Thursday, October 10, 2024

Bay-Misal Maan

شہلا میری کلاس فیلو تھی۔ ہم دوسری جماعت میں ساتھ پڑھتے تھے۔ وہ غریب ماں باپ کی بیٹی تھی۔ اس کے ابو چھوٹی سی دکان چلاتے تھے۔ یہ دکان انہوں نے اپنے گھر میں بیھٹک میں کھول رکھی تھی۔ وہ بیمار پڑ گئے تو یہ دکان بند ہوگئی۔ بیماری ایک عذاب ہوتی ہے ، یہ غربت سے بھی بڑا عذاب ہے۔ خدا کسی کو بیماری نہ دے۔ باپ کی علالت سے گھر میں فاقے ہونے لگے۔ ان دنوں شہلا کی عمر بمشکل آٹھ برس تھی اور تیسری جماعت میں تھی۔ ہم اکٹھا اسکول آتی جاتی تھیں۔ ایک دن اس نے اچانک اسکول آنا ترک کر دیا، وجہ معلوم کرنے میں امی کے ہمراہ ان کے گھر گئی۔ پتہ چلا کہ اس کی شادی ہورہی ہے۔ امی نے سنا تو دانتوں تلے انگلی دبا لی۔ وہ کہنے لگیں خدا کی پناہ یہ غربت کیسی بری بلا ہے جب بس نہیں چلتا تو معصوم لڑکیاں اس کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں۔ صالح محمد شہلا کے ابو کے کزن کا بیٹا تھا، اس کی چچا کمال دین سے دوستی بھی تھی جس کی وجہ سے خیریت پوچھنے اکثر ان کے پاس آجاتا تھا۔ یہ شخص رحم دل تھا اور اچھے دل کا مالک تھا۔ چچا کمال کی بیماری میں ان کی کافی مدد کی۔ علاج معالجہ بھی کرایا ۔ دور کا رشتہ دار تھا۔ خواتین پردہ نہ کرتی تھیں ۔ شہلا تو کمسن تھی وہ یوں بھی پردہ نہ کرتی اور بے دھڑک سامنے آجاتی۔ اس شخص کی عمر چالیس برس تھی اور کھالوں کا کاروبار تھا جو اچھا جا رہا تھا۔ بیوی فوت ہو چکی تھی۔ ایک بیٹی تھی جو بیاہی جا چکی تھی۔ صالح محمد کی صحت قابل رشک تھی۔ چالیس سال کا ہونے کے باوجود وہ پچیس کا لگتا تھا۔ قد لمبا تھا، شکل صورت بھی اچھی تھی۔ دوسری شادی کیلئے کافی کوشش کی مگر موزوں رشتہ نہ ملا۔ جانے کیسے اس کے دماغ میں یہ بات آ گئی کہ شہلا جیسی کم سن لڑکی اس کیلئے موزوں رہے گی۔ اس کنبے کی غربت پر بھی اس کا دل کڑھ رہا تھا۔ سوچا اگر یہاں رشتہ طے ہو جائے تو معقول مدد بطور داماد کر سکے گا اور یہ لوگ فاقوں سے بچ جائیں گے۔

