زمینوں کی آمدنی پر بادشاہ کا مکمل قبضہ تھا۔ اس نے ایک مستقل فوج قائم کی جواس کے زیرحکم تھی۔ ایک طرف فرانس انگلستان سے الجھا رہتا تھا تو دوسری طرف اسپین سے اس کی مخالفت چل رہی تھی اور دونوں میں وقفے وقفے سے پچاس سال تک جنگوں کا سلسلہ جاری رہا۔
ہنری ٹیوڈر نے فرانس اور اسپین کی باہمی چپقلش سے فائدہ اٹھانے کا سوچا اور اسپین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ پندرہویں صدی کے اختتام کے قریب اسپین یورپ میں ایک بڑی طاقت بن چکا تھا، اس کا سبب وہ اتحاد تھا جو اراگون(Aragon)کے شہزادے اور ولی عہد فرڈی ننڈ اور قشتالہ کی شہزادی ازابیلا کی شادی کی صورت میں عمل میں آیا تھا۔
مسلمان جنہوں نے سات سوسال قبل اسپین کو فتح کیاتھا اور عرصۂ دراز تک بلاشرکت غیرے اسپین اور جنوبی فرانس کے مالک رہ چکے تھے، ان کا آخری مستقر غرناطہ 1492ءمیں اس اتحاد کے ہاتھوں چھن چکا تھا اور اسی سال کولمبس کی نئی دنیا کی دریافت نے اسپین کی سلطنت میں ایک وسیع نوآبادی کا اضافہ کردیا، اسپین کی نو آبادیوں کے مراکز جزائر غرب الہند، میکسیکو اور پیرو تھے۔ جہاں سے سونا اور قیمتی اشیاء کی آمد نے ملک کو خوشحال بنادیا تھا۔ اس کے علاوہ شاہ فرڈی ننڈ نے فرانس کو شکست دے کر اپنے حقوق نیپلز سسلی اور سارڈینیا پر منوالیے تھے، اس طرح اسپین کو یورپ میں ایک خاص مقام اور طاقت حاصل ہوگئی تھی۔
اسپین کے حکمران فرڈی ننڈ کی خارجہ پالیسی اس پر مبنی تھی کہ یورپ کے حکمران خاندانوں میں باہمی شادیاں کرکے ایک ایسا یورپی اتحاد قائم کیا جائے جو اسپین کو اس کے قدیم حریف فرانس کا مدمقابل بنادے اور ملک کی ترقی اور استحکام میں مدد ملے۔
ہنری ٹیوڈر نے بھی اسپین کی اس پالیسی کو اپنانے کافیصلہ کیاتھا، وہ ہرحال اور ہر قیمت پر اپنی بادشاہت قائم ودائم رکھنا چاہتا تھا۔ وہ ایک مطلق العنان اور خود مختار بادشاہ کی حیثیت سے تاحیات حکومت کرنا چاہتا تھا اور آئندہ اپنی اولاد کے لئے تادیر حکومت کے راستے ہموار کرنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے حصول کے لئے وہ ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا چاہتا تھا۔ پیٹرراڈرک کے معاملے میں غلط فیصلہ کرکے وہ اب تک پچھتا رہا تھا۔ اپنی جلد بازی اور حماقت کے باعث اس نے اپنا ایک اعلیٰ ترین مشیر کھودیا تھا جواس کی حکومت کے استحکام اور مضبوطی کے لئے بہت اہم کردار ادا کرسکتا تھا۔ وہ یہ بات ناصرف جانتا تھا بلکہ دل سے مانتا بھی تھا کہ اگر پیٹرراڈرک نہ ہوتا توشاید وہ اس کامیابی کو حاصل کربھی نہیں سکتا تھا۔
ہنری ٹیوڈر کبھی کبھی سوچتا کہ الزبتھ اور پیٹرراڈرک کی محبت محض ایک اختراع تھی یا اس میں کچھ سچائی بھی تھی؟ آج تک الزبتھ کے کسی انداز اور عمل سے یہ ظاہر نہیں ہوا تھا کہ اس کے دل میں اس سے پہلے بھی کسی مرد کا گزر ہوا تھا، وہ تمام تر وفاؤں، محبتوں اور توجہ کے ساتھ اس کے ساتھ ایک کامیاب اور خوشگوار زندگی بسر کررہی تھی۔ اس کی والدہ لیڈی مارگریٹ کو بھی اپنی بہو سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ وہ ایک اچھی بہو کی طرح اپنی ساس کی عزت اور خدمت کرتی تھی۔ وہ جلد ہی ماں بننے والی تھی۔ یہ خبر جہاں ہنری ٹیوڈر کے لئے خوش کن تھی وہیں الزبتھ بھی بے حدوحساب خوش تھی۔ مامتا کا احساس اس کے دلکش چہرے پر روشنیاں بکھیرتا محسوس ہوتا، ہنری اسے خوش دیکھ کر خود بھی مسرور ہوجاتا۔ اب اسے شدت سے بچے کی پیدائش کا انتظار تھا۔
’’آپ بیٹے کے باپ بننا چاہتے ہیں یا بیٹی کے؟‘‘ الزبتھ نے پوچھا۔ اس شام وہ دونوں پائیں باغ میں چہل قدمی کررہے تھے۔
’’تم شاید یقین نہ کرو، میں ہر لمحہ آنے والے بچے کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔‘‘ ہنری نے دور کہیں خلائوں میں گھورتے ہوئے جواب دیا۔ ’’میری بادشاہت اب مضبوط خطوط پر استوار ہوچکی ہے۔ انگلستان کے حالات اب میرے کنٹرول میں ہیں۔ اب بادشاہ چھوٹے چھوٹے بل پاس کروانے کے لئے پارلیمنٹ کا محتاج نہیں رہا۔ ہمارا خزانہ قابل رشک حالت میں ہے۔ ملک میں امن وامان کا دور دورہ ہے۔ ہمیں کسی اندورنی خلفشار اور یلغارکا سامنا نہیں ہے۔ اب ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انگلستان کو پوری دنیا میں مستحکم اور باعزت مقام دلانے کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ خاص طور پر پرانے دشمن فرانس کے مقابل کھڑے ہونے کے لئے دیگر یورپی ممالک سے اتحاد کی ضرورت ہے۔ انگلستان ہمیشہ اکیلا ہی محاذ پہ ڈٹا رہا، اس لئے دن بہ دن کمزور اور غیر اہم ہوتا چلاگیا۔ میں چاہتا ہوں کہ دوست ممالک کو لے کر ایک گروپ قائم کیا جائے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے میری نظر اسپین پر ہے۔‘‘
’’ اسپین پر کیوں؟‘‘ الزبتھ نے ہنری کی باتیں توجہ سے سننے کے بعد زیرلب سوال کیا۔
’’کیوں کہ اسپین اور فرانس کے مابین بھی جنگوں کا سلسلہ چلتا رہا ہے۔ دشمن کے دشمن سے دوستی ہمیشہ سود مندثابت ہوتی ہے۔ میں نے اسپین سے دوستی ہی نہیں رشتے داری کابھی فیصلہ کر رکھا ہے۔‘‘
’’ کیا مطلب؟‘‘ الزبتھ حیران ہوئی۔
