ہم جنوبی پنجاب کے ایک چھوٹے سے گائوں میں رہا کرتے تھے۔ یہ ہمارا جدی پشتی ٹھکانہ تھا۔ آباؤ اجداد کی قبریں بھی یہاں تھیں۔ والد اور سسر آپس میں سگے بھائی تھے۔ آٹھ بیگھہ مشترکہ زمین تھی، جس پر کاشت کاری سے گزربسر تھی، تب تک مہنگائی کے جن کا سامنا نہیں ہوا تھا۔
گائوں میں ضروریات محدود اور زندگی سادہ ہوتی ہے۔ گھر میں فرنیچر نہ ہو تو بھی شان میں کمی نہیں آتی کہ چارپائی راحت جاں اور چٹائی بھی آرام دہ بچھونا ہوجاتی ہے… اور اسی طرح کے بستر پر سکون آتا ہے۔
گائوں میں بجلی نہ تھی تو ٹی وی، ریفریجریٹر، کولر جیسی سہولیات بھی نہ تھیں۔ تبھی گرمیوں کی شدت اور سردیوں کی سختی نے ہم لوگوں کو خاصا سخت جان بنادیا تھا۔ رات کو کھلے آسمان تلے بھی نیند آجاتی تھی اور سردیوں کی دھوپ سینکنے کا تو کیا ہی مزہ تھا۔
اچانک ایک روز گائوں کی قسمت جاگ اٹھی اور ہمارے علاقے میں بجلی آگئی۔ ہماری چھوٹی سی بستی قمقموں سے بقعۂ نور بن گئی۔ بجلی کی آمد کے ساتھ ہی دیہاتی زندگی میں تیزی سے بدلائو آیا۔ گھر گھر کولر، ٹیپ ریکارڈر، ٹی وی اور وی سی آر چلنے لگے۔ یہ اشیاء دبئی اور سعودی عربیہ سے آتی تھیں کیونکہ یہاں کے اکثر دیہاتی مفلسی سے تنگ آکر روزی کمانے کی غرض سے عرب امارات چلے گئے تھے۔ وہ جب آتے ایسی ہی اشیاء ’’برائے فروخت‘‘ لاتے تھے لیکن انہیں فروخت کرنے کے لئے یہاں کوئی دکان یا مرکز نہیں تھا۔
میرے شوہر انور کو خیال آیا کیوں نہ ایک ایسی دکان کھول لیں جہاں الیکٹرانک سامان کی خریدوفروخت ہوسکے۔ سسر صاحب کے کافی رشتہ دار اور دوست وغیرہ سعودی عربیہ محنت مزدوری کے لئے گئے ہوئے تھے اور یہ الیکٹرانک اشیاء آئے دن ان کے ذریعے گائوں میں آتی تھیں۔
سسر صاحب کے پاس اپنی زمین تھی۔ اس کا کچھ حصہ لب سڑک تھا جس پر انہوں نے چند دکانیں تعمیر کرلی تھیں، ایک دکان میں انہوں نے جنرل اسٹور کھول لیا۔ بس پھر کیا تھا دیکھتے دیکھتے کاروبار چمک اٹھا۔ اب جو عرب امارات سے لوٹتا وہ اپنے ہمراہ لائی ان اشیاء کو سسر صاحب کے حوالے کردیتا کہ بک جائیں تو رقم ہمارے گھر دے دینا۔
جلد ہی نزدیکی شہر تک ہمارے ’’باڑہ جنرل اسٹور‘‘ کی شہرت پہنچ گئی۔ اب شہر سے بھی لوگ جوق درجوق رعایتی قیمت پر یہ اشیاء خرید کر لے جانے لگے۔ غرض پانچ سال میں ہی ہم خاصے امیر ہوگئے اور خوشحالی کے مزے لوٹنے لگے۔
ایک روز انور نے کہا۔ بتول تم نے کبھی بڑا شہر نہیں دیکھا۔ چلو ان گرمیوں کوہ مری کی سیر کو چلتے ہیں۔ یہ میری زندگی کی پہلی سیر تھی۔ کار پر ملتان، لاہور، اسلام آباد سے ہوتے مری گئے۔ بہت مزہ آیا۔ بچوں نے بھی بڑے شہروں کی پر رونق زندگی دیکھی۔ واپسی میں لاہور میں تین روز قیام کیا۔ چڑیا گھر، پارک، شالیمار باغ قلعۂ لاہور گھومے پھرے۔ جی چاہتا تھا بس یہیں رہ جائیں۔
