ملکہ الزبتھ آج کل شہزادی مارگریٹ کی شادی کی تیاریوں میں لگی ہوئی تھی۔ ہنری ٹیوڈر نے آرتھر اور کیتھرین کی شادی کی تیاری کا بھی حکم دے دیا تھا۔ بادشاہ اب فوری طور پر شہزادے آرتھر کو ایڈم اسپتال سے واپس بلوا لینا چاہتا تھا مگر ملکہ کا خیال تھا کہ ابھی اسے وہاں کچھ دن اور رہ کر مکمل صحت یابی کا انتظار کرنا چاہئے۔
اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ کی آمد کی وجہ سے پچھلا پورا ہفتہ وہ ہونے والے بہنوئی کے ساتھ مصروف رہا تھا اور اب سخت بیزار اور عاجز آچکا تھا۔
شہزادے ہنری جونیئر کی اپنی ایک الگ دنیا تھی، اس کے اپنے خواب تھے، اپنی امنگیں اور خواہشیں تھیں۔ وہ کم عمری کے باوجود لاطینی اسپینی اور فرانسیسی سیکھ رہا تھا اور اب ان زبانوں پر خاصا عبور حاصل کرچکا تھا۔ اسے شعر و ادب اور موسیقی سے بے حد لگائو تھا۔ فرصت کے اوقات میں وہ کوئی نئی دھن بنانے کی دھن میں لگا رہتا تھا۔ اس کی ہر دلچسپی میں اس کا ہم جماعت اس کا دوست تھامس والسے اس کے ساتھ شامل ہوتا تھا۔ تھامس والسے ٹینس کا اچھا کھلاڑی تھا۔ ہنری اس کے ساتھ ٹینس کھیل کر بہت خوش ہوتا تھا۔
’’آپ کچھ ناخوش لگ رہے ہیں؟‘‘ تھامس والسے نے شہزادے کا پھولا چہرہ دیکھا تو دھیمے لہجے میں پوچھا۔
’’ایسا ویسا ناخوش…!‘‘ ہنری جونیئر چٹخ کر بولا۔ ’’سخت ناراض کہو۔ اب دیکھو طبیعت تو بھائی آرتھر کی خراب ہے اور ان کی تمام ذمہ داریاں مجھے ادا کرنی پڑ رہی ہیں۔‘‘ ہنری نے برا سا منہ بنا کر کہا۔ ’’شاہ اسکاٹ لینڈ کی آمد پر تمام تقریبات میں مجھے شریک ہونا پڑا، حالانکہ یہ تمام کام ولی عہد کے تھے۔‘‘
’’جب ولی عہد کے تمام کام آپ ادا کرتے ہیں تو…؟‘‘ تھامس والسے کہتے کہتے رک گیا۔
’’تو…؟‘‘ شہزادے نے تیوری پر بل ڈال کر پوچھا۔
’’تو… پھر آپ کو ولی عہد کیوں نہیں بنا دیا جاتا؟‘‘ تھامس نے دھیمی آواز میں بات مکمل کی۔
ہنری جونیئر نے حیرت سے تھامس والسے کی طرف دیکھا۔ تھامس کا تعلق ایک نچلے طبقے سے تھا، مگر بے حد ذہین اور بے پناہ صلاحیتوں کا مالک تھا اور اسی بنا پر آج وہ ہنری جونیئر کا ہم جماعت اور دوست تھا۔ وہ ہر وقت اسے اپنے ساتھ رکھنا پسند کرتا تھا۔
’’ولی عہد تو بڑا شہزادہ ہی ہوتا ہے۔‘‘ ہنری جونیئر نے وضاحت کی۔ ’’بے شک وہ بیمار تھے مگر اب روبہ صحت ہیں اور بہت جلد ان کی شادی بھی ہونے والی ہے۔‘‘
’’واقعی…!‘‘ تھامس والسے حیران ہوا۔ ’’کب ہورہی ہے ان کی شادی…! کیا انہیں اس بات کی خبر ہے؟‘‘
’’نہیں! اس ویک اینڈ پر مام ان سے ملنے جارہی ہیں، وہی انہیں یہ خوشخبری سنائیں گی۔‘‘
ہنری کا جواب سن کر تھامس نے سر ہلاتے ہوئے پرجوش لہجے میں کہا۔ ’’یہ تو بہت خوشی کی خبر ہے۔ آپ کو مبارک ہو۔‘‘
’’شکریہ…!‘‘ شہزادے نے جواب دیا اور ٹہلتا ہوا پائیں باغ کی طرف چل دیا۔ تھامس والسے اس کے پیچھے چل رہا تھا۔
٭…٭…٭
باہر قصر کے اطراف مشکبار مرغزاروں میں سرمئی شام قدم رنجہ تھی اور قصر کے اندر خصوصی چیمبر میں وزراء، امراء اور پارلیمنٹ کے ممبران کے ساتھ لیڈی مارگریٹ، ملکہ الزبتھ اور شاہ انگلستان ہنری ٹیوڈر ہفتم کا اجلاس جاری تھا۔
پچھلے پانچ سالوں میں، آج پہلی بار پارلیمنٹ کے ممبران کو ملاقات کے لئے بلوایا گیا تھا۔ بادشاہ نے اپنی دوراندیشانہ پالیسیوں کے سبب اپنا خزانہ اتنا بھر لیا تھا کہ اب اسے رقم کے لئے پارلیمنٹ کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی حاجت نہیں رہی تھی۔ آج کا یہ اجلاس شہزادی مارگریٹ اور شہزادے آرتھر کی شادی کے سلسلے میں کئے جانے والے اخراجات کی تفصیلات طے کرنے کے لئے بلایا گیا تھا۔
شاہ اسپین کے اپنی بیٹی کیتھرین کو دیئے جانے والے جہیز کو مدنظر رکھتے ہوئے انگلستان کی طرف سے بھی دلہن کی شادی کے ملبوسات، زیورات اور شادی کی تقریبات اس ملک کے شایان شان بنانے کی ضرورت تھی۔ ہنری ٹیوڈر ہفتم کسی قدر کنجوس بادشاہ تھا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ وہ کسی شاہی خاندان سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ ایک چھوٹے سے علاقے کے ایک متوسط طبقے کے خاندان کا فرد ہونے کے ناتے دولت کو تجوریوں میں بند کرکے رکھنے اور ایک ایک پائی کو دانتوں سے پکڑنے کی عادت ہمیشہ اس میں موجود رہی، مگر آج اس نے اعلان کیا تھا کہ ولی عہد کی شادی اس قدر دھوم دھام اور شان و شوکت سے ہوگی کہ انگلستان کے لوگ مدتوں اسے یاد رکھیں گے۔
شہزادی مارگریٹ کی شادی کے سلسلے میں یہ طے پایا تھا کہ شادی فوراً کردی جائے گی مگر رخصتی کم ازکم دو سال کے بعد کی جائے گی۔ اس لئے اس وقت اس کے جہیز کے ذکر کو مؤخر کردیا گیا تھا۔ لیڈی مارگریٹ کا خیال تھا کہ شہزادی کیتھرین کو اس محل سے رخصت کرکے نئے محل میں بھیجا جائے جو بادشاہ نے ابھی نیا تعمیر کروایا تھا۔
’’یہ کیا بات ہوئی دادی جان!‘‘ یہ بات جب شہزادی مارگریٹ نے سنی تو ناخوشگوار لہجے میں بولی۔ ’’وہ نیا محل نئی دلہن کے لئے تو نہیں تعمیر کروایا گیا تھا، کیا وہاں صرف وہی رہے گی؟‘‘
