میرے صبر کا میٹھا پھل مجھے ایک طویل انتظار کے بعد ملا تھا۔ میں نے خواب دیکھنا چھوڑے تو خواب زندگی کا حاصل بن کر ملے۔ بے شک میری زندگی میں دردانگیز لمحے بہت آۓ اپنی حسرتوں اور مرتی خواہشوں کا زہر میں نے قطرہ قطر و پیا تھا۔ آج جب پچھلی زندگی کی جانب مڑ کر دیکھتی ہوں تو ذ ہن کی کھڑکیاں جیسے کسی تیز طوفان سے بجنے لگتی ہیں۔اب تو میں ان گزری باتوں کے متعلق سوچنا بھی نہیں چاہتی کہ یا ماضی عذاب ہے یارب .. ہمارا گھرانہ اوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا، جہاں سفید پوشی کا بھرم بہت مشکل سے قائم تھا۔ گھر کے حالات مشکل ترین تھے، کوئی شے وقت پر نہ ملتی، بلکہ مجھے تو کم ہی ملتی کیونکہ میں بہنوں میں سب سے بڑی تھی ،اس لئے مجھے قربانی کا ہمیشہ درس دیا جاتا۔ بڑی ہونے کے باعث گھر کی بیشتر ذمے داریاں مجھ پر تھیں۔ پے در پے بچوں کی پیدائش نے ماں کو چار پائی سے لگا دیا تھا۔ چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالنا اور گھر کا سارا کام مجھ ” بڑی“ کی ہی ذمہ داری تھی۔ میرے تو ابھی تتلیاں پکڑنے اور ہواؤں کے سنگ جھولا جھولنے کے دن تھے ، لیکن ماں کو اس کا احساس نہ تھا۔ ان کو ہر وقت اپنی ہی پڑی رہتی تھی۔ میں تو یہی سمجھنے لگی تھی کہ وقت نے مجھ کو بڑی کالقب دے کر مجھ سے بے انصافی کی تھی۔ مرتی کیانہ کرتی۔ چھوٹی سی عمر میں ، میں نے گھر سنبھال لیا۔ اس عمر میں مجھے تندور پر روٹیاں لگانی پڑ یں جبکہ ابھی ٹھیک طرح سے میرا ہاتھ بھی تند رو تک نہ پہنچتا تھا۔ ایک ایک کر روٹیاں لگانے سے اکثر میرے ہاتھ اور بازو جل جاتے تھے ،لیکن کوئی بھی پرسان حال نہ تھا۔ میری گود میں اس وقت کھلانے کے لئے بچہ دے دیا گیا جب ابھی خود مجھے گود کی ضرورت تھی گھر کو اور پیار ماں کو سنبھالتے سنبھالتے ہیں خود سے غافل ہو گئی۔ مجھے شعور ہی نہ آسکا، جیسے پیدائشی اندھا سمجھتا ہے کہ ہر طرف اند ھیرا ہی اند ھیرا ہے میں بھی یہی سمجھتی تھی کہ بڑی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہوں گی۔ کئی کئی ہفتے کپڑے نہ بدلتی، اس ڈر سے کہ مجھ ہی کو دھونے پڑیں گے ۔ماں بھی میرے کپڑے نہ بدلواتی ۔اگر وہ مجھ کو صاف ستھرارہنے کوکہتیں تو گھر کے کام کون کرتا۔ وقت کی دھول نے مجھے اس طرح لپیٹ لیا کہ احساس ہی نہ ہوا کب جوانی نے دستک دی اور کون ساوقت امنگوں کی پیدائش کا ہوتا ہے۔ اچھا کپڑا میرے نصیب میں نہیں تھا۔ کھانا میں سب سے آخر میں کھاتی تھی۔ کھانا بناتی دوسروں کے لئے تھی جو بچ جاتا ہی کھالیتی ۔ میں ان روزوشب میں ایسی بھی کہ اسکول بھی نہ جاسکی۔ گھر میں کوئی مہمان آ جاتا تو میں اپنے کام میں ہی مصروف رہتی۔ یوں دن گزرتے رہے اور میری زندگی روکھی اور پھیکی ہوتی گئی۔ میرے بہن بھائی صاف ستھرے اور اسکول کی منزلوں کی جانب رواں دواں تھے لیکن میری روٹین نہ بدلی ، وہی رہی کئی کئی دنوں تک کپڑے نہ بدلنا ..اب تو میں کھانا پکا کر اور گھر کا ساراکام وغیر ہ کر کے اپنے کمرے میں چلی جاتی جیسے کہ مجھے گھر کے افراد یاد نیاوالوں سے کوئی سروکار ہی نہ تھا۔ بہن بھائی ابو سے روزانہ اسکول جاتے ہوۓ جیب خرچ لے کر جاتے اور مجھے ایک روپیہ بھی نہ ملتا کیونکہ میں اسکول نہ جاتی تھی۔ جیب خرچ تو صرف اسکول جانے والوں کو ہی ملتا تھا۔ جب نئے کپڑے بنوانے کی بات ہوتی، کہا جاتا بیٹا تم نے تو کہیں نہیں جانا۔ تم نئے کپڑے لے کر کیا کرو گی ، اس ماہ پیسے کم ہیں یہ کپڑے بنوالیں ،اگلی دفعہ تم کو بنوادیں گے ۔ میں خاموش ہو جاتی ۔ نہیں جانتی تھی کہ احتجاج کیا ہوتا ہے ؟ میرا حق کیا ہے ، مجھے کیا چیز میں در کار ہیں ؟ میری ہر ضرورت جیسے مٹ گئی۔ میں نے زندگی کی لغت سے لفظ ضرورت کو بھی کھرچ کر پھینک دیا تھا البتہ کبھی کبھی دل میں یہ بات ضرور آتی کہ میں بھی یوں صبح صبح ناز نخرے اٹھواؤں ، کتابوں سے بھر ابیگ اٹھاؤں ، اسکول جاؤں ، واپسی پر اسکول کے قصے سناؤں۔ بعد میں پتا چلا کہ اس بات کو ہی تو خواہش کا نام دیا جاتا ہے۔ مجھے اسکول دیکھنے کی بہت خواہش تھی، کبھی مگر اسکول نہیں جا پاتی۔ جب سارے بہن بھائی خود کو سنبھالنے کے لائق ہو گئے اب کا کاروبار بھی چل نکلا اور میری ضرورت گھر میں کم ہو گئی تو ماں کو مجھے بیاہنے کا خیال آیا۔ میں تو یہ سمجھتی تھی کہ بڑی بہنوں کی شادی بھی نہیں ہوتی کیو نکہ شادیوں پر ڈھیر سارے نئے کپڑے ملتے ہیں اور نئے کپڑے میرے نصیب میں نہیں تھے ، پھر میری شادی کیسے ہو سکتی ہے۔ آج جب ان باتوں کو سوچتی ہوں تو از خود مسکرادیتی ہوں۔ جب میری شادی کے متعلق سوچا جانے لگا تو میرے ذہن میں یہ سپنے خود بخود آۓ اور سانے لگے۔ روز ہی سپنوں کے محل بنانے لگی ایک دن پتا چلا کہ کچھ لوگ مجھے دیکھنے آرہے ہیں- میں نے کپڑے تو بدل لئے لیکن منہ دھونے اور کنگھا کرنے کا وقت نہ ملا… تھوڑی دیر بعد ماں نے مجھے اندر بلالیا۔ ان عورتوں کے دیکھنے کا انداز بڑا عجیب تھا، وہ مجھے ایسے گھور رہی تھیں جیسے منڈی میں تول کر قربانی کا جانور خریدا جاتا ہے۔ پھر میرے انٹر ویو کامرحلہ شروع ہوا۔ ناک کی بھوں چڑھاتے ہوۓ شاید کہ میرا حلیہ ان کو پسند نہیں آیا تھا۔ ایک عورت نے سوال کیا۔ کتنا پڑھی لکھی ہو۔…؟ میری ماں کے چہرے پر ایک سایہ سالہرا کر گزر گیا۔ شاید ان کو زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ تعلیم میرے لئے بھی ضروری تھی۔ میں کوئی جواب نہ دے سکی۔ وہ مجھے گھور گھور کر دیکھتی رہیں۔ میں ان کے معیار حسن اور ذوق گفتگو پر پوری نہ اتر سکی۔ انہوں نے مجھے مسترد کر کے مجھ سے چھوٹی بہن کارشتہ منتخب کر لیا۔ رشتہ اچھا تھا،سو امی کھونا نہیں چاہتی تھیں۔انہوں نے چوٹی کے لئے ہاں کر دی ، سب گھر میں خوشی منانے لگے ۔ کسی کو احساس تک نہیں تھا کہ مجھ پر کیا بیتی ہے۔ میرے قریب کوئی ایسا تھا ہی نہیں جو میرے سپنوں کے تاج محل کے مسمار ہونے کی صدا سنتا۔ اس دن پہلی بار مجھے ایک اچھے ساتھی کا خلا محسوس ہوا۔ دوست ، سہیلیاں نعمت ہوتے ہیں۔ میرے پاس تو وہ بھی نہ تھے ، جن کو اپنے دل کی بات بتادیتی۔ یہ ڈرامہ آۓ دن ہونے لگا، کوئی مجھے دیکھنے آتے … آۓ دن مجھے قربانی کے جانور کی طرح سجا سنوار کر مقتل میں لایا جاتا۔ میں پھر سے اپنے ارمانوں کے لاشے گھسیٹتی بمشکل اپنے کمرے تک پہنچتی۔ آنے والے پھر میری کسی بہن کا رشتہ پسند کر کے چلے جاتے ، ماں مجبور ہو کر ہاں کر دیتیں۔ ایک ایک کر کے میری ساری بہنیں ان گھروں میں چلی گئیں جو مجھ کو دیکھنے آئے تھے ۔ اب تو جس بہن بھائی کا بھی جو تو رشتہ ہوتا۔ ماں مجھ کو بد نصیب کہتیں کہ پتا نہیں نرمین تیرابوجھ میرے سر سے کب اترے گا۔ لوگ کیا کہتے ہوں گے کہ بڑی بیٹھی ہے اور چھوٹی لڑکیوں کو ہم بیاہتے جار ہے ہیں۔ گو یا اب تو ماں بھی مجھ کو بوجھ سمجھنے لگی تھیں ۔ میں سارادن کولہو کے بیل کی طرح کام کرتی اور رات کو رب کے حضور گڑ گڑا کر اور رورو کر دعائیں مانگتی۔ مجھے ان مسائل کا حل بتادو۔ یا الہ …اس زندگی سے تو اس دنیا سے چلے جاناہی بہتر ہے- میں سمجھتی تھی کہ میری قسمت میں دوسروں کی خدمت کرناہی لکھا ہے ۔ بہنوں کی شادیاں ہو گئیں توان کی جگہ بھا بھیاں آ گئیں۔ بہنیں بات بات پر جھڑکتی تو نہ تھیں ، بھابھیاں تو طنز کے تیر چلانے سے نہ چوکتیں ۔ میں اب بھی سارادن کام کرتی۔ ماں پھر ماں ہوتی ہے۔اس عالم میں مجھ کو دیکھ کر بہت کڑھتی تھیں۔ کہتیں۔ نجانے تجھ بد قسمت کے نصیب کب جاگیں گے ۔ بھائی پہلے ہی مجھ کو کچھ نہ سمجھتے تھے ۔ اب میری حالت خادمہ سے بد تر ہو گئی۔ ایک دفعہ بڑی بھابھی کے کمرے سے گزری تو وہ میری دوسری بھابھی سے کہہ رہی تھیں۔اس کے سر میں سفید بال آنے کو ہیں ، لگتا ہے اب تو عمر بھر کنواری ہی رہ جاۓ گی۔ اس کا ستارہ بڑا بھاری ہے۔ وہ مجھ کو حقارت سے دیکھتیں، جیسے میری شادی نہ ہو نامیرے کسی عیب کی گواہی ہو ۔ ایک دن بھابی نے کہا۔ نجانے کب یہ اس گھر سے جائے گی ، اس روز تو ہم شکرانے کے نفل ادا کر یں گے ۔اس دن میرادل ایسے تڑپا کہ جیسے ابھی بند ہو جاۓ گا۔ میں نے خدا سے کہا۔ اے میرے اللہ ! مجھے اس جہنم سے نجات دے دے۔ قسمت کو اس دن مجھ پر رحم آ ہی گیا۔ ہمارے پڑوس میں نئے لوگ آکر آباد ہو گئے۔ ان کا کنبہ چار افراد پر مشتمل تھا۔ لڑکی جس کی عمر تیس سال ہو گی ،اس لڑ کی یعنی نرگس کا بھائی امجد جو کہ پینتیس سال کا، اس کا چار پانچ برس کا بیٹا اور ایک بوڑھی ماں تھی۔ یہ لوگ بہت پیسے والے تھے ۔انہوں نے مکان کو نئے طر زیر تعمیر کرایاتو وہ مجھے کسی محل کی طرح معلوم ہوتا تھا۔ میں اکثر چھت پر جاکر اس گھر کو دیکھا کرتی تھی۔ امجد کا چھوٹا بچہ بھی چھت پر کھیل رہا ہوتا تھا۔ اپنے گھر کے لان میں کھیلتا ہوا یہ نھا منا معصوم بچہ مجھے بہت اچھا لگتا۔ قسمت میں انتظار لکھا تھالیکن میری قسمت بہت اچھی نکلی۔ اپناگھر ، پیار کرنے والا شوہر ، محبت کرنے والی نند اور ماں سے بڑھ کر چاہنے والی ساس ،ایک پیار اسا بیٹا بھی ، جس کی چہکار میں میر ادل خوش کر دیتی تھیں۔. لیکن سب سے خفاسہی ، اپنی ماں سے میرادل ناراض نہیں ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ان ہی کی دعائگی ہے کہ مجھے ایسا ہنستا کھاتا زندگی کا خزانہ مل گیا ہے۔ آج میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں۔ پہلے جو زندگی اور اس سے جڑی ہر خوشی سے منہ موڑے رکھا تھا، اب ان باتوں پر خود کو ہی احمق کہتی ہوں۔ سچ ہے وقت بدلتا ہے ایک سا نہیں رہتا ہے-