طے پایا تھا کہ مارگریٹ شادی کے بعد انگلستان آتی جاتی رہے گی مگر اب سال سے اُوپر ہو چکا تھا، وہ اب تک میکے نہیں آئی تھی۔ شادی کے کچھ ہی عرصے بعد وہ اُمید سے ہوگئی تھی اور ڈاکٹروں نے اُسے سفر سے منع کر دیا تھا۔ پھر اُس نے ایک بیٹے کو جنم دیا تھا۔ ملکہ الزبتھ کی خواہش تھی کہ وہ اپنے نواسے جیمز جونیئر کی پیدائش کی تقریبات میں شرکت کرنے جا سکے مگر اس کی صحت اس قابل نہیں تھی کہ وہ اتنا طویل سفر کر سکتی۔ سو وہ دل مسوس کر رہ گئی تھی۔
’’ملکہ عالیہ۔‘‘ خادمہ نے اس کی تپتی ہوئی پیشانی پر ہاتھ رکھا، تو اُس نے ذرا سی آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا۔
’’کون؟‘‘ اس کی آواز میں بے حد نقاہت تھی۔
’’میں بریٹنی… آپ کی خادمۂ خاص۔‘‘ بریٹنی نے جھک کر مؤدبانہ انداز میں سرگوشی کی۔ ’’آپ کو تو بہت تیز بخار ہے… میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں۔‘‘
’’رہنے دو بریٹنی۔‘‘ ملکہ الزبتھ نے خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’ڈاکٹروں کو دکھاتے دکھاتے… دوائیں کھاتے کھاتے میں اب تھک چکی ہوں… اب تو بس۔‘‘
’’خدا کے لئے۔‘‘ خادمہ نے تڑپ کر اس کی بات کاٹی۔ ’’ایسی کوئی بات مت کہیئے گا، ابھی تو آپ کو بہت زندہ رہنا ہے۔ شہزادی میری اور ولی عہد ہنری کی شادی دیکھنی ہے… اُن کے بچے…‘‘
’’میں تو شاید مارگریٹ کا بچہ بھی نہیں دیکھ سکوں گی۔‘‘ الزبتھ نے آنکھیں بند کرتے ہوئے سوچا۔ یہ موت بھی ہمیشہ سے اس کی دُشمن رہی تھی… بچپن میں ماں کی موت ہوگئی… جوانی میں پیٹر راڈرک کی جدائی۔ پھر اس کے بے حد چاہنے والے باپ لارڈ اسمتھ یارک کی موت اور اس کے لخت جگر آرتھر کی جواں مرگی… اب صرف وہ رہ گئی تھی کاش یہ موت اسے بھی سمیٹ لے جاتی۔
’’آپ کیا سوچنے لگیں۔‘‘ خادمہ نے دھیمے لہجے میں پوچھا۔ تب ہی دروازے پر دستک ہوئی اور شہزادی کیتھرین اندر داخل ہوئی تھی۔ شہزادی مارگریٹ کے جانے کے بعد کیتھرین نے ملکہ الزبتھ کا خاص خیال رکھنا شروع کر دیا تھا۔ زیادہ وقت وہ اس کی خواب گاہ میں اس کے ساتھ ہی گزارتی تھی۔ خود ملکہ الزبتھ بھی دھیرے دھیرے اُس سے مانوس ہوگئی تھی۔ کیتھرین کے وجود سے اسے اپنے آرتھر کی خوشبو آتی محسوس ہوتی تھی۔
’’اب آپ کیسی ہیں؟‘‘ کیتھرین نے الزبتھ کے قریب بیٹھتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں سوال کیا۔
’’ملکہ عالیہ کو تیز بخار ہے۔‘‘ خادمہ نے دھیمی آواز میں بتایا۔ ’’مگر ڈاکٹر کو بلانے سے منع کر رہی ہیں۔‘‘
’’اوہ!‘‘ کیتھرین نے الزبتھ کی پیشانی کو چھو کر دیکھا اور خادمہ کو ڈاکٹر کو اطلاع دینے کا اشارہ کیا۔ ’’ملکۂ عالیہ۔‘‘ کیتھرین نے اس کا ہاتھ اپنےہاتھ میں لیتے ہوئے نرم اور محبت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’آپ کو اپنا خیال رکھنا ہوگا… ہم سب کو آپ کی سخت ضرورت ہے۔ میرے لئے تو آپ مثل ماں کے ہیں۔‘‘
’’کیتھرین! میری بچی۔‘‘ الزبتھ نے آنکھیں کھول کر کیتھرین کی طرف دیکھا۔ ’’میں تمہیں ایک بات بتانا چاہتی ہوں۔‘‘ الزبتھ کی آواز شرمساری سے لبریز تھی۔ ’’شاید یہ بات سن کر تمہیں دُکھ ہو، مگر میرے دل سے ایک بوجھ اُتر جائے گا… میں تمہیں بتائوں… میں نے جب پہلی بار تمہیں دیکھا تھا تو تم مجھے بالکل اچھی نہیں لگی تھیں اور میں نے کوشش کی تھی کہ یہ رشتہ ختم ہو جائے۔‘‘
’’کاش آپ اپنی کوشش میں کامیاب ہو جاتیں۔‘‘ کیتھرین نے کرب بھرے انداز میں سوچا۔ آرتھر سے شادی کر کے اسے ملا ہی کیا تھا؟ شوہر کی بے رُخی اور بے وفائی کا زخم اور پھر اس کی موت کے بعد بیوگی کا یہ ویران کر دینے والا سوگ۔ ہنری جونیئر سے منگنی کے بعد اس کے دل میں ایک بار پھر اُمید کے دیے ٹمٹمانے لگے تھے… اب بھی ایک گومگو اور بے یقینی کی کیفیت تھی۔
