’’جو حکم سرکار…!‘‘ سپاہی حکم پاتے ہی گھوڑے دوڑاتے ہوئے ان کی طرف لپکے۔ رچرڈ سوم اور جوزف کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اچانک کئی سپاہی گھوڑے دوڑاتے انہیں آلیں گے۔
’’ہمیں واپس جانا چاہئے۔‘‘ جوزف کی آواز میں خوف کی رمق شامل تھی۔
یوں بے سوچے سمجھے بے دھڑک نکل پڑنے پر اب رچرڈ سوم کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہورہا تھا۔ تھامس اسٹینلے کے سپاہی تاریک رات اور سخت موسم میں بھی اس طرح چوکنا اور مستعد ہوں گے، انہیں قطعاً اندازہ نہ تھا ورنہ وہ ہنری ٹیوڈر کے خیموں تک پہنچنے کے لئے کوئی اور راستہ اختیار کرتا۔
’’ہمیں فوراً واپس چلنا چاہئے۔‘‘ جوزف نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا اور یکبارگی واپسی کے لئے گھوڑا موڑ دیا۔ بادشاہ نے بھی اپنا گھوڑا جوزف کے پیچھے لگایا اور دونوں واپسی کے لئے پلٹ پڑے، مگر پیچھے آنے والے سپاہیوں کے گھوڑے ان کے گھوڑوں سے زیادہ تیز رفتار ثابت ہوئے۔ وہ لمحوں میں ان کے سر پر پہنچ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے انہیں گھیر لیا۔ راہ فرار مسدود ہوچکی تھی۔ گویا موت ان کے بہت قریب پہنچ چکی تھی۔ گھور تاریکی میں تیز دھار والے دو خنجر لہرائے اور چشم زدن میں دونوں کے سر تن سے جدا ہوکر جھاڑیوں میں گم ہوگئے۔ ان کے سر سے محروم دھڑ لمحہ بھر کو گھوڑوں کی پشت پر لہرائے پھر زمین بوس ہوکر تڑپنے لگے۔ سواروں کے زمین بوس ہوتے ہی گھوڑے ہنہناتے ہوئے مخالف سمت کی طرف دوڑ پڑے۔ بارش میں تیزی آگئی تھی۔ لارڈ کے سپاہی ان کی لاشوں کو دیکھے اور بریدہ سروں کو تلاش کئے بغیر ہی واپس پلٹ گئے۔ شاہ رچرڈ کے لشکر کی طرف سے آنے والے جاسوس قتل کردیئے گئے تھے۔ اس وقت کے لئے اتنا کافی تھا، مقتولین کی شناخت کا کام انہوں نے دن چڑھنے اور اجالا ہونے تک کے لئے ملتوی کردیا تھا۔
لارڈ تھامس اسٹینلے کے ان سپاہیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان میں سے کسی کے خنجر نے تاج دار انگلستان شاہ رچرڈ سوم کا سر قلم کرکے یوں لمحوں میں انگلستان کی تاریخ کا رخ موڑ دیا تھا۔ انگلستان میں اگلی صبح اپنی جلو میں نئے دور کی نوید لے کر نمودار ہوئی۔
وہ صبح عام دنوں سے کہیں زیادہ روشن اور چمکدار تھی۔ لارڈ تھامس اسٹینلے اپنے سپاہیوں کے ساتھ ان جھاڑیوں کی طرف بڑھ رہا تھا، جہاں رات اس کے سپاہیوں نے دو گھڑ سواروں کو تہہ تیغ کیا تھا۔ جھاڑیوں کے سامنے ان دونوں کی سربریدہ لاشیں پڑی تھیں۔ ایک مقتول کا گہرے نیلے رنگ کا مخملیں لبادہ جھاڑیوں میں اٹکا ہوا تھا۔
’’اوہ میرے خدا…!‘‘ لارڈ تھامس بے تابانہ اس کی طرف لپکا۔ اس نے مخملیں لبادہ ہٹایا۔ لبادے کے نیچے چمکتا ہوا تاج الجھا ہوا تھا۔ اس نے پلٹ کر لاشوں کی طرف دیکھا۔ ذرا فاصلے پر شاہ انگلستان شاہ رچرڈ سوم سر بریدہ خون میں لتھڑا ہوا پڑا تھا۔ لارڈ تھامس نے شاہ کے کٹے ہوئے سر کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھوں میں اس کے معصوم بیٹے کا بریدہ سر گھوم گیا۔ لارڈ تھامس نے فرط اذیت سے مغلوب ہوکر اپنی آنکھیں بھینچ لیں۔
’’میرے ننھے لخت جگر…! آخرکار تمہارا قاتل اپنے کیفرکردار کو پہنچ گیا۔‘‘ اس نے بند آنکھوں اور خاموش لبوں سے اپنے مقتول بیٹے کو مخاطب کیا اور ایک گہری آہ بھر کر آنکھیں کھول دیں۔ پھر آگے بڑھ کر جھاڑیوں میں اٹکے تاج کو ہاتھوں میں لے لیا۔ اس کی شفاف ہتھیلیوں پر سلطنت انگلستان کا تاج دھرا تھا۔ اس نے مڑ کر ابھرتے ہوئے سورج کی طرف دیکھا۔ ’’آج سرزمین انگلستان میں ایک نیا اور تابندہ سورج ابھر رہا ہے۔‘‘ اس نے مسرت آمیز انداز میں سوچا۔ پھر گھوڑے پر سوار ہوکر ہنری ٹیوڈر کے لشکر کی طرف بڑھا اور کچھ فاصلے پر رک کر بلند آواز سے گویا ہوا۔ ’’ہنری ٹیوڈر… میرے جنگجو دوست! ادھر دیکھو۔ سلطنت انگلستان کا یہ تاج تمہارے سر کا انتظار کررہا ہے۔‘‘ آناًفاناً یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح تمام لشکر میں پھیل گئی۔ فتح کے شادیانے بجنے لگے۔ ٹیوڈر کے فوجی خیموں سے نکل کر رقص کرنے لگے اور رزمیہ گیت گانے لگے۔
آخر کار ہم نے یہ جنگ جیت لی۔
ظالم بادشاہ کا سر بریدہ جسم خاک نشین ہوا۔
عالی شان قصر شاہی نئے شاہ کے لئے چشم براہ ہے۔
اور لارڈ تھامس اسٹینلے جیسا مہربان دوست اور وفادار رفیق اپنے ہاتھوں میں سنہرا تاج لئے شاہ کی روشن پیشانی پر سجانے کے لئے بے تاب ہے۔
اس جنگ کا انجام کیا خوب ہے
یہ جنگ فاتح افواج کا فخر ہے
پورے شہر کی فضا میں خوش کن تبدیلی کا احساس کروٹیں لیتا محسوس ہورہا تھا۔ عوام الناس بے رحم اور شقی القلب بادشاہ رچرڈ سوم کے عبرت ناک انجام سے انتہائی خوش تھے۔ اسی شام قصر شاہی کے ایوان خاص میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ ایوان کے بیچوں بیچ صندل کے چبوترے پر تخت شاہی موجود تھا۔ تخت کی پچھلی جانب نیزہ بردار غلام استادہ تھے اور سامنے کی طرف دو رویہ شہر کے عمائدین، ہنری ٹیوڈر کے مشیران، اس کی فوج کے اعلیٰ افسران اور عزیز دوست اور دست راست پیٹرراڈرک ہاتھ باندھے مؤدّب کھڑے تھے۔ ان کے چہروں سے جوش کا احساس جھلک رہا تھا۔
