روز روز شہر کی منڈیوں کے چکر کاٹنے اور کتنے ہی دن کی چھان پھٹک کے بعد میر ہاؤس کے مکین بھی بالاخر بکرا پسند کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ عثمان نے درجنوں بکروں کے ساتھ سیلفیاں لے ڈالیں ، ان کی وڈیوز بنا بنا کر گھر والوں کو دکھانے کے جتن کے لیے مگر وہ تھے کہ کسی ایک کے لیے بھی راضی نہ ہوئے۔ یہ واحد بکرا تھا ، جسے دیکھتے ہی ہر کسی نے بخوشی اپنی رضا مندی دے دی اور یوں اتفاق رائے سے پسندیدگی کا تاج اس بکرے کے سر پہ رکھ دیا گیا۔ سفید اور براؤن رنگ کی دھاریوں والا خوب صورت اور صحت مند سا بکرا جب گھر آیا تو پہلی نظر میں ہی سب کو بھا گیا۔ واہ کیا کمال بکرا ہے۔ دادا بھی عثمان کی پسند کی داد دیے بغیر نہ رہ پائے ۔ آخر کو بکرے نے ان کی جانب سے کیے گئے تنقیدی معائنے کا کڑا امتحان امتیازی نمبروں سے جو پاس کر لیا تھا۔ پچیس سے کوئی چار کلو اوپر ہی ہو گا اس کا گوشت نظروں ہی نظروں میں بکرے کو تولتے ہوئے ابو نے پیار سے اس کے جسم پر ہاتھ پھیر کر جو اپنی رائے دینا چاہی تو وہ شرما کر فورا ہی کچھ یوں پیچھے ہٹا کہ پاؤں میں بندھے گھنگھرو بجتے ہی چلے گئے – آپ دیکھ لیجیے گا ان چند دنوں میں ہی اچھی خوراک کے ساتھ بہت ساری خاطر مدارت سے ہمارا بکرا اور بھی خوب صورت اور خاصا صحت مند ہو جائے گا یہ ان شاء اللہ عثمان نے پر امید ہو کر گھر والوں کو بھی یقین دلایا تو جوابا انہوں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
☆☆☆
ٹھیک چھ دن بعد عید کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلتے ہی عثمان کا استقبال قصائیوں کے ایک غول نے کیا۔ جن میں سے منجھے ہوئے قصائی کا انتخاب گرچہ بکر ا خریدنے سے بھی زیادہ مشکل کام تھا پھر بھی فوری طور پر سمجھ بوجھ سے کام لے کر ان میں سے شکل و صورت اور گفتگو میں نسبتا معقول قصائی کو دیکھ کر پہلے تو اس سے بکرا کٹائی کے دام کیے۔ بعد ازاں اسےگھر لے آیا – بیٹا جی میرے خیال سے ہم نے بکرا ذبح کروانا ہے کوئی دنگل نہیں ، جو اس موٹے قصائی کو پکڑ لائے ہو۔ اس کا ڈیل ڈول دیکھ کر جو قصائی کم اور پہلوان زیادہ لگ رہا تھا ابو نے گھبرا کر عثمان کو ایک طرف لے جا کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ یہ ایک ماہر قصائی ہے اور بتا رہا ہے کہ پھول نگر میں اپنی گوشت کی دکان ہے آپ بالکل بے فکر ہو جائیں میں دیکھ لوں گا اسے۔ ابو کا شانہ تھپتھپا کر عثمان نے انہیں قائل کرنا چاہا۔ مگر وہ کسی طور مطمئن ہی نہیں ہو پا رہے تھے۔ پھر بھی میرا خیال ہے۔ تھوڑا انتظار کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہمارا قصائی بھی آتا ہی ہوگا ۔کیا یہ اچھا نہیں ابو کہ اس گرمی میں ہم لوگ صبح ہی صبح قربانی سے فارغ ہو جائیں گے ۔ ہمارا قصائی نجانے کب آئے، پچھلی مرتبہ بھی تو صبح آٹھ بجے آنے کا کہہ کر ایک بجا دیا تھا۔ آپ کو تو یاد ہی ہو گا اور یہاں ابھی اس کا دوسرا ساتھی بھی مدد کو پہنچ رہا ہے۔ ڈیڑھ دو گھنٹوں میں یہ لوگ گوشت بنا کر ہمارے حوالے کر دیں گے ۔ اچھا ٹھیک ہے پھر جاؤ اور اللہ کا نام لے کر قربانی شروع کرا دو – عثمان کی یقین دہانی پر ابو کو بھی راضی ہونا پڑا، ان کی طرف سے ہاں کا اشارہ ملتے ہی وہ قصائی کو لے کر پچھلے صحن میں چلا گیا جہاں بکرا بندھا تھا۔ قصائی کے تکبیر پڑھنے کی دیر تھی کہ گھر بھر میں ہلچل مچ گئی ۔ امی اور دادی تو اٹھ کر کچن میں چلی گئیں ۔ جب کہ دادا لگے بے چینی سے صحن میں چکر کاٹنے اور ٹی وی دیکھتے ابو پر جا برسے۔ بہت اچھے عاطف میاں عید کے دن تو اسے بخش دو، اٹھو اور جا کر قصائی کو دیکھو۔ دھیان رہے کہ وہ بوٹی زیادہ بڑی نہ بنانے پائے اور ہاں چانپیں بالکل خراب نہیں ہونی چاہئیں۔ ایک ایک بوٹی خود بتائے کہ وہ کسی ماہر قصائی کے ہاتھ سے نکلی ہے۔ انہیں باہر بھیج کر دادا خود کچھ دیر کو کمر سیدھی کرنے کے لیے لیٹ گئے۔
آئے ہائے یہ کلیجی اندر کیوں لیے آ رہے ہو؟ کچن میں بیٹھی دادی نے ماتھا پیٹا۔ کیوں دادی پکانی نہیں ہے کیا ؟ کلیجی کی پرات اٹھائے عثمان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹے۔ نہیں بالکل نہیں۔ ایسا کر اسے ابھی کے ابھی واپس لے کرجا اور قصائی سے اس کی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں بنواؤ اور انہیں باقی گوشت میں ہی شامل کروا دینا۔ اس سے پہلے کہ تمہارے دادا دیکھ لیں پوچھیں بھی تو بے شک کہہ دینا قصائی کو یاد نہیں رہا کلیجی علیحدہ کرنا، ، پتا بھی ہے انہیں کہ یہ سب کھا کر ان کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے پھر بھی کس بے تابی سے بقر عید کا انتظار کیے جاتے ہیں ۔ خبردار جو کسی نے بھی نگاہ غلط ڈالی تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا ۔ سرگوشی سے محو گفتگو دادی کی باتیں پیچھے کھڑے دادا کے کانوں میں پڑیں، وہ یکدم طیش میں آ گئے اور اپنی چھڑی کو ہی فرش پر ٹھوک ڈالا۔ عثمان نے تو فورا پرات رکھ کر کھسکنے میں ہی عافیت جانی تو امی بھی لہسن پیاز کی ٹوکری اٹھائے باہر نکل گئیں۔ وہ تو میں آپ کی صحت کی وجہ سے کہہ رہی تھی ۔ شوہر کی اچانک آمد پر دادی بری طرح بو کھلا گئیں۔ کیوں مجھے کیا ہوا ؟ بھلا چنگا تو ہوں میں ۔ دادا نے فوراً ہی سینہ تان کر انہیں غصے سے آنکھیں دکھائیں۔ میرا مطلب آپ کو کولیسٹرول ہے۔ مارے ڈر کے ان کی بات ہی آدھی رہ گئی۔ مجھے آپ سے بالکل بھی ایسی امید نہ تھی جہاں آراء بیگم- دادا سچ میں آزردہ ہوئے۔ آج اگر پورے سال بعد کلیجی کھانے کا موقع ملا ہے تو وہ بھی آپ سے برداشت نہیں ۔ سارا سال زبان پر رکھ کے نہیں دیکھی ۔ یہ بھی اور نمکین گوشت تو ویسے بھی عید کے عید ہی کھانے کو ملتا ہے ، بقرعید پر گوشت کھا کے ارمان نہیں نکالنے تو پھر کب نکالنے ہیں ۔ یاد نہیں پچھلے سال کیسے عید کے اگلے روز ہی آپ کا بلڈ پریشر ہائی ہو گیا تھا کہ ڈاکٹر کو بلانا پڑا تھا۔ اپنے اندر ہمت جمع کر کے دادی نے انہیں یاد دلايا – بہت خوب میری طبیعت تو آپ کو یاد رہی بیگم اور جو آپ نے ڈھیروں مسالوں سے بھر کھانا کھلایا تھا۔ اس سے تو اچھا خاصا صحت مند بندہ بیمار پڑ جاتا میں تو پھر بھی بوڑھا ہوں ۔ گزشتہ عید پر ہونے والی خرابی صحت کا ملبہ بھی دادا نے ان کے سر پر ہی ڈال دیا۔ گوشت میں اگر مرچ مسالے درست تناسب سے ڈالے جائیں، تیل کی مقدار کم ہو تو کچھ نقصان نہیں دیتا۔ عثمان حیا کو بلاؤ ۔ کسی کام سے اندر آتے عثمان کو دیکھ کر داد نے حکم صادر کیا۔ کلیجی آج وہی بنائے گی۔ عثمان بے چارے کی ایک ٹانگ اندر تو دوسری گیٹ پر تھی، جہاں گوشت کے لیے لینے آنے والوں کی بھیڑ تھی جو مسلسل گیٹ بجا بجا کر اس سے گوشت کا تقاضا کیے جا رہے تھے۔ ساری زندگی میرے ہاتھ کے پکے کھانے ہی کھاتے آئے ہیں اور آج لگے نقص نکالنے – دادا کی باتیں گویا دادی کے دل پہ جا لگی تھیں۔ بھول گئے وہ زمانے جب آپ کے بیس بیس دوستوں کی دعوت کا کھانا اکیلی میں اناڑی ہی بنایا کرتی تھی – تب تو بڑے پل باندھے جاتے تھے میری تعریفوں کے وہ باقاعدہ خفا ہو چکی تھیں ۔ بالکل بہت اچھی طرح یاد ہے۔ وہ کھل کر ہنس دیے۔ ہمیں تو یہ بھی یاد ہے کہ ایک زمانے میں آپ نمک کی جگہ چینی اور چینی کی جگہ نمک بھی تو ڈال دیا کرتی تھیں- روٹھی روٹھی دادی کو دادا مزید بھڑکانے پر تلےہوئے تھے۔ عید کا دن ہے اب کیا کہوں آپ کو۔ تند نظروں سے انہیں دیکھتی وہ اٹھ کر چل دیں تو دادا بھی مسکراتے ہوئے ان کے پیچھے ہو لیے۔
☆☆☆
وہ اوپر اپنے کمرے میں بیٹھی اسوہ کے بال بنا رہی تھی جب ایک کی جگہ دو، دو سیڑھیاں پھلانگتا عثمان بھاگا چلا آیا۔ حیا ابھی اس وقت میرے ساتھ چلو نیچے دادا بلا رہے ہیں، وہ آج تمہارے ہاتھ کی پکی ہوئی کلیجی کھائیں گے۔ تقریبا چیختے ہوئے اپنی بات کہہ کر وہ رکا نہیں اور اسوہ کو اٹھا کر چل دیا۔ تو حیا نے بھی دوپٹہ اٹھا کر اس کے پیچھے ہی دوڑ لگا دی ۔ کچن میں اس کی ساس کلیجی دھو کر چھلنی میں رکھ رہی تھیں اسے دیکھ کر بولیں۔ میں اسوہ کو دیکھ لیتی ہوں بیٹا تم کلیجی بنائوں لہسن پیاز سب چھلا رکھا ہے۔جی امی میں کر لیتی ہوں آپ جائیں ۔ ساس کو باہر بھیج کر وہ جلدی سے پیاز فرائی کرنے گئی ابھی یہی بھون رہی تھی کہ دادا چلے آئے۔ دراصل وہ بھی اپنی طرف سے یہی تسلی کرنے آئے تھے کہ آیا میں کلیجی بنا رہی ہوں یا کوئی اور حیا بیٹا ! میں یہ کہنے آیا تھا کہ پھیپھڑے میں نرخرے کی ہڈی ہوتی ہے نا کرکری والی وہ ضرور ڈال لینا بے حد لذیذ بنتی ہے۔ جی دادا ! میں نے شروع میں ہی ڈال دی تھی گلنے میں تھوڑا ٹائم جو لیتی ہے۔ انہیں جواب دیتی حیا تیزی سے دیگچی میں بھی چمچہ چلاتی جا رہی تھی۔ مگر اسے تاکید کو آئے دادا وہیں کرسی پر ہی براجمان ہو چکے تھے۔ ادھر قصائی کے پاس بیٹھے ابو سے مزید بیٹھا نہ گیا تو وہ بھی پانی پینے کے بہانے کچن میں آ موجود ہوئے کلیجی بھون کر آخر میں یاد سے گرم مسالے کے ساتھ میتھی کا چھڑکاؤ – جی ابو اچھا یاد دلایا آپ نے- کیبنٹ کھول کر میتھی کا ڈبا نکالتی حیا نے سسر کو جواب دیا جو اس دوران اسٹول کھینچ کر دادا کے برابر ہی بیٹھے گئے تھے۔ کلیجی بننے میں ٹائم ہی کتنا لگتا ہے۔ تیار کلیجی اب دم پر رکھ دی گئی تھی ۔ بزرگوں کے لیے تو چند لمحے بھی دوبھر ہو گئے۔ میتھی اور گرم مسالے کی ہوش ربا خوشبو قصائی کے پاس گوشت بنواتے عثمان کی ناک سے جو ٹکرائی وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے کچن کی طرف لپکا۔ جہاں حیا تیار کلیجی پلیٹ میں نکال رہی تھی۔ مزید انتظار محال تھا۔ اس لیے پلیٹ آگے آتے ہی دادا نے گرما گرم کلیجی اٹھا کر منہ میں رکھ لی اور اپنی زبان جلا لی مگر پھر بھی بے اختیار کہہ اٹھے۔ دیکھا میں نے کہا تھا ناں کہ مسالوں کا جو تناسب حیا بیٹی کو آتا ہے کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ جی ابا ! بالکل بجا فرما رہے ہیں آپ ، ایسے عمدہ ذائقے والی کلیجی بنانا بھی کسی کسی کو آتا ہے۔ تو پھر کیا خیال ہے کہ آج کا نمکین گوشت بھی حیا بیٹی سے ہی پکوایا جائے- دادا کے بعد ابو نے بھی ایک ساتھ دو بوٹیاں کھاتے ہوئے نہ صرف ان کی ہاں میں ہاں ملائی بلکہ مشورہ بھی دے ڈالا۔ تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟ پیچھے کھڑے عثمان نے ابھی اپنا ہاتھ پلیٹ کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ دادا نے اسے وہیں روک دیا۔ جاؤ میاں پہلے قصائی کو تو فارغ کر آؤ پھر سکون سے بیٹھ کے کھانا- کہیں بھاگی نہیں جا رہی کلیجی۔
دادا کا حکم تھا چارو ناچار واپس پلٹا تو وہاں صورت حال ہی کچھ اور تھی۔ اس نے فورا اپنی آنکھوں کو ملا کہ شاید نظر کا دھوکا ہو۔ مگر یہ سچ تھا کہ قصائی اور گوشت دونوں ندارد … باہر کا ادھ کھلا دروازه اس کا منہ چڑا رہا تھا۔ وہ تیزی سے نکل کر پیچھے گلی میں بھاگا۔ تنگ ہونے کی وجہ سے یہاں لوگوں کی آمد و رفت کم ہوتی تھی۔ دور تک سنسان گلی تھی۔ اوہ میرے خدا یہ کیا ہو گیا۔ اس نے سر پیٹ لیا اور بھاگتا ہوا مین گیٹ کی طرف آیا۔ مگر قصائی یہاں ہوتا تو نظر آتا۔ وہ تو موقع ہاتھ آتے ہی اپنے دوسرے ساتھی کے ساتھ گوشت موٹر سائیکل پر لاد کر کب کا رفو چکر ہو چکا تھا۔ عثمان پریشانی کے عالم میں کھڑا تھا کہ یک دم کوئی اسے گلے آ لگا۔ عید مبارک بھائی جان-! سیدھا آپ کی طرف ہی آرہا ہوں۔ بڑے فون آ رہے تھے میرے واقف کاروں کے پر میں نے کہا پہلے جن کو زبان دی ہے ان کا بکرا حلال ہو گا پھر کسی اور کا۔ یہ ان کا پرانا قصائی تھا جو اس کے سامنے تھا۔ جب کہ ہونق کھڑا عثمان اسے دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اب اندر جا کر کس طرح دارا اور ابو کو اس واردات کے بارے میں آگاہ کرے جو کلیجی کے بعدنمکین گوشت کھانے کی تیاری کر رہے تھے۔
☆☆