’’ایسا نہیں ہے۔‘‘ لیڈی مارگریٹ نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ ’’وہ ہم سب کے لئے تعمیر ہوا ہے مگر دیکھو کیتھرین مہمان بن کر آرہی ہے نا اس لئے…!‘‘
’’مہمان کہاں…؟‘‘ شہزادی نے منہ بنایا۔ ’’وہ تو مستقلاً ہمارے ساتھ رہنے کے لئے آرہی ہے۔‘‘
’’ہاں! ایسا ہی ہے۔‘‘ لیڈی مارگریٹ مسکرائی۔ ’’دیکھو جیسے تم اسکاٹ لینڈ چلی جائو گی۔‘‘
’’مگر دادی جان! میں آتی جاتی رہوں گی۔‘‘ شہزادی مضبوط لہجے میں بولی۔ ’’وہاں لندن میں میرے ہونے والے شوہر نے میرے لئے ایک شاندار وِلا خریدا ہے۔‘‘
’’دادی، پوتی میں کیا باتیں ہورہی ہیں؟‘‘ ملکہ الزبتھ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔ ’’میں مخل تو نہیں ہوئی؟‘‘
’’نہیں! ایسا کچھ نہیں ہے۔‘‘ لیڈی مارگریٹ مسکرائی۔ ’’تم آرتھر کے پاس کب جارہی ہو؟‘‘
’’ٹھیک آٹھ بجے روانگی ہے… ساری رات اور کل پورے دن کے سفر کے بعد شام ڈھلے ہم اسپتال پہنچ جائیں گے۔‘‘ ملکہ نے جواب دیا۔
’’اسے اس کی شادی کی خوشخبری بھی دے دینا۔‘‘ لیڈی مارگریٹ نے مسکرا کر کہا۔
’’جی ضرور…!‘‘ ملکہ نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔
’’وہ ملے گا تو پتا نہیں اس کا ردعمل کیا ہوگا۔‘‘ ملکہ نے ایک غیر مرئی نقطے پر نگاہیں مرتکز کرتے ہوئے سوچا۔ اس سے قبل اس نے جب بھی اس حقیقت سے روشناس کرانے کی کوشش کی کہ بچپن میں اس کا رشتہ شہزادی کیتھرین سے طے ہوچکا ہے تو اس نے کبھی پوری بات سنی ہی نہیں، بیزار ہوکر بیچ میں ہی اس کی بات کاٹ دی۔
اس کی وجہ اس کی بیماری تھی۔ یہ پہلا موقع تھا جب یہ خوشخبری سننے کو ملی کہ شہزادہ آرتھر پہلے کی نسبت بہتر ہیں۔
٭…٭…٭
دور تک چھوٹی پہاڑیوں کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ پچھلی جانب گھنا جنگل تھا اور جنگل کے اس طرف دریائے ٹیمز پرسکون انداز میں رواں دواں تھا۔ چھوٹا سا شاہی قافلہ آگے بڑھتا چلا جارہا تھا۔ ملکہ الزبتھ کی شاندار بگھی کے دونوں جانب مسلح گھڑ سواروں کا دستہ چل رہا تھا۔
ملکہ اپنی شاہی بگھی میں نیم دراز تھی۔ نچلی سیٹ پر اس کی خادمائیں رینی اور ریٹا بیٹھی ہوئی تھیں۔ ملکہ کے حسین چہرے پر شوق اور انتظار بکھرا ہوا تھا۔
’’جانے آرتھر صحت مند ہوکر کس طرح لگتا ہوگا؟‘‘ اس نے ریٹا کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔
’’یقیناً وہ ایک شاندار نوجوان لگتے ہوں گے۔‘‘ ریٹا کی آواز میں یقین شامل تھا۔
’’میں اسے اپنی آنکھوں سے کب دیکھ سکوں گی؟‘‘ اس نے بے تاب لہجے میں پوچھا۔
’’شام ڈھلنے سے پہلے پہلے ہم کیمبرج سٹی میں داخل ہوجائیں گے۔‘‘ ریٹا نے مؤدبانہ انداز میں جواب دیا۔
’’ڈاکٹر ایڈم کا اسپتال مضافاتی علاقے میں واقع ہے، یوں ہم شہر میں داخل ہوتے ہی اسپتال پہنچ جائیں گے۔‘‘
’’میرا دل چاہ رہا ہے کہ میرے پر لگ جائیں اور میں اڑ کر شہزادے کے پاس پہنچ جائوں۔‘‘ ملکہ کے لہجے سے بچوں کا سا اشتیاق جھلک رہا تھا۔
’’میں آپ کے جذبات محسوس کرسکتی ہوں۔‘‘ رینی نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیا۔ ’’بس اک ذرا انتظار، ہم کچھ ہی دیر میں شہزادے کے پاس پہنچنے والے ہیں۔‘‘
’’شہزادہ جب بالکل صحت مند ہوچکا ہے تو اچھا ہوتا کہ اسے واپس محل میں بلا لیا جاتا۔ بھلا ایسے پُرخطر اور دوردراز سفر پر ملکہ کو روانہ ہونے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ ریٹا نے بگھی کی کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے سوچا۔
’’اصل میں ہم شہزادے کو یہ خبر سنانے کے لئے بے تاب تھے۔‘‘ ملکہ نے یوں کہا جیسے ریٹا کی سوچ پڑھ لی ہو۔ ریٹا گھبرا کر سیدھی ہو بیٹھی اور پوری توجہ سے ملکہ کی بات سننے لگی۔ ’’میں جانتی ہوں کہ دو چار دن میں شہزادہ گھر پہنچ جاتا مگر میں انتظار نہیں کرسکتی تھی… میں جلد ازجلد اسے یہ خبر سنانا چاہتی ہوں کہ اس کی شادی کی تاریخ طے ہوگئی ہے۔‘‘ ملکہ آنکھیں بند کرکے مسکرائی۔ ’’میں اسے یہ خبر سنا کر حیران کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
٭…٭…٭
شاہی قافلہ سبک رفتاری سے نیم پختہ سڑک پر آگے کی طرف بڑھ رہا تھا کہ ایک بڑی بادبانی کشتی دریا کے کنارے آٹھہری۔ اس میں سے کئی تنومند اور لحیم شحیم جوان اترے۔ انہوں نے سامان سے بھرے تھیلے اٹھا رکھے تھے۔ ان کے جسم پر چمکتے ہتھیار دور سے ہی دکھائی دے رہے تھے۔
’’اپنی رفتار ذرا تیز کرو۔‘‘ جوانوں کے آگے چلنے والے نسبتاً بڑی عمر والے مرد جس کا نام جون تھا، نے پلٹ کر اپنے ساتھیوں سے کہا۔ ’’سامان غار میں چھپا کر شام ڈھلنے سے پہلے ہمیں کشتی پر واپس پہنچنا ہے۔ اگر یہاں کوئی موقع ملا تو ہمیں اس سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے۔‘‘
’’ہاں! اب اسی طرح مواقع تلاش کرنے ہوں گے۔‘‘ پیچھے آنے والوں میں سے ایک نے جواب دیا۔ ’’سمندر اور دریائوں پر تو بادشاہ کے بحری فوجیوں نے ہمیں بالکل بے بس کرکے رکھ دیا ہے۔‘‘
