Friday, October 11, 2024

Bandish

میں غیر مرئی قسم کے قصہ کہانیوں پر یقین نہیں کرتی اور نہ ہی ایسی باتیں سنتی ہوں لیکن آج کسی سے ایسی کہانی سنی جو دلچسپ لگی تو لکھنے بیٹھ گئی۔ سمیرا میری ہم جماعت تھی، کچھ عرصہ ہم نے ساتھ پڑھا، پھر ان کا نیا مکان بنا تو وہ اس میں چلے گئے ، یوں وہ ہم سے دور ایک نئے علاقے میں جابسے۔ سمیرا کو اسکول بھی چھوڑنا پڑا۔ میں تو اسے بھول ہی چکی تھی کہ مدت بعد اچانک بازار میں سامنا ہو گیا، تب ہی میں اصرار کر کے اسے ساتھ لے آئی، مدت بعد کوئی پر اناد دوست مل جائے تو خوشی ہی ہوتی ہے۔ میں بھی سمیرا سے مل کر خوش تھی، لیکن وہ مجھے زرد اور پوری طرح صحت مند دکھائی نہ دے رہی تھی۔ پہلے تو وہ تر و تازہ گلاب کے پھول جیسی ہوا کرتی تھی۔ باتوں باتوں میں گزرے دنوں کا احوال پوچھا تو ٹھنڈی آہ بھر کر بولی۔ نہ پوچھو کہ ہم پر کیا بیتی۔ ہمارا نیادو منزلہ مکان بہت خوبصورت اور کشادہ تھا لیکن وہ ہمارے لیے مبارک ثابت نہ ہوا۔ وہ کیوں ؟ بے اختیار میرے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے۔ یہ تو میں نہیں جانتی لیکن یہ ایک ویران سی جگہ پر تھا، ارد گرد چند مکان تھے مگر دور دور تھے۔ دراصل یہ علاقہ نیا نیا آباد ہوا تھا۔ والد صاحب نے بھی یہاں پلاٹ اسی وجہ سے خریدا تھا کہ ان دنوں زمین یہاں سستی مل رہی تھی۔ سوچا بعد میں ہوتے ہوتے آبادی بڑھے گی اور پر رونق علاقہ ہو ہی جائے گا۔ خیر ، ریٹائر منٹ کے بعد رقم ملی تو اس پلاٹ پر انہوں نے گھر بنوانا شروع کیا، کچھ جمع پونجی جو پہلے سے بینک میں تھی، وہ بھی لگادی اور کچھ قرضہ لے کر ایک دیدہ زیب رہائش گاہ تعمیر ہو گئی اور ہم اس میں شفٹ ہو گئے۔ مکان چونکہ نیا اور خوب صورت تھا، ہم بھی بہت خوش تھے ، تاہم ارد گرد کی ویرانی سے کچھ وحشت بھی ہوتی تھی۔ میرے والدین نے سوچا کہ اوپر کی منزل خالی پڑی ہے کیوں نہ کرایے پر لگا دیں۔ آمدنی ہو گی اور رونق بھی ہو جائے گی۔ جلد ہی ایک دو پارٹیاں آگئیں لیکن افراد خانہ زیادہ ہونے کے سبب والد صاحب نے ان کو گھر کرایے پر دینے سے انکار کر دیا۔ ہفتہ گزر گیا، کوئی نہ آیا۔ ایک روز پھر دروازہ بجا، ایک عورت دو بچوں کے ہمراہ دروازے پر کھڑی تھی۔ والدہ نے پوچھا۔ کیوں آئی ہو ؟ بولی۔ میں کرایے کے لیے مکان ڈھونڈ رہی تھی، آپ کے گھر پر لگے بورڈ پر نظر پڑ گئی، سوچا معلوم کرلوں۔ امی نے کہا، اندر آجائو۔ وہ نوجوان عورت اچھی شکل کی لیکن کچھ خستہ حال لگی۔ والدہ نے پوچھا کہ کتنے افراد ہو اور تمہارے شوہر کیا کام کرتے ہیں۔ بولی، وہ انجینئر تھے لیکن ایک حادثے میں ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ افراد کنبہ بس میں اور میرے یہ دو بچے ہیں۔ مجھے دو کمرے کا گھر کافی ہے، اگر آپ اوپر کی منزل پر دو کمرے مجھے کرایے پر دے دیں تو مہر بانی ہو گی۔ کرایہ کہاں سے دو گی؟ تم تو بیوہ ہو اور مالی حالات بھی تمہارے ٹھیک نہیں لگ رہے۔ میں ایک پرائمری اسکول میں ٹیچر ہوں، حسب توفیق کرایہ دے سکتی ہوں۔ تمہاری تنخواہ کتنی ہے؟ پرائیویٹ اسکول ہے، اس لیے صرف تین ہزار روپے دیتے ہیں ، اس میں کھانا پینا، کرایہ ، بچوں کی پڑھائی، سب ہی کچھ کرنا ہوتا ہے۔ تمہاری تنخواہ کے برابر تو کرایہ ہے۔ امی نے کہا۔ آپ سچ کہتی ہیں، جتنی میری کل تنخواہ ہے، اتنا تو آپ کرا یہ بتا رہی ہیں لیکن میں بیوہ عورت ہوں ، بچوں کا ساتھ ہے، اکیلی رہ نہیں سکتی۔ آپ اگر کرایہ آدھا کر دیں تو باقی آدھی تنخواہ میں ، میں گزارہ کر لوں گی۔ دراصل مجھے کسی شریف فیملی کا سہارا بھی چاہیے ، آپ کے مکان میں رہائش سے مجھے تحفظ مل جائے گا۔ والدہ نے اس کی باتیں سن کر روکھا منہ بنا لیا اور بولیں۔ بی بی اپنی اوقات سے بڑھ کر رہائش کی خواہش کرو گی تو بھوکوں مرو گی۔ جتنی چادر ہو انسان کو اتنے ہی پیر پھیلانے چاہیں۔ تم کو اس آبادی میں کوئی ایک ہزار کرایے پر گھر مل جائے گا اور پانچ سو میں ایک کمرے والا کوارٹر بھی، لیکن تم بنگلے میں رہنا چاہتی ہو اور کرایہ بھی اتنا کم کرانا چاہتی ہو ۔ آپا میں اچھے گھر سے ہوں، بس وقت آ پڑا ہے۔ ارے بھئی تو اپنے میکے یا سسرال کیوں نہیں چلی جاتیں، بچوں کے ساتھ اکیلی کیوں خوار ہو رہی ہو ؟ وہ دراصل ہم نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔ عورت جھجکتے ہوئے بولی۔ دونوں کے گھر والے راضی نہیں تھے ، اس لیے اب وہ لوگ ناتا نہیں رکھتے۔ بھئی خوب لیکن بی بی ہم نے تعمیر کے وقت قرضہ لیا تھا، اسے بھی اتارنا ہے۔ امی نے رکھائی سے کہا۔ عورت سے پانی تک کا نہ پوچھا، وہ بے چاری پسینہ پو چھتی ہوئی نر اس ہو کر چل دی۔ اس واقعے کے چوتھے روز پھر در بجا۔ امی نے ہی کھولا۔ ایک عورت تھی۔ والدہ نے آنے کا سبب پوچھا۔ وہ بولی۔ مجھے آپ کا گھر کرایے پر چاہیے۔ والدہ نے دروازے پر ہی کہہ دیا کہ نیا مکان ہے، بہت بڑا کنبہ نہ ہو اور کرایہ بھی تین ہزار سے ایک پائی کم نہ ہو گا۔ ایڈوانس وغیرہ دستور کے مطابق دینا ہو گا۔ وہ بولی۔ منظور ہے اور کنبہ صرف دو افراد ہم میاں بیوی پر مشتمل ہے۔ ایک بیٹی ہے ، اسے سولہ سترہ برس کی عمر میں بیاہ کر اس فرض سے بھی سبک دوش ہو گئے ہیں۔ عورت نے اچھے کپڑے زیب تن کر رکھے تھے اور حلیہ و رنگ روپ سے کھاتے پیتے گھرانے کی لگ رہی تھی۔ والدہ نے کہا، آئیے ، مکان دیکھ لیجئے۔ پسند آئے تو شوہر کو لے آئیے گا۔ وہ عورت امی جان کے ہمراہ سیڑھیاں طے کرتی اوپر گئی ، گھوم پھر کر دیکھا۔ بولی۔ بہت عمدہ ہے، ابھی ایڈوانس لے لیجئے ، کل شام کو شوہر کے ساتھ آجائوں گی۔ جب شام کو شوہر کے ساتھ آؤ، تب ہی ایڈوانس بھی دے دینا، تب تک میرے میاں بھی گھر آجائیں گے تو مردوں میں بات ہو جائے گی۔ عورت کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا سوٹ کیس تھا۔ بولی۔ کیا میں اسے یہاں رکھتی جائوں۔ پہلے تو والدہ جھجکیں، پھر کچھ سوچ کر کہا۔ رکھتی جائو مگر اس میں ہے کیا ؟ عورت نے سوٹ کیس کھول کر دکھا دیا۔ چند جوڑے کپڑوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ کہنے لگی۔ بہن کے گھر سے آرہی ہوں۔ بورڈ پڑھا تو یہاں آگئی، اب اسے لے جائوں گی تو دوبارہ لانا ہو گا۔ اسی وجہ سے یہی چھوڑ رہی ہوں۔ ٹھیک ہے ، اماں نے جواب دیا۔ شام کو وہ عورت دوبارہ آگئی، کہنے لگی۔ میاں ڈیوٹی سے رات کو نو، دس بجے آئیں گے۔ ہم فی الحال بہن کے گھر ٹھہرے ہوئے ہیں۔ میں حسب وعدہ اس لیے آگئی ہوں کہ آپ کہیں مجھے جھوٹ انہ سمجھیں۔ میں نے اپنے میاں کو فون پر پتا سمجھا دیا ہے۔ وہ آکر بات چیت طے کر لیں گے اور ایڈوانس بھی دے دیں گے اور اگلے روز ہم سامان لے آئیں گے۔ عورت نے ایسے پکے لہجے میں باتیں کیں کہ امی نے یقین کر لیا، اسے کہا۔ آپ او پر جا کر آرام کرلیں، کمرے میں ایک چار پائی بھی پڑی ہے۔ چائے، پانی وغیرہ جو درکار ہو ، میں بھجوا دیتی ہوں۔ وہ کہنے لگی۔ کچھ بھی نہیں چاہیے ، بس پانی کا جگ اور گلاس مجھے پکڑا دیجئے۔ پیاس لگی تو پی لوں گی۔ والدہ نے پانی کی بوتل اور گلاس دے دیا۔ والد صاحب نے عورت سے بات نہ کی، یہی سوچا کہ جب اس کا شوہر آجائے گا، بات کر لیں گے ۔ وہ عورت اوپر چلی گئی اور ہم اپنے کاموں میں لگ گئے۔ امی نے کھانا بنایا، سب نے کھایا اور سونے کی تیاری کرنے لگے۔ اتنے میں رات کے نو بج گئے ، والدہ اور والد اسی انتظار میں تھے کہ اس کا شوہر آجائے ، اس سے بات چیت ہو ، یہ لوگ جائیں گے تو ہم بھی سونے چلے جائیں گے۔ رات کے دس بج گئے، ہم بہن، بھائی سونے کو لیٹ گئے مگر وہ شخص نہ آیا جس کا انتظار تھا، تب میرے والدین بھی اپنے کمرے میں چلے گئے کہ آرام کر لیں۔ جب دروازہ بجے گا تو دیکھ لیں گے۔ اسی وقت وہ عورت نیچے آگئی، کہنے لگی۔ معافی چاہتی ہوں، میرے شوہر جس فیکٹری میں منیجر ہیں، وہ یہاں سے کافی دور ہے۔ان کو آنے میں دیر ہو گئی ہے ، رات کا وقت ہے، اکیلی واپس نہیں جاسکتی، برا نہ مانے تو کچھ اور انتظار کر لیجئے۔ نہ آسکے تو یہی سو جائوں گی ، وہ صبح تو آہی جائیں گے۔ امی بولیں ۔ ٹھیک ہے ، بچوں والا گھر ہے، تم کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ تمہارے شوہر آ گئے تو تمہیں اٹھا دیں گے۔ خدا جانے اس عورت میں کیا کشش تھی کہ میری ماں اس پر مہربان ہوتی گئیں اور اسے رات کو سونے کی اجازت بھی دے دی۔  ابھی گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ اوپر سے دھم دھم کی آوازیں آنے لگیں۔ ابو سونے کو لیٹے ہی تھے اٹھ کر اوپر گئے۔ ابھی وہ آخری سیڑھی پر پہنچے تھے کہ ان کو باتوں کی آوازیں آنے لگیں، حیران ہوئے کہ کب در بجا، کب کس نے دروازہ کھولا اور اس عورت کا شوہر او پر چلا گیا، سیڑھی پر کسی کے قدموں کی چاپ بھی سنائی نہ دی۔ یہ کیا ماجرہ ہے؟ والد صاحب ہمیشہ الماری میں پستول رکھتے تھے، وہ اوپر نہ گئے ، واپس پلٹے کمرے کمرے میں آکر الماری سے پستول نکالا اور پھر اوپر گئے۔ انہوں نے جوں ہی اوپر کی آخری سیڑھی پر قدم رکھا، اس عورت کی اطمینان بھری آواز سنائی دی۔    ٹھہرو۔ اس کے لہجے اور وہاں کے منظر میں نہ جانے کیا بات تھی کہ والد صاحب کے ہاتھ سے پستول گر گیا اور وہ بھاگتے اور چلاتے ہوئے نیچے آئے۔ وہ کہہ رہے تھے۔ بھا گو، اس پر تو جن ہے۔ ابو دلیر اور کسی سے نہ ڈرنے والے آدمی تھے۔ ان کو اس قدر گھبرایا ہوا دیکھ کر ہم سب بھی گھبرا گئے۔ سیڑھی سے تھوڑے سے فاصلے پر ایک چھوٹاسا کمرہ تھا۔ ہم سب اس میں گھس گئے۔ امی اور میں سب سے پیچھے رہ گئے تھے۔ کمرہ بند کرتے ہوئے میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، زینہ پر نظر پڑتے ہی جو منظر میں نے دیکھا، وہ مجھے زندگی بھر نہیں بھول سکتی۔ میں نے دیکھا وہ عورت زمینہ اترتی آرہی ہے۔ اس کے بال پوری طرح اس کے چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھے۔ حتی کہ اس کے چہرے کا ایک حصہ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ میں اس عورت کو دیکھ کر دروازے کے پاس کمرے میں بے ہوش ہو کر گر گئی۔ امی نے صبح بتایا یہ منظر انہوں نے بھی دیکھا تھا۔ وہ رات انہوں نے آیات پڑھ کر جس طرح گزاری وہ وہی جانتی ہیں۔ صبح جب میری آنکھ کھلی تو میرے سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھی جارہی تھیں۔ بہر حال ہم سب اس واقعہ کو رات کوئی خواب سمجھ رہے تھے ، تاہم اب اوپر جانے کی کسی میں بھی ہمت نہ ہو رہی تھی کیونکہ ابو نے بتایا کہ جب باتوں کی آوازیں سن کر وہ اوپر گئے تھے، وہ عورت اکیلی بیٹھی اپنے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی۔ اس کے بال اتنے بڑے تھے کہ زمین پر پھیلے ہوئے تھے۔ دوپہر تک کوئی اوپر نہ گیا۔ آخر ہمت کر کے امی ، ابو دونوں اکٹھے اوپر گئے تو دیکھا کہ پورے گھر میں اس عورت اور اس کے سامان کا نام و نشان نہ تھا۔ خدا جانے کس وقت وہ ہمارے گھر سے چلی گئی تھی۔ ایک ماہ تک گھر میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا اور نہ ہی ہم دوسری منزل پر گئے۔ ایک دن ہوا چلی تو گھر میں گرد مٹی چھا گئی۔ امی نے سوچا اوپر کا نہ جانے کیا حال ہوا ہو گا؟ اتنے دن سے وہاں کی صفائی بھی نہیں کی۔ یہ سوچ کر وہ صفائی کرنے پہنچ گئیں۔ صفائی کر کے آج امی کافی خوش تھیں اور خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھیں۔ آج ہم کو محسوس ہو وہ عورت جو بھی تھی، چلی گئی ہے۔ اب ہمارا گھر غیر معمولی چیزوں سے پاک ہو گیا ہے۔ شام تک امی ٹھیک رہیں، سب سے ہنستی بولتی رہیں۔ صفائی کرنے کی وجہ سے ان کے بال اور کپڑے گرد آلود ہو گئے تھے ، دیگر کاموں سے فراغت ملنے کے بعد وہ نہانے چلی گئیں۔ جب وہ نہار ہی تھیں ، ان کو کپکپی سی محسوس ہو کی، جیسے سردی لگ رہی ہو ، حالانکہ موسم معتدل تھا۔ امی نہا کر آئیں۔ میں نے ان کو چائے بنا کر دی تاکہ سردی کا اثر جاتا رہے۔ موسم تو گرم تھا مگر چائے پیتے ہی وہ بستر پر لیٹ گئیں اور اپنے اوپر گرم چادر تان لی۔ تھوڑی دیر گزری تو چادر کے اندر سے عجیب و غریب آوازیں آنے لگیں، جن کو سن کر ہم سب ڈر گئے۔ اسی وقت ابو آگئے ، انہوں نے امی کے اوپر سے چادر ہٹائی اور ان کو آواز دینے لگے کہ کیا بات ہے بیگم ! لیکن امی کوئی جواب نہیں دے پائیں۔ وہ اسی طرح منہ سے عجیب سی آوازیں نکالتی رہیں۔ ہاتھ پائوں بھی کھینچ رہے تھے ، جیسے ان کو دورہ پڑ گیا ہو ، پھر وہ بالکل سیدھی ہو کر اکڑ گئیں اور آنکھیں بھی پتھر ا گئیں۔ وہ بے ہوش ہو چکی تھیں۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا، اس سے پہلے امی کو کبھی دورہ نہیں پڑا تھا کہ ہم کہتے، مرگی ہے یا کچھ اور بیماری ہے۔ بہر حال ابو اسی وقت امی کو گاڑی میں ڈال کر اسپتال لے گئے۔ وہاں امی کو ہوش تو آگیا لیکن ان کو اسی وقت بخار چڑھ گیا، وہ کمزور اور نڈھال نظر آنے لگیں۔ ڈاکٹر نے چیک کیا اور اپنی سمجھ کے مطابق دوائیں دیں اور ابو امی کو گھر لے آئے۔ بس اس کے بعد تو جیسے ان پر مظالم کی کتاب کھل گئی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ امی عجیب و غریب باتیں کرنے لگتیں، ان کی صحت بھی گرنے لگی۔ جب بھی ابوان کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتے ، کوئی کہتا مرگی ہے اور کوئی کہتاذہنی مریضہ ہیں۔ ماہر نفسیات سے علاج کرایئے۔ والد صاحب نے کئی ماہر نفسیات سے علاج کروا کر دیکھ لیا۔ علاج پر ہزاروں روپے لگے مگر ان کو افاقہ نہ ہوا اور بقول ان ڈاکٹروں کے وہ ذہنی مریضہ بنتی چلی گئیں۔ اس کے بعد ابو کو وہم ہو گیا کہ ان کی شریک حیات کی یہ حالت اُس واقعہ کے بعد سے ہوئی ہے۔ ابو نے اگر وہ منظر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا تو وہ کبھی کسی بات کا برا نہ مانتے اور نہ سنتے بلکہ ہر ایک کو چپ کرا کر یہی کہہ دیتے کہ یہ تمہارا وہم ہے۔ امی کی بیماری کے بعد انہوں نے مکان کی فروخت کے لیے بھاگ دوڑ شروع کر دی اور بالآخر مکان اونے پونے بک گیا کیونکہ والد صاحب کو گھر بیچنے کی بہت جلدی تھی اور وہ امی کی بیماری کا سبب گھر کو سمجھتے تھے ۔ ان کے خیال میں مکان آسیب زدہ ہو گیا تھا حالانکہ میری والدہ بیماری کے باوجود ہر گز مکان کو فروخت کرنے کے حق میں نہ تھیں۔ والد صاحب نے یہ شاندار مکان فروخت کر کے ایک دوسرے علاقے میں معمولی ساگھر خرید لیا اور اس میں چلے گئے لیکن امی کی طبیعت یہاں بھی سنبھل نہ سکی اور وہ تیزی سے ذہنی مریضہ بنتی گئیں۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کو اسپتال میں داخل کروانا پڑا۔ امی کاروحانی علاج بھی ہوا، دم، درود، نذرانے ، پھر یہ فیصلہ ہوا کہ عاملوں کے چکر میں پڑنے سے بہتر ہے کہ ڈاکٹری علاج ہی کر وایا جائے۔ امی کی حالت یہ تھی کہ انہوں نے کھانا پینا، کپڑے بدلنا، گھر سے باہر نکلنا، غرض تمام کام ترک کر دیے تھے۔ ہر وقت سر پر پٹی باندھ کر اور شلوار کے پائنچے اوپر رکھتیں کہ زمین سے لگے تو نا پاک ہو جائیں گے۔ ہر وقت غصے میں رہتی تھیں۔ ابو سے ان کو سخت نفرت ہو گئی تھی۔ دیوار پر ان کو شکلیں نظر آتی تھیں۔ میرے بھائی کی شادی تایا کی بیٹی سے ہونا تھی۔ ان دنوں امی نارمل نہ تھیں تو ان کی شادی والدہ سے چھپ کر کر نا پڑی۔ یہ مکان والد نے امی کے نام سے لیا تھا۔ ہمارے ایک ماموں کے پاس رہنے کا ٹھکانہ نہ تھا۔ جس کو امی بہت یاد کرتیں تھیں۔ والد ، بیوی کے مجبور کرنے پر ماموں کو گھر لے آئے۔ انہوں نے یہ نہ سوچا کہ بہن بیمار اور ذہنی مریضہ ہے ، بجائے پیار دینے کے ، وہ ان کو تنگ کرنے اور روپوں کا تقاضہ کرنے لگے۔ امی نے کئی بار پیسے دیے اور ابو نے رہنے کا ٹھکانہ دیا۔ والدہ نے کی بار رقم دینے کے بعد آخر غصہ کیا کہ اتنے پیسے کہاں کرتے ہو ؟ والد ہ ان پر چلانے لگیں۔ ماموں نے چپل اٹھائی اور بڑی بہن کو مارنے لگے۔ امی کی طبیعت بہت بگڑ گئی، یہ منظر ہم سے نہ دیکھا گیا۔ ابو فورا امی کو اسپتال لے گئے ، جہاں ان کو ایڈمٹ کر لیا گیا۔ وہاں ان کو الیکٹرک شاک لگتے تھے۔ یہ منظر بہت تکلیف دہ ہوتا تھا۔ ہم جب اسپتال سے آتے ، خون کے آنسو روتے اور سجدے میں گر کر خدا سے دعائیں کرتے۔ آخر دعائیں اثر کرتی ہیں، رفتہ رفتہ میری ماں ٹھیک ہونے لگیں۔ الٹی سیدھی باتیں بھی کم کرتی تھیں، بس ہر وقت خاموش رہتی تھیں۔ ان کے علاج پر ابو کے لاکھوں روپے لگ گئے۔ ماموں ہمارے گھر سے چلے گئے تھے۔ آٹھ سال بعد ایک روز میرے والد نے ماموں کو مسجد کے باہر بہت خراب حالت میں دیکھا تو تمام ناراضی بھلا کر ان کو گھر لے آئے۔ اس کے بعد ہم پر امی کی بیماری کی صورت میں مشکلات بڑھتی گئیں۔ اتنے چاو سے جو مکان میرے والد نے بنوا یاوہ بھی گیا اور رقم بھی بیماری پر لگی۔ یہ کہہ کر سمیرا رونے لگی، بولی۔ خدا جانے ہم سے کیا خطا ہوئی کہ ہم اتنی بڑی آزمائش میں گھر گئے ، ہم تو یہاں تمہارے پڑوس میں ہی اچھے تھے۔ میں نے اسے تسلی دی اور کہا۔ دیکھ نہ کرو، کوئی واقعہ ، ایک بہانہ ہوتا ہے۔ اصل میں جو مصیبت لکھی ہوتی ہے نصیب میں ، وہ مشیت ایزدی سے آجاتی ہے اور پھر اسی کی مرضی سے جاتی ہے لیکن انسان کو ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور کسی بات کا غرور نہیں کرنا چاہیے کیونکہ غرور آدمی کو لے ڈوبتا ہے۔ اچھے دنوں میں شاید ہم گھر والوں میں سے کسی نے غرور کیا ہو گا، جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ میری دعا ہے اللہ تعالی ہر کسی کو آفات سے محفوظ رکھے۔ سمیرا نے کہا تو میں نے بھی آمین کہہ کر اسے گلے لگالیا۔

Latest Posts

Related POSTS