’’مگر اب میں سوچتی ہوں۔‘‘ الزبتھ نے آنکھیں کھول کر کیتھرین کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے سچّے لہجے میں کہا۔ ’’کہ تم میرے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہو… تم ایک اچھی بیٹی اور میرے ہنری کے لئے اچھی بیوی ثابت ہوگی۔ میں اس رشتے سے بہت خوش ہوں۔‘‘
’’شکریہ ملکہ عالیہ۔‘‘ کیتھرین نے مشکور لہجے میں کہا۔
’’ملکہ عالیہ نہیں… تم مجھے مام کہو۔‘‘ ملکہ نے اصرار بھرے لہجے میں کہا۔ ’’اور اس ناتے تم اب میری بیٹی اور میری دونوں بیٹیوں کی بڑی بہن ہو۔‘‘
’’آپ کا حکم سر آنکھوں پر مام۔‘‘ کیتھرین نے سعادت مند لہجے میں جواب دیا۔ ’’میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ میری اور مارگریٹ کو ہمیشہ مثل اپنی چھوٹی بہنوں کے سمجھوں گی۔‘‘
’’مارگریٹ کا رویہ تمہارے ساتھ کبھی صحیح نہیں رہا۔‘‘ ملکہ کے دھیمے لہجے میں ہلکی سی شرمندگی تھی۔ ’’اس کے باوجود… میں چاہوں گی کہ تم…‘‘
’’آپ بے فکر رہئے۔‘‘ کیتھرین نے اس کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی جلدی سے کہا۔ ’’اب آپ آرام کیجئے… ڈاکٹر آتا ہی ہوگا… آپ کو زیادہ بولنے کی وجہ سے تھکن ہو سکتی ہے۔‘‘
٭…٭…٭
نیلا اور شفاف آسمان اسکاٹ لینڈ کے دارالحکومت پر سایہ فگن تھا۔ ہفتوں بعد بادل چھٹے تھے اور آکاش کی نیلگوں وسعتوں میں سورج کا جھلملاتا چہرہ دکھائی دیا تھا۔ ٹھٹھرا ہوا شہر حدت بھری روپہلی دُھوپ کی آغوش میں سمٹا ہوا تھا۔
اسکاٹ لینڈ کی جواں سال اور حسین ملکہ، مارگریٹ، اپنی خواب گاہ کے دریچے میں کھڑی روشن اور گرم دن کا نظارہ کر رہی تھی۔ اس کے چہرے پر ایک حزن بھری تمکنت تھی اور آنکھوں میں ایک عجب سا ملال تھا… وہ جب اس محل میں آئی تھی تو ایک نوعمر نٹ کھٹ الھڑ سی لڑکی تھی، اس کی آنکھوں میں بے شمار خواب تھے۔ نت نئے ملبوسات اور سونے کے بکل والے جوتوں کے خواب، بننے سنورنے اور اٹھلانے کے خواب۔ ملکہ بن کر راج کرنے کے خواب۔ ان خوابوں میں کہیں بھی شوہر کی وفا، محبت اور توجہ کا خواب نہیں تھا۔ وہ یہ باتیں جانتی ہی نہیں تھی مگر اب ایک سالہ شادی شدہ زندگی گزارنے کے بعد اسے یہ بات ازخود سمجھ آ گئی تھی کہ ازدواجی زندگی کا سکھ صرف شوہر کی توجہ، وفا اور محبت میں پنہاں ہوتا ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کا شوہر اُس سے محبت نہیں کرتا تھا یا توجہ نہیں دیتا تھا۔ مگر وہ اسے جتنا دیتا تھا وہ اس کے لئے بہت کم تھا۔ وہ ایک نوعمر حسین لڑکی تھی جبکہ اس کا شوہر ایک اُدھیڑ عمر کا پختہ کار مرد تھا۔ وہ ایک سلطنت کا سربراہ تھا۔ اس کا ملک مسائل میں گھرا ہوا تھا۔ وہ رات دن اپنی بادشاہت کو دوام اور استحکام دینے میں مصروف رہتا تھا۔
اسے اپنے ملک کے لئے ایک ولی عہد درکار تھا سو بیٹے کی پیدائش کے بعد اس کی یہ ضرورت پوری ہوگئی تھی۔ اُس نے انگلستان کی شہزادی سے شادی بھی ملکی مفادات کے پیش نظر کی تھی مگر جلد ہی اسے احساس ہوگیا تھا کہ اسے انگلستان کی بجائے فرانس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہئے تھا۔ انگلستان اور فرانس میں ہمیشہ سے دُوری اور چپقلش رہی تھی۔ اب وہ اس دُوری سے فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا۔
مارگریٹ کی دادی، لیڈی مارگریٹ نے دم رُخصت اُس سے کہا تھا۔ وہ اسکاٹ لینڈ ایک مشن لے کر جا رہی ہے۔ اُسے اسکاٹ لینڈ کو انگلستان کے قریب لانا ہے اور اسکاٹ لینڈ کو فرانس سے قریب ہونے سے روکنا ہے، مگر ملکہ مارگریٹ اپنے مشن میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ اس کی شادی کو دن ہی کتنے ہوئے تھے، مگر اتنے دنوں میں ہی اسے احساس ہوگیا تھا کہ وہ اپنے شوہر سے اپنی کوئی بات نہیں منوا سکتی۔ جیمز چہارم کی اپنی ایک الگ دُنیا تھی۔ اس کا بیڈروم بھی الگ تھا، شادی کے شروع کے دنوں میں اکثر وہ اس کی خواب گاہ میں آ جاتا تھا… مگر اب بیٹے کی پیدائش کے بعد کبھی کبھار ہی وہ اس کی خواب گاہ کا رُخ کرتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ مارگریٹ خود کو بہت تنہا اور آزردہ محسوس کرنے لگی تھی۔ وہ اپنی بھابھی کیتھرین کو دیکھ کر سوچتی تھی… یہ کتنی قابل رحم لڑکی ہے جو اپنا وطن، اپنے ماں باپ، بھائی بہن چھوڑ کر ہمارے گھر میں آ پڑی ہے… مگر آج وہ خود کو بھی اسی مقام پر دیکھتی تھی۔ شادی کے وقت اُس نے سوچا تھا وہ جلد جلد انگلستان آتی جاتی رہے گی۔ اس کی خوشی کی خاطر اس کے بادشاہ شوہر نے انگلستان میں اس کے لئے ایک شاندار ولا بھی خریدا تھا۔ مگر وہ جب سے یہاں آئی تھی دوبارہ جا ہی نہیں سکی تھی۔ اب بیٹے کی پیدائش کے بعد بھی جانے کی کوئی صورت نہیں بن پا رہی تھی۔
تب ایک دن اسے کیتھرین کا پیغام ملا تھا۔ ’’میری پیاری بہن! ہماری ماں کی بہت طبیعت خراب ہے اگر آسکو تو آ جائو۔‘‘
اُس نے کئی بار اس پیغام کو پڑھا تھا۔ اس کی ماں کو وہ ماں کہہ رہی تھی اور اُسے بہن… پرانا وقت ہوتا تو اس پیغام کو پڑھ کر وہ غصے سے آگ بگولا ہو جاتی… مگر آج اس کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی اور اُس نے وہ تحریری پیغام بادشاہ کی خدمت میں بھجوایا تھا۔
’’تم جانا چاہو تو جا سکتی ہو۔‘‘ جیمز چہارم نے خشک لہجے میں جواب دیا۔ ’’مگر ولی عہد ابھی بہت چھوٹا ہے وہ اتنے لمبے سفر کا متحمل نہیں ہو سکے گا۔‘‘
’’کیا مطلب ہے آپ کا؟‘‘ ملکہ مارگریٹ نے حیرانی سے پوچھا۔ ’’آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ شہزادہ یہیں رہے گا۔‘‘
’’ہاں ایسا ہی ہے…‘‘ بادشاہ نے دو ٹوک لہجے میں جواب دیا۔ ’’ویسے بھی تمہاری ماں کی طبیعت خراب ہے… تم جائو… یہ بچہ وہاں کیا کرے گا؟‘‘
’’آپ شاید بھول رہے ہیں یہ بچہ میرا بھی ہے۔‘‘ ملکہ نے کرب بھرے لہجے میں کہا۔
بادشاہ بے نیازی سے کاندھے اُچکا کر گویا ہوا۔ ’’بے شک ہے… مگر یہ ابھی بہت چھوٹا ہے۔ اسے توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت ہے… جب بڑا ہو جائے گا تو تم بے شک اپنے ساتھ لے جانا۔‘‘
ملکہ مارگریٹ کو خاموش ہو جانا پڑا تھا، مگر یہ خاموشی بے بسی اور اُداسی بن کر اس کے دل میں اُتر گئی تھی اور اگلے دن صبح سویرے وہ بادشاہ کے ذاتی شاہی بیڑے کے ذریعے انگلستان کے لئے روانہ ہوگئی تھی۔
یہ محل جہاں وہ پیدا ہوئی تھی جہاں اس کا بچپن گزرا تھا… جہاں پہلی بار اس کا دل دھڑکا تھا… اس کی آنکھوں نے خواب دیکھنا سیکھا تھا… جہاں اس کی بے حد پیاری دادی تھی۔ محبت کرنے والا باپ، ممتا نچھاور کرنے والی ماں، پیارا بھائی اور ننھی سی پیاری بہن تھی مگر آج یہ محل اسے کس قدر انجانا اور اَجنبی لگ رہا تھا۔
لیڈی مارگریٹ کے گلے لگ کر وہ بے اختیار رو پڑی تھی۔ ’’میں تم سے یہ نہیں پوچھوں گی کہ خوش ہو؟‘‘ لیڈی مارگریٹ نے اس کے کانوں میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔ ’’مگر یہ ضرور کہوں گی کہ خوش نظر آنے کی کوشش کرو… تمہاری ماں تمہیں خوش دیکھنا چاہتی ہے۔‘‘
اور ملکہ مارگریٹ نے ہمیشہ کی طرح دادی کی بات کو مان لیا تھا۔ پلکوں پر سجے ہوئے آنسو پونچھ کر، ہونٹوں پر جھوٹی مسکراہٹ سجا لی تھی۔
ملکہ الزبتھ اپنی بیٹی ملکہ مارگریٹ کو سینے سے لگا کر بے ساختہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔ مگر اُس نے اشکوں کے سیل بیکراں کو پلکوں کی باڑھ توڑ کر باہر نہیں آنے دیا تھا۔ آٹھ سالہ میری اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی تھی اور اس کے بڑے بھائی کی بیوہ اور چھوٹے بھائی کی منگیتر شہزادی کیتھرین دُور کھڑی ڈُبڈبائی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ اس کے قریب چلی گئی۔
’’میں نے خط میں تمہیں بہن لکھا… تم نے برا تو نہیں مانا۔‘‘ اُس نے ہچکچاہٹ بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ ملکہ مارگریٹ فراخدلانہ انداز میں مسکرائی۔ ’’اب میں نے تمہیں اپنی بہن مان لیا ہے۔‘‘