’’تو یہاں کون سی سہولتیں حاصل ہیں؟‘‘ پیچھے چلنے والوں میں سے ایک نے جس کا نام ایبٹ تھا، دل جلے انداز میں جواب دیا۔ ’’شہروں میں قوانین زیادہ سخت ہیں۔ جگہ جگہ شاہی فوجی دستے جدید ہتھیار کے ساتھ گھومتے نظر آتے ہیں، مگر بہرحال ہمیں تو اپنا کام کرنا ہے۔‘‘
ایک نوجوان نے جوشیلے لہجے میں کہا۔ ’’آج یہیں کہیں ہلہ بولتے ہیں۔ کیا کہتے ہو سردار…؟‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ جون نے پرسوچ انداز میں سر ہلایا۔ ’’کچھ سوچتے ہیں۔‘‘
وہ سب گھنے پیڑوں کی اوٹ میں رکے ہوئے تھے، تب ہی ان کی سماعت سے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں ٹکرائی تھیں۔ سردار نے تیزی سے آگے بڑھ کر دیکھا۔ گھنے پیڑوں کے اس پار پہاڑیوں کے سائے میں ایک چھوٹا قافلہ جارہا تھا۔ زیادہ لوگ نہیں تھے، صرف دو بگھیاں کچھ گھڑ سوار تھے لیکن انداز سے لگ رہا تھا کوئی دولت مند جاگیردار جارہا ہے۔ گھوڑے بھی تنومند تھے اور بگھیاں بھی شاندار تھیں۔
’’جوانو…! ایک عمدہ کام تمہارے ہاتھ لگ گیا ہے۔‘‘ سردار نے مڑ کر تمام قزاقوں کو مخاطب کیا۔ ’’تیزی سے آگے بڑھو اور قافلے پر ٹوٹ پڑو۔‘‘
ڈاکو اپنے سردار کے پیچھے تیزی سے لپکتے ہوئے آگے بڑھے۔
گو کہ ابھی سورج خاصی آب و تاب سے چمک رہا تھا، مگر جنگل کے اس حصے میں سورج کی کرنیں گھنے اور اونچے پیڑوں کی وجہ سے کم داخل ہوپاتی تھیں۔ وہ لوگ نیم تاریک راستوں پر تیزی سے قافلے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ چھوٹی پہاڑیوں تک پہنچتے پہنچتے جنگل تقریباً ختم ہوجاتا تھا۔ وہ لوگ چٹانوں کے پیچھے گھات لگا کر بیٹھ گئے۔ جونہی قافلہ چٹان کے قریب پہنچا، تمام ڈاکو بجلی کی سی سرعت سے قافلے پر ٹوٹ پڑے۔
یہ حملہ اتنا غیر متوقع اور اچانک تھا کہ حفاظتی دستے کے سپاہی بوکھلا گئے اور ڈاکوئوں نے انہیں بے دریغ تہہ تیغ کرنا شروع کردیا۔ آرتھر کی باتیں کرتے کرتے ابھی ابھی الزبتھ نے آنکھیں بند کرکے پشت سے سر ٹکایا تھا، خود ریٹا بھی اونگھ رہی تھی۔
باہر شور کی وجہ سے ریٹا نے گھبرا کر پردہ سرکا کر کھڑکی سے باہر دیکھنے کی کوشش کی۔ باہر تو میدان کارزار بنا ہوا تھا۔ کئی گھڑسوار قتل ہوچکے تھے، بقیہ نے ملکہ کی بگھی کو چاروں طرف سے حصار میں لینے کی کوشش کی تھی۔ ملکہ پوری طرح بیدار ہوچکی تھی۔ اس نے گھبرا کر ادھ کھلی کھڑکی سے باہر جھانکنے کی کوشش کی، تب ہی ایک تلوار بگھی کا پردہ چیرتی ہوئی ملکہ کے کاندھے میں اترتی چلی گئی۔ ملکہ تکلیف سے دہری ہوگئی۔ دونوں کنیزیں چیختی ہوئی ملکہ پر چھا گئیں، مبادا کوئی اور وار ملکہ کو مزید زخمی نہ کردے۔
سپاہیوں کو بگھی کے چاروں طرف حفاظتی بند باندھتے دیکھ کر ڈاکوئوں کو یقین ہوچلا تھا کہ ہو نہ ہو اس بگھی میں خزانہ موجود ہے سو ان کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح بگھی پر قابض ہوجائیں۔
پیچھے آنے والا شاہی دستہ آوازیں اور شور شرابا سن کر چوکنا ہوگیا تھا۔ شاہی فوج تیزی سے آگے بڑھی اور آن کی آن میں ڈاکوئوں کے سر پر پہنچ گئی۔ ڈاکوئوں کو شاہی دستے کی آمد کی قطعاً توقع نہیں تھی۔ وہ گھبرا کر جنگل کی طرف بھاگنے لگے، مگر چاق و چوبند دستہ ان پر ٹوٹ پڑا اور کچھ ہی دیر میں سڑک پر جابجا ڈاکوئوں کی لاشیں بچھ گئیں۔ کئی گھڑ سوار بھی کام آئے تھے، کچھ شدید زخمی تھے۔ شاہی دستہ ملکہ کی خیریت معلوم کرنے کے لئے بگھی کی طرف لپکا تو پتا چلا ملکہ زخمی ہوچکی ہے۔ ملکہ کے کاندھے سے خون بہہ رہا تھا۔ خون بہہ جانے اور کچھ اس حادثے کی دہشت کے باعث ملکہ پر غنودگی طاری ہوگئی تھی۔
سپاہی اس کی حالت دیکھ کر گھبرا اٹھے۔ ’’ہمیں واپس چلنا چاہئے۔‘‘ سالار نے اپنا فیصلہ سنایا۔ قافلہ واپسی کے لئے پلٹ گیا۔
٭…٭…٭
’’ملکہ عالیہ کے قافلے پر حملہ ہوگیا تھا۔‘‘ ڈاکٹر ایڈم نے شہزادے کو بتایا۔ ’’شہر سے نکلتے ہی زرد چٹانوں والے علاقے میں کچھ قزاق چٹانوں کے پیچھے چھپے ہوئے تھے، وہ قافلے پر ٹوٹ پڑے۔ کئی سپاہی زخمی ہوئے، کئی مارے گئے۔‘‘
آرتھر عالم اضطراب میں اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’مام تو خیریت سے ہیں نا…؟‘‘
’’زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔‘‘ ایڈم نے سر جھکا کر کہا۔ ’’اسی لئے قافلہ واپس پلٹ گیا۔‘‘
’’اوہ میرے خدا!‘‘ شہزادہ، ماں کے زخمی ہونے کی خبر سن کر تڑپ اٹھا۔ ’’کون لوگ تھے؟ کیا انہیں پتا تھا کہ وہ قافلہ ملکہ انگلستان کا ہے؟‘‘
’’یہ بات اب تک واضح نہیں ہوسکی۔‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔ ’’غالباً وہ کسی دولت مند رئیس کا قافلہ سمجھ کر حملہ آور ہوئے تھے۔ شاہی دستے کے پہنچنے تک انہوں نے کافی نقصان پہنچا دیا تھا۔‘‘
’’ہم جلد ازجلد اپنی والدہ کے پاس پہنچنا چاہتے ہیں۔‘‘ شہزادے نے دوٹوک لہجے میں کہا۔
ایڈم نے جلدی سے کہا۔ ’’شاہی ہرکارہ بھی یہی پیغام لایا ہے۔ بادشاہ سلامت نے آپ کو فوراً پہنچنے کا حکم دیا ہے۔‘‘
’’تو پھر فوری طور پر سفر کا انتظام کیا جائے۔‘‘ شہزادے نے بے تابی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
