ظہیر پتر ، یہ جو زنانیاں ہوتی ہیں نا! قسم سے بڑی بے وفا اور دھو کے باز ہوتی ہیں۔ وڈے سے وڈا نقصان کروا لینا، پر ان کی گل کا کبھی یقین نہ کرنا- چاچا وسائے نے بریانی والے شاپر میں سے مرغے کی آدھی ادھوری ٹانگ نکالی اور اس پر اپنے دانتوں کی تیزی آزماتے ہوئے اپنا فلسفہ بیان کرنے لگا۔ ظہیر نے ایک مسکراتی ہوئی نظر اس پر ڈالی اور کسی، جس سے وہ نہر کے ٹوٹے ہوئے بند کو دوبارہ باندھنے کی کوشش کر رہا تھا، ایک طرف رکھ کر صافے سے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے شیشم کے گھنے درخت کے سایے میں آکر بیٹھ گیا اور پاس پڑی پانی کی بوتل اٹھا کر منہ سے لگا لی۔ چاچا ! جس طرح سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتے ، ویسے ہی ساری کی ساری عور تیں بھی ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ “ اس نے چاچا وسائے کی باتوں میں دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔ ”میرے ساتھ یونیورسٹی میں بہت ساری لڑکیاں پڑھتی تھیں۔ وہ سب تو بہت اچھی اور رشتوں کو نبھانے والی تھیں۔“ اوئے تجھے نہیں پتا ان زنانیوں کے مکر کا یہ دکھاتی سجی اور مارتی کبھی ہیں۔ او ظہیر پتر ! عورت کی فطرت میں وفا ہے ہی نہیں۔ میں نے یہ بال دھپ میں چٹے نہیں کیے ، اک عمر گزاری ہے۔ چنگا بھلا بندہ بھی ان کے فریب میں آ جاتا ہے۔ آنسو تو ان کے پلو سے بندھے رہتے ہیں۔“ تو نے شادی اس لئے نہیں کی چاچا ! حالانکہ بقول تیرے، پورے پنڈ میں تیرے جیسا کوئی سجیلا اور گبھر وجوان تھا ہی نہیں ، ظہیر مسکراتے ہوئے بات کا رخ نہ موڑتا تو چچا وسایا، تمام عورتوں کو بے وفا ثابت کر کے ہی اٹھتا۔ ہک ہا. چاچا یوں کر رہا جیسے اس نے کوئی پر درد سی غزل سن لی ہو۔ ظہیر جانتا تھا کہ اب اس نے عمر گزشتہ سے تین چار معاشقے نکال لیتے ہیں، جنہیں چار و ناچار اسے سننا ہی پڑتا مگر بھلا ہو فضیلہ کا، جو عین وقت پر ، ایک طرف سے آتی دکھائی دی تھی۔ ”لے بھئی ! آگئی تیری ہیر ، روٹی لے کے چاچے نے اپنا ساز و سامان سمیٹنا شروع کر دیا۔ ” مجھے کباب میں ہڈی بننے کا کوئی شوق نہیں ہے ، اس لئے میں تو چلا وہ اٹھتے ہوئے بولا اور ایک گہری نظر ، دور سے آتی فضیلہ پر ڈالتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گیا۔
ظہیر کی نظریں سامنے سے آتی فضیلہ کے خوبصورت سراپا میں الجھ کر رہ گئیں۔ تراشیدہ ہونٹ، ساحرانہ بڑی بڑی سیاہ آنکھیں، گندمی رنگت …. وہ اس کے ملکوتی حسن میں کھو سا گیا۔ فضیلہ گاؤں کی سادگی بھری مخصوص خوبصورتی کی مجسم تصویر تھی۔ کیا آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے ہو ؟ پہلے کبھی نہیں دیکھا ! قریب آنے پر وہ اپنے مخصوص بلا جھجھک انداز میں بولی اور پھر ایک ادا سے مسکرائی۔ ظہیر کچھ جھینپ سا گیا۔ کیا کروں… جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں ، ایسا لگتا ہے جیسے پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں۔ تمہاری دید میں وہ بے خودی ہے، جو آس پاس کے ماحول سے بے گانہ کر دیا دیتی ہے اور میں بے اختیار سا ہو جاتا ہوں ۔ “ وہ یک ٹک فضیلہ – کے چہرے پر نظریں جمائے، خود کار سے انداز میں بولتا چلا گیا۔ وہ ایسا ہی تھا۔ اس کی تعریف گھنٹوں، بغیر رکے بول سکتا تھا۔ بس یہی نقصان ہوا ہے ہمیں تمہارے یونیورسٹی جانے کا … تم باتیں بڑی بڑی کرنے لگے ہو۔“ وہ خوبصورت دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے پورے دل سے مسکرائی۔ کہتے ہیں کہ محبت کرنے والے ایک دوسرے کی خاموشی کی زبان بھی سمجھ لیتے ہیں اور ایک تم ہو کہ میری اتنی آسان باتیں بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آتیں۔ “ ظہیر نے مذاق میں ایک سنجیدہ بات کہی تو فضیلہ جیسے اکتا سی گئی۔ فوه… ایک تو تم ایک بات کو پکڑ کر بیٹھ جاتے ہو۔ وہ کپڑے میں لپٹی روٹیاں نکالنے لگی۔ گفتگو میں بے زاری مطلب تعلق میں بے زاری … ظہیر کو اب اسے چھیڑنے میں مزہ آرہا تھا۔ فی الحال روٹی کھاؤ۔ مجھے معلوم ہے ، جب تمہارا بھوک سے برا حال ہوتا ہے تو ایسی اوٹ پٹ اوٹ پٹانگ باتیں تمہارے منہ سے نکلنے لگتی ہیں، جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ “ اس نے ساگ پر مکھن رکھتے ہوئے پلیٹ ظہیر کی جانب کھسکائی تو ظہیر مسکراتے ہوئے کھانے پر جھک گیا اور وہ تھوڑی ، ہتھیلی پر رکھے، ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھنے لگی۔ کیا دیکھ رہی ہو ؟ کافی دیر بعد بھی جب اس نے نظریں نہ ہٹائیں تو وہ پوچھے بنا نہ رہ سکا۔ بس ایسے ہی … جیسے تمہارا مجھ سے باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے ، ویسے ہی میرا تمہیں دیکھتے رہنے کو دل کرتا ہے۔“ فضیلہ نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا تو عورت سے متعلق خیالات جو ابھی کچھ دیر پہلے چا چاو سایا اس کے دماغ میں انڈیل کر گیا تھا، غلط محسوس ہوئے۔ چاچا وسائے نے ابھی عورت کی بے وفائی دیکھی تھی۔ اس کی وفا اور محبت دیکھتا تو یقیناً اپنے نظریات بدل لیتا اور ویسے بھی کسی ایک کی بے وفائی کا الزام ، ساری جنس پر لگا دینا کہاں کی دانش مندی ہے۔ ظہیر نے سر جھٹکا اور ساری توجہ سامنے بیٹھی فضیلہ کی جانب مرکوز کردی۔ رات کے کھانے کے بعد ظہیر نے چار پائی حویلی کی چھت پر ڈالی ہی تھی کہ جیب میں پڑا مو بائل بج اٹھا۔ اس نے فون نکال کر دیکھا۔ ذیشان کا نام دیکھتے ہی اس کے ہونٹوں پر ابھرنے والی مسکراہٹ بڑی بے اختیار تھی۔ ہیلو ! کمینے انسان ، کہاں فوت ہو گیا تھا ؟ اس نے چھوٹتے ہی بغیر لحاظ کہا۔ ” تجھے معلوم ہے ، میں نے کتنی بار تیرا نمبر ملایا اور ہر مرتبہ مجھے آپ کا ملایا ہوا نمبر بند ہے“ والی منحوس ریکار ڈ نگ سننا پڑتی تھی۔“ اس نے ذیشان کی سنے بغیر بے نقط سنانا شروع کر دیں۔ یار ! سانس تو لے کچھ میری بھی سن لے بھائی ! ذیشان نے تقریباً منت کرنے والے انداز میں کہا تو وہ تھما۔ ظہیر کا غصہ جائز تھا۔ ان دونوں نے ایک ہی یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ظہیر واپس گاؤں آگیا تھا جبکہ ذیشان نے اپنے والد کا بزنس سنبھال لیا تھا۔ کچھ عرصہ تو ان کے درمیان رابطہ رہا، پھر نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ ذیشان کا نمبر بند ہوا تو پورے ڈھائی سال بند ہی رہا۔ ظہیر نے اتنی دفعہ اس کا نمبر ملایا تھا مگر اس کی طرف جامد خاموشی ہی رہی اور اب اچانک اتنے عرصے بعد اس کا فون آگیا۔ تیرے سارے گلے شکوے دور کرنے آرہا ہوں۔ ذیشان نے چہکتے ہوئے اسے بتایا۔ کیا مطلب ..؟ ظہیر نے نہ سمجھنے والے انداز میں پوچھا۔ ارے تیرے پاس آرہا ہوں، تیرے گاؤں … 66 واقعی ظہیر نے تقریباً چیختے ہوئے پوچھا۔ ”کب ؟ کل رات کا کھانا تیرے پاس کھاؤں گا۔ کوئی بکرا بچھڑا گرا رکھنا .. تو پہنچ تو سہی ، گائے بھینس بھی گرا لیں گے۔ “، ظہیر نے پر جوش انداز میں کہا۔
چل ٹھیک ہے ، کل ملتے ہیں۔ “ ذیشان نے الوداعی انداز اختیار کیا تو ظہیر نے بھی اختتامی کلمات کہے۔ میں انتظار کروں گا۔“ یہ دوستی کارشتہ بھی بڑا عجیب ہوتا ہے ، ہر رشتے سے اہم ، ہر تعلق سے زیادہ خاص اور ہر بندھن سے زیادہ مضبوط۔ اگلے دن ذیشان، ظہیر کے پاس موجود تھا، جس کے ساتھ اس نے یونیورسٹی میں چار سال گزارے تھے۔ انہوں نے خوشی اور غمی کے بہت سارے لمحات ایک ساتھ دیکھے تھے۔ خوشیوں میں ساتھ ہنسے تھے تو اداسیوں میں ایک ساتھ اداس ہوئے تھے۔ دونوں نے ایک ساتھ زندگی کا بہت ساسر دو گرم جھیلا تھا۔ دوستی کا رشتہ ہوتا ہی ایسا ہے۔ دکھ سکھ سانجھے کر دیتا ہے۔ ایک دوسرے کا درد محسوس کرنے پر مجبور کر دیتا ہے اور دلوں کو ایک دوسرے کی محبت سے چور کر دیتا ہے۔ دوستی دنیا کا وہ واحد رشتہ ہے جو تعلق کو بوجھ نہیں بننے دیتا بلکہ ایک ایسا مضبوط کاندھا بنتا ہے جس کے سہارے ہر مشکل، ہر رکاوٹ پلک جھپکتے میں تسخیر تو کی جاسکتی ہے۔ دونوں رات کے کھانے کے بعد حویلی کی چھت پر چار پائیاں ڈالے، نیم دراز ، یونیورسٹی کی یادوں کو تازہ کر رہے تھے ۔ ان کے سرہانے والی چار پائی پر چا چاو سایا بے سدھ پڑا تھا۔ ان کے اونچے اور بلند و بانگ قہقہوں سے اس کی نیند لمحہ بھر کے لئے ٹوٹتی اور وہ کچھ بڑ بڑاتے ہوئے کروٹ بدل کر پھر سو جاتا۔ یار ظہیر ! ویسے ایک بات ہے۔ شہری لڑکیاں تیرے پینڈو مکھڑے پر مرتی بہت تھیں۔ تیری ان گھنی مونچھوں اور شلوار قمیض تلے پشاوری چپل نے بیچاریوں کو چاروں شانے چت کر رکھا تھا۔ ذیشان نے آنکھ دباتے ہوئے معنی خیز انداز میں کہا تو ظہیر جھینپ گیا۔ اس کے اس طرح جھینے پر ذیشان نے ایک اور جاندار قہقہہ لگایا اور بولا ۔ ” یار تو ابھی بھی ویسے کا ویسا ہی ہے شرمیلا، ذرا بھی نہیں بدلا ۔ میرے بھائی بدل جا، اب تو لڑکیاں بھی ایک بوائے فرینڈ پسند نہ آئے تو دوسر ا چننے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتیں۔“ ایسی بات نہیں ہے ، بس گاؤں والی مخصوص جھجک نہیں جاتی ، ظہیر مزید جھینپ گیا۔ یار ! تو کیوں بھول جاتا ہے کہ تو چار سال یونیورسٹی میں گزار چکا ہے اور یونیورسٹی کے کھلے ڈلے ماحول میں تو اچھی خاصی دبولڑ کی بھی پر پرزے نکال لیتی ہے، تو تو پھر مرد ہے۔ “ ذیشان آج ہی اس کی ساری جھجک ختم کرنے پر تلا بیٹھا تھا۔ بس یار ! میں ایسا ہی ہوں۔ تو بتا، تو کیا کم تھا۔ دوسروں کی گرل فرینڈ ز پر تیری رال ٹپکنے لگتی تھی۔“ ظہیر نے جوابی وار کیا تو وہ خجالت سے سر کھجانے لگا۔ بس یار ! کیا کروں… عادت سے مجبور تھا۔“ تو وہ عادت اب بھی برقرار ہے یا چھوٹ گئی ؟ ظہیر نے پوچھا۔ عادتیں اتنی آسانی سے کہاں چھوٹتی ہیں میرے دوست !“ اس نے معنی خیز انداز میں کہا تو ظہیر تاسف سے سر ہلا کر رہ گیا۔ یہ بتا ! یہ بیچ کے ڈھائی سال کہاں کی خاک چھان رہا تھا ؟ اس نے ذیشان کو کڑے تیوروں سے گھورتے ہوئے پوچھا ارے یار ! خوب یاد دلایا۔ بس ، اکتا گیا تھا زندگی سے.. اس لیے دنیا کی سیر کے لئے نکل گیا۔ مالی مسائل تو تو جانتا ہے کہ مجھے کبھی نہیں رہے۔ فکر نہ فاقہ ، عیش کر کا کا والا معاملہ تھا میرے ساتھ اس نے بے نیازی سے کہا اور ظہیر اسے دیکھ کر رہ گیا۔ ” ابھی پچھلے دنوں ہی لوٹا ہوں اور سب سے پہلے تجھ سے رابطہ کیا ہے۔ “ اس نے جیسے احسان جتایا کمینے انسان ! میرے علاوہ اور تجھے منہ کون لگاتا ہے۔ ظہیر نے آئینہ دکھایا تو وہ شرمندہ ہونے کے بجائے کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ ” جانے سے پہلے انسان کسی کو اپنے جینے مرنے کی خبر ہی دے دیتا ہے کہ میرے لئے اپنی آنکھوں کی بینائی ضائع مت کرنا کیونکہ میں ایک لمبے عرصے کے لئے کہیں دفعان ہو رہا ہوں۔“ ظہیر نے مزید لتاڑا۔ اب آگیانا، اتنی آسانی سے تیری جان نہیں چھوڑوں گا۔ تو بتا ! شادی کا کیا سین ہے ؟‘ ذیشان کے پوچھنے پر ظہیر کے چہرے پر ایک الوہی سی مسکراہٹ کھیلنے لگی اور پر وہ تصور پر فضیلہ کا چہرہ نمودار ہو گیا۔ ”بس یوں سمجھو کہ ہجر کی رات اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہے۔ “ اس نے آسودہ سی سانس خارج کرتے ہوئے خود کو چار پائی پر ڈھیلا چھوڑ دیا اور نظریں ستاروں بھرے آسمان پر جمادیں۔