ہنری ٹیوڈر اپنی شخصیت کی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ تخت شاہی پر جلوہ افروز تھا۔ اس کے پروقار چہرے پر فتح و نصرت کا احساس ایک دلنشیں مسکراہٹ کے روپ میں اجاگر تھا۔ اس کے دائیں جانب لارڈ تھامس اسٹینلے اپنے ہاتھوں میں سنہرا تاج تھامے کھڑا تھا۔
اس جنگ میں اگرچہ لارڈ تھامس اسٹینلے اور اس کے بھائی لارڈ ولیم اسٹینلے نے باقاعدہ حصہ نہیں لیا تھا، اس کے باوجود ان کا کردار بے حد اہمیت کا حامل تھا۔ اگر انہوں نے اس جنگ میں سابق بادشاہ کا ساتھ دیا ہوتا تو یقیناً اس جنگ کا نتیجہ کچھ اور نکلتا۔ لارڈز نے بھی ہنری کو حملہ آور ہونے کی دعوت دی تھی اور اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر بادشاہ کا ساتھ نہیں دیں گے اور وہ بہرحال اپنے وعدے پر قائم رہے۔ لارڈ تھامس نے اپنے چہیتے بیٹے کے سر قلم کردیئے جانے کے بعد بھی اپنے وعدے کا بھرم رکھا۔ اس کے کردار کے اس استقلال نے بھی ہنری کے دل پر گہرا نقش چھوڑا تھا اور یہ بھی عجب اتفاق تھا کہ سابق بادشاہ لارڈ کے سپاہیوں کے ہاتھوں ہی کیفرکردار کو پہنچا تھا۔ اگر اس رات لارڈ تھامس کے سپاہی شاہ رچرڈ اور جوزف ملز کو گھیر کر قتل نہ کر ڈالتے تو یہ بھی ممکن تھا کہ وہ ہنری کے خیمے تک پہنچ کر اسے کوئی نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوجاتے۔ گویا کہ ہنری ٹیوڈر کی یہ زندگی اور تھامس کے ہاتھوں میں موجود وہ دمکتا تاج، لارڈ کی مرہون احسان تھیں اور احساس تشکر اور اظہار احسان مندی کے طور پر ہنری کی والدہ لیڈی مارگریٹ نے لارڈ تھامس اسٹینلے سے گزارش کی تھی کہ اس تقریب رسم تاج پوشی میں وہ اپنے ہاتھوں سے یہ تاج ہنری ٹیوڈر کے سر پر رکھے۔
لارڈ تھامس نے لیڈی مارگریٹ کی اس خواہش کو اپنے لئے ایک اعزاز قرار دیا۔ اس کے لئے یہ ایک دل خوش کن لمحہ تھا کہ اپنے معصوم بیٹے کے قاتل کا تاج وہ اپنے دوست کے سر پر رکھنے جارہا تھا۔ اس نے سر جھکا کر انگلستان کے نئے فرمانروا کو تعظیم پیش کی اور آگے بڑھ کر تاج اس کے سر پر رکھ دیا۔
ایوان میں موجود عمائدین شہر، مشیران شاہ اور فوج کے اعلیٰ افسران نے نئے بادشاہ کے ہاتھوں کو بوسہ دے کر نئی حکومت کا خیرمقدم کیا۔ ہنری ٹیوڈر نے اپنی ماں لیڈی مارگریٹ اور پھر اپنے رفیق پیٹرراڈرک کی طرف دیکھا۔ اس کی ماں کے حسین چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ تھی اور پیٹر کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو جھلملا رہے تھے۔ بچپن سے جوانی تک کا تقریباً سارا ہی عرصہ ان
دونوں نے ایک ساتھ گزارہ تھا اور تخت و تاج کی اس جنگ میں پیٹرراڈرک لمحہ لمحہ ہنری ٹیوڈر کے ساتھ رہا تھا۔ اس جنگ کی فتح میں پیٹرراڈرک کا بھی اہم ترین کردار تھا اور ہنری ٹیوڈر اپنے اس رفیق کا بے حد ممنون تھا، جبکہ پیٹر راڈرک، ہنری ٹیوڈر کی قابلیت، ذہانت اور انتظامی صلاحیتوں سے بے حد متاثر تھا۔ پیٹر کو یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن ہنری کی منزل تخت انگلستان ہوگا اور آج وہ لمحہ آپہنچا تھا جب ہنری ٹیوڈر نے ہنری ہفتم کے لقب کے ساتھ تخت انگلستان پر جلوہ افروز ہوکر عہدٹیوڈر کا آغاز کیا تھا۔
جنگ بوس ورتھ میں فتح یاب ہونے کے بعد یہ جنگ گلابوں کی جنگ (War of Roses) کا ہی ایک آخری حصہ تھی۔ اس جنگ میں سرخرو ہونے کے بعد 21/اگست 1485ء سے شاہان ٹیوڈر کا آغاز ہوا۔ انگلستان گو ایک کمزور، اندرونی مسائل میں گھرا پڑوسی ممالک سے جنگوں سے مصروف ایک پسماندہ غریب اور پریشان حال ملک تھا۔ اس کی آبادی کل 40لاکھ نفوس پر مشتمل تھی لیکن اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ ایک دن یہ قوم دنیا کی عظیم طاقت بن کے ابھرے گی اورقلیل عرصے میں اس کا بحری بیڑا اسپین کے طاقت ور بیڑے کو شکست دے گا اور دنیا کے سمندروں پر اس کی حکمرانی قائم ہوجائے گی۔
ہنری ٹیوڈر جو ہنری ہفتم کے لقب سے تخت انگلستان پر براجمان ہوا تھا، ٹیوڈر عہد کا پہلا بادشاہ تھا۔ اس وقت اس کی عمر 28سال تھی۔ وہ ایک شاندار شخصیت اور اعلیٰ ترین ذہن کا مالک تھا۔ عوام اسے تسلیم کرچکے تھے۔ زیادہ تر امراء اور نوابین بھی اس کے حامی تھے لیکن وہ اس صورتحال سے مطمئن نہیں تھا۔ وہ انگلستان میں اپنی حکومت کو دیرپا اور مضبوط خطوط پر قائم کرنے کا خواہاں تھا۔
رسم تاج پوشی کے بعد بادشاہ کے حضور نذرانے گزارنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہر طرف رنگ و نور کا ایک سمندر امڈا ہوا تھا۔ رسم تاج پوشی کے بعد ایک پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس ضیافت میں عمائدین شہر کے علاوہ سابقہ شاہی خاندان یارک سے تعلق رکھنے والا لارڈ اسمتھ یارک بھی شامل تھا۔ لارڈ اسمتھ گو کہ سابقہ بادشاہ رچرڈ کا قریبی رشتے دارتھا، اس کے باوجود اس نے جذبہ خیرسگالی اور خوش دلی کے ساتھ آج کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ خصوصاً پیٹر راڈرک سے مل کر وہ بے حد متاثر ہوا تھا۔ پیٹر ایک شاندار اور متاثرکن شخصیت کا مالک تھا ساتھ ہی اسے شاعری میں ملکہ حاصل تھا۔
