Wednesday, October 16, 2024

Barish Bijli Aur Baqr Eid

چار دن رہ گئے ہیں عید میں اور ابھی تک جانور نہیں خریدا ہم نے ۔ گاؤ تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھے فقیر علی نے کہا۔ وہ لوگ فردوس کے گھر کے نیچے بنی بیٹھک میں بیٹھے تھے۔ میں بھی یہی سوچ رہا ہوں، بارش کی وجہ سے منڈی جانا تو ممکن نہیں رہا ، یہیں قریب سے ہی خرید لیتے ہیں ہے ۔ ہیں ۔ فردوس بولا ۔ یہاں قریب تو جانور کی قیمتوں کو آگ لگی ہوئی ہے۔ عمران نے کہا۔ آگ لگی ہوئی ہے یا بجھی ہوئی ہے۔ جانور تو خریدنا ہے نا ۔ ایسا کرتے ہیں ابھی چلتے ہیں۔ بارش رکی ہوئی ہے۔ فردوس کے کہنے پر ان دونوں نے تائیدی انداز میں سر ہلایا۔ اتنے میں فردوس کا بیٹا ریحان چائے لے کر آ گیا۔ ساتھ پکوڑے بھی تھے۔ اور چٹنی بھی۔ واہ ! آج تو جنت بھابھی نے بڑا اہتمام کیا ہوا ہے ۔ وہ دونوں پکوڑے دیکھ کر خوش ہو گئے۔ ہاں تمہاری جنت بھابھی بارش میں پکوڑے ضرور بناتی ہے اور مجھے بھی زبردستی کھلاتی ہے۔ فردوس نے منہ بنا کر کہا۔ اسے پکوڑے خاص پسند نہیں تھے۔ بڑا نا شکرا ہے تو ۔ ہم تو ترستے ہیں کہ ہماری بیویاں ہمیں بارش میں پکوڑے بنا کر کھلا دیں اور یہاں تجھے مل رہے ہیں تو تو نخرے کر رہا ہے ۔ فقیر علی نے گرم گرم پکوڑا چٹنی میں ڈبو کر کھاتے ہوئے کہا۔ تجھے کیا پتا ، اس بارش میں یہ پکوڑے کتنی بڑی نعمت ہیں ۔ عمران نے بھی پکوڑوں سے انصاف کرنا شروع کیا۔ فردوس مسکرا دیا اور چائے کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگا لیا۔ ویسے تمہاری جنت اور فردوس کی جوڑی بہت خوب ہے۔ فردوس ہنس پڑا وہ یہ بات ہزار بار لوگوں کے منہ سے سن چکا تھا، اللہ نے جنت اور فردوس کی جوڑی بہت اچھی بنائی ہے جنت اور فردوس لازم ۔ بلکہ کچھ لوگ تو اسے جنت الفردوس کہہ کر چھیڑتے بھی تھے۔ ویسے تو ہمیں آسمان والے جنت الفردوس میں بھی پکوڑے کھانے کو ملیں گے جو یقینا بڑے شان دار ہوں گے۔ مگر یہ پکوڑے بھی بڑے مزے دار ہیں۔ جنت الفردوس کا ہماری طرف سے شکریہ۔ عمران سینے پر ہاتھ رکھ کر بولا اس کے انداز پر فقیر علی بھی ہنس پڑا۔ باتیں کم کرو، جلدی سے کھاؤ پھر جانور لینے بھی جانا ہے۔ فردوس کی بات پر وہ دونوں جلدی جلدی ہاتھ اور منہ چلانے لگے۔
☆☆☆

