’’اس نے تو اور کچھ نہیں کہا۔‘‘ ایڈم نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔ ’’البتہ اس کی والدہ نے ہمارے اسپتال اور تمہارے لئے ایک خصوصی گرانٹ کا حکم دیا ہے۔‘‘
’’خصوصی گرانٹ کا حکم…!‘‘ ماریہ حیران ہوئی۔
’’میرا مطلب ہے خصوصی انعام کا اعلان!‘‘ ایڈم نے جلدی سے اپنے جملے کی وضاحت کی۔ ’’وہ تم سے ملنا چاہ رہی تھیں مگر راستے میں اس حادثے کے بعد انہیں واپس جانا پڑا۔‘‘
’’اور اب…!‘‘ ماریہ نے نگاہ جھکا کر پوچھا۔ ’’ان سے ملاقات کی کیا صورت ہوگی؟‘‘
’’ابھی دو تین مہینے وہ بے حد مصروف رہیں گی۔‘‘ ڈاکٹر ایڈم نے سر ہلایا۔ ’’شادی کی تیاریوں میں اتنا وقت تو لگنا ہی چاہئے۔‘‘
’’شادی…!‘‘ ماریہ نے حیرت بھری مسرت کے ساتھ سوال کیا۔
’’ہاں! آرتھر کی والدہ جلد ازجلد اس کی شادی کردینا چاہتی ہیں۔‘‘ ایڈم کے جواب نے ماریہ کا دل دھڑکا دیا تھا۔ کیا آرتھر نے اپنی ماں کو اس سے شادی کے لئے رضامند کرلیا؟ اگر ایسا ہو چکا ہے تو یہ بات اسے کون بتائے گا؟
وہ یہ سوال براہ راست ایڈم سے نہیں پوچھ سکتی تھی۔ البتہ اسے یہ سن کر کسی قدر تسلی ہوگئی تھی کہ آرتھر نے یقیناً اپنی ماں سےشادی کی بات کرلی ہے، تب ہی اس کی ماں جلد ازجلد شادی کی خواہشمند ہے۔
’’آرتھر جب چار سال کا تھا تو اس کا رشتہ طے کردیا گیا تھا۔‘‘ ڈاکٹر ایڈم نے بتایا۔
ماریہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ ’’کیا کہا آپ نے…؟‘‘ وہ سمجھ کر بھی ان کی بات سمجھ نہیں پائی تھی۔
’’آرتھر کی بچپن میں ہی منگنی ہوچکی تھی۔‘‘ ایڈم نے مزید وضاحت کی۔ ’’مگر خود اسے بھی یہ بات معلوم نہیں تھی۔‘‘
’’تو پھر…؟‘‘ ماریہ نے بے تابانہ سوال کیا۔ ’’اب کیا ہوگا؟‘‘
’’پھر کیا…!‘‘ ایڈم اس کے درد کو محسوس کرنے کے باوجود بے نیازی سے مسکرایا۔ ’’تاریخ طے ہوچکی ہے، جلد ہی شادی ہونے والی ہے۔‘‘
ماریہ کے لئے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا مشکل ہوگیا تھا۔ وہ قریب دھری کرسی پرگر سی گئی۔ اس کا سر چکرا رہا تھا اور دل کی دھڑکنیں مدھم ہوتی جارہی تھیں۔
’’ڈاکٹر ماریہ! آپ ٹھیک تو ہیں؟‘‘ ایڈم نے پوچھا۔ وہ اس کی تکلیف کی وجہ سمجھ رہا تھا مگر وہ کربھی کیا سکتا تھا۔
’’میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں، آپ کو کچھ بتانا چاہتی ہوں۔‘‘ ماریہ نے دل گرفتہ اور شکستہ لہجے میں کہا۔
ایڈم ہاتھ اٹھا کر بولا۔ ’’پیاری بچی! آج نہیں…! تم خادمہ کے ساتھ اپنے گھر جائو، کچھ آرام کرو۔ اس موضوع پر ہم پھر کبھی بات کریں گے۔‘‘
بات ختم کرکے ایڈم اٹھ کھڑا ہوا۔ مجبوراً ماریہ کو بھی اٹھنا پڑا تھا۔
٭…٭…٭
اوپر نیلگوں شفاف آسمان سایہ فگن تھا اور نیچے تاحد نگاہ ہلکورے لیتے نیلے سمندر کے سینے پر ایک چھوٹا بحری بیڑہ آہستہ روی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ بیڑے کے بالکل درمیان میں ایک آراستہ چھوٹے جہاز پر اسپین کی شہزادی کیتھرین اپنی خادمائوں، ایک قریبی مصاحبہ بریٹنی اور کچھ رشتے داروں کے ساتھ موجود تھی۔ اس کے دائیں بائیں تین جہازوں میں اس کے جہیز کا خزانہ، اس کے ملبوسات اور ضرورت کی دیگر اشیاء بھری ہوئی تھیں۔ ان چاروں جہازوں کو چاروں طرف سے پانچ حفاظتی جہاز حصار میں لئے ہوئے تھے اور یوں یہ چھوٹا سا بحری بیڑا شہزادی کیتھرین کو اس کے پیا دیس پہنچانے کے لئے رواں دواں تھا۔
اوائل نومبر میں یہ بیڑا انگلستان کے ساحل پر لنگرانداز ہونے والا تھا۔ نومبر کی چودہ تاریخ کو شہزادی کیتھرین کی شادی شہزادے آرتھر ٹیوڈر سے ہونا قرار پائی تھی۔
شہزادی کیتھرین اپنی روشن اور معصوم آنکھوں میں دھنک رنگ سپنے سجائے اس انجانی دنیا کی طرف محوسفر تھی، جہاں اسے اب عمر بھر رہنا تھا۔ اس انجانے شخص کے ساتھ جس کی تصویر بھی آج تک اس نے نہیں دیکھی تھی۔ جب ملکہ الزبتھ اس کی تصویر اپنے بیٹے آرتھر کے لئے لے جارہی تھی تب اس نے دبی زبان سے اپنی بہن جوانا کے ذریعےآرتھر کی تصویر منگوانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
’’ارے پگلی! اب آرتھر کی تصویر کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ جوانا نے شوخ لہجے میں کہا تھا۔ ’’اب شادی میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ وہاں جاکر خود اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لینا۔ سنا ہے خاصا ہینڈسم نوجوان ہے۔‘‘ اور کیتھرین نے شرما کر نگاہیں جھکا لی تھیں۔
ایک ایک دن گن کر بالآخر اکتوبر کا مہینہ آگیا تھا اور وہ اپنی امنگوں اور آرزوئوں کے ساتھ بحری جہاز پر سوار ہوکر جارہی تھی۔ چند دنوں بعد وہ انگلستان کے ساحل پر اترنے والی تھی۔
انگلستان میں اس کا بے چینی سے انتظار شروع ہوگیا تھا۔ شہزادے آرتھر کے سوا سب ہی دن گن گن کر اس کی راہ تک رہے تھے۔
قصر کے وسط میں واقع ایک آراستہ خواب گاہ میں انگلستان کے بادشاہ کی والدہ لیڈی مارگریٹ ادھ کھلے دریچے میں کھڑی آکاش کے ماتھے پر دمکتے ماہ کامل کو تک رہی تھی۔