’’دوران جنگ آپ کی رزمیہ شاعری نے دھوم مچا رکھی تھی۔‘‘ لارڈ اسمتھ نے تعریفی لہجے میں کہا۔ ’’خاص طور پر میری بیٹی الزبتھ آپ کی شاعری کی زبردست پرستار ہے۔‘‘
’’شکریہ…!‘‘ پیٹر راڈرک نے مسکرا کر جواب دیا۔
انگلستان کی تاریخ کا یہ وہ دور تھا جب لارڈز، ارلز اور دیگر امراء بہت طاقتور تھے۔ وہ باقاعدہ فوج رکھتے تھے جس سے انہیں من مانی کرنے اور بادشاہ وقت پر اثرانداز ہونے میں مدد ملتی تھی اور یہ صورتحال ہنری ہفتم کے لئے قابل قبول نہیں تھی۔
حکومت چلانے کے لئے ایک پارلیمنٹ پہلے ہی سے موجود تھی اور اخراجات کے لئے خزانے سے رقم نکلوانے کے لئے پارلیمنٹ کی اجازت ضروری تھی جبکہ ہنری ہفتم کے لئے یہ بات تکلیف دہ تھی۔ وہ ایک خودمختار حکمران بننے کا خواہشمند تھا۔ وہ حکومت اور سلطنت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں رکھنے کا خواہاں تھا اور اس مقصد کے حصول کے لئے اسے تدبر، حکمت اور دانائی کے ساتھ جبر اور سختی کرنے کی بھی ضرورت تھی۔
اس سہ پہر بادشاہ کے چیمبر میں اس کی والدہ لیڈی مارگریٹ اور خصوصی مشیران کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد پہلا شاہی حکم نامہ جاری کیا گیا جس کی رو سے اب کوئی لارڈ، ارل یا امیر اپنی ذاتی فوج نہیں رکھ سکے گا، نیز یہ کہ کسی بھی ٹیکس کے نفاذ کے لئے پارلیمنٹ کی اجازت یا رضامندی ضروری نہیں سمجھی جائے گی۔
لارڈز ارلز اور دیگر نوابین کے لئے یہ حکم نامہ تکلیف دہ اور پریشان کن تھا۔ لارڈز کے پاس پانچ ہزار سے دس ہزار تک فوج موجود تھی، مگر انہیں حاکم کے حکم کے سامنے سر جھکانا ہی تھا۔ دوسری طرف پارلیمنٹ کے ارکان اس حکم نامے سے سخت ناراض ہوئے۔
’’اس طرح تو بادشاہ من مانی کرنے کا مجاز ہوجائے گا؟‘‘ رکن پارلیمنٹ مسٹر ڈی سوزا نے غصے سے کہا۔ ’’میں اعلان کرتا ہوں کہ مجھے بادشاہ کا یہ حکم منظور نہیں ہے۔‘‘
’’میں بھی آپ کے ساتھ ہوں۔‘‘ دوسرے رکن مسٹر الفریڈ گارڈ نے بھی باآواز بلند اعلان کیا اور یہ خبر ہنری ہفتم تک لمحوں میں پہنچ گئی۔ اس وقت ہنری اپنی والدہ مارگریٹ کے ساتھ اپنے سبزہ زار میں چہل قدمی کررہا تھا۔
’’ارکان پارلیمنٹ مسٹر ڈی سوزا اور مسٹر الفریڈ کو ہمارے فیصلے سے اختلاف ہے۔‘‘ ہنری نے پرسکون لہجے میں لیڈی مارگریٹ کو بتایا۔
’’جو لوگ تمہارے فیصلوں سے اختلاف رکھتے ہوں، انہیں اپنے ساتھ رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔‘‘ لیڈی مارگریٹ نے سنجیدہ لہجے میں مشورہ دیا اور اسی شام دونوں اراکین پارلیمنٹ کے نام پارلیمنٹ کی رکنیت سے خارج کردیئے گئے۔
اسی دن لارڈ اسمتھ یارک کے گھر میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ لارڈ اسمتھ سابقہ بادشاہ رچرڈ سوم کا قریبی رشتے دار تھا۔ شاہی خاندان کا بنیادی رکن ہونے کے باعث اسے بے حد احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ شہر کے دولت مند اور معزز ترین لارڈز میں سرفہرست تھا۔ لارڈ اسمتھ کی بیٹی الزبتھ یارک شعر و شاعری سے خصوصی شغف رکھتی تھی۔ پیٹر راڈرک اس کا پسندیدہ شاعر تھا۔ اس شام ڈنر پر اسے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔
پیٹر راڈرک اپنے چند خدام کے ساتھ اپنے آٹھ گھوڑوں کی بگھی پر سوار ہوکر لارڈ کے محل نما ولا پر پہنچا تو گھر کے داخلی دروازے پر لارڈ کے ساتھ اس کی نوجوان اور حسین بیٹی الزبتھ نے اس کا استقبال کیا۔ سرو قد، سڈول جسم، سنہری زلفوں اور سبزی مائل نیلی آنکھوں والی الزبتھ یارک پہلی ہی نظر میں اس کے دل میں اتر گئی۔ پیٹر راڈرک نے ایک بار پھر گہری نظروں سے الزبتھ کی طرف دیکھا۔
الزبتھ گہرے نیلے مخملیں لباس میں غضب کی دلکش نظر آرہی تھی۔ اس کی صراحی دار گردن میں نیلم کا گلوبند اور کانوں میں نیلم کے آویزے تھے۔ اس کے سنہری بال ریشمی رومال سے بندھے ہوئے تھے۔ سرخ گلابوں کے سے عارض، عنابی کلیوں کے سے لبوں کے ساتھ وہ سراپا بہار دکھائی دے رہی تھی۔
’’آپ کو اپنے گھر میں دیکھ کر میں کس قدر خوش ہوں، آپ اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔‘‘ لارڈ اسمتھ کے تعارف کروانے پر الزبتھ نے مسرت سے لبریز آواز میں کہا۔ اس کی طرح اس کی آواز بھی مترنم اور دلکش تھی۔ پھر وہ دونوں پیٹر کو ساتھ لئے تقریب کے مرکزی ہال کی طرف بڑھ گئے۔ زیادہ لوگ نہیں تھے، انتہائی معتبر اور اعلیٰ منصب کے لوگ ہی مدعو کئے گئے تھے۔ یہ ایک پرشکوہ تقریب تھی اور پیٹر اس تقریب میں شریک ہوکر بہت خوش تھا۔ تب ہی باوقار انداز میں سر اونچا کئے، دھیرے دھیرے قدم دھرتی وہ پیٹر راڈرک کے قریب چلی آئی۔
’’مجھے امید ہے ہمارے معزز مہمان بور نہیں ہورہے ہوں گے؟‘‘ اس کی مترنم آواز میں نقرئی گھنٹیوں کی سی کھنک تھی۔
