شادو کے ماموں کا گھر بالکل سامنے تھا، تبھی ان کا بیٹا امیر احمد اکثر ان کے گھر آجاتا تھا۔ شادو کی ماں اس سے پیار کرتی تھی لیکن باپ قاسم اس کے گھرانے سے سخت نالاں تھا۔ امیر کے باپ نے وراثت کا حصہ بہن کو نہ دیا تھا۔ اس پر قاسم نے بیوی سے کہہ دیا تھا کہ تیرے بھائی کو زمین پیاری ہے ، اس لئے اب تیرا ناتا میکے سے ختم ہوا۔ اس کے بعد سے شادو کی ماں کا اپنے بھائی کے گھر آنا جانا بند ہو گیا۔ وہ لوگ بھی ادھر نہیں آتے تھے مگر بچوں پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ کبھی شادو باپ سے چھپ کر ماموں کے گھر جا پہنچتی اور کبھی امیر ادھر آ نکلتا، حالانکہ جانتا تھا کہ قاسم پھوپھا اس کو کھا جانے والی نظروں سے گھورتا ہے ، تاہم وہ اس کی زہریلی نظروں کو نظر انداز کر دیا کرتا تھا۔ باپ کو اب بیٹی کی شادی کی فکر لگی تھی۔ رشتے کا ذکر نکلا تو شادو کی ماں اور ممانی تڑپ کر رہ گئیں۔ دونوں عور تیں چاہتی تھیں کہ شادو اور امیر کا آپس میں رشتہ ہو ، مگر قاسم کسی صورت اس پر راضی نہ ہوا۔ ایک دن اس نے گھر کے صحن میں شادو اور امیر کو ہنس ہنس کر باتیں کرتے دیکھ لیا تو اس کے دل میں خطرے کا الام بجا اور وہ رشتے کی تلاش میں لگ گیا۔
شادو ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ خوشحال گھر سے تھی، اس لئے کھیتوں میں کام کرنے نہیں جاتی تھی، لیکن اپنی زمین پر پردے کی بھی پابندی نہیں تھی۔ ایک روز ایک سہیلی کے ہمراہ کھیت میں گئے توڑنے چلی گئی۔ ادھر سے حیات کا گزر ہوا۔ یہ علاقے کا بڑا زمیندار تھا۔ اس کی نظر جب شادو پر پڑی تو وہ اسے دیکھتا رہ گیا۔ قبل ازیں اس نے اپنے گاؤں میں اتنی خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی تھی۔ اس نے اس لمحے فیصلہ کر لیا کہ ہر صورت اس لڑکی سے بیاہ کرے گا۔ قاسم سے اس کی اچھی سلام دعا تھی۔ اسی شام وہ قاسم کے پاس آیا اور اپنا مدعا بیان کر دیا۔ قاسم نے سوال کیا۔ حیات بخت صاحب آپ تو شادی شدہ ہو ، پھر دوسری شادی کیوں کرنا چاہتے ہو۔ میری پہلی بیوی سے چار بیٹیاں ہیں۔ آپریشن کی وجہ سے اب وہ مزید اولاد پیدا نہیں کر سکتی۔ مجھے بیٹے کی آرزو ہے، اسی وجہ سے دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں۔ قاسم کو تو لڑ کی بیاہنے کی جلدی تھی۔ اس نے سوچا، شاید قسمت اس پر مہربان ہو گئی ہے جو بخت خود چل کر اس کے دروازے پر آگیا ہے۔ اس نے رشتہ قبول کر لیا، حالانکہ حیات اس کی بیٹی سے عمر میں کافی بڑا تھا، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا تھا ، مالدار اور زمین دار تو ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہی ہیں آگے لڑکی کا نصیب۔ جب امیر کو علم ہوا کہ شادو کا رشتہ حیات زمیندار سے طے کر دیا گیا ہے تو وہ بہت افسر وہ و ملول ہوا۔ ادھر شادو بھی چھپ چھپ کر روتی تھی مگر تقدیر کا قلم دان ان کے ہاتھ میں نہ تھا۔ وہ محض روتے ہی رہ گئے ، تقدیر کا لکھا نہ مٹا سکے۔ یوں دو دل زبر دستی جدا کر دیئے گئے اور شادو بیاہ کر حیات کے گھر چلی گئی۔ شادو اس شادی سے خوش نہ تھی۔ قیمتی ملبوس اور بھاری بھر کم سونے کے زیورات بھی اس کے دل کو نہ لبھا سکے۔ باپ نے بیٹی کا کا سکھ دولت کے انبا لے انبار میں ڈھونڈا، یہ نہ دیکھا کہ حیات عمر رسیدہ ہے اور بیٹی کو سوکن پر دے رہا ہوں۔ شادو جب شوہر کی صورت دیکھتی تو اس کے ارمان کچی مٹی کے گھروندوں کی طرح ڈھے جاتے۔ وہ اس قدر افسردہ ہوئی کہ بیمار پڑ گئی۔ کافی عرصہ بیمار رہی مگر اپنی بے جوڑ شادی سے سمجھوتہ نہ کر سکی۔ اس کا دل اب اور زیادہ شدت سے امیر احمد کی یاد میں تڑپتا تھا۔ وہ ماموں کو کوستی تھی جس نے اس کی ماں کو زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نہ دے کر اس کو ہمیشہ کے لئے امیر سے جدا کر دیا تھا۔ ادھر امیر کی حالت بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھی۔ اس کا جی دنیا کی کسی خوبصور تی میں نہ لگتا تھا۔ وہ شادو کے چلے جانے کے بعد گاؤں میں نہ رہنا چاہتا تھا۔ یہاں اب اس کا دل ہی نہ لگتا تھا۔ شاد و میکے آئی تو مرجھائی کلی کی طرح ہو چکی تھی۔ ماں نے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو رونے بیٹھ گئی۔ ساس نندوں نے اسے سمجھانا چاہا مگر کسی کی بات کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ دکھ اس کے اختیار میں نہ رہا تھا۔ وہ بے دریغ شوہر کو کو سے جاتی تھی۔ دل باغی ہو تو اسے کون سمجھا سکتا ہے۔ شادو آٹھ آٹھ آنسو روتی حیات کے گھر واپس لوٹادی گئی۔ یہاں تو ہمہ وقت آگ ہی سلگتی رہتی تھی۔ گھر میں چار سوتیلی لڑکیاں اور شاطر سوتن کی سیاست ، اسے کسی پل چین نہ ملتا تھا۔ اس پر شوہر بد صورت اور توند باہر کو نکلی ہوئی تھی۔ یہ پچاس سال کا اور شادو سترہ برس کی۔ وہ اب اپنے باپ کو بد دعائیں دیتی تھی، جس نے لالچ میں آکر بے جوڑ رشتہ کر کے چاند کو گہن لگا دیا تھا۔
ایک دن وہ اپنے میکے میں آئی ہوئی تھی۔ جب گھر کی چھت پہ گئی تو سامنے ہی اس کو ماموں کے گھر کی چھت پر امیر کھڑا نظر آ گیا۔ اسے دیکھا تو خود پر قابو نہ رکھ سکی۔ وہ بھی بے اختیار شادو کی جانب کھینچا چلا آیا۔ قاسم شہر گیا ہوا تھا۔ امیر جلدی سے شادو کے گھر پہنچا۔ مدت بعد ملنے پر شادو سے شکوہ کیا اور رو کر بولی۔ تم تو کٹھور دل نکلے ، کبھی کبھی دور سے ہی سہی، صورت دکھا دیا کرو، تو اس بے چین دل کو قرار آ جائے شادو ! میں تمہارے گھر کیسے آسکتا ہوں ؟ وہ غیر لوگ ہیں۔ مجھے تمہارے گھر کی دہلیز کون پار کرنے دے گا بھلا۔ میرے گھر کے پاس ہی تمہاری خالہ کا گھر ہے۔ تم وہاں آ سکتے ہو۔ میں تم کو صرف دور سے ایک نظر دیکھ لوں گی، بے شک بات مت کرنا۔ امیر کا دل بھی کوئی جھوٹا آسرا چاہتا تھا، اس نے شادو سے وعدہ کر لیا کہ اب وہ ہر ہفتے خالہ کے گھر جایا کرے گا۔ یہ خالہ امیر کی ماں کی چچازاد تھی۔ امیر ان کے گھر کم ہی جاتا تھا لیکن اب وہ جلد جلد جانے لگا، کبھی کسی بہانے اور بھی کسی سبب سے۔ خالہ اس کے آنے پر خوش ہوتی، کہتی۔ امیر احمد ضرور آیا کرو۔ میری کوئی اولاد نہیں ہے، تم آجاتے ہو دل خوش ہو جاتا ہے۔ جب وہ خالہ کے گھر جاتا، اس کی نوکرانی کو خالہ کے گھر رکھی کوئی سوغات دے کر کہتا کہ جاؤ، در حیات کی چھوٹی بیگم کو دے آؤ۔ ان سے کہنا کہ خالہ نے بھجوایا ہے ۔ سوغات ملتے ہی شادو او پر چھت پر پہنچ جاتی اور دور سے ہی امیر کا دیدار کر لیتی۔ حیات صاحب کی بڑی زمینداری تھی۔ وہ اکثر زمینوں پر ہوتے ، کبھی شہر تو کبھی ڈیرے پر ۔ وہ شام کے بعد ہی گھر آتے تھے۔ سوتن اپنے بچوں میں لگی ہوتی ، شادو کا پورشن ، بالکل الگ تھلگ تھا، تاہم وہ ان دنوں زیادہ پریشان رہنے لگی۔ اس بات کو حیات نے نوٹ کیا تو شادو نے کہا کہ تمہاری بچیاں آپس میں لڑتی جھگڑتی ہیں ، بہت شور مچاتی ہیں۔ تمہاری بیوی ان پر چلاتی ہے، مجھے تو ایک پل کا سکون نصیب نہیں ہے۔ اوپر سے تمہاری بڑی بیگم کے طعنے سننے کو ملتے ہیں ، اسی وجہ سے پریشان رہتی ہوں۔ من چاہی بیوی کی خاطر حیات صاحب نے درمیان میں دیوار اٹھا دی یوں جس طرف کے حصے ! میں شادور ہتی تھی، وہ بالکل علیحدہ ہو گیا۔ اب تم سکون سے رہو۔ تم کو نہ شور پریشان کرے گا اور نہ میری بیوی کے طعنے تشنے ۔ اب زمیندار صاحب کے دو گھر ہو گئے۔ وہ ایک دن بڑی بیگم کے گھر میں رہتے اور ایک دن شادو کے پاس۔ شادو دونوں گھروں کو ملانے والا در میانی دروازہ اکثر بند رکھتی جبکہ دوسر اور وازہ جو باہر کی طرف تھا، اتفاق سے اس جانب خالہ کا گھر تھا۔ دونوں گھر آمنے سامنے لیکن کچھ فاصلے پر تھے۔ درمیان میں چھوٹی سی نہر تھی، جس پر چھوٹا سا پل بنا ہوا تھا۔ امیر نے خالہ سے خوب دوستی گانٹھ لی۔ جب آتا، کوئی نہ کوئی تحفہ لاتا کہتا۔ خالہ خوش ہو جاتی۔ کہتی۔ امیر بیٹا ! جب سے تم آنے لگے ہو ، مجھے اولاد کی کمی اب محسوس نہیں ہوتی۔ لگتا ہے اللہ تعالی نے مجھے بیٹا دے دیا ہے۔ بیچاری خالہ کو خالہ کو کیا خبر کہ امیر میاں کس مقصد سے ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ امیر جب آتا، کسی نہ کسی طور گھڑی دو گھڑی کے لئے شادو سے ملنے کی راہ نکال لیتا۔ یہ ایک خطر ناک رستہ تھا، جس پر دونوں چل رہے تھے ، مگر انہیں کسی کی پروانہ تھی۔ کہتے ہیں کہ حجاب جاتا رہے تو ہمت بڑھ جاتی ہے۔ امیر کی بھی اتنی ہمت بڑھ گئی کہ وہ زمیندار کی غیر موجودگی میں شادو کے گھر کے اندر چلا آتا۔ ملازمہ کو شادو نے کچھ زیور دے کر اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔
اب ایسا بھی ہونے لگا کہ حیات دوسرے شہر ہوتے ، تب شاد و کا گھر الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے کسی کو بھی خبر نہ ہوتی کہ کون کب رات کے اندھیرے میں گھر میں داخل ہوا اور کب نکل کر گلی میں غائب ہو گیا۔ حیات اکثر اپنی زمینوں پر جاتارہتا تھا۔ وہاں بھی اس نے ڈیرے بنائے ہوئے تھے۔ کبھی وہ ادھر ہی چند دن کو رہ جاتا۔ شادو نے اس کے جانے کی یہ نشانی مقرر کی تھی کہ وہ اپنے سرخ پر اندے کو اوپر کی منزل کی بالکنی پر باندھ کر لٹکا دیتی تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ حیات گاؤں میں نہیں ہے۔ رنگین دھاگوں کا یہ گچھا خالہ کی چھت سے نظر آتار ہتا تھا، جسے دیکھ کر امیر بے دھڑک آسکتا تھا۔ یہ بہت خطرناک بات تھی مگر دیوانے دل خطروں میں گھر جائیں تو پھر جان کی پروا نہیں رہتی تاہم ایسی ملاقاتیں زیادہ دیر تک نہیں چھتیں۔ ایک بار محلے کی ایک بوڑھی عورت نے رات کے وقت امیر احمد کو شادو کے گھر جاتے دیکھ لیا۔ اس نے اپنے شک و شبہ کا اظہار اپنے شوہر سے کیا، جو حیات کا پر انا ملازم تھا اور حیات نے اس اپنے گھر کے پچھلی جانب جس طرف نہر تھی، چند مرلے زمین عنایت کر کے اس پر رہنے کی اجازت دی ہوئی تھی۔ اب وہ بوڑھا ملازم ٹوہ میں رہنے لگا۔ ایک دن اس نے بھی امیر کو شادو کے گھر جاتے دیکھ لیا۔ اس نے اپنی وفاداری کی پاسداری کرتے ہوئے مالک کو دبے لفظوں بتادیا کہ اس نے کسی کو ان کے گھر کے دروازے کی طرف جاتے دیکھا ہے۔ مالک کے لئے اتنا اشارہ کافی تھا۔ اب حیات خود ٹوہ میں رہنے لگا کہ معلوم ہو ، اس بات میں صداقت ہے یا ملازم کی بوڑھی دید کا قصور ہے۔ حیات نے شادو سے اس بارے کوئی باز پرس کی اور نہ کوئی سوال کیا۔ اسے شبہ ہوا کوئی نشی یا چورا چکا ادھر کو نہ آنکلتا ہو گا، تاہم اس کا جی پریشان تھا۔ اگر کوئی اس کے گھر آتا بھی ہے تو کسی کے ذریعہ سے شادو اس آنے والے کو پیغام بھجتی ہو گی کہ میں گھر میں موجود نہیں ہوں۔ یہ سب سے زیادہ نا سمجھ میں آنے والی بات تھی۔ حیات کافی دنوں تک سوچ بچار میں رہا مگر اس بات کا ذکر اس نے کسی سے نہ کیا، شادو سے بھی نہیں۔ ایک روز اس نے اوپر کی منزل پر ایک بات نوٹ کی کہ برآمدے کی بالکونی میں ایک پراندہ بندھا ہوا ہے۔ ایک دن باہر سے آتے ہوئے اس کی نظر پر اندے پر پڑ گئی، لیکن جب گھر آیا اس بات کو معمولی سمجھ کر بھول گیا۔ بالوں میں تو سبھی دیہاتی عورتیں پر اندے باندھ لیا کرتی تھیں، لیکن شادو کبھی پراندہ نہیں باندھتی تھی۔ وہ ہمیشہ پونی کلپ یا پھر ربن سے بالوں کو سمیٹ کر باندھ لیتی تھی۔ ایک روز وہ کسی سوچ میں غلطاں کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ شادو پر اندے کو سنبھال کر الماری میں رکھ رہی ہے۔ یہاں سے حیات کے دل میں شک نے اور زیادہ جگہ بنالی کہ دال میں کچھ کالا دیکھا ہے تو کہا ہے ، ورنہ اس غریب کی ایسی جرات ؟ ایک روز حیات نے شادو سے کہا۔ دلشاد بیگم ! میں ایک ہفتہ کے لئے لاہور جارہا ہوں۔ کچھ کیسوں میں تواتر سے پیشیاں لگی ہوئی ہیں ، اس وجہ سے جلد نہ آسکوں گا۔ تم گھبرانا نہیں، چاہو تو جنت بی بی کو اپنے پاس سلا لینا۔ شادو نے صرف ایک لفظ جواب میں کہا۔ جی اچھا۔ زمیندار چلا گیا۔