’’وہ لڑکی کیتھرین جو میرے پوتے آرتھر کی دلہن بننے کے لئے آرہی ہے، وہ شاید اس چاند جیسی ہی خوبصورت ہوگی۔‘‘ اس نے چاند کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ پھر یکایک پلٹ کر چھپرکھٹ پر سوئی اپنی چہیتی پوتی مارگریٹ کی طرف دیکھا۔ پھر وہ کرسی پر بیٹھ کر سوچوں میں گم ہوگئی تھی۔ ماضی کی وادیوں میں سفر کرتے جانے کتنا وقت گزر گیا تھا۔ دور مشرقی پہاڑیوں کی اوٹ سے صبح کاذب کا دھندلکا پھوٹ رہا تھا۔ ہر سمت سنہری غبار سا پھیلتا محسوس ہورہا تھا۔ لیڈی مارگریٹ نے اٹھ کر پورا دریچہ وا کردیا۔ بادِنسیم کے نرم جھونکے شریر بچوں کی طرح ایک دوسرے کے پیچھے لپکتے خواب گاہ میں آداخل ہوئے تھے۔
’’دادی جان! صبح ہوگئی کیا؟‘‘ شہزادی مارگریٹ نے گھنی پلکوں کی چلمن سے دادی کی طرف دیکھا پھر انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھی۔
’’ہاں…!‘‘ لیڈی مارگریٹ نے محبت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
کچھ دیر بعد وہ دونوں قصر کے پائیں باغ میں چہل قدمی میں مصروف تھیں۔
’’کیا شہزادی کیتھرین آج لندن پہنچ جائے گی؟‘‘ ٹہلتے ٹہلتے اچانک شہزادی مارگریٹ نے سوال کیا۔ ’’کتنے دن پہلے سنا تھا کہ وہ اسپین سے روانہ ہوچکی ہے۔‘‘
’’وہ روانہ ہوچکی ہے تو جلد ہی یہاں پہنچ جائے گی۔‘‘ لیڈی مارگریٹ نے بے نیازی سے جواب دیا۔ ’’تمہیں شہزادی کیتھرین سے زیادہ شاہ جیمز فورتھ کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ وہ بھی اس شادی میں شرکت کریں گے۔‘‘ دادی کے لہجے میں ہلکی سی شوخی سمٹ آئی تھی۔
اکتوبر اختتام پذیر ہونے کو تھا۔ سخت سردی کے باوجود شاہی قصر اور دارالحکومت میں ایک گہما گہمی اور گرم جوشی کی فضا قائم تھی۔ ہر طرف ایک مسرت آمیز ہلچل پائی جاتی تھی۔ نا صرف شاہی محلات بلکہ پورے دارالحکومت کو شاندار طریقے سے سجایا گیا تھا۔ پورے ملک کے امراء، نوابین اور پڑوسی ممالک کے شاہان شادی کی اس تقریب میں مدعو تھے۔ رات ڈھلتے ہی پورا شہر چراغوں سے جگمگا اٹھتا تھا، ہر سمت رنگ و نور و مسرت و انبساط کا طوفان تھا، ہر راستہ دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔ ہر فرد شہزادی کیتھرین کا منتظر تھا۔
شہزادی کیتھرین اپنے چند عزیزوں اور رشتے داروں، کنیزوں اور بے حد و حساب جہیز کے ساتھ شاہی قصر میں قدم رنجہ ہوچکی تھی۔ شاندار طریقے سے اس کا استقبال کیا گیا تھا اور اسے شاہی قصر کے مخصوص حصے میں جو بطور خاص اس کے لئے تعمیر کیا گیا تھا، پہنچا دیا گیا تھا۔ شہزادی کیتھرین اس وقت اپنی خاص خادمہ بریٹنی کے ساتھ اپنی کشادہ اور شاندار خواب گاہ میں موجود تھی۔
’’بریٹنی! یہ سب خواب جیسا لگ رہا ہے نا؟‘‘ اس نے چاروں طرف حیران نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’جی شہزادی عالیہ!‘‘ بریٹنی نے مؤدبانہ لہجے میں جواب دیا۔ ’’آپ کے سسرال میں آپ کا شایان شان استقبال کیا گیا۔ بادشاہ ہنری ہفتم، ملکہ الزبتھ، بادشاہ کی والدہ لیڈی مارگریٹ بہ نفس نفیس خود قصر کے دروازے پر آپ کو ویلکم کرنے کو موجود تھے۔ شہزادہ ہنری جونیئر، شہزادی مارگریٹ اور ننھی شہزادی میری بھی! سب کس قدر خوش تھے۔ یہ سب واقعی خواب جیسا لگتا ہے۔‘‘
’’مگر سب کے ساتھ وہ موجود نہیں تھے۔‘‘ کیتھرین کی آواز میں افسردگی گھل گئی۔ ’’پرنس آف ویلز کہ جنہیں دیکھنے کے لئے ہماری آنکھیں ترس رہی تھیں، اپنےاستقبال کرنے والوں میں انہیں نہ پا کر ہمیں مایوسی ہوئی ہے۔‘‘
’’ارے آپ کو معلوم نہیں، شادی سے پہلے دولہا اور دلہن ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے۔‘‘ بریٹنی نے اس کے ملال کو دور کرنے کی خاطر قدرے شوخ لہجے میں کہا۔ ’’خیر آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، شادی میں اب دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ پلک جھپکتے میں شادی کی تاریخ آجائے گی۔‘‘ لحظہ بھر توقف کے بعد وہ دوبارہ بولی۔ ’’اب آپ غسل فرما کر کچھ دیر آرام فرما لیجئے تاکہ سفر کی تھکان دور ہوسکے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ کیتھرین باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔ شاہی خواب گاہ سے ملحق باتھ روم خصوصی طور پر دلہن کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ یہ ایک کشادہ باتھ روم تھا۔ درمیان میں ایک خوبصورت حوض تھا جس کے کونوں پر اژدھوں کے منہ کھولے مجسمے جھکے ہوئے تھے۔ اژدھوں کے کھلے منہ سے گرم پانی کی دھاریں حوض میں گر رہی تھیں۔ سامنے کی پوری دیوار آئینے سے مزین تھی۔ کیتھرین کے باتھ روم میں داخل ہوتے ہی خادمائوں نے آگے بڑھ کر اس کے لباس کے بندھن کھولنے شروع کردیئے۔ کیتھرین نے پرستائش نظروں سے غسل خانے کی آرائش و زیبائش کو دیکھا اور حوض کے نیم گرم اور مشکبار پانی میں اترتی چلی گئی۔ اژدھے اپنے کھلے منہ سے معطر موتیوں کی بوچھاریں اس پر نچھاور کرنے لگے۔
غسل سے فارغ ہوکر اس نے ایک دیدہ زیب لباس زیب تن کرلیا تھا۔ خادمائوں نے اسے سنوار کر کسی اور ہی جہاں کی مخلوق بنا دیا تھا۔
’’بریٹنی! کیا یہ میں ہوں؟‘‘ آئینے میں اپنا سراپا دیکھ کر وہ خود بھی حیران رہ گئی تھی۔
’’نہیں…!‘‘ بریٹنی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’یہ انگلستان کی ہونے والی ملکۂعالیہ ہیں۔‘‘
’’اوہ…!‘‘ کیتھرین کی معصوم آنکھوں میں مسرت و انبساط کے بے شمار دیپ جل اٹھے۔ ’’یہ سب کس قدر حسین ہے، کسی رنگین خواب کی طرح دلنشین و دل نواز!‘‘ اس نے اپنی دمکتی آنکھوں کو گھنی پلکوں کی چلمن سے ڈھانپ لیا، مبادا اس کی آنکھوں سے جھانکتے ان سپنوں کو کسی کی نظر نہ لگ جائے۔
تکیے پر سر رکھ کر اس نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔ اس کی بند آنکھوں کے پیچھے اس کے بیش بہا خواب چھپے تھے۔ وہ خواب جو ہوش سنبھالتے ہی اس کی آنکھوں میں بس گئے تھے۔ ایک عجب سا احساس جس نے شروع سے ہی اسے خود سے بیگانہ کردیا تھا کہ وہ کسی اورکے لئے بنائی گئی ہے۔ آج اسے لگ رہا تھا کہ وہ اپنےگھر، اپنی منزل پر پہنچ گئی ہے اور وہ شخص آرتھر ٹیوڈر کیا وہ بھی اس سے اسی طرح ملنے کے لئے بے تاب ہوگا؟ شب عروسی کی محض چند راتیں درمیان میں رہ گئی تھیں۔ وہ شخص جو اس کے روم روم میں بسا ہوا تھا، چند روز بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کا ہونے والا تھا۔
’’میرے محبوب…! کہاں ہو تم؟‘‘ کیتھرین نے دل ہی دل میں اسے صدا دی۔ ’’مجھے بتائو تمہارے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں؟ تمہاری دھڑکنوں میں کیا میرا ہی نام دھڑکتا ہے؟‘‘
’’نہیں…!‘‘ آرتھر نے بے تابی سے کروٹ بدلتے ہوئے سوچا۔ ’’یہ جو کچھ ہورہا ہے، یہ سب نہیں ہونا چاہئے تھا۔‘‘ ماریہ ایک حسین خواب کی طرح اس کی آنکھوں میں بسی ہوئی تھی، دھڑکنوں میں سما گئی تھی۔ اتنی شدید اور بے پناہ محبت کے باوجود وہ ماریہ کو چھوڑ کر کیتھرین سے شادی کرنے جارہا تھا۔ وہ ایسا کرنے پر مجبور تھا۔ یہ سب وہ اپنی ماں کی وجہ سے کررہا تھا۔ اپنی ماں کی پلکوں میں لرزتے آنسو دیکھ کر وہ لرز کر رہ گیا تھا۔ سو اس نے اپنی ماں کی خوشی کی خاطر اپنی محبت کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ اپنی چاہت کی قربانی دے دی تھی اور دھڑکنوں میں رقص کرتا ماریہ کا نام درد کی طرح اس کے دل میں منجمد ہوگیا تھا۔ یہ تخت و تاج، یہ بادشاہت یہ سب اس کے لئے بے معنی چیزیں تھیں۔ وہ ان چیزوں کو تیاگ کر اپنی محبت کے قدموں میں سر رکھ دینے کا حوصلہ رکھتا تھا، مگر وہ ماں کا دل نہیں دکھا سکتا تھا۔ جانتا تھا کہ وہ ماریہ کے بغیر زیادہ عرصے زندہ نہیں رہ سکے گا مگر اسے یہ بھی یقین تھا کہ ماں کے آنچل سے نکل کر وہ ایک پل سانس نہیں لے سکے گا۔
آرتھر کو کچھ پتا نہ تھا کہ ماریہ کس حال میں ہے۔ اسے اس کی شادی کے بارے میں کچھ پتا چلا کہ نہیں۔ وہ اس کے بارے میں کیا سوچتی ہوگی۔ اس کے شب و روز کس طرح گزر رہے ہوں گے۔ وہ نہیں جانتا تھا اور جاننا بھی نہیں چاہتا تھا۔ اس نے دل کے دریچے بند کرکے آنکھوں پر بے حسی کی پٹی باندھ لی تھی۔ اب اس کی آنکھوں میں کوئی خواب تھا، نہ دل میں کوئی ارمان!
وہ بستر سے اٹھ کر دریچے میں آکھڑا ہوا۔ پورا محل اور محل کے اطراف کی عمارات دلہن کی طرح سجی ہوئی تھیں۔ ابھی شادی میں کچھ دن باقی تھے مگر شادی کا ہنگامہ ابھی سے شروع ہوگیا تھا۔ ہر طرف رنگ و نور کا طوفان تھا، ہر چہرہ شاداب اور ہر لب متبسم تھا بس ایک آرتھر کا دل تھا جو ملول اور مضمحل تھا۔ چہرہ اداس اور آنکھیں مایوس تھیں۔ شاید چراغ تلے اندھیرا اسی کو کہتے ہیں۔ وہ کرب بھرے انداز میں مسکرایا۔ جس کی خوشی میں سارا ملک خوش ہے اور وہ اس خوشی کی رمق سے بھی محروم ہے۔
دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی اور الزبتھ کی خاص خادمہ ریٹا کمرے میں داخل ہوئی۔ ’’ملکۂعالیہ تشریف لا رہی ہیں۔‘‘ ریٹا نے تعظیم دیتے ہوئے اطلاع دی۔ چند لمحوں بعد الزبتھ کمرے میں داخل ہوئی۔
’’ہائے مام…!‘‘ آرتھر مسکراتا ہوا ماں کی جانب بڑھا۔ ’’تشریف لایئے۔‘‘
’’تمہیں خبر تو ہوگئی ہوگی۔‘‘ ملکہ، بیٹے کی طرف دیکھ کر معنی خیز انداز میں مسکرائی۔ ’’شہزادی کیتھرین آگئی ہیں۔‘‘
آرتھر نے صرف اثبات میں سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔
’’جانے کس زمانے سے شاہی خاندان میں یہ رسم چلی آرہی ہے۔‘‘ ملکہ نے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’کہ شادی کی تاریخ طے ہونے کے بعد دولہا دلہن ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے لیکن…!‘‘ ملکہ نے لمحے بھر کو تھم کر آرتھر کے چہرے پر تجسس اور اشتیاق ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر اس کا سپاٹ چہرہ ہر قسم کے جذبے اور احساس سے عاری تھا۔ ’’اگر تم چاہو تو شادی سے پہلے تمہاری ملاقات شہزادی کیتھرین سے ہوسکتی ہے۔‘‘
ملکہ کو اپنا ادا کیا ہوا جملہ بے معنی اور بے وقعت لگ رہا تھا۔ شہزادے نے سر جھکا لیا تھا۔ اس کے چہرے پر پھیلے ہوئے ملال کو دیکھ کر ملکہ ہراساں ہوگئی تھی۔ ’’تم خوش نظر نہیں آرہے؟‘‘
آرتھر نے شکوہ کناں نگاہیں اٹھائیں۔ ’’سارے جہاں کا دکھ دے کر آپ مجھ سے خوش نظر آنے کی بات کررہی ہیں؟‘‘ یہ بات وہ سوچ کر رہ گیا، زبان پر لا کر ماں کو رنجیدہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔
’’خوش تو ہوں۔‘‘ وہ بے دلی سے مسکرایا۔ ’’بس! آج کچھ تھکن محسوس ہورہی ہے۔‘‘
’’تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ ماں نے تڑپ کر پوچھا۔ ’’کیا ڈاکٹر ایڈم کو بلوا لیا جائے؟‘‘
’’ارے نہیں۔‘‘ آرتھر جلدی سے بولا۔ ’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔ وہ یہاں آکر کیا کریں گے… ویسے بھی مجھ سے زیادہ اسپتال کو، ان کے مریضوں کو ان کی ضرورت ہے… میںتو اب صحت مند ہوں۔‘‘
’’خداوند کریم تمہیں ہمیشہ صحت مند رکھے۔‘‘ ملکہ نے اس کے رخسار کو پیار سے چھوا۔ ’’تمہیں اب کبھی کسی معالج کی ضرورت نہ پڑے۔‘‘ اس کے مامتا بھرے لہجے میں شدید محبت کا احساس دھڑک رہا تھا۔ آرتھر نے ماں کا ہاتھ پکڑ کر لبوں سے لگا لیا۔ اس محبت کی خاطر وہ اپنی ہزاروں محبتیں قربان کرسکتا تھا۔ ملکہ مسکراتی ہوئی واپسی کے لئے پلٹ گئی۔ دروازے پر استادہ اس کی خادمائیں اس کے پیچھے چل دی تھیں۔
٭…٭…٭
شدید سردی اپنے جلو میں لئے نومبر کا مہینہ رواں دواں تھا۔ راتوں کو چاند کہر کی چادر اوڑھ کر سو رہتا اور دن میں سورج گھنے بادلوں کی اوٹ میں دبکا پڑا رہتا۔ لگتا تھا شب و روز اندھیرے میں ڈوب گئے ہیں۔ ماریہ کی زندگی کا بھی کچھ یہی عالم تھا۔ آرتھر کو گئے دو مہینے سے اوپر ہوگئے تھے مگر اس کی طرف سے کوئی خبر، کوئی پیغام نہیں آیا تھا۔ اس نے کئی بار ڈاکٹر ایڈم سے پوچھنے کی کوشش کی تھی، مگر ڈاکٹر نے ہر بار نہایت سلیقے سے اسے ٹال دیا تھا۔ وہ اس کا رشتے کا ماموں بھی تھا۔ اس کی بیوہ ماں کو اس نے سہارا دیا تھا، گھر دیا تھا، اس کی تعلیم و تربیت میں مدد کی تھی۔ وہ اس کا بہت احترام کرتی تھی۔ اس سے اکھڑ لہجے میں بات کرنے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ایک عجب سی شکستگی اور دل گرفتگی اس کے وجود پر چھاتی جارہی تھی۔ وہ گویا اپنے آپ میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔ بظاہر ان کے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ وہ اسی ذمہ داری اور توجہ سے مریضوں کا علاج کرتی، پابندیٔ وقت کے ساتھ روزانہ اسپتال جاتی اور اپنا کام پوری ذمہ داری سے کرتی، مگر اس کے لب مسکرانا بھول گئے تھے۔ ایک روح فرسا غم اس کی آنکھوں میں ٹھہر گیا تھا۔ اس کے دل کو اب بھی یقین نہیں تھا کہ آرتھر نے اس سے بے وفائی کی ہے۔ اب بھی اس کی نگاہیں آرتھر کی منتظر تھیں۔
اس دوپہر چھٹی کا اعلان کردیا گیا تھا۔ وہ حیران ہوئی۔ ’’ایسا کیوں…؟‘‘
’’کیونکہ ابھی ابھی اطلاع آئی ہے کہ پرنس آف ویلز کی شادی کی تقریبات کا آغاز ہوگیا ہے، اس لئے اس خوشی میں تمام ادارے بند کردیئے جائیں گے اور یہ سلسلہ شادی تک جاری رہے گا۔‘‘ اس کی ساتھی ڈاکٹر نے وضاحت سے بتایا۔
وہ یونہی پوچھ بیٹھی۔ ’’شادی کب ہے؟‘‘
’’’چودہ نومبر بروز اتوار!‘‘ ساتھی ڈاکٹر نے بتایا۔ ’’ولی عہد کی شادی اسپین کی شہزادی سے ہورہی ہے۔‘‘
اس صبح ڈاکٹر ایڈم کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے وہ لڑکھڑا کر گر گئی تھی۔ ایڈم سامنے ہی تھا، اس نے لپک کر اسے تھاما تھا۔ ’’ماریہ! میری بچی تمہیں کیا ہورہا ہے؟‘‘
ڈاکٹر کے کرب بھرے لہجے میں کئے گئے سوال پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔ ’’انکل! میں مر رہی ہوں… میں آرتھر کے بغیر جی نہیں سکوں گی۔‘‘
’’کون آرتھر…؟‘‘ ایڈم نے ہراساں لہجے میں پوچھا۔
’’آرتھر کون ہے… کہاں ہے، یہ آپ مجھے بتائیں گے۔‘‘ ماریہ کے لہجے میں عجیب سی التجا تھی۔ ’’میں بس اتنا جانتی ہوں وہ میرا مریض تھا پھر یہ تعلق دوستی میں بدل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دوستی محبت میں ڈھل گئی۔‘‘
ماریہ بے بسی سے سسکیاں لے رہی تھی اور ایڈم بے بس نظروں سے اسے تک رہا تھا۔ ایڈم کو آرتھر کے انداز سے کچھ اندازہ تو ہوا تھا مگر اس نے یہ سوچ کر کہ ماریہ اور آرتھر کے درمیان زمین آسمان کا فاصلہ ہے، اس اندازے کو احمقانہ سمجھ کر نظرانداز کردیا تھا مگر آج وہ سچائی پوری طرح اس کے سامنے آگئی تھی۔
ماریہ نے ببانگ دہل محبت کا اقرار کیا تھا مگر وہ حیران تھا کہ ماریہ، آرتھر کے بارے میں اس کے نام کے علاوہ کچھ نہیں جانتی تھی تو کیا کسی اجنبی انجانے شخص سے کوئی لڑکی اس قدر ٹوٹ کر بھی محبت کرسکتی ہے کہ اس کے بغیر زندہ رہنا بھی مشکل ہوجائے۔
یہ بات اس نے ماریہ سے کہی تو وہ پریقین لہجے میں بولی۔ ’’میں اتنا جانتی ہوں کہ آرتھر مجھ سے محبت کرتا ہے اور وہ مجھے کبھی دھوکا نہیں دے سکتا۔‘‘
’’مگر کبھی کبھی حالات محبت کرنے والوں کو اس نہج پر لے آتے ہیں کہ چاہتے ہوئے بھی وفا نہیں کر پاتے۔ ایسے لوگوں کو تم کیا نام دو گی۔ دھوکے باز یا مجبور…؟‘‘
’’محبت میں مجبوری کا کیا دخل؟‘‘ ماریہ نے اپنی پوری آنکھیں کھول کر ڈاکٹر ایڈم کے ستے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا۔ ’’محبت کرنے والے دنیا کی ہر مجبوری سے ٹکرا جاتے ہیں… دنیا تیاگ دیتے ہیں۔‘‘
’’دنیا تیاگ دینا شاید آسان ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے ماریہ کی آنکھوں میں دیکھا۔ ’’مگر ماں کی آنکھوں سے بہتے آنسو نظرانداز کردینا آسان نہیں بہت مشکل ہے۔‘‘
’’میں کچھ سمجھی نہیں…!‘‘ ماریہ نے حیرت سے کہا۔ ’’میں آپ سے گزارش کرتی ہوں براہ کرم مجھے آرتھر کا پتا بتا دیجئے۔ میں آج ہی اس کے شہر کے لئے روانہ ہوجانا چاہتی ہوں۔‘‘
’’وہ لندن میں ہے۔‘‘ ایڈم نے اپنا سر کرسی کی پشت سے ٹکاتے ہوئے آہستگی سے جواب دیا۔ ’’تم آج یہاں سے روانہ ہوگی تو کم و بیش دو راتوں اور دو دنوں کے بعد وہاں پہنچ پائو گی۔‘‘
’’ہاں! تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘ ماریہ نے جلدی سے کہا۔
’’دو دن بعد جانتی ہو کیا تاریخ ہے؟‘‘ ایڈم نے ڈوبتے لہجے میں کہا۔ ’’دو دن بعد چودہ نومبر ہے اور جانتی ہو چودہ نومبر کو آرتھر کی شادی ہورہی ہے۔‘‘
ڈاکٹر کا آہستگی سے کہا گیا جملہ بارود کی طرح ماریہ کے اعصاب پر پھٹا۔ ’’کیا کہا آپ نے؟‘‘ اس نے تقریباً چیختے ہوئے سوال کیا۔ ’’یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘
’’میں نے تمہیں بتایا تو تھا کہ اس کا رشتہ بچپن میں طے کردیا گیا تھا اور وہ شادی سے انکار نہیں کرسکا۔‘‘
’’اس نے شادی کا وعدہ مجھ سے کیا تھا۔ مجھ سے…!‘‘ ماریہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’وہ کسی اور سے شادی کر ہی نہیں سکتا۔ آپ کو غلط خبر ملی ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ پلیز آپ مجھے اس کا پتا بتا دیجئے۔‘‘
’’اس کا پتا لے کرکیا کرو گی؟‘‘ ڈاکٹر نے تھکے تھکے سے لہجے میں کہا۔ ’’اسے مجبور شخص سمجھ کر معاف کردو۔‘‘
’’نہیں! میں اسے ایسا نہیں کرنے دوں گی۔‘‘ ماریہ نے پرعزم لہجے میں کہا۔ ’’مجھے آپ اس کا پتا دے دیجئے، میں اسی وقت روانہ ہوجائوں گی۔‘‘
ماریہ کے لہجے میں ضد اور اصرار کو محسوس کرتے ہوئے ڈاکٹر نے آخر حقیقت حال بیان کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ بولا۔ ’’تم اس کے پاس جانے کے لئے روانہ تو ہوسکتی ہو مگر اس کے پاس نہیں پہنچ سکتیں کیونکہ وہ تمہاری پہنچ سے بہت دور ہے۔ وہ آسمان پر چمکتا ہوا چاند ہے اور تم محض ایک چکور! جو چاند کو پا لینے کے لئے اس کی طرف پرواز تو کرتا ہے مگر اسے کبھی چھو نہیں سکتا۔ وہ دہکتا سورج ہے، اسے پکڑنے والے ہاتھ جھلس ہی نہیں جاتے بلکہ خاکستر ہوجاتے ہیں۔‘‘
’’اس کے بغیر یہ زندگی کسی دہکتے ہوئے الائو اور راکھ کے ڈھیر کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے انکل!‘‘ ماریہ کی آواز میں جہاں بھر کا کرب سمٹا ہوا تھا۔ ’’وہ آسمان پر چمکتا چاند ہو یا دہکتا سورج…! مجھے اس سے سوال کرنے کا حق ہے۔ مجھے بتایئے کون ہے وہ…؟‘‘
’’وہ انگلستان کے تخت و تاج کا وارث ہے۔‘‘ ڈاکٹر ایڈم نے ماریہ کی آنکھوں میں بے رحمی سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’وہ پرنس آف ویلز آرتھر ٹیوڈر ہے۔ شاہ انگلستان ہنری ٹیوڈر ہفتم اور ملکہ الزبتھ یارک کا بڑا صاحبزادہ، ولی عہدِ سلطنت!‘‘
’’کیا…؟‘‘ ماریہ نے حیرانی سے پلکیں جھپکائیں۔ ’’آپ کیا کہہ رہے ہیں، میں کچھ سمجھی نہیں!‘‘
’’میں کہہ رہا ہوں۔‘‘ ایڈم کی آواز میں التجا سمٹ آئی۔ ’’سمجھنے کی کوشش کرو ماریہ…! آرتھر اور تمہاری راہیں جدا ہیں۔ وہ دوسری دنیا کا باسی ہے۔ دو دن بعد اسپین کی شہزادی کیتھرین سے اس کی شادی ہونے والی ہے۔‘‘
ماریہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ڈاکٹر کی طرف دیکھے جارہی تھی۔ ایڈم نے جو کچھ بتایا تھا، وہ اس قدر ناقابل یقین تھا۔ ایک سیدھا سادا سا، معصوم سا نوجوان ولی عہدِ انگلستان بھی ہوسکتا تھا۔ بھلا ولی عہد کو اس دور افتادہ عام سے اسپتال میں علاج کے لئے آنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کے ایک اشارے پر ملک بھر کے اعلیٰ ترین ڈاکٹر جمع ہوسکتے تھے۔ بھلا اسے عام سے مریض کی طرح اسپتال میں داخل ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کے لیے اسپتال کے اسپتال اس کے قدموں پر ڈھیر ہوسکتے تھے۔ وہ اس اسپتال میں عام مریضوں کی طرح آیا تھا، اس کے ساتھ عام مریضوں جیسا ہی رویہ روا رکھا گیا تھا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آرتھر پرنس آف ویلز بھی ہوسکتا ہے۔ تخت و تاج انگلستان کا وارث، اسپین جیسی طاقتور سلطنت کا ہونے والا داماد…! اب ماریہ کو اس کے خدام کا خصوصی رویہ یاد آرہا تھا اور ڈاکٹر ایڈم کا انتہائی مؤدبانہ اور محتاط انداز گفتگو، خود آرتھر میں کچھ ایسی باتیں تھیں جو اسے عام لوگوں سے ممتاز کرتی تھیں۔ وہ عام سا لڑکا کب تھا۔ بے خبری میں اس سے کتنی بڑی خطا ہوگئی تھی۔ انجانے میں وہ شاہی قصر کی پتھریلی دیواروں سے اپنا شیشہ دل ٹکرا بیٹھی تھی۔
ماریہ سر جھکائے، آنکھیں نیچے کئے
بے حال سی کرسی پر بیٹھی تھی۔ ایک ایسے مسافر کی طرح جس کا سب کچھ لٹ گیا ہو، ایک ایسے جواری کی مانند جو اپنی متاع حیات ہار چکا ہو۔ اب اس کے دامن میں کچھ نہیں تھا۔ نہ یقین، نہ امید، نہ آرزو، نہ انتظار…! ہر سمت وحشتوں کا صحرا تھا اور وہ اپنے کاندھے پر اپنی محبت کی بے گور و کفن نعش اٹھائے ہراساں و پریشان چاروں اور تک رہی تھی۔ ایڈم کا دل ماریہ کے دکھ پر دکھ گیا تھا۔ کبھی کبھی یہ محبت نہایت محبت سے بڑے کاری وار کرتی ہے۔
اس نے آگے بڑھ کر محبت بھرے انداز میں اپنا ہاتھ ماریہ کے کاندھے پر رکھا اور بولا۔ ’’ماریہ! خود کو تنہا مت سمجھنا۔ تمہارے ساتھ کئی محبت کرنے والے لوگ ہیں۔‘‘
’’کبھی کبھی فقط ایک محبت کے کھو جانے سے ہزار محبتیں بھی بے معنی ہوکر رہ جاتی ہیں۔ ایک شخص کے نہ ہونے سے پورا شہر سائیں سائیں کرنے لگتا ہے۔ ایک دل ٹوٹنے سے پوری کائنات ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔‘‘ ڈاکٹر ایڈم بتا رہا تھا کہ آرتھر نے اس سے کوئی فریب نہیں کیا۔ وہ بھی اس سے پوری سچائی کے ساتھ محبت کرتا ہے مگر حالات کے سامنے اس کی محبت بے حس ہوگئی۔ اگر وہ ایڈم کی بات مان بھی لیتی تو کیا حاصل تھا۔ محبت اس کے ہاتھوں سے چھن چکی تھی۔ آرتھر سب کچھ بھلا کر اپنی دنیا بسانے جارہا تھا۔ کسی شہزادی سے شادی رچانے جارہا تھا۔ اس کے باوجود ڈاکٹر مصر تھا اسے فریبی اور بے وفا کہنے کی بجائے محض مجبور سمجھا جائے۔ کیا صحیح تھا، کیا غلط، ماریہ کا ذہن ڈوبتا جارہا تھا۔ دماغ مائوف ہوتا جارہا تھا۔ دل میں ایک ہولناک خاموشی تھی۔ موت کا سا سکوت طاری تھا۔
’’ماریہ!‘‘ ڈاکٹر نے اس کا شانہ ہلایا۔ ’’تم سن رہی ہو جو میں کہہ رہا ہوں؟‘‘
ماریہ نے اپنی ویران آنکھیں اٹھائیں۔ اب سننے کے لئے رہ ہی کیا گیا تھا۔ اسے اپنے سینے میں درد کی شدید لہر اٹھتی محسوس ہوئی اور وہ دل تھام کر دہری ہوگئی۔
’’ماریہ…!‘‘ ڈاکٹر ایڈم اس کی بدلتی کیفیت سے پریشان ہورہا تھا۔ اسے دل تھام کر جھکتے دیکھ کر وہ خود بھی اس پر جھک گیا۔ ’’کیا ہوا ماریہ…؟‘‘
ماریہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میز پر سر رکھ کر وہ ہوش و خرد کی دنیا سے بیگانی ہوچکی تھی۔ وہ بے ہوش ہوچکی تھی۔
٭…٭…٭
نیلا آسمان، سیاہ بادلوں کی اوٹ میں کہیں گم ہوچکا تھا۔ صبح کا آغاز بارش سے ہوا تھا۔ بارش کی وجہ سے سردی میں خاصا اضافہ ہوگیا تھا۔ شاید سردی کی وجہ سے ہی آرتھر کو بخار ہوگیا تھا۔ رات سے ہی اس کے سینے میں ہلکا ہلکا درد بھی تھا۔ آتی جاتی سانس بھی تکلیف کا احساس جگا رہی تھی۔ وہ کمبل میں لپٹا بے دم سا بستر میں پڑا تھا۔ کمرے کے تمام دریچے بند تھے اور دبیز پردے کھنچے ہوئے تھے۔ آتش دان میں آگ روشن تھی، اس کے باوجود کمرے میں سردی کا احساس موجود تھا۔
آرتھر کا خاص خادم البرٹ تین ماہرین کے ساتھ آرتھر کو دولہا بنانے کے لئے خواب گاہ میں داخل ہوا تو اسے بخار میں پھنکتا دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ ’’آپ کو تو تیز بخار ہے۔‘‘
’’تم کس لئے آئے ہو؟‘‘ آرتھر نے نقاہت بھری آواز میں سوال کیا۔
’’جی! میں آپ کو تیار ہونے میں مددکے لئے حاضر ہوا تھا۔‘‘ البرٹ نے ہچکچاتے لہجے میں جواب دیا۔ ’’تین خادم باہر بھی موجود ہیں، آپ کو دولہا بنانا تھا۔‘‘
’’دولہا…؟‘‘ آرتھر کی نحیف آواز میں حیرانی کا عنصر نمایاں تھا۔
’’جی جناب! آج آپ کی شادی ہے۔‘‘ البرٹ نے خوشگوار لہجے میں یاد دلایا۔ ’’آج چودہ نومبر ہے۔ آپ خود کو بہتر محسوس کررہے ہوں تو باتھ روم میں تشریف لے چلئے۔‘‘
’’بہت مشکل ہے۔‘‘ آرتھر نے گہری سانس لی۔ ’’مجھے لگ رہا ہے کہ مجھے بخار ہے۔ کیا ڈاکٹر ایڈم آئے ہیں؟‘‘
’’جی نہیں جناب!‘‘ البرٹ نے مؤدبانہ انداز میں جواب دیا۔ ’’انہیں شادی کا دعوت نامہ بھیج دیا گیا تھا مگر ناگزیر وجوہات کی بنا پر انہوں نے شادی میں شرکت کرنے سے معذرت کرلی ہے۔‘‘
’’اچھا ہے۔‘‘ آرتھر نے زیرلب کہا اور تھکن سے چور انداز میں آنکھیں بند کرلیں۔
’’میں کسی دوسرے ڈاکٹر کو بلاتا ہوں۔‘‘ البرٹ تیزی سے کمرے سے چلا گیا۔ کمرے کے باہر دیگر خدام سر جھکائے کھڑے تھے۔ ان سب کو شہزادے کو دولہا بنانے میں البرٹ کی مدد کرنی تھی۔ ’’شہزادہ عالم کی طبیعت کچھ ناساز ہے۔‘‘ البرٹ نے کمرے سے باہر نکل کر اطلاع دی۔ ’’شاہی اسپتال سے فوراً ڈاکٹر کو بلایا جائے۔‘‘
کئی خدام دوڑ پڑے۔ پہلے آرتھر کے کمرے سے ملحق کمرے میں بھی ڈاکٹر ہر وقت موجود رہتے تھے مگر جب سے اس کی طبیعت بحال ہوئی تھی، یہ تکلف ختم کردیا گیا تھا۔ اطلاع ملتےہی ڈاکٹر شہزادے کے کمرے کی طرف دوڑ پڑے اور آرتھر کا معائنہ کرنے لگے۔ دو خادمائیں آتش دان میں مزید آگ بھڑکا رہی تھیں۔ آرتھر آنکھیں بند کئے بے سدھ پڑا تھا۔
’’کیا آپ سانس لینے میں تکلیف محسوس کررہے ہیں؟‘‘ ایک ڈاکٹر نے سوال کیا۔
’’اب تو تکلیف کا احساس تک مٹ گیا ہے۔‘‘ آرتھر کے پپڑی زدہ لبوں پر زخمی مسکراہٹ لرزی۔ ’’دل و دماغ پر ایک بوجھ سا ہے۔ شاید حرارت کی وجہ سے!‘‘
ملکہ کو خبر ملی تو وہ بھی دوڑی چلی آئی۔ ’’آرتھر کیسے ہو میرے پیارے…؟‘‘ ملکہ الزبتھ نے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ ’’بخار تو بہت زیادہ ہے۔ ڈاکٹر آپ جانتے ہیں نا کہ شام کو شہزادے کی شادی ہے… شام سے پہلے شہزادہ بالکل چاق و چوبند ہونا چاہئے۔‘‘
’’جی! ایسا ہی ہوگا۔‘‘ ڈاکٹر نے جھکتے ہوئے جواب دیا۔
’’آپ بلاوجہ پریشان ہورہی ہیں۔‘‘ شہزادے نے اپنی آواز کو حتی الوسیع نارمل کرتے ہوئے کہا۔ ’’آپ بے فکر ہوکر جایئے، میں وقت سے پہلے تیار ہوجائوں گا۔ یہ البرٹ یہاں موجود ہے نا…!‘‘ شہزادے نے مسکرانے کی کوشش کی اور اپنی کوشش میں خاصا کامیاب رہا۔ اسے مسکراتا دیکھ کر الزبتھ کا دل سنبھل گیا تھا۔ وہ ڈاکٹروں اور البرٹ کو ہدایت دیتی خادمائوں کے جھرمٹ میں باہر کی طرف بڑھ گئی۔ ابھی اسے بہت سے معاملات دیکھنے تھے۔ کیتھرین کی طرف سے تو اسے اطلاع مل گئی تھی کہ دلہن کو اس کی مخصوص خادمائیں دن نکلتے ہی سجانے سنوارنے میں مصروف ہوگئی تھیں۔
سخت سردی کے باوجود پورے قصر اور شہر میں ایک گہماگہمی اور گرم جوشی کی کیفیت پھیلی ہوئی تھی۔ صبح سے ہی شاہی مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ ملک بھر سے لارڈز، گورنرز، نوابین اور دیگر عمائدین شہر جوق درجوق شادی میں شرکت کے لئے پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔
اسکاٹ لینڈ کا بادشاہ جیمز فورتھ بھی شادی میں شرکت کے لئے آیا تھا۔ وہ انگلستان کا ہونے والا داماد تھا اس لئے اس کا خصوصی طور پر خیال رکھا جارہا تھا۔
پورے شہر میں رنگارنگی اور گہماگہمی تھی۔ شادی کی رسم کی ادائیگی کے بعد وائٹ ہال پیلس میں ایک شاندار ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ وائٹ ہال پیلس اس تقریب کے لئے خصوصی طور پر تعمیر کروایا گیا تھا۔
دوسری طرف محل کی دیگر خواتین تیاری میں مصروف تھیں۔ لیڈی مارگریٹ نے آج کی تقریب کے لئے ایک شاندار ڈریس تیار کروایا تھا۔ شہزادی مارگریٹ کی تیاری کا تو تذکرہ ہی کیا۔ جب سے اس نے شہزادی کیتھرین کے سونے کے جوتے دیکھے تھے، سخت حسد کا شکار تھی۔ آخر اپنی دادی سے کہہ کر اس نے آج کی تقریب کے لئے گولڈ شوز بنوا لئے تھے۔ وہ کسی بھی قیمت پر اسپین کی شہزادی سے کم تر نظر آنا نہیں چاہتی تھی۔ آخر کو وہ انگلستان کی شہزادی تھی اور اسکاٹ لینڈ کی ملکہ بننے والی تھی۔
آج اس نے اپنے چھوٹے بھائی ہنری ٹیوڈر کے ساتھ مل کر رقص کا بھی پروگرام بنایا تھا۔ گو کہ وہ اپنے بڑے بھائی آرتھر سے بہت محبت کرتی تھی، مگر اس کا چھوٹا بھائی ہنری اس سے خصوصی انسیت رکھتا تھا۔ وہ اس سے عمر میں تین سال چھوٹا تھا اس کے باوجود دونوں میں بہت زیادہ ذہنی ہم آہنگی تھی۔ اس کی کسی بھی بات کو شہزادہ ہنری نظرانداز کرنے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔ سب سے چھوٹی شہزادی میری بھی بہت خوش تھی۔ خوش رنگ لباس میں وہ رنگین تتلی کی طرح یہاں وہاں اڑتی پھر رہی تھی۔ اسے شدت سے دلہن کے تیار ہونے کا انتظار تھا۔
شام کے سائے بکھرنے تک دلہن کیتھرین سج سنور چکی تھی۔ سفید لباس عروسی میں اس کا معصوم چہرہ کچھ مزید دلکش لگ رہا تھا۔ ڈائمنڈ کے بیش بہا زیورات نے اس کے حسن کو کچھ اور جلا بخش دی تھی۔ اس کی صندلی پیشانی پر وائٹ گولڈ کا ڈائمنڈ تاج سجا ہوا تھا جو اس کی رعنائی میں اضافہ کررہا تھا۔ وینس کی خصوصی طور پر تیار کی گئی جالی کا مختصر سا نقاب جو اس کے آدھے چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھا، اس کی معصوم آنکھوں میں سجے حسین خوابوں کو آج تعبیر ملنے والی تھی۔ آٹھ گھوڑوں کی سجی ہوئی بگھی سے دلہن جب باہر آئی تو اس پر پھولوں کی بارش کردی گئی تھی۔ دلہن شرمیلی مسکان لبوں میں دبائے سہج سہج چرچ کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ اس کی خادمائیں اور سہیلیاں اس کا لباس سنبھالے اس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھیں۔ دلکش اور نوعمر دلہن اس وقت آسمان سے اتری ہوئی اپسرا سے کم نظر نہیں آرہی تھی۔ ہر نظر میں دلہن کیلئے پسندیدگی اور ستائش تھی۔ بس ایک شہزادی مارگریٹ ہی تھی جس کے چہرے پر عجب سی ناگواری تھی۔ اسے دلہن ایک آنکھ نہ بھائی تھی۔ ’’تم دیکھ رہے ہو ہنری! اتنا سج سنور کے بھی کس قدر معمولی لگ رہی ہے۔‘‘ اس نے اپنے بھائی ہنری کے کان میں سرگوشی کی تھی۔ ’’میں نہیں سمجھتی کہ بھائی آرتھر اس جیسی لڑکی کے ساتھ خوش رہ سکیں گے۔‘‘ اس نے پریقین انداز میں نفی میں سر ہلایا۔
’’بھائی آرتھر اس کے ساتھ کیوں خوش نہیں رہ سکیں گے؟‘‘ ہنری جونیئر نے قدرے حیرت سے سوال کیا۔ ’’اچھی بھلی تو ہے اگر یہ میری دلہن ہوتی تو میں تو اس کے ساتھ بہت خوش رہتا۔‘‘
ہنری جونیئر کی بات سن کر اس کے پیچھے کھڑا تھامس والسے بے ساختہ مسکرا اٹھا تھا۔ ہنری جونیئر اس وقت محض گیارہ سال کا تھا، جبکہ دلہن اس سے چھ سال بڑی تھی۔
دلہن کے سیڑھیاں طے کرکے چرچ کے ٹیرس پر پہنچتے ہی دولہا کی بگھی سیڑھیوں کے قریب آرکی تھی۔ تمام نگاہیں پرشوق انداز میں دولہا کی طرف متوجہ ہوگئی تھیں۔ ان میں دلہن کی نگاہیں بھی شامل تھیں، اتنے عرصے سے محل میں موجود ہونے کے باوجود وہ اب تک شہزادے کی ایک جھلک بھی نہیں دیکھ سکی تھی مگر اب یہ دوری، یہ فاصلہ، یہ پردہ دور ہونے والا تھا۔ آج دولہا بن کر آرتھر پر ٹوٹ کر روپ برسا تھا۔ یہ البرٹ کے ہاتھوں کا کمال تھا یا واقعی آرتھر اتنا ہی حسین تھا جتنا اس وقت دکھائی دے رہا تھا۔ سب ہی اسے پسندیدگی اور ستائش بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ کیتھرین کی نظریں آرتھر کے چہرے پر پڑیں تو ہٹنا ہی بھول گئیں۔ اس چہرے کو اس نے تصور میں بار ہا دیکھا تھا مگر آج حقیقت میں دیکھ کر یکبارگی اس کا دل دھڑک اٹھا تھا اور نگاہیں بارحیا سے جھک گئی تھیں۔
پادری نے آگے بڑھ کر دولہا کا سواگت کیا تھا اور دولہا کو اپنے ساتھ لئے مخصوص جگہ کی طرف بڑھ گیا تھا۔ پھر دلہن کی سہیلیاں اور خادمائیں دلہن کو سہارا دیئے آگے بڑھیں اور دلہن کو دولہا کے بالکل ساتھ لاکھڑا کیا۔ پادری نے شادی کی رسم کی ادائیگی کا آغاز کیا۔ پادری کے اشارے پر البرٹ نے چاندی کے کیس میں رکھی ڈائمنڈ رنگ پیش کی۔ آرتھر نے شادی کی یہ انگوٹھی دلہن کی انگلی میں پہنا دی۔
آرتھر کی سانسیں الجھ رہی تھیں۔ بہت مشکل سے وہ خود کو سب کے سامنے مضبوط اور ٹھیک ٹھاک ثابت کرنے کی کوشش کررہا تھا ورنہ اندر سے لمحہ بہ لمحہ ٹوٹتا جارہا تھا۔
دور تک روشنیاں ہی روشنیاں تھیں، خوشیاں اور رعنائیاں تھیں۔ دولہا دلہن شادی کی رسم پوری ہونے کے بعد خصوصی بگھی میں بیٹھ کر وائٹ ہال پیلس کی طرف روانہ ہوگئے تھے۔
ہال میں پہنچنے کے بعد سب سے پہلے دولہا اور دلہن نے شادی کا کیک کاٹا پھر اعلیٰ درجے کا ڈنر سرو کیا گیا۔ بادشاہ کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ آج وہ بے حد خوش تھا۔ آج اس کے ولی عہد کی شادی تھی اور اس شادی پر اس نے اپنی فطری کنجوسی کو بالائے طاق رکھ کر پانی کی طرح پیسہ بہایا تھا۔
آرتھر کی ماں الزبتھ اس کی مسکراہٹ کی اوٹ سے جھانکتی اذیت اور کرب کو محسوس کرسکتی تھی۔ وہ جانتی تھی محبت کے درد کو دبا کر مسکرانا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے۔ آج اس کا چہیتا اسی کرب بھرے پل صراط سے گزر رہا تھا، جس سے گزر کر وہ آج اس منزل تک پہنچی تھی۔ اس کی طرح اس کے بیٹے نے بھی چاہت کی قربانی دے کر رشتوں کا مان رکھ لیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ سمجھوتے درد کے سیل بیکراں پر صبر کا بند باندھ دیتے ہیں۔ آرتھرکی اس تقریب میں اس کروفر سے موجودگی اس بات کی غماز تھی کہ اس کے غم کے درد پر صبر کا بند بندھ گیا ہے۔
ڈنر کے بعد آرتھر بے حد تھکن اور شکستگی محسوس کر رہا تھا۔ سو اس نے ماں باپ اور دیگر معزز مہمانوں سے اجازت چاہی اور البرٹ کے ساتھ اہستگی سے اپنی خواب گاہ کی طرف چل دیا۔
البتہ دلہن تقریب کے اختتام تک مہمانوں کے درمیان موجود رہی۔ رات گئے تقریب اختتام پذیر ہوئی تو دلہن کی خادمائیں اسے لئے حجلۂ عروسی کی طرف روانہ ہوگئیں۔ ابھی انہیں دلہن کا لباس عروسی تبدیل کرکے شب خوابی کا خصوصی لباس زیب تن کروانا تھا۔
’’شاید اس روئے زمین پر آپ سے زیادہ خوبصورت دلہن کوئی اور ہوگی۔‘‘ خادمائیں اس کا لباس تبدیل کرتے ہوئے تعریف بھی کرتی جارہی تھیں۔ ’’شہزادہ آرتھر آپ کو اس روپ میں دیکھیں گے تو خود کو بھول جائیں گے۔‘‘
شب خوابی کے مہین لباس سے جھانکتا اس کا سانچے میں ڈھلا جسم قیامت ڈھا رہا تھا۔
خادمہ کی بات سن کر وہ خود میں سمٹ گئی تھی۔ خادمائوں نے اسے اعلیٰ درجے کی خوشبویات میں نہلا کر بیڈ پر بٹھا دیا تھا۔ اب اس کی حیابار نگاہیں اور مشکبار وجود اپنی تقدیر کے مالک کا منتظر تھا۔
پرنس آف ویلز شب خوابی کے لباس میں بستر پر بے سدھ پڑا تھا۔ ایک بار پھر اس کا جسم بخار میں تپنے لگا تھا اور ڈاکٹر اس کے چاروں طرف کھڑے تھے۔
آرتھر کے دل میں اس وقت کوئی خواب تھا نہ کوئی اضطراب! اس کا دل امنگوں اور جسم جذبات سے خالی ہوچکا تھا۔ اسے گزرتی ہوئی رات کا احساس تھا نہ کسی کی منتظر نگاہوں کا خیال! وہ اپنے ہی غموں کے ساگر میں ڈوبا ہوا تھا۔
رات دبے پائوں گزرتی جارہی تھی۔ کیتھرین کی راہ تکتی نگاہیں پتھرا گئی تھیں۔ اس نے تھک کر اپنا سر بیڈ کی پشت سے ٹکا دیا اور بے چین منتظر آنکھیں بند کرلیں۔ اسی انداز میں بیٹھے بیٹھے جانے کس لمحے نیند کی مہربان دیوی نے اسے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا تھا۔
صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی خادمائوں نے آکر حجلۂ عروسی کے دروازے پر ہلکی سی دستک دی مگر یہ کیا دروازہ تو آپ ہی آپ کھلتا چلا گیا۔ خادمائوں نے حیرانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور آہستگی سے کمرے میں داخل ہوگئیں۔ سہاگ کی سیج کے چاروں طرف لٹکی تازہ گلابوں کی لڑیاں تمام شب خوشبو لٹا کر اب مرجھا گئی تھیں۔ سیج پر بچھی نوخیز کلیاں جوں کی توں پڑی تھیں۔ سیج کے کونے پر دلہن پشت سے سر ٹکائے سو رہی تھی۔
’’تو کیا رات کو شہزادۂ عالم حجلۂ عروسی میں تشریف نہیں لائے؟‘‘ خادمائوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی آنکھوں میں سوالیہ انداز میں دیکھا۔
’’ہاں! پرنس آف ویلز کی رات طبیعت ناساز ہوگئی تھی۔‘‘ ایک خادمہ نے دھیمی آواز میں اطلاع دی۔ ’’ملکۂ عالیہ بھی تمام رات شہزادے کے کمرے میں موجود رہیں۔‘‘
’’اچھا…!‘‘ دونوں خادمائوں نے حیرت اور افسوس سے پلکیں جھپکائیں۔ ’’یہ تو اچھا شگن نہیں ہے۔ سہاگ رات یونہی بیت گئی۔‘‘
’’تمہیں سہاگ رات کی پڑی ہے، وہاں شہزادے کی جان پر بنی ہے۔‘‘ ایک خادمہ نے جلے کٹے لہجے میں کہا۔ ’’سردی کے اثر سے سنا ہے شہزادے کو نمونیا ہوگیا ہے۔ خدا وند کریم انہیں صحت اور زندگی دے۔ سہاگ راتیں تو عمر بھر منائی جاتی رہیں گی۔‘‘
سرگوشیوں کی آوازیں سن کر کیتھرین نے دھیرے سے پلکیں کھولیں۔ وہ بیڈ کی پشت پر سر لگائے سوئی ہوئی تھی۔ وہ ایک دم سے سیدھی ہوبیٹھی۔
’’صبح بخیر شہزادی صاحبہ!‘‘ خادمائوں نے سر جھکا کر سلام کیا۔
(جاری ہے)