’’کیا واقعی۔‘‘ شہزادی میری کے کان کھڑے ہوئے … ’’آپ نے تو کہا تھا یہ ہماری بھابی ہیں؟‘‘
’’اب ہم تینوں بہنیں ہیں۔‘‘ مارگریٹ نے بازو پھیلائے اور کیتھرین اور میری کو ایک ساتھ اپنے بازوئوں کے حصار میں لے لیا۔ ملکہ الزبتھ کے بیمار چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ بکھر گئی۔ ملکہ مارگریٹ کے آجانے سے ملکہ الزبتھ کی حالت خاصی سنبھل گئی تھی۔
شاہ انگلستان ہنری ہفتم آج کل ناصرف بیوی کی بیماری کی وجہ سے پریشان تھا بلکہ فرانس کی طرف سے بھی خاصا متفکر تھا۔ اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ کا فرانس کی طرف جھکائو دیکھ کر بھی وہ خاصا مایوس ہوا تھا۔ اگرچہ اس کی بیٹی ایک بیٹے کی ماں بن چکی تھی۔ مگر اسے اس وقت اسے دیکھ کر کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی تھی۔ جس مقصد کے تحت اُس نے اپنی نوعمر بیٹی ایک اُدھیر عمر شخص کے ساتھ بیاہ دی تھی… وہ مقصد پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ اس سلسلے میں مارگریٹ سے بات کرنا چاہتا تھا مگر اس کی جہاندیدہ ماں لیڈی مارگریٹ نے اسے روک دیا تھا۔
’’وہ پہلی بار گھر آئی ہے اور پھر اُس سے یہ سب باتیں کرنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے… میں خود وقت دیکھ کر اُسے کچھ سمجھانے کی کوشش کروں گی۔‘‘ لیڈی مارگریٹ نے بیٹے کے کاندھے پر ہاتھ کا دبائو ڈالتے ہوئے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
’’آپ کی یہ بات بالکل دُرست ہے۔‘‘ بادشاہ ہنری ہفتم نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’کہ مارگریٹ سے کچھ کہنے سننے کا کوئی فائدہ نہیں… جیمز پختہ عمر کا گھاگ آدمی ہے۔ وہ ہر فیصلہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق کرتا ہے۔‘‘
شہزادی مارگریٹ جو اب اسکاٹ لینڈ کی ملکہ بن چکی تھی، کم عمر اور ناسمجھ تھی… مگر شادی شدہ زندگی کے اِن ماہ و سال نے اسے اندر ہی اندر خاصا پختہ کار اور سمجھ دار بنا دیا تھا۔ وہ محسوس کر رہی تھی کہ اس کا باپ اس کے شوہر کے ذکر پر کچھ زیادہ خوش نہیں ہوا تھا۔ وہ اس بات پر بھی ناخوش تھا کہ جیمز نے چند ماہ کے بچے کو اپنے پاس رکھ لیا تھا، جبکہ ملکہ مارگریٹ اپنے بچے کو اپنے ساتھ لے کر آنے کا حق رکھتی تھی۔
’’ملکۂ عالیہ کیسی ہیں آپ؟‘‘ ملکہ مارگریٹ کی جب اپنے اکلوتے بھائی ہنری جونیئر سے ملاقات ہوئی تو اُس نے اُسے تعظیم دیتے ہوئے شریر لہجے میں کہا تو وہ بے ساختہ مسکرا اُٹھی تھی۔
’’اسکاٹ لینڈ کا بادشاہ یعنی تمہارا شوہر تمہارا خیال تورکھتا ہے نا؟‘‘ اُس نے دھیمے لہجے میں سوال کیا۔ ’’اگر کچھ گڑ بڑ کرے تو مجھے بتانا میں اس کے کان کھینچوں گا۔‘‘
ہنری کی پُر مزاح انداز میں کی گئی بات پر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔ اُسے یاد نہیں آ رہا تھا کہ وہ آج کتنے عرصے بعد اس طرح کھل کر ہنسی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے لب تو جیسے ہنسنا ہی بھول گئے تھے۔
ملکہ مارگریٹ کی آمد کے اگلے دن ملکہ الزبتھ کی اچانک ہی طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ اُس وقت کیتھرین اس کے پاس تھی۔ اُس نے فوری طورپر ڈاکٹروں کو بلوا بھیجا تھا۔ مارگریٹ اور میری بھی پہنچ گئی تھیں۔ ڈاکٹرز اپنی سی کوششوں میں لگے ہوئے تھے، مگر طبیعت سنبھلنے کی بجائے بگڑتی ہی جا رہی تھی۔ اس کا سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ سانسیں سینے میں نہیں سما رہی تھیں۔ اُس نے بمشکل تمام اشاروں اور ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا وہ اپنے شوہر بادشاہ ہنری ہفتم سے چند لمحے تنہائی میں کچھ کہنا چاہتی تھی۔ ہنری کو جیسے ہی اطلاع ملی وہ اپنی تمام مصروفیات چھوڑ کر بیوی کے پاس چلا آیا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی والدہ لیڈی مارگریٹ بھی تھی۔ ملکہ الزبتھ کی خواہش کے احترام میں سب لوگ کمرے سے باہر چلے گئے تھے۔ اب کمرے میں صرف ہنری ہفتم اور ملکہ الزبتھ رہ گئے تھے۔
