یہ دو بہنیں تھیں، مومنہ اورعظمیٰ، دونوں میں ایک سال کا فرق تھا۔ ہم سب چھٹی جماعت میں تھیں۔ ایک روز میں ان دونوں کے ہمراہ گڑیا کھیل رہی تھی کہ ان کا بھائی منان آ گیا۔ جس کو سب مانی کہتے تھے ، وہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھیلنے لگا۔ مجھے بُرا لگا۔ اُسی وقت مانی کی شکایت میں نے اس کے ابو سے کر دی جو گھر میں ہی تھے۔ انکل نے مانی کو بہت ڈانٹا کہ اتنے بڑے ہو گئے ہو اور لڑکیوں کے ساتھ گڑیاں کھیلتے ہو ، شرم نہیں آتی۔ غرض اتنی ڈانٹ پڑی کہ مانی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اب وہ ناراض ہو گیا اور مجھ سے جلنے لگا۔ وقت گزرتا گیا اور ہم چاروں میٹرک میں آگئے۔ جب میٹرک کا رزلٹ آیا تو میں اخبار لے کر ان کے گھر گئی۔ مانی نے بھی میٹرک کا امتحان دیا تھا۔ اخبار دیکھ کر اس کا چہرہ دمکنے لگا۔ وہ میرے ہاتھ سے اخبار لے کر رزلٹ دیکھنا چاہتا تھا۔ میں سمجھ گئی وہ کیا چاہتا ہے، تبھی میں نے ترس کھا کر پوچھا۔ مانی اپنارول نمبربتا دو۔ میں اوروہ اپنا اپنا رول نمبر دیکھنے لگے ، ساتھ مومنہ اور عظمیٰ بھی۔ میں ایک پرچے میں رہ گئی تھی جبکہ وہ تمام پرچوں میں پاس ہو گیا تھا۔ میرا چہرہ اتر گیا، وہ تسلی دینے لگا، اس کی تسلی سے میرا دُکھ ہلکا ہو گیا۔ یوں دشمنی دوستی میں بدل گئی اور پھر رفتہ رفتہ ہماری دوستی کسی اور جذبے کے تابع ہو گئی ، جس کا مومنہ اور عظمیٰ کو بالکل بھی پتا نہیں تھا۔ میٹرک کے بعد میں نے اُن کے گھر روز کا آنا جانا بند کر دیا۔ تبھی مانی مجھے روز شام کو اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پان بھجوانے لگا کیونکہ میں نے مومنہ سے کہا تھا کہ بھئی میں تو تمہارے گھر پان کھانے آتی ہوں، اب جلدی نہیں آسکتی تو ایک پان بھجوا دیا کرو مانی پان دس روپے کے نوٹ کے ساتھ کاغذ میں لپیٹ کر بھیجتا تھا تبھی میں نے ایک روز اس کے بھائی کے ہاتھ نوٹ واپس کر دیئے اور ساتھ ایک گلک بھی بھجوا دی۔ جس پرچے میں اس نے کئی نوٹ لپیٹ کر بھیجا تھا۔ اس پر لکھ دیا کہ پان بھیجنے کا شکریہ لیکن آئندہ پان کے ساتھ نوٹ کو واپس مت بھیجنا۔ میں تم کو گلک بھجوا رہی ہوں، میرے نوٹ اس میں جمع کرتے جائو، کبھی کام آئیں گے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ میں اس کے گھر گئی تو اس نے کہا کہ میں روز تمہارے نوٹ ، تمہارے بھیجے ہوئے ڈبے میں ڈال دیتا ہوں۔ دیکھیں گے کہ کتنی دولت جمع ہو پاتی ہے ؟ اس روز سے ہمارے لگائو کی گاڑی ذرا تیز رفتاری سے چل پڑی۔ مانی کے گھر کا ماحول اتنا سخت تھا کہ وہ اپنی اور میری شادی کی بات اپنے والدین سے نہیں کر سکتا تھا۔ اگر اس کے باپ کو پتا چل جاتا کہ وہ مجھ سے اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتا ہے تو یقیناً وہ مانی کو الٹا لٹکا دیتے۔ ادھر میرے والدین میری شادی کی باتیں کرنے لگے تھے اور میری منگنی میرے ماموں زاد سے طے کرنے والے تھے۔ جب میں نے اپنے گھر میں یہ حالات دیکھے تو مانی کو کہا کہ تم جلدی رشتہ بھیجو ورنہ میں کسی اور کی ہو جائوں گی۔ اس نے اپنے ایک دوست شوکت سے مشورہ کیا جو ان کے پڑوس میں رہتا تھا۔ وہ بھی ہماری طرح کا نادان اور نا سمجھ لڑکا تھا۔ اس نے اپنے ایک اور دوست شیر از سے مشورہ کیا، جس کے پاس گاڑی بھی تھی۔ وہ کہنے لگا، ان دونوں کو وقت ضائع کئے بغیر جلد از جلد شادی کر لینا چاہئے ورنہ یہ عمر بھر ایک دوسرے سے نہ مل سکیں گے۔ لیکن یہ شادی کر کے جائیں گے کہاں اور گھر سے کیسے نکل پائیں گے ؟ یہ تم مجھ پر چھوڑ دو اور مانی سے کہو کہ اس کے لئے ہماری اور تمہاری جان بھی حاضر ہے۔ آخردوست کس دن کے لئے ہوتے ہیں۔ آج کام نہ آئے تو پھر یہ دوستی کس کام کی؟ جب دوستوں نے ہمت دی تو مانی میری خاطر عشق کے گھوڑے پر سوار، سولی چڑھنے کو تیار ہو گیا۔ تینوں دوستوں کے صلاح و مشورے ہوئے اور ہم بیوقوفوں کی طرح بے سروسامانی کے ساتھ گھر سے نکل پڑے۔ مانی گلک میں روزانہ جو دس روپے کا ایک نوٹ ڈالتا تھا، ان جمع شدہ پیسوں سے اس نے میرے لئے ایک جوڑا خرید لیا۔ حسب پرو گرام ایک روز صبح کالج جانے والے تانگے سے اتری تو وہاں شیراز گاڑی لئے منتظر تھا۔ مانی نے مجھے گاڑی کا نمبر بتادیا تھا، میں اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ ایک گھنٹہ بعد وہ مجھے اپنے گائوں لے آیا چونکہ یہ گائوں ہمارے گائوں سے ایک گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ شیر از پشاورکا لڑکا تھا اور اس کی زبان میں نہیں جانتی تھی۔ اس نے اپنی والدہ سے پشتو زبان میں کچھ کہا اور مجھے ان کے حوالے کر کے واپس چلا گیا۔ اس دوران مانی اور شوکت کہیں نہیں گئے بلکہ وہ اپنے گھر پر ہی موجود رہے۔ ان دنوں میری عمر سترہ برس سے کچھ ہی زیادہ تھی۔ گھر سے نکلتے وقت میں نے یہ بھی نہ سوچا کہ میرے غائب ہو جانے سے والدین پر کیا گزرے گی۔ پندرہ دن تک میں شیراز کے گھر پر رہی اور میرے چلے آنے کے بعد خُدا جانے کیا قیامت ٹوٹی محلے کے لڑکوں کو میری وجہ سے پوچھ گچھ کے لئے پکڑا گیا۔ بلاوجہ تھانے میں مارا پیٹا گیا، کچھ کو حوالات میں بند کر دیا گیا لیکن تفتیش کارمیرے بارے معلومات حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ پندرہ روز بعد شیرازمانی کے گھر کا ماحول اتنا سخت تھا کہ وہ اپنی اور میری شادی کی بات اپنے والدین سے نہیں کر سکتا تھا۔ اگر اس کے باپ کو پتا چل جاتا کہ وہ مجھ سے اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتا ہے تو یقیناًوہ مانی کو الٹا لٹکا دیتے۔ ادھر میرے والدین میری شادی کی باتیں کرنے لگے تھے اور میری منگنی میرے ماموں زاد سے طے کرنے والے تھے۔ جب میں نے اپنے گھر میں یہ حالات دیکھے تو مانی کو کہا کہ تم جلدی رشتہ بھیجو ورنہ میں کسی اور کی ہو جائوں گی۔ اس نے اپنے ایک دوست شوکت سے مشورہ کیا جو ان کے پڑوس میں رہتا تھا۔ وہ بھی ہماری طرح کا نادان اور نا سمجھ لڑکا تھا۔ اس نے اپنے ایک اور دوست شیر از سے مشورہ کیا، جس کے پاس گاڑی بھی تھی۔ وہ کہنے لگا، ان دونوں کو وقت ضائع کئے بغیر جلد از جلد شادی کر لینا چاہئے ورنہ یہ عمر بھر ایک دوسرے سے نہ مل سکیں گے۔ لیکن یہ شادی کر کے جائیں گے کہاں اور گھر سے کیسے نکل پائیں گے ؟ یہ تم مجھ پر چھوڑ دو اور مانی سے کہو کہ اس کے لئے ہماری اور تمہاری جان بھی حاضر ہے۔ آخر دوست کس دن کے لئے ہوتے ہیں۔ آج کام نہ آئے تو پھر یہ دوستی کس کام کی؟ جب دوستوں نے ہمت دی تو مانی میری خاطر عشق کے گھوڑے پر سوار ، سولی چڑھنے کو تیار ہو گیا۔ تینوں دوستوں کے صلاح و مشورے ہوئے اور ہم بیوقوفوں کی طرح بے سروسامانی کے ساتھ گھر سے نکل پڑے۔ مانی گلک میں روزانہ جو دس روپے کا ایک نوٹ ڈالتا تھا، ان جمع شدہ پیسوں سے اس نے میرے لئے ایک جوڑا خرید لیا۔ حسب پرو گرام ایک روز صبح کالج جانے والے تانگے سے اتری تو وہاں شیر از گاڑی لئے منتظر تھا۔ مانی نے مجھے گاڑی کا نمبر بتادیا تھا، میں اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ ایک گھنٹہ بعد وہ مجھے اپنے گائوں لے آیا چونکہ یہ گائوں ہمارے گائوں سے ایک گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ شیر از پشاور کا لڑکا تھا اور اس کی زبان میں نہیں جانتی تھی۔ اس نے اپنی والدہ سے پشتو زبان میں کچھ کہا اور مجھے ان کے حوالے کر کے واپس چلا گیا۔ اس دوران مانی اور شوکت کہیں نہیں گئے بلکہ وہ اپنے گھر پر ہی موجود رہے۔ ان دنوں میری عمر سترہ برس سے کچھ ہی زیادہ تھی۔ گھر سے نکلتے وقت میں نے یہ بھی نہ سوچا کہ میرے غائب ہو جانے سے والدین پر کیا گزرے گی۔ پندرہ دن تک میں شیر از کے گھر پر رہی اور میرے چلے آنے کے بعد خُدا جانے کیا قیامت ٹوٹی محلے کے لڑکوں کو میری وجہ سے پوچھ گچھ کے لئے پکڑا گیا۔ بلا وجہ تھانے میں مارا پیٹا گیا، کچھ کو حوالات میں بند کر دیا گیا لیکن تفتیش کار میرے بارے معلومات حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ پندرہ روز بعد شیراز شوکت اورمانی کے ہمراہ آگیا۔ شیراز نے اپنے گھر والوں کو یہ باورکرایا تھا کہ میں اس کے دوست مانی کی منکوحہ ہوں ۔ بہرحال یہ تینوں مجھے لے کر اپنے ایک اور دوست حبیب کے پاس اٹک آگئے جہاں میرا انکاح مانی کے ساتھ کرا دیا اب ہم اپنی دانست میں میاں بیوی تھے ، تاہم حبیب ایک سیانا شخص تھا۔ اس نے شرعی نکاح کے وقت اپنے ایک رشتہ دار وکیل سے بھی رابطہ کیا اور فوٹو گرافر سے میری بہ وقت نکاح تصویر بنوائی۔ نکاح نامے کے ساتھ وہ ہمیں وکیل کے ہمراہ بڑے شہر لے گیا۔ کورٹ لے جا کر تمام قانونی کارروائی کروائی اور قانونی کاغذات بھی بنوائے۔ کورٹ میں میرابیان ہوا۔ اس ساری کارروائی میں ہمارے پاس پیسے ختم ہو گئے۔ کچھ رقم شیراز نے دی، اسی نے ہمیں راولپنڈی پہنچادیا۔ وہاں وہ ہمیں ایک مکان میں لے گیا، جس میں ایک بوڑھی عورت اوراس کا بیٹا رہتے تھے۔ ہم ان کے ساتھ ان کے مکان کے ایک کمرے میں رہنے لگے جس کا کرایہ پیشگی شیراز نے ادا کر دیا۔ اب پیسوں کا مسئلہ تھا جس کے لئے مانی کا گائوں جانا ضروری تھا۔ وہ مجھے تسلی دے کر گائوں چلا گیا۔ وہ والد کی دُکان پر گیا۔ اتفاق سے اس کے ابو دکان پر موجود نہ تھے۔ اس نے مینجر سے کچھ رقم لی اور جب لوٹا تو بہت پریشان تھا۔ مانی نے بتایا کہ پولیس میرے پیچھے لگ چکی ہے، ہو سکتا ہے مجھے جیل ہو جائے، تم وعدہ کرو کہ بدل تو نہ جائو گی۔ تمہارے والدین نے مجھ پراغوا کا پرچہ درج کرادیا ہے۔ یہ حالات اسے اس کے دُکان کے منیجر سے معلوم ہوئے تھے۔ میں نے اُسے اپنی وفاداری کا یقین دلایا پھر صبح ہوتے ہی میں شوکت اور مانی اپنے گائوں کے قریب ایک شہر میں آگئے کیونکہ ان کو خدشہ تھا کہ جہاں ہم رہ رہے ہیں، شاید اس جگہ کا علم مانی کے والد کو ہو چکا ہے، کہیں پولیس ان کو تنگ کرنے یہاں تک نہ آجائے۔ اب شوکت نے ہم کو سمجھانا شروع کیا کہ تم لوگ کب تک ادھر اُدھرچھپتے پھرو گے جبکہ مانی رقم لینے گائوں نہیں جا سکتا، تو بہتر ہے کہ دونوں اپنے والدین کو منانے کی راہ نکالو تا کہ پولیس سے جان چھوٹے۔ والدین پھر والدین ہیں وہ تم لوگوں کو پولیس کے حوالے کرنے کی بجائے کوئی عزت بھرا حل نکال لیں گے۔ ہم پھر سے شوکت کی باتوں میں آ گئے کیونکہ بغیر پیسے کہیں بھی رہنا محال تھا اور عمر بھر چھپ کر بھی زندگی نہیں گزاری جاسکتی تھی۔ پس ہم نے اس کا کہا مانا اور اپنے گائوں جانے والی بس میں سوار ہو گئے۔ بد قسمتی سے بس والے نے ہمیں اپنے گائوں سے دو میل آگے اُتار دیا۔ ہم نے پیدل ہی گائوں کی طرف چلنا شروع کر دیا، حالانکہ یہ علاقہ ڈاکوئوں کی وجہ سے خطرناک سمجھا جاتا تھا لیکن ہمیں پولیس کے خوف نے باقی ہر خوف سے بے نیاز کر دیا تھا۔ جب ہم گائوں میں شوکت کے گھر کے سامنے پہنچے، جہاں میں پہلے بھی آچکی تھی۔ میں جھٹ سے گھر کے اندر چلی گئی۔ آج گھر اور چار دیواری کی اہمیت کا اندازہ ہوا کہ اس کے بغیر انسان کھلے آسمان تلے کچھ بھی نہیں۔ اگلے روز شوکت کو میرے رشتہ داروں کو جا کر میرے متعلق مطمئن کرنا تھا اور معاملہ طے کرانا تھا۔ مانی کو بھی اپنے گھر والوں کو منانا تھا۔ شیراز کو بھی اپنے ماموں کے گھر جانا تھا جہاں وہ ہمارے گائوں میں رہتا تھا۔ اب یہ تینوں مجھے شوکت کے گھر چھوڑ کر اپنی اپنی منزل روانہ ہو گئے۔ شوکت کا یہ گھر اس کے دادا مر حوم کا تھا جو کچھ عرصے سے خالی پڑا ہوا تھا۔ ساری منصوبہ بندی دھری رہ گئی۔ مانی جو والدین کو منانے گیا تھا وہ پھر واپس نہ آسکا، البتہ دو دن بعد پولیس نے پورے گائوں کو گھیرے میں لے لیا۔ پولیس کے ساتھ ، میرے چچازاد بھائی، میرے بہنوئی اور علاقے کا ایک معزز شخص بھی تھا۔ مجھے اس قدر مار پڑی کہ میں وعدے اقرار سب بھول گئی۔ میرا ذ ہن کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ میں کیا کروں۔ مجھے یہ بھی پتا چلا کہ پولیس مانی کو گرفتار کر کے لے آئی ہے اور اس پر تشدد بھی خوب ہوا ہے۔ پانچویں روز مجھے سول کورٹ میں پیش کیا گیا تو میں نے پولیس اور والدین کے خوف کے مارے ایک بالکل بھری ہوئی کیسٹ کی طرح بولنا شروع کر دیا، جو میرے اپنوں نے مجھے سکھایا تھا۔ میں وہی باتیں کہہ رہی تھی اور ہر طریقے سے مانی، شوکت اور شیر از کو مجرم ثابت کر رہی تھی۔ مجھ سے یہاں تک بیان دلوایا گیا کہ ان سب نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے حالانکہ مانی سے نکاح ہوا اور باقی سب نے مجھے ایک بہن کی طرح رکھا تھا اور ایک میلی نظر تک مجھ پر نہیں ڈالی تھی۔ یہ میں جانتی تھی اور میرا خُدا گواہ تھا کہ یہ باقی اس معاملے میں بے گناہ تھے لیکن اب تو ان سب پروہ حدود کا کیس بنوار ہے تھے۔ ان سب کا یہی قصور تھا کہ انہوں نے ہمارا ساتھ دیا تھا۔ جس روز مجھے بیان دینا تھا، مانی کو بھی ہتھکڑی لگا کر کورٹ میں میرے سامنے لایا گیا اور پھر میں نے اس کے سامنے بھی وہی بیان دیا۔ مانی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ان آنسوئوں میں یہی سوال تھا کہ تو نے میری وفا کا یہ صلہ دیا؟ جب میں بیان دے چکی تو مانی نے بے اختیار کہا۔ اگر تیرے بیان پر مجھے پھانسی کی سزا بھی ہو جائے گی تو پروا نہیں ہے ، خُدا کرے آئندہ تم کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ سب کے سامنے اس کا ایسا کہنا تھا کہ میرا سر شرم سے جھک گیا۔جب مجھے گھر لایا گیا تو میں بہت روئی مگر یہ مانی کو کون بتاتا کہ گھر آکر میں اپنی بے بسی پر کتناروئی ہوں، میں تنہائی میں اپنی بد نصیبی کا ماتم کرنے لگی کیونکہ زخم ابھی ہرا تھا اور گھر والے بھی میری طرح اس بات سے لاعلم تھے کہ قدرت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ہم نے ان نادانوں کو ان کی جوانی اور جرات کی خوب سزادی ہے لیکن ایک سزا ابھی اور باقی تھی۔ وہ یہ تھی کہ ایک نئی روح میرے وجود میں جنم پا چکی تھی۔ وقت گزرا تو میری ماں کو احساس ہو گیا کہ ایک قیامت ابھی ہماری منتظر ہے۔ ان کے ہاتھ پائوں پھول گئے ، بھاگ دوڑ شروع کر دی گئی لیکن اس مرحلے سے نمٹنا آسان نہیں تھا اور میں بھی نہیں چاہتی تھی کہ ایک روح کو اس دنیا میں آنے سے پہلے قتل کر دیا جائے مگر اس کے سوا چارہ نہ تھا۔ ماں اور میری بڑی بہن اسی بھاگ دوڑ میں لگی تھیں اور میں جائے نماز پر دعا کرتی تھی، خُدا کرے ان کی یہ بھاگ دوڑ کامیاب نہ ہو اور یہ مجبور ہو کر مجھے پھر سے مانی کے ساتھ زندگی گزارنے کی اجازت دے دیں تا کہ ایک ننھی منی جان پیدائش سے قبل موت کے منہ میں جانے سے بچ جائے اور ہم دونوں بھی تباہ و برباد ہونے سے بچ جائیں۔ میری دُعا قبول ہو گئی۔ کسی نرس کسی ڈاکٹر نے قتل کے اس فعل کی ذمہ داری لینے کی ہامی نہ بھری۔ جب ماں نے جان لیا کہ اس حقیقت سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے تو اس نے مجھے اپنے ایک رشتہ دار کے گھر دوسرے گائوں بھجوا دیا، جہاں میں نے اس بد نصیب کو جنم دیا جس کو پیدا ہوتے ہی مجھ سے جدا کر دیا گیا۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں گزرنے لگے ، بہت سے رشتے آئے مگر جب ان کو میرے ماضی بارے علم ہو اوہ دوبارہ نہیں آئے کیونکہ میں درخت سے گرا ہوا وہ پھول تھی جو داغدار ہو چکا تھا۔ مجھے بھی شادی سے نفرت ہو چکی تھی، جو مجھ پر قیامت بیت چکی تھی۔ آج اس واقعے کو تیس برس ہونے کو آئے ہیں مگر دل کا زخم آج بھی ہرا ہے۔ یہ وہ گھائو ہے جوکبھی بھرا نہیں جاسکتا۔ یہ میری کم سنی میں ایک جذباتی قدم کی سزا ہے جو ابھی تک باقی ہے۔ سوچتی ہوں اگر ہمارے گھر والے ہم کو معاف کر دیتے اور ہماری کورٹ میرج کو تسلیم کر لیتے تو ہم یوں برباد نہ ہوتے اور ہماری بچی بھی ایسے نہ رل جاتی، جس کے مستقبل کا سوچ کر میرے دل میں درد کی لہریں اٹھنے لگتی ہیں کہ خُدا جانے میری بچی کو انہوں نے کس کو سونپا ہے۔ اتنی سزا پا لینے، اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی لوگ اس واقعے کو نہیں بھولے۔ اب بھی وہ لوگ جو ماضی کے واقعہ کو جانتے ہیں میری طرف اُنگلیاں اٹھا دیتے ہیں – میری خطا کو معاف نہیں کیا۔ میں آج بھی مجرم ہوں۔