عورت کے لیے اپنی عزت اور عصمت کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری شوہر کی غیر موجودگی میں اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے پر نجانے یہ کسی عورتیں ہیں جو شوہر گھر نہ ہو تو غیر مردوں کے ساتھ تعلقات استوار کر کے انھیں دھوکہ بھی دیتی ہیں اور اپنی عاقبت بھی خراب کرتی ہیں – جو کہانی میں آج اپ کو سناؤں گی وہ یقینا عورت کی بہروپیہ ہونے کی دلیل ہے ہماری صابرہ سے دور کی رشتہ داری تھی۔جب بھی شادی بیاہ میں ملتے تو وہ بہت پیار سے ملتی اور اپنی اپنائیت بھری باتوں سے دل موہ لیتی ۔اکثر مجھے کہتی میرے گھر آ جایا کرو، میں بالکل اکیلی ہوتی ہوں تو جی گھبراتا ہے۔ صابرہکی شادی جس شخص سے ہوئی اس کا نام نوشیرواں تھا، اسے ترقی کرنے کا جنون تھا۔ وہ مسلسل بیرون ملک جانے کی کوششوں میں لگارہتا تھا جبکہ صابرہکو بیرون ملک جالنے سے دل چسپی نہ تھی۔ اس کی ساس تھی اور نہ کوئی نند ۔ ایک جیٹھ تھاوہ بھی سویڈن چلا گیا تھا، تبھی وہ خود کو گھر میں تنہا تنہا محسوس کرتی تھی۔ اس کا مکان ہمارے گھر سے زیادہ دور نہ تھا۔ میں امی کے ساتھ ایک دن اس کے گھر چلی گئی۔ وہ بہت تپاک سے ملی۔ وہ ایک زندہ دل لڑکی تھی ، ہر وقت ہنستی رہتی اور خوشیوں سے بھر پور پر لطف زندگی گزارنا چاہتی تھی ۔ اس کی فطرت ہی ایسی تھی۔ خوشیاں نہ بھی ہوں وہ خوشیوں کا اہتمام کر لیتی ، کبھی اپنی سالگر ہ کرتی اور کبھی شادی کی سالگرہ منا کر دو چار سہیلیوں اور رشتہ داروں کو مدعو کر کے گھر میں رونق کا اہتمام کر ڈالتی ،لیکن اولاد کی کمی سے اس کا دل مر جھا یا رہتا تھا ۔ یہ دکھ وہ کسی پر بھی ظاہر نہ ہونے دیتی تھی۔ ایک دو بار میں اس کے گھر گئی تو ہماری دوستی ہو گئی ۔ تقریبا روز ہی وہ مجھ سے فون پر بات کر لیتی۔ ایک دن میں اس کے گھر گئی تو اس نے کہا کہ ذرا میرے ساتھ بیوٹی پارلر تک چلو، میں نے بال بنوانے ہیں۔ میں اس کے ساتھ چلی گئی۔ بیوٹی پارلر کا مالک ایک نوجوان تھا۔ پارلر اس کی ماں کا تھا۔ وہ بیمار رہنے لگی تو بیٹے نے بیوٹی پارلر سنبھال لیا۔ وہ بطور منیجر یہاں آکر اپنے کمرے میں بیٹھ جاتا اور آمدنی کو مٹھی میں کرتا، باقی تمام کام اس کی خاتون معاون سنبھالتی جو معقول معاوضہ پر اس نے رکھی ہوئی تھی۔ یہ تمام باتیں اس خاتون معاون نے بتائیں۔ جب ہم نے اس سے فیس میں کمی کے بارے میں پو چھا تو اس نے کہا کہ منیجر صاحب سے بات کر لیں۔ میں اور صابر ہم منیجر صاحب کے کمرے میں گئے۔ صاف ستھرے لباس میں ایک خوش شکل آدمی اپنی کرسی پر براجمان تھا۔ اس نے معاوضہ میں تھوڑی سی رعایت کر دی۔ صابرہ نے مختصر وقت میں فائق سے کافی باتیں پوچھ لیں ۔ فائق نے بتایا کہ وہ اپنی والدہ کا یہ بیوٹی پارلر خود اس لئے سنبھالتے ہیں کہ انہوں نے بیرون ملک سے بیوٹی پارلر چلانے کی ٹریننگ لی ہوئی ہے اور کئی کورسز کیے ہیں۔ غرض اس قسم کی باتیں کر کے صابرہ نے بیوٹی پارلر کے منیجر صاحب کے ساتھ جان پہچان استوار کر لی۔ اب جب بھی وہ بیوٹی پارلر جاتی ، فائق سے دو چار باتیں کرتی اور اکثر کہتی اگر آپ خود اپنے ہاتھ سے کام کرتے تو میں آپ سے ہی اپنے بالوں کی کٹنگ کرانا پسند کرتی۔ایک دن صابرہ نے فائق صاحب کو فون کیا اور کہا کہ کیا آپ زحمت کر کے کسی خاتون کو میرے بالوں کی کٹنگ کے لئے بھجوادیں گے۔ دراصل کل شام میرے گھر مہمان آرہے ہیں میں لئے اپنا حلیہ درست کرانا چاہتی ہوں۔ آپ خود بیوٹی پارلر کیوں نہیں آ جاتیں ؟ میرے پیر میں چوٹ لگ گئی ہے نہیں آسکتی۔ فکر نہ کر میں میں آپ کو اضافی رقم ادا کر دوں گی ۔ میں کوشش کرتا ہوں اگر ہمارے پارلر کی کوئی خاتون بیوٹیشن فارغ ہیں تو بھجوا دیتا ہوں، آپ گھر کا پتا بتا دیں۔ اس روز پارلر میں کافی رش تھا کوئی ورکر فارغ نہ تھی۔ تبھی وعدہ نبھانے کو خود فائق صاحب صابرہ کے گھر چلے گئے۔ صابرہ نے صبح گیارہ بجے بلا یا تھا۔ فائق صاحب نے ان کو شام کو فون کیا کہا کہ کوئی بھی ہماری بیو ٹیشن اس وقت فارغ نہیں ہے تو صابرہ نے کہا۔ تو آپ خود آ جائے ۔ مجھے تو آپ سے کٹنگ کرانے کی آرزو ہے۔ اس پر فائق صاحب خود ان کے گھر چلے گئے۔ دروازے پر دستک دی صابرہ کی بجاۓ نوشیران گیٹ پر گئے ۔ دراصل شوہر نے صابرہ کو بتایا تھا کہ وہ آٹھ تاریخ کو پہنچ رہے ہیں لیکن ایک روز پہلے پہنچ گئے۔ دروازے پر ایک نوجوان کو کھڑا پایا تو پوچھا۔ آپ کو کس سے ملنا ہے ؟ میرا نام فائق ہے اور صابرہ بیگم نے بلایا ہے ۔ ان کو بتا دیجئے۔ فائق نے صاف گوئی سے جواب دیا۔ صابرہ کا شوہر اندر چلا گیا۔ بیوی سے پوچھا۔ کیا تم نے کسی فائق کو بلایا تھا؟ ہاں۔ وہ بولی۔ دراصل مجھے درد کا انجکشن لگوانا تھا۔ پیر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے میں نے ایک واقف نرس کو ڈسپنسری فون کیا تھا۔ انہوں نے خود آنے کی بجاۓ اپنے کلینک کے کسی بندے کو بھیج دیا ہے ۔ ٹھہریں , میں اس کو فون کر دیتی ہوں۔ آپ آگئے ہیں تو اب آپ ہی انجکشن لگا دینا۔ نوشیرواں نے یقین کر لیا اور کہا میں اس بندے کو واپس بھیج دیتا ہوں۔ ہاں واپس بھیج دو۔ پھر صابرہ نے خود ہی ملازم کو آواز دے کر کہا کہ باہر جو بندہ کھڑا ہے اس کو کہو کہ ابھی انجکشن نہیں لگوانا ہے۔ ملازم نے جا کر ایسا ہی کہا۔ وہ سمجھ گیا کہ معاملہ کچھ گڑ بڑ ہے ، خاموشی سے اپنے پارلر واپس آگیا، تاہم اس کو برا لگا کہ صابرہ نے غلط بیانی کی ۔ ایک دن بعد صابرہ خود پارلر چلی گئی اور اس نے فائق سے کہا۔ میں آپ سے معذرت کرنے آئی ہوں۔ در اصل میرے شوہر نے بیرون ملک سے آٹھ تاریخ کو آنا تھا لیکن وہ ایک دن پہلے رات کو آگئے ۔ میں آپ کو فون پر اطلاع نہ کر سکی۔ آپ تو جانتے ہیں کہ شوہر حضرات کو جلد غلط فہمی ہو جاتی ہے یوں بھی میرے شوہر کافی مغرور آدمی ہیں۔ میں دوبارہ تہہ دل سے اس بات کی آپ سے معافی چاہتی ہوں۔ آپ نے آنے کی زحمت کی آپ مجھ سے پیمنٹ لیجئے۔ کوئی بات نہیں ، میں جانتا ہوں کہ ہمارے ملک کی خواتین خاصی پابند اور مجبور ہوتی ہیں۔ بہر حال آئندہ اس طرح کسی کو مت بلائیے گا۔ اس طرح آپ کا امیج بھی خراب ہو گا اور آنے والے کو بھی اہانت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ بہر حال فائق صاحب نے معاملہ کو رفع دفع کر دیا اور صابرہسے پیمنٹ بھی نہیں لی کیونکہ وہ اپنے پارلر میں آنے والی مستقل کسٹمر کو ہاتھ سے جانے نہ دینا چاہتے تھے۔ دو ماہ تک صابرہ پارلر نہ گئی ، فائق صاحب بھی سارے معاملے کو بھلا بیٹھے تھے کہ ایک روز صابرہ پھر آگئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا جو اس نے فائق کو دے کر کہا کہ اس روز آپ نے میرے گھر آنے کی زحمت کی اور پیمنٹ بھی نہیں لی تو یہ گفٹ میری طرف سے قبول کر لیجئے۔ فائق کے انکار پر بھی صابرہ اصرار کرتی رہی کہ آپ یہ گفٹ رکھ لیں ور نہ میرے دل پر بوجھ رہے گا۔ مجبور فائق نے گفٹ رکھ لیا، جس میں خوبصورت سی ایک ٹائی تھی جو اس نے اپنے شوہر کے بیگ سے اٹھا لی تھی۔ شکر یہ … لیکن آئندہ اگر آپ میرے لئے کوئی گفٹ لائیں تو میں قبول نہ کروں گا کیونکہ میں اپنی کسٹمر سے گفٹ نہیں لیتا۔ اچھا لیکن آپ کو آج میری چاۓ کی دعوت قبول کر نا ہو گی کیونکہ اس روز آپ کو نہ کسی نے گھر کے اندر بلایا اور نہ چاۓ کو ہی پوچھا۔ کیا آپ کے شوہر ناراض نہ ہوں گے ؟ میں نے ان سے پوچھ لیا ہے ، جب ان کے علم میں کوئی بات ہو اور وہ اجازت دے دیں تو پھر ناراض نہیں ہوتے۔ میں ان کو آپ سے ملوانا چاہتی ہوں ، ان کو آپ بہت اچھا انسان پائیں گے ۔ فائق کو صابرہ کی بات پر حیرت ہوئی تاہم اس سادہ دل شخص نے اس کی دل شکنی سے گریز کیا اور چاۓ کی دعوت پر آنے کا وعدہ کر لیا۔ اس نے سوچا کہ ضرور اس عورت نے اپنے شوہر کو اعتماد میں لے لیا ہے ورنہ اس کو مجھ سے ملنا ہوتا تو یہاں میرے آفس جب چاہے آکر مل سکتی ہے۔ اگلے روز پارلر کا آف ڈے تھالہذاوہ شام کو مقرر ووقت پر صابرہ کے گھر پہنچا۔ دروازہ خود صابرہ نے کھولا۔ درواز کھولتے ہی خوشبو کے معطر جھونکے نے اس کا استقبال کیا۔ وہ جھجکتے قدموں سے گھر کے اندر چلا گیا۔ جس کمرے میں وہ اس کو لے کر گئی وہاں اور کوئی نہیں تھا۔ آپ کے شوہر کہاں ہیں ؟ آخر اس نے پوچھ ہی لیا۔ ان کو اسلام آباد جانا تھا۔ ان کے پرو گرام کا مجھے علم نہیں تھا۔ سوری، ایک بار پھر معذرت کرتی ہوں۔ آپ کو دعوت دے چکی تھی تو عین وقت پر منع کرنا مجھے اچھا نہیں لگا۔ اسلام آباد سے وہ سویڈن چلے جائیں گے ۔ اس کے انداز اب بھی فائق نہ سمجھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ٹرے میں اورنج جوس لے کر آگئی۔ بولی۔ آپ کو پیاس لگی ہو گی ، یہ پیئیں جب تک میں چاۓ لے کر آتی ہوں۔ جواب کا انتظار کیے بغیر ہی وہ ترنت اٹھ کر کچن میں چلی گئی ۔ تھوڑی دیر بعد واپس آکر سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی۔اتنے میں ملازمہ نے آکر بتایا کہ ٹیبل لگادی ہے ۔ صابرہ فائق کو کھانے کے کمرے کے کمرے میں لے گئی جہاں ٹیبل پر کھا نالگادیا گیا تھا گو یاچائے کی دعوت کھانے کی دعوت میں بدل چکی تھی۔ فائق غیر شادی شدہ، اپنی تنہازندگی سے اکتایا ہوا تھا۔ ایسے میں صابرہ کا التفات تازہ جھونکے کی مانند تھا۔ وہ ایک ایسا نوجوان تھا جو زندگی اور اس کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کو ترستے ہیں کیونکہ اسے ماں کا پارلر چلانا تھا۔ ماں تو بیمار تھی ، شادی کے لئے لڑکی کون پسند کرتا؟ وہ ایک گھریلو قسم کی سیدھی سادی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ ہوتے ہوتے تکلف کی دیوار گرنے لگی اور بے تکلفی بڑھنے لگی۔ اب دونوں روز شام کے بعد کہیں نہ کہیں گھومنے کا پرو گرام بنا لیتے۔ ان دنوں فائق پارلر سے بھی جلد اٹھ جاتا تھا اور باقی کام اپنی اسسٹنٹ کو سونپ جاتا تھا۔ روپے پیسے کی تو فراوانی تھی ۔ پس ان دونوں نے اپنی بور زندگی کو دلچسپ بنالیا۔ ایک دوسرے کے ساتھ باتیں گپ شپ اور سیر سپاٹوں نے زندگی کارخ ہی بدل دیا۔ بات صرف پہلے دوستی تک محدود تھی اب بڑھتے بڑھتے بڑھ گئی اور یہ دونوں ایک دوسرے کے اس قدر قریب آ گئے کہ صابرہ نے فراموش کر دیا کہ وہ کسی کی عزت ہے۔ مرد کے لئے تنہائی اور آزاد خیال عورت کے لئے شوہر سے لمبی جدائی ایک آزمائش ہوتی ہے۔ دونوں اب کئی کئی دن گھر سے باہر رہا کرتے تھے۔ صابرہ کو ہر ماہ معقول رقم شوہر کی طرف سے مل جاتی تھی۔ سیر سپاٹوں کا خرچہ وہ خود برداشت کرتی تھی۔اس نے فائق کو باور کراد یا تھا کہ وہ اپنے شوہر سے تنگ ہے وہ اتنی مدت اکیلی نہیں رہ سکتی اور شوہر سے طلاق لے رہی ہے اور اس کو زندگی کا ایسا جیون ساتھی چاہیے جو ہر دم اس کے ساتھ رہے ، دکھ سکھ میں اس کے قریب ہو ۔ فائق کو جب یقین ہو گیا کہ یہ عورت اس کی ہے اور کسی اور کی نہ ہو گی بلکہ شوہر سے طلاق لے کر اس کے ساتھ شادی کر لے گی تو وہ مطمئن ہو گیا اور اس کے وعدے پر یقین کر بیٹھا۔ تبھی ایک دن اچانک صابرہ غائب ہو گئی۔ وہ کئی دن بعد اس کے گھر گیا تو وہاں تالا ملا۔ اس نے پڑوس کا در کھٹکھٹایا تو پڑوسن نے بتایا کہ وہ اکیلی رہنے سے تنگ آچکی تھی ، لہذا اپنے میکے چلی گئی ہے ۔ اس نے صابرہ کے میکے کا پتابھی بتادیا۔ وہ فورا اس پتے پر پہنچا۔ جونہی اس نے بیل دی اتفاق سے خود صابرہ باہر آگئی۔ وہ فائق کو یہاں دیکھ کر حیران رہ گئی۔ تم یہاں کیوں آ گئے ؟ بھائی نے دیکھ لیا تو ناراض ہوں گے۔ تم بغیر بتاۓ کیوں چلی آئیں؟ اس نے پوچھا۔ جانتی ہو میں کتنا پریشان تھا؟ تمہاری پڑوسن پتا نہ دیتی تو پریشانی سے بیمار پڑ جاتا۔ اچھا اب تم جاؤ۔ جب میں گھر آؤں گی تو تم سے ملوں گی۔ بھائی آفس سے آنے والے ہیں۔ وہ اس کو ٹالنا چاہتی تھی۔ فائق نے جاتے ہوۓ کہا کہ تم فون ضرور کرنا لیکن صابرہ نے اسے فون نہیں کیا اور نہ وہ خود واپس آئی۔ اب فائق پریشان تھا۔ صابرہ کے گھر کے روز چکر لگاتا۔ وہ پارلر سے بے نیاز ہو گیا تھا۔ آمدنی کم سے کم تر ہوتی جارہی تھی۔ ماں کی حالت بھی بگڑتی جارہی تھی۔ روپے پیسے کی تنگی کاخد شہ بڑھ گیا تھا۔ سب کچھ جانتے بوجھتے وہ خود کو نہ سمجھا پاتا تھا اور روحانی، اخلاقی ، معاشی ہر حال میں تباہی کی طرف جارہا تھا۔ بالآخر ایک روز اس کی مراد بر آئی۔ وہ صابرہ کے گھر کی طرف سے گزرا تو گھر کی کھڑکیاں کھلی نظر آئیں۔اس نے بیل دی، صابرہ نے در کھولا۔ تم کب آئیں ؟ مجھے اطلاع بھی نہ کی ۔ کل ہی تو آئی ہوں۔ گھر مٹی سے اٹا ہوا تھا۔ سوچا صفائی کر لوں تو تم کو فون کروں۔ دونوں اسی شام گھومنے کو باہر نکل گئے۔ تب فائق نے اس سے مطلب کی بات کی ۔ اس نے کہا۔ صابرہ یہ کھیل تمہارا ہی شروع کیا ہوا ہے اور اب تم ہی دامن چھٹرار ہی ہو۔ میں کب دامن چھٹر ار ہی ہوں۔ نوشیروان سے طلاق لینے کی خاطر تو بھائی اور امی کو منانے گئی تھی۔وہ لوگ ساتھ ہوں گے تو میں آسانی سے نوشیرواں سے دامن چھٹرا سکوں گی۔ تو پھر کیا ہوا؟ بھائی نے بات کی ہے ، نوشیرواں کسی صورت مجھے طلاق دینے پر راضی نہیں ہے۔ جو بھی ہو تم کو اب طلاق لے کر مجھ سے شادی کرنا ہو گی ۔ تم نے میرا ذہن الجھا دیا ہے میں اب کہیں کا نہیں رہا۔ گھبراؤ نہیں ، شادی تو میں تم سے ضرور کروں گی۔ تھوڑ اسا انتظار کر لو۔ ایک دم سے یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اچھا تو تم مجھے لکھ کر دو۔ ٹھیک ہے میں لکھ دیتی ہوں۔ وہ مان گئی اور اسٹامپ پیپر پرانگوٹھا لگا دیا، جس پر تحریر تھا کہ وہ فائق سے شادی کرے گی۔ اس واقعہ کے کچھ دن بعد نوشیرواں وطن آ گیا۔ وہ بیوی کو ساتھ لے جانے کے لیے آیا تھا۔ صابرہ نے اس کے آتے ہی فائق سے قطع تعلق کر لیا اور اپنے شوہر کے ہمراہ ہو گئی۔ فائق اس کا انتظار کرتارہ گیا، وہ پلٹ کر نہ آئی، بلکہ اپنی سہیلی تابندہ کو اس کے پاس کہلوا بھیجا کہ وہ اسٹامپ پیپر پھاڑ دے تو مہر بانی ہو گی کیونکہ میں اپنے خاوند سے طلاق نہیں لے سکتی۔ صابرہ کا ایسا پیغام تابندہ کے منہ سے سن کر وہ ششدر رہ گیا۔ اس نے کہا۔ کیا کوئی عورت اتنا گھٹیا بھی ہو سکتی ہے ؟ اگر شوہر کچھ عرصے کے لئے نظروں سے دور ہو جاۓ تو وہ اپنی من مانی کرنے لگے ، کسی دوسرے انسان کے جذبات سے کھیلے اور پھر اسے بھلا دے۔ میں اس کا اس کو مزہ چکھاؤں گا۔ فائق صاحب صرف صابرہ قصور وار نہیں، آپ بھی ہیں۔ آپ جانتے تھے وہ شادی شدہ ہے پھر کیوں اس سے دوستی کرلی ؟ صابرہ پڑھی لکھی نہیں ہے ۔ اسٹامپ پیپر پر تحریر اس کی نہیں، تمہاری ہے، صرف انگوٹھے کا نشان اس کا ہے۔ جو پڑھ نہیں سکتا ،اس سے کچھ بھی کہ کر انگوٹھا لگوایا جاسکتا ہے۔ براہ کرم اس باب کو یہاں ہی بند کر دو۔ فائق میں شرافت تھی۔ اس نے تابندہ کی بات مان لی لیکن یہ باب یہیں بند نہیں ہوا۔ تابندہ اس کی غمگساری کے لئے وقتاً فوقتا اس سے ملتی اور سمجھاتی رہی۔ اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ برا انسان نہیں ہے ۔اس کے بھائی اچھے عہدوں پر تھے۔ تابندہ نے ان سے فائق کو ملوایا۔ انہوں نے بھی بھانپ لیا کہ ٹھیک لڑکا ہے ، تب انہوں نے تابندہ کو اس کے ساتھ شادی کی اجازت دے دی۔ بیوٹی پارلر تو بند ہو چکا تھا۔ کچھ دنوں بعد فائق کی ماں جو کینسر کے آخری اسٹیج پر تھی زندگی کو الوداع کہہ گئی۔ فائق اب تنہا تھا۔ اس کو اچھے ساتھی کی ضرورت تھی ، تابندہ اچھی ساتھی ثابت ہو سکتی تھی، سو فائق نے اس سے شادی کی درخواست کی ، جس کو تابندہ نے قبول کر لیا اور گھر بسا لیا۔ وہ واقعی فائق کے لئے ایک اچھی شریک حیات ثابت ہوئی ، یوں دونوں خوش و خرم زندگی بسر کرنے لگے۔ تابندہ کے بھائی نے فائق کو اچھی پوسٹ پر ملازم لگوا دیا، کیو نکہ وہ فاران سے اکنامکس کی ڈگری لے کر آیا تھا۔ تابندہ نے سمجھ داری سے کام لیا اور فائق کو گزری باتوں کا طعنہ نہ دیا کہ اس طرح زندگی میں تلخیاں بڑھتی ہیں۔ اس نے گھر بسانا تھا سو بسا لیا۔ سمجھ نہیں آتی کہ کیسے کوئی عورت اتنا دھوکہ دے سکتی ہے آدمی تو ہے ہی نہ محرم پر اپنا خود کا بھی تو کوئی بھرم ہوتا ہے لیکن صابرہ تو ہر لحاظ سے بہروپیہ نکلی ایک طرف شوہر کو اندھیرے میں رکھا اور دوسری طرف فائق کی زندگی سے کھیلا – تابندہ اسے نہ سہارا دیتی تو شید ماں کے چلے جانے کے بعد وہ مجنوں بن جاتا یاں اپنی زندگی ہی ختم کر لیتا – لیکن ہر عورت صابرہ نہیں ہوتی –