’’میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔‘‘ ملکہ نے اُکھڑتی سانسوں کے درمیان رُکتے تھمتے کہنا شروع کیا۔ ’’میں نے … کبھی آپ سے بے وفائی نہیں کی۔ اور آپ کے بعد کبھی کسی اور کو نہیں چاہا… مگر… آپ سے پہلے…‘‘
ہنری ٹیوڈر نے چونک کر بیوی کے زرد چہرے کی طرف دیکھا۔ ’’کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ بادشاہ حیران اور بے یقین لہجے میں پوچھ رہا تھا۔ ’’تم کہنا کیا چاہ رہی ہو؟‘‘
’’آپ سے پہلے… میں کسی اور کو چاہتی تھی۔‘‘ ملکہ نے نحیف آواز میں بمشکل جملہ مکمل کیا۔ ’’میں مرنے سے پہلے آپ کے سامنے اس سچ کو… بیان کر دینا چاہتی ہوں۔‘‘
یہ بات تو ہنری خود بھی جانتا تھا مگر الزبتھ کے محبت اور وفائوں بھرے رویوں نے ہمیشہ اس بات کی نفی کی تھی… اب تو یہ خیال، خیالِ رفتہ ہوگیا تھا۔ جواں سال بیٹے کی موت نے عزیز دوست کے پرانے غم کو کب کا بھلا دیا تھا۔ مگر یہ اس کی شریک حیات جس نے اس کے ساتھ ایک عمرگزاری تھی۔ وہ کیا کہہ رہی تھی؟ وہ کسی
اور کی چاہت کا اقرار کر رہی تھی… کون تھا وہ رقیب رُوسیاہ؟ اس کا وہ عزیز دوست، دستِ راست وہ خوبصورت غزلوں کا خالق… وہ دل میں اُتر جانے والے نغموں کا شاعر … پیٹر راڈرک، تو پیٹر کے نوکر نے جوکچھ کہا درست تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ شادی کے خواب بن رہے تھے… یہ تو دھوکا تھا… کھلا دھوکا… اسے اپنے سینے میں کوئی چیز چھناکے سے ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔ الزبتھ کے نحیف و نزار ہاتھوں میں دبے اس کے ہاتھ، اسے بے جان سے محسوس ہو رہے تھے ،ایک دم اُس نے اپنے ہاتھ کھینچ لئے تھے۔
’’میں جانتی ہوں کہ آپ نے۔‘‘ ملکہ نے نقاہت بھری آواز میں کچھ اور بتانے کی کوشش کی مگر اب بادشاہ مزید کچھ سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ جس عورت کو اُس نے رُوح کی تمام تر سچائیوں سے چاہا وہ عورت توکسی اور کی چاہت کا دَم بھرتی رہی تھی۔
’’آپ یقین کریں آپ سے شادی کے بعد…‘‘
’’بس۔‘‘ بادشاہ نے سرد لہجے میں کہا۔ اور اپنی جگہ سے ایک دَم اُٹھ کھڑا ہوا۔
’’کیا میں نے اپنے شوہر کے سامنے سچائی کا اعتراف کر کے غلطی کی؟‘‘ ملکہ سُن ہوتے ہوئے دماغ کے ساتھ سوچ رہی تھی۔ ’’مگر اب میری رُوح پر کوئی بوجھ نہیں۔‘‘ اس نے آہستگی سے آنکھیں بند کر لیں۔
بادشاہ کے باہر نکلتے ہی باقی سب لوگ اندر داخل ہوگئے تھے۔ لیڈی مارگریٹ نے بیٹے کے بدلتے تیور محسوس کر لئے تھے مگر یہ وقت اس کے پیچھے جانے کا نہیں تھا۔ اس لئے وہ لب دم بہو کے پاس چلی آئی تھی۔ ہنری جونیئر بھی ماں کے قریب موجود تھا۔
’’ہنری!‘‘ ملکہ نے اپنا ہاتھ بیٹے کی طرف پھیلایا۔ ’’میرے بیٹے…‘‘
’’مام…‘‘ ہنری ماں کے اور قریب آ گیا۔
’’اپنی چھوٹی بہن… میری کا خیال رکھنا۔‘‘ الزبتھ نے اپنی آٹھ سالہ بیٹی کی طرف نیم وا آنکھوں سے دیکھا۔
’’آپ یقین رکھیں… میں ہمیشہ اس کا خیال رکھوں گا۔‘‘ ہنری نے ننھی شہزادی کو خود سے لگاتے ہوئے پورے یقین سے جواب دیا تھا۔
’’مارگریٹ اور کیتھرین… کا بھی خیال… رکھنا۔‘‘ ہنری کے ہاتھ میں دَبے ملکہ کے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی تھی۔ تیز تیز چلتی سانسیں ایک دَم سے رُک گئی تھیں اور نیم وا آنکھیں ہنری کے چہرے پر جم گئی تھیں۔
باہر تیز بارش ہو رہی تھی۔ آسماں بھی محوِ گریہ تھا۔ ہوائوں کے تیز جھکڑ بین کرتے محسوس ہو رہے تھے۔ ہر سو ایک عجب رنج و اَلم کا عالم تھا… وہ محبت کرنے والی ماں، فرمانبردار بہو اور شوہر کی تابع دار بیوی… دُنیا سے رُخصت ہوگئی تھی۔ جواں بیٹے کی موت کا صدمہ آخرکار گھن کی طرح اُسے چاٹ گیا تھا اور ان آخری لمحوں میں شوہر کی آنکھوں سے جھانکتی بے اعتباری اسے بالکل مٹا گئی تھی۔ وہ جان سے گزر گئی تھی… ملکہ الزبتھ موت سے لڑتے لڑتے آخرکار ہار گئی تھی۔