سیروتفریح کے بعد جب گائوں واپس آئے تو لگا کہ جیسے دل تو لاہور میں رہ گیا ہے۔ اب تو دیہات کی زندگی تنگ آب نائے جیسی تھی اور ہم گویا کنویں کے مینڈک تھے۔
میں نے اصرار کیا… انور بہت رہ لئے دیہات میں، اب لاہور چل کر رہتے ہیں۔ واہ کیا مزہ ہے وہاں کی زندگی کا۔ کہتے ہیں کہ ایک بات بار بار منہ سے نکلے تو پوری ہوجاتی ہے۔ لیکن ہمارے معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹ چچا جان یعنی سسر صاحب تھے۔ وہ جماجمایا کاروبار چھوڑ کر لاہور جابسنے کو ایک بڑی حماقت کہتے تھے۔
جب بھی انور ان سے اس آرزو کا اظہار کرتے چچا جان کی تیوری پر بل پڑ جاتے اور ہم دل مسوس کر رہ جاتے۔ بے شک دنیا میں ہماری عزت تھی۔ دکان کی وجہ سے ہم علاقے میں بہت خوشحال تھے۔ لیکن ذہن سے لاہور شہر کی رونقیں محو نہ پاتی تھیں۔
کہتے ہیں کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ انہی دنوں چچا جان بیمار ہو کر راہی ملک عدم ہوگئے۔ اور ہم بدبختوں کے لئے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا… ان کے مرتے ہی سارا اثاثہ فروخت کردیا اور اتنا سرمایہ ہاتھ آگیا کہ بڑے شہر جابسنے کے خواب کو تعبیر مل گئی۔
اتنی رقم پاس تھی کہ لاہور جاتے ہی ایک پوش علاقے میں چھوٹا سا بنگلہ کرائے پر لے لیا، پھر اس میں خوب عمدہ فرنیچر بھی ڈلوایا۔ بچے دیہات کے اسکول سے آئے تھے لہٰذا ایک معمولی اسکول میں ہی داخلہ ملا۔
کچھ دن تو بڑے شہر کے سرور میں گزر گئے، روز باربی کیو اور ریسٹورنٹ کے کھانے کے مزے لیتے رہے۔ جب بجٹ پر زیادہ دبائو پڑا تو بالآخر باورچی خانے کو آباد کیا۔ اب انور کو کاروبار کی فکر بھی ستانے لگی کیونکہ رکھے ہوئے پیسے تیزی سے خرچ ہورہے تھے۔ سچ ہے کہ ایک دن قارون کا خزانہ بھی خالی ہوجاتا ہے۔ تبھی یہ شہر میں گھوم پھر کر اپنے لئے موزوں بزنس کو تلاش کرنے لگے۔ اس طرح آٹے دال کے بھائو کا پتا چل گیا۔ گائوں کے کاروبار اور لاہور کے بزنس میں بڑا فرق تھا۔ یہاں صرف دکان لینے کے لئے لاکھوں درکار تھے۔
کاروبار کی سبیل کرتے کرتے سال گزر گیا۔ اس دوران بینک میں جمع پونجی ختم ہوگئی۔ اب خالی ہاتھ کس منہ سے واپس جاتے۔ رشتہ داروں کو کیا بتاتے جو بار بار کہتے تھے چلتا کاروبار ختم کرکے مت جائو۔ تبھی انور کو مشورہ دیا کہ بچے اسکول داخل ہیں اب بہتر یہ ہے کہ یہاں رہ کر ہی کوئی کمانے کی سبیل کرلو۔
انور صرف میٹرک پاس تھے اور میٹرک پاس کو کیا اچھی ملازمت مل سکتی تھی۔ گائوں والا اثاثہ تمام بک چکا تھا وہاں جاکر رشتہ داروں پر کب تک بوجھ بن سکتے تھے۔ اسی فکر میں غلطاں… ایک روز انور کی ایک دولت مند آدمی سے ملاقات ہوگئی۔ منیر صاحب ٹھیکیداری کرتے تھے اور لوگ ان کو ’’سیٹھ صاحب‘‘ کہتے تھے۔ ان کو ڈرائیور کی ضرورت تھی۔ انور سے بات ہوگئی۔ تنخواہ معقول دے رہے تھے۔ لہٰذا میرے شوہر نے سیٹھ صاحب کی ڈرائیوری قبول کرلی۔ اس شرط پر کہ وہ ہمیں رہنے کا ٹھکانہ اور دیگر کچھ سہولتیں بھی دیں گے۔