شہلا کے پانچ بہن بھائی تھے۔ یہ سب سے بڑی بیٹی تھی۔ صالح محمد اپنی ماں کو لے آیا جس نے چچا کمال سے بات کی اور واضح یوں کہہ دیا کہ تمہارے کنبے کو میرے بیٹے جیسے داماد کی سخت ضرورت ہے جو ان سب کو سنبھال لے ورنہ تم خود توٹی بی جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو اور بستر مرگ پر ہو۔ آج ہو کل نہیں ہو گے تمہاری چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کا کیا بنے گا۔ کچھ اس طرح صالح کی ماں نے ہمدردی جتلائی کہ شہلا کے ابورشتے پر راضی ہو گئے۔ ایک لاکھ روپیہ اسی وقت صالح نے چچا کمال کے قدموں میں رکھ دیا، یوں یہ کنبہ مرتے مرتے جی اُٹھا۔ شہلا اتنی معصوم تھی کہ اپنی شادی کے بارے میں گھر والوں کی باتیں سنتی اور اس کی سمجھ میں نہ آتا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں، اسے خبر ہی نہ تھی شادی کیا بلا ہوتی ہے۔ ماں پریشان تھی مگر بیمار شوہر کے فیصلے کے آگے کچھ بول نہ کی۔ اس نے اللہ تعالی پر بھروسہ کر لیا۔ ایک ماہ میں ہی شہلا کو دلہن بنا دیا گیا۔ جب بارات آئی یہ بچی اپنی بارات دیکھنے کے شوق میں خود بھی دروازے کے باہر آگئی تب کسی بزرگ عورت نے اس کا بازو پکڑ کر اسے گھر کے اندر کھینچ لیا۔ وہ ٹک ٹک، بنی سنوری عورتوں کو دیکھتی تھی جو اس کی رخصتی لینے آئی تھیں۔ یہ عجیب شادی تھی۔ میں بھی لڑکیوں کے جھرمٹ میں کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی۔ وہاں نہ سہیلیاں تھیں اور نہ کوئی رسم ہوئی کیونکہ چچا کمال دین تو کھاٹ پر پڑے خون تھوک رہے تھے وہ عجب وحشت زدہ اور پتھرائی آنکھوں سے ہر کسی کو دیکھ رہے تھے۔ بڑا بھائی کوئی نہ تھا کہ بہن کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے رخصت کرتا یا والدین سے اس بے جوڑ رشتے پر احتجاج کرتا۔ قصہ مختصر غربت دور کرنے کی خاطر یہ سودا ہوا ۔ شہلا کو سجی ہوئی کار میں بٹھا دیا گیا۔ ماں اس وقت خاموش تھی لیکن جب کار چلی تو وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی، میں نے کار کی ونڈو کے پاس جاکر دیکھا۔ میری سہیلی سجی ہوئی گڑیا کی طرح خوبصورت لگ رہی تھی۔ وہ حیرت زدہ نگاہوں سے باراتیوں کو دیکھ رہی تھی تب ہی اس کی نظر روتی ہوئی ماں اور بہنوں پر پڑی تو وہ بھی رونے لگی۔ دولہا باپ جیسا شفیق پاس ہی بیٹھا تھا اور اسکے آنسو اپنے رومال سے صاف کر رہا تھا۔ شہلا نے اس وقت گوئٹے کناری سے بھرا ہوا جوڑا پہن رکھا تھا جو سسرالی اسے دلہن کا روپ دینے کو لائے تھے اور اس نے عید کا دن سمجھ کر خوشی خوشی پہن لیا تھا۔

آہستہ آہستہ رینگتی ہوئی کارگلی کا موڑ مڑتے ہی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔ اب خالہ سلیمہ کے دل پر آری چلی اور وہ فرش پر گر پڑیں تب ہی امی نے دوڑ کر ان کو سہارا دیا۔ بازو سے پکڑ کر کمرے میں جا لٹایا۔ کئی دن تک خالہ بستر سے نہ اٹھیں ۔ اماں ہی گھر سے کھانا پکا کر لے جاتیں اور ان سب کو کھلاتیں ذرا حواس میں آئیں تو بتایا کہ صالح میاں ان کو تین لاکھ روپیہ نقد کاروبار کیلئے دے گئے ہیں اور ان کی بیٹی کا حق مہر وہ الگ دیں گے یعنی بیٹی کی شادی کا سوانگ رچا کر انہوں نے اس معصوم کو بیچا تھا کیونکہ تین لاکھ روپیہ اس زمانے میں بہت بڑی رقم ہوتی تھی۔ برات کے ساتھ شہلا کی خالہ گئی تھی۔ اس نے آکر بتایا کہ جب کا رصالح کے گھر پہنچی تو سارے رشتے دار قربانی کے اس بکرے کے استقبال میں لگ گئے وہ کار پر پھول پتیاں نچھاور کر رہے تھے اور پٹاخے چلا رہے تھے۔ مکان کافی بڑا اور کشادہ تھا ، سامنے باغ تھا۔ دولہا دلہن کا کمرہ کمال محنت سے سجایا تھا ۔ بچی پھولوں کی سیج پر بیٹھی ہر ایک کو بھولپن سے دیکھتی تھی۔ تب ہی صالح کی بہن اس کے پاس بیٹھ گئی اور سمجھانے لگی دیکھو یہ کمرہ تمہارا ہے، یہ چیزیں، قالین سنگھار میز سب تمہارے لئے ہیں، کار بھی ہے، جس پر تم روز سیر کرو گی۔ اپنی امی کے پاس جاؤ گی نا۔ ماں کا ذکر آتے ہی شہلا بے چین ہوگئی، وہ بے قرار ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ یا اللہ یہ کیا، ہجوم کے شور میں سمجھ ہی نہ سکی کیا ہو رہا ہے۔ کار میں بیٹھ کر کدھر آگئی ہے۔ چھوٹے بہن بھائی چھوڑ ، بیمارابا سے اوجھل، پیار کرنے والی ماں سے دور سوچیں اس کو پریشان کرنے لگیں۔ وہ ادھر ادھر دیکھتی اپنوں کو ڈھونڈتی یکدم پھولوں کی سیج سے اٹھنے لگی۔ نند نے بازو سے پکڑ کر دوبارہ سیج پر بٹھا دیا اور جٹھانی اسے سر پر دوپٹہ اُڑھاتے ہوئے بولی گھبراؤ نہیں ، رونا نہیں، ہم تمہارے ہیں۔ گھر والوں کو یاد نہیں کرنا ۔ وہ کل آجائیں گے بس آج کا دن نہیں آسکتے۔ وہ پھر نہیں گئی۔ ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔ کمرے کی ہر شے کو گھورنے لگی جب سہیلیوں کے گھر جاتی تھی ان کے گھروں میں اور میرے گھر میں یہ سب چیزیں دیکھتی تھی سوچتی تھی کہ کہاں سے آجاتی ہیں یہ چیزیں، ان کے گھروں میں اور میرے گھر میں کیوں نہیں ، یہ فریج یہ ٹی وی یہ سنگھار میز اور اس میں رکھا ہوا سامان ….. اور اب یہ سب کچھ یہاں موجود تھا، یہ سب کہہ رہے تھے رونا نہیں ، اُداس مت ہونا، یہ سب چیزیں تمہاری ہیں۔

