یہ سردیوں کی ایک ٹھٹھری شام تھی۔ برف کچھ اس انداز سے گر رہی تھی گو یا فلک سے نور کی برسات ہو رہی ہو۔ برف کا پہاڑوں پر گرنا درختوں کا سکوت اور پر کشش چاندنی ان سب عناصر نے مل کر ماحول کو ایک طلسمی جزیرے کا روپ عطا کر دیا تھا۔ ان دنوں عادل کی ڈیوٹی وہاں لگی ہوئی تھی۔ وہ سگریٹ کے کش لگاتے بڑے پرسکون انداز میں گشت کرتے ہوئے موڑ کاٹ رہے تھے کہ اُن کو احساس ہوا کہ ماحول اس قدر تنہا بھی نہیں ہے۔ یہاں کوئی اور بھی موجود ہے، جس کی سانسوں کی مہک نے ارد گرد کی خاموش فضا کو معطر کر دیا ہے۔ وہ سیر کو آنے والی ایک لڑکی سامرہ تھی۔ عادل کے ساتھ یہ بڑی دقت تھی کہ ڈیوٹی کا وقت ختم ہو جانے کے باوجود وہ اس وقت تک اپنے ٹھکانے پر لوٹ کر نہیں آتے تھے جب تک کہ سُنسان سڑکوں پر ٹہلنے والا ایک بھی شخص موجود رہتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ اُن کو آوارہ گردی کا جنون تھا۔ گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود وہ ڈیوٹی کے بعد بھی گشت کرتے رہتے اور دیر سے گھر لوٹتے تھے۔ اچانک عادل کے سامنے ایک گاڑی نمودار ہوئی اور انہیں کراس کرتے ہوئے گزر گئی، لیکن اس کی تیز لائٹوں کی وجہ سے عادل کی آنکھوں کے سامنے اند ھیرا سا چھا گیا۔ بس اس قدر اندازہ ہوا کہ وہ گاڑی سامنے والے ریسٹ ہائوس کی طرف گئی ہے۔ یہ ریسٹ ہائوس کافی دنوں سے ویران پڑا تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں سے رات کو رونے کی آوازیں آتی ہیں۔ گاڑی کو ریسٹ ہائوس کی جانب جاتے دیکھ کر عادل کے دل میں خیال آیا کہ ضرور یہاں کوئی ٹھہرا ہوا ہے۔ تجسس کے جذبے نے سر اٹھایا اور وہ اسی سمت چل دیا۔ ریسٹ ہائوس تک پہنچتے پہنچتے برف باری تیز ہو گئی اور وہ بر آمدے میں آ گیا۔ اپنا اوور کوٹ اور ٹوپی اتار کر جھاڑنے لگا پھر اس نے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا سگریٹ نکال کر منہ میں دبایا۔ اب وہ ماچس تلاش کر رہا تھا۔ اچانک قریب ہی ہلکا سا شور بلند ہوا۔ وہ چونک اٹھا اور گرج دار آواز میں پوچھا۔ کون ہے ؟ فضا کے سکوت کو اس کی بھاری آواز نے لرزا دیا۔ جواب ملا۔ میں ہوں صاحب، ا ژدر خان چوکیدار ! عادل کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ۔ تم یہاں کیا کر رہے ہو۔ یہ ایک نہایت ہی نا معقول سوال تھا۔ ظاہر ہے چوکیدار ، چوکیداری کر رہا تھا۔ میں چوکیداری کے لئے ابھی تھوڑی دیر پہلے آیا تھا لیکن آپ یہاں اس وقت کیا کر رہے ہیں ؟ برف باری شروع ہے اور آپ ابھی تک گھر نہیں گئے ؟ بتاتا ہوں، تم اندر چلو۔ دونوں اس کمرے میں آ بیٹھے جہاں اُنہوں نے بیٹھنے کا ٹھکانا بنایا ہوا تھا۔ یہ چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں انگیٹھی دہک رہی تھی اور کمرے میں آتے ہی خوشگوار حرارت کا احساس ہوتا تھا۔ آپ کو سبز چائے پلوائوں؟ چوکیدار نے پوچھا، ساتھ ہی اس نے انگیٹھی پر کیتلی رکھ دی۔ ایسے سرد موسم میں یہ گرم مشروب ایک نعمت سے کم نہیں ہوتا، اس کا مزہ تو وہی جانے جو گرتی برف کےبیچ رہتے ہیں۔