منیر صاحب نے اپنے خالی بنگلے کے دو کمرے ہمیں رہائش کے لئے دیئے۔ ان کا یہ بنگلہ چار بیڈ روم کا تھا۔ باقی دو کمرے ان کے اپنے تصرف میں تھے جن کی چابی وہ پاس رکھتے تھے۔ انور کا کام ان کی ڈرائیوری جبکہ میرا کام ان کے بنگلے کی صفائی ستھرائی تھا۔ وہ جب آتے کھانا بنواتے اور میں کچن کا سارا کام سنبھالتی۔ بدلے میں بچا ہوا کھانا ہمارے حصے میں آجاتا تھا۔
سیٹھ صاحب ہفتے میں چار بار لازمی آتے لیکن ان کی آمد سے کچھ دیر قبل ایک فیشن ایبل، چلتی پرزہ قسم کی خاتون بھی آجاتی تھی۔ یہ سیٹھ صاحب کی گرل فرینڈ تھی یا محبوبہ… بہرحال اس کی اہمیت بہت تھی۔
یہ محترمہ کبھی خود آجاتیں اور کبھی سیٹھ صاحب انور کو فون کرکے کہتے کہ جائو اس کو لے آئو… عورت کا ٹھکانہ انور کو ہی معلوم تھا لیکن مجھے نہیں بتاتے تھے کہ یہ کہاں رہتی ہے اور کہاں سے آتی ہے۔ اس کا انداز ایسا ہوتا تھا جیسے وہی اس گھر کی مالک ہو۔ آتے ہی وہ صاحب کے بیڈ روم کی چابی مجھ سے طلب کرلیتی تھی۔
ملازمت کے پہلے روز ہی صاحب نے بنگلے کی چابی ہمارے حوالے کردی تھی۔ انور سے کہا تھا کہ تم اور تمہارے بیوی بچے آدھے حصے میں رہیں گے۔ جبکہ آدھا حصہ میرے استعمال میں رہے گا۔ جب بھی میں یہاں آئو مجھے گھر صاف ستھرا اور ہر شے تیار ملنی چاہئے۔ کھانے پینے کا عمدہ انتظام ہونا چاہئے۔
سیٹھ صاحب انور کو تنخواہ کے علاوہ کچن کا کل خرچہ دیتے تھے۔ ہمیں اور کیا چاہئے تھا۔ رفتہ رفتہ مجھ پر سیٹھ صاحب کے اسرار کھلنے لگے۔ وہ شادی شدہ بال بچوں والے آدمی تھے۔ پھر بھی ایک دوسری عورت کے ساتھ ان کے مراسم تھے۔ اس
فیشن ایبل عورت کا نام رخسانہ تھا۔ وہ ہر دوسرے دن آجاتی۔ زیادہ تر صاحب کے ساتھ بیڈ روم میں ہوتی لیکن کبھی کبھی باورچی خانے میں بھی آدھمکتی تھی جب اس کو اپنی پسند کی کوئی ڈش مجھ سے بنوانی ہوتی تھی۔
وہ اکثر مجھ سے سوال کرتی کیا تم کبھی منیر صاحب کے گھر گئی ہو؟ کبھی ان کی بیوی سے ملی ہو…؟ میں جواب دیتی نہیں بی بی… ابھی تک تو نہیں ملی اور نہ وہ کبھی ادھر آتی ہیں۔ میں نے تو ان کو دیکھا بھی نہیں ہے۔
ایک بار جب رخسانہ باورچی خانے میں کوئی خاص کھانا پکوانے کے ارادے سے آئی تو میں بہت پریشان تھی کیونکہ میرا بیٹا بیمار تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ آج مزید کوئی فرمائشی کھانا تیار نہیں کرسکتی کیونکہ بچے کی حالت خراب ہے۔ اس نے صاحب سے کہا کہ ان کے بچے کو اسپتال لے جانا چاہئے۔
جب سیٹھ صاحب، انور اور مجھے بچے کے ہمراہ اسپتال لے کر گئے تو وہاں ان کی بیگم مل گئیں۔ ان کے بچے کو بھی بخار تھا اور وہ اپنے بھائی کے ہمراہ اسپتال آگئی تھیں۔ دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو صاحب کچھ خجل سے ہوگئے۔ بیگم نے خفگی سے کہا کہ کب سے آپ کو فون کررہی تھی، رابیل کو ڈاکٹر کو دکھانا تھا لیکن آپ کا فون بند جارہا تھا، تبھی جنید بھائی آگئے تو ان کے ساتھ ٹیکسی پر یہاں آئی ہوں۔