’’ہرگز نہیں…!‘‘ پیٹر بے اختیار مسکرا اٹھا۔ ’’اتنی حسین شام میں اتنے خوبصورت میزبان کی موجودگی میں بھلا کوئی کس طرح بور ہوسکتا ہے۔‘‘
’’تعریف کے لئے میں آپ کی شکرگزار ہوں۔‘‘ الزبتھ کی حیابار پلکیں اس کے دہکتے رخساروں پر جھک گئیں۔ وہ دھیرے سے بولی۔ ’’شاید ڈیڈ نے آپ سے ذکر کیا ہو، میں آپ کی شاعری کی بے حد مداح ہوں۔‘‘
’’اپنے شاعر ہونے پر مجھے آج سے زیادہ کبھی اتنی خوشی نہیں ہوئی۔‘‘ پیٹر نے دلنشین مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
’’میری شدید خواہش ہے کہ میں آپ کی زبانی آپ کی شاعری
سنوں۔‘‘ الزبتھ کے لہجے میں اشتیاق ہی اشتیاق تھا۔
’’آپ کا حکم سر آنکھوں پر… آپ جب کہیں، جس وقت کہیں آپ کی یہ خواہش پوری کی جائے گی۔‘‘ پیٹر نے سینے پر ہاتھ رکھ کر سر خم کرکے کہا۔ ’’لیکن کیا میں اس بات کی جسارت کرسکتا ہوں کہ آپ کو اپنے گھر پر مدعو کرنے کی گزارش کرسکوں؟‘‘ پیٹر نے انتہائی شائستگی سے اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ ’’آپ کے ساتھ ڈنر اور آپ کو اپنی شاعری سنا کر مجھے بے حد خوشی ہوگی۔‘‘
الزبتھ اس کی ذہانت اور دعوت کے دلکش انداز پر بے اختیار مسکرا اٹھی۔ ’’آپ جب بلائیں گے، میں سر کے بل حاضر ہوجائوں گی۔‘‘ اس نے مترنم لہجے میں سرگوشی کی۔
’’میری طرف سے تو آپ کل رات ہی تشریف لے آیئے، اگر آپ کی کوئی اور مصروفیت نہ ہو تو!‘‘ پیٹر کے لہجے میں عجب سی بے تابی نمایاں تھی۔
’’آپ تو ہتھیلی پر سرسوں جمانے لگے۔‘‘ الزبتھ کھلکھلا کر ہنسی۔
’’آپ تو جانتی ہیں نا کہ شاعر اپنی شاعری سنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔‘‘ پیٹر نے تھوڑا مسکرا کر کہا۔
تقریب میں تمام وقت وہ اس کے آس پاس ہی رہی۔ ضیافت کے بعد بیش قیمت قدیم ترین اور نایاب مے پیش کی گئی، مگر پیٹر راڈرک تو پہلے ہی الزبتھ کی قربت کے نشے میں مدہوش ہورہا تھا۔ اسے اپنے دل کی کیفیت پر حیرت ہورہی تھی۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ یوں ایک ملاقات میں وہ اس کے دل و دماغ پر اس طرح چھا جائے گی۔
’’محبت فیصلہ ہے، اک نظر کا۔‘‘ یہ بات اس نے سنی تو تھی مگر آج پہلی بار اسے اس بات کی سچائی کا یقین ہوا تھا۔ الزبتھ اپنی تمام تر رعنائیوں سمیت اس کے سامنے تھی اور وہ بن پیئے ہی مدہوش ہورہا تھا۔
الزبتھ نے مسکراتے ہوئے شیشے کا جام اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے جام تھام کر ایک ہی سانس میں خالی کردیا۔ اس نے خمار لٹاتی نگاہوں سے الزبتھ کی طرف دیکھا۔ وہ ایک نیا جام لئے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ پیٹر نے جام تھامنے کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر پیمانہ پکڑنے کی بجائے الزبتھ کا ریشمی ہاتھ تھام لیا۔ وہ مخمور لہجے میں بولا۔ ’’حسین خاتون! میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’میں آپ کی ہر بات سنوں گی لیکن کل رات، رات کے کھانے پر…!‘‘ الزبتھ نے مسرور لہجے میں سرگوشی کی۔
اگلی صبح بہت روشن اور دلکش تھی۔ اپنی تمام تر رعنائیوں اور شادابیوں سمیت طلوع ہوچکی تھی۔ سبزے کے مخملیں فرش پر شبنم کے قطرے موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔ ہوا کے شوخ جھونکے درختوں سے اٹکھیلیاں کرتے گزرتے تو درخت سرخوشی میں دھیرے دھیرے جھومنے لگتے۔ پیٹر راڈرک کی خواب گاہ کے کھلے دریچوں سے ہوا کے لطیف جھونکوں نے خوابناک سی فضا کو گدگدا کر جگا دیا تھا۔
پیٹر راڈرک نے ایک بھرپور انگڑائی لے کر آنکھیں کھول دیں۔ تمام رات اس کی آنکھوں نے سپنے دیکھے تھے اور اس وقت پوری طرح بیدار ہوجانے کے باوجود اس کی خمار آلود آنکھوں سے اَن دیکھے، انجانے سپنے جھانک رہے تھے۔ بے ساختہ اسے گزری ہوئی رات کا خیال آگیا۔ کل رات وہ ایک جام لے کر ہی بہک گیا تھا۔ پھر جام کی بجائے اس نے الزبتھ کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ اس خیال کے ساتھ ہی اس کے وجود میں ایک لطیف سی لہر جاگ اٹھی۔ اس کے نازک ہاتھ کی ملائمت اور لطافت وہ اب تک محسوس کررہا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا اور بے خیالی میں لبوں سے لگا لیا۔ پھر اپنی اس دیوانگی پر وہ آپ ہی آپ مسکرا اٹھا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی اس دیوانگی اور گستاخی کا الزبتھ پر کیا اثر ہوا ہوگا۔
وہ ایک نیک طینت اور باکردار انسان تھا۔ بچپن سے وہ ہنری ٹیوڈر کے ساتھ تھا۔ عنفوان شباب میں قدم رکھتے ہی ہنری نے حکومت کے حصول کی منصوبہ بندی شروع کردی تھی، چنانچہ اسے اپنے بارے میں سوچنے کا وقت ہی نہیں ملا تھا۔ ایک شاعر ہونے کے ناتے کچھ خوبصورت احساسات دل پر دستک دیتے رہتے تھے۔ ایک انوکھا، انجانا سپنا آپ ہی آپ اس کی پلکوں میں جانے کس طرح سما گیا تھا اور کل رات اس نے اپنی پلکوں میں چھپے اس سپنے کو الزبتھ کی صورت میں حقیقت کا روپ دھارتے دیکھا تھا۔ الزبتھ اس کا خواب تھی اس کے خوابوں کی تعبیر تھی۔ وہ اس کےدل و دماغ پر چھا گئی تھی، روح میں سما گئی تھی، دل کی دھڑکن میں بس گئی تھی، نس نس میں لہو کے ساتھ گردش کررہی تھی۔ الزبتھ اس کے لئے بہت اہم بن گئی تھی۔