عادل کو کرسی پیش کرتے ہوئے چوکیدار نے پوچھا۔ آپ ٹھیکیدار طاہر صاحب کے بھائی ہیں ناں ؟ ہاں ، تم نے ٹھیک پہچانا۔ میں نے اکثر آپ کو ڈیوٹی کرتے اس طرف دیکھا ہے۔ ایک بات پوچھوں صاحب ! آپ اکثر اس ریسٹ ہائوس کی جانب آ کر یہاں رکتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے۔ اس جگہ سے میری کچھ یادیں وابستہ ہیں۔ شاید تمہیں یاد ہو ، آج سے چند سال پہلے اس ریسٹ ہائوس میں ایک فیملی آکر ٹھہری تھی۔ اس فیملی میں ایک شرارتی سی لڑکی بھی تھی، اس کا نام سامرہ تھا۔ ان دنوں بھی ایسا ہی موسم تھا۔ موسم کی پہلی برف باری ہوئی تھی اور یہ لوگ برف باری دیکھنے آئے تھے۔ میں شام کو تقریباً نو دس بجے گھر جا رہا تھا۔ میں نے دیکھا موڑ پر لڑ کی برف باری سے پریشان ہے۔ وہ چل کر ریسٹ ہائوس تک جانا چاہی تھی مگر سردی کی وجہ سے اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ وہاں موڑ پر بے بس سی بیٹھ گئی۔ میں نے اس کے قریب اپنی گاڑی روک لی اور پوچھا۔ کیا بات ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں سیر کے شوق میں تھوڑا سا آگے چلی آئی اور برف باری ہونے لگی۔ مجھے اندازہ نہیں تھا سر دی اتنی بڑھ جائے گی اور اب ایسا عالم ہے کہ میں قدم بھی نہیں اٹھا پا رہی۔ وہاں تک کیسے جائوں ؟ اگرچہ ریسٹ ہائوس زیادہ دور نہیں ہے لیکن مجھ میں وہاں تک جانے کی تاب نہیں ہے۔ گاڑی میں آ جائو۔ میں نے دروازہ کھول دیا اور وہ توقف کئے بغیر جلدی سے چھلانگ مار کر میری برابر نشست پر براجمان ہو گئی۔ یہ میری اور اس کی پہلی ملاقات تھی۔ یہاں تک پہنچ کر عادل کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ جذبات میں بہہ کر یادوں کی بارات کے پیچھے نکل گیا ہے۔ تبھی اس نے بات کا سلسلہ ختم کرتے ہوئے کہا۔ بس یار اس کے بعد کی کیا بتائوں، تم خود سمجھدار ہو۔ کچھ دن ایسے ہی اس کے ساتھ گزارے، جن کی یاد ذہن سے نہیں جاتی، تبھی اس ریسٹ ہائوس کی جانب کبھی کبھی قدم اٹھتے ہیں اور مجھے بیتی یادیں اس جگہ لے آتی ہیں۔ چوکیدار سے ہمارے بڑے بھائی کی کافی شناسائی تھی، لہذا عادل بھائی کو بھی اس سے انسیت محسوس ہوتی تھی، تبھی اکثر اس کے پاس سبز قہوہ پینے کی خاطر گپ شپ کر لیا کرتے تھے لیکن بھائی کا اصل مقصد وہاں جانے کا کچھ اور تھا۔ شاید وہ فیملی کبھی دوبارہ اس ریسٹ ہائوس میں آکر ٹھہرے تو چوکیدار انہیں مطلع کر دے گا، جس کی عادل کو تلاش تھی۔ وہ جاتے ہوئے اپنا پتا بھی بتا کر نہ گئی تھی۔ بھائی کو یادوں کے بھنور میں ڈوبنے کو اکیلا چھوڑ گئی تھی۔ جاتے ہوئے البتہ اس نے ایک رقعہ چھوڑا تھا، جس میں تحریر تھا۔ مجھے امید ہے کہ تم بُرا نہ منائو گے۔