میری ضروری میٹنگ چل رہی تھی، تبھی فون بند تھا۔ اچھا اب واپسی میں تمہیں ڈرائیور چھوڑ آئے گا۔ جب دونوں بچوں کا ڈاکٹر نے چیک اپ کرلیا اور ہم نے دوائیں وغیرہ لے لیں تو سیٹھ صاحب کی بیگم فرح بولیں۔ ان کو بھی گاڑی میں بٹھا لیتی ہوں ، پہلے انور اپنی بیوی اور بچے کو اپنے گھر چھوڑے گا، پھر ہم گھر چلیں گے۔ صاحب نے عذر کیا کہ مجھے دوبارہ دفتر جانا ہے اور یہ بہت ضروری ہے۔ ایسا کرو تم گاڑی لے جائو۔ یہ اپنی بیوی اور بچے کو رکشہ کرادے گا۔
نہیں نہیں… ہم ان کو چھوڑ دیں گے، وہ بہ ضد ہوگئیں… اب صاحب کو چپ رہتے ہی بنی۔ رستے میں صاحب اپنے دفتر پر اتر گئے۔
فرح بی بی بہت اخلاق والی تھیں، اصرار کرکے ہمیں اپنے گھر لے گئیں اور اچھی مہان داری کی، پھر میرے میاں سے کہا کہ جائو انور اب تم ان کو گھر چھوڑ کر آجائو۔ تم نے میرے بچوں کو اکیڈمی بھی پہنچانا ہے۔جلدی آجانا۔
فرح بی بی کے اخلاق نے پہلے روز مجھے اپنا گرویدہ کرلیا۔ دل افسوس کرنے لگا کہ صاحب نے ناحق رخسانہ جیسی غلط قسم کی عورت سے ناتا پال رکھا ہے، جبکہ ان کی اپنی بیوی اس قدر خوبصورت، باسلیقہ اور عمدہ اخلاق کی مالک خاتون ہے۔ سوچنے لگی نہ جانے ان مردوں کا کیا مزاج ہوتا ہے کہ اپنی اچھی بھلی جیون ساتھی کو دھوکہ دیتے ہیں۔
مجھے معلوم تھا کہ رخسانہ صاحب کی منکوحہ نہیں تھی، پھر بھی وہ اسے خوب عیش کرارہے تھے۔ اپنا بنگلہ اس کے لئے مختص کر رکھا تھا اور ہم لوگوں کو بھی اسی خاطر یہاں رہنے کی جگہ دی ہوئی تھی کہ عیاشی کا سفر جاری رکھ سکیں۔
پہلے تو میں بہت خوش تھی کہ صاحب کے مہمان خانے کے علاوہ باقی سارا گھر ہمارے تصرف میں تھا۔ میرے بچے اچھے ماحول میں رہتے تھے۔ کھانے پینے کی کمی نہیں تھی۔ سیٹھ صاحب، انور کو معقول تنخواہ دیتے تھے لیکن جب فرح سے ملی تو ضمیر ملامت کرنے لگا کہ ہم لوگ ان کی برائی میں شریک ہوگئے ہیں۔ اب پتا چلا کہ صاحب کس قسم کے آدمی ہیں۔ وہ اور رخسانہ کبھی آدھی رات کو چلے جاتے اور کبھی رات بھر رہتے اور صبح جاتے تھے۔
سیٹھ صاحب کے ذاتی معاملات سے ہمیں غرض نہیں ہے۔ ہمیں تو رہنے کا ٹھکانہ، کھانا پینا اور اچھی تنخواہ سے غرض ہے۔ میں انور سے کچھ اس بارے میںکہنے کی کوشش کرتی تھی تو وہ یہی سمجھاتے تھے۔ جب مرد ایسی نوکری کو مجبوری کا حل سمجھ لے تو عورت بیچاری کیا کرے۔ ہم بھی تو اپنے گھر بار سے دور ایک طرح سے پردیس میں رہ رہے تھے۔
