Thursday, May 2, 2024

Bayjor Rishte

جب امی ابا سیلاب کی نظر ہو گئے تو میرا ٹھکانہ چچا کا گھر بنا۔ چچا چچی نے ماں باپ کا پیار دیا کہ میں نے والدین کی کمی بھلا دی۔ کسی یتیم کو لاکھ پیار دیں، والدین کی بات اور ہی ہوتی ہے۔  بھری دنیا میں کوئی تو ایسا ہو گا جس کو میں اپنا کہہ سکوں گی اور جو ہر حال میں میرا ساتھ دینے والا ہو گا۔ میٹرک میں تھی کہ چچا، چچی کو میرے بیاہ کی فکر لاحق ہو گئی۔ وہ ڈرتے تھے کہ اگر غلط جگہ بیاہ دیا تو لوگ ہمیں ہی الزام دیں گے۔ ان دنوں میرے لئے کافی اچھے رشتے آرہے تھے لیکن چاچی کسی نہ کسی وجہ سے انکار کر دیتے تھے، پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم سجیلہ کی اپنی بہو بنا لیتے ہیں، گھر کی لڑکی گھر میں رہے گی اور ہم کو دعائیں دے گی۔ چچا کا بیٹا عبد الرحمن ان دنوں ٹریننگ کر رہا تھا۔ اس کا سلیکشن بطور آفیسر ہو چکا تھا۔ وہ ساتویں جماعت سے ہی اکیڈمی چلا گیا تھا، اس وجہ سے، نہ تو میں اس سے مانوس تھی اور نہ وہ مجھ پر مہربان۔ اس کی عادت عجیب تھی جب وہ چھٹیوں میں گھر آتا، سب سے الگ تھلگ رہتا۔ بے حد سنجیدہ طبیعت کا مالک تھا۔ زیادہ تر اپنی پڑھائی میں مشغول رہتا۔ وہ اپنے والدین سے بھی کم بات کرتا تھا۔ وہ مجھ سے دس برس بڑھا تھا۔ ہمارے درمیان اتنی اجنبیت تھی کہ بات کرنا تو درکنار میں اس کے سامنے بھی نہیں جاتی تھی۔ جب میں نے سنا کہ میری شادی عبد الرحمن سے ہو رہی ہے تو بہت گھبرائی۔ اسے بھی والدین کا فیصلہ پسند نہیں آیا۔ اس نے صاف انکار کر دیا، لیکن نے بیٹے پر اس قدر دبائو ڈالا کہ وہ پریشان ہو گیا۔ جو نہی ٹریننگ ختم ہوئی، چچا نے اس کی مرضی کی پروا کیے بغیر شادی کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اس نے ماں سے کہا کہ تمہاری خاطر میں سہرا باندھ لوں گا مگر سجیلہ کہ کوئی خوشی نہیں دے سکوں گا۔ شادی کی رسومات تک وہ خاموش رہا لیکن جب رات کو میرے کمرے میں آیا۔ اس نے میرا گھونگٹ بھی نہیں اٹھایا۔ میں بیچ پر دلہن بنی بیٹھی تھی اور لاکھوں اندیشے میرے دل میں تھے۔ اس نے کہا۔ پلیز ! اپنا گھونگٹ خود اٹھا لو، میں ان تکلفات کو پسند نہیں کرتا۔ میں ساکن بیٹھی تھی حجاب مانع تھا مگر اب خفت محسوس ہونے لگی۔ کیا میں چلا ئوں؟ اس نے کہا تو میں سہم گئی اور جلدی سے گھونگٹ اٹھادیا، تبھی وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔ سیدھے طریقے سے دوپٹہ اوڑھو اور میری بات غور سے سنو۔ زندگی مذاق نہیں ہے کہ اس کو دوسروں کی خوشی کے لئے بسر کی جائے۔ میرا دل تم کو قبول نہیں کرتا۔ یہ بات میں نے امی اور ابو کو سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر وہ نہیں سمجھ سکے ، لہٰذا اب میں ہمیشہ کے لئے اس گھر سے جارہا ہوں۔ میں سیج پر دلہن بنی بیٹھی رہی اور وہ چلا گیا۔ گویا اس نے اپنے والدین کے کئے کی سزا مجھ کو دی، پھر نہ تو میں نے زندگی بھر عبدالرحمن کا منہ دیکھا اور نہ خوشی کا۔