تب ہی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ پیٹر راڈرک، الزبتھ کے خیالوں سے نکل آیا۔
’’یس…!‘‘ اس نے دھیمی آواز میں آنے والے کو اجازت دی۔ دروازے پر اس کا خادم خاص فرینک البرٹو موجود تھا۔
فرینک البرٹو ایک ادھیڑ عمر کا وفادار اور خدمت گزار شخص تھا۔ وہ ایک طویل عرصے سے پیٹر کے گھر کی دیکھ بھال کی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا رہا تھا۔ پیٹر راڈرک اگر کہیں جاتا تو فرینک بھی اس کے ساتھ ہوتا۔ کل رات لارڈ اسمتھ یارک اور الزبتھ کی تقریب میں بھی دیگر خدام کے ساتھ فرینک البرٹو موجود تھا۔
’’صبح بخیر مسٹر پیٹر…!‘‘ فرینک البرٹو نے خواب گاہ میں داخل ہوکر مؤدّبانہ لہجے میں سلام کیا۔ ’’امید ہے کہ رات خوبصورت سپنے دیکھتے ہوئے بسر ہوئی ہوگی؟‘‘ اس نے شائستگی اور خوش دلی سے معمول کا جملہ ادا کیا۔
اور راتوں کا تو کچھ پتا نہیں مگر کل رات کے بارے میں یہ کہا جاسکتا تھا کہ مدہوشی میں بھی وہ تمام رات دلکش سپنے دیکھتا رہا تھا۔ یہ سوچ کر اس کے لبوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔
’’مسٹر فرینک!‘‘ چند لمحوں بعد اس نے خادم کو مخاطب کیا۔ ’’میں نے آج رات الزبتھ کو ڈنر پر مدعو کیا ہے۔ میں چاہتا ہوں ڈنر کا اہتمام شہزادی الزبتھ کے شایان شان ہو۔‘‘
’’آپ بے فکر ہوجایئے۔‘‘ فرینک البرٹو نے پراعتماد لہجے میں جواب دیا۔ ’’ہر چیز آپ کی مرضی کے مطابق اور قابل احترام مہمان کے شایان شان ہوگی۔‘‘ فرینک کا جواب سن کر وہ خوشگوار انداز میں بستر سے اٹھ بیٹھا۔
ناشتے سے فارغ ہوکر اسے بادشاہ ہنری ہفتم کے خصوصی ایوان میں حاضر ہونا تھا۔ ہمیشہ کی طرح لیڈی مارگریٹ بھی ایوان خاص میں موجود تھی۔ آج بادشاہ نے ایک معمر اور دانا وزیر بریڈ فریڈرک کو بھی صلاح مشورے کے لئے بلایا تھا۔
ایوان خاص میں ہنری ہفتم اپنی مخصوص کرسی پر گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ لیڈی مارگریٹ اور معمر وزیر کو دیکھتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کسی خاص بات پر غوروفکر مقصود ہے۔ اس نے آگے بڑھ کر بادشاہ کو تعظیم دی۔ عموماً بادشاہ، پیٹر کو دیکھ کر مسکراتا ضرور تھا مگر آج وہ کسی گمبھیر سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ اسے دیکھ کر محض سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔ پیٹر بھی وزیر بریڈ فریڈرک کے قریب جاکر کھڑا ہوگیا۔ وہ دونوں خاموشی سے بادشاہ کی طرف منتظر نظروں سے دیکھنے لگے۔
’’انگلستان کے یہ امراء اور نوابین ہمیشہ بادشاہ کے لئے مشکلات اور مسائل پیدا کرتے رہے ہیں۔‘‘ کافی دیر بعد ہنری ہفتم کی سوچتی ہوئی آواز ابھری۔ اس نے جواب طلب نظروں سے وزیر اور پیٹر کی طرف دیکھا۔
’’آپ کا کہنا بجا ہے۔‘‘ وزیر نے سر جھکا کر بادشاہ کی بات کی تائید کی۔ ’’ایک انگلستان پر ہی کیا موقوف، کسی بھی ملک میں جب امراء زیادہ دولت مند اور طاقتور ہوجاتے ہیں تو حکومت کے لئے مسائل پیدا کرتے رہتے ہیں۔‘‘
بادشاہ نے نگاہ گھما کر اپنی لائق اور ذہین ماں کی طرف دیکھا۔
’’اس کا ایک سیدھا سا حل ہے۔‘‘ پیٹر راڈرک نے دھیمی آواز میں کہا۔ ’’ان امراء کی طاقت اور دولت کو کم سے کم کردیا جائے۔ جہاں تک امراء کی طاقت کا سوال ہے۔‘‘ پیٹر نے ادب سے سر ہلا کر بات آگے بڑھائی۔ ’’تو جب سے بادشاہ سلامت نے فوج رکھنے کی ممانعت کی، امراء کی طاقت میں نمایاں کمی آگئی ہے۔ اب رہ گئی دولت کی بات
کا سیدھا سا حل یہ ہے کہ امراء کی تجوریوں سے دولت نکال کر شاہی خزانے کی زینت بنا دی جائے۔‘‘
’’مشورہ اچھا ہے۔‘‘ معمر وزیر نے حیران نظروں سے پیٹرراڈرک کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’مگر سوال یہ ہے کہ اس طرح کیونکر ممکن ہوسکے گا۔‘‘
’’میں پیٹر کی بات سمجھ گئی۔‘‘ پیٹر راڈرک کے کچھ کہنے سے پہلے لیڈی مارگریٹ نے تحسین بھرے لہجے میں کہا۔ ’’مختلف نوعیت کے ٹیکس، جرمانوں اور واجبات عائد کرکے رفتہ رفتہ امراء کی تجوریاں خالی کروائی جاسکتی ہیں۔ اس طرح یہ دولت ہماری ہوسکتی ہے۔‘‘
بادشاہ کے چہرے پر رونق آگئی۔ ’’اس طرح نا صرف امراء کی دولت میں کمی آئے گی بلکہ خزانے میں اضافہ ہوگا۔‘‘پھر وہ وزیر سے مخاطب ہوا۔ ’’مسٹر بریڈ فریڈرک! آج شام سے قبل دو مختلف نوعیت کے ٹیکس عائد کرکے تمام امراء کو مراسلہ روانہ کردیا جائے۔‘‘
’’جو بادشاہ سلامت کا حکم!‘‘ بوڑھے وزیر نے سر جھکا کر مؤدّبانہ عرض کیا۔ ’’لیکن کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ایک بار اس فیصلے پر غور کرلیا جائے کیونکہ امراء ٹیکس عائد کرنے پر بری طرح خفا ہوجائیں گے۔‘‘ معمر وزیر کی آواز میں اندیشے لرز رہے تھے۔ ’’برسوں سے خانہ جنگی چل رہی تھی، اب جاکر کچھ سکون ہوا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر…!‘‘