مطلب تیری شادی ہونے والی ہے …؟ ذیشان نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے تکیے کی ٹیک چھوڑ دی ہاں، یہی سمجھ ظہیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ سمجھوں کیا مطلب ہونے والی ہے ؟“ وہ اچھل کر ظہیر کی چار پائی پر آ گیا۔ ارے ہاں یار ! اب کیا لکھ کر دوں ، ظہیر نے تنگ آکر کہا تو ذیشان اس کی گردن کو بازوؤں کے شکنجے میں جکڑ کر رگیدنے لگا۔ ا بے چھوڑ یار ! کیا کر رہا ہے۔ ظہیر نے خود کو اس کی گرفت سے چھڑانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے احتجاج کیا اچھی خاصی دھینگا مشتی کے بعد ذیشان نے ظہیر کو چھوڑ دیا۔ دو قسم سے یار ! بہت عرصے بعد کسی قریبی دوست کی شادی سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملے گا۔ میں تو خوب انجوائے کروں گا۔“ وہ واپس اپ اپنی چار پائی پر جا بیٹھا۔ چارپائی جابد ہاں ہاں ، کر لینا جی بھر کے انجوائے ۔ ظہیر نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا اور ذیشان کے کھلتے چہرے سے اس کی اندرونی خوشی کا اندازہ کرنے لگا۔ وہ کوئی غیر ضروری سا کام کر رہی تھی جب اچانک ہی اسے ظہیر کا خیال آیا۔ بے اختیار اس کا دل چاہا کہ وہ ایک نظر اسے دیکھ آئے۔ وہ خیالوں ہی خیالوں میں خود کو ظہیر کے رو برو دیکھ کر مسکرائی اور دو پٹہ سر جماتے ہوئے ظہیر کی حویلی کی طرف چل پڑی۔ پچھلی گلی میں ہی تو گھر ر تھا۔ تو اس کا خیال تھا تھا کہ کہ وہ وہ گھر گھر پر پر ہی ہو گا لیکن لیکن اس کے اندازے میں چوک ہو گئی تھی کیونکہ جیسے ہی وہ دروازے سے اندر جانے لگی، باہر نکلتے کسی اجنبی سے ٹکرا گئی۔ تصادم اتنا شدید تھا کہ وہ پورے وجود سے ہل کر رہ گئی۔ اوئی اللہ جی بے اختیار فضیلہ نے اپنا کندھا پکڑ لیا جوا جنبی کے مضبوط شانے سے ٹکرا گیا تھا۔ اجنبی نے اسے اپنی پُر شوق نگاہوں کے حصار میں لے لیا۔ پہلے تو وہ تھوڑی جزبز ہوئی پھر شدید کوفت میں اس کے تیور بگڑے، لیکن پھر خیال آیا کہ وہ ظہیر کے گھر سے نکل رہا تھا تو یقینا اس کا جاننے والا ہی کوئی ہو گا۔ آپ کی تعریف ! وہ خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اجنبی سے مستفسر ہوئی۔ ناگواری کی شکنیں اس کے چہرے پر البتہ واضح دیکھی جاسکتی تھیں۔ یہی تو میں آپ سے پوچھنا چاہ رہا ہوں۔ “ مقابل بھی غالباً ڈھیٹ مٹی کا بنا ہوا تھا۔ سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے اطمینان سے مسکرایا۔ دیکھیں ! آپ جو کوئی بھی ہیں، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں لیکن آپ چونکہ ظہیر کے مہمان ہیں تو مجھے بس اتنا بتا دیجیے کہ ظہیر سے آپ کا کیا تعلق ہے ؟ چونکہ ظہیر پہلے محبت اور پھر منگنی کر کے سارے حق اسے ودیعت کر چکا تھا سو وہ کچھ بھی پوچھنے کا استحقاق رکھتی تھی۔ آپ ظہیر کے گھر بغیر کسی جھجھک کے داخل ہو رہی تھیں اور ہیں اس کا مہمان ہوں۔ اس کا مطلب ہے ہم دونوں کا کسی نہ کسی حوالے سے اس سے سے گہرا گہرا ت تعلق ہے، تو پھر کیوں نہ آپ ہی یہ بتانے کی زحمت کر لیں کہ آپ ظہیر کی کیا لگتی ہیں ؟ اگلا اسے تپانے کا پور اہتمام کئے بیٹھا تھا۔ فضیلہ کے غصے میں اس دفعہ حیرانی بھی تھی۔ عجیب شخص تھا، خواہ مخواہ سر پہ چڑھے جارہا تھا۔ میں ظہیر کی منگ پتا نہیں کیا سوچ کر وہ منگیتر کہتے کہتے رک گئی۔ ”کیوں ! میں کیوں بتاؤں آپ کو کہ میں ظہیر کی کیا لگتی ہوں ؟ آپ کوئی میری پھپھی کے پتر ہیں ؟“ وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اس کے سامنے تن کر کھڑی ہو گئی۔ اس کا یہ انداز ذیشان کو اتنا بھایا کہ وہ قبہ بہ لگا کر ہنس پڑا اور وہ اسے مشکوک نگاہوں سے گھورتی ہوئی ، اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر وہاں سے لوٹ آئی۔
اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں عجیب سا الہڑ پن تھا۔ اس ایک لڑکی کے وجود میں پوری کائنات تھی۔ وہ یوں اس کے حواس پر سوار ہوئی تھی جیسے اول شب کا سناٹا تمام رات ہر ذی نفس کو اپنے پر ہول حصار میں سموئے رکھتا ہے۔ اس کا خیال کسی آسیب کی طرح اس کے ذہن سے چپک گیا تھا اور وہ اسے سوچنے لگا۔ اس کا بے باک انداز ذیشان کو بھلائے نہیں بھولتا تھا۔ کیا لڑ کی تھی وہ فضیلہ کے خیال کے زیر اثر وہ بڑبڑایا۔ ” پر جو کوئی بھی تھی، کمال تھی، بے مثال تھی، شاندار تھی لیکن… لیکن وہ تھی کون اس کی سوچ کا گھوڑا اس ایک سوال پر آکر رک گیا تھا۔ ابھی وہ یہی کچھ سوچ رہا تھا کہ وسایا گھر میں داخل ہوا۔ ”ہاں بھئی شہری بابو ! کن سوچوں میں کھویا ہوا ہے ؟ چا چاو سائے نے اس سے پوچھا۔ وہ کھیتی باڑی میں عام استعمال ہونے والے اوزار برآمدے کے ایک کونے میں رکھنے جارہا تھا۔ ارے چاچا! بڑی لمبی عمر ہے تمہاری میں تمہیں ہی یاد کر رہا تھا۔ “ ذیشان اس کو دیکھتے ہی خوش ہو گیا۔ او پتر ! اتنی لمبی حیاتی کا میں نے کرنا ہی کیا ہے بھلا! تیری چاچی ساتھ ہوتی تو اور گل تھی۔ اس کے اپنے دکھ تھے اور خود ساختہ اگلا پے کا دکھ باقی سب دکھوں پر حاوی تھا۔ تو چاچا ! اب کون ساتم بوڑھے ہو گئے ہو۔ موڈ بناؤ، چاچی شاچی بھی ڈھونڈ کر لے آتے ہیں تمہارے لئے “ ذیشان نے اس کو چھیڑا۔ اوئے مخول نہ کر پتر ! یہ گل تو تو بھی چنگی طرح جانتا ہے کہ اب تیرے چاچے میں وہ پہلی والی گل نہیں رہی۔ باقی سب دل کو تسلی دینے والی باتیں ہیں۔ “ و سائے نے تاسف سے لبریز لہجے میں کہا تو ذیشان کی ہنسی نکل گئی۔ کیسی مایوسی والی باتیں کرتے ہو چاچا ! بندے کا دل جوان ہو تو جسمانی بڑھاپا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ “ اس کی دلچسپ باتوں میں ذیشان اپنی اہم بات بھول گیا تھا۔ او یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ اپنی عیاشیوں کو نہ چھوڑنے کا بہانہ بنایا ہوا ہے ان پیسے والوں نے … ور نہ بڑھاپے سے وڈی حقیقت اور عبرت کوئی نہیں ہے دنیا میں۔ “ چاچا صافے سے ماتھے کا پسینہ صاف کرتے ہوئے اس کے پاس ہی بیٹھ گیا اور اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بولا۔ ” میری اک گل یاد رکھیں ذیشان پتر ! ہر عمر کا ایک وقت ہوتا ہے۔ جوانی میں بچپن اور بڑھاپے میں جوانی کے دھوکے میں رہنا، بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔“ اس کے سمجھانے والے انداز پر ذیشان نے اسے تو صیفی نظروں سے دیکھا۔ وہ پڑھا لکھا نہیں تھا مگر باتیں دانشوروں جیسی کرتا تھا۔ سچ کہا ہے کسی نے ، علم ڈگریوں کا محتاج نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی جاہل کے جاہل ہی رہتے ہیں اور کچھ چا چاو سائے کی طرح ہوتے ہیں کہ اگر کچھ دیر ان کے پاس بیٹھ جائیں تو لگتا ہے دنیا جہان کا علم انہوں نے گھول کر پی رکھا ہے۔
یہ بتا کتنے دن یہاں رہے گا ؟ چا چاو سائے نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا۔ کیوں چاچا! تنگ آگئے ہو مجھ سے ؟ ذیشان نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ نہیں نہیں پتر ! ہم گاؤں کے سادہ مزاج لوگ ہیں۔ مہمانوں کی مہمان نوازی سے منہ موڑ نا ہمارے لئے ایسا ہی ہے جیسے گھر آئی ہوئی رحمت کو ٹھکرا دیناچاچا ! اب آیا ہوں تو کچھ دن رہوں گا۔ ویسے بھی میں اور ظہیر ایک عرصے بعد ملے ہیں۔ میں اگر جانا بھی چاہوں تو ظہیر مجھے اتنی جلدی نہیں جانے دے گا۔“ ہاں ، کہہ تو تو بالکل ٹھیک رہا ہے۔ تم دونوں کا یارانہ میں نے دیکھا ہے۔ بہت محبت ہے تم دونوں میں … اور ظہیر کی تو میں رگ رگ سے واقف ہوں۔ یاریاں نبھانے والا، جی دار پتر ہے میرا چاچاو سائے نے فخر سے یوں سینہ پھلایا جیسے ظہیر واقعی اس کا بیٹا ہو۔ کچھ رشتے ویسے بھی دنیا کے مروجہ اصولوں سے ماوراء ہوتے ہیں۔ انہیں سمجھنے کے لئے عقل کی نہیں احساس کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ عجیب اجنبی تھا، جو خود کو مانوس سا ثابت کرنے پر تلا بیٹھا تھا۔ ذیشان سے تصادم والا لمحہ فضیلہ کے ذہن سے چپک کر رہ گیا تھا۔ وہ اس منظر کی گرفت سے خود کو آزاد کرانے کی کوشش کرتی، لیکن دل اسے یاد کرنے میں لطف محسوس کرتا۔ وہ خود کو بار با یاد دہانی کرائی کہ وہ صرف اور صرف ظہیر کی ہے۔ اس پر اگر کسی کا حق ہے تو وہ صرف ظہیر کا ہے ۔ انہی سوچوں میں غلطاں تھی کہ مرکزی دروازہ ایک دھماکے سے کھلا اور ظہیر پر جوش ساندر داخل ہوا۔ میرے ساتھ آؤ فضیلہ ! میں تمہیں ایک ایسی ہستی سے ملواتا ہوں جو تمہاری طرح میرے دل کے بہت قریب ہے ظہیر اس کی کلائی پکڑ کر تقریباً کھینچتا ہوا اپنے ساتھ لے جانے لگا۔ سنو تو سہی .. میری بات تو سنو ظہیر ! وہ ظہیر کی مضبوط گرفت سے اپنی کلائی چھڑانے کی کوشش میں بے حال ہونے لگی۔ بے بسی کے احساس سے اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ وہ اسے جس سے ملوانا چاہتا ہے ، وہ اس سے پہلے ہی مل چکی ہے اور اب دوبارہ نہیں ملنا چاہتی۔ کچھ لوگوں سے محض ایک بار ملنا ہی کافی رہتا ہے۔ بار بار ملنے سے وہ اپنے سحر کے آکٹوپس میں اس بری طرح جکڑتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی انسان ان کی شخصیت کے شکنجے میں کہتا چلا جاتا ہے۔ ذیشان بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھا۔ بالآخر وہی ہوا، جس سے وہ ڈر رہی تھی۔ ظہیر نے اسے اس کے سامنے لاکھڑا کیا جس سے وہ کترار ہی تھی۔ جانتے ہو ذیشان ! یہ کون ہے ؟“ ظہیر کے چہرے پر دو باد باسا جوش تھا۔ ارے آپ اسے دیکھتے ہی ذیشان کے منہ سے نکلا۔ اس کے چہرے پر خوشگوار سی حیرت صاف نظر آرہی تھی۔ آپ دونوں پہلے مل چکے ہیں۔ ظہیر نے چہرے پر خوش کن تاثرات سجاتے ہوئے دونوں کو باری باری دیکھا۔