چچا اور بچھی خود کو میرا مجرم سمجھنے لگے اور میں خود کو، کہ جس کی وجہ سے ان کا جوان بیٹا گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ بعد میں عبد الرحمن جس کو چاہتے تھے انہوں نے اسی لڑکی سے شادی کر لی۔ اب وہ کبھی کبھی اپنی ماں سے فون پر بات کر لیتے تھے۔ چچا نے تو کہہ دیا تھا کہ میں زندگی بھر اس بیٹے کی صورت نہیں دیکھوں گا، جس نے یتیم کا خیال نہیں کیا۔ ان دنوں میرے دل کی کیفیت نا گفتہ بہ تھی۔ لوگ آکر افسوس کرتے، میں ٹکر ٹکر ان کو دیکھتی۔ ایک بات ضرور ہوئی کہ اب وقت کاٹے نہیں کہتا تھا۔ میں دن میں کئی بار شادی کی تصویروں والی البم نکال کر دیکھتی، جس میں عبد الرحمن کے ساتھ دلہن بنی بیٹھی تھی ، ہم ایک صوفے پر کتنے قریب بیٹھے ہوئے تھے جیسے سچ مچ ایک دوسرے کے ہو گئے ہوں۔ تصویروں میں اس کا چہرہ دیکھتے دیکھتے اب مجھ کو ان سے انسیت کی ہو چلی تھی۔ اس کے نقوش میرے دل پر جمنے لگے تھے۔ اک کسک سی ہونے لگی۔ میں ہر سو اس کے نقوش ڈھونڈنے لگی اور چار برس یونہی گزر گئے۔ ایک روز دوپہر کے قریب در پر دستک ہوئی۔ میں صحن میں کھڑی تھی، دروازے کے قریب جاکر پوچھا۔ کون ہے ؟ جواب ملا۔ آپ کی رجسٹری ہے ، وصول کر لیجے ، تبھی چی آگئیں۔ رجسٹری میرے نام تھی۔ سہاگن کہلائے بنا ہی طلاق نامہ بھی آگیا، یوں ایک دلہن کی تشنگی تشنگی و محرومی حسرتوں کی چادر اوڑھ کر سو گئی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ جس کا انتظار تھا وہ اب کبھی نہیں آئے گا۔ یہ بھی اک کرب رائیگاں میرے نصیب میں تھا جو میں نے سہ لیا۔ اس سانحے کے بعد میری زندگی میں ایک نیا موڑ بھی آنا تھا۔ یہ سردیوں کے دن تھے۔ شام کو الگنی سے کپڑے اتار نے گئی تو جھٹپٹے کا سماں تھا۔ سورج تقریباً غروب ہونے والا تھا۔ میرے ساتھ میری ایک سہیلی بھی تھی ہم دیوار کے ساتھ کھڑے نیچے کو دیکھ رہے تھے۔ مارکیٹ میں لوگ رواں دواں تھے، سامنے ہی ایک ریسٹورنٹ تھا۔ وہاں سے وہ بھی نکلا، بالکل عبدالرحمن جیسا۔ پہلی نظر میں تو میں یہی سمجھی کہ وہی ہے۔ میں  اس کو دیکھے جاتی تھی۔ یہاں تک کہ ندرت نے میرا کندھا ہلا یا تو میں چونکی۔

