Friday, March 21, 2025

Barish Kay Us Par

کن من، کن من برستی بوندیں اسے اچھی لگتی تھیں مگر، موسلادھار بارش اسے عجیب سی بے چینی میں مبتلا کر دیتی تھی۔ وہ ایک توانا مرد تھا۔ باہمت اور جوان، اپنے حوصلوں سے پہاڑ کو مٹی میں بدل دینے والا۔ وہ آسمان سے برستے پانی سے ڈرتا نہیں تھا مگر اسے برستا دیکھ کر چونک پڑتا تھا۔ جیسے کچھ یاد کرنے کی کوشش کرتا ہو، مگر کیا؟ یہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ ایک پردہ حائل تھا۔ کسی ہونی اور انہونی کے درمیان- مگربارش دیکھ کر مہک ہمیشہ مچل جاتی تھی۔ وہ بارش میں بھیگنے کو ہر وقت تیار رہتی اور اس کی پوری کوشش ہوتی کہ حسن کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لے۔ مگر حسن ہاتھ اٹھا کر صاف منع کر دیتا۔ تمہیں بارش میں بھیگنا ہے تو بھیگو مگر مجھ سے مت کہو مجھے بہت الجھن ہوتی ہے۔ مہک یہ سن کر کھلکھلا کر ہنس پڑتی۔ آپ کے نخرے تو لڑکیوں کی طرح کے ہیں۔ نہیں آنا تو نہ سہی میں ہما اور ارم کو اپنے ساتھ لے جاتی ہوں۔ مہک نے اپنی دونوں چھوٹی نندوں کا نام لیا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ حسن نے سرجھٹکا اور لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔ کھڑکی پر برستی بوندوں کی آواز اس کی خاموشی میں خلل ڈال رہی تھی۔ اسے لگا جیسے وہ مسلسل دستک دے رہی ہو۔ اسے پکار رہی ہو۔ کچھ دیر تک وہ کوشش کرتا رہا کہ اپنے کام پر توجہ مرکوز کر سکے مگر پھر تنگ آکر اپنی جگہ سے اٹھا اور کھڑکی کھول کر نیچے صحن میں دیکھنے لگا۔ آج بھی تیز ہوا کے ساتھ پانی بہت تیزی سے برس رہا تھا۔ صحن میں مہک ہما اور ارم نے شور ڈالا ہوا تھا۔ اماں اور ابا اندر سے انہیں مسلسل پکار رہے تھے۔ مگروہ کچھ بھی نہیں سن رہی تھیں۔ حسن کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کا چھوٹا سا گھر محبت اور امن کا گہوارہ تھا۔ جہاں تین سال پہلے مہک کے آنے سے مزید رنگ بھر گئے تھے مگریہ رنگ ادھورے تھے ان کی ذات کی طرح- مہک کے والد اور ابا بہت قریبی دوست تھے۔ مہک کی ماں تو اس کے بچپن میں ہی وفات پاگئی تھی۔ اس لیے مہک نے اپنے والد کے علاوہ کوئی اور رشتہ نہیں دیکھا تھا۔ مہک حسن کے والدین کی پسند تھی۔ شوخ و چنچل ، زندگی سے بھر پور شادی کے بعد اسے گھر کے سب لوگوں سے اتنا پیار ملا کہ وہ اپنی ہر کمی بھول گئی۔ اس نے اپنی خوش اخلاقی سے سب گھر والوں کے دل موہ لیے تھے۔ حسن بہت خوش اور مطمئن تھا مگر شاید رب کو ان کی آزمائش منظور تھی۔ مہک نے ہر علاج سے ناکام ہونے کے بعد حسن کو دوسری شادی کرنے کی بخوشی اجازت دے دی تھی۔ اس کے باپ کا کچھ عرصے پہلے انتقال ہو گیا تھا۔ اب یہ گھر اور اس کے لوگ ہی اس کا سب کچھ تھے۔ حسن نے کبھی دوسری شادی کا ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا، مگر مہک کا دل جانتا تھا کہ ایسا ایک دن ضرور ہو گا۔ وہ ان ہی سوچوں میں گم تھا جب بادل کی گرج چمک سے ساری فضا گونج اٹھی۔ کالے بادلوں کی وجہ سے دن میں بھی رات کا سماں بندھ گیا تھا۔ اسی وقت بجلی زور سے کڑکی۔ ساتھ ہی تینوں نے چیخ ماری اور اندر کی طرف بھاگ گئیں۔ حسن کے ذہن میں ایک کوندا سا لپکا تھا۔ آسمان سے برستا موسلادھار پانی اور پانی کی اوٹ سے جھانکتے دو سائے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے لاشعور کے پردے کو چاک کرتا کمرے کا دروازہ کھول کر مہک اندر داخل ہوئی۔ توبہ! اتنے زور سے بجلی چمکی کہ ہماری تو جان ہی نکل گئی۔ بس اللہ رحم کرے۔ مہک نے الماری سے اپنا سوٹ نکالا اور واش روم کی طرف بڑھ گئی۔ جبکہ حسن پھر پنڈولم کی طرح ہونی اور انہونی کے درمیان جھولتا رہ گیا۔ اس نے گہری سانس لے کر دوبارہ کھڑکی سے باہر جھانکا بارش کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ اب ہلکی پھوار جاری تھی۔ حسن نے اکتا کر کھڑکی بند کردی۔ حالانکہ اسے کن من اچھی لگتی تھی، مگر کبھی کبھی اپنی من پسند چیزیں بھی دل کو نہیں بھاتیں۔ پتا نہیں یہ دل کس گورکھ دھندے کا نام ہے۔ جو کبھی کسی حال میں بھی خوش نہیں ہوتا- حسن نے لیب ٹاپ کی چہکتی اسکرین کو دیکھ کر سوچا-