’’خود اسپین کی بھی یہی پالیسی ہے۔‘‘ ہنری اس کے سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی رو میں بولتا چلا گیا۔ ’’اس مقصد کو پیش نظر رکھ کر اسپین کے بادشاہ فرڈی ننڈ نے اپنی بڑی بیٹی ازابیلا کی شادی پرتگال کے ولی عہد الفانسو سے کردی ہے۔ اس طرح پرتگال اور اسپین ایک مضبوط رشتے میں بندھ گئے ہیں۔ یہی میں سوچ رہا ہوں کہ ہمارے یہاں لڑکا ہو یا لڑکی ہم اس کا رشتہ اسپین کے شاہی خاندان میں طے کرکے اسپین سے تعلقات مضبوط کرسکتے ہیں۔‘‘ بات کرتے ہوئے ہنری اس کا ہاتھ تھام کرایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ پچھلی طرف دور تک سرخ گلاب کھلے ہوئے تھے۔ گلابوں کی مسحور کن خوشبو نے پوری فضا کو حصار میں لیا ہواتھا۔ ایسے رومانی ماحول میں ہنری ٹیوڈر کی خارجی پالیسی پر تفصیلی گفتگو نے الزبتھ کو کوفت میں مبتلا کردیا تھا لیکن اس نے اس کا اظہار نہیں ہونے دیاتھا۔ وہ اپنے شوہر کے ہر معاملے میں دلچسپی لیتی تھی۔ اسے بہترین مشوروں سے نوازتی تھی۔ خود ہنری ٹیوڈر اسے اپنی ماں لیڈی مارگریٹ کے بعد اپنا سب سے اچھا دوست اور مشیر مانتا تھا بلکہ کبھی کبھی تواسے یوں لگتاتھا جیسے الزبتھ نے پیڑراڈرک کی کمی پوری کردی۔
وقت گزرتا رہا اور پھر وہ گھڑی آپہنچی جس کا سب ہی کو انتظار تھا۔ پورے قصر میں ایک ہلچل سی مچ گئی تھی۔ الزبتھ کو اندرونی کمرے میں پہنچا دیاگیا تھا۔ کمرے کے باہر خادمائیں دست بستہ کھڑی تھیں۔ لیڈی مارگریٹ اور خود بادشاہ موجود تھے۔ دونوں کے چہروں پر الجھن اور پریشانی تھی۔ آنکھوں میں انتظار ہلکورے لے رہا تھا۔ اسی انتظار اور بے چینی میں رات بیت گئی تھی۔
14ستمبر1486ءکا دمکتا سورج اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ طلوع ہوچکا تھا۔ ہوا کے شوریدہ سرسرد جھونکوں کوسورج کی تیز کرنیں لطیف سی حرارت بخش رہی تھیں۔ قصر کے ایک خصوصی کمرے میں ملکہ الزبتھ تخلیق کے کربناک مراحل سے گزر رہی تھی، اس کے چاروں طرف ماہر ڈاکٹر، مشاق دائیاں اور مستعد خادمائیں موجود تھیں۔ چند لمحوں بعد ہی نومولود کے رونے کی آواز سحر خیز موسیقی کی طرح پر سکوت فضا میں پھیلتی چلی گئی۔ ایک بوڑھی خادمہ دروازے پر نمودار ہوئی اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
’’بادشاہ سلامت مبارک ہو…ولی عہد دنیا میں تشریف لے آئے ہیں۔‘‘ اس نے مسرت سے لبریز آواز میں مژدہ سنایا۔ ’’ملکۂ عالیہ اور شہزادے دونوں ہی خیریت سے ہیں۔‘‘
’’اوہ میں بہت خوش ہوں۔‘‘ بادشاہ کی خوشی سے بھرپور آواز بلند ہوئی۔ ’’یہ خبر سب کو سنا دی جائے، خوشی کے شادیانے بجائے جائیں، شیرینی تقسیم کی جائے، انگلستان کی رعایا کو اس خوشی میں شامل کیا جائے۔‘‘ آناً فاناً یہ خبر پورے قصر اور پھر پورے شہر میں پھیل گئی تھی۔ ہر طرف خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔
بادشاہ لیڈی مارگریٹ کے ساتھ الزبتھ کے پاس پہنچا۔ الزبتھ کے چہرے پر زردی کھنڈی ہوئی تھی، نقاہت کا اظہار ہو رہا تھا، مگر آنکھیں مسرت کے ایک نئے احساس سے دمک رہی تھیں۔ آج تخلیق کے عمل سے گزر کر وہ مکمل ہو گئی تھی۔ آج وہ ماں بن گئی تھی۔
پھول سے بیٹے کو دیکھ کر بادشاہ کا دل بھی پھول کی طرح کھل اٹھا تھا۔
’’تم نے اس کے لئے کوئی نام سوچا؟‘‘ بادشاہ نے ننھے شہزادے کی روشن پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے پوچھا۔
’’لیڈی مارگریٹ جو نام پسند فرمائیں۔‘‘ الزبتھ نے اپنی ساس کی طرف دیکھا۔
’’آرتھر۔‘‘ لیڈی مارگریٹ نے دھیمے لہجے میں اعلان کیا۔ ’’یہ نام میں نے بہت پہلے سے سوچ رکھا تھا۔‘‘
آرتھر دبلا پتلا کمزور سا بچّہ تھا۔ وہ وقت سے کچھ پہلے ہی دنیا میں آ گیا تھا۔ وہ بے حد پیاری شکل و صورت کا مالک تھا۔ الزبتھ رات، دن آرتھر کی دیکھ بھال اور نگہداشت میں لگی رہتی۔ وہ ہر حال میں اپنے لخت جگر کو پھلتا پھولتا دیکھنے کی خواہاں تھی۔ خود بادشاہ کے لئے آرتھر کا وجود بے حد اہم تھا۔ اس نے اپنی شادی کو جس طرح حکومت کے استحکام کا ذریعہ بنایا تھا اسی طرح وہ اپنے بچّے کو بھی حکومت کے استحکام کے لئے استعمال کرنا چاہتا تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے آرتھر چار سال کا ہو گیا تھا۔ ان چار سالوں میں شہزادے کی طبیعت مسلسل خراب چلی آ رہی تھی۔ ننھے شہزادے کے پھیپھڑے بے حد کمزور تھے۔ علاج میں کسی طرح کی کوئی کسر نہ چھوڑی گئی تھی۔ الزبتھ اگرچہ اب ایک بیٹی کی بھی ماں بن چکی تھی۔ جب وہ دوسری بار امید سے ہوئی تھی تو ہنری ٹیوڈر اس بار بھی بیٹے کی پیدائش کا متمنّی تھا مگر جب اسے اطلاع ملی کہ ایک حسین شہزادی نے جنم لیا ہے تو اسے تھوڑی مایوسی ہوئی تھی۔
’’ہنری! تمہارے چہرے کا رنگ کیوں پھیکا پڑ گیا؟‘‘ اس کی ماں لیڈی مارگریٹ نے دھیمے لہجے میں سوال کیا تھا۔ ’’یہ ٹھیک ہے کہ لڑکوں کے معاملے میں ٹیوڈر خاندان بہت زیادہ خوش نصیب نہیں ہے۔ تم میرے ایک، اکلوتے بیٹے ہو اور تمہارا بھی صرف ایک ہی بیٹا ہے مگر مایوسی کی کوئی بات نہیں، ابھی عمر پڑی ہے، خدا نے چاہا تو تم اور بیٹوں کے باپ بنو گے۔‘‘
ماں کی تسلی سے ہنری ٹیوڈر کو خاصی تقویت محسوس ہوئی۔ اس کی بجھی بجھی آنکھیں ایک بار پھر چمک اٹھی تھیں اور وہ ماں کے ساتھ بیوی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔
ننھی شہزادی کو گود میں اٹھا کر لیڈی مارگریٹ کو ایک عجب سے سرور اور انبساط کا احساس ہوا تھا۔ اسے ایک بیٹی کی شدید آرزو تھی اور آج پوتی کو گود میں لے کر اسے یوں لگا تھا کہ اس کی وہ دیرینہ آرزو پایۂ تکمیل کو پہنچ گئی ہے۔ بچّی کے چہرے میں اپنی شباہت پا کر وہ اور زیادہ خوش ہوئی تھی اور اس نے اپنے نام پر’’مارگریٹ‘‘ اس کا نام تجویز کیا تھا۔