٭…٭…٭
تمام رات برسات ہونے کےبعد صبح دم آسمان قدرے کھل گیا تھا۔ بادل چھٹ گئے تھے۔ آتش دان کی آگ قدرے سرد پڑ گئی تھی… اسی لئے کمرے کی خوابناک فضا میں سردی کا احساس بڑھ گیا تھا… لارڈ بولین نے دریچے پر تنا دبیز پردہ ذرا سا سرکا کر باہر جھانکا، پھر پلٹ کر کمرے کے وسط میں پڑے چھپرکھٹ کی طرف دیکھا۔
چھپرکھٹ پر اس کی چہیتی بیوی جین بولین لیٹی تھی اور اس کے پہلو میں اس کی یک سالہ بیٹی این بولین محوِ خواب تھی۔ پچھلے برس جب شہزادی مارگریٹ کے قافلے کے ساتھ جانے کے لئے شاہ ہنری ٹیوڈر نے اُسے طلب کیا تھا۔ اُن دنوں یہ بچی تولد ہونے والی تھی اور بادشاہ نے اسے ان دنوں اپنی بیوی کے پاس رہنے کی اجازت دے دی تھی۔
’’میں بادشاہ سلامت کی اس عنایت اور مہربانی کو کبھی فراموش نہیں کر سکوں گا۔‘‘ لارڈ بولین نے دل کی گہرائیوں سے کہا۔ ’’اور اس وقت یہ ذمے داری نبھا نہ سکنے پر میں تاحیات، افسردہ رہوں گا۔‘‘
’’اس بات کو اب بھول جائو۔‘‘ بادشاہ نے فراخدلی سے کہا۔ ’’البتہ بچّے کی پیدائش کی خوشی میں ہمیں شریک کرنا نہ بھولنا۔ اب تم جا سکتے ہو۔‘‘
اور ٹھیک تین دن بعد لارڈ بولین کی بیوی جین بولین نے ایک چاند سی بچی کو جنم دیا تھا۔ پچھلے الم ناک تجربوں کے باعث وہ دونوں بے حد خوفزدہ تھے اور خداوند کریم سے نومولود کی طویل عمری کی دُعا مانگ رہے تھے اور خدا نے اُن کی دُعا قبول کر لی تھی۔ اس بار اُن کی بچی زندہ سلامت اور صحت مند و توانا تھی۔ بولین نے جب اپنی بیٹی کا چہرہ دیکھا، تو دیکھتا ہی رہ گیا… اُس نے اپنی زندگی میں اب تک اتنی حسین بچی نہیں دیکھی تھی۔
’’جین! کیا یہ ہماری ہی بچی ہے؟‘‘ اُس نے حیرانی سے اپنی بیوی سے پوچھا۔
’’یہ ہمارے خدا کا احسان ہے۔‘‘ جین نے بچی کو سینے سے لگاتے ہوئے جواب دیا تھا۔
ساتویں دن بچی کے نام رکھنے کی رسم کی تقریب میں لارڈ نے خاص طور پر بادشاہ کو مدعو کیا تھا اور اس کی خوشی میں شریک ہونے کے لئے بادشاہ بہ نفسِ نفیس تقریب میں شریک ہوا تھا۔ بادشاہ بچی کا حسن اور رعنائی دیکھ کر مسرور ہوا تھا اور اُس نے ہی اس کا نام۔ ’’این بولین۔‘‘ تجویز کیا تھا۔
اب این بولین ایک سال سے کچھ اُوپر کی ہوگئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ مزید خوبصورت اور رعنا ہوتی جا رہی تھی۔ وہ اپنے ماں باپ کی آنکھوں کی روشنی اور دل کا قرار تھی۔ خاص طور پر لارڈ بولین اپنی اکلوتی بیٹی این بولین کو بے تحاشا چاہتا تھا۔ اسے دیکھےبغیر وہ ایک پل بھی چین سے نہیں رہ پاتا تھا۔ صبح اُٹھتےہی سب سے پہلے وہ اپنی پیاری بیٹی کا چہرہ دیکھنا پسند کرتا تھا، اس وقت بھی وہ این کے بستر کے قریب کھڑا اس کے چہرے سے چادر اُٹھائے جانے کا منتظر تھا۔ ایک خادمہ نے آگے بڑھ کر بچی کے چہرے سے کپڑا ہٹا دیا تھا۔ لارڈ کو یوں محسوس ہوا کہ نیم تاریک کمرہ ایک دم روشن ہوگیا ہو… اُس نے جھک کر بے ساختہ بچی کی پیشانی کا بوسہ لے لیا تھا۔
’’آپ کی این کے لئے محبت دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔‘‘ جین بولین نے تنبیہی انداز میں کہا۔ ’’آپ جانتے ہیں نا اس کے پانچ سال کے ہوتے ہی میں تعلیم و تربیت کے لئے اسے فرانس بھیجنے کا تہیہ کیے بیٹھی ہوں۔‘‘
’’میں اس کا باپ ہوں دُشمن نہیں۔‘‘ لارڈ بولین محبت بھرے لہجے میں گویا ہوا۔ ’’اس کی تعلیم و تربیت کی راہ میں کبھی میری محبت حائل نہیں ہوگی۔‘‘
تب ہی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی تھی۔ لارڈ اور لیڈی جین نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا۔ اجازت ملتے ہی ایک خادمہ اندر داخل ہوئی تھی۔
’’سر! ایک بُری خبر ہے۔‘‘ خادمہ نے سر جھکا کر دھیمی آواز میں کہا۔ ’’بادشاہ سلامت کے قصر سے ایک پیامبر آیا ہے۔‘‘
