Friday, October 11, 2024

Behtareen Muhafiz

جب ابا اور آماں کی شادی ہوئی، دیکھنے والے کہتے تھے کہ اس بے جوڑ شادی کا انجام جدائی ہو گا، لیکن انجام سے بے پروا قدرت نے مجھ کو ماں اور باپ کے درمیان ایک پل کی صورت میں پیدا کر دیا لیکن ہونی ہو کر رہتی ہے۔ میں صرف تین ماہ کی تھی کہ اماں اور ابا میں طلاق ہو گئی۔ اب میں کبھی ادھر کبھی اُدھر ، کبھی ماں کی محبت بھری گود کو ترستی، کبھی باپ کے پیار بھرے بولوں کو تڑپتی ، پہلے باپ نے مجھے ماں سے چھینا، پھر حالات نے ماں کو مجھ سے چھین لیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد مامووں کی کاوشوں سے ماں کا گھر تو آباد ہو گیا مگر میری دنیا اندھیر ہو گئی جب دل میں ماں سے ملنے ، ان کے آنچل میں زندگی بسر کرنے کی امید کا دیا بجھ گیا, جب دوسرے بچوں کو ماں سے لپٹتے دیکھتی ، دل میں ایک ہوک سی اٹھتی۔ ابا جلد ہی میری ذمہ داری سے گھبرا گئے۔ تبھی ، نانی امی کی خواہش پر میں باپ کے گھر سے نانی کے ہاں منتقل ہو گئی۔ ماں سے جدائی کا درد تو سہا تھا، باپ سے جدائی کا دکھ بھی سہہ لیا۔ والد نے نانی سے وعدہ کیا کہ اپنی بچی کا خرچہ میں آپ کو دیا کروں گا۔ ایک وعدہ کریں کہ اس کو سوتیلے باپ کے حوالے نہ کریں گی اور نہ یہ ماں سے ملنے اس گھر جائے گی۔ میں نہیں چاہتا کہ یہ ایک غیر شخص کے ٹکڑوں پر پلے اور میرے ہوتے وہ سوتیلے باپ کو ابا کہہ کر پکارے۔ یہ میری غیرت کو گوارا نہ ہو گا۔ نانی امی نے وعدہ کر لیا کہ مجھ کو بھی میری ماں کے حوالے نہ کریں گی اور نہ ان کو مجھے لے جانے دیں گی۔ ان کے اطمینان دلانے سے میرے والد مطمئن ہو گئے۔ والدہ کبھی کبھار ملنے کو نانی امی کے گھر آیا کرتی تھیں۔ جب ان کو پتا چلا کہ میں ان کی ماں کے آنچل کے سائے میں آ گئی ہوں تو وہ خوش ہو گئیں ، بولیں۔ ہمیشہ کی جدائی سے کبھی کبھار کا ملنا پھر غنیمت ہے، بیٹی کی صورت تو دیکھ لیا کروں گی۔ اب وہ آتیں تو مجھے گود میں بھر لیتیں اور میں بھی ان کے گلے میں بانہیں ڈال دیتی تھی لیکن یہ کبھی کبھار کا ملنا، پیار کی پیاس کو اور بھڑکا گیا۔ اب ماں جب میکے آتیں، میں دوڑ کر ان کے گلے لگتی۔ وہ رونے لگ جاتیں، تبھی میں بھی ان سے لپٹ کر خوب آنسو بہاتی۔ وہ نانی امی سے کہتیں۔ میری بیٹی مجھے دے دو، نانی عذر کرتیں کہ اس کا باپ میرے حوالے اس وعدے پر کر گیا ہے کہ میں اس کو تمہارے حوالے نہ کروں گی اور نہ سوتیلے باپ کے گھر بھیجوں گی۔ اب تم مجھ کو وعدہ شکنی پر مجبور نہ کرو اور اس بڑھاپے میں جھوٹا نہ بنائو۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ جب امی آکر روتی دھوتیں، میرا دل بھی ان کی طرف کھنچنے لگتا اور میں ان سے یوں لپٹ جاتی جس طرح کوئی بیل کسی درخت سے لپٹ جاتی ہے۔ تب ان سے جدائی موت جیسی تکلیف دہ لگنے لگتی۔ یہی چاہ ہوتی کہ ماں کے ساتھ ان کے گھر چلی جائوں مگر بوڑھی نانی کی آنکھوں سے بہتے آنسوئوں کی لڑیاں میرے پیروں کی زنجیر بن جاتیں۔ کبھی کبھار سوتیلے والد بھی ماں کے ساتھ آتے تھے اور ہم ماں بیٹی کا اداس ملاپ دیکھ کر رنجیدہ ہو جاتے تھے۔ آخر کار یہ آئے دن کا رونا رنگ لے آیا۔ ایک روز نانی امی کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی۔ گھر میں چھوٹی خالہ اور میں تھے۔ نانی کی حالت بگڑ جانے سے ان کو اسپتال لے جانا ناگزیر ہو گیا۔ خالہ نے پڑوس میں جا کر منت کی کہ ان کی والدہ کو اسپتال لے جانے میں مدد کریں۔ پڑوسی نانی کو اسپتال لے گئے۔ میں اور خالہ گھر پر تھے۔ خالہ نے امی کو فون کر کے صورت حال بتائی وہ فوراً اپنے شوہر کے ساتھ آئیں اور خالہ کو لے کر اسپتال چلی گئیں۔ میں گھر میں اکیلی تھی کہ شام میں دروازے پر دستک ہوئی۔ پوچھا کون ہے ؟ جواب ملا۔ بیٹی ! میں تمہارا ابو ہوں۔ تمہاری نانی ماں کے لئے گھر سے کچھ اشیاء اسپتال لے جانی ہیں۔ میں نے آواز پہچان کر دروازہ کھول دیا۔ انہوں نے کچھ مطلوبہ اشیاء گھر سے لیں اور کہا۔ تمہاری نانی اور خالہ رات کو اسپتال میں ہی رہیں گی۔ تو کیا تم گھر پر اکیلی رہو گی ؟ میں پڑوس والی خالہ کے گھر چلی جائوں گی انکل۔ بیٹی اس سے بہتر نہیں کہ تم اپنی امی کے پاس رہ جائو۔ ایسا کرو کہ تم میرے ساتھ چلو، میں تم کو تمہاری ماں کے پاس چھوڑ دیتا ہوں، ایک دو دن کی بات ہے۔ جب تمہاری نانی گھر آجائیں گی تو لوٹ آنا۔ میں سوچ میں پڑ گئی۔ میرا دل بھی چاہ رہا تھا کہ ایک بار اپنی ماں سے لپٹ کر سوئوں۔ کیا سوچ رہی ہو بیٹی ! جلدی سے فیصلہ کرو۔ مجھ کو تمہاری نانی امی کو کمبل اور برتن وغیرہ پہنچانے ہیں۔ غرض انہوں نے اتنے پیار سے بات کی کہ میں فوراً کپڑے بدل کر ان کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئی۔ اسپتال سے پہلے امی کا گھر پڑتا تھا۔ سوتیلے ابو نے رستے میں گاڑی روک لی۔ بولے۔ تمہاری امی اسپتال سے گھر آچکی ہیں، ان سے ملو گی ؟ ہمارا گھر بھی دیکھ لو۔ میں چُپ رہی تو انہوں نے گاڑی گلی میں موڑ لی اور کچھ آگے جا کر ایک گھر کے گیٹ پر روک کر ہارن دیا۔ تبھی گیٹ کھلا سامنے میری ماں کھڑی تھیں۔ ان کو دیکھتے ہی جیسے میرے تن مردہ میں نئی روح پڑ گئی۔ میں تیزی سے گاڑی سے اتر کر گیٹ کے اندر پہنچی اور ماں سے لپٹ گئی۔ وہ بھی مجھے خود سے بھینچ کر پیار کرنے لگیں، تبھی ان کے شوہر نے کہا۔ ثریا بچی گھر میں اکیلی تھی، میں نے مناسب خیال کیا کہ اس کو تمہارے پاس چھوڑ دوں، تم لوگوں نے اگر اسپتال چلنا ہے تو گاڑی میں بیٹھ جائو۔ ابھی تو میں اسپتال سے آئی ہوں، گھر کا کام پڑا ہوا ہے، نعیم بھی اسکول سے آنے والا ہے ، آپ جائیں۔ میں ابھی نہیں جا سکتی ، ہم شام کو امی کے پاس ہو لیں گے۔ یہ کہہ کر انہوں نے دروازہ بند کر لیا اور میں امی کے پاس ان سے لگی کھڑی رہ گئی۔ میں ماں کے پاس پہنچ کر خوش ہو گئی ، نانی کی تمام فکر بھول گئی۔ نانی سے بھی پیار تھا لیکن ماں آخر ماں تھی۔ ماں کی تو باس ہی سب سے الگ تھی۔ سوتیلا باپ بھی ایسا برا نہ لگا۔ محبت سے بلاتا تھا اور نرمی سے پکارتا تھا۔ ہر فرمائش پوری کرتا۔ کسی شے کی کمی نہ ہونے دیتا۔ یہاں آکر روح کے کافی کرب دُور ہو گئے تھے۔ میرے سگے والد دو تین ماہ بعد کہیں چکر لگاتے۔ دوسری شادی کے بعد ان کی میری طرف توجہ کم ہوئی تو نانی امی کے گھر بھی آمدورفت گھٹتی گئی۔ نانی نے بھی جان بوجھ کر ان کو اپنی بیماری کی اطلاع نہ دی تھی کہ میرے سگے اور سوتیلے والد میں اسپتال میں ٹکرائو نہ ہو ۔ اس وقت تو انکل عارف اورامی ہی نانی کا علاج معالجہ کروا رہے تھے۔ سگی ماں کےگھر آکر وہ خلا بھی بھر گیا جو والدین کی علیحدگی کے بعد سے میرے اندر بڑھتا رہتا تھا۔ یہاں میں ذہنی طور پر خاصی آسودہ ہو گئی تھی۔ جب والد صاحب کو پتا چلا کہ میں ماں کے پاس چلی گئی ہوں، انہوں نے نانی سے بہت جھگڑا کیا۔ نانی امی نے ان کو سمجھایا کہ مجھ کو دل کا دورہ پڑ چکا ہے۔ مرتے مرتے بچی ہوں، لڑکی کو گھر میں اکیلا کیسے چھوڑ دیتی ؟ وہ سگی ماں کے پاس ہے تو محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ بیٹی اریبہ کی منگنی کر دی ہے ، اس کی شادی ہو جائے گی۔ میں بھی نہ رہی تو صائبہ کا کیا بنے گا۔ میں اپنی بچی کو لے جائوں گا، اپنے پاس رکھوں گا۔ میرے ہوتے یہ سوتیلے باپ کے گھر کیوں رہے۔ ٹھیک ہے تو لے جائو ، تم کو کس نے روکا ہے۔ میں کل ہی صائبہ کو بلوا کر تمہارے حوالے کئے دیتی ہوں۔ نانی نے والد صاحب سے کہا تو ان کا غصّہ ٹھنڈا ہوا۔ اگلے روز انہوں نے مجھے کو والدہ سے پیغام بھیج کر بلوا لیا۔ امی کو علم نہ تھا کہ کیوں بلوایا ہے۔ وہ جب مجھے لے کر نانی کے گھر پہنچیں، تھوڑی دیر بعد میرے سگے والد آگئے۔ وہ مجھے لینے آئے تھے۔ ان کو دیکھ کر میں خوفزدہ ہو گئی کہ یہ لینے آئے ہیں اور رو کر منت کرنے لگی کہ مجھ کو یہیں رہنے دیجئے، میں آپ کے ساتھ نہیں جائوں گی۔ ماں تو دوسرے کمرے میں جا بیٹھی تھیں، وہ بھی رو رہی تھیں لیکن ابا کو کسی کے رونے دھونے پر ترس نہ آیا اور وہ مجھے زبردستی اپنے ساتھ گھر لے آئے۔ انہوں نے اپنی ضد پوری کر لی مگر ان کی بیوی نے مجھے دیکھ کر تیوری چڑھالی۔ بولیں۔ یہ وہاں ٹھیک رہ رہی تھی، کیوں لے آئے ہو۔ میری بیٹی ہے ، حق دار ہے یہاں رہنے کی تبھی لے آیا ہوں، تم کو کیا تکلیف ہے۔ والد نے سختی سے کہا تو بیوی خاموش ہو گئی مگر اس کا سلوک میرے ساتھ اچھا نہ تھا۔ دو ماہ میں ہی میں سوکھ کر کانٹا ہو گئی۔ اگرچہ والد خیال کرتے تھے، کسی شے کی کمی نہ ہونے دیتے تھے ، توجہ رکھتے تھے اور یہی باتیں سوتیلی کو کھلتی تھیں۔ دو سال میں اپنے حقیقی والد کے گھر رہی۔ اس دوران سوتیلی ماں نے ایک پل بھی مجھ کو سکون کا سانس نہ لینے دیا – اسکول داخل نہ کرایا۔ گھر کا سارا کام مجھے کم سن کے کندھوں پر لاد دیا۔ اپنے تینوں بچوں کی آیا بنا دیا۔ والد نے یہاں تک بھی برداشت کر لیا لیکن ایک دن جب وہ اچانک گھر آئے، میرے بازوئوں پر نیل اور سر پر چوٹ کے نشان دیکھ کر گھبرا گئے۔ اپنے کمرے میں لے گئے اور کہا۔ بیٹی ڈرو نہیں، آج سب کچھ بتادو کہ یہ عورت تمہارے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔ میں نے رو کر بتایا کہ مارتی ہیں اور بہت ذلیل کرتی ہیں، کھانا بھی باسی دیتی ہیں جس سے میرا پیٹ خراب رہتا ہے۔ اب والد کو احساس ہوا کہ انہوں نے مجھے گھر لا کر غلطی کی ہے۔ میں نانی امی کے پاس ہی ٹھیک تھی۔ بے شک وہ کمزور اور بیمار تھیں مگر چھوٹی خالہ اریبہ مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں، ہر طرح سے خیال رکھتی تھیں۔ کہنے لگے۔ تیار ہو جائو ، میں تم کو تمہاری نانی ماں کے گھر چھوڑ کر آتا ہوں۔ اس عورت سے تو میں آکر نمٹوں گا۔ یوں انہوں نے مجھے پھر سے نانی ماں کے گھر پہنچا دیا مگر جتا دیا کہ یہ آپ کے گھر رہے گی، بے شک اس کی ماں یہاں آکر صائبہ سے مل جایا کرے مگر اس کو سوتیلے باپ کے گھر نہ بھیجنا۔ نانی بولیں ۔ ٹھیک ہے لیکن دیکھو تو میری بچی کی کیا حالت تم لوگوں نے کر دی ہے۔ نانی کے پاس آکر میں نے سکون کا سانس لیا۔ اگرچہ وہ زیادہ چلتی پھرتی نہ تھیں مگر خالہ تو تھیں ، میں ان کے ساتھ بہت خوش رہتی تھی۔ یہاں آکر میں نے پھر سے داخلہ لے لیا اور اسکول جانے لگی۔ ایک دن امی آئیں اور مجھ سے لپٹ کر بہت روئیں۔ بولیں۔ بیٹی تیری خالہ کی شادی ہونے والی ہے اور نانی بیمار ہیں۔ اریبہ کی شادی کے بعد میں امی کو یہاں اکیلا تو نہ چھوڑوں گی۔ اپنے ساتھ گھر لے جائوں گی۔ تم کو میرے گھر رہنا ہو گا۔ تم کو باپ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، ان کے گھر رہ کر سوتیلی ماں کے سلوک کا مزہ چکھ آئی ہو۔ اب آئیں تو صاف صاف بات کرنا، گھبرانا نہیں۔ حق ایسے کبھی نہیں ملتا جب تک حق کے لئے ہم بلند آواز سے بات نہیں کرتے۔ والد مجھے چھوڑ کر گئے تو پھر نہ آئے ، امی ہمیں اور اپنے ساتھ لے گئیں۔ تبھی خالہ کی شادی ہوگئی اور چھ ماہ بعد نانی بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ میں مستقل سگی ماں کے پاس رہنے لگی۔ میرے حقیقی والد نے غالباً اس امر سے سمجھوتہ کر لیا تھا کہ میں اپنی ماں کے پاس زیادہ محفوظ اور خوش ہوں۔ یونہی وقت بیت گیا۔ نو سال سوتیلے باپ کے گھر رہی۔ انہوں نے مجھ کو سگے باپ جیسی محبت دی اور کبھی اس پیار میں کمی نہ آنے دی۔ جب میں سولہ برس کی ہو گئی تو ماں کا گھر بھی میرے لئے غیر محفوظ ہو گیا، کہ میرے سوتیلے باپ یعنی آنکل عارف کا بیٹا جو اپنے ماموں ممانی کے گھر رہا تھا، ماموں کے انتقال کے بعد اپنے باپ کے گھر آگیا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ انکل عارف خود اس کو گھر لے آئے۔ یہ لڑکا جس کا نام کامران تھا کچھ عجیب سا تھا۔ نہ تو یہ ذہنی طور پر پوری طرح صحیح تھا اور نہ پوری طرح پاگل تھا۔ اس کی عمر اکتیس کے لگ بھگ ہو گی لیکن بہت زیادہ کھانے کی وجہ سے جسم فربہ اور عمر زیادہ لگتی تھی۔ وہ اکثر خاموش رہتا تھا۔ سارا دن اپنے کمرے میں بند رہتا اور ان ڈور گیم اکیلے ہی کھیلتا رہتا۔ مثلاً کیرم ، تاش ، لڈو، شطرنج غرض سبھی کھیل اکیلے کھیلتا۔ اس کا کام ٹی وی دیکھنا، کھانا اور سونا تھا۔ جب وہ کسی سے غرض نہ رکھتا تو کوئی بھی اس سے غرض نہ رکھتا، امی کے تینوں بچے اور میں ہم سب آپس میں کھیلتے ہنستے بولتے لیکن وہ سب سے الگ تھلگ کسی سے گھلتا ملتا نہ تھا۔ کچھ دن حالات معمول کے مطابق رہے۔ امی کامران کا بہت خیال بھی رکھتی تھیں کہ یہ نارمل انسانوں جیسا نہیں ہے۔ اس پر خصوصی توجہ دیتیں، کھانے پینے کا بھی خیال رکھتیں ، کپڑے وغیرہ اجلے اور استری کر کے اس کی الماریوں میں لگادیتیں اور کامران کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے سرانجام دیتیں کہ یہی انکل عارف کی ہدایت تھی۔ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ امی اس لڑکے کی سوتیلی ماں ہیں۔ کچھ دنوں سے میں کامران میں تبدیلی محسوس کر رہی تھی۔ وہ مجھے سے قریب ہونے کی کوشش کرتا، مجھے آواز دے کر بلاتا اور میرے ساتھ کیرم کھیلنے پر اصرار کرتا۔ میں اس کا کہنا مان لیتی کہ بچارا اکیلا پن محسوس کرتا ہے اور اس کا کوئی دوست نہیں تو شاید تنہائی نے اس کو ایسا کر دیا ہے۔ خُدا جانے ماموں اور ممانی نے اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا تھا کہ وہ ایسا ہو گیا، ورنہ دیکھنے میں تو بھلا لگتا ہے، کسی کو گالی دیتا ہے اور نہ ضرر پہنچاتا ہے۔ جتنا کھانے کو دو کھاتا ہی جاتا ہے، اس کے سوا اس میں کوئی دوسری بُری عادت بھی نہ تھی۔ کچھ دنوں سے وہ مجھ سے انسیت محسوس کرنے لگا تھا۔ میں نظر نہ آتی تو اس کی نگاہیں مجھے ڈھونڈنے لگتیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد میرا نام لے کر پکارنے لگتا ہر کوئی اس کے اس رویے کو نظر انداز کر دیتا کہ سبھی کے خیال میں وہ ایک نارمل انسان جیسا تھا نہیں۔ رفتہ رفتہ اس کی میری جانب وارفتگی بڑھنے لگی، تبھی میری وحشت بڑھنے لگی۔ اب اس کی نظروں میں وہ سادہ و بے لوث احساس نہ رہا بلکہ کسی دوسری سوچ میں غرق رہنے لگا۔ اب مجھ کو اس کی طرف دیکھتے ہوئے خوف محسوس ہوتا۔ کبھی کبھی تو اس کے چہرے کے بدلتے ہوئے تاثرات سے جھرجھری آ جاتی۔ وہ گھر جو پہلے میرے لئے چمن جیسا تھا، اب مجھے ایک اندھیرا اور سنسان جنگل لگنے لگا تھا۔ ہر لحظہ ڈری ڈری رہنے لگی۔ جانے اب کیا ہو جائے، کیا خبر مجھ پر چھت گرپڑے کہ زمین زلزلے سے اچانک شق ہو جائے۔ ہر سانس خوف کی ایک لہر بن کر میرے سراپے میں اترتی تھی اور یقین کی دیواروں میں دراڑیں ڈالتی جاتی تھی- اس روز ماں گھر پر نہ تھیں ، کسی کام سے پڑوس میں گئی ہوئی تھیں۔ میں گھر میں اکیلی تھی کہ کامران جو اپنے کمرے میں سو رہا تھا، اچانک دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ مجھے تنہا دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ایک وحشیانہ چمک جاگی ، جیسے معصوم اور بے بس ہرن کو دیکھ کر چیتے کی آنکھوں میں شکار کرنے کی خواہش ایک جھپٹ بن کر لپکنے لگتی ہے۔ میں نے کامران کی جانب دیکھا تو میرے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی، جہاں کھڑی تھی وہیں میرا وجود ٹھٹھر کر رہ گیا، خوف سے کانپنے لگی۔ سوچ رہی تھی کہ آج میں نہ بچ سکوں گی۔ شاید یہ مجھ کو قتل کرنے کے ارادے سے آگے بڑھتا آرہا ہے۔ آخر وہ بُری گھڑی آگئی۔ وہ ایک خونخوار چیتے کی طرح میر ی طرف بڑھا ہی تھا کہ قدرت کو مجھ پر ترس آگیا۔ اس وقت جب یہ طاقتور ادھورے ذہن کا انسان میری معصومیت کو زخمی کرنے والا تھا، گیٹ کے لاک میں کسی نے باہر سے چابی گھمائی۔ یہ والدہ تھیں کیونکہ چابی ان ہی کے پاس ہوتی تھی۔ وہ جب باہر جاتیں، واپسی میں باہر سے گیٹ کو چابی سے کھول کر اندر آجاتی تھیں۔ سچ کہوں کہ ماں کے آنے سے ایک قیامت مجھ پر ٹوٹنے سے رہ گئی، شکر کیا کہ بچائو ہو گیا۔ کیا جانتی تھی کہ یہ بچائو تو تباہی کا پیش خیمہ ہے، اصل قیامت تو آگے منتظر ہے۔ اس کے بعد تو دن اور رات کسی بھی وقت، ایک لمحے بھی مجھ کو چین نصیب نہ ہوا، ہر پل میں ایک نئے خوف کی موسلا دھار بارش میں بھگتی اور کانپتی رہی۔  ماں بھی بخوبی جان گئی تھیں۔ میں کس وجہ سے پریشان رہنے لگی ہوں۔ پوچھتی تھیں کہ کیا بات ہے ، کیوں ڈری ڈری رہتی ہو ؟ آخر میں نے بتا دیا کہ کامران سے ڈرتی ہوں۔ بیٹی ! کامران ، عارف کا سگا بیٹا ہے۔ تمہاری خاطر وہ کیوں اس کو اپنے گھر سے نکالے گا یا دوسری جگہ بھیجے گا۔ یوں بھی وہ ذہنی پس ماندہ ہے تو ایسے بچوں کی جگہ صرف ان کے اپنے باپ کے گھر میں ہی ہوتی ہے۔ دوسرے کب ان کو رکھتے ہیں۔ میں عارف سے نہیں کہہ سکتی کہ تم کامران کو گھر سے نکالو کیونکہ میری بیٹی اس سے ڈرتی ہے ، یہ بات کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ میں کوشش کر رہی ہوں جلد از جلد کوئی اچھا رشتہ ملے تو تم کو تمہارے گھر کا کر دوں۔ اب ماں کو کیا خبر کہ میں کامران سے کیوں ڈرتی ہوں کیونکہ میں نے اس کے اندر کے حیوان کو وحشی ہوتے دیکھ لیا تھا مگر ماں سے یہ بات کہنے کی جرات بھی نہ ہو رہی تھی۔ مبادا وہ مجھے میرے حقیقی باپ کے حوالے کر دیں جہاں سوتیلی ماں کے روپ میں ڈسنے کو ایک ناگن موجود تھی۔ ماں کو اندازہ ہونے لگا تھا کہ اس گھر میں اعتماد کی چھت کسی وقت گر سکتی ہے ، سو وہ روز عارف انکل کا سر کھانے لگیں کہ کوئی اچھا رشتہ دیکھئے۔ جلد از جلد میں لڑکی کو بیاہ دینا چاہتی ہوں۔ جوان بیٹی کا گھر بٹھائے رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ یوں تو عارف انکل بہت اچھے انسان تھے لیکن اُن کو میرے بیاہ کی کوئی فکر نہ تھی یا یوں کہنا چاہئے کہ جلدی نہ تھی۔ امی زیادہ کہتیں تو چڑنے لگتے اور کامران سے تو اتنی محبت کرتے تھے کہ وہ اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتے تھے۔ ایک دن پڑوس میں شادی تھی۔ امی اپنے شوہر بچوں اور کامران کے ساتھ شادی میں چلی گئیں۔ میری طبیعت ٹھیک نہ تھی میں نہ گئی۔ جب شادی کی رسومات شروع ہوئیں اور لوگ محو ہو گئے تو کامران نے دیوار پھاندی اور گھر کے اندر کود آیا۔ دھم کی آواز آئی تو میں چونکی، باہر نکل کر دیکھا ، وہ برآمدے سے گھر کے اندر آرہا تھا۔ آتے ہی اس نے لائٹ بند کی اور پھر مجھے دبوچ لیا۔ میری چیخ نکل گئی۔ میں نے پھر اتنی زور سے چیخیں ماریں کہ وہ گھبرا گیا اور مجھے چھوڑ دیا۔ تب میں نے سرپٹ گیٹ کی طرف دوڑ لگا دی اور کھول کر باہر نکل گئی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ میں شادی والے گھر جا کر امی کو بتاتی لیکن وہاں اس قدر رش تھا کہ ان کو بھیڑ میں تلاش کرنا پڑتا۔ میں تو ننگے سر ننگے پائوں بھاگی تھی۔ سوچا کہاں جائوں ، لیکن جس پنچھی کے پنکھ کٹ گئے ہوں، اس کی اڑان کہاں تک ہوتی ہے ، بھاگ کر جاتی کہاں؟ بھاگتے بھاگتے آگے ایک نوجوان سے ٹکر ہو گئی۔ وہ اور میں دونوں ہی گرتے گرتے بچے۔ وہ بیچارا حواس باختہ ہو گیا۔ میں نے کہا۔ بھائی مجھے بچالو۔ کچھ برے لوگ میرے تعاقب میں ہیں، مجھ کو میری خالہ کے گھر پہنچا دو۔ تمہاری خالہ کا گھر کہاں ہے ؟ اس نے سوال کیا۔ میں نے پتا بتادیا۔ خالہ کا گھر نزدیک نہ تھا تو زیادہ دور بھی نہ تھا۔ کہنے لگا۔ اچھا، میری گاڑی سامنے موجود ہے ، تم اس میں بیٹھو، میں تم کو جہاں کہتی ہو پہنچا دیتا ہوں۔ دراصل وہ خالو کا رشتہ دار تھا، میرے پتا بتانے سے اس نے سمجھ لیا کہ یہ صحیح کہہ رہی ہے۔ وہ مجھے خالہ کے گھر لے آیا۔ جب خالہ نے مجھے وحشت زدہ اور اس حال میں دیکھا تو دنگ رہ گئیں ، بولیں۔ صائبہ ! کیا ہوا ہے تجھے اور یہ تو اس وقت رات کو ، سر پر ڈوپٹہ اور نہ پیروں میں چپل۔ ایسا کیا ہو گیا جو تو اس طرح گھر سے بھاگی ہے۔ میں نے کہا۔ بتاتی ہوں خالہ ، دم تو لینے دو اور ان کا شکریہ کہو جو مجھے یہاں تک لائے ہیں۔ اب خالہ نے اس نوجوان پر توجہ دی اور بے اختیار ان کے منہ سے نکلا۔ ارے یہ تو صدام ہے۔ صدام تم یہاں۔ ہاں خالہ جی، یہ مجھے سڑک پر ڈری سہمی بھاگتی ہوئی ملیں۔ آپ کا پتا بتایا۔ میں سمجھ گیا کہ معاملہ سنجیدہ ہے ، آپ کے پاس لے آیا۔ شکریہ بیٹا ! شاید تم جانتے ہو گے یہ میری آپا ثریا کی بیٹی ہے۔ ہاں، خالہ جی جانتا تھا۔ اچھا بیٹھو، کچھ کھاپی لو، تب تک اس کے بھی حواس دُرست ہو جائیں گے تو پتا چل جائے گا کہ کیا بات ہوئی ہے۔ وہ خالہ کے شوہر یعنی میرے اکلوتے خالو کا بھانجا تھا۔ خُدا نے مجھ کو اور میری عزت آبرو کو بچانا تھا کہ یہ فرشتہ میرے رستے میں آیا، ان کا گھر بھی وہاں ہی تھا، جہاں میں بھاگتے بھاگتے ان سے ٹکرا گئی تھی۔ شکر کیجئے کہ اس کہانی کا انجام المیہ نہیں بلکہ خوشگوار ہوا۔ یوں کہ جب میں نے ساری بات خالہ کو صدام کی موجودگی میں بتائی تو ان کے دل میں نیکی کی شمع کی لو تیز ہو گئی اور یوں خالو جان نے خالہ کے خیال کی حمایت کرتے ہوئے صدام کے والدین کو راضی کر کے میری اس کے ساتھ شادی کرا دی۔ جو تحفظ مجھے باپ کے گھر ملا اور نہ ماں کے گھر ، وہ مجھے خالہ اور خالو کے ذریعہ صدام کے گھر میں مل گیا۔ سچ ہے کہ شوہر اچھا ہو تو اس کے گھر سے بڑھ کر پُر امن کوئی جگہ نہیں اور شوہر سے بڑھ کر کوئی بہتر محافظ نہیں-

Latest Posts

Related POSTS