ابھی ہم وہاں کھڑے ہی بات کر رہے تھے کہ میں دل تھام کر رہ گئی۔ وہ ہماری چھت سے ملی چھت پر پہنچ گیا تھا۔ تبھی ہم دونوں جلدی جلدی کپڑے جمع کر کے نیچے آگئے۔ آج پہلی بار کسی کو دیکھ کر دل دھڑکا تھا۔ میں گھبرا کر بالکونی میں گئی دیکھا، وہ ساتھ والی بالکونی میں موجود تھا۔وہ عبد الرحمن کی دوسری کاپی تھا۔ مجھ کو اس کے چہرے میں وہ کشش نظر آئی جو کبھی عبدالرحمن کے چہرے پر بھی نظر نہیں آئی تھی۔ ہم دوبارہ چھت پر چلے گئے۔ میں نے مڑ کر دیکھا ، وہ بھی چھت پر تھا، تبھی میں نے کہا۔ تم پھر آگئے ؟ وہ بولا۔ ہاں ، میں نے پڑھنا جو ہے۔ تو جا کر پڑھو، یہاں چھت پر کیا کر رہے ہو ؟ بالکونی سے چھت پر تار لا کر بلب لگانے کا جتن کر رہا ہوں۔ آپ کو کوئی مسئلہ ہے تو کہیں اور چلی جائیں۔ میں نے کہاں جانا ہے، یہ میرا اپنا گھر ہے۔ میں نے تنک کر جواب دیا۔ آج ساری رات پڑھنا ہے، صبح میرا پیپر ہے ورنہ آپ سے بات کرتا۔ ایک ہفتہ وہ نظر نہ آیا۔ میں روز بعد ایک شام میں اپنی بالکونی میں کھڑی تھی کہ وہ نظر آ گیا۔ پوچھا  میرا نام آپ کیسی ہیں ؟ اس نے گفتگو کی ابتدا کی۔ میں چپ رہی۔ میں نے آپ کو مخاطب کیا ہے جناب ! آپ کا نام کیا ہے ؟ آپ کا نام کیا ہے ؟ میرا  نام عبد الرحمن ہے۔ میں دنگ رہ گئی۔ اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ یہ لفظ بارش کے ٹھنڈے قطروں کی مانند میرے دل پر ٹپک پڑا۔ کل شام کو اسی جگہ بات ہو گی۔ یہ کہہ کر وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ میرا خیال تھا کہ کسی پڑوسی نے اسے میرا حال کہہ دیا ہو گا اور یہ بھی کہ عبدالرحمن ایک رات کی دلہن کو الوداع کہہ کر چلا گیا تھا۔ سوچا کسی نے جانے کیا قصہ اسے سنایا ہے، میں خود ہی سچ بتادیتی ہوں۔ میں نے اسے خط لکھا کہ دیکھو! میرے اندر اب مزید دکھ برداشت کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ کل کو ایسا نہ ہو کہ آپ آپ جے چلے جائیں اور آپ کا مذاق میرے لئے عمر بھر کا روگ بن جائے۔ شام کو جو نہی وہ نظر آیا، میں نے خط کو مروڑ کر اس کی بالکونی میں پھینک دیا۔

