آج جب بہروز کو ایمرجنسی وارڈ میں خستہ حال میں دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئی۔ وہ جو ایک خوبصورت خواب کی مانند میری زندگی میں آیا تھا اور آج کسی خزاں رسیدہ درخت کی مانند سرجھکائے کھڑا تھا۔ اس کی پریشان صورت پر کئی سوالیہ نشان تھے اور مریضہ اس کی بیوی تھی جس کی حالت نازک تھی۔ وہ موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا اسپتال لائی گئی تھی۔
مدت بعد اچانک بہروز کو اس حال میں دیکھ کر دم بخود رہ گئی۔ ماضی کا ایک ایک منظر کسی فلم کی طرح نظروں کے سامنے سے گزرنے لگا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی، یہ مغرور انسان کسی دن میری دہلیز پر سوالی بن کر آئے گا۔ جس دن پھپھو کی شادی تھی۔ میں بہت خوش تھی۔ برسوں بعد ہمارے گھر خوشی کی تقریب سجی تھی۔ دادا جان نے دور نزدیک کے سبھی رشتے داروں کو مدعو کیا تھا۔ میں نے تبھی بہروز کو دیکھا تھا۔ اس کے والد عرصے سے تہران میں ملازم تھے اور یہ لوگ پہلی بار ہمارے گھر آئے تھے۔
بہروز ایک پھرتیلا نوجوان تھا۔ وہ شادی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا۔ کبھی اندر کبھی باہر گھوم رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ آتے جاتے مجھے گہری نظروں سے دیکھتا ہے۔ میں بے نیازی کا انداز اپنائے تھی، جانتی تھی کہ تقریبات میں رشتے دار لڑکے عموماً تاک جھانک کرتے ہیں۔
جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ وہ سایے کی طرح میرے پیچھے لگا ہے کیونکہ بھرے پُرے گھر میں، ہجوم میں، رشتے داروں کی بھیڑ میں مجھے نظر آجاتا۔ دراصل وہ مجھ سے بات کرنے کا بہانہ ڈھونڈ رہا تھا۔ مہندی والے دن ابا جان نے الائچی والے پانوں کا طشت منگوایا۔ میں سینی لے کر صحن میں نکلی تو بہروز کو منتظر پایا۔ میں ہاتھ میں طشت اٹھائے پاس سے گزری تو اس نے روک لیا۔ کہنے لگا۔ یہ مجھے دے دو۔ چچا جان نے مجھے بھیجا ہے۔ میں نے پانوں سے بھرا طشت اسے تھمادیا تو وہ بولا پانی کا جگ بھی منگوایا ہے۔ جلدی سے جگ لادو۔ میں کچن کی طرف جانے لگی تو روکا۔ ٹھہرو… رہنے دو میری بات سن لو۔ سمجھ گئی پانی کا جگ انہوں نے نہیں منگوایا۔ یہ اس نے اضافی مطالبہ کیا تاکہ میں کچھ دیر کے لیے رک جائوں۔ کہو۔ میں نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ رات کو چھت پر آجانا، تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔
واہ کیا بات ہے۔ میں جناب کی غلام ہوں۔ میں نے سوچا مگر جواب نہ دیا۔ منہ پھیر کر چلنے کو ہوئی تو سامنے آکر بولا ۔ میری بات سننے ضرور آنا۔ ورنہ میں دوبارہ کبھی یہاں نہیں آئوں گا۔ حیران رہ گئی اس کی جرأت پر، کیا اعتماد تھا اسےخود پر۔ مجھے اس کا یہ انداز بھایا نہیں، کانوں کی لویں تک جلنے لگیں۔ چلنے کو ہوئی۔ پھر سامنے آگیا۔ وعدہ کرو آئوں گی نا؟ اچھا۔ میں نے غصے میں جان چھڑانے کو کہا کہ شادی والا گھر تھا لوگ ہر جگہ موجود تھے۔ ان سے جھجک محسوس ہورہی تھی اور اس کی باتیں ایسی تھیں کہ زندگی میں پہلی بار سنی تھیں۔ وہ کہہ رہا تھا۔ ضرور آنا، آئندہ زندگی کے بارے بہت کچھ طے کرنا ہے۔ دوبارہ ملاقات کا موقع نہیں ملے گا۔
توبہ ہے، کس قدر تیز طرار ہے یہ لڑکا، پس اس کی باتیں سنی اَن سنی کرکے میں بھاگ کر کچن میں جاچھپی۔ رات کو چھت پر کس نے جانا تھا میں پاگل تو نہ تھی کہ بھرے گھر سے اٹھ کر جاتی وہ بھی رات کو۔
وہ تمام رات چھت پر ٹھنڈ میں ٹھٹھرتا رہا اور میرا انتظار کرتا رہا۔ نجانے کیونکر اسے یقین ہوگیا تھا کہ میں ضرور آئوں گی۔ صبح تک منتظر رہا۔ اور پھر وہ مجھ سے ناراض ہوگیا۔ ہوا کرے، میری بلا سے، میں نے سوچا۔ یہ پاگل ہے مگر میں نہیں ہوں۔ دو دن تک اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی مگر میرے سامنے دوسری لڑکیوں سے ہنس ہنس کر باتیں کرتا رہا۔ جیسے وہ مجھے اپنی حرکتوں سے جلا رہا ہو۔ پھر اس نے اپنے والدین کو راضی کیا اور انہوں نے دادا اور ابا سے بات کرکے میرے رشتہ بہروز سے طے کردیا۔
جب مجھے پتا چلا تو شدید ڈپریشن کا شکار ہوگئی۔ ہم گھر آگئے۔ بہروز اور اس کے والدین کو امی ابا نے دعوت پر بلایا۔ وہ ہمارے گھر آیا۔ مجھ سے کوئی بات نہ کی، لیکن میری چچا زاد بہنوں سے گھل مل گیا اور ان سے مسلسل باتیں کرتا رہا۔ مجھے سخت صدمہ ہوا۔ سوچ سوچ کر بیمار پڑگئی کہ یہ کیسا انسان ہے۔ یہ بدلہ لے رہا ہے یا مجھے جلا رہا ہے، تاہم یہ کتنا غلط رویہ تھا۔ ابھی سے ایسا روپ دکھا رہا ہے تو شادی کے بعد جانے کیا سلوک کرے گا۔
میری بیماری کا سن کر اس کے والدین عیادت کو آئے۔ بہروز بھی آیا لیکن مجھ سے بات نہ کی۔ عیادت تو کجا سلام بھی نہیں کیا۔ گھر کے کسی اور فرد سے بھی میری خیریت نہ پوچھی۔ اس نے میری بیماری کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ تبھی میں رو دی۔ جب رو رہی تھی سلطانہ میری کزن کمرے میں آئی۔ میری چچا زاد بہن نے مجھے آنسو پونچھتے دیکھا تو پوچھا۔ کیوں رو رہی ہو۔ دل بوجھل تھا۔ دل کا حال اسے کہہ سنایا اور کہا کہ کیسے عجیب و غریب انسان سے میرا مستقبل باندھا گیا ہے۔ بس اسی بات پر رونا آگیا ہے۔
سلطانہ نے تمام احوال جاکر بہروز کو بتا دیا اور کہا۔ اتنے بے رحم نہ بنو تمہاری وجہ سے اس کا یہ حال ہے۔ گھر آگئے ہو تو کم از کم اس کے کمرے میں جاکر عیادت کرلو۔
سلطانہ کےکہنے پر وہ وہاں آگیا، جس کمرے میں، میں لیٹی تھی اور بہت اپنائیت سے باتیں کرنے لگا۔ طبیعت کا پوچھا۔ تسلی دی کہ میں تمہیں شادی کے بعد بہت خوش رکھوں گا۔ تم مجھے بہت پسند ہو تبھی اصرار کرکے امی ابو کو راضی کیا ہے، اگر میں تمہیں پسند نہیں ہوں تو ابھی وقت ہے ’’نا‘‘ کہہ سکتی ہو۔