میرے چند دن جو تمہارے ساتھ گزرے اُن کو میں کبھی نہیں بھلا سکتی۔ یہاں مجھے کمپنی دینے والا کوئی نہ تھا، اس لئے میں نے تمہارا سہارا لیا کیونکہ اکیلے پن سے انسان کو وحشت ہوتی ہے اور مجھے تو اور بھی زیادہ کہ میں بھرے پرے کنبے میں رہتی ہوں۔ بہر حال تمہارے ساتھ چند دن گزرا وقت میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ تم نے مجھے بور نہیں ہونے دیا، بہت شکریہ۔ زندگی میں ایک بار ضرور ادھر آئوں گی ، میرا انتظار کرنا۔ چار سال عادل نے سامرہ کا انتظار کیا اور وہ نہیں آئی۔ تبھی بھائی نے سمجھ لیا کہ وہ نہیں آئے گی۔ وہ گزرتی ہوا کا ایک مہکتا ہوا جھونکا تھی، جو ایک ہی بار آتا ہے ، دل و روح کو فرحت پہنچاتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ عادل مایوس ہو گئے مگر سامرہ کی یاد کو دل سے نہ بھلا سکے۔ مری میں بھائی کا کام ٹھیک چل رہا تھا لیکن سامرہ کی یاد سے دل اب اُس جگہ سے بیزار ہو گیا تھا۔ اس روز انہوں نے واپس جانے کی ٹھان لی اور نوکری چھوڑ کر کراچی چلے گئے۔ وہاں ان کو اور اچھی نوکری مل گئی۔ کہتے ہیں لگم سچی ہو تو امید ضرور بر آتی ہے۔ عادل کے دل میں بھی سامرہ کی یاد کچھ اس طرح جاگزیں تھی کہ ایک لمحے کو بھی وہ اس لڑکی کو فراموش نہ کر سکے۔ ہر پل یہی دُعا کرتے کہ اے اللہ ایک بار ، مجھے سامرہ سے ملا دے۔ ایک دن عادل طارق روڈ سے گزرے تو ایک دُکان میں ان کو سامرہ نظر آگئی۔ بھائی کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ وہ دوڑ کر اس کی طرف گئے۔ جب سامرہ نے انہیں دیکھا تو وہ بھی خوشی سے کھل اٹھی۔ دونوں برسوں بعد ملے تھے۔ بیتی باتیں سب یاد آ گئیں۔ سر سبز پہاڑوں اور خوبصورت گھاٹیوں کے بیچ لگائے قہقہے، سیر اور پھر گرم گرم کافی، پر لطف باتیں۔ سب یاد آ گیا۔ سامرہ نے بتایا کہ میرے والد صاحب فوت ہو گئے تو ہمارے حالات بہت بدل گئے۔ اس باعث ہم دوسری بار مری کی سیر کو نہیں آئے۔ خیر دونوں نے اس کو غنیمت جانا کہ قدرت نے ایک بار پھر ان کو ملا دیا تھا۔ میرے بھائی نے سامرہ کو بتایا کہ آج کل وہ کراچی میں ہی سروس کرتا ہے تو وہ خوش ہو کر بولی۔ پھر تو اور بھی اچھا ہے ، میرے گھر چلو۔ امی تم سے مل کر خوش ہوں گی۔ وہ عادل کو اپنے گھر لے گئی۔ اس کی ماں بھائی سے مری میں مل چکی تھی، اس لئے سبھی خوش ہو کر ملے اور عادل بھائی کو رات کا کھانا کھلایا۔ اب عادل کو اس لڑکی کی اصل زندگی کا پتا چلا۔ گرچہ اس کا باپ آفیسر تھا مگر اس کی فوتگی کے بعد ان ماں بیٹی کا کوئی آسرا نہ رہا تھا۔ دو بڑے بھائی تھے، جو ان کو تھوڑا بہت خرچہ دیتے تھے اور کچھ والد کی پینشن پر گزارہ چلتا تھا۔ ماں کو بیٹی کی شادی کی فکر تھی۔ بھائی تو اپنی شادی شدہ زندگی میں خوش تھے۔ ماں چاہتی تھی کہ اس کی زندگی میں سامرہ اپنے گھر کی ہو جائے۔ عادل اور سامرہ پھر سے ملنے لگے۔ ان ملاقاتوں کو رنگ لانا ہی تھا۔ دونوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا۔