اگلے دن اس نے خط کا جواب دیا۔ لکھا تھا، میں کوئی برا انسان نہیں۔ میرا جو نام ہے وہی بتایا ہے ۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو بے شک مجھ سے بات نہ کریں۔ آپ اپنی مرضی کی مالک ہیں اپنی شخصی آزادی کو عزیز رکھیئے۔ اس کے بعد کئی دن تک اس نے میر اسامنا نہ  کیا تو دل میں دکھن سی محسوس ہوئی۔ لگتا تھا کہ میر اسکون ہی نہیں دل بھی کسی نے چرا لیا ہے۔ اب وہ وقت میرے آنکھیں اسے تلاش کرتی رہتی تھیں۔ ایک دن ندرت آئی تو وہ مجھے چھت پر لے گئی۔ وہاں وہ موجود تھا۔ اس نے سلام کیا اور بولا۔ دعا کرنا کہ میں امتحان میں شاندار کامیابی حاصل کرلوں۔ میں چپ رہی، لیکن چپکے چپکے میں اس کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگتی رہی۔ دعا قبول ہو گئی۔ اسے شاندار کامیابی نصیب ہوئی۔ محنت کی تھی تو اس کا صلہ بھی ملا، اس نے پوزیشن لی تھی۔ اگلے دن بالکونی سے بات ہوئی۔ اس نے بتایا کہ وہ عید کرنے لاہور جارہا ہے۔ جی اداس ہو گیا۔ جب وہ دس دن کے بعد آیا تو پریشان ساتھا۔ ہم چھت پر ملے۔ میں نے بتایا کہ چچا جان میرے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کوئی رشتہ بھی پسند کر لیا ہے۔ کہیں سے بھی رشتہ آئے انکار کر دو اور میرا انتظار کرو۔ وہ جانتا تھا، میرے ماں باپ نہیں ہیں پھر میں کیسے تنہا زندگی گزاروں گی۔ ندرت نے مجھے سمجھایا کہ تم اس سے چھت پر نہ ملا کر و۔ کسی بھی وقت کوئی تم لوگوں کو دیکھ سکتا ہے تم بد نام ہو جائو گی۔ تو ہم کہاں جا کر بات کریں؟ بہتر ہے کہ تم میرے گھر پر مل لو۔ عبدالرحمن کو میں نے یہ بات بتائی ، وہ مان گیا۔ میں ندرت کے گھر گئی۔ اس نے ہم دونوں کو ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔ ہم نے سکون سے کچھ دیر بات کی۔ عبد الرحمن نے مجھے اپنا پتا بھی لکھ کر دے دیا۔ کہنے لگا کہ اب واپس گھر یعنی لاہور جانا ہے، یہاں پڑھنے کے لئے آیا تھا لیکن تم فکر نہ کرنا، میں ایک ماہ کے اندر اندر اپنی والدہ کو لے کر آئوں گا اور وہ تمہارے چچا سے رشتہ مانگ لیں گے۔ اس دوران اگر کوئی رشتہ آئے تو تم ہر گزہاں مت کرنا۔ چلتے ہوئے ندرت نے اس سے پوچھا۔ پتا تو صحیح لکھ کر دیا ہے نا؟ کیوں ، کیا میں دھو کے باز لگتا ہوں ؟ کیا میرا اعتبار نہیں ہے۔ اعتبار تو ہے لیکن ہم جیسے بے وقوف دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ندرت نے میری طرف دیکھ کر اسے جواب دیا تھا۔ ایک ماہ نہیں چھ ماہ گزر گئے اور وہ نہیں آیا۔ مجھے کچھ کچھ اندازہ ہو چلا تھا کہ میں نے ایک بے بنیاد شخص سے امید لگا لگی تھی۔ انہیں دنوں اتفاق سے میرے لئے دور شتے آئے۔ میں نے انکار کیا۔ چچا جان نے وجہ پوچھی ، میں کچھ نہ بتا سکی۔ دل تو یہی چاہتا تھا کہ انہیں رورو کر اپنے دل کا حال سنادوں۔ چھ ماہ بعد وہ آیا، لیکن صرف ایک دن کے لئے۔ میری آنکھوں میں نور بھر گیا۔ جی چاہا اس کو تحفہ دوں مگر میرے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی، پھر میں نے اس کو ایک چھوٹا سا ماڈل بنا کر دیا۔ وہ ماڈل گھر کا تھا۔ اچھا تو نہیں تھا لیکن جب میں نے اس کو بنا کر دیا تو اس نے اس کے دروازے بند کر کے مجھے واپس کر دیا۔ جب کہ میں نے دروازے کھول کر دیا تھا۔ اس نے مجھے سامنے والی بلڈ نگ مجھے دکھائی کہ اس میں شفٹ ہو رہا ہوں۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ شہر ہی چھوڑ کر جارہا تھا لیکن مجھے احساس نہیں ہونے دیا تبھی میں نے اسے کہا کو تھا کہ اگر تم چلے گئے تو کیا ہو گا؟ میر اپنا تمہارے پاس ہے ، تم مجھے خط لکھ دینا۔ تبھی ایک بار اور سوال کیا۔ کب اپنی امی لائو گے۔ کہا کہ کل لے آئوں گا اور کل نہ لا سکا تو پھر پر سوں ، مگر وہ پلٹ کر ہی نہ آیا۔ میں نے اس کے دیئے پتے پر کئی خط لکھے ، کوئی جواب نہیں آیا۔ اس دوران میرے چچا تین بار رشتہ لائے میں انکار کرتی رہی۔ ایک دن ہمارے گھر ایک بزرگ اور دو خواتین آئیں۔ ان میں سے ایک عورت کا بیٹا آفیسر تھا وہ کوٹھی تک لکھ دینے کو تیار تھے۔ چچانے ایک بار پھر سمجھایا، تب عبدالرحمن کو گئے کئی ماہ ہو چکے تھے۔ مجھے اس کی یہ بات یاد آئی کہیں کوئی  غلطی نہ کر بیٹھنا، میں آئوں گا۔ میرا انتظار کرنا۔ چچا مجھ سے ناراض ہونے لگے میں نے ان کے آگے ہاتھ جوڑے، تب انہوں نے کہا کہ تم خود ان کو جواب دے دینا۔ چھی چاہتی تھیں کہ میری شادی ہو ، اپنے گھر جائوں تو وہ اپنے بیٹے اور بہو کو منا کر گھر لے آئیں کہ میری وجہ سے وہ اس گھر میں نہیں آ سکتے تھے۔ ندرت نے اپنی باجی کو فون پر عبد الرحمن کا پتا لکھوایا کہ خود جا کر اس پتے پر معلوم کریں کہ وہاں ہیں کہ نہیں ؟ اس کی باجی گئیں مگر پتا ہی غلط تھا۔ آج اس بات کو آٹھ برس ہو چکے ہیں۔ چچی وت ہو گئیں، چچا بھی بوڑھے ہو گئے ، مگر میری خاطر انہوں نے اپنے بیٹے کو نہیں بلایا۔ مجھے وہ عبدالرحمن، میرا چچازاد یاد نہیں آتا لیکن جو عبد الرحمن چھت پر ملا تھا اس کو میں کبھی نہیں بھلا سکتی۔ آج بھی میں بالکونی میں کھڑی اس کا انتظار کرتی رہتی ہوں، حالانکہ جانتی ہوں وہ لوٹ کر آنے والا نہیں …

Latest Posts

Related POSTS