ابھی مارگریٹ جونیئر سال بھر کی ہی ہوئی تھی، جبکہ آرتھر ٹیوڈر چار سال کا ہونے کو ہوا تھا، تب بادشاہ نے اس کا رشتہ طے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کی ماں لیڈی مارگریٹ کا بھی یہی مشورہ تھا۔
’’رشتہ…؟‘‘ الزبتھ نے حیرت سے کہا۔ ’’آرتھر ٹیوڈر کا؟‘‘ اس کی نظریں غیر اختیاری طور پر ننھے آرتھر کی طرف اٹھ گئی تھیں۔ وہ دبلا پتلا بچّہ کمبل میں لپٹا سو رہا تھا۔
’’تم تو جانتی ہو میں نے آرتھر کی پیدائش سے پہلے ہی یہ سوچ لیا تھا۔‘‘ ہنری ٹیوڈر نے دھیمی آواز میں وضاحت کی۔ ’’اور اب تو خیر سے آرتھر چار سال کا ہونے کو آیا ہے، اپنے خارجی حالات کو بہتر بنانے کے لئے یہ بے حد ضروری ہے۔ والدہ محترمہ کا بھی یہی مشورہ ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘الزبتھ نے اثبات میں سر ہلایا۔ لیڈی مارگریٹ کے حکم سے سرتابی ممکن نہیں تھی۔ ان کی کسی بات سے اختلاف کی جرأت کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ الزبتھ تو بالکل نہیں، اس نے سر تسلیم خم کر لیا۔
’’ہم نے سوچا ہے کہ آرتھر کا رشتہ شہزادی کیتھرین سے طے کردیا جائے۔‘‘ بادشاہ نے بات آگے بڑھائی۔
’’کیتھرین…‘‘الزبتھ نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا۔
’’فرڈی ننڈ اور ازابیلا کی چھوٹی بیٹی، اسپین کی شہزادی جو عمر میں آرتھر سے ایک سال چھوٹی ہے۔‘‘
’’مگر کیتھرین کے والدین، میرا مطلب ہے، فرڈی ننڈ اور ازبیلا کی نہ جانے اس بارے میں کیا رائے ہو؟‘‘ الزبتھ کے اندیشوں بھری آواز میں سوال کرنے پر ہنری ٹیوڈر بے ساختہ مسکرا اٹھا تھا۔
’’تمہیں اس سلسلے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں، بیش قیمت تحائف کے ساتھ ایک وفد شاہ اسپین کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ درخواست پیش کرچکا ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ اس نے یہ رشتہ قبول کر لیا ہے۔‘‘
’’اوہ اچھا…‘‘ملکہ الزبتھ کی حیرت زدہ آواز ابھری۔
’’ڈیئر یہ خوش خبری ہے۔‘‘ بادشاہ مسرور لہجے میں بولا۔ ’’خوش ہو جائو…مجھے مبارک دو۔‘‘
’’آپ کو مبارک ہو!…‘‘ الزبتھ جلدی سے بولی۔ ’’مگر میں آرتھر کی طبیعت کی طرف سے بے حد متفکر ہوں۔ آپ دیکھ رہے ہیں مسلسل بیمار رہتا ہے۔ میں رات، دن اسی کے ساتھ لگی رہتی ہوں۔‘‘
’’تو ٹھیک ہے نا۔‘‘ بادشاہ نے بے نیازی سے کندھے اچکائے۔ ’’تمہیں اور کرنا بھی کیا ہے۔ تمہاری بیٹی مارگریٹ ٹیوڈر کی ذمہ داری تو امّی جان نے اٹھا رکھی ہے۔ اسے ہر وقت اپنے ساتھ رکھتی ہیں حتّیٰ کہ رات کو اپنے ساتھ ہی سلاتی ہیں۔‘‘
’’ہاں لیڈی مارگریٹ کی بے حد مہربانی ہے کہ وہ اپنی پوتی سے بہت محبت کرتی ہیں۔‘‘ الزبتھ نے دھیمے اور تھکن سے چور لہجے میں کہا۔ ’’اگر مارگریٹ کی ذمہ داری بھی مجھ پر ہوتی تو شاید میں آرتھر کی دیکھ بھال اتنی توجّہ اور انہماک سے نہ کر پاتی، مگر اب…کچھ عرصے بعد۔‘‘ الزبتھ نے اپنے پیٹ پر نگاہ ڈال کر اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا… کچھ عرصے بعد وہ ایک اور بچّے کی ماں بننے والی تھی اور ہنری ٹیوڈر کو اس بار پورا یقین تھا کہ بیٹا ہی ہوگا۔ آرتھر کی مسلسل بیماری نے اسے خاصا مایوس کیا تھا۔اس لئے وہ اب ایک صحت مند اور توانا بیٹے کا آرزو مند تھا۔
اور اس بار خدا نے اس کی آرزو پوری کر دی تھی۔ نیلی آنکھوں والا صحت مند گول مٹول سا بیٹا دیکھ کر وہ نہال ہو اٹھا تھا۔ اپنے نام پر اس نے اس کا نام ہنری ٹیوڈر جونیئر رکھا تھا۔ ہنری جونیئر بادشاہ کو بے حد عزیز تھا۔ وہ اسے خصوصی توجّہ اور محبت سے نوازتا تھا۔ دیکھا جاتا تو اس طرح تینوں بچّے خاندان کے تینوں افراد میں بٹ گئے تھے۔ پہلا بیٹا کمزور اور بیمار ہونے کے باوجود الزبتھ، آرتھر سے بہت محبت کرتی تھی اور اپنا زیادہ تر وقت آرتھر کے ساتھ ہی گزارتی تھی، جبکہ لیڈی مارگریٹ کی تمام تر توجہ کا مرکز اس کی چہیتی پوتی مارگریٹ تھی اور سب سے چھوٹا بیٹا ہنری ٹیوڈر جونیئر اپنے والد بادشاہ ہنری ٹیوڈر ہفتم کا لاڈلا تھا۔
دو سال بعد ملکہ الزبتھ نے ایک مردہ بچّے کو جنم دیا اور اس کے تین سال بعد شہزادی میری دنیا میں آئی تھی۔ وہ ایک بھولی بھالی معصوم سی بچّی تھی، جسے چاہنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس کی ماں الزبتھ اپنے عنفوان شباب میں قدم رکھتے بیٹے آرتھر کی بیماری کی وجہ سے رات، دن اسی کی فکر میں گھلتی رہتی تھی۔ میری کی دادی لیڈی مارگریٹ کو اپنی چہیتی پوتی مارگریٹ ٹیوڈر کے ناز نخرے اٹھانے سے فرصت نہ ملتی تھی اور اس کا باپ انگلستان کا حکمران شاہ ہنری ٹیوڈر ہفتم اپنے بیٹے ہنری جونیئر پر واری صدقے رہتا تھا۔ میری پر توجہ دینے والا کون تھا؟ اس کی آیا مسز جیک اور دیگر خادمائیں، مارگریٹ جونیئر بھی اتنی بڑی ہو چکی تھی کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی، بہن کی طرف توجہ دے سکتی تھی۔ اگرچہ وہ فطرتاً خودپسند اور قدرے خود غرض واقع ہوئی تھی۔ اپنے سوا کسی اور کی طرف دیکھنا اسے پسند نہیں تھا، اس کے باوجود اسے اپنا بڑا بھائی آرتھر بہت عزیز تھا۔ اس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا آرتھر کو زیادہ تر بستر پر ہی پایا تھا۔ وہ ایک دبلا پتلا مگر نفیس سوچ کا مالک اچھا لڑکا تھا۔ اسے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ بیماری کے باوجود اس نے تعلیم کی طرف سے کبھی لاپروائی نہیں برتی تھی۔