میری ہیں تو پھر میرے ماں باپ کے گھر کیوں نہیں ہیں؟ اگر یہ سب میرے گھر پہنچا دیں تو ہم بھی امیر ہو جائیں۔ تھوڑی دیر وہ بولی مگر جب رات ہو گئی تو گھر والے یاد آگئے۔ یہ ساری چیزیں ہیں مگر ماں باپ تو نہیں ہیں وہ اپنی نند سے پوچھنے لگی گھر کب جائیں گے۔ مجھے اماں کے پاس جانا ہے، ضد کرنے لگی نہیں ابھی چلو، میں یہاں نہیں سوؤں گی ، واپس گھر جاؤں گی- صالح محمد کی بہن کا دل بھر آیا۔ اس نے ننھی منی گڑیا کو بانہوں میں بھر لیا۔ سمجھانے لگی۔ تمہاری شادی ہوگئی ہے۔ اب یہی گھر تمہارا ہے۔ تم اب سسرال میں ہو۔ کل تمہاری امی بہن بھائی آجائیں گے تم سے ملنے، گھبراؤ مت مہمان ابھی تک گھر میں تھے۔ عورتیں دلہن دیکھنے کمرے میں گھسی آرہی تھیں۔ نند تب جلدی سے اس کا گھونگھٹ ڈالنے لگتی اور پرس ہاتھ میں دے کر کان میں کہتی۔ سر جھکا کر بیٹھو معصومیت غضب ڈھا رہی تھی جو عورت دیکھتی دل تھام کر کہتی ہائے اللہ اتنا ظلم- رات کے دس بج گئے شہلا پر تھکن سے غنودگی طاری ہونے لگی تب اسکی نند اور جٹھانی نے عورتوں کو کمرے سے باہر دھکیل دیا اور دولہا اندر آ گیا۔ اس نے آتے ہی دلہن کو خوبصورت زیورات کا سیٹ دیا مگر اب وہ کسی نے کو نہیں دیکھنا چاہتی تھی ، اسے نیند آ رہی تھی۔ بستر پر لیٹتے ہی سو گئی۔ صالح محمد اس سے ایک بات نہ کر سکا ، حالانکہ وہ اس کو سمجھا رہا تھا کہ تم میری ولہن ہو اور میں تمہارا شوہر ہوں۔ اٹھو، دیکھو کتنے خوبصورت زیور تمہارے لئے لایا ہوں، وہ سو چکی تھی۔ سوتی ہوئی بچی پر صالح کو رحم بھی آیا اور پیار بھی، اس نے ماں سے کہا۔ اماں تم اس کے پاس سو رہو، میں بیٹھک میں سو جاتا ہوں۔ اگلے دن اٹھتے ہی اس نے ادھر اُدھر جھانکا۔ پھر ماں کو پکارنے لگی تب ہی ساس نے سمجھایا۔ بیٹی یہ تیرا گھر ہے۔ ماں بھی آتی ہوگی مگر وہ اپنے گھر سے آئے گی تیرے گھر تجھ سے ملنے اور ماں کا گھر تیرا گھر نہیں ہے۔ مجھے کچھ نہیں پتہ، اس نے ساس کا ہاتھ جھٹکا اور پھر ماں کو پکارنے لگی۔ تب نند نے آکر اس کو بہلایا اور ناشتہ اپنے ہاتھ سے کرایا۔ پھر نہلا دھلا کر سجا دیا، دوبارہ دلہن بنا کر بٹھا دیا۔ دوپہر کے بعد ہم تم کو سیر کرانے لے جائیں گے، صالح تم کو بازار لے جائے گا جو شے تمہارا دل چاہے خرید لینا اور پھر کار پر اپنی ماں کے گھر چلی جانا ٹھیک ہے۔ ہاں، اس نے اثبات میں سر ہلا دیا جیسے سب کچھ اس کی سمجھ میں آ گیا ہو۔ ماں اور بہن نے صالح کو سمجھایا کہ یہ بہت کم عمر ہے۔ کچھ دن اس کو بالکل تنگ نہ کرنا بلکہ جو کہے وہی کرنا ہے۔ ہم سب اکٹھے گھومنے پھرنے جائیں گے تا کہ شہلا ہم سے مانوس ہو جائے۔ اب وہ روز شام کو کار پر سیر کرنے جاتے ، شہلا کو چیزیں خرید کر دیتے، تحفے لاتے وہ بچی تھی خوش ہوتی تھی ان باتوں سے۔ انہوں نے اس پر کوئی دباؤ نہ ڈالا۔ رات کو ساس اپنے پاس سلاتی تھی۔ دن کو نندیں ہاتھوں میں ہاتھ لئے رکھتی تھیں۔ یوں رفتہ رفته خوف و اجنبیت دور ہوگئی۔ وہ اس کو ہر دوسرے تیسرے دن میکے بھی لیے جاتے تھے۔ چار پانچ گھنٹے بہن بھائیوں میں رہ کر آتی تو خوش رہتی۔