’’خدا خیر کرے۔‘‘ لیڈی جین جلدی سے بولی۔ ’’جلد بتائو وہ کیا پیام لایا ہے۔‘‘
’’دائمی بیماری کے بعد رضائے الٰہی سے ملکہ عالیہ انتقال فرما گئی ہیں۔‘‘
’’کیا؟‘‘ لیڈی جین ایک دَم چیخ اُٹھی تھی۔ الزبتھ سے اس کی بڑی پرانی دوستی تھی۔ بچپن سے جوانی تک وہ دونوں ایک ساتھ، ایک ہی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرتی رہی تھیں۔ الزبتھ گوکہ عمر میں اُس سے خاصی بڑی تھی مگر دونوں کے مابین بے حد ذہنی ہم آہنگی موجود تھی۔ شادی کے بعد الزبتھ اپنی دُنیا میں گم ہوگئی تھی مگر پرانی دوستی کونہیں بھولی تھی… وقتاً فوقتاً وہ دونوں ملتی رہتی تھیں۔ مگر آج الزبتھ کی موت کی خبر نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔
لارڈ کو بھی جھٹکا لگا تھا۔ ’’ہمیں فوراً بادشاہ سلامت کے حضور پیش ہونا چاہئے۔‘‘ اُس نے گلوگیر آواز میں بیوی سے کہا۔
’’ہاں ٹھیک ہے۔‘‘ لیڈی جین نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’میں این کو آیا کے حوالے کرتی ہوں، تب تک آپ تیارہو جایئے… ہمیں ابھی نکلنا ہوگا۔‘‘
ننھی این بولین کو اس کی آیا کے حوالے کرکے وہ دونوں شاہی قصر کی طرف روانہ ہوگئے تھے۔
٭…٭…٭
مغموم سی چاندنی میں قصر شاہی کے اُونچے مینارے آزردہ سے کھڑے تھے۔ قصر کے در و دیوار پر اُداسی بال کھولے سو رہی تھی۔ قصر کی وسیع راہداریوں میں بھٹکتی ہوائیں سسکیاں بھرتی محسوس ہوتی تھیں۔ ملکہ الزبتھ کے انتقال کے بعد قصر کی دُنیا ہی بدل گئی تھی۔ ہر شے اُداسی کے غبار میں لپٹی رنجیدہ و آبدیدہ سی دکھائی دیتی تھی۔ خود بادشاہ بے حد افسردہ اور غم زدہ تھا۔
یہ سچ تھا کہ ہنری نے الزبتھ سے شادی محض اس کے خاندانی پس منظر کی بنا پر کی تھی اور اس شادی کے چکر میں اسے پیٹر راڈرک جیسا اپنا عزیز دوست بھی کھونا پڑا تھا، مگر شادی کے بعد اسے احساس ہوا تھا کہ اُس نے کسی بھی طور گھاٹے کا سودا نہیں کیا تھا۔ الزبتھ یارک اس کے لئے ایک اچھی وفادار محبت کرنے والی شریکِ حیات ہی نہیں بلکہ ایک بہترین دوست، ایک مدبر مشیر اور دُکھ سکھ میں ساتھ دینے والی ساتھی ثابت ہوئی تھی۔ الزبتھ کی وجہ سے اسے ازدواجی زندگی اور اولاد کا سکھ ملا تھا۔
ہنری اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا۔ آنکھ کھولنے کے بعد سے اب تک اُس نے ماں کے رشتے کے علاوہ کوئی اور رشتہ نہیں دیکھا تھا۔ اس حوالے سے یہ رشتہ اس کے لئے بے حد اہم اور عزیز تھا۔ اس کی ماں لیڈی مارگریٹ کسی قدر خودپسند، خودسر اور ضدی خاتون تھیں مگر الزبتھ نے کبھی اس کے ساتھ اختلاف کی نوبت نہیں آنے دی تھی۔ ہمیشہ ہی ساس کے ہر حکم پر سر جھکایا تھا۔ اسے اگر شوہر عزیز تھا تو اس کی ماں بھی پیاری تھی۔ خود لیڈی الزبتھ نے بھی کبھی الزبتھ کو ناپسند نہیں کیا تھا۔
اب وہ الزبتھ دُنیا میں نہیں رہی تھی اور ہنری ٹیوڈر ہفتم خود کو بے حد تنہا محسوس کر رہا تھا… اس کی بڑی بیٹی مارگریٹ کچھ دن رُک کر واپس اسکاٹ لینڈ چلی گئی تھی۔ ہنری جونیئر اپنے مصاحبِ خاص تھامس والسے کے ساتھ اپنی مصروفیات میں مگن ہوگیا تھا۔ رات دیر تک وہ کتابیں پڑھتا، شعر و شاعری کرتا، نئی دُھنیں مرتب کرتا یا اکثر والسے کے ساتھ شکار پر نکل جاتا۔ یہ سب کرنے کے باوجود اُس نے ماں سے کئے گئے وعدے کوہرگز نظرانداز نہیں کیا تھا۔ وہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر اکثر ننھی شہزادی میری کے ساتھ وقت گزارتا۔ اُس سے باتیں کرتا اور اس کی باتیں سُنتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہنری کی اپنی چھوٹی بہن میری ٹیوڈر سے اُنسیت بڑھتی جا رہی تھی۔ درحقیقت وہ ایک محبت کرنے والا انسان تھا اور رشتوں کا احترام کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔
وہ اپنے بڑے بھائی آرتھر سے بھی بے حد لگائو رکھتا تھا اور اس کی بے وقت موت نے اُسے کافی عرصے ڈسٹرب رکھا تھا۔ اس کی بیوہ سے شادی کرنے کے لئے اس کی رضامندی میں ایک یہ بات بھی شامل تھی کہ آرتھر کی رُوح کو سکون ملے گا کہ اس کی بیوہ بے سہارا اور بے آسرا نہیں رہی۔
مارگریٹ کی شادی سے پہلے، ہنری ٹیوڈر کی اُس سے بہت دوستی تھی اور اب بھی وہ اس کا بہت خیال رکھتا تھا اور جہاں تک ننھی میری کا تعلق تھا رفتہ رفتہ اُس نے اُسے اپنی ذمے داری سمجھنا شروع کر دیا تھا۔
ملکہ الزبتھ نے مرنے سے قبل کیتھرین سے وعدہ لیا تھا کہ وہ مارگریٹ اور میری کو اپنی بہنیں تصور کرے گی۔ کیتھرین اپنے وعدے پر قائم تھی۔ مارگریٹ تو خیر اپنے وطن سدھار گئی تھی۔ اب صرف میری رہ گئی تھی… کیتھرین میری سے بے حد محبت اور اپنائیت سے پیش آتی تھی۔ خود میری ایک بے حد پیاری اور معصوم سی بچی تھی، وہ شروع سے ہی کیتھرین کو پسند کرتی تھی۔ اب اُن دونوں کے مابین بہت مضبوط محبت اور پسندیدگی کا رشتہ قائم ہو چکا تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے دو سال بیت گئے۔
اس دوران مارگریٹ ایک اور بیٹے کی ماں بن چکی تھی۔ دُوسرے بیٹے کی پیدائش کے بعد جیمز چہارم بالکل ہی ملکہ مارگریٹ سے لاتعلق ہو گیا تھا۔ شروع سے ہی اس کی خواب گاہ الگ تھی پہلے وہ ہفتہ دس دن میں کبھی بیوی کی خواب گاہ کا رُخ کرلیتا تھا اب تو گویا وہ ملکہ مارگریٹ کو بالکل بھلا بیٹھا تھا۔
جوں جوں بچے بڑے ہو رہے تھے اس کی پوری توجہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور اپنی حکومت اور بادشاہت پر تھی۔ بچوں کے لئے خدام، خادمائیں، اتالیق اور اُستاد مقرر تھے۔ ہفتے میں صرف ایک دن وہ ماں سے ملنے آ سکتے تھے۔ اُن کی مصروف زندگی اور باپ کی بے پناہ توجہ اور محبت نے انہیں ماں کی طرف سے بالکل لاتعلق اور لاپروا کر دیا تھا۔ خاص طور پر بڑا شہزادہ جیمز جونیئر، ماں سے خاصا بدظن دکھائی دیتا تھا۔ مارگریٹ کا کئی بار دل چاہتا کہ وہ اپنے بیٹے سے پوچھے… وہ اُس سے اتنا اُکھڑا اُکھڑا کیوں رہتا ہے مگر ہر بار وہ یہ سوچ کر خاموش ہو جاتی کہ بچے کے ذہن پر کوئی بُرا اثر نہ پڑے۔
٭…٭…٭
وقت اپنے مخصوص انداز میں آگے بڑھ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پانچ برس بیت گئے۔
شاہی محلات کے خاموش اور اُداس ایوانوں اور دالانوں میں ایک دَم ہنری ٹیوڈر اور کیتھرین کی شادی کا غلغلہ انگڑائی لے کے بیدار ہوگیا تھا۔
آرتھر اور ملکہ الزبتھ کی موت کے برسوں بعد شاہی قصر کے دروازے پر پہلی خوشی نے دستک دی تھی۔ اور شاہی خاندان کا ہر فرد اس شادی کو دل و جان سے انجوائے کرنے کامتمنی تھا۔ خود شاہِ انگلستان ہنری ہفتم کی خواہش تھی کہ یہ شادی روایتی انداز میں بے حد دُھوم دھام سے منعقد کی جائے۔
لیکن یہاں ایک بڑا مسئلہ رومی کلیسا سے اس شادی کی اجازت لینا تھا، کیونکہ کیتھرین ہنری کے بھائی کی بیوہ تھی اور مذہباً اس سے شادی کرنا ممنوع تھا۔ شاہ انگلستان، ہنری ہفتم نے اپنے خاص نمائندے وولزی کو پوپ کے پاس بھیجا۔ وولزی نے پوپ سے ساری صورتحال بتا کر شادی کی اجازت مانگی اور اس کی خدمت میں تحفے کے طور پر ایک خطیر رقم نذر کی۔ پوپ نے پرانے قانون کو منسوخ کر کے ایک خاص معافی نامے کے ذریعے ہنری جونیئر کو اپنی بھابی کیتھرین سے شادی کی اجازت دے دی تھی۔
لیڈی مارگریٹ نے شادی کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ ملکہ مارگریٹ کو بھی شادی میں شرکت کا بلاوا اسکاٹ لینڈ بھیج دیا گیا تھا۔ کیتھرین کے والدین اس شادی میں شرکت کے لئے اسپین سے آ رہے تھے۔ فرانس آئرلینڈ اور نیدرلینڈ کے حکمران بھی مدعو تھے۔
اس شادی کے لئے سب سے زیادہ خوش اور پُرجوش شہزادی میری ٹیوڈر تھی جس نے ابھی نیا نیا عنفوانِ شباب میں قدم رکھا تھا۔ وہ سنہری زلفوں، نیلی آنکھوں والی ایک حسین و جمیل لڑکی تھی۔
(جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS