رحمہ جب نویں میں تھی اس کی منگنی اپنے خالہ زاد رفیق سے ہوگئی۔ وہ بہت اچھی اور باحجاب لڑکی تھی اور میری کلاس فیلو تھی۔ کچھ عرصہ سے نوٹ کر رہی تھی کہ دکھی سی رہتی ہے۔ ایک دن افسردگی کی وجہ پوچھی تو بتایا کہ وہ اپنے منگیتر سے بہت محبت کرتی ہے لیکن وہ اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا تبھی پریشان رہتی ہے۔
اس کی کچھ وجہ تو ہوگی۔ میں نے سوال کیا۔ وجہ بھی بتا دوں گی بعد میں یہ کہہ کر وہ چپ ہوگئی۔
اس کی ایک بہن اور تین بھائی تھے۔ بھرا پرا گھر تھا، پھر بھی تنہائی محسوس کرتی۔ دراصل وہ رفیق کو دل و جان سے پسند کرتی تھی۔ حالانکہ اس کے گھر والے اسے بہت پیار کرتے تھے، تاہم وہ گھر والوں کے پیار کی قدر و قیمت نہیں سمجھتی تھی۔ صرف منگیتر کے خیالوں میں کھوئی رہتی، جبکہ وہ کسی اور دنیا میں گم تھا۔
انیتا اس کی گہری سہیلی تھی۔ اس کے رازوں کی امین، زخموں کا مرہم، اس کی تنہائیوں کا سہارا۔ اپنی ہر بات اسی سے کہتی۔ عجب بات یہ تھی کہ دن بہ دن دھڑکا رہنے لگا کہ کسی روز وہ اپنے منگیتر کو کھو دے گی۔
اس کی چھٹی حس کہتی تھی کہ کوئی ہے جو اسے اس سے دور لے جا رہا ہے۔ مگر کون… یہ وہ نہیں جانتی تھی، جبکہ اسی خدشے کے خوف سے روز بہ روز اور زیادہ اپنے محبوب کی محبت کے سمندر میں ڈوبتی جاتی تھی۔ کہتے ہیں نا کہ جس شے کے کھوئے جانے کا ڈر ہو آخرکار وہ کھو جاتی ہے۔
دو سال پلک جھپکتے گزر گئے۔ میں اور انیتا دیکھ رہے تھے کہ وہ کسی ان دیکھی آگ میں جل کر راکھ ہو رہی ہے۔ آخرکار بیمار پڑ گئی۔ تب انیتا سے نہ رہا گیا۔ اس نے رحمہ کی بہن سے رفیق کا نمبر معلوم کیا اور اسے فون کردیا۔ رفیق انیتا کو جانتا تھا۔ انیتا نے رفیق سے کہا۔ تم کیوں رحمہ سے بے رخی برت رہے ہو وجہ تو بتائو۔ وہ تمہاری کزن ہے، اچھی اور شریف لڑکی ہے۔ تم کو چاہتی ہے اس سے اچھی لڑکی تم کو نہیں مل سکتی۔ بہت عرصہ سے دیکھ رہی ہوں تمہاری بے رخی کے غم میں گھل گھل کر مر رہی ہے۔ اس کا غم اس کی نم آنکھوں پر ہر وقت جھلکتا رہتا ہے۔ اس کے جذبات کی قدر کرو۔ اس سے منہ نہ موڑو۔ تمہارے اس سلوک سے وہ بہت اذیت میں ہے۔
سچ سننا چاہتی ہو تو سنو۔ اس کا پیار یکطرفہ ہے۔ اپنی دوست کو سمجھائو کہ وہ مجھے بھول جائے۔ اپنے خوابوں میں کسی اور کو بسا لے میں اسے نہیں اپنا سکتا۔
آخر کیوں۔ کیا برائی ہے اس میں۔ جبکہ اب تو منگنی بھی ہوچکی ہے۔
میں نے کب کہا کہ رحمہ میں کوئی برائی ہے لیکن میری مجبوری ہے، جبکہ اس کو مجھ سے اچھا لڑکا مل سکتا ہے۔ مجھے کوئی اور پسند ہے۔ اسے سمجھائو بیکار میں خود کو میرے لئے ہلکان نہ کرے اور میرے ساتھ منگنی کے بندھن کو ایک خواب سمجھ کر بھول جائے۔ انیتا نے غصہ میں فون بند کردیا۔
جب اس نے رحمہ کو یہ سب بتایا وہ بہت رنجیدہ ہوگئی اور رو پڑی۔ اس پر انیتا کو بہت ترس آیا اور اسے گلے سے لگایا۔ وہ اپنی دوست کی بانہوں میں ایسے چھپ گئی جیسے اپنی ماں کی آغوش میں بچے چھپ جاتے ہیں۔
کیوں رو رہی ہو اس خودغرض انسان کے لئے جب اسے تمہاری پروا نہیں۔ تم نے کیوں اپنی ایسی حالت بنا لی ہے۔ آخر کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں کوئی اس سے بھی اچھا جیون ساتھی تمہیں مل جائے گا۔ وہ تمہاری محبت کے لائق ہی نہیں ہے۔ زندگی یوں کسی ایسے انسان کے انتظار میں نہیں گزاری جا سکتی جس کو تمہاری پروا ہی نہ ہو۔ اب گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ رحمہ اپنی امید کھو رہی تھی، اس کی مایوسی بڑھتی جا رہی تھی، اندر ہی اندر یہ اندیشہ گھلائے جاتا تھا کہ اگر رفیق نے کسی اور سے شادی کرلی تو اس کا کیا ہوگا۔
جس روز سے رفیق کو پتہ چلا کہ رحمہ اسے چاہتی ہے وہ اور زیادہ اکڑا اکڑا رہنے لگا۔ جب بھی رحمہ کا سامنا ہوتا منہ دوسری جانب پھیر لیتا۔ یہ تو رحمہ کا دل جانتا تھا کہ پہلے منگیتر کا یہ رویہ دیکھ کر اس پر کیسی قیامت گزرتی تھی۔
اب وہ اسی کھوج میں لگ گئی کہ رفیق کس لڑکی کو چاہتا ہے۔ بالآخر پتہ چل گیا کہ اپنی پڑوسن کی بیٹی کو پسند کرتا ہے جس کا نام فلزا تھا۔ اس نے مجھے بتایا۔ اب میں ہر وقت اس کو سمجھاتی کہ رفیق کا خیال دل سے نکال دے… لیکن یہ اس کے لئے ایک ناممکن امر تھا۔ اس کی حالت دگرگوں رہنے لگی۔ ذرا ذرا سی باتوں پر رونے لگتی۔ جب اداسی بڑھ جاتی خود کو کمرے میں بند کرلیتی اور کھانا پینا چھوڑ دیتی۔ اس کی صحت تیزی سے گرنے لگی۔
رفیق کی عجب فطرت تھی۔ وہ خود پسند تھا۔ اپنے حسن پر غرور تھا، سمجھتا تھا کہ کوئی شے ہے جو لڑکیاں اس پر مرتی ہیں۔ وہ غلط سوچوں کا مالک تھا۔ اسے فلزا کی محبت پر یقین تھا حالانکہ وہ اس سے بے غرض محبت نہیں کرتی تھی بلکہ کسی اور مقصد کے لئے چاہتی تھی۔ دراصل رفیق کا بڑا بھائی بہت جلد اسے کینیڈا بلانے والا تھا۔ رفیق کو کینیڈا کی امیگریشن مل گئی تھی، بس اسی لالچ میں فلزا اس سے محبت کا ناٹک کر رہی تھی کیونکہ وہ کینیڈا جانا چاہتی تھی۔ رفیق نے فلزا سے منگنی کرلی اور پھر وہ جانے کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔ جب تمام کاغذی تقاضے پورے ہوگئے تو ٹکٹ اوکے کرا لیا، جب رحمہ کو پتہ چلا اسے جھٹکا لگا اور وہ بے ہوش ہوگئی۔ اس وقت ہم دونوں اس کے پاس بیٹھی تھیں۔ اسے ہوش دلایا اور تسلی دی میں نے کہا۔ رحمہ خدارا خود کو سنبھالو… محبت عشق میں بدل جائے تب بھی خود کو سنبھالنے سے ہی کام چلے گا۔ تمہارا عشق تو لگتا ہے جنون کی سرحد کو پہنچ گیا ہے۔ اب اسے بھول جائو۔
اب وہ جا رہا ہے جانے کب واپس آئے!
اگر وہ نہ آیا تو کیا تم زندگی بھر روتی رہو گی۔ اسے تمہاری کوئی پروا نہیں۔ نکالو خود کو اس عذاب سے یار۔ دیکھو تو تمہاری تعلیم کتنی متاثر ہوتی میرے بس کی بات نہیں ہے اس کی محبت پہلے سے زیادہ مجھے ستانے لگی ہے۔ پتہ نہیں کیوں والدین نے میری اس کے ساتھ بچپن میں منگنی کرکے میرے جذبات کو اس کے ساتھ باندھ دیا تھا۔ اب تو جان بھی چلی جائے تو اس کا خیال دل و دماغ سے نہیں نکال سکتی۔
ایک ماہ بعد رفیق چلا گیا۔ اب وہ کم بولتی۔ کم کھاتی۔ اس نے نہانا دھونا چھوڑ دیا۔ ماں اسے زبردستی نہلاتی، کئی کئی دن کپڑے نہ بدلتی، لگتا تھا واقعی اسے جنون ہوگیا ہے۔ اس کی راتوں کی نیند اڑ چکی تھی۔ دن کو سکون تھا اور نہ رات کو چین۔ بہت مشکل سے سمجھا بجھا کر اسے ہم دونوں سہیلیوں نے سنبھالا، زیادہ تر وقت اس کے ساتھ رہتیں۔ بالآخر اس کی حالت رفتہ رفتہ سنبھلنے لگی۔ اس نے خود کو باور کرانے کی بہت کوشش کی کہ اب رفیق میرا نہیں رہا۔ میرے خوابوں اور خیالوں سے بہت دور چلا گیا ہے۔ پھر اس کا انتظار کرنے کا کیا فائدہ… لیکن دل ان باتوں کو کیا سمجھتا۔ وہ تو وہی محسوس کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔
رحمہ کے لئے بہت رشتے آتے وہ انکار کردیتی۔ مردوں پر اس کا اعتبار اٹھ گیا تھا۔ ایسے ہی دن گزرتے گئے۔ کچھ عرصہ بعد رفیق نے فلزا کو اپنے پاس بلانے کی تیاریاں مکمل کرلیں اور پھر وہ کینیڈا چلی گئی۔ رفیق کا خیال تھا کہ میں نے دو سال اس کا انتظار کیا ہے… اب ہم تحفے میں ایک دوسرے کو خوشیوں بھری زندگی دیں گے۔
فلزا بہت خوش تھی، اس کا خواب پورا ہوچکا تھا۔ وہ ابھی اس ملک میں رفیق کے سوا کسی کو نہیں جانتی تھی اور نہ اس کا کسی سے تعلق تھا۔ اس کی ساری توجہ اور امیدیں رفیق سے لگی تھیں، وہ بھی اسے پا کر بہت خوش تھا کہ اس کی محبت اس کی ہوگئی تھی۔
رفیق نے اپنے گھر والوں کو نہ بتایا کہ اس نے کینیڈا میں شادی کرلی ہے۔ جب ماں نے اسے شادی کرنے کا کہا۔ اس نے بتا دیا کہ وہ شادی کر چکا ہے۔ یہ سن کر ماں رونے لگی کہ بیٹے نے بغیر اطلاع شادی کرلی، یہاں تک کہ گھر والوں کو بھی نہیں بتایا۔ ایک ماہ گھر والوں سے اس کی بات چیت بند رہی۔
جب بہن نے آ کر بتایا بیٹے کی شادی کے بارے میں تو اس وقت رحمہ گھر پر نہ تھی۔
ایک روز انیتا نے رحمہ کو بتا دیا کہ رفیق نے کینیڈا میں کسی پاکستانی لڑکی سے شادی کرلی ہے۔
کیا یہ وہی لڑکی تو نہیں جس کو وہ پسند کرتا تھا۔
رحمہ نے تنک کرکہا۔ کیسی دوست ہو ہر بری خبر آ کر مجھے سناتی ہو۔ مجھے دکھ دینا چاہتی ہو۔ کیوں پیچھے پڑ گئی ہومیرے… وہ جس سے چاہے شادی کرے۔ بار بار اس کی باتیں کرکے مجھے اذیت میں مبتلا کردیتی ہو۔ ایسا اس نے محض ردعمل کے طور پر کہا تھا، ورنہ وہ اپنی سہیلی سے یوں مخاطب ہونا نہ چاہتی تھی۔