’’بگھی تیار ہے آپ اوورکوٹ پہن کر باہر تشریف لے چلئے۔‘‘ ایڈم نے بتایا۔
ایک خادم اوورکوٹ لے آیا۔ شہزادہ اسے پہنتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا۔ لمحے بھر کو اسے ماریہ کا خیال آیا، مگر اس وقت زخمی ماں کا خیال، ہر خیال پر حاوی تھا سو وہ اس کے بارے میں کوئی بات کئے بنا ہی بگھی کی طرف بڑھا چلا گیا۔
ڈاکٹر ایڈم بھی اس کے ساتھ ہی بگھی میں بیٹھ گیا۔
٭…٭…٭
آرتھر انگلستان کا ولی عہد شہزادہ تھا، یہ بات ڈاکٹر ایڈم کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔ ڈاکٹر ایڈم نے اپنے تئیں کوشش کی تھی کہ ملکہ کے آنے پر اسے کماحقہ پروٹوکول دیا جائے۔ اس سلسلے میں اس نے اپنے اسٹاف کے ساتھ ایک میٹنگ کی تھی اور اس میں طے پایا تھا کہ آرتھر کی والدہ کو پچھلے گیٹ سے اندر لایا جائے، تمام اسٹاف اس کا سواگت کرے اور ماریہ خوبصورت لباس میں اسے پھولوں کا گلدستہ پیش کرے۔
ماریہ صبح جب سج دھج کر اسپتال آئی تو ڈاکٹر ایڈم کا خط اس کا منتظر تھا جس میں اس نے لکھا تھا کہ اسپتال آتے ہوئے آرتھر کی والدہ کو حادثہ پیش آگیا ہے، زخمی ہونے کے باعث وہ واپس چلی گئی۔ میں آرتھر کو لے کر شہر جارہا ہوں۔ خط ختم ہونے تک ماریہ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا تھا۔ آرتھر کی ماں کے زخمی ہونے کا پڑھ کر اسے رنج ہوا تھا۔ اب وہ اسپتال نہیں آرہی، یہ پڑھ کر اسے مایوسی ہوئی تھی اور آرتھر اس سے کچھ کہے سنے بغیر چلا گیا تھا۔ اس بات کا اسے شدید صدمہ تھا۔ وہ شکستہ سے انداز میں کرسی پر ڈھیر ہوگئی۔
اس کا اداس اور مایوس چہرہ دیکھ کر اس کی ماں مسز ناڈیہ پریشان ہو اٹھی۔ ’’آج تم جلدی گھر آگئی ہو اور بہت فکرمند لگ رہی ہو۔ سب ٹھیک تو ہے نا؟‘‘ ماں کے پوچھنے پر اس نے تھکے ہوئے لہجے میں آرتھر کے جانے کی کہانی کہہ سنائی تھی۔
’’اوہ تو تم آرتھر کے اس طرح اچانک چلے جانے پر ناخوش ہو؟‘‘ اس کی ماں نے ساری بات سن کر مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ایک لمحے کے لئے اس کی جگہ تم خود کو رکھ کر سوچو۔ خدانخواستہ ایسی کوئی خبر تمہیں میرے بارے میں ملتی تو تمہارا ردعمل کیا آرتھر سے مختلف ہوتا؟‘‘
ماریہ نے لمحہ بھر کو یہ بات سوچی اور اس کا دل عجیب بے تابی سے دھڑک اٹھا۔ اسے اپنی سوچ پر افسوس اور شرمندگی محسوس ہورہی تھی۔ آرتھر کے رویئے سے جو ہلکی سی مایوسی اور بدگمانی پیدا ہوئی تھی، وہ رخصت ہوچکی تھی۔ جانے اس کی ماں کی کیسی حالت ہوگی؟ ہمارے پاس تو اس کا کوئی اتاپتا ہی نہیں ہے کہ رابطہ کرکے اس کی ماں کی خیریت ہی معلوم کرلیتے۔ ماریہ اپنے کمرے میں بستر پر لیٹی مسلسل آرتھر کے بارے میں سوچے جارہی تھی۔ کیسی بے بسی تھی۔ وہ آرتھر کے ماں، باپ کا نام تک نہیں جانتی تھی۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ آرتھر کبھی لوٹ کر نہیں آتا تو وہ کیا کرے گی؟ اسے کہاں تلاش کرے گی؟ وہ تو محض روتی اور تڑپتی رہ جائے گی، مگر اس کا دل یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا کہ آرتھر جیسی سچی محبت کرنے والا انسان کبھی بے وفائی کا ارتکاب بھی کرسکتا ہے۔ اسے اب بے قراری سے ڈاکٹر ایڈم کی واپسی کا انتظار تھا، مگر کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ کب تک واپس لوٹتا ہے۔
٭…٭…٭کھلے دریچوں سے خنک ہوا کے نرم لطیف جھونکے کمرے میں داخل ہورہے تھے، کمرے کی پرسکون فضا میں تازہ پھولوں کی مہک رچی ہوئی تھی۔ سامنے کشادہ مسہری پرنرم تکیوں کے سہارے ملکہ الزبتھ آنکھیں بند کئے لیٹی تھی۔ اس کا شانہ سفید پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا اور چہرے سے نقاہت اور کمزوری کا اظہار ہورہا تھا۔
’’ملکہ عالیہ! شہزادہ آرتھر تشریف لائے ہیں۔‘‘ ریٹا نے خوشی سے لرزتی آواز میں اطلاع دی تو اس نے فوراً آنکھیں کھول دیں۔ ذرا ہی دیر میں وہاں آرتھر پہنچ گیا تھا۔
’’مام!‘‘ اس کی آواز میں بے تابی اور پریشانی تھی۔ ’’آپ ٹھیک تو ہیں مام…؟‘‘
ملکہ نے سیدھے ہوتے ہوئے حیرت اور بے یقینی سے آرتھر کی طرف دیکھا۔ اس کے سامنے ایک نحیف و نزار لڑکے کی جگہ ایک سروقامت، شاندار اور باوقار نوجوان کھڑا تھا۔
’’اوہ میرے پیارے بیٹے! یہ تم ہو؟‘‘ ملکہ شانے کی تکلیف فراموش کرکے ایک دم اٹھ بیٹھی۔ اس نے بازو پھیلائے اور شہزادہ ماں کی مامتا بھری آغوش میں سما گیا۔ ’’میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ تمہیں، تمہارے قدموں پر چلتا دیکھوں۔‘‘ ملکہ نے خوابناک لہجے میں سرگوشی کی۔ ’’اور آج میں اپنی اس خواہش کو پورا ہوتا دیکھ رہی ہوں۔ میں بہت خوش ہوں۔‘‘ پھر وہ ریٹا کی طرف پلٹی۔ ’’غریبوں میں کھانا اور کپڑے تقسیم کئے جائیں، منتظم اعلیٰ کو حکم دے دو شہزادے کے جشن صحت کی تیاری شروع کردیں۔‘‘
خادمہ نے سر تسلیم خم کیا اور ملکہ کو تعظیم دیتی تیزی سے خواب گاہ سے باہر چلی گئی۔