اب جب سیٹھ صاحب کے گھر کوئی دعوت یا تقریب ہوتی تو اپنا ہاتھ بٹانے کے لئے فرح بی بی … انور سے کہہ کر مجھے اپنے پاس بلوالیتیں۔ وہ میرا بہت خیال کرتیں، رات کو گاڑی پر گھر بھجواتیں اور کچھ رقم بھی دے دیتیں۔ سچ کہوں کہ وہ اتنی اچھی تھیں کہ کم ہی بیبیاں ایسی ہوتی ہیں۔ وہ انور کا بھی خیال رکھتی تھیں۔ کھانے کا وقت ہوتا تو کھانا دیتیں، میرے اور بچوں کے لئے کپڑے اور تحفے وغیرہ بھجواتیں۔
جب سے میں فرح بی بی سے ملی تھی رخسانہ سے نفرت سی محسوس ہونے لگی تھی جو کسی دوسری عورت کے گھر پر ڈاکہ ڈال رہی تھی۔ فرح بی بی سے ملاقات کے بعداب میرا جی نہیں چاہتا تھا کہ میں سیٹھ صاحب اور رخسانہ جیسی عورت کی خدمت بجالائوں۔ ان لوگوں کا احترام میرے دل سے جاتا رہا تھا۔
جلد ہی میں نے محسوس کرلیا کہ سیٹھ صاحب اس رخسانہ نامی عورت کے دام میں گہرے پھنس چکے ہیں۔ دولت اس پر لٹانے کے بعد اب اسے اپنی منکوحہ بنانے چلے تھے۔
یہ عورت بہت چالاک تھی۔ سیٹھ صاحب کی وفاشعار بیوی تو بے خبر تھی اور یہ اب اس کی سوتن بننے جارہی تھی۔
ایک روز فرح بی بی نے مجھے گھر بلایا، وہ بہت اداس نظر آئیں۔ اداسی کا سبب پوچھا تو روپڑیں۔ بولیں… پتا نہیں میرے سرتاج کو کیا ہوگیا ہے۔ راتوں کو گھر سے باہر ہوتے ہیں۔ سیدھے منہ بات نہیں کرتے۔ اب تو خرچہ دینے میں بھی اتنی کنجوسی کرتے ہیں کہ ہر وقت پریشان رہنے لگی ہوں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر دل تڑپ گیا۔میں بھی عورت تھی اور عورت کا دکھ سمجھ سکتی تھی، تبھی ضمیر نے مجھے منہ کھولنے پر مجبور کردیا اور میں نے ان کو بتادیا کہ آپ کے شوہر ایک رخسانہ نامی عورت کے جال میں پھنس کر لٹ رہے ہیں۔ سب کچھ بتانے کے بعد التجا کی کہ خدارا میرے بارے میں اپنے شوہر یا میرے شوہر کو کچھ نہ بتانا ورنہ میری خیر نہ ہوگی۔
میں نے تو یہ سب کچھ بیگم کی خیرخواہی میں کیا مگر وہ مجھ سے وعدہ وفا نہ کرسکیں۔ حوصلے سے کام نہ لیا اور اگلی رات اس بنگلے پر آپہنچیں جہاں صاحب رخسانہ کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے اپنے خاوند کے ساتھ جھگڑا کیا اور رخسانہ کو جوتا اتار کر مارنے لگیں۔ پھر بنگلے سے دھکے مار کر نکال دیا۔ پڑوسیوں کے خوف سے سیٹھ صاحب نے یہ سب برداشت کیا اور رخسانہ کا بھی دفاع نہ کیا۔ انور باہر موجود تھا اسی نے رخسانہ کو اس کے گھر پہنچایا۔
خیر بڑی مشکل سے یہ قیامت خیز قصہ نمٹا۔ صاحب اور بیگم فرح گھر چلے گئے۔ اس واقعے کے بعد سیٹھ صاحب کئی دن بنگلے پر نہیں آئے۔ خدا جانے وہ کہیں اور رخسانہ سے ملتے تھے یا کہ ملنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ یہ عورت بھی دوبارہ وہاں نہیں آئی۔ البتہ فرح بی بی فون کرکے مجھ سے صبح شام دریافت کرتی تھیں کہ وہ عورت تو پھر نہیں آئی…
بالاخر انہوں نے سیٹھ صاحب کو بتادیا کہ میں نے ہی ان کو رخسانہ کے معاملے کا بتایا تھا… اور میری مخبری سے وہ عین رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے۔