امی ! ابو گائے کب لے کر آئیں گے جبران نے کوئی دسویں بار جنت سے پوچھا تھا وہ جو دروازے اور کھڑکیوں کے پردے بدل رہی تھی، زچ ہوگئی۔ آجائیں گے بیٹا ! تھوڑی دیر تک !!! اور یہ لو آ گئے آپ کے ابو۔ شکر ہے، آپ آ گئے ان دونوں نے دماغ کھا لیا تھا میرا۔ ابو آ گئے۔ ابو آپ گائے لے آئے۔ جبران باپ سے لپٹ کر بولا۔ یہ کیا طریقہ ہے۔ پہلے ابو کو آرام سے بیٹھنے دو جنت نے سارے کام چھوڑے فردوس کے ہاتھ سے چھتری لے کر ایک طرف رکھی اور جلدی سے پانی کا گلاس بھر کر لے آئی۔ ابو! آپ گائے لے کر آئے ہیں۔ ریحان نے پھر پوچھا۔ بیٹا میں نے گائے لے لی ہے مگر ابھی لے کر نہیں آیا۔ بارش کی وجہ سے وہیں واڑے میں چھوڑ آیا ہوں۔ جب بارش رک جائے گی تو ہم اپنی گائے لے آئیں گے یہ لو تب تک آپ لوگ اپنی گائے کی تصویریں دیکھ لو۔ فردوس نے پلاسٹک کے شاپر میں لپٹا اپنا موبائل نکال کر بچوں کو دیا تو وہ موبائل لے کر باہربھاگ گئے۔ خرید لیا آپ نے جانور؟ جنت اس کے قریب بیٹھتے ہوۓ بولی۔ ہاں اس بار بیل خریدا ہے۔ بچوں کو تو آپ گائے کا کہہ رہے تھے۔ انہیں مذکر اور مونث کا کیا پتا وہ مسکرا کر بولا۔ کتنے میں خریدا؟ جنت نے پوچھا۔ ایک لاکھ دس ہزار کا۔ اف! جنت کے منہ سے بے ساختہ نکلا اتنا مہنگا۔ ہمارا ایک لاکھ دس ہزار کا ہوا ہے ۔ فقیر اور عمران نے تو ڈیڑھ لاکھ کا خریدا ہے۔ فردوس پہلے فقیر اور عمران کے ساتھ قربانی کرتا تھا، وہ لوگ ایک تگڑا جانور خرید لیتے جس کے ساتھ ہوتے۔ دو سال سے فردوس ان سے الگ ہو گیا تھا۔ ان لوگوں نے اپنے ساتھ دو بندے اور شامل کر لیے تھے۔ جبکہ فردوس اپنے بھائی مزمل کے ساتھ مل کر قربانی کرتا تھا۔ جانور خرید تو لیے ہیں ابھی تو وہیں چھوڑ دیے ہیں مگر پریشانی یہ ہے کہ قربانی کہاں کریں گے۔ روڈوں پر تو اتنا پانی جمع ہے۔ اوپر سے بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ کہیں جگہ نہیں ہے قربانی کرنے کی۔ فردوس فکر مندی سے بولا۔ آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اس بار قربانی بیٹھک میں کر لیں ۔ جنت کی بات سن کر فردوس نے حیرت سے بیوی کو دیکھا۔ بیٹھک میں کیسے کر سکتے ہیں؟ دیکھیں ہمارا فرنیچر تو کمرے میں ہے۔ آپ کمرے کا دروازہ بند کر لینا۔ برآمدہ تو خالی ہے۔ آپ آرام سے قربانی کر سکتے ہیں بعد میں پائپ لگا کر سارا فرش دھو دیا۔ اب مجبوری ہے اور یہ آخری حل ہے۔ وہ تو ٹھیک ہے مگر بیل کو اوپر کیسے چڑھائیں۔ بیٹھک زمین کے اتنی اوپر تھی کہ پانچ چھ سیڑھیاں چڑھنا پڑتا تھا۔ اب یہ تو آپ کا کام ہے دو تین لڑکوں کو ساتھ لگا لینا ۔ آسانی ہو جائے گی۔ ہاں بات معقول ہے تمہاری۔ یہی کرنا پڑے گا۔ فردوس پر سوچ انداز میں بولا۔ شکر ہے کہ تم میری بیوی ہو، اتنا اچھا مشورہ دیتی ہو دل خوش ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی تو نہیں لوگ ہمیں جنت الفردوس کی جوڑی کہتے ہیں۔ جنت ہنستے ہوئے بولی۔ ہاں ایک موٹو اور پتلو کی جوڑی ہے اور ایک ہماری جنت اور فردوس کی جوڑی ہے۔ فردوس بھی ہنس کر بولا ۔ کھانا لاؤں آپ کے لیے؟ جنت اٹھتے ہوئے بولی۔ نہیں ، کھانے کا موڈ نہیں ہے ۔ ایک کپ اچھی کی چائے پلا دو۔ پکوڑے بھی لاؤں ساتھ ۔ جی نہیں، خود ہی کھاؤ پکوڑے۔ وہ منہ بنا کر بولا مگر عمران کی بات یاد آئی تو خود بخود ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔
☆☆☆