’’مجھے حیرت ہے آپ جیسا دانا اور دوراندیش شخص کیونکر یہ بات کہہ سکتا ہے؟‘‘ ہنری کی آواز دھیمی مگر مضبوط تھی۔ ’’آپ کے پرخلوص مشورے میں پوشیدہ اندیشوں کا مجھے اندازہ ہے لیکن بادشاہ کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے والی طاقت کو کم کرنے کے لئے ہی یہ قدم اٹھایا جارہا ہے۔ اگر وقتی طور پر وہ غصے کا اظہار کرتے بھی ہیں تو بے معنی ہے۔‘‘
بادشاہ کے پراعتماد لہجے نے وزیر کے ذہن میں سر اٹھاتے اندیشوں اور خدشوں کو کسی حد تک کم کردیا۔ اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’ٹھیک ہے، بادشاہ سلامت کے حکم کی فوری طور پر تعمیل ہوگی۔‘‘
وزیر کے جانے کے بعد لیڈی مارگریٹ نے پرسوچ آواز میں کہا۔ ’’وزیر فریڈرک کی بات کو اگر اس تناظر میں لیا جائے کہ اس طرح کے ٹیکس اور جرمانے عائد کرنے سے امراء اور بادشاہ کے درمیان دوری بڑھے گی اور وہ دل ہی دل میں بادشاہ سے نفرت کرنے لگیں گے؟‘‘
’’آپ کا خدشہ بالکل درست ہے۔‘‘ پیٹر راڈرک نے تائید بھرے لہجے میں کہا۔ ’’لیکن جب ان کے پاس جمع دولت میں کمی آجائے گی تو ان کے دماغ کا خناس آپ ہی آپ کم ہوجائے گا۔ دوسرے امراء اور لارڈز سے دوری اور فاصلے مٹانے کیلئے بادشاہ سلامت کو کچھ اور اقدامات کرنے ہوں گے مثلاً طاقتور اور بااثر امراء سے دوستی کی فضا پیدا کرنے کے لئے انہیں دربار میں بلایا جائے بلکہ اکثر و بیشتر انہیں ضیافت میں مدعو کیا جائے۔ اس طرح کے باہمی میل ملاپ سے اجنبیت اور دوری کا احساس کم ہوگا اور اپنائیت کی فضا قائم ہوگی۔‘‘
یہ بات خود لیڈی مارگریٹ اور ہنری ہفتم کے ذہن میں بھی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ امراء اور رئوسا سے الگ تھلگ رہ کر حکومت پر تادیر قابض رہنا آسان نہ ہوگا۔ اس طرح باہمی میل ملاپ سے ان کی سوچ اور منصوبوں کا بھی اندازہ ہوتا رہے گا اور بادشاہ کو اپنی شان و شوکت اور جاہ و جلال دکھانے کا موقع بھی ملتا رہے گا۔
’آپ کا مشورہ بہت عمدہ ہے مسٹر راڈرک!‘‘ بادشاہ نے مسرور لہجے میں کہا۔
’’دو روز بعد ہفتے کی رات ایک شاندار دعوت کا اہتمام کیا جائے اور تمام معززین شہر کو مدعو کیا جائے اور اس دعوت کے انتظام کی ذمہ داری گو کہ والدہ محترمہ پر ہوگی مگر میں چاہوں گا کہ تم بھی ان کے ساتھ رہو۔‘‘ بادشاہ نے محبت بھری نظروں سے ماں کی طرف دیکھا۔ لیڈی مارگریٹ نے مسکرا کر سر ہلاتے ہوئے اثبات کا اظہار کیا اور پیٹر نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’بادشاہ سلامت کو مایوسی نہیں ہوگی۔‘‘
پیٹر راڈرک کے جانے کے بعد لیڈی مارگریٹ نے سوچتی ہوئی نظروں سے اپنے نوجوان بادشاہ بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا۔ ’’ایک تجویز اور بھی ہے کہ جس سے حکومت کو دیرپا خطوط پر استوار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دیکھو کیونکہ تمہارا تعلق کسی شاہی خاندان سے نہیں ہے اس لئے عام لوگوں کے ذہن میں کچھ خدشات پائے جاتے ہیں اس لئے میرا مشورہ ہے کہ تم شاہی خاندان کی کسی لڑکی سے شادی کرلو۔ اس طرح حکومت کے استحکام اور قبولیت عام میں بے حد مدد ملے گی۔‘‘
لیڈی مارگریٹ کا مشورہ عاقبت اندیشی پر مبنی تھا۔ ویسے بھی اب اس کی عمر28سال ہوچکی تھی۔ اب تک اس نے یا اس کی ماں نے اس سلسلے میں کچھ نہیں سوچا تھا مگر اس وقت اس کی ماں کے ذہن میں یہ خیال آیا بھی تو استحکام کے حوالے سے! بادشاہ نے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا تھا، مگر اس نقطے پر دل ہی دل میں فیصلہ کرلیا تھا۔
دوپہر کے سائے لمبے ہونے لگے تو پیٹر راڈرک اپنے گھر کے لئے روانہ ہوا۔ بادشاہ کے پاس پہنچ کر وہ سب کچھ بھول جاتا تھا، مگر اس کے ایوان سے نکلتے ہی وہ اپنی دنیا میں لوٹ آیا۔ اسے یاد آیا آج الزبتھ یارک اس کے گھر رات کے کھانے پر آنے والی ہے۔ اس نے اپنے خادم خاص فرینک البرٹو کو اس بارے میں ہدایت دے دی تھی۔ الزبتھ اس کے لئے بے حد اہم تھی اور فرینک کی جہاندیدہ نگاہیں یہ بات محسوس کررہی تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ الزبتھ کا تعلق سابقہ شاہی خاندان یارک سے تھا۔ اس کے ہر انداز میں شہزادیوں والا رکھ رکھائو تھا۔ پیٹر کی زندگی میں کوئی الزبتھ جیسی شہزادی ہی داخل ہوسکتی تھی۔ فرینک کا دل ایک انجانی خوشی سے لبریز ہوگیا تھا۔ پیٹر ایک اچھا اور مہذب انسان تھا۔ آج تک اس نے اس سے کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی۔ وہ فرینک سمیت تمام ملازمین سے عزت اور محبت سے پیش آتا تھا۔ ایک خوبرو اور رعنا مرد ہونے کے باوجود اس نے کسی لڑکی کی طرف نظر التفات نہیں ڈالی تھی مگر آج اس کا الزبتھ کی طرف رجحان دیکھ کر فرینک کو خوشی ہورہی تھی۔ الزبتھ ہر لحاظ سے پیٹر کی شریک زندگی بننے کے قابل تھی۔
آج پہلی بار پیٹر راڈرک کو پتا چلا تھا کہ یہ انتظار کس قدر اذیت ناک چیز ہے۔ وقت تھا کہ گزارے نہیں گزر رہا تھا۔ آخر کہیں صدیوں بعد شام کے سائے دھرتی پر اترتے محسوس ہوئے اور دھیرے دھیرے رات کسی نئی نویلی دلہن کی طرح سہج سہج قدم دھرتی اس کے آنگن میں وارد ہوئی۔ رات کے مہکتے اندھیرے پیٹر کے دل پر عجب انداز میں اثرانداز ہورہے تھے۔ شام ڈھلتے ہی وہ زندگی میں پہلی بار بے حد اہتمام سے تیار ہوا۔