نویدہ خالہ کے گھر سے کارڈ آیا ہے۔ اس کے پوتے کی شادی ہے۔ حسن شام کی چائے اماں اور ابا کے ساتھ بیٹھ کرپی رہا تھا۔ جب اماں نے ایک کارڈ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ اس وقت مہک بھی وہاں آ کر بیٹھ گئی۔ جبکہ ہما اور ارم اکیڈمی گئی ہوئی تھیں۔ ہما ایف ایس سی کی طالبہ تھی جبکہ ارم بی ایس سی آنرز کی طالبہ تھی۔ شادی تو اگلے ہفتے ہے۔ حسن نے کارڈ دیکھ کرکہا- ہاں آج نویدہ خالہ کا فون بھی آیا تھا۔ بہت اصرار کر رہی تھیں کہ ہم لوگ شادی میں ضرور شرکت کریں۔ میں نے تو اپنی طبیعت کی وجہ سے معذرت کرلی ہے۔ ایسا کرنا تم اور مہک چلے جانا۔ اچھا ہے اسی بہانے مہک ہمارا گاؤں بھی دیکھ لے گی اور بہت سے رشتے داروں سے بھی مل لے گی۔ اماں نے تفصیل سے کہا تو حسن سوچ میں پڑ گیا۔ مگر اماں مجھے گاؤں گئے ہوئے کافی سال ہو گئے ہیں۔ میں تو کسی کو جانتا بھی نہیں ہوں اور نہ ٹھیک سے کوئی یاد ہے مجھے۔ میں وہاں جاکر کیا کروں گا؟ حسن نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا۔ ارے بیٹا! پریشان ہونے والی کیا بات ہے۔ مانا کہ ہمارے زیادہ تر قریبی رشتے دار شہر میں سیٹ ہو گئے ہیں، مگر ابھی بھی بہت سے لوگ ہیں وہاں۔ تم فکرمت کرو۔ یہاں سے بھی کافی لوگ جائیں گے۔ وہ تمہاری رہنمائی کریں گے- اب کی بار ابا نے بارعب انداز میں کہا تو حسن سر ہلا کر رہ گیا۔ اماں اور ابا بڑھتی عمر کے ساتھ لگی کئی بیماریوں کی وجہ سے بہت کم اتے جاتے تھے- اس لئے حسن کو خوش اسلوبی سے یہ ذمہ داری نبھانی پڑتی تھی۔ اپ تو اس کے ساتھ ساتھ مہک پر بھی یہ ذمہ داری لاگو ہو گئی تھی۔ میں نے کبھی گاؤں نہیں دیکھا۔ سچ میں بہت مزا آئے گا وہاں مہک نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا تو اماں اور ابا نے مسکرا کر تائید کی اور اسے گاؤں کے قصے سنانے لگے۔ حسن کا بچپن وہاں گزرا تھا۔ اماں آپا کی زبانی اپنے بچپن کے قصے سنتا ہوا وہ بھی زیر لب مسکرا رہا تھا۔ اور ہاں حسن ! اپنی رحمت بوا سے ضرور ملنے جانا۔ وہ تم سے بہت پیار کرتی تھیں۔ مہک کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گی۔ تمہیں ایک مزے کی بات بتاؤں مہک حسن جب دس سال کا تھا تو رحمت بوا کی اکلوتی بیٹی ریشماں سے شادی کرنے کا خواہش مند تھا۔ اماں نے ہنستے ہوئے کہا تو مہک حیرت سے آنکھیں پھاڑ کے اسے دیکھنے لگی۔ سچ میں اماں! مہک نے پوچھا تو ابا بھی ہنس پڑے۔ تو اور کیا۔۔۔ وہ اس سے پانچ سال بڑی تھی۔ حسن کے بڑے تایا کے بیٹے انور کی منگ تھی۔ اس کی منگنی کرنے ہم گاؤں گئے تھے۔ جب یہ ریشماں کو دیکھ کر شادی کی ضد کر بیٹھا تھا اور بعد میں تبھی کتنے سال ہی سب اس کو بہت چھیڑتے تھے۔ اماں کے کہنے پر سب ہنس پڑے۔ اماں ! آپ بھی نا۔۔ کیا کیا یاد رکھا ہوا ہے۔حسن جھینپ کر رہ گیا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ جبکہ وہ سب مزے سے اس واقعے کو دہرانے لگے۔

افوہ، اماں مجھے یہاں کیوں لے کر آئی ہیں۔ دس سالہ حسن نے گاؤں کی ٹوٹی پھوٹی گلیوں میں چلتے ہوئے چڑ کر کہا تھا۔ وہ سب لوگ تیار ہو کر پیدل ہی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ جو کہ قریب کے چند گھر چھوڑ کر ہی تھی۔ ارے بھئی! آج تمہارے انور بھائی کی منگنی ہے۔ اس لیے ہم لڑکی والوں کے گھر جارہے ہیں۔ آجا میرا بیٹا! تھک گیا ہے تو میں گود میں اٹھا لیتا ہوں۔ تایا ابو نے کہا تو ابا فورا بولے۔ ارے نہیں بھائی! بچہ ہے نا اس لیے گھبرا گیا ہے۔ میں دیکھ لیتا ہوں۔ ابا کے کہنے پر تایا ابو مطمئن ہو کر آگے بڑھ گئے۔ وہ تقریبا بیس افراد پر مشتمل چھوٹا سا قافلہ تھا۔ جو رحمت بوا کے رنگ برنگی جھنڈیوں اور چھوٹے چھوٹے برقی قمقموں سے سجے گھر کے صحن میں پہنچ کر رکا تھا۔ سب ایک دوسرے سے بہت تپاک سے مل رہے تھے۔ جانتے تو یہ سب ایک دوسرے کو کئی سالوں سے تھے۔ بس کچھ عرصہ پہلے ہی تایا ابو کے ساتھ ساتھ حسن کے والد نے شہر کی طرف کوچ کیا تھا، مگر یہاں سے جاتے ہوئے وہ رحمت بوا سے ریشماں کا ہاتھ مانگ گئے تھے۔ اب انور کی نوکری لگتے ہی وہ منگنی کرنے چلے آئے تھے۔ انور کو کویت میں بہت اچھی نوکری مل گئی تھی۔ بیس سالہ انور نے جب پہلی بار ریشماں کو دیکھا تھا تو اپنا دل ہار بیٹھا تھا۔ ریشماں تھی ہی ایسی۔ حسن اور نزاکت کا مجموعہ اس کے حسن کی وجہ سے بہت سے لوگ اس کے رشتے کے طلب گار تھے مگر رحمت بوا نے انور کے لیے ہاں کی تھی۔ رحمت بوا بیوہ عورت تھی۔ جس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ گاؤں میں اس کی بہت عزت تھی۔ سب اسے رحمت بوا کے نام سے جانتے اور پہچانتے تھے۔ رحمت بوا کے دونوں بیٹے شادی شدہ اور بچوں والے تھے۔ اب صرف ریشماں کی ذمہ داری اس کی بوڑھے کندھوں پر تھی۔ آج وہ دن بھی آپہنچا تھا۔ جس کا انتظار اسے ایک مدت سے تھا- چھوٹی سی رسم کے بعد ریشماں کی نازک انگلی میں انور کے نام کی انگوٹھی جگمگانے لگی۔ مبارک سلامت کے شور سے فضا گونج رہی تھی۔ سب خوش تھے۔ ہنس رہے تھے۔ حسن اماں کو ڈھونڈتا ہوا عورتوں والے حصے میں چلا آیا۔ جہاں سب گھونگھٹ میں سر جھکائے بیٹھی ریشماں کو مٹھائی کھلا رہے تھے۔ حسن نے بھی ضد کی۔ میں بھی دلہن کو مٹھائی کھلاؤں گا۔ سب ہنس پڑے اور اسے آگے کیا۔ پہلے دلہن کا منہ تو دکھاؤ۔ حسن نے کہا تو ہر طرف سے قہقہ ابل پڑا- بھئی چھوٹا سا ہے مگر ہے بہت تیز، کس نے پٹی پڑھائی ہے تمھیں- ریشماں کی کسی سہیلی نے ہنس کر کہا۔ جی نہیں۔ مجھے دلہن کو دیکھنا ہے بس۔ حسن کے ضد کرنے پر رحمت بوا نے آگے بڑھ کر تھوڑا سا دوپٹا پیچھے کیا اور کہا۔ بچہ ضد کر رہا ہے تو دکھا دو چہرہ ویسے بھی یہاں کون سے مرد ہیں ۔ حسن نے خوشی سے سر جھکائے بیٹھی ریشماں کو دیکھا۔ اسی وقت ریشماں نے بھی سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ ریشماں کا چہرہ خوشی سے سرخ ہورہا تھا۔ بڑی بڑی آنکھوں میں بے تحاشا چمک تھی اور جب وہ مسکرا رہی تھی تو اس کے سفید چمکتے دانت صاف نظر آرہے تھے۔ حسن مٹھائی کھلانے کے بجائے کچھ سوچتا رہا۔ اماں ! کیا دلہن سچ میں اتنی پیاری ہوتی ہے؟ مجھے بھی لینی ہے دولہن۔ حسن کی معصوم فرمائش پر ساری محفل کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ پگلا کہیں کا۔ چل ادھر آ۔ اماں نے ہاتھ پکڑ کر اسے وہاں سے اٹھایا، مگر حسن اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے کافی ضدی تھا۔ سارے راستے یہ ہی بات کہتا رہا، جو آہستہ آہستہ سب میں پھیل گئی۔ سب اسے بچے کی معصوم ضد سمجھتے رہے اور بنستے رہے۔ جبکہ حسن ایک کونے میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ میں نے ایسا کیا کہہ دیا کہ کوئی میری بات کو سنجیدہ ہی نہیں لے رہا۔ انور اور ریشماں کی شادی اگلے سال ہونا قرار پائی۔ ان دنوں انور کوئی نئی نوکری ملی تھی۔ سب کی خواہش تھی کر وہ تھوڑا سیٹ ہو جاتا تب ہی اس کی شادی کرتے- منگنی کے بعد باقی رشتے دار تو چلے کے مگر تایا ابو اور ابا زمین کی کچھ قانونی کارروائی کی وجہ سے وہیں رک گئے۔ ان کا قیام اپنے چچازاد بھائی کے گھر پر تھا۔ حسن تو پہلے ایک دن بھی گاؤں رہنے پر تیار نہیں تھا۔ اب یہاں سے جانے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ وہ اور انور بھائی اکثر گھر سے نکل جاتے اور کسی نہ کسی بہانے در صنم پر حاضری لگانے پہنچ جاتے۔ انور خود تو پیچھے رہتا مگر حسن کو ریشماں کے پاس بھیج دیتا کبھی کوئی رقعہ لکھ کر اور کبھی کوئی زبانی پیغام بھیج دیتا۔ حسن کو اکثر انور کے پیغام بھول جاتے اور وہ خود مزے لے لے کر ریشماں سے باتیں کرتا رہتا اور باہر کسی درخت کی اوٹ میں کھڑا انور اس کا انتظار کرتا رہتا۔ کبھی انور حسن سے کہتا کہ ریشماں کو لے کر ندی پر آجائے۔ حسن ہاں میں سر ہلا دیتا، مگر ریشماں کو لے کرندی پر نہیں آتا تھا۔ اسی طرح اگر انور کہتا کہ اسے کسی بہانے چھت پر لے آؤ۔ تاکہ میں دیکھ ہی سکوں تو حسن اس بات پر بھی عمل نہیں کرتا تھا۔ وہ ریشماں کے پاس بیٹھ کر خود ہی باتیں کرتا رہتا۔ ریشماں اس سے باتیں کرتی اور اس کی باتوں پر ہنستی تھی۔ اور یوں ہی ایک دن ان کی واپسی کا دن بھی آگیا۔ حسن بہت بوجھل دل کے ساتھ وہاں سے آیا۔ انور کا بھی منہ لٹکا ہوا تھا۔ شہر آکر کچھ دن تو اس کا دل نہیں لگا مگر پھر زندگی معمول پر آنے لگی۔ انور پردیس چلا گیا اور حسن ابو یا تائی امی کے ساتھ اکثر گاؤں چلا جاتا۔ وجہ صرف ایک ہی تھی ریشماں، ابا کا گاؤں کا چکر بہت کم لگاتا تھا مگر تایا ابو اور تائی امی نئی رشتے داری کی وجہ سے بھی گاؤں آتے جاتے رہتے تھے۔ جس کی وجہ سے حسن کو بھی ایک راستہ مل گیا تھا۔