آج نو ذی الحج کا دن تھا۔ صبح سے بارش ہورہی تھی ، جنت اوپر چھت پر آ کر برستی ہوئی بارش میں کپڑے دھونے لگی ۔ اسے بارش میں کپڑے دھونا بہت پسند تھا ، بندہ نہا بھی لیتا اور کپڑے بھی دھل جاتے۔ بجلی تو تھی نہیں جو مشین لگاتی ۔ سو ہاتھ سے ہی سارے کپڑے دھو کر چھت پر ایک طرف بنے اسٹور میں بندھی تاروں پر پھیلا دیے یہ اسٹور اسی مقصد کے لیے تھا۔ یہاں پرانا سامان بھی پڑا تھا اور بارش میں یہاں کپڑے بھی سکھا لیے جاتے تھے۔ نیچے آکر اس نے نہا کر کپڑے تبدیل کیے اور نماز پڑھنے لگی۔ جنت جیسے ہی نماز سے فارغ ہوئی۔ بجلی آگئی۔ اس نے شکر کیا اور جلدی سے استری لگالی۔ عید پر پہنے سارے کپڑے استری کیے۔ کھڑکی سے آواز دے کر د یورانی سے ساس کے کپڑے منگوائے اور وہ بھی استری کر دیے کیونکہ اس کی دیورانی ذرا ست واقع ہوئی تھی۔ کہیں ایسا نہ ہو، عید کے دن پہننے کے لیے ساس کے کپڑے استری نہ ہوں لائٹ کا کیا بھروسا پھر چلی گئی تو !!! اور یہ لو پھر چلی گئی لائٹ، صرف ڈیڑھ گھنٹے کے لیے آئی تھی اور پھر چلی گئی ۔
☆☆☆

شمام کو فردوس اور فقیر جانور لے کر آگئے تھے۔ بچوں کا ایک پورا جم غفیر تھا جو گلی میں جمع ہو گیا تھا۔ قدرے بڑے ہوتے ہوئے لڑکے بڑے فخر سے جانور کے قریب جاتے پیٹھ تھپتھپاتے گردن پر ہاتھ پھیرتے۔ جانور کے ساتھ سیلیفیاں بنواتے۔ اور قدرے چھوٹے بچے آنکھوں میں انوکھی خوشی کی چمک ، حیرت اور حسرت لیے ان بڑے لڑکوں کو دیکھتے۔ ڈرتے ڈرتے جانور کے قریب جاتے اور ڈر کر پیچھے ہٹ جاتے۔ جانور آچکے تھے سب لوگ خوش اور پرجوش تھے اور بارش تھی جو رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اب تو سب کے لبوں پر ایک ہی دعا تھی۔ یا اللہ بارش رک جائے۔
☆☆☆

عید کا دن اپنی مخصوص رونق اور گہما گہمی لیے نمودار ہوا تھا۔ کل سارا دن برسنے والی بارش رات کو رک چکی تھی ۔ آسمان صاف تھا ، بادل چھٹ چکے تھے۔ سورج صاحب بھی تین چاردن کی غیر حاضری کے بعد آسمان پر جلوہ افروز ہو کر دنیا کو رونق بخش چکے تھے نہیں آئی تو صرف بجلی نہیں آئی تھی جس کا ساری رات انتظار کرنے کے بعد لوگ اب مایوس ہو چکے تھے۔ مگر آج تو عید کا دن تھا۔ عید کی تیاری تو کرنی تھی ۔ فردوس نہا دھو کر نئے کپڑے پہن کر بچوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے چلا گیا تھا۔ جنت جلدی جلدی قربانی کا سامان ایک جگ اکٹھا کرنے لگی۔ چھریاں، چاقو ، کلہاڑی ، ٹوکہ، رسیاں فالتو کپڑے اور سب سے ضروری چیز وہ بھاگ کر گئی اور الماری سے چھوٹی سی دعاؤں کی کتاب نکالی جس میں قربانی کرنے کی دعا لکھی ہوئی تھی ، سب سامان ایک جگہ رکھ کر وہ ساس کے لیے ناشتہ بنانے لگی۔
☆☆☆