عادل نے گھر خط لکھا۔ امی جان ، میں جس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، آئیے ، اسے دیکھ لیجئے اور رشتے کی بات چلا لیں ۔ جواب میں ابو نے بہت سختی سے خط لکھا کہ اپنے خاندان میں ایک سے ایک اچھا رشتہ موجود ہے تو غیروں میں رشتہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ غرض ہمارے والدین رضامند نہ ہوئے تو عادل نے گھر والوں کی پروا نہ کرتے ہوئے سامرہ سے شادی کر لی۔ اس شادی میں صرف لڑکی کی ماں کی مرضی شامل تھی۔ اس کے بھائیوں کو بھی علم نہیں تھا کہ ان کی بہن کا عادل سے نکاح ہوا ہے۔ ماں نے بعد میں اُن کو مطلع کیا تو وہ رسوائی کے ڈر سے خاموش ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ جب لڑکی لڑکا راضی ، تو کیا کرے گا قاضی ۔ ایسے ہی کچھ معاملہ ادھر بھی تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی چاہت میں بندھے تھے ، لہذا علیحدہ گھر لے کر رہنے لگے۔ جب ہمیں عادل بھائی کی شادی کا پتا چلا تو ہم کو بہت صدمہ ہوا۔ کیونکہ وہ بیٹے کی شادی اپنی بھانجی سے کرنا چاہتی تھیں۔ والد صاحب تو سخت ناراض تھے۔ ہم سب کی امیدوں پر اوس پڑ گئی کیونکہ تارا ہر لحاظ سے اچھی لڑکی تھی اور ہم سبھوں کی آنکھ کا تارا تھی۔ خیر اس کے بعد ہماراعادل سے ناتا ہی ٹوٹ گیا۔ صرف بڑے بھائی طاہر سے اُس کا رابطہ برقرار تھا۔ انہی کے ذریعے عادل کی خیر خیریت معلوم ہو جاتی تھی۔ اتنا مجھے معلوم تھا کہ بھائی کی اچھی نوکری ہے اور وہ سامرہ کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ پتا نہیں پھر کیا ہوا ؟ کیا حالات بن گئے، سامرہ کے دل میں کیا سمائی کہ اُس نے اپنے بھائیوں کو خط لکھا کہ میں عادل کے ساتھ خوش نہیں ہوں، میں اُس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، جبکہ اس نے مجھے زبردستی رکھا ہوا ہے۔ سامرہ کے بھائیوں نے پولیس سے رابطہ کیا، جس کی وجہ سے عادل اور سامرہ بھا بھی پر کیس بن گیا، لیکن چونکہ بھا بھی ان دنوں امید سے تھیں۔ اس طرح وہ اپنے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئیں۔ یوں میاں بیوی دونوں کو ہی پولیس پکڑ کر لے گئی اور ان کو جیل ہو گئی۔ حالانکہ عادل بھائی کے پاس رہتے ہوئے سامرہ کو کسی قسم کی تکلیف نہیں تھی اور وہ سال بھر سے بھائی کے پاس رہ رہی تھی۔ جیل میں سامرہ کی بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام انہوں نے مہک رکھا۔ وہ بہت خوبصورت بچی تھی۔ کچھ دنوں تک کیس چلتا رہا۔ صورت حال کے پیش نظر بالآخر عادل نے بیوی کو طلاق دے دی۔ اس واقعہ نے میرے بھائی کو ایسا دلبرداشتہ کیا کہ وہ کراچی کی سروس کو خیر باد کہہ کر ہمارے پاس لوٹ آئے اور والدین سے معافی مانگی۔ انہوں نے بیٹے کو معاف کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی خوشی سے عادل کی شادی تارا سے کر دی۔ شادی کے بعد عادل بھائی سامرہ کو بھول گئے۔ تارا بہت سمجھدار لڑکی تھی۔ اُس نے انہیں عزت، پیار، اعتماد ، خوشی دی اور ان کی خدمت بھی کرتی تھی۔ وہ ایک مثالی شریک حیات ثابت ہوئی۔ بارہ سال میں ایک بار بھی ان کا عادل سے جھگڑا نہیں ہوا۔ اس دوران اُن کے یہاں چار بچوں نے جنم لیا۔ عادل اور تارا اپنے بچوں میں مگن خوشگوار زندگی جی رہے تھے کہ اچانک باره سال بعد ان کی زندگی میں بھونچال آ گیا۔ سامرہ کے بھائیوں کا خط آیا کہ مہک اپنے باپ کے پاس رہنا چاہتی ہے، لہذا آپ اپنی بیٹی کو لے جائیں ۔ خط ملتے ہی عادل بھائی بہت ڈسٹرب ہو گئے۔ تارا بھا بھی بھی پریشان ہو ئیں۔ بہر حال انہوں نے خود کو سنبھالا اور شوہر سے کہا۔ جائو اور جا کر اپنی بیٹی کو گھر لے آئو۔
مجھے اس کے یہاں آنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بیوی کی طرف سے گرین سگنل ملتے ہی عادل کی جان میں جان آئی اور وہ بیٹی کو لینے کراچی چلے گئے۔ مہک گویا تیار بیٹھی تھی، باپ کے ساتھ آ گئی۔ وہ جب یہاں آئی تو ہم سب خوش تھے لیکن یہ خوشی زیادہ دیر کے لئے نہیں تھی۔ وہ صرف ایک ماہ ہمارے ساتھ رہی، پھر اس نے واپس جانے کی ضد شروع کر دی۔ وہ خود بھی بہت پریشان رہتی تھی اور ہمیں بھی پریشان رکھتی تھی۔ آخر کار عادل بھائی نے فیصلہ کیا کہ مہک کو اس کے ننھیال والوں کو واپس کر دینا چاہئے۔ جب بچی ہی یہاں خوش نہیں ہے تو اس کو زبر دستی رکھنے کا کیا فائدہ ہے۔ ننھیال جانے کے کچھ دنوں بعد ہی مہک نے خط لکھا۔ کہ وہ خیریت سے پہنچ گئی ہے اور ہم لوگ اسے بہت یاد آتے ہیں۔ وہ اب ہم کو خط لکھتی کہ مجھے آپ لوگوں کے پاس آنا ہے۔ میں امی کے لئے اداس ہو گئی تھی، اس لئے یہاں واپس آ گئی تھی ، لیکن اب میں آپ لوگوں کے لئے اداس ہو گئی ہوں۔ بالآخر ایک بار پھر امی جان کو رحم آ گیا۔ انہوں نے عادل سے کہا۔ بیٹے جائو اور جا کر میری پوتی کو لے آئو۔ تب میرے بھائی نے جواب دیا۔ ٹھیک ہے امی میں آپ کے کہنے سے اسے لے آتا ہوں۔ اگر وہ اب کے بھی نہ رہی تو اس کے بعد میں اُس کو لینے کبھی نہیں جائوں گا۔ مہک ایک بار پھر ہمارے گھر آگئی۔ وہ بہت خوش تھی۔ کہتی تھی کہ ممانی بہت تنگ رکھتی ہیں۔ امی تو مجھ سے کبھی کبھی ہی ملنے ماموں کے گھر آتی ہیں۔ میں اب وہاں نہیں رہوں گی کیونکہ نانی جان جو مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں، فوت ہو گئی ہیں۔ میں اب ہمیشہ آپ کے ساتھ رہوں گی۔ اس بار وہ دو ماہ بہت سکون اور بڑے آرام سے رہی۔ ہم نے بھی سوچا چلو اسے عقل آ گئی ہے اور اس نے ہم سے دل لگا لیا ہے۔ ہم کب چاہتے تھے کہ یہ ہمارے گھر سے جائے۔ وہ ہمارے بھائی کی بیٹی تھی، ہماری اپنی تھی اور کس کا دل چاہتا ہے کہ اپنوں سے جدا رہے۔ دراصل وہ ایک نادان بچی تھی اور اس کے سب فیصلے جذباتی تھے۔ وہ جتنی جلدی آنے کی کرتی تھی اتنی ہی جلدی اُسے واپس جانے کی پڑ جاتی تھی، جیسے دو محبتوں کے بیچ تقسیم ہو گئی ہو۔ اب وہ دو کشتیوں کی سوار تھی۔ کبھی باپ اور اس کے رشتے داروں کی محبت کشش کرتی تو کبھی ماں کا پیارا سے اپنی جانب کھینچ لیتا تھا۔ جب تک اس نے باپ کو نہیں دیکھا تھا، والد کی شفقت سے نا آشنا تھی، بے خبر تھی کہ ددھیال والوں کی چاہت کیا ہوتی ہے لیکن اب وہ جان چکی تھی کہ انسان رشتوں کے بغیر نا مکمل رہتا ہے۔ تبھی وہ دادی، دادا، پھوپھیوں اور تایا چاچا کی محبت کی بھی متلاشی تھی۔ اب وہ ہمارے درمیان رہ کر سکون محسوس کرتی تھی۔ دو ماہ گزرے تھے کہ ایک دن اس کی ماں کا فون آ گیا۔ جانے کیا باتیں ہوئیں۔ فون رکھتے ہی مہک اُداس ہو گئی۔ پریشان رہنے لگی اور پھر اُس نے رٹ لگا دی کہ مجھے ماموں کے گھر جانا ہے۔ امی مجھے یاد کرتی ہیں، وہ دکھی ہیں۔ میں نے وہاں جانا ہے۔ یہ صور تحال بھائی کو قبول نہیں تھی۔ وہ بار بار اپنی سابقہ سسرال نہیں جانا چاہتے تھے ، لیکن یہ سچ ہے اولاد کی محبت میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ وہ مہک کے لئے جانے پر مجبور تھے ۔ بہر حال بیٹی کی خاطر جانا پڑا کہ اولاد چیز ہی ایسی ہوتی ہے۔ مہک کی ضد سے مجبور ہو کر جب وہ اسے ماموں کے گھر چھوڑنے گئے تو وہاں سامرہ بھی اپنے دوسرے خاوند اور بچوں کے ساتھ آئی ہوئی تھی۔ ان لوگوں سے جب بھائی کا سامنا ہوا تو عادل کے دل کو سخت ٹھیس پہنچی۔ اُن کو گزرا زمانہ یاد آ گیا اور وہ بہت دل گرفتہ لوٹ کر آگئے۔ تبھی قسم کھائی کہ وہ بیٹی کو فراموش کر دیں گے لیکن اب لوٹ کر دوبارہ وہاں نہیں جائیں گے۔ اس کے بعد مہک نے کئی خط لکھے اور فون بھی کئے لیکن عادل پھر وہاں نہیں گئے۔ بھائی نے تو اپنے بچوں میں دل لگا لیا اور سامرہ بھی اپنے خاوند اور تین بچوں کے ہمراہ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے۔ دُکھ تو مہک کو ملا۔ وہ رشتوں کے دو حصوں میں بٹی تو اس کی زندگی تباہ ہو گئی۔ ایسے والدین کیا جانیں کہ اُن کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے اُن کے بچوں کو کس قدر نقصان پہنچتا ہے۔ کاش ! بڑے ایسی غلطیاں نہ کریں جس سے اُن کے بچوں کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کر ادھوری رہ جائے۔ اُن کو جان لینا چاہئے کہ رشتے ٹوٹ جانا کھیل نہیں، اس طرح معصوم بچوں پر ان کی محبتوں اور نفرتوں سے کتنا برا اثر پڑتا ہے۔ شاید کچھ لوگ پیدا ہی بے وفا فطرت لے کر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو نہ اولاد کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی ماں باپ کی اور نہ ہی اپنی عزت کی اور نہ دوسروں کی انا کی۔ آج بھی میں اس سوال کا جواب نہیں پا سکی کہ مہک بھی تو اسی ماں کی بیٹی تھی، اس کو ہم نے کتنا سمجھایا تھا پھر بھی اس نے ہماری محبت کا یہ صلہ دیا کہ اپنے ابو کا دل دکھا کر چلی گئی۔ ہاں سچ ہے کہ جانے والے چلے جاتے ہیں، ان کو کسی کی صدا، کوئی محبت بھری پکار نہیں روک سکتی۔