میں اسے اب بھول جانا چاہتی ہوں اور تم میرے زخموں کو تازہ کرتی ہو۔ انیتا حیران ہو کر اسے دیکھتی رہ گئی۔ تو کیا سچ مچ تم نے اسے بھلا دیا ہے۔
ہاں اب اس کا ذکر بھی نہیں سننا چاہتی۔
ہاں۔ ہاں۔ اس نے کہا اور آنکھوں سے آنسو بارش کی طرح گرنے لگے۔
واقعی محبت ایسا دریا ہے کہ اگر بارش اس سے خفا بھی ہوجائے تو پانی پھر بھی کم نہیں ہوتا۔ محبت میں کمی نہیں آسکی۔ بھلانا تو دور کی بات ہے۔ یہ بھلا تو نہیں سکتی لیکن کوشش کرتی ہے۔
خود کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھو تاکہ وہ کم یاد آئے۔ مجھے معاف کردو تم کو دکھ نہیں پہنچانا چاہتی تھی۔ خبر نہ تھی کہ تم اس حقیقت سے بے خبر ہو ورنہ میں نہ بتاتی۔
مجھے بھی معاف کردو۔ بلاوجہ تم پر غصہ کیا۔ میری باتوں کو دل پر مت لینا۔ ادھر فلزا نے کچھ عرصہ رفیق کے ساتھ خوشی خوشی گزارا لیکن جونہی اس نے دوسرے لوگوں سے ملنا جلنا شروع کیا اس کی نیت میں فتور آگیا۔ اس نے رفیق کے ساتھ گزرتی زندگی کو ادھورا خیال کیا۔ وہ کسی امیر لڑکے کے خواب دیکھنے لگی۔ اس نے کچھ مردوں سے دوستیاں کیں اور پھر ان دوستیوں کو مشغلہ بنا لیا۔ وہ سمجھنے لگی کہ رفیق سے بہتر رفیق حیات مل سکتا ہے۔ اس کے ساتھ تو ناحق زندگی تباہ کر رہی ہوں۔
اب اس نے اپنے شوہر کو تنگ کرنا شروع کردیا۔ مشرقی طرز زندگی سے ہٹ کر وہ آزاد زندگی میں لطف محسوس کرنے لگی۔ پارٹیوں میں جانا معمول ہوگیا۔ وہ شوہر کے بغیر جانا پسند کرنے لگی۔ عجیب کپڑے پہننا، دیر سے گھر آنا، آوارہ مزاج لڑکوں کے ساتھ ڈانس کلب جانا۔
رفیق اس سے پیار کرتا تھا، بارہا سمجھایا۔ اپنے انداز بدلو۔ یہ روش ٹھیک نہیں۔ یہ معمولات ٹھیک نہیں، اس سے ہماری زندگی میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ مجھے دیکھو مرد ہو کر بھی میں راہ راست پر ہوں۔ اتنے عرصہ سے یہاں ہوں۔ کبھی کسی لڑکی سے دوستی نہیں کی۔ کبھی ڈانس کلب نہیں گیا، کیونکہ میں صرف تم سے پیار کرتا ہوں۔ تم بھی میری خاطر اپنی یہ مصروفیات چھوڑ دو۔ جس سے ہمارے دلوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہمارا گھر تباہ ہوتا ہے۔
میں یہاں غلامی کرنے نہیں آئی ہوں۔ اپنی مرضی سے جینا ہر انسان کا حق ہے۔ جیسی چاہوں زندگی گزاروں۔ دوسروں کی مرضی سے جینا بھی کوئی جینا ہے۔ آئندہ مجھے جبر کی زندگی گزارنے پر مجبور نہ کرتا۔
فلزا نے روش نہ بدلی۔ رفیق مایوس ہوگیا۔ دونوں میں اتنی دوری ہوگئی کہ اب وہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔ جب رفیق اسے سمجھانے کی کوشش کرتا وہ کہتی میں ایسی ہی ہوں میرے ساتھ رہنا ہے رہو ورنہ طلاق دے دو۔
