نا جانے کیا ہوا ہمارے کچن کو! اس دفعہ جو سودا مہینے سے اوپر چلتا تھا، وہ کافی دن پہلے ہی ختم ہو گیا۔ اقصیٰ نے فکر مند لہجے میں اسد سے کہا۔اسد، جو مہینے کے آخر میں زیادہ بل آنے کی وجہ سے پریشان بیٹھا تھا، اقصیٰ کی بات سن کر سر کو دونوں ہاتھوں میں گرا لیا، گویا مزید پریشانی کا اظہار خاموشی سے کرنے لگا اور ایسے ظاہر کرنے لگا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔یہ میری سمجھ میں نہیں آتا، اسد! ہر پریشانی کا حل خاموشی تو نہیں ہے۔ چلو، بجلی اور پانی کے بل تو آپ کہیں سے مانگ تانگ کے جمع کروا دیں گے، لیکن کچن کا انتظام تو مجھے دیکھنا ہوتا ہے۔ جو آخری سات دن ہیں، وہ کیسے گزریں گے جبکہ گھر میں ایک پیسہ بھی نہیں بچا اور سارا سودا ختم ہو چکا ہے؟ اگر میں آپ سے کچھ لانے کو کہوں تو آپ کہتے ہیں، خرچ تو تمہیں دے دیا تھا!اسد جتنا خاموش طبیعت تھا، اقصیٰ اتنی ہی زیادہ بولنے والی تھی۔ اس نے اسد کی خاموشی کو ایک بھرپور تقریر میں بدل دیا، مگر اسد کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اس کی نظریں ایک ہی نقطے پر جمی رہیں، جیسے وہ کسی گہری سوچ میں گم ہو۔ جب وہ بولا تو بس اتنا کہا:اقصیٰ! ایسا کرتے ہیں کہ اماں کو واپس لے آتے ہیں۔ اماں کے جانے کے بعد ہی ہمارے گھر میں اتنے مسائل ہونے لگے ہیں۔اماں کے آنے یا جانے سے مہنگائی زیادہ یا کم تو نہیں ہوتی! اقصیٰ نے منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے کہا۔لیکن اماں جب تک یہاں تھیں، میں یہی سودا لاتا تھا، اور اماں بچپن میں جانے سے پہلے وہ تھیلا اپنے پاس رکھواتی تھیں، نہ جانے اس پر کیا پڑھ کر پھونکتی تھیں کہ اس میں برکت ہو جاتی تھی!لیکن اماں ہمارے پاس رہیں بھی تو ان کو بس ہر وقت اپنے چھوٹے بیٹے اور بہو کی فکر لگی رہتی ہے۔ اگر غلطی سے بھی ایک مہینے سے اوپر ہمارے پاس رک جائیں تو رونے لگتی ہیں کہ مجھے عابد اور اسما کے پاس چھوڑ آؤ، میرا ان کے بغیر دل نہیں لگتا!ہاں تو تم بھی حد کرتی ہو! اماں اگر تم سے دین کی کوئی دو چار باتیں کر لیں، تو تمہیں اپنے کام یاد آ جاتے ہیں اور تم بہانے ڈھونڈنے لگتی ہو۔ ان کی بتائی ہوئی باتوں میں بھی نقص نکالتی رہتی ہو کہ اماں نے ایسے بتایا ہے جیسے ہم تو دین کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہ ہوں! اسد نے قدرے بلند آواز میں کہا۔ہاں، لیکن وہ بھی تو کبھی کبھی حد کرتی ہیں! اگر دین کی کوئی بات چھیڑ دیں، تو دو دو گھنٹے اسی ایک موضوع پر لگی رہتی ہیں۔ میں کہتی بھی ہوں کہ مجھے اس بارے میں معلوم ہے، مگر وہ پھر بھی اپنی بات پر ڈٹی رہتی ہیں کہ سن لو، کام آئے گا۔ اب میرے بھی تو سو کام ہوتے ہیں! بچے ہیں، ان کے کام کرنے ہوتے ہیں، باہر کے بھی آدھے سے زیادہ کام مجھے کرنے پڑتے ہیں!تو تمہارا کیا خیال ہے کہ اسما بھابھی کو دنیا کا کوئی کام نہیں یا ان کے بچے نہیں ہیں؟ وہ بھی تو اماں کے پاس بیٹھتی ہیں اور انہی باتوں کو کتنی دلچسپی سے سنتی ہیں!ارے، اسما بھابھی کو تو آپ رہنے ہی دیں! وہ تو بہت ہی بورنگ عورت ہیں۔ انہیں تو بس کوئی باتیں کرنے والا مل جائے اور وہ سنتی رہیں! اقصیٰ نے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔اچھا، رہنے دو! تم سے کون جیت سکتا ہے؟ چلو، ایک کپ چائے ہی دے دو، پھر کچھ سوچتا ہوں کہ کیا کرنا ہے۔ بلکہ میں جاتا ہوں، کسی سے کچھ پیسے ادھار مانگتا ہوں، تنخواہ آنے پر واپس کر دوں گا۔ اسد نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔
☆☆☆