میں تو فرح بی بی کو بہت اچھی خاتون سمجھ رہی تھی مگر میرے بارے میں انہوں نے بے رحمی سے کام لیا۔ یہ بھی نہ سوچا کہ جب ان کے شوہر کو علم ہوگا کہ میں نے مخبری کی ہے تو وہ ہم سے کیا سلوک کریں گے۔ یقینا ہمیں تو باہر نکال دیں گے۔ اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔
ایک ہفتے بعد صاحب نے انور کو بلاکر کہا کہ تمہاری بیوی نے میری بیوی کو میرے راز سے آگاہ کیا ہے۔ فرح نے خود مجھے بتایا ہے کہ بتول نے اسے ساری کہانی سے آگاہ کیا ہے۔ لہٰذا اب تم لوگ سامان باندھو اور میرا گھر خالی کرو کیونکہ مجھے اب تم لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔
انور نے مجھے بہت برا بھلا کہا، مارنے کو دوڑے، بچے بیچ میں آگئے ورنہ… شاید وہ میری جان لے لیتے… کہتے تھے… نادان عورت تو کیوں پرائی آگ میں جلی… بدبخت تجھے کیا تکلیف تھی اگر سیٹھ صاحب کسی عورت سے اپنے گھر ملتے تھے۔ یہ ان کا گھر تھا جس سے چاہے یہاں ملتے۔ ہمارا کیا واسطہ تھا ان کے ذاتی
; معاملات سے۔ ہم کو وہ تنخواہ دے رہے تھے، رہائش دی ہوئی تھی، بچوں کا علاج معالجہ کرادیتے تھے۔ کچن کا خرچہ دیتے تھے اور ہمیں کیا چاہئے تھا۔ کتنا فائدہ تھا ہمیں… ان سے اور سب سے بڑھ کر ہمارے بچے لاہور میں پڑھ رہے تھے۔ کل کلاں ان کی نوکریوں کے مسائل ہوں گے۔ ہم لاہور میں ہوتے تو یہ بھی کہیں نہ کہیں ملازمت پر لگ جاتے۔ اب ناچار گائوں جائیں گے۔ چند بیگھ زمین بک چکی۔ دکانیں فروخت کرکے آگئے تھے اب وہاں کہاں رہیں گے۔ اور کھائیں گے کہاں سے…
واقعی انور صحیح کہتے تھے یہ میری ہی نادانی تھی کہ مالکن کا بھلا کرنے چلی تھی اور جب ان کے پیر جلے مجھے ہی جلا کر رکھ دیا۔ میری غربت اور برُے دنوں کا ایک لمحے کو بھی نہیں سوچا کہ صاحب نے ان کو دربدر کردیا تو یہ بیچارے کدھر جائیں گے؟
صاحب کے ڈر سے میں فرح بی بی سے ملنے بھی نہ جاسکی آخرکار… ہم گائوں لوٹ آئے کہ کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ والد صاحب نے مجھے رہنے کو پانچ مرلے کا مکان دے دیا۔ اور سال بھر کی گندم بھی جب تک وہ زندہ رہے دیتے تھے۔ بچے پھر سے دیہاتی اسکول میں جانے لگے۔ جہاں پڑھائی کا نام و نشان نہ تھا۔ استاد مزے کرتے تھے اور پڑھائی ایک مذاق کی طرح تھی۔
اپنے بچوں کی بربادی کا غم تھا اور تنگ دستی نے الگ پریشان کیا۔ آخرکار میرے بھائی نے ویزا خرید کر انور کو سعودی عربیہ بھجوادیا، جہاں وہ چلچلاتی دھوپ میں سخت محنت مزدوری پر مجبور ہوئے کہ پیٹ کا دوزخ تو بھرنا ہی تھا۔
دس سال بعد اب آکر کہیں ہمارے حالات کچھ بہتر ہوئے ہیں، مگر انور بیمار اور سوکھ کر کانٹا ہوگئے ہیں۔ ہر ایک سے کہتے ہیں کہ عورت کے کہنے پر کبھی اپنا گھر اور گائوں مت چھوڑنا ورنہ بڑے شہر کی مہنگائی کا جن تم کو برباد کردے گا۔
(ر… باتل یارو)