میں خوبصورت ہوں۔ کئی مرد مجھ سے شادی کے آرزومند ہیں۔
فلزا جان بوجھ کر ایسی باتیں کرتی تاکہ وہ غصے میں آ کر اسے طلاق دے دے، مگر وہ اسی امید کے سہارے گزارا کر رہا تھا کہ شاید اس کی بیوی اپنی حرکتوں سے باز آ جائے۔ مگر فلزا اور ہی قسم کی تھی۔ وہ بہت زیادہ پرتعیش زندگی جینا چاہتی تھی۔
جب وقت نے رحمہ کے زخموں کو کچھ مندمل کردیا تو اس نے تعلیم کی طرف توجہ دی اور دل کتابوں میں لگا لیا۔
یونیورسٹی میں ٹاپ کیا۔ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا اور ایک اچھے عہدے پر فائز ہوگئی۔ اس نے اپنی محنت سے معاشرے میں مقام بنا لیا۔ سچ ہے خدا جب کوئی قیمتی چیز لیتا ہے تو انمول چیز دیتا بھی ہے۔ خدا نے اسے عزت اور وقار عطا کردیا۔ گرچہ رفیق کو بھلانا اس کے لئے ممکن نہ تھا لیکن اللہ نے صبر عطا کردیا۔ اب وہ ہر وقت یہی دعا کرتی کہ رب اس پر راضی رہے اور وہ پرسکون زندگی گزار سکے۔
رفیق بہت پریشان تھا۔ فلزا نے ایسا طرز اپنالیا جس کو کوئی غیرت مند شوہر برداشت نہیں کرسکتا۔ آخرکار اس نے طلاق دے دی اور کہا۔ فلزا تم آزاد ہو۔ جہاں جانا چاہتی ہو چلی جائو اور اپنی مرضی کی زندگی گزارو۔میرے لئے تمہارا ساتھ اب قابل برداشت نہیں رہا ہے۔
فلزا کے من کی مراد بر آئی اور وہ اپنے بوائے فرینڈ کے پاس چلی گئی۔
دو پاکستانی مرد اسے بہت زیادہ سبز باغ دکھا رہے تھے۔ اس نے ان میں سے ایک ارسل تمامی سے شادی کرلی۔ فلزا کی بے وفائی نے رفیق کو توڑ کر رکھ دیا۔ وہ بددل ہو کر پاکستان واپس آ گیا۔ ان دنوں حددرجہ دلگرفتہ تھا۔ اس کی حالت ناقابل بیان تھی۔ مایوسی کا ایک کوہ گراں اس پر گرچکا تھا۔ ماں نے دلجوئی کی تو رو دیا اور تمام احوال بتایا۔
ماں کا دل تو ممتا کے جذبات سے لبریز تھا۔ بیٹے کا رونا نہ دیکھ سکی اور بہن کے در پر آگئی۔ اس کے آگے جھولی پھیلا دی۔ رحمہ کی امی بولیں۔ یہ فیصلہ اب رحمہ کرے گی۔ اس سے پوچھ لو۔ اگر وہ ہاں کہتی ہے تو مجھے اعتراض نہیں کیونکہ تم میری بہن ہو۔ خالہ نے بھانجی سے بات کی۔ رحمہ خالہ کی بزرگی کو دیکھ کر کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکالنا چاہتی تھی، اس سے ان کی دل آزاری ہو۔ کہا خالہ جان سوچ کر جواب دوں گی۔ انہوں نے بیٹے کو بتایا اور کہا۔ رفیق اب تمہیں خود جا کر رحمہ کو منانا پڑے گا۔ ہم سے نہ مانے گی۔ رفیق رحمہ کے پاس آیا۔ وہ بولی۔ آپ واپس آگئے ہیں۔
ہاں۔ تم سے کچھ بات کرنی ہے۔
کہئے۔ وہ نظریں جھکا کر بولی۔
کیا تم اب بھی مجھ سے محبت کرتی ہو۔
آپ یہ سوال کیوں پوچھ رہے ہیں۔
کیونکہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