’’ڈاکٹر ایڈم، ملکہ عالیہ کی خیریت دریافت کرنے کے متمنی ہیں۔‘‘ ایک خادمہ نے کمرے میں داخل ہوکر گزارش کی۔ ملکہ کے اثبات میں سر ہلانے پر وہ تیزی سے واپسی کے لئے پلٹ گئی۔ دوسرے ہی لمحے نہایت مؤدبانہ انداز سے ڈاکٹر ایڈم کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے سر جھکا کر ملکہ کو تعظیم دی اور بولا۔ ’’آپ کو صحت مند توانا دیکھ کر میں خداوند کریم کا شکرگزار ہوں۔‘‘
’’اوہ ڈاکٹر ایڈم!‘‘ ملکہ کے پرجوش لہجے میں احساس تشکر گھلا ہوا تھا۔ ’’میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ آپ میرے بیٹے کو یوں حیرت انگیز طور پر تندرست اور توانا کردیں گے۔‘‘
’’صحت اور تندرستی دینے والی تو خداوند کریم کی ذات ہے ملکۂ عالیہ!‘‘ ڈاکٹر ایڈم نے انکساری سے کہا۔ ’’اور جہاں تک پرنس آف ویلز کی صحت یابی کا تعلق ہے تو اس میں مجھ سے زیادہ میرے اسپتال کی ایک جونیئر ڈاکٹر کی کوشش اور محنت کارفرما ہے۔‘‘
ماریہ کے ذکر پر بے اختیار چونک کر آرتھر نے ایڈم کی طرف دیکھا۔ روانہ ہوتے وقت وہ ماں کے زخمی ہونے کی خبر سن کر اتنا بدحواس ہوگیا تھا کہ اسے ماریہ کو خداحافظ کہنا بھی یاد نہیں رہا تھا۔ اب وہ سوچ رہا تھا بھلا وہ میرے بارے میں کیا سوچ رہی ہوگی؟
ایک لمبا سفر طے کرکے وہ گھر پہنچا تھا اس لئے کسی قدر تھکن محسوس کررہا تھا۔ ماں سے مل کر وہ اپنی خواب گاہ میں چلا گیا تھا۔ بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کرتے ہی ماریہ کا مسکراتا چہرہ اس کے سامنے آگیا تھا۔ وہ تصور میں اس سے مخاطب ہوا۔ ’’سوری ڈارلنگ! میں آتے وقت تمہیں الوداع بھی نہ کہہ سکا۔ خیر کوئی بات نہیں! میں بہت جلد تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس محل میں لے آئوں گا۔‘‘
ڈاکٹر ایڈم کا فوری طور پر واپسی کا ارادہ تھا مگر ملکہ نے اسے شہزادے کے جشن صحت میں شرکت کے لئے روک لیا تھا۔ آرتھر کی آمد پورے قصر میں ایک خوشی بن کر پھیل گئی تھی۔ الزبتھ اپنا زخمی بازو بھلا کر بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ لیڈی مارگریٹ پوتے کی صحت یابی پر پھولے نہیں سما رہی تھی۔
بادشاہ ہنری ہفتم اور ہنری جونیئر بھی بہت خوش تھے۔ پورے قصر میں خوشی کے شادیانے بج رہے تھے، مسرت و انبساط کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ خدام، خادمائیں سب ہی خوش تھے۔ سب کو خوش دیکھ کر آرتھر بھی بہت خوش تھا۔ ایسے میں اس کا دل چاہتا تھا کاش! ماریہ بھی یہاں ہوتی۔ وہ جلد ازجلد ماریہ کے بارے میں الزبتھ سے بات کرنا چاہتا تھا مگر یہاں اس قدر گہماگہمی اور ہلچل تھی کہ وہ کوشش کے باوجود ایسا کوئی موقع نہ پا سکا کہ ماں سے اس کا تذکرہ کرتا۔ سو اس نے فیصلہ کیا کہ جشن صحت کے بعد وہ ماں سے اپنی محبت کا ذکر کرے گا اور اسے ماں کی محبت پر اس قدر یقین واثق تھا کہ وہ اس کی بات کو نظرانداز نہیں کرے گی اور جلد ازجلد ماریہ کو اس کی دلہن بنا کر محل میں لے آئے گی۔
آخر وہ شام آہی گئی جس کا کئی دن سے اہتمام اور انتظام ہورہا تھا۔ پورا قصر دلہن کی طرح سجا ہوا تھا، دور دور تک چراغاں کیا گیا تھا، غرباء میں ملبوسات اور کھانے تقسیم کئے گئے تھے، شاہی چرچ میں ایک نئے ہال کی تعمیر کے لئے خطیر رقم نذر کی گئی تھی۔ آراستہ ایوان میں آرتھر، شاہ ہنری ٹیوڈر اور اپنے بھائی ہنری جونیئر کے ساتھ براجمان تھا۔ قصر کی یہ پہلی تقریب تھی جس میں وہ شریک ہورہا تھا۔ یہ سب کچھ اس کے لئے حیرت انگیز اور مسرت آمیز تھا۔ ایسے میں اس کا دل باربار ماریہ کے لئے مچل رہا تھا۔ اس خوشی میں کاش وہ بھی شریک ہوسکتی، یہ بات اس نے ایڈم سے کہی تو وہ بھی بے ساختہ بول اٹھا تھا۔ ’’میں خود بھی یہی چاہ رہا تھا، مگر جب تم نے نہیں کہا تو میں بھی خاموش رہا۔‘‘
’’کاش! آپ نے کہہ دیا ہوتا۔‘‘ آرتھر نے دل مسوس کر کہا۔
جشن کے اگلے دن ڈاکٹر ایڈم نے روانگی کا ارادہ کیا۔
’’ماریہ کو میرا سلام کہئے گا۔‘‘ آرتھر کے لہجے کی بے تابی ایڈم کو حیران کر گئی۔ اس نے گھبرا کر آرتھر کی آنکھوں میں دیکھا۔ وہاں محبت اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ افروز تھی۔
’’کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک ولی عہد ایک عام سی لڑکی سے محبت کرنے لگے اور اگر ایسا ہو تو اس کا انجام کیا ہوگا؟‘‘ ڈاکٹر نے کچھ حیرت اور کچھ وحشت کے ساتھ سوچا۔ تب ہی ملکہ الزبتھ، شہزادے کے کمرے میں آگئی تھی۔ اس کے پیچھے دو خادمائیں ایک بڑی روغنی تصویر جو خوبصورت غلاف میں چھپی ہوئی تھی، اٹھائے ہوئے اندر داخل ہوئیں۔ پھر انہوں نے وہ تصویر سامنے دیوار کے ساتھ ایک تپائی پر ٹکا دی تھی۔
ملکہ کو دیکھ کر ایڈم نے تعظیم پیش کی۔ ’’میں رخصت ہونے سے قبل آپ کی خدمت میں حاضر ہونے ہی والا تھا۔‘‘
’اوہ…اچھا!‘‘ ملکہ خوش دلی سے مسکرائی۔ ’’تو چلئے رخصت ہونے سے پہلے آپ ہماری ایک اور خوشی میں شامل ہوجائیں۔‘‘ ملکہ نے تصویر کی طرف اشارہ کیا۔ ڈاکٹر ایڈم اور شہزادہ آرتھر دونوں ہی حیرانی سے تصویر کی طرف دیکھ رہے تھے۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ آخر آرتھر نے پوچھ ہی لیا۔