نو بجنے سے قبل ہی پیٹر، فرینک اور دیگر خدام کے ساتھ بیرونی دروازے پر نفس نفیس موجود تھا۔ آخر انتظار کی یہ کربناک گھڑیاں اختتام کو پہنچیں اور ایک آٹھ گھوڑوں والی شاندار بگھی دروازے پر آکر رکی۔ خادم نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور الزبتھ اپنی تمام تر رعنائیوں سمیت نمودار ہوئی۔ پیٹر نے آگے بڑھ کر اپنا ہاتھ بڑھایا اور وہ اس کا ہاتھ تھام کر بگھی سے نیچے اتر آئی اور بہار کے کسی نوشگفتہ جھونکے کی طرح پیٹر کی ہمراہی میں خراماں خراماں اندر کی جانب چلی۔ پیٹر کا دل ایک انوکھی سرخوشی میں ڈوبا جارہا تھا۔
’’میں خوبصورت مہمان کی آمد کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘ پیٹر نے سرگوشی میں کہتے ہوئے اس کے لئے کرسی کھسکائی۔
’’شکریہ!‘‘ اس نے مترنم آواز میں جواب دیا اور کرسی پر بیٹھ گئی۔
کافوری شمعوں کی خوابناک روشنی اور گلابوں کی روح پرور خوشبوئوں میں بسے ماحول میں انہوں نے ڈنر ختم کیا۔
’’اب میں آپ کی خوبصورت شاعری سننے کی منتظر ہوں۔‘‘ کھانے کے بعد الزبتھ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اگر خوبصورت شاعری، خود ہی شاعر کو سننے کی بات کرے تو اسے کیا کہیں گے؟‘‘ پیٹر نے الزبتھ کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے
مسکراتے ہوئے کہا تو الزبتھ نے شرما کر پلکیں جھکا لیں۔
پھر پیٹر اسے اپنے ساتھ لے کر اسٹڈی کی طرف بڑھ گیا۔ اسٹڈی میں الزبتھ اور پیٹر آرام دہ صوفے پر آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ پیٹر کی مخمور نگاہیں اس کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ بے خود ہوکر اسے دیکھے جارہا تھا۔ الزبتھ نے لجائے ہوئے انداز میں پلکیں جھکا لی تھیں۔ تب پیٹر نے خواب کی سی کیفیت میں اپنے دل کے احساسات شعروں میں گوندھ کے اس کی نذر کردیئے تھے۔
بادلوں کے سرمئی جہاں سے….. یا کسی نیلگوں آسمان سے …. ایک چاند جیسی لڑکی….. دردل پر دستک دے رہی ہے۔
پیٹر کی جذبوں سے لبریز نگاہیں الزبتھ کے چاند چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں۔ اس کی پلکوں کی گھنی جھالر شرم سے گلنار رخساروں پر لرز رہی تھی۔ دل میں اٹھتے طوفانوں کا ادراک رگ و پے میں دوڑتے شوریدہ سر احساسات اور روح کی گہرائیوں میں نمو پاتے جذبوں کا وجدان وہ اپنی شاعری کے ذریعے الزبتھ کے دل تک پہنچانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ گو کہ پہلی ہی ملاقات میں الزبتھ اس کی آنکھوں میں مچلتے جذبوں کو محسوس کررہی تھی مگر آج اس نے شاعری کے پیرائے میں اپنی محبت کی سوغات اس کے قدموں میں رکھ دی تھی۔
رات کے ان گزرتے لمحوں میں وہ ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے خاموشی کی زبان میں اپنے اپنے احساسات ایک دوسرے کی دل کی دھڑکنوں میں منتقل کررہے تھے۔ محبت کا ایک انجانا، اَن دیکھا، ان کہا اور ان چھوا احساس ان کے دلوں میں عجب سی سرشاری پیدا کررہا تھا۔
وہ خواب جیسے پل بیت گئے۔ الزبتھ کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی پیٹر اسی کے خیالوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ یہاں سے وہاں تک ہر چیز میں الزبتھ کی موجودگی کا احساس جاگزیں تھا۔ اس کے وجود کی مدہوش کن خوشبو فضا میں رچی ہوئی تھی۔ تمام رات پیٹر اسی کے سپنے دیکھتا رہا تھا۔
اگلی صبح اس کے لئے بے حد مصروفیت لے کے آئی تھی۔ لیڈی مارگریٹ نےاسے صبح ہی بلا لیا تھا۔ اگلے دو روز وہ دعوت کے انعقاد میں لگا رہا۔ ہفتے کی رات قصر شاہی کے وسیع و عریض ایوان میں اس شاندار تقریب کا انتظام کیا گیا تھا۔ ایوان کو نہایت نفاست اور نزاکت سے دلفریب انداز میں سجایا گیا تھا۔ تمام دولت مند لارڈز، ارلز، نوابین اور سابقہ شاہی خاندان کے افراد بطور خاص مدعو تھے۔ لارڈ اسمتھ یارک بھی اپنی حسین بیٹی الزبتھ کے ساتھ موجود تھا۔
ہنری ہفتم، لارڈ اور اس کی بیٹی الزبتھ سے خصوصی توجہ اور التفات سے ملا تھا۔ لیڈی مارگیٹ نے بھی گہری اور معنی خیز نظروں سے الزبتھ کی طرف دیکھا تھا۔ پیٹر تقریب کے انتظامات میں مصروف تھا۔ ہنری ہفتم نے ایک خادم کو اشارہ کیا کہ وہ پیٹر راڈرک کو بلا کر لائے۔ چند لمحوں بعد ہی پیٹر راڈرک ایوان میں داخل ہوا۔ اس کی نگاہیں اس ماہ رخ کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ بالآخر وہ اسے نظر آگئی۔ وہ اپنے حسن کی تمام تر قیامت خیزیوں سمیت ہنری ہفتم کے ساتھ کھڑی تھی۔ آج اس نے سبز ریشمی لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ اس کی سنہری زلفیں شانوں پر بکھری ہوئی تھیں۔ بادشاہ نہایت توجہ سے لارڈ اسمتھ اور الزبتھ سے باتوں میں مصروف تھا۔ پیٹر آہستگی سے چلتا ہوا بادشاہ کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ اس نے سر جھکا کر بادشاہ کو تعظیم پیش کی۔