مجھے ہاں، نا سے کیا لینا دینا۔ جہاں والدین کی مرضی، میں ان کی رضا پر راضی ہوں۔ یہ سن کر اس کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ بولا۔ اللہ ایسی فرمانبردار بیٹیاں سب کو دے، تم جیسی فرمانبردار بیٹی ہو، ویسی ہی فرمانبردار بیوی بھی ثابت ہونا اور ہاں فرمانبردار منگیتر بھی بنو۔ ٹھیک ہوجائو تو پھر مجھ سے ملنے تھوڑی دیر کے لیے اپنے دادا کے گھر ضرور آنا۔ ہم چھت پر بیٹھ کر دو چار باتیں کرلیں گے۔
جب میں صحت یاب ہو کر کالج جانے لگی تو اس نے فون کرکے کہا کہ سوموار کے دن چھٹی کے وقت کالج آئوں گا تم سے مستقبل کی باتیں کرنی ہیں اور وہ گھر بھی دکھانا ہے جو میرے والد صاحب نے ہمارے لیے خریدا ہے۔ ہم شادی کے بعد اسی گھر میں رہیں گے۔ دیکھو گی نا اپنے خوابوں کا محل؟ بہت خوبصورت بنگلہ لیا ہے انہوں نے ہمارے لیے۔
پیر کو چھٹی کے بعد جب میں کالج کے گیٹ سے باہر نکلی تو وہ وہاں موجود تھا۔ لپک کر میرے پاس آگیا۔ میں خوفزدہ ہوگئی۔ میرے ساتھ کلاس فیلو لڑکیاں تھیں، دل دھڑکنے لگا اور گھبرا کر بغیر حیل و حجت اس کے ساتھ چل دی۔ خاموشی سے اس کے برابر والی نشست پر بیٹھی تھی۔ پوچھا تک نہیں کہ وہ گاڑی کدھر لے جارہا ہے۔
اگر تم آج میرے ساتھ نہ آتیں تو معلوم ہے میں کتنا ناراض ہوجاتا۔ میرا دل بجھا ہوا تھا، چہرہ بھی۔ اس نے غور سے میری طرف دیکھا۔ نظریں اوپر اٹھا کر مجھے دیکھو آج میں کتنا خوش ہوں… اور تم… اس نے گاڑی کے شیشے کو میری جانب موڑا۔ دیکھو ذرا کیسی ہونق صورت بنا رکھی ہے، اداس ہو کیا میرے آنے سے؟ تبھی میں نے نظر اٹھا کر بہروز کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ چاند کی مانند دمک رہا تھا۔ دل نے کہا۔ واقعی تمہارے منگیتر کو تم سے محبت ہے، تبھی وہ لمحہ بھر کو تمہیں پاکر اتنا خوش ہے۔ خود کو سمجھانے لگی کہ ایسا رویہ ٹھیک نہیں، یہ ہونے والا میرا جیون ساتھی ہے۔ منہ بنائے رکھوں گی تو اسے یہی گمان ہوگا کہ میں اسے پسند نہیں کرتی جبکہ زندگی اب اسی کے ساتھ گزارنی ہے تو رویہ بھی خوشی بھرا رکھناچاہیے۔
وہ بغور مجھے دیکھے جاتا تھا۔ رخسانہ دیکھو، اگر تم میرے ساتھ شادی کرنے پر راضی نہیں ہو تو ابھی وقت ہے، ہم اس بندھن کو توڑ سکتے ہیں مگر خود پر جبر مت کرنا۔ صاف صاف بتادو، زندگی کا یہ سب سے اہم فیصلہ ہوتا ہے، اسے جبر سے نہیں پسند سے باندھنا چاہیے ورنہ انکار کردینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس شاطر کی دوٹوک بات نے مجھے دہلا کر رکھ دیا اور میں نے بے اختیار کہہ دیا۔ مجھے پسند ہو تم بہروز، پسند نہ ہوتے تو انکار کردیتی اور کیوں آتی تمہارے ساتھ۔