’’تمہاری صحت یابی کی خوشی میں تمہارے لئے ایک نایاب تحفہ!‘‘ ملکہ نے معنی خیز انداز میں مسکرا کر کہا اور خادمائوں کی طرف دیکھ کر اشارہ کیا۔ خادمائوں نے آگے بڑھ کر تصویر سے غلاف اتار دیا۔
یہ ایک سنہری فریم میں ایک نوعمر دوشیزہ کی تصویر تھی۔ ایک عام سی شکل و صورت کی لڑکی مگر اس کی آنکھوں میں بلا کی معصومیت تھی اور پھولے پھولے رخساروں سے بچوں جیسا بھول پن جھلک رہا تھا۔ اس معصومیت اور بھولپن نے اس کے عام سے چہرے کو ایک خاص دلکشی بخش دی تھی۔
آرتھر نے ایک نظر تصویر پر ڈال کر سوالیہ نظروں سے ماں کی طرف دیکھا۔ ’’میں پہچانا نہیں یہ لڑکی کون ہے؟‘‘
’’اسپین کے بادشاہ فرنانڈس اور ملکہ ازابیلا کی بیٹی شہزادی کیتھرین آواگون!‘‘ ملکہ نے تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے تعارف کروایا۔ ’’اور ہمارے ولی عہد آرتھر کی بچپن کی منگیتر…!‘‘
’’کیا…؟‘‘ آرتھر یوں اچھلا جیسے اسے بچھونے ڈنک مار دیا ہو۔ ’’کیا کہا آپ نے…؟‘‘ صحیح طور پر سننے کے باوجود اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس نے جو سنا، وہ صحیح ہے۔
’’یہ شہزادی کیتھرین ہے شہزادے!‘‘ ملکہ نے دوبارہ وضاحت کی۔ ’’جب تم محض چار سال کے تھے تب ایک باقاعدہ معاہدے کے تحت تمہاری اس سے منگنی کردی گئی تھی۔‘‘
’’مگر مجھے آج تک اس بارے میں کیوں بتایا نہیں گیا؟‘‘ آرتھر ہکابکا سا ماں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’محض تمہاری بیماری کی وجہ سے!‘‘ ملکہ نے سر جھکا کر دھیمی آواز میں جواب دیا۔ ’’ایک آدھ بار میں نے تمہیں بتانے کی کوشش بھی کی مگر تم سننے پر آمادہ نہ ہوئے۔‘‘
’’مگر … مام!‘‘ آرتھر نے جزبز ہوکر کچھ کہنے کی کوشش کی۔
’’شہزادے ایک بات اچھی طرح سمجھ لو۔‘‘ ملکہ نے اس کا تذبذب دیکھ کر مضبوط لہجے میں کہا۔ ’’اگر مگر کا سوال وہاں اٹھتا ہے جہاں کچھ رووبدل کی گنجائش ہوتی ہے۔ جہاں فیصلہ آخری اور حتمی ہو، وہاں اگرمگر بے وقعت ہوتے ہیں۔‘‘ لحظہ بھر کو ملکہ نے کیتھرین کی تصویر کی طرف دیکھا اور پھر بات آگے بڑھائی۔ ’’کیتھرین ایک اچھی لڑکی ہے۔ باشعور ہونے کے بعد اس رشتے سے واقف ہونے کے باعث اس کے دل میں تمہارے لئے پرخلوص احساسات ہیں۔ اب اس کے نصیب سے خداوند کریم نے تمہیں صحت بھی عطا کردی ہے تو بادشاہ سلامت نے موسم سرما میں تمہاری اور کیتھرین کی شادی کی تاریخ طے کردی ہے۔ اوائل اکتوبر میں کیتھرین یہاں پہنچ جائے گی۔ چودہ نومبر کو تم دونوں کی شادی ہونا قرار پائی ہے۔‘‘
ملکہ نے قدرے حیرت سے آرتھر کا دھواں دھواں ہوتا چہرہ دیکھا پھر پلٹ کر بت کی طرح ساکت کھڑے ڈاکٹر ایڈم پر نگاہ کی۔
’’مبارک ہو ملکہ عالیہ!‘‘ ڈاکٹر یوں ہڑبڑا کر سیدھا ہوا جیسے چابی کا کوئی کھلونا ہو اور چابی گھماتے ہی حرکت میں آگیا ہو۔ ’’یہ بہت خوشی کی بات ہے۔ آپ کو بہت مبارک ہو۔‘‘
’’شکریہ ڈاکٹر!‘‘ ملکہ کے لبوں پر آسودہ مسکراہٹ بکھر گئی۔ ’’شادی پر آپ بھی مدعو ہیں۔‘‘
’’مجھے اس مبارک تقریب کا بے چینی سے انتظار رہے گا۔‘‘ ایڈم نے تعظیم پیش کی۔
آرتھر اب تک گم صم کھڑا ماں کا چہرہ تک رہا تھا۔ لگتا تھا کہ وہ جو کہنا چاہتا تھا، وہ الفاظ کہیں کھو گئے ہیں۔ وہ جملے جو اس نے ذہن میں ترتیب دیئے تھے، کہیں فضا میں تحلیل ہوگئے ہیں۔ وہ آرزو جو پل پل اس کے دل میں ہلچل مچائے ہوئے تھی، وہ اس بھاری روغنی تصویر تلے دب کر کراہ رہی تھی۔ وہ ماں سے کس طرح کہے کہ وہ کیتھرین سے نہیں ماریہ سے شادی کا خواہشمند ہے۔ اس کے ہونٹ سل گئے تھے، دل ڈوب رہا تھا۔ ملکہ، ڈاکٹر ایڈم سے الوداعیہ جملے کہہ کر واپسی کے لئے پلٹ گئی۔ ’’اب آپ سے ملاقات پرنس آرتھر کی شادی پر ہوگی۔‘‘
’’یقیناً…!‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔
ملکہ سر اونچا کئے شاہانہ انداز سے خادمائوں کے جلو میں کمرے سے باہر نکل گئی۔ ڈاکٹر نے نیچی نگاہوں سے تصویر کی طرف دیکھا۔ شکل و شباہت میں اس لڑکی کا ماریہ سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ ماریہ حسن کا ایک جیتا جاگتا شاہکار تھی لیکن اگر ان کی حیثیت کا موازنہ کیا جاتا تو کیتھرین کے سامنے ماریہ کچھ بھی نہ تھی۔ ایک بیوہ ماں کی یتیم بیٹی جبکہ کیتھرین اسپین کی شہزادی تھی۔ یہ حقیقت تھی کہ آرتھر ماریہ کو دل کی گہرائیوں سے چاہتا تھا اور اس کا ہاتھ تھامتے وقت اس نے بھولے سے بھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی یہ ہاتھ چھوڑنا بھی پڑے گا۔ وہ اس سے بے وفائی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا مگر حالات نے اس کے سامنے عجب صورتحال لاکھڑی کی تھی۔ وہ تقدیر کے اس اچانک حملے پر حیران پریشان ہو اٹھا تھا۔ اسے فوری طور پر تو کچھ سوجھا ہی نہیں کہ کہے تو کیا کہے؟
ڈاکٹر ایڈم نےسر کو ہلکا سا خم دے کر آرتھر کی طرف دیکھا۔ ابھی کچھ دیر قبل اس نے آرتھر کی آنکھوں میں ماریہ کی تصویر دیکھی تھی مگر اس پل وہ تصویر دھندلا گئی تھی اور وہ سر جھکائے کیسا مجبور اور بے بس لگ رہا تھا۔ بجائے غصہ آنے کے ایڈم کو اس پر رحم آرہا تھا۔