یہ کیا بات ہوئی بہن میری تو خواہش تھی کہ جلد از جلد اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کر دوں مگر آپ کہہ رہی ہیں کہ ابھی انور کو دو سال اور لگیں گے- پہلے ہی ایک سال کا کہہ کر اتنا وقت نکال دیا ہے۔ تین سال ہوگئے ہیں ان دونوں کی منگنی ہوئے۔ رحمت بوا نے تائی امی کی بات سن کر پریشانی سے کہا تھا۔ پتا نہیں جواب میں تائی امی نے کیا کہا۔ حسن وہاں سے اٹھ کر بھاگتا ہوا ریشماں کے پاس گیا۔ جو کوئی کتاب کھولے گم سم سی بیٹھی ہوئی تھی۔ جیسے جیسے انور کے پاکستان آنے کے چانس کم ہونے لگے تھے ویسے ویسے ریشماں زیادہ تر گم سم رہنے لگی تھی۔ حسن کو دیکھ کر چونکی اور مسکرا کر اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ انور بھائی اس سال بھی پاکستان نہیں آرہے۔ بس دیکھ لیں ! آپ کی شادی مجھ سے ہی ہوگی۔ حسن کے کہنے پر ریشماں نے ہلکی سے چپت اس کے سر پر لگائی۔ بری بات ایسے نہیں کہتے۔ بھابھی کہا کرو مجھے، ریشماں نے ہمیشہ کی طرح اسے سمجھایا۔ کوئی نہیں۔ بھابھی کیوں بولوں؟ حسن نے ضدی لہجے میں کہا۔ ریشماں گہری سانس لے کر رہ گئی۔ اب تم بڑے ہو رہے ہو حسن، اس سال چودہ کے ہو جاؤ گے۔ اچھا نہیں لگتا کہ تم میرا نام لو۔ ریشماں نے سنجیدگی سے کہا تو حسن منہ بنا کر رہ گیا۔ مگر مجھے ایسے ہی اچھا لگتا ہے۔ حسن کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ گیا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ جبکہ ریشماں گہری سانس لے کر رہ گئی۔ تائی امی کہاں ہیں ؟ حسن نے اکیلی بیٹھی ہوئی رحمت بوا کے پاس آ کر پوچھا۔ تو انہوں نے سامنے بنے غسل خانے کی طرف اشارہ کیا۔ وضو کرنے گئی ہیں۔ رحمت بوا کا لہجہ اور آنکھیں بجھی ہوئی تھیں۔ رحمت بوا دیکھ لیں، میں کتنا بڑا ہو گیا ہوں۔ ریشماں سے بھی لمبا۔ آپ میری شادی کردیں ریشماں سے۔ آپ کی پریشانی ختم ہو جائے گی۔ وعدہ میں ریشماں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا ۔ حسن نے ایسے بھولے پن سے کہا کہ رحمت بوا کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ بری بات ہے بیٹا ! ریشماں تم سے عمر میں بڑی ہے۔ اس کا نام مت لیا کرو۔ بھا بھی یا باجی کہہ لیا کرو۔ تم یہاں بیٹھو۔ میں بھی نماز پڑھ لوں۔ وقت نکلا جا رہا ہے۔ رحمت بوا نے نرمی سے اسے سمجھایا اور وہاں سے اٹھ کر چلی گئیں۔ حسن خاموشی سے انہیں جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ پھر کتنے ہی سال گزر گئے۔ تعلیمی مصروفیات کے بڑھتے ہی اس کے گاؤں کے چکر لگنا کم سے کم ہوتے گئے۔ تایا ابو اور تائی امی انور بھائی کے پاکستان نہ آنے کی وجہ سے شرمندگی کے مارے گاؤں نہیں جاتے تھے۔ رحمت بوا تک بھی خبر پہنچ گئی تھی کہ انور نے کویت میں کسی مال دار آدمی کی اکلوتی بیٹی کے ساتھ شادی کرلی ہے، اسی لیے وہ پاکستان نہیں آرہا تھا۔ مگر جو بھی تھا اسے ایک بار گھر میں بتانا چاہیے تھا۔ اس کی وجہ سے رحمت بوا انتظار کی سولی پر لٹکی ہوئی تھیں اور تایا ابو اور تائی امی شرمندگی کے مارے گاؤں کا رخ نہیں کرتے تھے۔ تعلقات پر وقت نے اچھی خاصی گرد ڈال دی تھی۔ پھر بڑھتی مصروفیات کے دوران آپس میں ملنا ملانا بھی کم سے کم ہو تا چلا گیا۔ ابا اور حسن ایک بار کسی قریبی رشتے دار کی وفات پر گاؤں گئے تھے۔ تب حسن ایف ایس سی کا امتحان دے کر فارغ ہوا تھا۔ اس کے بعد پھر کبھی اس کا وہاں جانا نہیں ہوا تھا- اس دوران انور بھائی پاکستان آئے تھے اچانک سب حیران رہ گئے تھے۔ سنا ہے کہ وہ سب گاؤں بھی گئے تھے اور بار بار گئے، معافی مانگی۔ تلافی کا یقین دلایا مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ ان کے انتظار میں کئی سال سے بیٹھی ریشماں نے شادی سے انکار کر دیا تھا۔ اگر انکار ہی کرنا تھا تو اتنے سال تک انتظار کیوں کیا؟ سب کے ہونٹوں پر ان گنت سوال تھے مگر سامنے والے کی ایک چپ سب پر بھاری تھی۔ ریشماں مان کیوں نہیں رہا تھی- سب کی منتیں کرنے کے باوجود وہ اتنی پتھر دل تو نہیں تھی۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ وہ چٹان کی طرح اپنی بات پر اڑ گئی تھی۔ جب دیکھا کہ وہ کسی طرح بھی نہیں مان رہی تو انور نے اپنے والدین کی مرضی اور پسند سے ایک پکی عمر کی لڑکی کے ساتھ شادی کرلی تھی۔ اسے لے کر واپس چلا گیا اور کچھ عرصے کے بعد تایا ابو کی ساری فیملی وہاں سیٹ ہو گئی۔ اب ان کا پاکستان آنا بہت کم ہو تا تھا- حسن کو یاد تھا کہ ایک بار تایا ابو نے ابا کو باتوں ہاتوں میں بتایا تھا کہ انور نے جس لڑکی سے وہاں شادی کی تھی، اس نے کچھ عرصے پہلے ہی انور سے طلاق مانگ لی تھی۔ جس کے بعد اس نے فورا پاکستان کا رخ کیا تھا۔ یہ تو شکر تھا کہ اس دوران ان کے یہاں اولاد نہیں ہوئی تھی، نہیں تو ان کی کسٹڈی کے لیے بھی مزید کئی سال انور کو کیس لڑنا پڑتا۔ وقت تیزی سے گزرنے لگا۔ ماضی کی باتوں پر حال کی گرد پڑ گئی تھی۔ بہت سی باتیں اور تعلقات صرف یادوں اور قصوں میں رہ گئے تھے۔ شہر کی تیز رفتار زندگی نے گاؤں سے جڑے ہر رشتے اور تعلق پر لا تعلقی کی چادر ڈال دی تھی اور اب اتنے سال کے بعد حسن ان راستوں پر ایک بار پھر سے سفر کرنے جارہا تھا۔ جہاں کچھ بھی تو باقی نہیں بچا تھا۔ مگر شاید ماضی کی راکھ میں یاد کے کسی لمحے کی کوئی چنگاری آج بھی جلتی اور بجھتی تھی۔

گاؤں کی زندگی کتنی مزے کی ہے نا۔ ایک ہفتے کیسے گزرا پتہ ہی نہیں چلا۔ مزے مزے کے کھانے، دیسی گھی میں پکے ہوئے تندور کی تازہ روٹیاں، تازہ مکھن، دودھ کا ذائقہ تو میں کبھی نہیں بھول پاؤں گا۔ ہر طرف سرسبز و شاداب کھیت ، نہر کا ٹھنڈا پانی، سب سے بڑی بات یہاں کے لوگوں کا خلوص اور پیار، کچھ بھی کہیں ابھی بھی شہروں اور گاؤں کی زندگی میں بہت فرق ہے بہت خالص ہے یہاں کی دنیا- مہک حسن کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر پگڈنڈی پر چلتی ہوئی مسلسل بولے جارہی تھی۔ ویسے آپ لوگوں کو گاؤں کی ساری زمین نہیں بیچنی چاہیے تھی۔ کم از کم ایک گھر تو بناتے۔ کبھی کبھار ہی سہی یہاں آکر رہتے ہم لوگ مہک نے افسردگی سے کہا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں بہت چھوٹا تھا۔ اماں بتاتی ہیں کہ ہمارے اچھے مستقبل اور تعلیم کے لیے تایا ابو اور ابا نے اچانک گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پھر ان کی دیکھا دیکھی اور بھی رشتے دار یہاں سے کوچ کر گئے مگر ابھی بھی کچھ خاندان ہیں جو اپنی مٹی سے جڑے ہوئے ہیں۔ دراصل گاؤں سے شہرمیں سیٹ ہونے کے لیے ایک مناسب سرمائے کی ضرورت تھی۔ اس لیے سب کچھ بیچنا پڑا۔ ویسے ایک بات تو بتاؤ، اگر میں گاؤں میں ہی پلا بڑھا ہوتا تو کیا تب بھی تم اس رشتے کے لیے ہامی بھرتیں، کیونکہ شہر کے لوگوں کو مستقل طور پر یہاں آ کر رہنا بہت مشکل لگتا ہے نا۔ حسن کے پوچھنے پر مہک ایک لمحے کے لیے سوچ میں ڈوبی پھر بولی۔ شاید عام حالات میں میرا جواب نفی میں ہوتا مگر میں ایک بات پر یقین رکھتی ہوں کہ آپ کی قسمت آپ کو کہیں بھی لے جاسکتی ہے۔ اس لیے بڑے بول بولنے سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہے۔ مہک کے جواب پر حسن کی آنکھوں میں ستائش کے رنگ ابھرے تھے۔ کل صبح ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔ آپ مجھے رحمت بوا کے گھر تو لے کر نہیں گئے، چلیں ابھی چلتے ہیں۔ مہک کے اچانک یاد دلانے پر حسن چونکا۔ پہلے سوچا کہ اسے ٹال دے مگر پھر اماں کی ہدایت بھی یاد آ گئی- وہ تو ٹھیک ہے مگر یہاں سے تھوڑا دور ہے۔ تم اتنا چل لوگی ؟ حسن نے سوچتی نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ چلنا کیوں؟ وہ سامنے تانگہ دیکھ رہے ہیں نا۔ اس پر جائیں گے۔ اب یہاں آ کر بھی اپنے سب شوق پورے نہ کروں۔ مہک کے کہنے پر حسن اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔ جب تانگہ رحمت بوا کے گھر کے سامنے رکا تو سارا آسمان کالے بادلوں سے چھپ گیا تھا- بھائی! آپ تھوڑی دیر ہمارا انتظار کر سکتے ہیں۔ دراصل موسم کے تیور ٹھیک نہیں ہیں۔ واپسی پر مشکل ہو جائے گی۔ ” حسن کے کہنے پر تانگے والا مان گیا اور ایک درخت کے سائے میں رک کر ان کا انتظار کرنے لگا۔ حسن نے آگے بڑھ کر لوہے کے گیٹ پر زور سے دستک دی اسی وقت کن من بارش شروع ہو گئی تھی۔ کچھ لمحوں کے بعد ایک چاپ ابھری- کون ہے؟ مترنم اور سنجیدہ سی آواز میں پوچھا گیا- میں ہوں۔ حسن کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اپنا تعارف کیسے کروائے۔ اپنا نام بتائیں۔ ایسے کیسے سمجھ میں آئے گا انہیں مہک نے ہلکی آواز میں ٹوکا۔ اس سے پہلے کہ حسن کچھ کہتا۔ جھٹ سے دروازہ کھل گیا۔ سامنے کالی چادر میں ہیرے کی طرح دمکتی ریشماں کھڑی تھی- واو! یہ تو بہت خوب صورت ہیں۔ مہک کے منہ سے بے اختیار نکلا تھا۔ ریشماں کا سوگوار حسن ہر دیکھنے والی آنکھ کو اسیر کر لیتا تھا- حسن اور مہک نے سلام کیا۔ ریشماں نے آہستگی سے جواب دے کر انہیں اندر آنے کا اشارہ کیا۔ وہ دونوں ریشماں کے پیچھے پیچھے بڑے سے صحن سے گزر کر سامنے بنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ ریشماں انہیں وہاں بٹھا کر کمرے سے باہر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد رحمت بوا کمرے میں داخل ہوئیں۔ حسن کو دیکھ کر بہت خوشی کا اظہار کیا۔ مہک کے سر پر پیار کیا اور کچھ نوٹ اس کی مٹھی میں تھما دیے۔ حسن اور مہک نے بہت منع کیا مگر رحمت بوا نے کہا کہ یہ میری طرف سے تحفہ سمجھ کر رکھ لو۔ حسن کو افسوس ہونے لگا کہ جلدی میں ان کے گھر خالی ہاتھ کیوں چلا آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ریشماں گرم چائے کے ساتھ مختلف لوازمات کی ٹرے سجا کر چلی آئی- اس کی کیا ضرورت تھی ، ہم کھانا کھا کر گھر سے نکلے تھے۔ بس اماں نے خاص تاکید کی تھی کہ آپ سے ضرور مل کر آنا ہے۔ اس لیے آج فراغت ملتے ہی چلے آئے۔ مہک نے کہا تو ریشماں نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرف دیکھا تھا۔ شہری لوگ چائے کے زیادہ شوقین ہوتے ہیں۔ اس لیے میں جلدی سے بنا کر لے آئی۔ بہت شکریہ مہک نے متاثر لہجے میں کہا۔ حسن بیٹا بہت چپ چپ ہو۔ ارے بیٹا بھول گئے۔ کبھی تم روز یہاں آنے کے بہانے ڈھونڈتے تھے اور سارا سارا دن یہاں گزار دیتے تھے۔ تمہیں پتا ہے مہک! یہ چھوٹا سا تھا جب، رحمت بوا بھی اماں کی طرح مزے لے لے کر مہک کو اس کے بچپن کا قصہ سنانے لگیں۔ مہک چہرے پر مسکراہٹ سجائے سننے لگی۔ جب تک ریشماں کو دیکھا نہیں تھا۔ مہک کو اس قصے کو سن کر اچھا لگتا تھا مگر آج ریشماں کو دیکھ کر وہ عجیب سی بے چینی کا شکار ہو گئی تھی۔ حسن سے صرف چار پانچ سال ہی تو بڑی ہے، یہ مگر دیکھنے میں مجھ سے بھی چھوٹی لگتی ہے۔ مہک کے دل میں عجیب سے وسوسے سر اٹھانے لگے تھے۔ مجھے خبر ملی تھی کہ تم اپنی بیوی کے ساتھ گاؤں آئے ہوئے ہو۔ اس دن سے ہم دونوں ماں بیٹی تم لوگوں کی آمد کے منتظر تھے۔ رحمت بوا نے سادگی سے کہا۔ مہک نے ایک تیکھی نظر سرجھکائے بیٹھی ریشماں پر ڈالی۔ اسی لیے نام پوچھے بغیر ہی دروازہ کھول دیا تھا محترمہ نے، مہک اپنی سوچ پر غصے سے پہلو بدل کر رہ گئی۔ ریشماں گڑ والے چاول لے کر آؤ۔ حسن کو میرے ہاتھ کے بنے ہوئے چاول بہت پسند تھے۔ آج بھی چاول بناتے ھوۓ تمھیں یاد کر رہی تھی اور تم آ گئے- رحمت بوا کے کہنے پر ریشماں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ واہ کیا ٹیلی پیتھی ہے۔ مہک نے چڑ کر سوچا اور فورا اپنی جگہ سے کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔ نہیں خالہ ہمیں بہت دیر ہو رہی ہے۔ وہ تو اماں نے کہا تھا اس لیے میں حسن کو مجبور کر کے یہاں لے آئی۔ حسن کو تو یاد بھی نہیں تھا آپ سے ملنا۔ مہک کی بات پر رحمت ہوا کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا۔ جبکہ دروازے کی طرف جاتی ریشماں نے مڑ کر دیکھا تھا۔ حسن کی آنکھوں میں حیرت اور چہرے پر واضح شرمندگی تھی۔ اسے مہک سے اس بات کی امید نہیں تھی۔

چلیں حسن ! تانگے والا کب سے انتظار میں کھڑا ہے، مہک نے جلدی سے کہا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ بیٹا ! بارش ہو رہی ہے۔ تھوڑی دیر رک جاتے تو رحمت بوا نے سمجھانا چاہا مگر مہک رکنے پر تیار نہیں تھی اور برستی بارش میں بھاگتی ہوئی تانگے میں جا کر بیٹھ گئی۔ کوچوان نے بڑی شیٹ آگے کر دی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ بارش سے محفوظ رہی تھی۔ ہاں! آپ آرام کریں۔ میں دروازہ بند کرکے آتی ہوں۔ ریشماں نے ماں سے کہا مگر دیکھا حسن کی طرف تھا۔ جیسے اسے جانے کا کہہ رہی ہو۔ حسن نے شرمندگی سے سرجھکا لیا۔ وہ دونوں آگے پیچھے کمرے سے باہر نکلے۔ صحن کے بیچ میں پہنچ کر حسن ریشماں کے پکارنے پر رک گیا اور پلٹ کر دیکھا۔ یہ آپ کی امانت مجھے اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ریشماں نے کالے رنگ کی چادر اس کی طرف بڑھائی ۔ بارش دونوں کو بھگو رہی تھی۔ حسن نے نا سمجھی سے ہاتھ آگے بڑھایا۔ جیسے ہی اس نے چادر تھامی اس کے ذہن میں ایک کوندا سا لپکا۔ اس نے غور سے دیکھا یہ وہی چادر تھی جو کچھ دیر پہلے ریشماں نے اوڑھی ہوئی تھی۔ مگریہ چادر مردانہ تھی اور حسن آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا دروازے کی طرف بڑھا۔ پارش کی بوندیں سرخ اینٹوں کے بنے فرش پر ناچ رہی تھیں۔ ان کو دیکھتے ہوئے وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا آگے بڑھ رہا تھا، چادر اس نے اپنے کندھوں پر ڈال لی تھی۔ ایک عجیب سے احساس نے اسے گھیرا تھا۔ اسی خوشبو سے کسی یاد کا در کھلا تھا۔ اس کے ذہن میں کئی سال پہلے کی ایک ایسی ہی شام برسات کی تیز جھٹڑی میں بھیگتے دو سائے لہرائے تھے وہ چونکا تھا۔ اسے یاد آیا۔ جب آخری بار وہ ابا کے کسی عزیز کی فوتگی پر گاؤں آیا تھا۔ تو رحمت بوا سے ملنے ان کے گھر بھی آیا تھا۔ تب رحمت بوا کے کہنے پر ریشماں کو لینے اس کی سہیلی کے گھر گیا جو دو گلیاں چھوڑ کر تھا۔ اس دن صبح سے موسم کے تیور خطرناک تھے۔ حسن کو یاد آیا کہ واپسی پر بہت تیز بارش شروع ہو گئی تھی۔ جس سے بچنے کے لیے وہ ایک چھپر کے نیچے کھڑے ہو گئے تھے۔ اس دوران ہی ریشماں کا پاؤں پھسلا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ کیچڑ میں گرتی، حسن نے ہاتھ پکڑ کر اسے سنبھال لیا۔ چھوئی موئی سی ریشماں، لمبے چوڑے سے حسن کے سامنے چھپ سی گئی تھی۔ حسن نے بارش کے پانی سے بچنے کے لیے اپنی کالی چادر اس طرح تانی تھی کہ وہ دونوں پانی سے محفوظ رہ سکیں۔ بس کچھ لمحوں کی بات تھی مگر ان لمحوں نے ریشماں کے دل کی دنیا بدل دی تھی۔ واپسی کے سفر میں ریشماں کالی چادر کے حصار میں بہت گم صم سی تھی۔ جبکہ حسن کو گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ ریشماں کی خاموشی پر وہ بہت حیران ہوا تھا، مگر ریشماں نے کہا کہ اسے سردی لگ رہی ہے۔ حسن اسے بحفاظت گھر پہنچا کر وہاں سے چلا گیا تھا۔ مگر شاید کبھی نہ جانے کے لیے۔ حسن فورا پلٹا اور بھاگتے ہوئے شیڈ کے نیچے کھڑی ریشماں کے پاس آیا۔ آپ نے آج تک شادی کیوں نہیں کی؟ کیا انور بھائی کی بے وفائی کی وجہ ہے ؟ ریشماں نے ایک نظر اٹھا کر بارش میں بھیگتے حسن کو دیکھا تھا۔ انور جیسا عام اور کم ظرف مرد میرے جیسی عورت کی وفا اور محبت کے قابل نہ پہلے بھی تھا اور نہ ہی آج ہے۔ تو پھر حسن بضد تھا کچھ جاننے کے لیے۔ تو پھر کیا ۔ ؟ مٹی کی سوندھی خوشبو آرہی ہے نا۔ ریشماں نے فضا میں پھیلی خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتارا تھا۔ حسن نے پاس ہی موجود کیاری میں جمع ہوتے بارش کے پانی کو دیکھا تھا۔ اچھا یہ بتاؤ کہ کچی مٹی ہمیشہ بارش کی پہلی بوندوں سے ہی کیوں مہکتی ہے؟ اس کی سوندھی سوندھی خوشبو میں کیسا فرحت بخش احساس ہوتا ہے، مگر پھر بعد میں آنے والا ساون اسے یا تو کیچڑ بنا دیتا ہے یا پھر مٹی پانی کے سنگ بہتی کہیں دور نکل جاتی ہے ، مگر وہ پہلی بارش کا لمس ، وہ احساس ہمیشہ ہی کیوں محسوس ہوتا ہے۔ ریشماں نے کھوئے کھوئے سے انداز میں کہا تھا- حسن کو اس لمحے وہ بھی پہلی بارش کی طرح لگی تھی۔ خود میں ہی سمٹی ہوئی اپنی خوشبو سے ہی مہکی ہوئی سی۔ اس کے ارتکاز کو ریشماں کے نرم لہجے کی پھوار نے چھوا تھا۔ پھر بہت عرصے کے بعد میں نے جانا تھا کہ محبت کا رشتہ وہ ہوتا ہے جو دل کے تاروں سے بنتا ہے۔ جو دل کے تاروں سے کسی کو جوڑ دیتا ہے بغیر کہے بغیر کچھ سنے- پھر یہ راز مجھ پر منکشف ہوا کہ، عورت اور مٹی ایک ہی جیسی ہیں۔ ایک ہی اجزائے ترکیبی ہوگی ان کی یا شاید عورت کی مٹی زیادہ حساس یا وفا شناس ہوتی ہے۔ اس لیے تو عورت محبت میں پجارن بننے میں لمحے بھر کی دیر نہیں لگاتی۔ کوئی بھی معمولی سانحہ کوئی بھی معمولی سی بات اسے ہمیشہ سے لیے اپنا اسیر بنا لیتی ہے۔ کچی مٹی بھی پہلی بارش کی بوندوں سے مہکتی ہے اور عورت بھی اپنی زندگی میں آنے والے اس پہلے مرد کو کبھی بھی نہیں بھولتی جو اس کے دل کی بنجر زمین پر اپنے لمس سے محبت کے ان گنت پھول کھلا دیتا ہے۔ جس کی ہونے سے اس کے دل کی سوئی زمین کروٹ لے کر بیدار ہو جاتی ہے۔ پھر اس زمین سے اٹھنے والی خوشبو اس عورت کو کسی اور کا نہیں ہونے دیتی ۔ کہ شرک تو محبت میں بھی نہیں ہے نا۔ مجھے آج بھی چھپر تلے، بارش کی اوٹ میں بھیگا وہ لمحہ یاد ہے۔ زندگی میں جب کبھی اس لمحے کے سحر سے نکلی تو ضرور آگے کا بھی سوچوں گی۔ ریشماں کا انداز دو ٹوک تھا۔ حسن تھکے قدموں سے پلٹا۔ اسے وقت کی ستم ظریفی پر افسوس ہو رہا تھا۔ کہاں آ گر اسے آگهی ملی تھی۔ جب پیچھے مڑنا آسان نہیں رہا تھا۔ زمانے کے ڈر، رسم و رواج کے پردے کے پیچھے اس نے اپنی ہر ممکن کوشش کی تھی اسے بھلانے کی بچپن کی ایک معصوم خواہش سمجھ کر سر جھٹکنے کی۔ اس لیے تو خود سے بھاگتا وہ ہونی اور انہونی کے درمیان جھولتا رہتا تھا مگر سچ آج بھی اپنی جگہ مجسم کھڑا تھا۔ حسن نے گھر کی دہلیز پار کی۔ تانگے میں بیٹھی مہک نے ہاتھ ہلا کر اسے متوجہ کیا۔ حسن نے کچھ لمحے خاموشی سے اسے دیکھا اور پھر پلٹ کر شیڈ کے نیچے کھڑی ریشماں کو عورت اپنی زندگی میں آنے والی پہلے لمس کو کبھی نہیں بھولتی۔ تو مرد بھی اپنے دل کی زمین پر برسنے والی پہلی بارش کو کبھی نہیں بھولتا۔ پھر کتنے ہی ساون آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ وہ بارش میں بھیگ رہا تھا مگر اس کا اندر ایک مدت سے سوکھا پڑا تھا۔

وہ اس لمحے جان گیا تھا کہ بارش کے اس پار کھڑی محبت کی خاموش پجارن اس کا عشق تھی۔ وہ اس کے دل کی وہ پہلی بارش تھی جو عشق کا روپ لیے ہر موسم میں دل کی بنجر زمین پر برستی رہتی تھی۔ بارش کی رفتار بہت تیز ہوگئی تھی۔ مہک اسے آوازیں دے رہی تھی۔ حسن نے موسلا دھار بارش کے اس پار سے ریشماں کو بھاگتے ہوئے دروازے کی طرف آتے دیکھا۔ دروازہ بند کرنے کے بجائے وہ اس کے جانے کا انتظار کرنے لگی۔ یہ بھی محبت کے اصولوں میں سے ایک اصول تھا کہ جب تک محبوب نظر آتا رہے اسے دیکھتے رہنا۔ حسن مضبوط قدم اٹھاتا آگے بڑھا۔ ریشماں ڈر کر پیچھے ہوئی۔ مہک نے اپنی جگہ سے اٹھنے کی کوشش کی۔ کچھ ایسا تھا اس لمحے میں جس کا سامنا کرنے سے وہ تینوں ڈر رہے تھے۔ حسن نے اپنے کندھے سے کالی چادر اتار کر ریشماں کے سر پر ڈالی تھی۔ ایک لمحے کے لیے ہر چیز اپنی جگہ ساکت ہو گئی تھی۔ مہک کے شک نے یقین کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔ ریشماں حیرت سے گنگ اپنے منہ پر ہاتھ رکھے کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ پیچھے جھروکے سے جھانکتی رحمت بوا کی آنکھوں میں مدت بعد خوشی کے آنسو چمکے تھے۔ بیٹی محبت کے روگ میں ایک مدت سے جوگن بنی ہوئی تھی وہ جانتی تھیں کہ محبت کے جوگ یا تو مٹی میں لے جاتے ہیں یا مگر مٹی بنا دیتے ہیں۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔ مرد کے دل کی زمین بھی مٹی سے بنی ہوتی ہے۔ جس پر برسنے والی محبت کی پہلی بوندیں اسے بھی ہمیشہ مہکاتی رہتی ہیں۔ بات صرف محسوس کرنے کی ہوتی ہے اور مجھے اعتراف ہے میں نے اسے جاننے میں کچھ دیر کر دی مگر شکر ہے کہ بہت دیر نہیں ہوئی۔ تھوڑا وقت لگے گا، واپسی کے سفر میں مگر وعدہ رہا۔ لوٹوں گا ضرور کیونکہ اب کی بار میں بارش کے اس پار اپنا عشق چھوڑے جارہا ہوں۔ اور عشق تو سوئے دار بھی نچاتا ہے۔ یہ تو پھر دور جاناں تھا۔ حسن نے پہلی بار زندگی سے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا اور پلٹ گیا۔ مہک نے خفگی سے منہ پھیر لیا تھا۔ اس بارش میں اس کے آنسو بھی شامل تھے۔ جن سے حسن انجان نہیں تھا۔ مگر وہ فیصلہ کر چکا تھا اور مرد ایک بار فیصلہ کرلے تو پیچھے نہیں ہوتا۔ اس نے تانگے میں بیٹھی مہک کے نرم ہاتھ تھام کر تسلی دی تھی۔ مہک نے روتے ہوئے اپنا سر اس کے کندھوں پر ٹکا دیا تھا۔ جس ہونی کا خوف اسے پچھلے تین سالہ سے تھا۔ وہ گھڑی آج سامنے آکھڑی ہوئی تھی۔ جس کا سامنا اسے ہر حال میں کرنا ہی تھا۔ بہرحال حسن نے اسے جو عزت اور مان ہمیشہ دیا تھا۔ اسے اس کا پاس بھی رکھنا ہی تھا۔

ریشماں نے تیز بارش کے اس پار اسے جاتے ہوئے دیکھا تھا اور پھر سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ پانی کی چادر اس کی بینائی کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہی تھی، مگر آج وہ بارش سے ناراض نہیں ہوئی تھی۔ یہ بارش ہی تھی جس نے اسے محبت کا پہلا لمس عطا کیا تھا اور یہ بارش ہی ہے جس نے آج کسی کے عشق کا تاج اس کے سر پر سجایا تھا۔ بارش تو رحمت ہوتی ہے اور بھلا ر حمت سے بھی کوئی ناراض ہوتا ہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے دروازہ بند کیا۔ کچے آنگن کے وسط میں سرخ اینٹوں کے بنے فرش پر دونوں ہاتھ پھیلا کر وہ گول گول گھوم رہی تھی۔ آسمان سے برستی بارش زمین کے سب ہی منظروں کو بھگو رہی تھی۔ اور محبت کی بارش دل کی زمین پر برستی خوابوں کی قوس قزح سے سب منظر سجا رہی تھی۔ بارش کے اس پار بھی زندگی بھیگ رہی تھی اور بارش کے اس پار بھی۔

Latest Posts

Related POSTS