شادو نے بوڑھی ملازمہ کو نہیں بلایا اور اسی شام بالائی منزل کی بالکونی میں رنگین دھاگوں کا بنا ہوا گچھا باندھ دیا۔ رات سے کچھ پہلے حیات گھر آ کر بڑی بیگم کے کمرے میں لیٹ گیا۔ آتے ہوئے اس نے دیکھ لیا تھا کہ شادو کی بالکونی میں رنگین دھاگوں کا گچھا لٹک رہا ہے۔ یکدم اس کے ذہن نے الارم بجادیا کہ کہیں یہ سرخ پر اندہ تو کسی سگنل کا کام نہیں دیتا؟ بڑی بیوی سے اس نے کہا کہ راستے میں ، میری طبیعت ناساز ہو گئی، میں واپس چلا آیا لیکن یہ بات شادو کو پتا نہ چلے ، ورنہ وہ پریشان ہو جائے گی۔ صبح سویرے جا کر ڈاکٹر کو دکھاؤں گا، یوں بھی مجھے شہر جانا ہی ہے اگلے دن وہ نماز فجر کے وقت شہر چلا گیا لیکن شام کو واپس لوٹ آیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے آتے ہی شادو نے بالکونی سے پراندہ اتار کر الماری میں رکھ دیا اور کام کاج میں مشغول ہو گئی۔ حیات نے الماری سے پر اندہ نکالا اور اوپر جا کر پھر سے بالکونی میں باندھ دیا۔ رات ہوئی تو زمیندار نے کہا کہ میں بڑی بیگم کی طرف سونے جارہا ہوں اور وہاں سے ہی چار بجے صبح لاہور چلا جاؤں گا۔ تم سب دروازوں کی کنڈیاں بند کر لینا۔ کہیں کوئی بھولے سے کھلی نہ رہ جائے۔ جی اچھا۔ شادو نے حسب معمول دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ رات ہو گئی۔ شادو نے صحن کی طرف کنڈی لگائی مگر گلی کے دروازے کی کنڈی کھول رکھی۔ رات ذرا بھیگی تو شادو کو نیند آگئی، تب حیات اپنے بستر سے اٹھ کر گھر کے دوسرے کمرے میں جا لیٹا کہ شاید آج اتفاق سے شکار ہاتھ آجائے۔ وہ تو اندازے سے چھت پر گھات لگائے بیٹھا ہوا تھا مگر قسمت نے اس کا ساتھ دیا۔ شام کو ہی امیر خالہ کے ہاں آگیا اور کہنے لگا۔ خالہ آپ سے وعدہ کیا تھا کہ شہر ڈاکٹر کے پاس لے چلوں گا، تبھی شام کو آگیا ہوں۔ خالو بڑے بیٹے کی طرف ہوتے ہیں آپ کو کون اسپتال لے جائے گا۔ ارے بیٹا ! اب تو میر ابخار اتر گیا ہے، کل تک تمہارے خالو بھی شاید آجائیں۔ اب اسپتال جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹھیک ہے خالہ ، جیسی آپ کی مرضی، میں چلتا ہوں۔ رات پڑ جائے گی تم کو گھر جاتے جاتے ، تم یہیں سو جاؤ ، صبح چلے جانا۔ ٹھیک ہے خالہ جی۔ امیر نے کسی فرمانبردار بیٹے کی طرح کہا اور دوسرے کمرے میں سونے چلا گیا۔ امیر نے خالہ کے گھر کی طرف آتے وقت بالکونی میں سرخ پر اندہ لڑکا ہوا د یکھ لیا تھا۔ وہ سمجھا کہ حیات آج گاؤں سے باہر ہے ، یوں وہ آدھی رات کو دبے قدموں شادو کے گھر چلا گیا۔ دروازے کی کنڈی نہیں لگی تھی، صرف پٹ بھرے ہوئے تھے ، جن کے آگے این اینٹیں رکھی ہوئی تو تھیں۔ امیر آہستگی سے بھڑے ہوئے پٹ کھول کر اندر جا پہنچا۔ اس وقت زمیندار چھت پر سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں پستول تھا۔ دروازہ ابھی تک کھلا ہوا تھا تا کہ اسے فوری طور پر بھاگنا پڑے تو بھاگ سکے۔ بھاگنے کی حیات خان نے نوبت نہ دی۔ اس نے دیوار اٹھا کر ایک گھر کے دو گھر بنا دیئے تھے لیکن چھت تو ایک ہی تھی۔ حیات دبے پاؤں زینے سے اترا اور سیدھا شادو کے کمرے میں پہنچا جہاں، وہ اور امیر بیٹھے ہوئے تھے۔ یکا یک فائر کی آواز سنی گئی اور دو روحیں ایک ساتھ قفس عنصری سے آسمان کی طرف پرواز کر گئیں۔ صوفے اور کمرے کے فرش پر خون بکھرا ہوا تھا۔ حیات خان خود تھانے چلا گیا۔ اس کو چند سال کی سزا ضرور ہوئی لیکن اس واردات کو مدتوں تک گاؤں والے نہیں بھلا یائے۔