Thursday, October 10, 2024

Bejor Rishte

نبیلہ کے والدین نے بہت سال پہلے امریکا میں رہائش اختیار کر لی تھی۔ وہ امریکا میں پیدا ہوئی مگر اس کے گھر کاماحول مکمل پاکستانی تھا۔ ماں اس کو البم میں تصاویر دیکھا کر بتایا کرتی تھی کہ پاکستان میں شادی کی رسمیں کتنے رنگ برنگے طریقے سے ادا کی جاتی ہیں۔اس کی بڑی آرزو تھی کہ وہ کسی شادی کی ایسی رسم میں شرکت کرے جس میں لڑکیاں موم بتیاں جلا کر دلہن والوں کے ہاں لے جاتی ہیں، لڈی ڈالتی ہیں اور ڈھولک پر گیت گاتی ہیں۔ اس کو یہ موقع اس وقت ملاجب اس کے ماموں زاد بھائی کی شادی کا بلاوا آیا۔ وہ اسکول کے امتحان سے فارغ ہو کر بیٹھی ہی تھی۔ اس نے ماں باپ سے ضد کی کہ وہ شادی میں شرکت کے لئے پاکستان چلیں۔ باپ نے بیوی بچوں کو کراچی بھیج دیا۔ شادی کا ہنگامہ عروج پر تھا۔ روز کی شاپنگ، مہمانوں کا آنا جانا، دلہن والوں کے ہاں سے مسلسل فون ، گھر گھر میں انواع و اقسام کے پکتے کھانے، جن کی خوشبو نبیلہ کو بڑی عجیب لگتی تھی۔ مایوں، مہندی اور دلہن کا اسٹیج پر بہت شرمائے ہوئے انداز میں نیچی نظریں ساکت بیٹھے رہنا، اس کے لیے بہت انوکھا تجربہ تھا۔ وہ حیران نظروں سے ہر بات کو دیکھ رہی تھی۔ وہ پر کشش تھی اور اپنا ایک منفرد انداز رکھتی تھی۔ اس کی خود اعتمادی نے اسے ایک وقار عطا کیا تھا۔ اس کو خبر نہ تھی۔ محفل میں دو آنکھیں مستقل اس کا تعاقب کرتی رہتی ہیں اور یہ دو آنکھیں رمیز کی تھیں جو دولہا کا ایک قریبی دوست تھا۔ وہ ایک بہت معمولی گھرانے کا لڑکا تھا مگر بہت ذہین اور چالاک تھا۔ اس نے سارے دوست بہت اچھے گھرانوں کے بنارکھے تھے۔ اس کی آنکھوں میں مستقبل کے اونچے خواب تھے۔ اپنے خوابوں کی تکمیل اس کو نبیلہ کے روپ میں نظر آئی۔ اس نے نبیلہ پر بھر پور توجہ دی۔ ہر کام میں وہ آگے ہوتا تھا اور اس شادی کے ہنگامے کے بعد وہ دن آگیا جب محبت کا تیر نبیلہ کے دل میں ترازو ہو گیا۔ رمیز میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ براہ راست اپنے والدین کو نبیلہ کی ماں کے پاس رشتہ لینے بھیج دیتا۔ اس کو علم تھا کہ اس کو پسند کرنے کے باوجود غربت کی وجہ سے یہ رشتہ ناقابل قبول ہو گا۔ تبھی اس نے نبیلہ کو مجبور کیا کہ وہ اپنی ماں کو اس رشتے کے لیے تیار کرے۔ نبیلہ نے ماں سے بات کی۔ وہ حیران رہ گئیں۔ سارے خاندان والوں کی سمجھ سے یہ بات بالا تر تھی کہ اچھے خاصے گھرانے کی لڑکی رمیز جیسے لڑکے سے شادی کیوں کرنا چاہتی ہے جبکہ ان دونوں کا کوئی جوڑ ہی نہیں ہے۔ رمیز کی کسی نے برائی نہیں کی تاہم سبھی کو علم تھا کہ اگر نبیلہ پاکستان میں شادی کرنا چاہتی ہے تو اس کے لئے اچھے گھرانوں کے رشتے موجود ہیں۔ نبیلہ نے ایک نہ سنی۔ اس عرصے میں رمیز غائب ہو گیا۔ اس نے نبیلہ سے کوئی رابطہ نہ رکھا۔ اس کو شاید پتا تھا کہ اس نے نبیلہ کو اچھی طرح اپنی محبت کے جال میں پھنسا لیا ہے۔ فیصلہ اس کے حق میں ہو گیا۔ نبیلہ کی ماں نے اپنے شوہر کو امریکا فون کیا۔ معاملہ بیٹی کا تھا۔ انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو ، ٹکٹ کٹا کر سیدھے کراچی پہنچ گئے اور نبیلہ کے کزن کو ساتھ لے کر بغیر بتائے رمیز کے گھر پہنچ گئے۔ ٹاٹ کے پردوں اور ٹین کے ڈبوں کو سیدھا کر کے گھر کے دروازے بنائے گئے تھے۔ یہ کچا ساگھر دیکھ کر ان کو غش آگیا۔ محلے والوں سے پتا چلا کہ یہ لوگ اپنی اوقات بھول گئے ہیں اور یہاں کسی سے نہیں ملتے۔ ان کا چپڑاسی باپ، بات بات پر محلے داروں سے لڑتا ہے اور بھائی جو ادرک اور پیاز کا ٹھیلہ لگاتا تھا، وہ بھی آئے دن محلے بھر کو گالیاں دیتا ہے۔ بڑا لڑکا اپنے گھر سے زیادہ دوسروں کے گھر میں رہتا ہے اور چوروں کی طرح کبھی کبھی رات کے اندھیرے میں گھر آتا ہے۔ نبیلہ کا کزن جو رمیز کا دوست تھا، کبھی اس کے گھر نہیں گیا تھا، اس لیے اس کو اس حقیقت کا علم نہ تھا۔ سب کو اندازہ ہو گیا کہ یہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند ہے اور رمیز نے بڑی مہارت سے جال بچھایا ہے جس سے نبیلہ کا نکلنا محال ہے۔ والدین نے اپنی عزت بچانے کے لیے بہتری اسی میں سمجھی کہ اس لڑکی کو اپنے ہاتھوں رخصت کر دیا جائے۔ شادی کے دن صبح نبیلہ کے والد نے اس کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ وہ یہ شادی اس کی ضد کی وجہ سے کر رہے ہیں اور وہ اپنے اچھے برے کی خود ذمہ دار ہے۔ اس لڑکے کا پس منظر مختلف ہے اور یہ لڑکا ان کو بہت عیار لگتا ہے کہ وہ خدا سے صرف اس کی اچھی قسمت کی دعا کر سکتے ہیں۔ جہیز کے نام پر اس کے والد نے سب سے پہلے رمیز کے گھر کو پکا کر کے ، ٹاٹ کے پر دے اور ٹین کے ڈبوں کا دروازہ ہٹوا کر وہاں گیٹ لگوایا۔ گھر میں فرنیچر اور پنکھے ، سفیدی کرا کر لگوا دیئے۔ محلے والے کہتے تھے رمیز نے اپنے نام لاٹری نکلوا کر اپنا مستقبل محفوظ کر لیا ہے۔ پانچ ستاروں والے ہوٹل میں جب وہ اپنے رشتے داروں کی بارات لے کر آیا تو خواتین چپل گھسیٹ کر چلنے اور مردوں کے کھانے کے بعد زور زور سے ڈکاریں لینے اور کھانے پر بری طرح جھپٹنے پر نبیلہ کے رشتے دار حیران تھے۔ غربت میں بھی بعض لوگ بڑی انا والے ہوتے ہیں۔ مفلسی میں بھی ان کو کوئی خرید نہیں سکتا مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی۔ شادی کے بعد ہفتہ بھر نبیلہ اسی ہوٹل میں رہی جہاں اس کی شادی ہوئی تھی۔ کبھی کبھی وہ جب اپنی سسرال جاتی تو سارے محلے کی عورتیں دروازوں پر ٹاٹ کے پردوں کے پیچھے سے اس کو دیکھتیں جیسے چڑیا گھر میں نئے جانور کے پنجرے کے باہر ہجوم لگ جاتا ہے۔ جب والدین نے واپس امریکا آنے کے لئے نبیلہ کو ساتھ لے جانا چاہا تو رمیز نے بیوی کو بھیجنے سے صاف انکار کر دیا کہ وہ اپنے امیگریشن کے بعد بیوی کو خود لے کر جائے گا۔ وہ ڈرتا تھا کہ سونے کی چڑیا امریکا جا کے کہیں پھر سے نہ اڑ جائے۔ والدین بیٹی کو بیاہ چکے تھے، وہ کیا کہتے۔ پھر نبیلہ بھی نئی نئی شادی کے نشے میں تھی۔ اس نے بھی ضد نہ کی مگر والدین کے جانے کے بعد وہ سسرال کے گھر میں جہاں اس کے والدین نے بہت کچھ جہیز کے نام پر پہنچادیا تھا اور جو اب اس کے سسرال والوں کے تصرف میں تھا، نہ رہ سکی ماموں نے اس کو ایک بیڈ روم دے دیا جن کے بیٹے کی شادی میں وہ پاکستان آئی تھی۔ رمیز جو پہلے بڑا سہما سہا سا ہوتا اور ہر کام میں پیش پیش ہو تا تھا، داماد کی حیثیت سے اس گھر میں بڑی خود اعتمادی سے اپنے ایئر کنڈیشنڈ بیڈ روم سےنکلتا۔ وہ پہلے بھی کم بات کرتا تھا۔ اب وہ بات تو کم کرتا مگر لہجے میں بڑا اعتماد ہوتا۔ ماموں نے اچھی طرح اندازہ لگا لیا کہ یہ لڑکا بہت عیار ہے۔ جس زمانے میں رمیز کا امیگریشن فائل کیا گیا، اس وقت صرف چند ماہ میں شادی کے بعد ویزا مل جاتا تھا، اسے بھی مل گیا اور وہ نبیلہ کو لے کر امریکا آگیا۔ دوماہ ساتھ رہنے کے بعد باپ نے بیٹی سے کہا۔ مجھے داماد اور کتے پالنے سے سخت نفرت ہے، اس لیے بہتر ہے کہ تم لوگوں کو الگ فلیٹ لے دیا جائے۔ نبیلہ نے الگ فلیٹ لے لیا اور رمیز نے پڑھنا شروع کیا۔ اس نے بیوی سے کہا کہ فی الحال تم کو ملازمت کرنی ہو گی ، جب میں پڑھ لوں گا تب میں ملازمت کروں گا اور تم گھر پر رہنا۔ اس کو کوئی اچھی ملازمت نہ مل سکی کیونکہ وہ صرف میٹرک پاس تھی۔ معمولی نوکری کو قبول کر لیا، باقی اس کے والدین تھوڑی بہت مدد کر دیتے تھے۔ رمیز بھی کالج سے آکر کہیں جزوی ملازمت کر رہا تھا۔ نبیلہ کی ماں نے کئی بار اس کو ماں بن جانے کا مشورہ دیا اور جب نبیلہ نے اس سلسلے میں رمیز سے بات کی تو اس نے انکار کر دیا کہ جب تک اس کی تعلیم مکمل نہیں ہو جاتی اور وہ اچھی طرح اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو جاتا، یہ سوچ بھی بیکار ہے۔ اسی زمانے میں دو بار اس کو ماں بننے کی سعادت سے محروم ہو نا پڑا مگر یہ شادی کیونکہ اس نے اپنی پسند سے کی تھی تبھی وہ شریف لڑکیوں کی طرح بندھن کو تا زیست نبھانا چاہتی تھی۔ رمیز اس کو چاہتا تھا۔ اس کا عشق اس سفاک ظالم اور خود غرض ریچھ کی طرح تھا جو اپنی محبوبہ کے تلوے چاٹ کر اس کو ہمیشہ کے لیے اپاہج کر دیتا ہے اس کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اس نے والدین اور خاندان والوں کی بات نہ مان کر بہت بڑی غلطی کی ہے مگر بعض اوقات لمحوں کی غلطیاں زندگی بھر کا روگ بن جاتی ہیں اور عمر بھر تاوان بھرتے رہنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ دس سال گزر گئے۔ رمیز نے تعلیم مکمل کی۔ پہلے ملازمت کی ، پھر اپنی فرم کھول لی۔ فلیٹ سے وہ لوگ پہلے چھوٹے سے گھر ، پھر شہر کے سب سے قیمتی علاقے میں ایک بڑے گھر میں جس کی آرائش ننھے منے محل کی طرح تھی، منتقل ہو گئے۔ رمیز ہمیشہ کی طرح امریکا میں بھی اثر و رسوخ رکھنے والوں سے ملنا پسند کرتا تھا۔ اس نے اردو بولنا بالکل بند کر دی تھی، صرف انگلش میں بات کرتا تھا۔ نبیلہ کو کبھی کبھی وہ وقت یاد آتا جب اس نے رمیز کو انگلش سکھائی تھی۔ وہ بہت بدل گیا تھا اور اب نبیلہ کو ماں بننے سے روکنا اس کے لئے ناممکن تھا۔ سال بھر تک جب ماں بننے کے کوئی آثار نظر نہ آئے تو دونوں نے ڈاکٹروں سے رجوع کیا۔ رپورٹ آئی کہ سالہا سال ادویات کے استعمال اور دو بار ماں بننے سے چھٹکارہ پانے کی وجہ سے شاید وہ اب ماں نہ بن سکے۔ نبیلہ سن ہو کر رہ گئی۔ اس میں اس کا نہیں، رمیز کا زیادہ قصور تھا مگر سزا اس کو ملی تھی۔ اس کا کافی علاج ہوا جو بے سود رہا۔ رمیز نے بزنس ، مکان، گاڑیاں سب اپنے نام رکھا ہوا تھا۔ اس کا ایک بینک بیلنس اس کے اور نبیلہ کے نام ضرور تھا جس میں بہت تھوڑا پیسہ تھا۔ رمیز نے اس کے ماں نہ بن پانے والی خبر کو بہت نرمی سے لیا تھا۔ اتنے سال ساتھ رہنے کے بعد وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ یہ کتنا گہرا آدمی ہے ، ضرور کوئی نہ کوئی بڑا قدم اٹھائے گا۔ یہی ہوا۔ وہ جب اپنی ماں کے گھر آئی تو چند دن میں طلاق نامہ اس کو پہنچا دیا گیا۔ اس کے والد نے وکیل سے مشورہ کیا۔ وکیل نے معلوم کیا تو پتا چلا کہ اس کی امریکن سیکرٹری کے نام سب کچھ ہے، صرف ایک مشترکہ کھاتہ نبیلہ کے ساتھ ہے جو ہائی اسکول پاس تھی اور جس نے کوڑے کے ایک ڈھیر سے شوہر کو اٹھا کرامریکا لا کر اس کو پڑھا کر آج ایک کامیاب بزنس مین بنادیا تھا۔ وہ اب خالی ہاتھ طلاق نامہ لیے اس کمرے میں بیٹھی تھی جو کبھی شادی سے پہلے اس کا اپنا کمرہ تھا۔ چند دن بعد یہ اطلاع آئی کہ رمیز نے اپنی سیکرٹری سے شادی کر لی ہے۔ نبیلہ کا انجام دیکھ کر میں یہ سوچ رہی تھی۔ ایک معصوم لڑکی کو دھوکا دینے والا یہ شخص کیا خوش رہے گا ؟ ماں باپ کا کہنا نہ ماننے والی لڑکیاں جو والدین کا دل دکھا کر رخصت ہوتی ہیں۔ اس قسم کے حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے کیونکہ وہ دعائوں کے سائے میں ماں باپ کی دہلیز نہیں چھوڑتیں۔

Latest Posts

Related POSTS