پھر ہنری ٹیوڈر تھا جو اپنی بہن مارگریٹ کی طرح خودپسند، خودغرض اور اپنی ہی دنیا میں مگن رہنے والا تھا۔ اسے گھڑ سواری کا شوق تھا، شعر و شاعری سے بھی رغبت رکھتا تھا، موسیقی سے بھی شغف تھا اور کم عمری سے ہی وہ خود دھنیں بنانے کا مشتاق تھا۔ صحت مند نیلی آنکھوں والا یہ بھائی ہنری مارگریٹ کو اچھا لگتا تھا۔ ہنری سے اس کی بہت اچھی دوستی تھی، وہ کوئی دھن بناتا تو سب سے پہلے اسے ہی سناتا۔ دونوں اکثر ایک ساتھ سیر کو نکلتے تھے… مارگریٹ کی دادی لیڈی مارگریٹ کا خیال تھا کہ گو کہ ہنری نٹ کھٹ اور غصیلا دکھائی دیتا ہے مگر اندر سے وہ بے حد محبت کرنے والا لڑکا ہے۔ خاص طور سے مارگریٹ سے اسے خاص محبت تھی۔
بڑی بہن ہونے کے ناتے مارگریٹ، میری پر خصوصی توجہ دیتی تھی۔ جوں جوں وہ بڑی ہو رہی تھی اس کے اندر ایک بڑا پن پیدا ہوتا جا رہا تھا۔ اس میں اس کی دادی کی تربیت کا بھی ہاتھ تھا۔ وہ اسے ایک باوقار اور شاندار شہزادی کے روپ میں دیکھنے کی متمنی تھی، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ جلد یا بدیر اسے بھی کسی ملک کی ملکہ بننا تھا۔
وقت اپنی مخصوص رفتار میں رواں دواں تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی برس بیت گئے۔ آرتھر عنفوان شباب میں قدم رکھ چکا تھا۔ مارگریٹ بھی بڑی ہو گئی تھی۔ ہنری ٹیوڈر اگرچہ بارہ سال کا تھا مگر قد کاٹھ اور اپنی سنجیدگی کی وجہ سے خاصا بڑا دکھائی دیتا تھا اور ننھی شہزادی میری اب پانچ برس کی ہوچکی تھی۔
اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود آرتھر کی صحت میں کوئی خاطرخواہ بہتری نہیں آئی تھی۔ مسلسل بیماری نے اسے خاصا مایوس اور بددل کر دیا تھا۔ خود ملکہ الزبتھ اس کی وجہ سے پریشانی اور افسردگی کا شکار رہتی تھی۔
اس شام وہ اپنے چہیتے بیٹے آرتھر کے کمرے میں بیٹھی تھی۔ فضائوں میں ایک عجب سی افسردگی رچی ہوئی تھی۔ اس نے مایوس نظروں سے آرتھر کے زرد اور مدقوق چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔ ’’کیسی ویرانی ہے۔‘‘ آرتھر کی نیلگوں آنکھوں اور سپید چہرے پر ہر لمحہ ایک محرومی اور بے کسی کا تاثّر بکھرا رہتا تھا۔ اس وقت بھی اس کی آنکھوں کی نیلی جھیلیں خاموش تھیں اور خشک لب بے بسی کے دھاگے سے سلے ہوئے تھے۔ اس کی مایوس آنکھیں ایک غیر مرئی نقطے پر مرکوز تھیں اور مدقوق چہرے پر ایسی محرومی، مایوسی اور ویرانی تھی کہ ملکہ الزبتھ کا دل تڑپ کر رہ گیا۔
’’کیا سوچ رہے ہو بیٹے؟‘‘ اس نے مامتا بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’ہوا میں موجود خنکی اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ شاید موسم تبدیل ہو رہا ہے۔‘‘ آرتھر نے کمزور آواز میں کہا۔
’’ہاں، موسم سرما کی آمد آمد ہے۔‘‘ الزبتھ نے اطلاع دی۔
’’یوں بستر پر پڑے پڑے وقت کا پتا چلتا ہے نہ موسموں کا۔‘‘ آرتھر نے بے بسی سے کہا۔ ’’کب موسم بدلتا ہے مجھے پتا نہیں چلتا۔ میری دنیا بس اس بستر اس کمرے تک محدود ہے۔‘‘ آرتھرکی پلکیں بھیک گئیں۔
’’اوہ میرے پیارے بیٹے۔ ایسی باتیں کیوں کرتے ہو۔‘‘ الزبتھ نے جھک کر اس کا سر اپنے سینے میں چھپا لیا۔ ’’تم جانتے ہو نا تمہارے علاج کے لئے کیمبرج کے سب سے بڑے ڈاکٹر ایڈم کو بلوایا گیا ہے۔ بہت جلد تم ٹھیک ہو جائو گے مکمل طور صحت مند۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ آرتھرنے ماں کی نرم اور مہربان آغوش میں آنکھیں بند کرلی تھیں۔ کتنا سکون تھا اس آغوش میں ورنہ زندگی میں ہر طرف کرب ہی کرب تھا، برسوں سے وہ بستر پر لیٹا صحتمند ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ کبھی کبھار وہ اس قابل بھی ہوجاتا کہ بستر سے اٹھ کر دریچے تک چلا جاتا تھا… ایک آدھ بار وہ صبح کی واک پر بھی گیا تھا، وہ اس کی زندگی کے حسین لمحے تھے۔ اس نے باد نسیم کے تازہ جھونکوں میں گہری سانسیں لے کر اپنے کمزور پھیپھڑوں میں شفاف ہوا ذخیرہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہر طرف کھلے ہوئے رنگ پھولوں کی تازگی اور روح پرور خوشبو کو اپنی مشام جان میں اتارنے کی سعی کی تھی۔
’’میرے پیارے منے۔‘‘ اسے سوچوں میں گم دیکھ کر الزبتھ نے پیار بھرے لہجے میں مخاطب کیا۔ ’’ڈاکٹر ایڈم ایک بے حد لائق اور قابل معالج ہے اور وہ تمہاری صحت کی طرف سے بہت پرامید ہے۔‘‘
’’مگر وہ یہاں کب تک رہ سکے گا؟‘‘ آرتھرنے مایوس لہجے میں کہا۔ ’’وہ ایک معالج ہے۔ اس کے اسپتال میں بے شمار لوگ اس کے زیر علاج ہوں گے۔ وہ ان سب کو چھوڑ کر یہاں پڑا ہے کیونکہ میں ایک شہزادہ ہوں اور میرے علاج کے سلسلے میں اسے اوروں سے زیادہ معاوضہ مل رہا ہے۔‘‘
’’اوہ میرے بیٹے۔‘‘ الزبتھ نے جھک کر اس کی سرد پیشانی چوم لی۔ ’’تم اس طرح کیوں سوچتے ہو تم بہت حساس ہو آرتھر۔‘‘ آرتھر دھیرے دھیرے کھانسنے لگا۔ الزبتھ نے گھبرا کر ڈاکٹر کو طلب کرلیا۔
’’میری وجہ سے آپ بلاوجہ پریشان ہوتی ہیں۔‘‘ آرتھر نے نرمی سے کہا۔ ’’مام! پلیز آپ جاکر آرام کریں۔‘‘
’’میں بھی یہی گزارش کروں گا۔‘‘ ڈاکٹر ایڈم نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’ملکہ عالیہ اپنی خواب گاہ میں جاکر آرام فرما سکتی ہیں۔‘‘
الزبتھ نے جھک کر اپنے لخت جگر کی سرد پیشانی کا الوداعی بوسہ لیا اور واپسی کے لئے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ اس کے پیچھے اس کی دونوں خصوصی ملازمائیں رینی اور ریٹا چل پڑی تھیں… ملکہ سر اٹھائے شان بے نیازی سے غلام گردش میں دائیں جانب مڑ گئی۔ ابھی اسے اپنی ساس لیڈی مارگریٹ اور اپنے دوسرے تینوں بچوں کی خوابگاہوں میں جانا تھا۔ آرتھر کیونکہ بیمار تھا اس لئے وہ زیادہ وقت آرتھر کو دیتی تھی۔ مگر وہ اپنے دوسرے بچوں کی تربیت اور خبر گیری سے بے نیاز نہیں تھی۔