فضیلہ کے چہرے پر واضح گھبراہٹ تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اس منظر سے فوری طور پر ہٹ جائے اور پھر دوبارہ کبھی اس منظر کا حصہ نہ بنے۔ اس نے بچپن ہی سے اپنے ساتھ ظہیر کو دیکھا تھا اور اب کوئی اس قدر آسانی سے اس کی جگہ کیسے لے سکتا تھا مگر کیا کیجیے کہ لوٹنے والے آگئے تھے ، اور لٹنے والوں کو خبر ہی نہ تھی۔ ہاں یار! ایک سرسری سی ملاقات ہو چکی ہے ہماری … ذیشان نے مسکراتے ہوئے فضیلہ کے چہرے پر نظریں جمائیں تو وہ مزید حواس باختہ ہو گئی۔ حج جی جی ، ہم مل چکے ہیں آج صبح میں آپ کا ہی پتا کرنے آئی تھی۔ گھبراہٹ میں وہ یہ بھی بھول گئی کہ ظہیر اور اس کے درمیان کبھی آپ جناب والا تعلق رہاہی نہیں۔ وہ بچپن سے ہی اسے ”تم کہ کر مخاطب کرتی آئی تھی۔ واہ بھئی ! یہ تو اور بھی اچھی بات ہے۔“ ظہیر خور بھی اچھی بات ہے۔ “ ظہیر خوش ہو گیا مگر اس کا اگلا جملہ ذ ذیشان پر بجلی بن کر گرا۔ ” یعنی تم اپنی بھابھی سے مل چکے ہو ؟“ ظہیر روانی میں کہہ گیا مگر وہ اس بات سے یکسر بے خبر تھا کہ ذیشان کے چہرے کی رنگت یکبار کی بدلی اور پھر تاریکی چھاگئی تھی۔ یہ تمہاری منگیتر ہے ؟ اس کے حلق سے بمشکل پھنے پھنے سے الفاظ نکلے۔ کیوں تمہیں کوئی شک ہے ؟ ظہیر نے از راہ مذاق اس سے استفسار کیا۔ ن نہیں نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں۔ “ وہ گھبر اسا گیا۔ جن کے دل میں چور ہو وہ ایسے ہی گھبراجایا کرتے ہیں اور ذیشان کا گھبرانا تار ہا تھا کہ اس کے دل میں چور ہے۔ ظہیر اس کی گھبراہٹ بھانپ گیا۔ ارے یار ! گھبرا کیوں رہے ہو؟ میں اسے بھگا کر نہیں لایا، یہ واقعی میری منگیتر ہے ۔ “ اس نے مسکرا کر فضیلہ کو ہا کا سا اپنے ساتھ لگایا تو اس نے جھینتے ہوئے نگاہیں جھکا لیں۔ جبکہ ذیشان کے سکتہ زدہ وجود پر مزید جمود طاری ہو گیا۔ زندگی نے اسے عجیب دوراہے پر لا کھڑا کیا تھا۔ ایک طرف دوست اور دوسری طرف دل … وہ کرے، تو کیا کرے وہ جتنا سوچتا جار ہا تھا اس کا ذہن اتناہی الجھتا چلا جارہا تھا۔ ظہیر اسے بھائیوں کی طرح عزیز تھا اور رہی بات دل کی … تو دل کب رشتوں کی پروا کرتا ہے ؟ کب تعلقات کا لحاظ رکھتا ہے۔ اسے تو ہر حال میں وہ چیز چاہیے ہوتی ہے جس کی اسے طلب ہوتی ہے۔ ذیشان کے دل نے بھی ایسی چیز کی تمنا کی تھی جو اس کے اختیار میں نہیں تھی بلکہ اس کی تمنا کرنا بھی اسے زیب نہیں دیتا تھا۔ یہ سراسر رشتوں میں بد دیانتی ہوتی۔ کیا وہ بد دیانتی کا مر تکب ہوگا یا یار مار ثابت ہو گا ؟ یہ سوچ کر ہی اسے اپنے وجود سے کراہت محسوس ہونے لگی۔ دو نہیں ، میں دوست کی پیٹھ پیچھے وار کرنے والوں میں اپنا نام درج نہیں ہونے دوں گا۔“ اس نے خود کو مضبوط کرتے ہوئے خود کلامی کی اور دور افلاک سے کہیں پرے، قدرت اس کے مضبوط ارادے پر مسکرانے لگی۔
آج دوپہر کو جب وہ اسے کھانا دینے آئی تو بہت خاموش سی تھی۔ ظہیر نے اس کی خاموشی کو فورا بھانپ لیا۔ کیا بات ہے فضیلہ ! تم اتنی چپ چپ اور کھوئی ہوئی سی کیوں ہو ؟“ اس نے کسی کا گلاس منہ سے لگاتے ہوئے اس کو گہری نظر سے دیکھا تو وہ جیسے ایک دم خیالوں سے چونگی۔ دونن نہیں ، ایسی تو کوئی بات نہیں۔ “ اس نے صاف جھوٹ بولا، جو اتنا بھی صاف نہیں تھا کہ ظہیر کی محبت اسے جانچنے میں ناکام رہتی۔ کوئی بات تو ضرور ہے ، ورنہ تم اتنی اداس اور خاموش ، پہلے کبھی نظر نہیں آئیں۔ “ ظہیر نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا ۔ وہ خود بھی فکر مند نظر آنے لگا تھا۔ اس کے ماتھے پر تفکر کی گہری لکیریں تھیں۔ اسے فضیلہ کا کھویا ھو یا انداز کھلنے لگا تھ امیں بھلا کیوں اداس ہونے لگی … !“ وہ پھیکا سا مسکرائی اور بات کو مذاق کا رنگ دیتے ہوئے مزید گویا ہوئی۔ اداس تو وہ ہوتے ہیں جنہیں ان کی محبت نہ ملی ہو۔ میرا محبوب تو میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ مجھے کیا پریشانی ہو سکتی ہے بھلا اس کی بات ظہیر کو کتنا مطمئن کر پائی … اس کا تو اندازہ نہیں ہو سکا ، تاہم وہ اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے خاموش ضرور ہو گیا تھا، البتہ وہ خود یہ سوچ کر پریشان ہو گئی تھی کہ اس کے اندرونی انتشار کی کیفیت اس کے چہرے سے بھی عیاں ہو رہی تھی۔ جذبات کو خود تک محدود رکھنا ہی اصل ضبط ہوتا ہے۔ اسے اعتراف تھا کہ وہ ضبط قائم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ ☆.☆..☆ او کا کا ! ایک گل تو دس ..و سایا اور ظہیر ، مشین پر ڈھور ڈنگروں کے لئے چارا کاٹ رہے تھے ، جب و سائے نے کہا ۔ ظہیر کو یقین تھا کہ چاچا ضرور کوئی ایسی ہی بات کرے گا جس کا سنجیدگی کے ساتھ کا گی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ ” یہ تیر ایار تو پکا ہی ہو گیا ہے پنڈ آ کر اس کے جانے شانے کا کوئی پروگرام نہیں ہے ؟ اس نے کچھ اس انداز سے پوچھا کہ ظہیر کر ہنس پڑا۔ او چا چا ! وہ یار ہے اپنا، سجن بیلی ہے۔ وہ چاہے تو ساری زندگی رہ سکتا ہے یہاں … اس نے ذیشان کے حوالے سے جس کھلے دل کا مظاہر ہ کیا تھا، وہ چا چاو سائے کو اندر تک دہلا گیا۔ وہ جہاندیدہ شخص تھا۔ جانتا تھا کہ جہاں بہت بھروسہ ہو ، وہیں گہری گھات چھپی ہوتی ہے۔ اعتماد کے ساتھ کہیں بد اعتمادی سانس لے رہی ہوتی ہے۔ حد سے زیادہ یقین ہی انسان کی رسوائی کا سبب بنتا ہے۔ ظہیر اس کا بیٹا نہیں تھا مگر اس نے بیٹوں کی طرح ہی اسے گودوں کھلایا تھا۔ اس کی شیر خوارگی کی قلقاریاں آج بھی اس کے ذہن میں تازہ تھیں۔ وہ کیسے برداشت کر سکتاتھا کہ ظہیر کو کسی طرح کا دکھ پہنچے ۔ اس کا لاشعور کسی انہونی کا پتا دے رہا تھا۔ اسے خیالوں میں کھویا ہوادیکھ کر ظہیر نے پوچھا۔ ”کیا ہو گیا ہے چاچا ! کہاں کھوئے ہوئے ہو؟ کہیں کوئی بھولی بسری یاد تو نہیں آگئی ؟ ن نہیں، نہیں پتر میں تو بس یونہی و سائے نے خجالت سے بات ادھوری چھوڑ دی۔ ضروری نہیں کہ کوئی انسان کہیں کھویا ہوا ہے تو وہ ماضی میں ہی بھٹک رہا ہو گا۔ ہو سکتا ہے اس کی الجھن مستقبل کے حوالے سے ہو۔ آنے والا وقت بھی بعض اوقات پریشان کر دیتا ہے ۔ “ وسایا ایک دم سنجیدہ ہو گیا اور یہ اس کی عمومی حالت کے خلاف تھا کہ وہ اس طرح کی مفکرانہ قسم کی سنجیدگی اختیار کرے۔ ظہیر کے ساتھ بڑی عجیب صور تحال تھی۔ اس سے منسلک لوگ ایک ایک کر کے سنجیدگی کی زد میں آرہے تھے۔ فضیلہ ، وسایا اور ذیشان تینوں ہی اچانک ، کسی اور دنیا کے باسی ہو گئے تھے۔ ایسی دنیا، جہاں مسکراہٹیں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں ، خوشیاں دم توڑ دیتی ہیں اور ہنستے کھیلتے انسان دبیز اداسی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ پہلے فضیلہ کی مترنم ہنسی نے دم توڑا، پھر ذیشان کے اندر کا ہنستا مسکراتا انسان کہیں گم ہو گیا اور اب چاچاو سایا، جو ہر وقت ماحول کو رنگارنگ قہقہوں سے مزین رکھتا تھا، بدلا بدلا سا لگ رہا تھا۔ ”میرے آس پاس رہنے والوں کی زندگیوں میں انقلاب گزر گئے اور مجھے خبر تک نہیں ہوئی ، ظہیر نے مشین چلاتے ہوئے سوچا۔
وہ ظہیر کا پتا کرنے آئی تھی، لیکن نہیں… وہ تو ذیشان سے ملنے آئی تھی۔ اس کے دل نے مجبور کیا تھا کہ وہ اپنے اور ظہیر کے تعلق میں بے ایمانی کرے ، بے وفائی کی مرتکب ہو اور ذیشان سے اس وقت ملنے جائے جب ظہیر گھر پر موجود نہ ہو۔ یہ دل بھی ہم سے کیسے کیسے سنگین جرم کرواتا ہے ، ایسے کہ جن کی سزا دینا، دنیا کی کسی عدالت کے بس کی بات نہیں۔ ” مجھے پتا تھا تم ضرور آؤ گی۔ ذیشان نے اتنے مضبوط لہجے میں کہا کہ فضیلہ حیران رہ گئی اور یک تک اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ م میں میں ظہیر سے ملنے آئی تھی۔ “ اس نے دل کڑا کے کہہ تو دیا لیکن اپنے الفاظ کا کھو کھلا پن خود اس نے محسوس کر لیا تھا تو ذیشان کیسے نہ جان پاتا کہ وہ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دے رہی ہے ، ورنہ اس کا دل اب اس کے اپنے اختیار میں نہیں رہا تھا۔ ذیشان نے آگے بڑھ کر فضیلہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ جیسے خواب سے جاگی۔ اس نے چونک کر ذیشان کو دیکھا اور ہاتھ چھڑانے کی کمزور سی کوشش کی، پھر بے اختیار اس کی آنکھیں بے بسی کے احساس سے چھلک پڑیں اور پھر … سک سک کر رو پڑی۔ اب یہ آنسو ندامت کے تھے یا بے اختیاری کے … بے بسی کے تھے یا دل کے ہاتھوں ہار جانے کے . اس کا اندازہ فضیلہ کو نہیں ہو سکا تھا۔ پھر اس کی بے دم سماعتوں کے قریب ہی کہیں ذیشان کی سرگوشی ابھری۔ میں جانتا ہوں فضیلہ ! جو کچھ ہو رہا ہے بے ارادو ہو رہا ہے اور اچھا نہیں ہو رہا، مگر ہم کیا کریں. ہم دونوں ہی اپنی جگہ مجبور و بے بس ہیں۔“ دونوں نے نئے راستوں کا انتخاب تو کر لیا تھا مگر منزل کا تعین نہیں کر سکے تھے۔ انہیں کچھ خبر نہیں تھی کہ اس تعلق کو آگے کسی نہج پر لے کر جائیں گے۔ اس نئے رشتے کو کون سا موڑ دیں اور ان کی یہ محبت بار آور ثابت ہو گی بھی یا نہیں! ہمیں لوگ اچھا نہیں سمجھیں گے۔ اس کی منتشر آواز ذیشان کے کانوں تک پہنچی۔ میں جانتا ہوں۔ “ ذیشان نے لمبی سانس خارج کی اور بولا ۔ ”ہم برے القابات سے نوازے جائیں گے ، ہم پر لعن طعن کی جائے گی۔ تمہیں بے وفائی کے طعنے ملیں گے اور مجھے مجھے یار مار سمجھا جائے گا، لیکن ذیشان نے رک کر فضیلہ کا چہرہ غور سے دیکھا۔ وہ بھی اسی کی طرف دیکھ رہی تھی، بغیر پلکیں جھپکائے۔ لیکن .. لیکن کیا ؟ بے اختیار اس کے لب لرزے۔ لیکن ہمیں لوگوں کی پروا نہیں کرنی، دنیا کی طرف نہیں دیکھنا۔ ہم نے اپنی راہ خود چنی ہے ، جس پر ہمیں مضبوطی سے چلتا ہے۔ سمجھ رہی ہو نا میری بات …! ذیشان کے پوچھنے پر اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
ظہیر کا کیا ہوگا ؟ فضیلہ نے پوچھا۔ پتا نہیں کیوں، ظہیر کے نام پر اس کی زبان لڑکھڑ گئی تھی۔ وہ یا تو مر جائے گا یا پھر کسی کا ہاتھ تھام لے گا۔“ فضیلہ کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا۔ کچھ بھی ہو ، وہ اس کا محبوب رہا تھا۔ اس سے ، اس کا دلی تعلق تھا۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کے تعلق میں کبھی ایسا موڑ بھی آئے گا جب اسے ظہیر پر کسی اور کو ترجیح دینا پڑے گی۔ وہ ظہیر سے بے وفائی کرے گی، کسی اور کی محبت کا دم بھرے گی ، اسے چھوڑ کر کسی اور کے خواب آنکھوں میں سجائے گی۔ یہ سب اس نے کہاں سوچا تھا مگر کیا کیجیے ، وقت بھی عجیب آئینہ ہے۔ یہ ہمارے ہی چہرے ہمیں ایسے دکھاتا ہے جن سے ہم خود بھی واقف نہیں ہوتے اور بعض اوقات یہ چہرے اتنے بھیانک اور کریہہ ہوتے ہیں کہ ہمیں اپنے آپ سے نظریں چرانا پڑ جاتی ہیں۔ آج تیسر ا دن تھا اور ظہیر نے فضیلہ کی ایک جھلک تک نہیں دیکھی تھی۔ زندگی میں پہلی بار ہو رہا تھا کہ فضیلہ نے اس سے یوں بے رخی برتی تھی۔ وہ کچھ دنوں سے دیکھ رہا تھا کہ اس کے تیور کچھ بدل سے گئے تھے۔ اسے دیکھ کر وہ نظریں چرانے لگی تھی، کترانے لگی تھی۔ پہلے وہ دن میں دسیوں چکر لگاتی تھی۔ اس کے پاس آنے کی ایک سو ایک وجوہات ہوتی تھیں اس کے پاس، پھر ایسا کیا ہو گیا تھا کہ وہ اس سے یوں انجان بن گئی تھی۔ بہت سوچنے کے بعد بھی ایسی کوئی وجہ اس کی سمجھ میں نہیں آئی جو اس کے اور فضیلہ کے تعلق میں رکاوٹ بن رہی ہو ، ان میں دوری کا سبب بن رہی ہو لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ بعض تعلق ایسے ہوتے ہیں جنہیں ٹوٹنے کے لئے کسی خاص وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ تو کسی کے التفات کی ذرا کی آنچ پاتے ہی ترخ کر یوں ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں جیسے پانی چونے کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اس نے مجھ سے ملے بغیر تین دن گزار لیے ظہیر نے بے چینی سے برآمدے میں ملتے ہوئے خود کلامی کی۔ ذیشان غالباً کہیں جانے کے لئے پر تول رہا تھا۔ اسے یہاں آئے ہوئے اتنے دن ہو گئے تھے کہ اب وہ خود کو اجنبی محسوس نہیں کرتا تھا۔ جب اس نے فضیلہ کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا، تب ہی سے یہاں کی فضائیں اسے اپنی اپنی سی لگنے لگی تھیں۔ کیا بات ہے جگر ! اکیلے میں کیا بڑ بڑا ر ہے ہو ؟ ذیشان نے موبائل پر نظریں جمائے مصروف سے انداز میں کہا۔ یار ! میری غیر موجودگی میں فضیلہ تو نہیں آئی تھی ؟ ظہیر نے اس کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے کھوئے کھوئے انداز میں پوچھا تو اس کے چہرے پر ایک رنگ سا آکر گزر گیا لیکن اس نے جلد ہی خود کو سنبھال لیا۔ ن نہیں نہیں تو ، وہ بھلا تمہاری غیر موجودگی میں کیوں آئے گی …! جھوٹ اس کے چہرے پر درج تھا، جسے ظہیر ایسا سادہ لوح نہیں پڑھ سکتا تھا۔ ویسے بھی گاؤں کے لوگ دلوں کے بادشاہ ہوتے ہیں، چہرے پڑھنا انہیں کہاں آتا ہے۔ ذیشان کچھ دیر تک کھڑا اس کے چہرے کے تاثرات کا گہری نظروں سے جائزہ لیتا رہا پھر سر جھٹک کر دھڑکتے دل کو سنبھالتا وہاں سے چلتا بنا۔ ابھی اس کو گئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ فضیلہ تیزی سے مرکزی دروازے سے اندر آتے آتے رک گئی۔ برآمدے میں ظہیر کو بے چین ساکھڑا دیکھ کر ذیشان کا نام اس کے ہونٹوں پر ہی رہ گیا۔ وہ جو اس مغالطے میں آئی تھی کہ ظہیر گھر پر موجود نہیں ہو گا، جلدی سے پلٹنے لگی، کہ ظہیر کی اس پر نظر پڑی۔ فضیلہ ! ! فضیلہ بات سنو میری مرتی، کیا نہ کرتی، کے مصداق اسے رکنا پڑا۔ ظہیر تقریباً بھاگتے ہوئے اس کی جانب لپکا۔ کیا بات ہے فضیلہ ! اتنے دنوں سے کہاں غائب ہو ؟ مجھے دیکھتے ہی واپس کیوں جانے لگی تھیں!“ اس کی آنکھوں میں خدشات کی لہر سی ابھری تھی۔ لک کچھ نہیں ، کیا ہونا ہے ۔ “ وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔ بس گھر کے کاموں میں مصروف رہتی ہوں۔“ اس کے الفاظ اس کی زبان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ ظہیر اس کا نظریں چرانا اور زبان کا لڑ کھڑانا محسوس کر گیا۔ ایسا کیا ہو گیا ہے فضیلہ ! کہ تمہیں مجھ سے آنکھیں چرانا پڑ رہی ہیں۔ تم کچھ دنوں سے مجھے بدلی بدلی سی لگ رہی ہو۔ دامن بچارہی ہو مجھ سے ظہیر کے لہجے میں ایک نامانوس سادر د تھا، جسے کوئی حساس دل ہی محسوس کر سکتا تھا اور اس کے سامنے جو لڑ کی کھڑی تھی وہ بے حس تھی۔ وہ بھلا کیسے اس درد کو محسوس کر سکتی تھی۔ ” بتاؤ ! تم مجھ سے اتنا کھینچی کھنچی کیوں رہنے لگی ہو ؟ جب کافی دیر بعد بھی فضیلہ کے منہ سے ایک لفظ نہ نکلا تو ظہیر نے اسے بازو سے پکڑ کر تقریباً جھنجھوڑ ڈالا۔ ایسا ویسا کچھ نہیں ہے ظہیر ! جیسا تم سمجھ رہے ہو ۔ “ اس بار فضیلہ بیزاری سے بولی۔ امی کو میر از یادہ دیر گھر سے باہر رہنا پسند نہیں۔ “ اس نے بہانہ گھڑا۔ پھچھونے پہلے تو کبھی اعتراض نہیں کیا تھا۔ اور ویسے بھی تم صرف میرے گھر تک آتی ہو، پھر انہیں کیوں اعتراض ہے ؟ اس کی نظریں ہنوز اس کے چہرے پر جمی تھیں۔ ظہیر سے آنکھیں ملا نا فضیلہ کے لئے مشکل ہو رہا تھا۔ ویسے بھی وہ جھوٹ بول بول کر تنگ آگئی تھی۔ کچھ ظہیر کے سوالوں نے نے بھی طیش دلا دیا اور وہ اچانک بھڑک اٹھی۔ بس ہے امی کو اعتراض .. اور یہ تم مجھ سے پولیس والوں کی طرح تفتیش کرنے کیوں بیٹھ گئے؟ یہ بات اپنے دماغ میں اچھی طرح بٹھا لو کہ میں تمہیں جوابدہ نہیں ہوں۔ میں ابھی ابھی اپنے والدین کے گھر رہتی ہوں۔ مجھ پر ملکیت کا خیال اپنے ذہن سے نکال دو۔“ وہ غصے کی شدت میں لال پیلی ہو رہی تھی اور ظہیر حیرت کی زیادتی میں آنکھیں پھاڑے اس کا یہ نیا روپ دیکھ رہا تھا۔ پلک جھپکنے میں مرکزی دروازہ پار کر گئی۔