اگر تم میرا مان نہ رکھتیں، آج میرے ساتھ نہ آتیں تو میں صدمے سے مر جاتا۔ اب مجھ سے دور مت رہو۔ پھر وہ مستقبل کے بارے باتیں کرنے لگا، خوش کن اور خوش آئند باتیں۔ دل کو گرمانے والی… سنہرے سپنے آنکھوں میں سجانے والی باتیں۔ اس نے ایک بنگلے کے سامنے گاڑی روک لی۔ اور کہا۔ یہی گھر ہے جو پاپا نے ہمارے لیےخریدا ہے۔ اندر سے بھی بہت خوبصورت ہے، دیکھو گی؟ میں چپ رہی وہ گاڑی سے اتر کر گیٹ پر گیا اور گھنٹی بجائی مگر کوئی باہر نہ آیا۔ واپس آکر گاڑی میں آکر آبیٹھا۔ ذرا دیر انتظار کرلیتے ہیں، چوکیدار کہیں گیا ہے شاید۔ پھر دیکھ لیں گے بہروز… ابھی چلو۔ دیر ہورہی ہے، میں نے کہا۔ ٹھیک ہے۔ اس نے گاڑی اسٹارٹ کردی اور مجھے گھر کے قریب لاکر اتار دیا۔ سنہرے خواب آنکھوں میں سجا کر میں گھر لوٹ آئی۔
اب ہر لمحہ اسی کا دھیان رہتا۔ پڑھائی میں دل نہ لگتا۔ گزرتی زندگی کے روز و شب میں یوں خالی دامن پھرتی جیسے کوئی تصویر اپنے فریم سے باہر نکل جاتی ہے تو ادھوری سی لگنے لگتی ہے۔ دل کو اس کی آمد کا انتظار رہنے لگا تھا لیکن وہ نہ آیا۔
ایک دن اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے ریسیور اٹھایا۔ یہ بہروز تھا۔ اس کی آواز کانوں میں رس گھولنے لگی۔ کہنے لگا۔ تمہیں دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس رہی ہیں۔ جلد جلد تمہارے گھر آنا بھی معیوب لگتا ہے۔ کہو تو کالج آجائوں۔ میں چپ رہی۔ اچھا کل آرہا ہوں، چھٹی کے وقت۔ یہ کہہ کر فون رکھ دیا۔
بہت دنوں کے انتظار نے مجھے بھی آزمائش میں ڈال دیا تھا۔ اگلے دن کالج جاتے وقت بے اختیار آئینے نے پکار لیا تو روبرو جاکر خاص انداز سے بالوں کو سنوارنے لگی۔ آج کافی دنوں بعد میرے پژمردہ چہرے پر مسکراہٹ کے پھول کھلے تھے۔ آئینہ بھی حیران تھا کہ یہ اتنی خوش کیوں ہے۔ نِک سک سے خود کو درست کیا تو بہن نے چونک کر دیکھا۔ پھر بولی، کالج پڑھنے جارہی ہو یا کسی فیشن پریڈ کا مقابلہ تو جیتنے نہیں جارہی ہو نا۔ کافی دنوں سے چپ چپ رہنے لگی تھی سو میں نے بہن کی بات کا نوٹس نہیں لیا۔
چھٹی کے وقت کالج کے گیٹ پر بہروز کی گاڑی پہنچی۔ میں تیزی سے آگے بڑھ کر اس میں بیٹھ گئی۔ اور اس نے گاڑی کا رخ سپنوں کے رستوں پر موڑ دیا۔ وہ میرا منگیتر تھا میرے مستقبل کا جیون ساتھی۔ مجھے اس پر اعتبار تھا۔ اعتبار کے اسی رشتے سے بندھی، اس کے ہمراہ اس وقت کسی بھی دنیا میں جانے کو تیار تھی۔ کچھ استفسار نہ کیا۔ یقین تھا کہ وہ مجھے نیکی، سچائی اور پیار کے انہی رستوں پر لے جارہا ہے جس پر سچی محبت کرنے والے سفر کیا کرتے ہیں۔ میری روح اس کی محبت کی راگنی الاپ رہی تھی اور وہ اللہ جانے کون سے راگ کی لے میں کھو گیا تھا۔