’’آئو میرے رفیق!‘‘ ہنری ہفتم نے بے تابی سے کہا۔ ’’مجھے تمہارا ہی انتظار تھا۔‘‘ پھر وہ لارڈ کی طرف مڑا۔ ’’تم لارڈ اسمتھ یارک سے تو واقف ہی ہو؟‘‘ اس نے لارڈ سے اس کا تعارف کرواتے ہوئے کہا۔ ’’اور یہ ان کی صاحبزادی الزبتھ ہیں… میں تمہیں لیڈی الزبتھ سے ملوانا چاہ رہا تھا۔‘‘
’’یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میں لیڈی الزبتھ سے پہلے مل چکا ہوں۔‘‘ پیٹر نے شہزادی الزبتھ کو تعظیم دیتے ہوئے کہا۔
’’اوہ! یہ تو بہت اچھا ہوا۔‘‘ ہنری نے خوشگوار لہجے میں کہا۔
خود پیٹر راڈرک بھی یہی سوچ رہا تھا کہ یہ اچھا ہی ہوا کہ بادشاہ کی ملاقات الزبتھ سے ہوگئی۔ جب وہ اسے الزبتھ کے بارے میں بتائے گا تو ہنری ٹیوڈر ہفتم کو اسے پہچاننے میں دیر نہیں لگے گی۔ آج تقریب میں الزبتھ کو دیکھ کر پیٹر کے دل کی بے قراری کچھ اور بڑھ گئی تھی اور اس نے آج مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ وہ کل ہی کوئی موقع دیکھ کر ہنری کو الزبتھ کے بارے میں بتائے گا اور اس کی اجازت پاتے ہی لارڈ اسمتھ کے پاس شادی کا پیغام بھجوا دے گا۔
اسے امید ہی نہیں واثق یقین تھا کہ نا صرف ہنری اس رشتے پر خوش ہوگا بلکہ لارڈ اسمتھ کو بھی اس سنجوگ پر کوئی اعتراض نہ ہوگا اور جہاں تک الزبتھ کا معاملہ تھا تو اس نے اس کی سمندر جیسی گہری نیلی آنکھوں میں اپنے لئے پسندیدگی اور چاہت کا احساس ہلکورے لیتا کل رات ہی دیکھ لیا تھا۔
تقریب اختتام پذیر ہوچکی تھی، معزز مہمان رخصت ہوچکے تھے۔ لارڈ، اسمتھ اور الزبتھ بھی جا چکے تھے۔ لیڈی مارگریٹ اور ہنری ہفتم، لارڈ کے شاہانہ رکھ رکھائو اور اخلاق و اطوار سے بے حد متاثر ہوا تھا۔ حسین، باوقار اور شاندار الزبتھ نے بھی ان دونوں کو متوجہ کیا تھا۔
لیڈی مارگریٹ کی سرکردگی میں تقریب کی تیاری کا کام پیٹر راڈرک نے بھی سرانجام دیا تھا۔ اس ذی وقار تقریب کے انعقاد کے بعد وہ پیٹر کے انتظام و انصرام سے بھی متاثر ہوا تھا۔ اس تقریب میں بادشاہ کو شہر کے معززین سے ملاقات کا موقع ملا تھا۔ وہ لوگ بھی بادشاہ کی شخصیت، اخلاق اور رکھ رکھائو سے متاثر ہوئے تھے۔ مجموعی طور پر یہ تقریب نہایت کامیاب رہی تھی۔ جن مقاصد کو سامنے رکھ کر اس دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا، وہ تمام مقاصد حاصل ہوگئے تھے۔ بادشاہ نے پیٹر کی پیٹھ تھپتھپا کر داد دی تو اس کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔ تمام تھکن اور کسل مندی دور ہوگئی تھی۔ وہ خوشی خوشی گھر کے لئے روانہ ہوگیا تھا۔
’’آپ کا چہرہ بتا رہا ہے کہ تقریب بے حد کامیاب رہی۔‘‘ فرینک البرٹو نے اس کا استقبال کرتے ہوئے خوشگوار لہجے میں کہا۔
’’اوہ… فرینک!‘‘ پیٹر کے لہجے میں کمسن بچوں کی سی خوشی کی کھنک تھی۔ ’’سب کچھ بہت شاندار رہا۔ لارڈ اسمتھ اور لیڈی الزبتھ بھی آئے تھے اور بادشاہ نے میرے انتظام و انصرام کی تعریف بھی کی۔‘‘
فرینک اس کی خوشی پر خود بھی مسرور ہوگیا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ پیٹر کی خوشی کی اصل وجہ الزبتھ کا دیدار تھا۔ خود فرینک کو بھی الزبتھ پسند آئی تھی۔ اس نے دل کی گہرائی سے دعا کی کہ پیٹر کو اس کی محبت مل جائے۔
پیٹر اپنی خواب گاہ کی طرف بڑھ گیا۔ وہ مسلسل الزبتھ کے بارے میں سوچے جارہا تھا۔ وہ ہر لحاظ سے ایک ایسی لڑکی تھی جسے دیکھتے ہی دل میں بسا لینے کو دل چاہتا ہے۔ خود پیٹر کا بھی یہی حال تھا۔ اس کے بے پناہ حسن کی تابانیوں نے اس کی آنکھیں خیرہ کردی تھیں۔ وہ اس کی سنہری زلفوں کے سائے تلے زندگی بتانے کی شدید تمنا رکھتا تھا۔
پیٹر کے بستر پر لیٹتے ہی اس کی آنکھوں میں الزبتھ کے خواب اتر آئے۔ وہ ان خوابوں میں ڈوبا، نیند کی وادیوں میں اترتا چلا گیا۔
اگلی صبح بیدار ہوکر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ آج ہی بادشاہ سے مل کر الزبتھ کے بارے میں بات کرے گا۔ شام کو ہی لارڈ اسمتھ کو پیام بھجوا دے گا۔ الزبتھ سے اب لمحہ بھر کی جدائی بھی اسے شاک گزر رہی تھی سو وہ تیار ہوکر بادشاہ سے ملاقات کے لئے چل دیا۔
’’میں آج آپ سے ایک اہم معاملے پر مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ پیٹر نے ہچکچاہٹ بھری دھیمی آواز میں کہا۔
ہنری ٹیوڈر اس وقت اپنے قصر کے پائیں باغ میں چہل قدمی میں مصروف تھا۔ ہوا کے مدھر جھونکوں میں ایک خوشگوار سی خنکی رچی ہوئی تھی۔ تناور پیٹروں کے تنوں سے پھولوں کی نازک بیلیں لپٹی ہوئی تھیں۔ ہر طرف ایک مسحور کن مہک پھیلی ہوئی تھی۔ ہنری ہفتم آگے آگے محوخرام تھا اور پیٹر راڈرک سر
جھکائے اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔
’’کیا کوئی سنجیدہ بات ہے؟‘‘ ہنری ہفتم نے چلتے چلتے اچانک رک کر پیٹر کی طرف دیکھا۔
’’نن… نہیں… ہاں…!‘‘ پیٹر گڑبڑا کر بولا۔ ’’دراصل میں آپ سے شادی کے بارے میں…! میرا مطلب ہے اپنی شادی کے بارے میں بات کرنا چاہ رہا تھا۔‘‘ (جاری ہے)