ملکہ کے رخصت ہوتے ہی ڈاکٹر بیمار شہزادے کے قریب چلا آیا۔ ’’میرا خیال ہے کہ اب آپ کو سو جانا چاہئے شہزادے۔‘‘ ڈاکٹر نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔
’’لگتا ہے نیند تو میری آنکھوں کا رستہ ہی بھول گئی ہے۔‘‘ آرتھر نے کرب بھرے لہجےمیں جواب دیا۔
’’چلو تو پھر کوئی بات کرتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر ایڈم نے موضوع بدلنے کی غرض سے کہا۔ ’’جانتے ہو یہ دل کیا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ آرتھر نے معصومیت سے پلکیں چھپکاتے ہوئے ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔
’’یہ دل محبت کا گھر ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے مسکرا کر بتایا۔
’’محبت؟‘‘ شہزادہ حیران ہوا۔ ’’یہ محبت کیا چیز ہے؟‘‘
’’کہتے ہیں کہ کائنات کا خمیر محبت سے بنا ہے۔‘‘ ڈاکٹر ایڈم نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔ ’’اگر محبت نہ ہوتی تو یہ کائنات بھی وجود میں نہ آتی… یہ محبت ہی تو ہے جو خدا کو اپنے بندے، ماں کو اپنے بچے اور ایک محبوب کو اپنے محبوب سے ہوتی ہے۔‘‘
آرتھر نے پلکیں جھپکا کر مفہوم سمجھنے کی کوشش کی۔ خدا اور بندے کی محبت کے رشتے سے وہ واقف تھا۔ اس نے اکثر اپنی ماں کو چرچ میں خداوند کریم کے حضور گڑگڑاتے دیکھا تھا۔ الزبتھ بنیادی طور پر ایک مذہبی عورت تھی اور مذہب سے لگائو اس نے اپنے چاروں بچوں کے دل میں بدرجۂ اتم پیدا کیا تھا… اس محبت کو بھی وہ محسوس کرسکتا تھا جو ایک ماں اپنے بچے سے کرتی ہے، اب تک اسے اپنی سرد پیشانی پہ ماں کےلرزیدہ لبوں کا حرارت بھرا لمس محسوس ہورہا تھا، مگر یہ محب اور محبوب والی محبت اس کے لئے انجان تھی؟
’’بھلا محبت کا یہ کون سا روپ ہے؟‘‘ اس نے معصومیت سے سوال کیا۔
’’یہ محبت کا ایک انوکھا اور نرالا روپ ہے۔ یہ محبت زندگی کے پھول کی خوشبو ہے۔ زندگی کی آنکھ کا آنسو ہے۔ محبت ایک ایسا کھیل ہے جس میں عقل ہار جاتی ہے۔ محبت ایک خواب ہے، جب خواب آنکھوں میں اترتا ہے تو دنیا سہانی لگنے لگتی ہے، اور جب شیشے سے بنا یہ خواب ٹوٹتا ہے تو اس کی کرچیاں آنکھوں کو ہی نہیں روح کو بھی زخمی کردیتی ہیں۔‘‘
’’اور یہ محبوب؟‘‘ شہزادے نے سرگوشی کی۔
’’کوئی انجانا ان دیکھا شخص جو اچانک آپ کی آنکھوں کی راہ سے دل میں اتر جاتا ہے۔ سانسوں میں بس جاتا ہے۔ دھڑکنوں میں سما جاتا ہے۔ جسے دیکھے بنا چین نہیں آتا، ملے بغیر رہا نہیں جاتا۔‘‘
’’کیا کہیں کوئی ایسا انسان میرے لئے بھی ہوگا؟‘‘ آرتھر نے آنکھیں بند کرکے تحیر سے سوچا۔ ’’کہاں ہوگا وہ۔ کون ہوگا۔‘‘
٭…٭…٭
’’مسز جین! آپ بہت جلد صحتمند ہوجائیں گی…‘‘ میڈیکل اسٹودنٹ ماریہ ملز رات کے ان لمحوں میں شاہی قصر کی اس خوابناک خوابگاہ سے سیکڑوں میل دور ’’ڈاکٹر ایڈم اسپتال‘‘ کے ایک وارڈ میں ایک بوڑھی مریضہ پر جھکی اسے تسلی دے رہی تھی۔ ’’بس اب آپ جلدی سے دوا پی
لیجئے…‘‘ اس نے نرم لہجے میں کہا۔
’’دوا سے کہیں زیادہ تمہاری یہ پیاری صورت اور یہ پیار بھرا لہجہ مجھے آرام دیتا ہے۔‘‘ بوڑھی مریضہ نے پیار بھرے انداز میں اس کے پھول سے رخسار چھو کر کہا اور وہ بے ساختہ مسکر ادی۔
٭…٭…٭
لیڈی مارگریٹ اور مارگریٹ جونیئر سے ملکہ الزبتھ کی حسب معمول ملاقات بہت مختصر رہی تھی، اس نے نہایت ادب سے اپنی ساس کی خیریت معلوم کی تھی اور بیٹی کی شفاف پیشانی پر بوسہ دیتی واپسی کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اب وہ اپنی دونوں خادمائوں کے ساتھ اپنے چھوٹے بیٹے ہنری ٹیوڈر جونیئر کی خوابگاہ کی طرف رواں دواں تھی۔
’’کیسے ہو لخت جگر؟‘‘ بیٹے کی خوابگاہ میں داخل ہوکر اس نے پیار بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’آپ کی دعا ہے۔‘‘ ہنری نے مؤدبانہ لہجے میں جواب دیا۔ الزبتھ نے نگاہ اٹھا کر سامنے کھڑے اپنے چھوٹے بیٹے کی طرف دیکھا وہ لمبے قد کا ایک خوبرو نوجوان تھا۔ اس کی سفیدی مائل نیلگوں آنکھوں میں بڑی گہرائی تھی گوکہ اس کی عمر ابھی خاصی کم تھی مگر اپنے کشادہ شانوں، لمبے قد اور مضبوط قد کاٹھ کی وجہ سے ایک جواں مرد نظر آنے لگا تھا۔
’’تم نے اپنے گرد مصروفیات کی اتنی اونچی باڑھ بنالی ہے ڈارلنگ!‘‘ الزبتھ نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’کہ کبھی اپنے بیمار بھائی کی مزاج پرسی کے لئے بھی وقت نہیں نکال پاتے۔‘‘
’’میں شرمندہ ہوں مام۔‘‘ شہزادے نے شرمسار لہجے میں کہا۔ ’’مگر مام دنیا میں کرنے کے لئے اتنے بے شمار کام ہیں اور ہم انسانوں کی زندگی اس قدر مختصر…‘‘
’’تم کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘ الزبتھ ممتا بھرے انداز میں مسکرائی۔ ’’جہاں تک میں جانتی ہوں تم، تم بہت سی زبانیں سیکھنا چاہتے ہو… اس سلسلے میں تم اسپینش، فرنچ اور لاطینی زبان سیکھ رہے ہو، تم ایک اچھے شکاری ہو وقت کے ساتھ اس میں بھی بہتری آئے گی۔ بھلا اور کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘
’’میں کتابیں لکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ ہنری جونیئر نے چھوٹے بچوں کی سی مسرت بھری آواز میں کہا۔ ’’آرٹ اور موسیقی میں نئی نئی چیزیں ایجاد کرنا چاہتا ہوں اور میں مذہب کی اصلاح کے لئے بھی کچھ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