دوسرے دن جب اسد آیا تو اماں کو بھی ساتھ لے آیا۔السلام علیکم! اماں کیسی ہیں؟ کتنے دن ہو گئے، آپ نے چکر ہی نہیں لگایا۔ یہاں سے جاتے ہی آپ ہمیں تو بھول جاتی ہیں، اقصیٰ نے ساس کے گلے لگتے ہوئے شکوہ کیا۔نہیں بیٹا! ایسی کوئی بات نہیں، بس اب صحت ٹھیک نہیں رہتی۔ گھٹنوں میں کافی درد رہتا ہے، اس لیے ادھر ادھر جانے سے کتراتی ہوں۔ کیا بات ہے؟ خاموشی بہت ہے، بچے ابھی اسکول سے واپس نہیں آئے؟ اماں نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔دو نہیں، بیس آنے والے ہوں گے۔ اچھا اقصیٰ، کھانا لگا دو، بہت بھوک لگی ہے۔ آج آفس میں بھی کچھ نہیں کھایا۔ میں فریش ہو کر آتا ہوں، اسد نے اٹھتے ہوئے اقصیٰ کو آواز دی۔اقصیٰ نے کھانا لگا دیا۔ رات کی دال سے کھچڑی بنائی تھی اور بچوں کے لیے دو انڈے فرائی کر لیے۔ اسد، اگر بتا دیتے کہ آپ اماں کو بھی ساتھ لا رہے ہیں تو میں کوئی سبزی بھی لا کر بنا لیتی، اقصیٰ نے کھانا ساس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔کوئی بات نہیں، جو ہے، اللہ اس میں برکت ڈالے۔بچے بھی دس منٹ بعد اسکول سے آ گئے۔ دادو کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے، بیگ ایک طرف رکھ کر دادو کے گلے لگ گئے اور ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ گئے۔دادو صدقے جائے، اماں نے بچوں کے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی ہاتھ دھونے کی ہدایت دی۔اٹھو بچوں، ہاتھ دھو کر آؤ اور دعا پڑھ کر کھانا شروع کرو۔میں تو ان کو روز بتاتی ہوں، لیکن بچے ہیں، پھر بھول جاتے ہیں اور یوں ہی کھانے پر بیٹھ جاتے ہیں، اقصیٰ نے ساس کو اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا۔اماں بھی کھانا کھا کر نماز کے لیے اٹھ گئیں۔ اسد اور اقصیٰ بھی تھوڑی دیر آرام کرنے چلے گئے۔ بچوں نے اپنے کارٹون لگا لیے اور دیکھتے دیکھتے سو گئے۔عصر کے وقت جب اماں اور اقصیٰ شام کی چائے اکٹھی پی رہی تھیں تو اقصیٰ نے اماں سے اپنی پریشانی ظاہر کی۔نہ جانے اماں، کیسی بے برکتی ہے گھر میں… اسد کی آمدنی بھی ٹھیک ہے، لیکن پھر بھی مہینے کے آخر میں حالات بہت خراب ہو جاتے ہیں، سمجھ میں نہیں آتا۔ ہر ممکن طریقے سے بجٹ بنا کر دیکھ چکی ہوں، پھر بھی گزارا مشکل ہو جاتا ہے۔اماں نے سکون سے اپنی چائے ختم کی، اقصیٰ کی طرف پہلو بدل کر بیٹھ گئیں اور اپنی بات شروع کی، جو وہ پہلے ہی سوچ کر آئی تھیں کہ آج اقصیٰ کو سمجھاؤں گی، شاید کچھ اثر ہو جائے۔بیٹا، کل عابد کے گھر بھی یہی بات ہو رہی تھی کہ گھر کے حالات کیسے چل رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کیا کروں، جتنا کما کر لاتا ہوں، اس سے زیادہ خرچ ہو جاتا ہے۔بیٹا، ساس بھی ماں کی طرح ہوتی ہے، میں کیوں چاہوں گی کہ میرے بیٹے کے گھر میں کوئی تنگی ہو؟ میں نے جب بھی تمہیں سمجھانے کے لیے دین اور دنیا کی کوئی بات کی، تو تم نے اسے رد کر دیا کہ اماں، ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ حالانکہ نماز اور قرآن پڑھنے سے گھر میں برکت ہوتی ہے۔ راشن بھرتے وقت ذکرِ الٰہی کیا جائے تو جو راشن مہینے کا ہوتا ہے، وہ ڈیڑھ مہینہ چلتا ہے، ان شاء اللہ۔اچھا، تو اماں آپ یہ کرتی تھیں؟ اور واقعی ہمارا راشن کافی وقت نکال لیتا تھا، اقصیٰ نے جلدی سے بات ختم کی۔ابھی میری بات ختم نہیں ہوئی، بیٹا! اماں نے اسے مزید بولنے سے روکتے ہوئے کہا۔اگر تم خود صبح جلدی اٹھو، نماز اور قرآن کو اپنی زندگی میں شامل کر لو، تو تمہاری زندگی میں بھی برکت ہو جائے گی۔ اگر تم رات دیر تک موبائل دیکھو گی اور صبح دیر سے اٹھو گی، تو بچے بھی تمہیں دیکھ کر وہی روٹین اپنا لیں گے۔ صبح جلدی اٹھنے سے ہم کئی پریشانیوں سے محفوظ ہو جاتے ہیں، شیطان ہماری زندگی اور ہمارے دماغ پر حاوی نہیں ہوتا، اماں نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا۔اور اب اسد کو جگاؤ کہ مجھے عابد کے گھر چھوڑ آئے، میں مغرب کی نماز وہاں جا کر پڑھوں گی۔اماں، آپ آج آئی ہیں اور ابھی سے جانے کی باتیں کرنے لگیں؟ بچے بھی ناراض ہوں گے۔ دو تین دن تو رکیں، پھر اسد چھوڑ آئیں گے۔نہیں بیٹا، میرا اسما کے بغیر دل نہیں لگتا، اماں نے اپنے دل کی بات زبان پر لاتے ہوئے کہا، اور اقصیٰ سمجھ گئی کہ اماں کا دل اسما کے بغیر کیوں نہیں لگتا۔