وقت دھیرے دھیرے آگے سرکنے لگا۔ یہ اچھے لوگ تھے۔ انہوں نے ننھی منی شہلا کو اتنے پیار سے رکھا کہ وہ گھر والوں کو بھول گئی اور اس کو سمجھ میں آتا گیا کہ شوہر اور بیوی میں کیا رشتہ ہوتا ہے اور سسرالی کون لوگ ہوتے ہیں۔ صالح اس کا اتنا خیال رکھتا کہ وہ اس سے پیار کرنے لگی۔ لوگوں نے بہت باتیں کیں، اس ظلم کے بارے میں کانوں کو ہاتھ لگاتے مگر شہلا کے ماں باپ خوش تھے۔ ان کے تمام خدشات مٹ گئے تھے۔ صالح امیر آدمی تھا۔ ان کا خیال تھا اس طرح ان کی بیٹی کی قسمت چمک گئی تھی۔ وہ اپنے سسرال کے ہر فرد کیلئے فرشتہ رحمت بن گیا۔ سسر کا علاج کرایا۔ برادر نسبتی کو دکان کھول کر دی اور سسر کے باقی بچوں کو اسکول میں داخل کرایا۔ اس مردہ کنبے میں اس کے پیسے نے جان ڈال دی تھی۔ یہ عجیب کہانی تھی عمر رسیدہ شوہر کو کم سن بیوی اتنا چاہتی تھی کہ زمانہ حیرت زدہ تھا۔ کوئی شہلا کے خاوند کو عمر رسیدہ کہتا تو یہ اس پر پل پڑتی تھی۔ خدا نے شادی کے چھٹے سال پہلے بچے سے بھی نواز دیا۔ پھر تو اوپر تلے وہ چار بچوں کی ماں بن گئی۔ بچوں کو دادی اور پھوپھی نے پالا کیونکہ وہ بچوں کو اٹھاتی تھی تو ان کی ماں نہیں لگتی تھی۔ میں شہلا سے ملنے گئی تو وہ بہت خوش تھی۔ شوہر بڑی عمر کا تھا مگر وہ اسے بہت چاہتی تھی کیونکہ اس نے شہلا کے گھر والوں کے لئے بہت کچھ کیا تھا۔ انہیں فاقوں اور بیماری سے بچایا تھا، ان کو نئی زندگی دی تھی۔ شہلا اپنے خاوند کا ہر حکم مانتی تھی اور دل و جان سے خدمت کرتی تھی۔ شوہر کے بغیر ایک پل نہیں رہ سکتی تھی۔ میں اسے پھولے نہ سماتے دیکھ کرحیران رہ گئی۔