آپ کینیڈا چلے گئے کبھی پلٹ کر نہ پوچھا کہ میرے دل پر کیا بیتے گی۔
تم نے مجھے کبھی نہیں بتایا کہ تم مجھے چاہتی ہو۔
آپ کو سب پتہ تھا مجھے بتانے کی ضرورت نہ تھی۔ آپ اس وقت کسی اور سے پیار کر رہے تھے۔
میں فلزا کی محبت اپنے دل سے نکال آیا ہوں۔ میں بہت اکیلا ہو گیا ہوں۔ اب مجھے ایک ایسا ساتھی چاہئے جو دل سے مجھ سے محبت کرے۔ مجھے اہمیت دے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں نے غلط کیا ہے۔ تمہارا گناہگار ہوں لیکن اب تم مجھے اس طرح مت ٹھکرائو۔
جب محبت کی بازی ہار چکے تو اب میرے پاس آگئے۔ میرے زخموں پر نمک چھڑکنے کو تاکہ میں آپ کے زخموں کا مرہم بنوں لیکن میں کوئی کھلونا تو نہیں ہوں۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ جتنی تکلیف دے کر گئے ہیں۔ ایک پل میں بھلا کر آپ سے شادی کر لوں؟
مجھے بڑی سزا ملی ہے رحمہ۔ خدارا مجھے معاف کردو۔ رحمہ خاموش ہوگئی۔ یہ کہہ کر کہ وقت گزر چکا اب یہ ممکن نہیں رہا۔ مایوس ہو کر جب رفیق واپس جا رہا تھا تو وہ بے حسی کے احساس میں چل رہا تھا۔ اس کو پتہ نہ چلا اور ایک گاڑی کی زد میں آگیا۔ لوگ اسے اسپتال لے گئے۔ رحمہ کو پتہ چلا تو وہ تڑپ گئی۔ اسپتال میں اسے تکلیف میں دیکھ کر وہ اتنی مضطرب ہوئی کہ آنسوئوں پر قابو نہ رکھ سکی۔ اس نے منت مان لی کہ خدا رفیق کو صحت مند کردے تو وہ اس سے شادی کرلے گی۔ رفیق بمشکل سانس لے رہا تھا اور وہ اس کو تکلیف دے کر مر مر کر جی رہی تھی۔
محبت عجیب شے ہے۔ اس کا ذائقہ کبھی شیریں اور کبھی بہت کڑوا ہوتا ہے۔ یہ کبھی زمین پر گرا دیتی ہے تو کبھی اٹھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ جب رفیق نے آنکھیں کھولیں رحمہ کو سرہانے کھڑے پایا۔ آج اسے بہت شرمندگی ہو رہی تھی کہ جس لڑکی کو وہ دیکھنا پسند نہیں کرتا، آج اسی کے پیار کا محتاج ہوگیا تھا۔
رحمہ نے کہا۔ تم مت رو۔ جتنا رونا تھا میں نے رو لیا۔ اب تم کو رونے کی ضرورت نہیں ہے… میں جو آگئی ہوں تم کو دکھوں سے دور رکھنے کے لئے۔ رحمہ کی محبت ملتے ہی رفیق کو اللہ نے زندگی دے دی۔ اس کے مکمل صحت یاب ہونے کے بعد ان کی شادی ہوگئی۔
رحمہ مجھ سے کہتی تھی اللہ کی ذات بہت بڑی ہے۔ ہمیشہ اس سے مدد مانگو کیونکہ وہی بند رستوں کو کھولنے والا ہے۔ محبت غم اور اداسی بھی دیتی ہے۔ وہ محبت ہی نہیں جو اداس نہ کردے۔ جب صدق دل سے انسان اللہ تعالیٰ سے کسی شے کو پانے کی طلب کرتا ہے تو جائز آرزو ضرورپوری ہو جاتی ہے۔ تب میں جواب دیتی تم سچ کہتی ہو۔ یقین کامل شرط ہے، مراد بر آنے کے لئے کیونکہ جو تمنا آسانی سے پوری ہوجائے اس میں مزہ نہیں اور جو مشکلوں سے ملے اس کے پانے میں ہی مزہ ہے۔
(عمرانہ … فیصل آباد)