ملکہ الزبتھ نے نگاہ اٹھا کر اپنے شاندار خوبرو بیٹے کی طرف دیکھا وہ مذہب سے خصوصی لگائو رکھتا تھا وہ مذہبی اصلاح کا زبردست حامی تھا۔ اس کے علاوہ بھی وہ بہت کچھ کرنے کا متمنی تھا۔ اس کی ہر خواہش کے پیچھے خود نمائی اور خود ستائی کا جذبہ کارفرما تھا وہ ایک خود پسند اور اپنی ذات سے محبت کرنے والا انسان تھا۔ وہ ہر آنکھ میں اپنے لئے تعریف اور ستائش دیکھنا چاہتا تھا۔ ہر لب سے اپنے لئے داد و تحسین کے کلمات سننے کا مشتاق تھا۔
اور اس خود نمائی خود ستائی اور خود پسندی کی اس تمنا اور خواہش کے پیچھے اس کے ہم جماعت اور رفیق خاص تھامس والسے کا ہاتھ تھا… تھامس والسے ہنری جونیئر کا ہم عمر تھا، مگر ذہانت اور صلاحیت میں وہ شہزادے سے کہیں آگے تھا۔ وہ رچمنڈ کے مضافاتی علاقے کے ایک قصاب کا بیٹا تھا، مگر اپنی ذاتی اہلیت قابلیت اور لیاقت کی بنا پر ناصرف شاہی درس گاہ میں پڑھ رہا تھا، بلکہ شہزادے ہنری کا سب سے قریبی اور عزیز دوست بھی بن چکا تھا۔ الزبتھ واپسی کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’اوکے پیارے بیٹے… شب بخیر۔‘‘
الزبتھ کے ساتھ ہنری بھی اٹھ کھڑا ہوا تھا وہ مؤدبانہ سر جھکائے ماں کے پیچھے دروازے تک آیا، اس نے سر جھکا کر ماں کو تعظیم دی اور واپسی کے لئے پلٹ گیا اور ملکہ اپنی خادمائوں کی جلو میں اپنی خوابگاہ کی طرف بڑھ گئی۔
٭…٭…٭
بادشاہ ہنری ہفتم اسکاٹ لینڈ کے دورے پر تھا۔ اس دورے پر ہنری کے ساتھ الزبتھ کو بھی جانا تھا، مگر شہزادے آرتھرکی طبیعت کے پیش نظر اس نے ارادہ ملتوی کردیا تھا۔ پچھلے کئی سالوں سے آرتھر ڈاکٹر ایڈم کے زیر علاج تھا۔ ڈاکٹر ایڈم ہر ماہ پابندی کے ساتھ آرتھر کے چیک اَپ کے لئے آتا تھا۔ ایڈم کے علاج سے آرتھر کی حالت میں خاصی بہتری آئی تھی، اب وہ خود سے اٹھ کر بیٹھنے لگا تھا، کبھی دھیرے دھیرے چہل قدمی بھی کرلیتا تھا۔
ملکہ الزبتھ چاہتی تھی ڈاکٹر ایڈم اپنا شہر اپنا اسپتال اپنا میڈیکل کالج سب کچھ چھوڑ کر مستقل شاہی قصر سے وابستہ ہوجائے اور صرف آرتھر کے علاج پر توجہ دے، مگر ایڈم کے لئے یہ ممکن نہ تھا، اپنے خون جگر سے سینچے گئے اسپتال کو وہ کسی بھی قیمت پر نظرانداز کرنے پر تیار نہ تھا۔ گوکہ اب اس کے اسپتال میں اس کے علاوہ کافی لائق اور قابل ڈاکٹر موجود تھے۔ خاص طور پر فائنل ایئر کی طالبہ ڈاکٹر ماریہ ملز سے اسے بہت توقعات تھیں، اس کے باوجود اس کے اسپتال اور اس کے سیکڑوں مریضوں کو اس کی ضرورت تھی۔
یہ الگ بات اسے ولی عہد آرتھر سے بھی بے حد ہمدردی تھی۔ آرتھر ایک معصوم فطرت اور اچھا انسان تھا مسلسل بیماری نے اسے بے حد رقیق القلب بنادیا تھا۔ ’’آخر یہ بیماری میرا پیچھا کب چھوڑے گی…‘‘ وہ حسرت سے سوچتا، کیا کبھی وہ مکمل طور پر صحت یاب ہوسکے گا؟ اسے خود بھی اس بات کا یقین نہیں تھا۔
’’کہتے ہیں دمہ دم کے ساتھ ہی جاتا ہے…موت ہی اس مرض کا علاج ہے…‘‘ کبھی اس نے کسی خادمہ کو یہ کہتے سنا تھا اور آج وہ ڈاکٹر سے پوچھ بیٹھا تھا۔ ’’ڈاکٹر! کیا مجھے دمہ ہے؟‘‘
’’نہیں! تم سے یہ کس نے کہا؟‘‘ ڈاکٹر نے حیرانی سے سوال کیا۔
’’پھر آخر مجھے کیا مرض ہے؟‘‘ آرتھر نے الجھے ہوئے لہجے میں سوال کیا۔
’’اب تمہیں کیا بتائوں؟‘‘ ڈاکٹر ایڈم نے سر جھکا کر کرب بھرے اندازمیں سوچا۔ ’’پچھلے ڈیڑھ صدیوں سے غربت اور غذائی قلت کے باعث یورپ کی پینتیس سے چالیس فیصد آبادی جس مرض کا شکارچلی آرہی ہے، انگلستان میں اب تک سب سے زیادہ اموات اسی بیماری کے باعث ہوتی ہیں۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ اس ملک کا شہزادہ بھی اسی جان لیوا مرض کا شکار ہے۔‘‘
’’کیا اس مرض کا کوئی علاج ہے؟‘‘ ڈاکٹر کو خاموش سوچوں میں گم دیکھ کر آرتھر نے دوسرا سوال کیا۔ ’’یا جیسا کہ میں سوچ رہا ہوں… اس مرض کا کوئی علاج ہی نہیں؟‘‘
’’نہیں شہزادے ایسا نہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے مضبوط لہجے میں کہا۔ ’’کھلی اور صاف ستھری فضا، تازہ ہوا اور عمدہ غذا اس مرض کے علاج میں ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔‘‘
’’مگر یہاں تو…!‘‘ شہزادے نے اپنی خواب گاہ میں چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ یہ کمرہ ونڈسر کیسل کا سب سے کشادہ اور ہوا دار کمرہ تھا۔ مغرب کی جانب کھلنے والے دریچوں سے آنے والی تازہ اور معطر ہوا سے ہر وقت کمرہ بھرا رہتا تھا۔ اس کی غذا پہ خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ صرف بیمار شہزادے کے پرہیزی کھانے تیارکرنے کے لئے ایک درجن باورچیوں پر مشتمل ایک الگ باورچی خانہ تھا اور جہاں تک علاج معالجے کا تعلق تھا تو شہر تو کیا ملک بھر کے اعلیٰ قابل اور اہل ڈاکٹروں کی ایک فوج ہمہ وقت شہزادے کے کمرے سے ملحق شفاخانے میں موجود رہتی تھی۔
’’میرا خیال ہے کہ آپ کو تبدیلیٔ آب و ہوا کے لئے کچھ عرصے کے لئے اس قصر اور اس شہر سے کہیں باہر جانا چاہئے۔‘‘
ڈاکٹر ایڈم کے مشورے پر شہزادے نے حیرت سے سوال کیا۔ ’’اچھا…مگر کہاں؟‘‘
ڈاکٹر ایڈم پہلے ہی یہ تجویز پیش کرچکا تھا کہ شہزادے کو اس کے اسپتال میں داخل کروا دیا جائے، مگر ملکہ اس بات کے لئے آمادہ نہ تھی، مگر آج جب وہ آرتھر کے پاس آئی تو آرتھر نے دھیمے اور امید بھرے لہجے میں کہا۔ ’’مام! میں کیمبرج سٹی میں ڈاکٹر ایڈم کے اسپتال میں داخل ہونا چاہتا ہوں تاکہ جلد از جلد ٹھیک ہوسکوں۔‘‘
آرتھر کی اداس آنکھوں سے جھانکتی بے بسی الزبتھ کا دل تڑپا گئی۔ کتنی مجبور اور بے بس تھی وہ انگلستان جیسے ملک کی ملکہ ہونے کے باوجود کس قدر تہی دست تھی۔ اپنے چہیتے کے لئے صحت نہیں خرید سکتی تھی۔ ڈاکٹر نے بھی اسے کئی بارسمجھایا تھا کہ پہاڑیوں سے گھرا سرسبز و شاداب شہر، اس شہر کی صاف ستھری فضا اور وہاں کی زندگی سے بھرپور شفاف ہوا اس کے ناتواں بیٹے کے بیمار پھیپھڑوں میں زندگی کی نئی رمق بھرسکتے ہیں۔
اور اس لمحے اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ بادشاہ سے پوچھ کر آرتھر کو اسپتال بھجوا دے گی، وہ جانتی تھی ہنری کو اس بات پر کوئی اعتراض نہ ہوگا بلکہ ایک زمانے میں ہنری خود مصر تھا کہ آرتھر کو ڈاکٹر ایڈم کے اسپتال بھیج دیا جائے۔ اس نے ہی مخالفت کی تھی۔ وہ سوچتی تھی وہ اپنے لخت جگر کے بغیر کیسے رہ سکے گی۔ مگر اب وہ سوچ رہی تھی اگر آرتھر دوسرے شہر گیا تو وقتاً فوقتاً وہ خود اس شہر جاکر اپنے بیٹے سے مل لے گی۔
ہنری، اسکاٹ لینڈ سے واپس لوٹ آیا تھا۔ اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ جیمز چہارم کے اخلاق، کردار اور مہمان نوازی سے وہ بے حد متاثر ہوا تھا اور مسلسل کسی سوچ میں غلطاں تھا۔ الزبتھ نے جب اسے بتایا کہ آرتھر اسپتال جانا چاہتا ہے تو اس نے کہا۔ ’’مگر میں یہ سوچ رہا تھا کہ اب وہ بڑا ہوچکا ہے، ادھر اسپین کی شہزادی کیتھرین بھی بڑی ہوچکی ہے۔‘‘ بادشاہ لمحہ بھرکو رک کر معنی خیز انداز میں مسکرایا۔ ’’کیتھرین کے والدین اب جلد از جلد شادی کے خواہش مند ہیں۔‘ ‘
’’شادی؟‘‘ الزبتھ نے گھبرائی ہوئی نظروں سے ہنری ٹیوڈر ہفتم کی طرف دیکھا۔ ’’مگر آرتھر کی صحت ابھی اس قابل نہیں کہ ایک نئی طرز زندگی کا بوجھ سنبھال سکے۔‘‘ الزبتھ نے زیر لب کہا۔
’’تو ٹھیک ہے کچھ عرصے کے لئے اسے ڈاکٹر ایڈم کے اسپتال بھیج دیتے ہیں۔‘‘ بادشاہ نے دوٹوک انداز میں فیصلہ سنایا۔ ’’نیا شہر نئی فضا… ڈاکٹر ایڈم کی مستقل موجودگی توجہ اور علاج، یقیناً اس کی صحت پر اچھا اثر ڈالے گی وہاں سے واپسی پر ہم شادی کا پروگرام طے کرلیتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟‘‘
’’جیسی آپ کی مرضی۔‘‘ الزبتھ نے بیویوں کے روایتی انداز میں ہتھیار ڈالتے ہوئے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ پچھلے سال وہ جب اسپین کے دورے پر گئی تھی تو اس کی شہزادی کیتھرین سے ملاقات ہوئی تھی۔ تب اس نے محسوس کیا تھا کہ کیتھرین، آرتھر کے لئے کوئی اچھا انتخاب نہیں تھی۔ وہ بے حد مذہبی رجحان رکھنے والی، اپنے عقائد اور خیالات میں انتہا پسندی کی حد تک قائم رہنے والی، سخت گیر لڑکی تھی۔
جب اس نے ہنری ٹیوڈر سے یہ سب کہا تو وہ الٹا اس سے سوال کر بیٹھا تھا۔ ’’کیا ہمارے بچے مذہبی رجحان نہیں رکھتے؟‘‘
’’بالکل… ایسا ہی ہے۔‘‘ الزبتھ نے جلدی سے کہا۔ ’’مگر میرا خیال ہے کہ کیتھرین اس تصور پر پورا نہیں اترتی جومیرے ذہن میں ایک بہو کے لئے ہے… آرتھر جیسے نفیس اور نرم دل انسان کے لئے کوئی خوبصورت احساسات، حسین جذبات اور دلربا سوچوں کی حامل کلیوں کی سی نازک حسین لڑکی ہونی چاہئے۔‘‘
’’مت بھولو الزبتھ… کیتھرین کوئی عام لڑکی نہیں ہے… وہ اسپین جیسے طاقت ور اور دولت مند ملک کی شہزادی ہے اور یہ رشتہ برسوں پہلے طے ہوچکا ہے… اس میں کسی بھی طرح کی کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے، سمجھیں تم۔‘‘
’’جی!‘‘ الزبتھ نے بے بسی سے سر جھکا لیا۔ ’’سمجھ گئی۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ بادشاہ نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔ ’’آرتھر کی روانگی کا انتظام کیا جائے۔‘‘
’’میری خواہش ہے کہ شہزادہ اس شہر اور اس اسپتال میں ایک عام انسان اور ایک عام مریض کی حیثیت سے جائے۔ کسی پروٹوکول کے بغیر…‘‘ بادشاہ کی سوالیہ نظروں سے دیکھنے پر اس نے وضاحت کی۔ ’’اگر آرتھر ایک ولی عہد کی حیثیت سے وہاں جائے گا تو اسے خصوصی اہتمام کے ساتھ کسی خصوصی گوشے میں قید کردیا جائے گا۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ ایک عام مریض اور عام انسان کی حیثیت سے دوسرے مریضوں میں گھل مل کر ایک عام زندگی کے انداز سے لطف اندوز ہوسکے۔‘‘
’’اوہ!‘‘ بادشاہ کھل کر مسکرایا۔ ’’کبھی کبھی مجھے لگتا ہے تم میں کسی شاعر کی روح موجود ہے۔‘‘
’’بھلا اس میں کون سی شاعرانہ بات ہے۔‘‘ الزبتھ قدرے شرما کر مسکرائی۔
’’اوکے ملکہ عالیہ…!‘‘ بادشاہ نے سر تسلیم خم کیا۔ ’’اس سلسلے میں آپ کو مکمل اختیارہے۔ آپ جس طرح چاہیں آرتھر کو روانہ کرسکتی ہیں۔ البتہ یہ بات یاد رکھیں۔ آرتھر کے وہاں سے واپس لوٹتے ہی میں دونوں شادیوں کا ارادہ رکھتا ہوں۔‘‘
’’دونوں شادیاں؟‘‘ الزبتھ نے حیرانی سے بادشاہ کی طرف دیکھا۔
’’دراصل میں آج تم سے یہی بات کرنا چاہتا تھا۔‘‘ بادشاہ پرسوچ لہجے میں بولا۔ ’’مگر دوسری باتیں شروع ہوگئیں اور یہ بات رہ گئی۔ مارگریٹ…!‘‘ اتنا کہہ کر ہنری خاموش ہوگیا۔
’’مارگریٹ؟‘‘ الزبتھ نے چونک کر بادشاہ کی طرف دیکھا، آرتھر کی بیماری میں گم ہوکر وہ بیٹی کو بالکل بھول بیٹھی تھی۔ ’’آپ مارگریٹ کی شادی کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟‘‘