خوبصورت تو تھی ہی عیش و آرام کی زندگی نے اسے اور حسین بنا دیا تھا۔ چار بچوں کی ماں لگتی نہ تھی۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی ۔ شہلا کی شادی کو بیس برس ہو چکے تھے وہ اٹھائیس برس کی ہوگئی تھی اور اب بھر پور جوان عورت تھی۔ اس پر جوانی کے ساتھ جوبن اور روپ تو اب آیا تھا لیکن اس کا شوہران دنوں کچھ بیمار رہنے لگا تھا۔ ساٹھ سال کی عمر میں بھی وہ عمر رسیدہ نہیں لگتا تھا مگر سستی و اضمحلال اس کی ڈھلتی عمر کی چغلی کھا رہے تھے۔ اچانک ایک روز وہ ہو گیا جس کا کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ ایک روز وہ رات کا کھانا کھا کر بستر پر دراز ہوا تو نیند میں موت نے گلے سے لگالیا، جانے شب کے کون سے پہر دل کا دورہ پڑا اور صالح محمد وفات یا گیا۔ صبح جب حسب معمول بیدار نہ ہوا تو شہلا نے جگایا کہ اٹھئے فجر کی نماز کا وقت نکلا جاتا ہے مگر صالح اس دنیا میں ہوتا تو جواب دیتا۔ شہلا نے شوہر کا جواب نہ پا کر کئی باراسے پکارا۔ ہر پکار کے بعد خاموشی تھی۔ دل دہل گیا اور پھر معاملہ سمجھ میں آتے ہی وہ چیخ مار کر بے ہوش ہو گئی۔ شوہر کی میت کو رشتہ داروں نے سنبھالا جبکہ شہلا کو اسپتال لے گئے جہاں ایک دن کومے کی حالت میں رہ کر وہ فوت ہو گئی۔ کسی کو یقین نہیں آتا تھا کہ بتیس برس چھوٹی شہلا اپنے شوہر صالح محمد سے اس قدر والہانہ پیار کرتی ہوئی کہ وہ اس کی وفات کا صدمہ بھی برداشت نہ کر سکی اور خالق حقیقی سے جاملی دونوں ساتھ ساتھ لحد میں چلے گئے۔

اتنی رفاقت ایسا پیار کبھی کسی نے دیکھا نہ ہوگا۔ مرنے کے بعد بھی ساتھ نباہ رہے تھے۔ دو جنازے آگے پیچھے دنیا سے گئے تو ہر آنکھ اشکبار تھی۔ ایک بچی سے عورت بنی تھی پھر بیس برس کی رفاقت سے وہ اسکی دوست غمگسار اور جیون ساتھی بھی بن چکی تھی۔ اس کے بچوں کی ماں تھی۔ اپنے سسرال کی آنکھوں کا تارا اور ساس نندوں کی چہیتی تھی۔ آہ میری سہیلی میں کتنی خوبیاں تھیں ۔ گنوانے بیٹھوں تو گنوا نہیں سکتی۔ یہ کچھ پرانے وقتوں کی باتیں ہیں۔ آج تو شادیاں کھیل اور طلاقیں عام بات ہے۔ برسوں پرانے لوگ کیسی انہونی نباہ جاتے تھے کہ آج سوچو تو حیرت ہوتی ہے۔ ان دنوں شادی کے بندھن کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی اور شادی کو ایک معمولی رشتہ گردانا جاتا ہے، معمولی بات پر علیحدگی اور طلاق کے کیس عام ہیں۔ میاں بیوی اس قدر نازک مزاج ہو گئے ہیں کہ میاں خراٹے لے یا بیوی پالتو جانور رکھ لے تو اس بات پر طلاق ہو جاتی ہے۔ عمروں کا فرق تو بڑی بات ہے۔ رنگت کے فرق پر جیون ساتھی کو خدا حافظ کہتے نہیں جھجکتے- شہلا نے تو خود سے بیس برس بڑے شخص کے ساتھ زندگی کے ہیں برس ایسے گزارے تھے جیسے کوئی جنت میں زندگی گزارتا ہے۔ اس وقت جب اس آٹھ برس کی بچی کا نکاح چالیس کے شخص سے ہور ہا تھا محلے کی عورتیں بھی رو رہی تھیں مگر جس طرح شہلا نے سمجھوتہ کیا اور زندگی ہنس کر گزاری ، اس پر دنیا حیرت میں تھی۔ دنیا میں ایسی عورتیں بہت ہیں جن کے صبر اور تدبر کی مثال نہیں ملتیں۔ شہلا کے بچے آج بھی اپنی ماں کی قبر پر فاتحہ پڑھنے جاتے ہیں۔ پھول اس کی لحد پر نچھاور کرتے ہیں کہ ایسی بے مثال ماں اب کس کی ہوئی۔

Latest Posts

Related POSTS