’’ٹھیک ہے شہزادے! تم جو کررہے ہو، تمہیں یہی کرنا چاہئے تھا۔‘‘ ڈاکٹر ایڈم نے تائید بھرے انداز میں سر ہلاتے ہوئے سوچا۔ انسان اگر مقابلہ کرنے کے قابل نہ ہو تو ہتھیار ڈال دینے میں ہی عافیت ہے اور رہا سوال محبت کا تو یہ جو محبت ہے، ہمیشہ ہی مسکراہٹوں سے شروع ہوکر آنسوئوں پر ختم ہوتی ہے۔ ایڈم، ماریہ اور آرتھر کی محبت کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا تھا بلکہ سرے سے کچھ جانتا ہی نہ تھا۔ ابھی کچھ دیر قبل آرتھر کے دھڑکتے لہجے اور اس کی آنکھوں سے جھانکتی تصویر سے اسے کچھ گمان ہوا تھا مگر اب وہ سوچ رہا تھا کہ شاید اسے غلط گمان ہوا تھا۔ آرتھر سے اجازت لے کر وہ شکستہ قدموں سے رخصت ہوگیا تھا۔
آرتھر اپنی جگہ گم صم بیٹھا تھا۔ اس نے کیتھرین کی تصویر پر دوسری نگاہ ڈالنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ وہ مسلسل ماریہ کے بارے میں سوچے جارہا تھا اور پھر وہ ایک دم اٹھ کھڑا ہوا۔ میں یہ فیصلہ نہیں مانوں گا۔ ہرگز نہیں۔
وہ تیزی سے چلتا ملکہ الزبتھ کے کمرے میں جا پہنچا۔ ’’مام! مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔‘‘
’’ہاں… ہاں! کیوں نہیں… آئو یہاں بیٹھو۔‘‘ ملکہ نے آرتھر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ لمحوں میں اس کی حالت تبدیل ہوگئی تھی۔ گلاب کی طرح کھلا چہرہ کملا گیا تھا، دمکتی آنکھیں بجھ سی گئی تھیں۔
’’کیا بات ہے میرے بیٹے…!‘‘ ملکہ اس کی بدلی ہوئی کیفیت دیکھ کر کسی قدر ہراساں ہوکر بولی۔ ’’تم ٹھیک تو ہو؟‘‘
’’جی! میں ٹھیک ہوں۔‘‘ آرتھر نے سر جھکا کر شکستہ اور دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’مگر میرا دل ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
’’کیوں… کیا ہوا… مجھے بتائو؟‘‘ ملکہ نے جلدی سے پوچھا اور شہزادے نے نگاہ جھکا کراپنے دل کی تمام کیفیات اپنی محبت کے آغاز سے آخری لمحوں تک کی داستان اور ماریہ کی خاطر تخت و تاج چھوڑ دینے کے عزم کا اظہار کردیا۔
ملکہ آنکھوں میں حیرت، بے یقینی اور تاسف لئے آرتھر کی طرف دیکھتی رہی۔ اس کا چہیتا بیٹا کسی لڑکی کے عشق میں اتنا دیوانہ ہورہا تھا کہ وہ تخت و تاج چھوڑنے کی بات کررہا تھا۔
’’اگر میری شادی ماریہ سے نہ ہوئی تو میں زندہ نہ بچ سکوں گا مام! میں کسی بھی قیمت پر ماریہ کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کرسکتا۔‘‘ آرتھر کا دوٹوک لہجہ اور حتمی فیصلہ الزبتھ کو خوف زدہ کرگیا۔
یہ بات وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ آرتھر کی خواہش کی تکمیل ناممکن ہے۔ شاہ انگلستان ہنری ٹیوڈر یہ بات ہرگز نہ مانتا کہ آرتھر کی شادی اسپین کی شہزادی کی بجائے ایک معمولی سی، عام سی لڑکی سے کردی جائے۔ محض اس بنا پر کہ اسے شہزادہ چاہتا ہے۔ حکومتوں کی بقا اور استحکام میں محبتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، وہ اس سچائی سے واقف تھی۔
کئی لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے دھیمی آواز میں آرتھر کو مخاطب کیا۔ ’’دیکھو آرتھر! میں تمہارے احساسات کو سمجھ سکتی ہوں…یہ جو محبت ہے، اسی طرح جوان دلوں پر حملہ کرتی ہے اور انہیں اپنا اسیر بنا لیتی ہے، مگر زندگی کے حقائق محبت کے شیریں تصور سے کہیں زیادہ تلخ اور اذیت ناک ہیں۔‘‘ اس نے اپنا ممتا بھرا ہاتھ اس کے شانے پر رکھ دیا۔ ’’میں تم سے یہ نہیں کہوں گی کہ تم نے آخر بنا سوچے سمجھے محبت کیوں کی! بس تم سے اتنا کہوں گی اس محبت کو بھول جائو، ماریہ کو بھول جائو۔‘‘
ماں کے لہجے کی بے بس گزارش آرتھر کو تڑپا گئی، وہ بولا۔ ’’مام! میں ماریہ کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔‘‘
’’کوئی کسی کے بغیر مرتا نہیں ہے۔‘‘ الزبتھ نے آنکھیں بند کرکے صوفے کی پشت سے سر ٹکا لیا۔ ’’خود میری مثال تمہارے سامنے ہے۔‘‘ یہ بات اس نے کہی نہیں صرف سوچ کر رہ گئی۔ ’’میں سمجھتی تھی پیٹر راڈرک کے بغیر زندہ نہ رہ سکوں گی مگر تم دیکھ سکتے ہو میں زندہ ہوں۔ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ایک خوش و خرم زندگی بتا رہی ہوں۔‘‘
’’پلیز مام…!‘‘ آرتھر آگے بڑھ کر الزبتھ کے سامنے دوزانو ہوکر بیٹھ گیا۔ ’’پلیز مام! میری بات سمجھنے کی کوشش کریں۔‘‘
’’میرے پیارے بیٹے!‘‘ الزبتھ نے اپنے گھٹنوں پر دھرے آرتھر کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے کرب بھرے لہجے میں کہا۔ ’’تم ذرا اپنی ماں کی مجبوریوں کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ کیتھرین کوئی معمولی لڑکی نہیں، اسپین کی شہزادی ہے۔ اس کے ساتھ تمہارے رشتے کا باقاعدہ تحریری معاہدہ موجود ہے، پھر اسپین کے اسکاٹ لینڈ سے بے حد قریبی تعلقات ہیں۔ اس رشتے کو ختم کرنے کی صورت میں شاید تمہاری بہن مارگریٹ کا بھی رشتہ ختم ہوجائے اور ہمارا ملک کئی اطراف سے مشکلوں میں گھر جائے، کیونکہ پرتگال کا بادشاہ کیتھرین کا بہنوئی ہے اور میکسی ملین کی مملکت سے بھی اسپین کی رشتے داری قائم ہونے والی ہے۔ ایسی صورت میں تم خود سوچو انکار کس طرح ممکن ہے۔‘‘