’’سوچ نہیں رہا بلکہ سوچ چکا ہوں۔‘‘ بادشاہ نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’آرتھر اور کیتھرین کی شادی کے کچھ عرصے بعد مارگریٹ کی بھی شادی کردی جائے گی۔ اس سلسلے میں والدہ سے بھی بات کرچکا ہوں۔ وہ خوش ہیں بلکہ ایک طرح سے یہ انہی کا مشورہ تھا…‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ ملکہ الزبتھ نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’مگر مارگریٹ کے لئے آپ نے کس کا انتخاب کیا ہے؟‘‘
’’اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ جیمز چہارم کا…‘‘ بادشاہ نے فخریہ مسکرا کر الزبتھ کی طرف دیکھا۔ ’’میرا اسکاٹ لینڈ کا دورہ اسی سلسلے کی کڑی تھا۔‘‘
’’اسکاٹ لینڈ کا بادشاہ جیمز چہارم۔‘‘ الزبتھ نے ہراساں نظروں سے بادشاہ کی طرف دیکھا۔ ’’وہ ایک بڑی عمر کا شخص ہے… جبکہ ہماری مارگریٹ ابھی چودہ برس کی بھی نہیں ہوئی ہے۔‘‘
’’دیکھو الزبتھ ہم یورپ میں انگلستان کو ایک طاقت ور مملکت کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لئے ہمیں ایسے حلیفوں کی ضرورت ہے جو ہمارے دشمنوں کے مقابلے میں ہمارا ساتھ دے سکیں۔ اسپین کے بعد اسکاٹ لینڈ سے رشتے داری دنیا میں ہمارے وقار اور حیثیت میں اضافے کا باعث بنے گی۔‘‘
’’ہاں یہ تو ہے۔‘‘ ہمیشہ کی طرح الزبتھ نے سر تسلیم خم کردیا۔
آرتھر کے روانگی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں۔ مگر یہ تیاریاں نہایت راز داری سے ہورہی تھیں۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ تھی کہ شہزادہ آرتھر ایک عام آدمی کے روپ میں اسپتال میں داخل ہونے جارہا ہے۔ ڈاکٹر ایڈم کے اسپتال میں بھی کسی کو خبر نہیں تھی، حتیٰ کہ اس کی فیورٹ طالبہ ڈاکٹر ماریہ کو بھی نہیں۔
ایڈم صبح منہ اندھیرے اسپتال پہنچ گیا تھا۔ اس کے آنے کےکچھ ہی دیر بعد ایک بگھی اسپتال میں داخل ہوئی تھی۔ اس بگھی میں ایک دبلا پتلا نوجوان سوار تھا اور اس کے ساتھ چند خدام تھے۔ ڈاکٹر ایڈم نے باہر نکل کر آنے والے مریض کا استقبال کیا۔ اس وقت اس کے ساتھ اس کا اسسٹنٹ ڈاکٹر ڈورس بھی تھا، اس نے مریض کا اس سے تعارف کروایا، لمبے سفر کی تکان آرتھر کے زرد چہرے سے ہوید اتھی۔
’’آپ اپنے کمرے میں تشریف لے چلئے…‘‘ ڈاکٹر ایڈم نے اس کی تھکن کا احساس کرتے ہوئے کہا اور اسے لئے اندر کی طرف چل دیا۔ اسپتال کے سب سے شاندار حصے میں آرتھر کے لئے ایک صاف ستھرے اور ہوادار کمرے کا انتظام کردیا گیا تھا اور اس سلسلے میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا تھا کہ یہ کمرہ الگ تھلگ ہو۔ آرتھر کے ساتھ خدام کی تعداد، انداز و اطوار، وقار اور رکھ رکھائو سے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ شاید کسی کائونٹی کے لارڈ، ارل یا کسی بہت ہی دولت مند جاگیر دار یا نواب کا بیٹا ہے۔
اپنے کمرے میں آکر ڈاکٹر ایڈم نے ڈاکٹر ماریہ کو بلوایا اور بولا۔ ’’تمہارے لئے ایک خاص اسائنمنٹ ہے ماریہ۔‘‘ اس نے ایک فائل اٹھا کر کھولتے ہوئے کہا۔ ’’یہاں ہمارے اسپتال میں ایک خاص مریض آیا ہے…یہ میرے ایک بہت ہی قریبی دوست کا بیٹا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کا خصوصی طور پر خیال رکھا جائے اور اس کے علاج میں کسی طرح کی کوتاہی نہ ہونے پائے۔‘‘
’’ جی۔‘‘ ماریہ نے مستعدی سے سر ہلایا۔
’’اور یہ ذمے داری میں تمہیں سونپنا چاہتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے آرتھر کی فائل ماریہ کی طرف بڑھائی۔ ’’مجھے یقین ہے تم نہایت ذمے داری سے یہ اہم ترین کام سر انجام دوگی؟‘‘
’’تھینک یو سر۔‘‘ ماریہ کے گلابی رخسار تمتما اٹھے۔ ’’اس بھروسے کیلئے میں آپ کی شکرگزار ہوں۔ میں آپ کو ہرگز مایوس نہیں کروں گی۔‘‘
’’مجھے تم سے یہی امید ہے۔‘‘ ڈاکٹر ایڈم نے اس کے تمتماتے رخسار تھپتھپائے۔ تم ایک اچھی ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ ایک بے حد اچھی اور محبت کرنے والی لڑکی بھی ہو۔‘‘
ڈاکٹر ماریہ ملز ڈاکٹر ایڈم کی بیوہ بہن ناڈیہ ملز کی بیٹی تھی۔ ڈاکٹر ایڈم نے اولاد کی طرح اس کی پرورش کی تھی۔ اس کی صلاحیت اور لیاقت کو دیکھتے ہوئے اسے میڈیکل کی تعلیم دلوائی تھی۔ وہ ایک اچھی ڈاکٹر ہی نہیں ایک بہترین انسان بھی تھی اور ایڈم اس پر ناز کے ساتھ بے حد اعتبار کرتا تھا، اسی لئے آرتھر کی ذمے داری اس نے ماریہ کو سونپ دی تھی۔
ماریہ فائل اٹھائے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ وہ مریض کے کمرے میں جانے سے پہلے اس کی کیس ہسٹری کا مطالعہ کرلینا چاہتی تھی۔ فائل میں مریض کا نام، عمر، بیماری اور اس کی موجودہ کیفیت کے بارے میں تفصیل سے درج تھا۔ آرتھر کے پھیپھڑے پیدائشی طور پر کمزور اور ناقص تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ مزید متاثر ہوئے تھے۔ ماریہ کا گداز دل دکھی ہوگیا۔ اتنی سی عمر میں وہ کتنی بڑی بیماری کا شکار تھا۔ ابھی اس نے جوانی کی وادی میں قدم ہی رکھا تھا کہ موت کے سائے اس کے تعاقب میں نکل پڑے تھے۔ ’’نہیں آخرکار ہم موت کو ہرانے میں کامیاب ہوجائیں گے…‘‘ ماریہ نے یقین بھرے انداز میں سوچا اور اعتماد کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی اسے مریض کا معائنہ کرنا تھا وہ آہستگی سے آرتھر کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
’’یس۔‘‘ دروازے کی ہلکی سی دستک کے جواب میں اندر سے ایک تھکن سے چور دھیمی آواز ابھری تھی اور ماریہ آہستگی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔ (جاری ہے)