عید کی نماز پڑھا کر امام صاحب نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے، ساری امت مسلمہ کے لیے خلوص دل کے ساتھ دعا مانگی آمین کہہ کر دونوں ہاتھ چہرے پر پھیر لیے۔ مرد حضرات اٹھ اٹھ کر ایک دوسرے سے عید ملنے لگے۔ ہر لب پر عید مبارک تھا۔ چوڑے سینے، مضبوط ہاتھ جو ایک دوسرے سے مل رہے تھے، پر نور چہرے کتنا خوب صورت اور مکمل منظر ہوتا ہے۔ ہے کسی مذہب میں اتنا خوب صورت منظر تو دکھاؤ ہمیں! سب سے عید مل کر فردوس نے گھر جانے کے لیے قدم بڑھائے مگر امیر علی فقیر علی اور عمران وہیں کھڑے رہے۔ حیرت سے مڑکر فردوس نے ان کو دیکھا کیوں گھر نہیں جانا کیا ؟ چلے جائیں گے گھر بھی۔ کیا کرنا ہے گھر جا کر عمران آرام سے بولا۔ کیا مطلب کیا کرنا ہے۔ قربانی کرنی ہے اور کیا کرنا ہے۔ جلدی کرو، دیر ہو جائے گی۔ قربانی کیسے کر سکتے ہیں یار ! بجلی جو نہیں ہے۔ فقیر علی بولا ۔ بجلی کا قربانی سے کیا تعلق ہے؟ فردوس نے پوچھا۔ یارفریج کل سے بند پڑے ہیں۔ قربانی کر لی تو گوشت کے ساتھ کیا کریں گے۔ سارا گوشت خراب ہو جائے گا۔ او کچھ نہیں ہوتا۔ قربانی کرو۔ اللہ پر بھروسا رکھو آ جائے گی بجلی بھی۔ اللہ پر تو بھروسا ہے مگر کے الیکٹرک والوں پر نہیں ہے نہ آئی بجلی تو کیا کریں گے۔ کرنا کیا ہے۔ بانٹ دیں گے اللہ کے نام پر اللہ کے بندے بہت سارے ہیں۔ دعائیں دیں گئے ہمیں۔ ہاں تو جو اللہ کے نام کا حصہ ہوتا ہے، وہ تو بانٹ دیتے ہیں ۔ اپنا حصہ تو خود کھا ئیں گے نا ، وہ تو نہیں بانٹ سکتے ، اب ویسے بھی قربانی تین دن تک ہوتی ہے۔ ہم کل قربانی کریں گے۔ بے شک قربانی تین دن تک ہوتی ہے مگر جو مزہ ، خوشی اور ثواب پہلے دن ہے۔ وہ دوسرے دن نہیں۔ کہ تو تم ٹھیک رہا ہے مگر یار ! ساری پریشانی بجلی کی ہے اگر بجلی نہ آئی تو بہت سارا گوشت خراب ہو جائے گا اور تجھے کیا جلدی پڑی ہے کل کریں گے سب مل کر قربانی تو بھی کل کرنا ۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ مجھے اپنے اللہ پر
توکل اور پورا یقین ہے۔ آجائے گی لائٹ ۔ اور اگر نہ بھی آئی تو میں سارا گوشت بانٹ دوں گا قربانی آج ہی کروں گا۔ میں نے اپنی پینتالیس سالہ زندگی میں اپنے باپ کو ہمیشہ پہلے دن قربانی کرتے دیکھا ہے اور ان کے بعد میں نے بھی ہمیشہ پہلے ہی دن قربانی کی ہے۔ ویسے بھی جن عظیم پیغمبروں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سنت میں ہم قربانی کرتے ہیں، انہوں نے آج کے دن قربانی کی تھی۔ آج کے دن کا جو ثواب ہے وہ دوسرے دن سے بہت زیادہ ہے۔ فردوس کی بات پر وہ لوگ چپ ہو گئے۔ چھوڑیں بھائی ان کو۔ آج ان کی بیویوں کی طرف سے اجازت نہیں ہے قربانی کرنے کی۔ مزمل مسکراتے ہوئے بولا۔ بالکل ٹھیک اندازہ لگایا ہے اس نے ہمیں گھر سے اجازت نہیں ملی۔ قربانی کرنے کی تو کیسے کر سکتے ہیں۔ عمران منہ بنا کر بولا۔ چلو ، جیسے تمہاری مرضی۔ میں تو چلا قربانی کرنے۔ فردوس نے کہا اور مزمل کے ساتھ گھر کی طرف چل پڑا۔
☆☆☆