’’انکار آپ کے لئے ناممکن ہوگا مگر میرے لئے نہیں۔‘‘ آرتھر نے ضدی لہجے میں کہا۔ ’’میں یہ تخت و تاج اور حکومت چھوڑ کر ماریہ کے پاس جارہا ہوں۔‘‘ وہ ایک دم کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔
’’آرتھر…!‘‘ الزبتھ نے اسے آواز دی۔ ’’اگر تم نے کیتھرین سے شادی سے انکار کیا اور گھر چھوڑ کر گئے تو میں خودکشی کرلوں گی۔‘‘ ملکہ نے تھکے ہوئے انداز میں سر پشت سے ٹکا دیا۔ ’’تمہارا انکار تمہارے والد کی بادشاہت کے لئے کسی سانحے سے کم نہیں ہوگا اور میں یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ تمہارے والد کو کسی کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے یا وہ کسی مشکل میں گرفتار ہوں۔‘‘
آرتھر کے بڑھتے ہوئے قدم ایک دم ساکت ہوگئے۔ الزبتھ اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کے مقابل جاکھڑی ہوئی۔ ’’اگر سچ پوچھو تو کیتھرین مجھے بھی اتنی زیادہ پسند نہیں، میں نے خود اس رشتے کو توڑ دینے کی بات کی تھی، مگر جب بادشاہ سلامت نے اس رشتے کے ختم ہونے کی صورت میں سنگین نتائج کا احساس دلایا تو مجھے حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا۔ تمہیں بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔‘‘
آرتھر نے کچھ کہنا چاہا تو الزبتھ نے اپنے دونوں ہاتھ باہم ملا کر آرتھر کے سامنے جوڑ دیئے۔ ’’پلیز آرتھر! اب کچھ نہ کہو بس! میری بات مان لو۔‘‘ الزبتھ کی آنکھیں آنسوئوں سے لبریز ہوگئی تھیں۔ آرتھر نے حیرت اور افسوس سے ماں کی طرف دیکھا۔ وہ سب کچھ برداشت کرسکتا تھا، مگر ماں کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ ان آنسوئوں پر اپنی بڑی سے بڑی خوشی قربان کرسکتا تھا۔ سو اس نے اپنی محبت کی قربانی دینے کا فیصلہ کرلیا۔
’’مام…!‘‘ اس نے بے اختیار اپنے سامنے جڑے ماں کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لئے۔ ’’میں آپ کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا مام!‘‘
’’اوہ میرے پیارے بیٹے!‘‘ الزبتھ اس کے سینے پر سر رکھ کر بلک بلک کر رو دی۔ ’’مجھے معاف کردینا میرے لعل! تم جس ماں کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے، وہ ماں تمہاری آنکھوں کو عمر بھر کا رونا دے رہی ہے۔ سوری میرے پیارے بیٹے! بس یوں سمجھ لو تمہاری ماں مجبور ہے… بے حد مجبور!‘‘
٭…٭…٭
ڈاکٹر ایڈم سرشام ہی اسپتال واپس پہنچ گیا تھا۔ موسم سرما کی آمد کی سرد ہوائوں نے اس کی صحت پر بُرا اثر کیا تھا۔ وہ ہلکا سا ٹمپریچر محسوس کررہا تھا۔ کچھ سفر کی تھکن بھی تھی اسی لئے وہ آنے کے بعد اپنے رہائشی حصے میں چلا گیا اور اپنے کمرے میں بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کرلی تھیں۔
اس وقت ڈاکٹر ماریہ بوڑھی خواتین کے وارڈ میں تھی، وہیں اسے اطلاع ملی تھی کہ ڈاکٹر ایڈم واپس لوٹ آئے ہیں۔ پچھلے دس دنوں سے ایک ایک دن گن گن کر وہ ان کی آمد کی راہ تک رہی تھی۔ ان کے آنے کی خبر سنتے ہی وہ ان کے آفس کی طرف چل دی تھی۔ وہاں پتا چلا کہ وہ اپنے گھر میں موجود ہیں۔ سو اس نے وہاں جانے کا فیصلہ کرلیا۔ خادم اسے نشست گاہ میں بٹھا کر ڈاکٹر کو اطلاع دینے اندر چلا گیا۔
کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر ایڈم مسکراتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے ایک اونی شال اوڑھ رکھی تھی۔ ’’ہیلو بے بی…!‘‘ ڈاکٹر نے آگے بڑھ کر شفقت بھرے انداز میں ماریہ کے گال تھپتھپائے۔ ’’ہماری ننھی ڈاکٹر کیسی ہے؟‘‘
’’میں تو ٹھیک ہوں۔‘‘ ماریہ نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’مگر آپ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔‘‘
’’نہیں! میں ٹھیک ہوں۔‘‘ ڈاکٹر مسکرایا۔ ’’بس! ذرا سفر کی تھکان ہے۔‘‘
’’آپ مسٹر آرتھر کو پہنچانے گئے تھے، وہ بخیروعافیت منزل پر پہنچ گئے؟‘‘ ماریہ نے سرسری سے لہجے میں پوچھا۔ ’’اور ان کی والدہ…! وہ تو ٹھیک ہیں نا؟‘‘
’’ہاں…! سب ٹھیک ٹھاک رہا۔‘‘ ڈاکٹر ایڈم کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ اس ذکر کو فوری طور پر ختم کرنا چاہ رہا ہے۔
’’وہاں سب آرتھر کو اس طرح صحت مند دیکھ کر خوش ہوئے ہوں گے؟‘‘ ماریہ نے دھیمے لہجے میں پوچھا۔
’’ہاں…! اس کی ماں تو خوشی میں پاگل ہوگئی تھی۔‘‘ ڈاکٹر کو بتانا پڑا۔ ’’پھر اس کی صحت یابی کی خوشی میں ایک شاندار جشن کا اہتمام کیا گیا۔ آرتھر کی خواہش تھی کہ تم بھی اس جشن میں شریک ہوتیں مگر تمہیں بلانے کا وقت نہیں تھا۔‘‘
آرتھر کو وہ یاد تھی، اس بات سے اس کا دل دھڑک اٹھا۔ اس کے چہرے پر ایک رنگ سا آکر گزر گیا۔ ’’اور… اور وہ کیا کہہ رہا تھا؟‘‘ ماریہ نے دھیمے لہجے اور پراشتیاق آواز میں سوال کیا۔ (جاری ہے)