ظہیر جھولتے دروازے کو دیکھتا رہ گیا جو لمحہ بھر میں بالکل اس کے وجود کی طرح خالی ہو گیا تھا۔ اسے یوں لگا جیسے پوری حویلی اس کے اوپر دھڑام سے آن گرمی ہو۔ ٹھکرائے جانے کا احساس کس قدر دل دکھانے والا ہوتا ہے ، اس کا انداز و اسے آج ہو رہا تھا۔ کیا ہو گیا ہے فضیلہ کو وہ ایسی تو نہیں تھی ؟“ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ جب ہمراہی آپ سے بیزار ہو جائے تو اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی راہیں الگ کر لینی چاہئیں۔ اس کی خامیاں فضیلہ کو بھٹکنے لگی تھیں تو اس کا واضح مطلب یہی تھا کہ وہ اب اس سے اپنے راستے الگ کرنا چاہتی ہے۔ وہ چار پائی پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گیا۔ یکبارگی اس کے جو ان وجود میں اتنی تھکن اتر آئی، جیسے اس کی تمام عمر دشت نوردی میں گزری ہو۔ وہ اچانک ہی خود کو بوڑھا محسوس کرنے لگا۔ اس کے اعصاب یکدم ہی شل ہو گئے ، پھر اگلے دن ساری صور تحال اس پر روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی۔ یہ رات اس کی زندگی کی مشکل ترین رات تھی۔ اس ایک رات میں وہ متضاد کیفیتوں سے گزرا تھا۔ اس نے فضیلہ کے تلخ رویے کو بھلانے کی کوشش کی تھی، بھل بھل بہتے آنسوؤں پر ضبط کا بند بھی باندھا تھا، گئے دنوں کی محبت میں خلوص کا تناسب بھی پر کھا تھا اور اپنی کمیوں اور کوتاہیوں پر بھی نظر دوڑائی تھی۔ ہجر و وصال کا مطالعہ بھی کیا تھا اور اپنے حصے کی اداسیاں بھی درج کی تھیں۔ آخر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس تعلق کے ٹوٹنے ہیں وہ ذرا سا بھی قصور وار نہیں تھا ، ورنہ اس کا ضمیر اسے جھنجھوڑتا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ ضمیر مطمئن تھا اور دل پر سکون۔ وہ یہ بھی ماننے پر تیار نہیں تھا کہ اس کا انتخاب غلط تھا۔ فضیلہ دنیا کی پہلی اور شاید آخری لڑکی تھی جسے اس نے اپنے لئے منتخب کیا تھا پھر ایک لخت ایسا کیا ہو گیا تھا کہ اسے اپنے انتخاب پر نظر ثانی کی ضرورت پڑی۔ جس طرح گزشتہ رات اس کے لئے اذیت ناک تھی، اسی طرح صبح بھی اس کے لئے کرب ناک ثابت ہوئی۔ وہ کچھ سوتا جاگتا، اپنے غم کی شدتوں پر قابو پاتا اٹھا اور حسب معمول ذیشان کے کمرے میں گیا۔ جب سے ذیشان آیا تھا، ظہیر صبح سب سے پہلے اس کے کمرے میں جاتا اور اسے اٹھانے کے بعد ناشتے کے لئے کچن کا رخ کرتا لیکن آج معمول ہی نہیں دوستی اور محبت کی تاریخ بھی بدلنے والی تھی۔ ذیشان کمرے میں موجود نہیں تھا۔ اس کا خالی کمرہ دیکھ کر پہلے تو ظہیر نے سوچا کہ شاید واش روم میں ہو۔ اس نے باہر صحن میں دیکھا۔ سامنے ہی واش روم تھا، جس کا دروازہ کھلا ہوا تھا، پھر اس کی نظر اچانک وہاں پڑی جہاں ذیشان کا بیگ اور سامان و نو غیر در کھا تھا۔ وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ خالی جگہ اس کا منہ چڑا رہی تھی۔ یہی وہ لمحے تھے جب فضیلہ کے والدین روتے پیٹتے حویلی میں داخل ہوئے۔ ہم لٹ گئے. بر باد ہو گئے۔ فضیلہ ہمارے منہ پر کالک مل کر اس شہری منڈے کے ساتھ بھاگ گئی۔ وے ظہیر پتر ! ہم کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے۔ ہم تو جیوندے جی مر گئے۔ اب ہم پنڈ میں کیسے سر اٹھا کر جیئیں گے دونوں میاں بیوی مسلسل دہائیاں دے رہے تھے ، اپنے سر پیٹ رہے تھے اور وہ یوں بے گانہ ساکھڑا تھا، جیسے ارد گرد سے اٹھنے والی یہ آواز میں اس کے لاشعور میں گونج رہی ہوں۔ ہر لفظ اس کی بے حس سماعتوں پر پتھر کی طرح پڑ رہا تھا۔ ہر لفظ اس کی بے جان سماعت میں ہلکی سی رمق ڈال دیتا۔ بعض اوقات ارد گرد کے ماحول سے یکسر انجان ہو جانا بھی کسی بہت بڑی نعمت سے کم نہیں ہوتا، لیکن یہاں ظہیر چاہ کر بھی اپنے آس پاس سے انجان نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کے آس پاس اس کے اپنے تھے ، کون زیادہ کرب میں ہے ؟ وہ ماں باپ، جنہوں نے چوبیس برس بیٹی کو سینے سے لگا کر رکھا اور کسی اجنبی کی دو دن کی توجہ نے چو ہیں سالہ شفقت و محبت کو فراموش کروادیا یا پھر وہ جسے وہ ایک عرصے تک اپنا سب کچھ مانتی آئی تھی۔ اپنے خواب، جذبات ، احساسات، یہاں تک کہ اپنا وجود تک اسے سونپ رکھا تھا اور بڑے فخر سے اس کا اقرار بھی کرتی تھی۔ ظہیر ! میرا دل ہی نہیں بلکہ میں ساری کی ساری تمہاری ہوں۔ میرا جسم، میری روح، میرے پاس تمہاری امانت ہے۔ جب چاہو مجھ سے اپنی یہ امانت وصول کر لینا۔ “ اور وہ ہلکا سا مسکرا دیتا۔ مشرقی لڑکا، مشرقی محبت کا قائل اور روایات کا پاس دار ہوتا ہے۔ اچانک ہونے والے شور سے چا چاو سایا بھی جاگ گیا اور جب تمام صورتحال کا علم ہوا تو وہ بے دم سا ہو کر چار پائی پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گیا۔ ظہیر پتر ! میں تجھے کہتا تھا ، اس لڑکے کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔ وہ کسی اور ہی مشن پر تھا۔ تیری یاری کی طرف سے اس نے آنکھیں پھیر رکھی تھیں۔ میں نے تجھے سمجھایا بھی تھا کہ اسے ایک حد میں رکھ ، لیکن لیکن تجھے تو اپنے یار پر پورا بھروسہ تھا، بڑا یقین تھا اس پر مٹی پاکر چلا گیا تیرے سر میں ، تیری ناک کے نیچے سے تیری محبت اڑالے گیا۔ چا چاو سایا اور بھی بہت کچھ کہہ رہا تھا جسے سننا اب اس کے لئے غیر ضروری ہو چکا تھا۔ اسے اب اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ کوئی کیا کہہ رہا ہے۔ ہر لہجہ اس کے لئے اجنبی ، ہر رشتہ بے اعتبار ہو گیا تھا۔ وہ تھکے تھکے وجود کو بو جھل قدموں کے ساتھ دھکیل تا حویلی کا مرکزی دروازہ پار کر گیا۔