آج اس کی جیب میں اس بنگلے کی چابی موجود تھی جسے وہ پہلے باہر سے دکھا کر گیا تھا۔ مجھے اترنے کو کہا اور میں کسی تابع روح کی طرح اس کے قدموں سے قدم ملا کر چلنے لگی جیسے وہ عامل ہو اور میں معمول… گیٹ کھول کر مجھے اندر چلنےکو کہا اور پھر گیٹ بند کردیا۔ وہ کہہ رہا تھا آئو اور اپنا گھر دیکھو… کتنا خوبصورت ہے۔ پاپا نے اسے قیمتی فرنیچر سے آراستہ کروا دیا ہے کیونکہ وہ بہت جلد ہماری شادی کی تاریخ رکھنے والے ہیں۔ میں بنگلے کی سجاوٹ اور خوبصورتی سے مسحور گھر میں اس کے ساتھ ساتھ گھومتی پھر رہی تھی۔
خوبصورت لفظوں سے اعتبار کا جال تیار کرکے اس نے اپنی بانہوں کے خلا کو پُر کرلیا اور میں ان ناپائیدار لمحوں پر اعتبار کرتے ہوئے اس کے ساتھ وہاں بیٹھی رہ گئی۔ یہ نہ سوچا کہ اعتبار کا جال کمزور اور تار تار بھی ہوسکتا ہے۔ سمجھتی تھی کہ منگنی کا رشتہ قابلِ بھروسہ اور پکا ہوتا ہے لیکن حالات کبھی کبھی یقین کو بھی شکست میں بدل دیتے ہیں۔ یہ نہیں سوچا تھا اس بدنصیب دن کے بعد نجانے کیا ہوا کہ محبتیں رنجشوں میں بدل گئیں۔ بہروز کے ماں باپ نے اس کی منگنی کسی بہت امیر گھرانے میں کردی اور ہم سے رشتہ توڑ لیا۔ بہروز نے بھی مجھ سے رابطہ نہ کیا اور نہ ہی وہ پلٹ کر آیا۔ میں انتظار کی آگ میں جلتی رہ گئی۔ مجھ جیسی لڑکی کے لیے اپنی توہین سے زیادہ اور کوئی احساس جان لیوا نہیں ہوسکتا تھا۔ بہروز کو میں نے کیا سمجھا تھا وہ کیا نکلا۔ اتنی بے وقعت اتنی بے قیمت ہوگئی کہ اپنی ہی نظروں میں گر گئی۔
اس یقین کی شکست کے بعد میں پہلے تو اندر ہی اندر مرگئی اور پھر جب دوبارہ پژمردہ سی زندہ ہوئی تو وہ میں نہ تھی ایک اور رخسانہ تھی جسے احساسِ اہانت، احساسِ شکست اور احساسِ محرومی نے رفتہ رفتہ طاقت بخشی۔ اس کے بعد میں نے عہد کرلیا کہ زندگی کو بیکار ہرگز نہ گزاروں گی۔ ماضی کا ہر دکھ بھلا کر اپنے حال کو سنوارنے کی بھرپور کوشش کروں گی۔ میں نے ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا اور محنت سے پڑھنے کو اپنا شعار بنالیا۔
اب میں ایک کامیاب سرجن تھی اور بہروز میرے سامنے تھا۔ اس کی بیوی کا میرے ساتھی سرجن نے آپریشن کیا تھا لیکن اس کی زندگی کے دن باقی نہیں رہے تھے، وہ اللہ کو پیاری ہوگئی۔ مجھے دکھ ہوا۔ نجانے کیوں… حالانکہ میرا اب بہروز کی خوشیوں اور غموں سے کوئی واسطہ نہ تھا لیکن انسانیت کا رشتہ تو تھا۔ جب اس کے چار چھوٹے بچے اپنی ماں سے ملنے آخری بار وارڈ میں آئے تھے تو مجھے انہیں دیکھ کر بے حد ملال ہوا تھا کہ ان معصوموں کی ماں چلی گئی اور ہم باوجود کوشش کے اسے بچا نہ پائے تھے۔ سچ ہے موت پر کسی کا اختیار نہیں۔
اس واقعے نے ماضی کا گزرا ہوا بند باب ایک بار پھر میری یادداشت کے دریچوں میں کھول کر رکھ دیا۔ بہروز سے چاہنے کے باوجود ہمدردی نہ کرسکی کہ کہیں اس ہمدردی سے اس کے دل میں کوئی غلط فہمی جنم لے لے کیونکہ میری زندگی میں اب شادی کی گنجائش نہیں رہی تھی۔ (ر… کراچی)