اماں ! تین بڑے شاپروں میں ذرا اچھا صاف ستھرا گوشت ڈال دیں۔ فردوس تھکا تھکا سا خون سے بھرے کپڑوں میں زمین پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ کیوں بیٹا ! کس کو دینا ہے ؟ اماں نے حیرت سے پوچھا۔ وہ عمران اور فقیرعلی لوگوں نے قربانی نہیں کی ہے آج۔ ان کے لیے لے کر جا رہا ہوں۔ پھر خود ہی آگے بڑھ کر تین شاپروں میں گوشت ڈالا اور اٹھا کر گھر سے باہر آ گیا۔ ان کے دروازے کے پاس جا کر اس نے تینوں کو آواز لگائی۔ وہ تینوں جلدی سے باہر آئے جہاں بکھرے بالوں اور خون سے بھرے کپڑوں میں ملبوس فردوس کھڑا تھا۔ ہاتھ میں گوشت کے شاپر تھے۔ یہ لو، گوشت لایا ہوں تمہارے لیے۔ گوشت پکا کر کھاؤ۔ کیا یاد کرو گے تم لوگ بھی۔ یار ! ہم تو تیرا نام تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھیں گے۔ عمران نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے شاپر لیتے ہوئے کہا۔ قسم سے یارا ابھی تیری بھابھی سے کہہ رہا تھا کہ سادے چاول پکا لیتا مگر دال نہ پکانا۔ عید کے دن دال حلق سے نیچے نہیں اترے گی ۔ فقیر علی بھی ممنونیت سے بولا ۔ مان گئے تجھے، دوست ہو تو تیرے جیسا۔ بہت بہت شکریہ آپ کا فردوس بھائی ! امیر علی نے کہا اور شاپر لے کر گھر کے اندر چلا گیا۔ میری والی بھی ابھی بھنڈیاں دھو رہی تھی او ارسلان ادھر آ عمران نے بیٹے کو آواز دی اور گوشت کا شاپر اسے پکڑایا۔ امی سے کہو، ابو کہہ رہے ہیں اچھی سی کڑاہی بنائیں ۔ اتنے میں ایک شور بلند ہوا۔ بجلی آگئی۔ بجلی آ گئی۔ سارے گھر میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ بچے خوشی سے ناچنے لگے۔ جہاں فقیر علی اور عمران نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا، وہیں فردوس نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا اور بے اختیار کہا۔ یا الله تیرا شکر ہے۔ مان گئے یار تیرے کو تو کوئی بزرگ ہے یا پھر ولی اللہ فقیر علی حیرت سے نکلتے ہوئے بولا۔ نہ میں کوئی بزرگ ہوں نہ ولی اللہ ۔ بس اللہ پر توکل اور یقین ہو تو اللہ اپنے بندوں کی ایسے ہی مدد کرتا ہے۔ فردوس کی آواز میں تشکر ہی تشکر تھا۔ اب کیا کرو گے تم لوگ ؟ اس نے پوچھا کیا مطلب؟ کیا کریں گے۔ بجلی آگئی ہے تو قربانی کریں گے اور آج ہی کریں گے۔ چلو ٹھیک ہے، اب تم لوگ قصائی بنو ۔ قربانی کرو۔ میں تو چلا جا کر نہا دھو کر نئے کپڑے پہن کر میں بھی بابو صاحب بن جاؤں۔ او تو کدھر چلا ۔ ادھر آہمارے ساتھ ۔ قربانی کر مل کر میں کیوں تمہارے ساتھ قربانی کرواؤں ۔ خود کرو اور یہاں میرے لیے ایک کرسی رکھوا دینا واپس آکر میں یہاں بیٹھ کر تمھیں دیکھوں گا اور تم کام کرنا۔ میں جا کر تیار ہو کر اپنی جنت سے عید ملوں۔ ابھی تک میں اس سے عید بھی نہیں ملا۔ او نہیں نہیں جاتی تیری جنت مل لینا عید اس سے۔ ویسے بھی جنت اور فردوس کا ساتھ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ تو ادھر آ ۔ ہمارے ساتھ کام کروا۔ اوپکڑواسے ۔ بھاگنے نہ پائے۔ فقیر علی تیزی سے بولا۔ عمران اس کے پیچھے بھاگا۔ فردوس نے ٹاٹا۔ ہائے ہائے کہا اور اپنے گھر کی طرف دوڑ لگادی۔

Latest Posts

Related POSTS