Thursday, October 10, 2024

Bereham Haqeeqat

ہم چار بہن بھائی تھے ۔ باجی سائرہ کے بعد دو بھائی پیدا ہوئے لیکن دونوں ہی ایک پراسرار بیماری سے فوت ہو گئے۔ گھر میں باجی سائر اور میں رہ گئے ۔ جب باجی سولہ برس کی ہو ئیں، والد صاحب نے ان کا نکاح اپنے بھائی کے بیٹے کامل سے کرا دیا۔ رخصتی سال بعد ہونا تھی۔ بد قسمتی سے موت نے والد صاحب کو مہلت نہ دی اور وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ والد صاحب کی وفات کے تین ماہ بعد امی نے بیٹی کو رخصت کر دیا۔ اس فرض سے سبکدوش ہونے کے بعد امی نے سکھ کا سانس لیا۔ زمانہ مگر کب کسی کو سکھ کا سانس لینے دیتا ہے۔ تبھی رشتہ دار ان کے پیچھے پڑ گئے کہ تمہارا اس عمر میں بیٹی کو لے کر اکیلے رہنا درست نہیں۔ تیس سال کی عمر میں بیوگی کا تحفہ مل گیا، تمام عمر تنہا کیونکر گزارو گی، بہتر ہے نکاح ثانی کر کے ماں بیٹی کسی نیک انسان کا تحفظ حاصل کر لو۔ والدہ انکار کرتی رہیں اور رشتہ داروں کو ٹالتی رہیں مگر امی کے ماموں نے ان کو اس قدر مجبور کیا کہ بالآخر ان کو مانتے ہی بنی۔ انہی ماموں نے اپنے بیٹے سے میری والدہ کا نکاح کر دیا۔ بتاتی چلوں کہ احسن صاحب کی پہلی بیوی عرصہ ہوا وفات پا چکی تھی۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جس کو پڑھنے کی خاطر انہوں نے بیرون ملک بھیجا ہوا تھا۔ ان کا گھر تو کافی بڑا لیکن دل چھوٹا تھا۔ گھر میں ، میں اور امی تھے۔ انہوں نے امی کو تو قبول کر لیا مگر مجھے نہیں۔ امی پختہ ذہن خاتون تھیں۔ احسن صاحب کا اجڑا ہوا اگھر بس گیا لیکن میری زندگی میں اچانک بڑی تبدیلی آ گئی تھی۔ دل میں میرے والد مرحوم کی یاد میں بسی ہوئی تھیں اور میں کسی اور شخص کوابا جان کہہ رہی تھی۔ کچھ دن تو احسن صاحب کا رویہ ٹھیک رہا، پھر مجھے احساس ہو گیا کہ میں ان کی نظروں میں کھٹک رہی ہوں۔ وہ مجھےبات بات پر جھڑ کتے تھے۔ میرا کوئی فعل، بولنا، کھانا انھیں نہیں بھاتا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ شخص کسی بلا کی طرح میرے پیچھے پڑ گیا۔ امی جان نے بھی محسوس کر لیا کہ حالات سنگین ہوتے جارہے ہیں تبھی انہوں نے سائرہ باجی سے کہا کہ تم ماہرہ کو اپنے پاس رکھ لو۔ یہ بڑی ہو رہی ہے اور سوتیلے باپ کی نظروں میں ہے۔ ایسانہ ہو ، کسی دن اس کی نفرت میرے لئے آزار بن جائے۔ یہ بچی ان کے سامنے بول پڑے اور باپ بیٹی کا رشتہ نافرمانی کی نذر ہو جائے۔  سائرہ مجھے گھر لے گئیں، ان کے سسر میرے سگے چچا تھے اور باپ کے بعد یہ ایک ایسا گھر تھا جہاں میں سہولت کے ساتھ رہ سکتی تھی۔ میں بھی باجی کے گھر آکر خوش ہو گئی۔ والدہ جب چاہتیں ، باجی کے گھر آکر مجھ سے مل جاتیں۔ یہاں آکر میری تنہائی بھی دور ہو گئی محلے کی لڑکیاں سائرہ باجی سے سلائی سیکھنے آتی تھیں۔ میں ان سے گھل مل کر بہت خوش رہنے لگی۔ وقت دبے پائوں سر کتا گیا، یہاں تک کہ میں سولہ برس کی ہو گئی۔ یہ خوابوں کی سہانی عمر تھی اور مجھے پر کوئی روک ٹوک بھی نہیں تھی۔ باجی کے ساس سسر یعنی میرے چچا اور چچی جو پہلے سائرہ باجی کے ساتھ رہتے تھے، اب برابر والے گھر میں سکونت پذیر ہو گئے۔ دیوار کے بیچ کھڑکی تھی، میں جب چاہتی چچی کے پاس چلی جاتی جو مجھ سے محبت سے پیش آتیں۔ چچی جان مجھ کو شروع سے پسند کرتی تھیں۔ وہ اپنے چھوٹے بیٹے قیصر کے ساتھ میری شادی کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ قیصر بھی میرا خیال رکھتا۔ وہ میرے لئے ہار بندے اور ایسے ہی چھوٹے موٹے تحفے لاتا اور میری باجی کو دے کر کہتا کہ آپ یہ ماہرہ کو دیں، شاید وہ میرے ہاتھ سے نہ لے۔ اس کی توجہ سے میں اتنا تو جان چکی تھی کہ وہ مجھ کو پسند کرتا ہے اور اپنی ماں کے اس ارادے سے واقف ہے کہ میں ہی مستقبل میں اس کی شریک حیات بنوں تا ہم کبھی اس نے مجھ سے زبانی اس بات کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔ میری والدہ کی بھی یہی خواہش تھی کہ ہم بہنیں ایک گھر کی بہوئیں بنیں اور میں غیروں میں ڈلنے سے بچ جائوں۔ وہ بار بار باجی سے اس بات کا اظہار کرتیں اور باجی جواب دیتیں۔ امی مجھ پر بھروسہ رکھیں، ان شاء اللہ ! میں ماہرہ کو اپنے دیور کی دلہن بنا کر رہوں گی۔ جب قیصر ہمارے گھر آتا اور باجی کام میں مصروف ہو تیں وہ مجھ سے باتیں کرنے لگتا۔ میری بہن کو اس بات کی پروانہ تھی کہ وہ مجھ سے کیا باتیں کرتا ہے۔ ایک دن باجی اپنی ساس کے ہمراہ محلے میں کسی کی شادی میں شرکت کرنے گئی ہوئی تھیں اور گھر میں کوئی نہیں تھا کہ قیصر آگیا۔ کہنے لگا آج کوئی نہیں ہے اور یہ موقع ہے کہ میں تم سے اپنے دل کی بات کہہ دوں۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں، اب جو تمہارے دل میں میرے بارے میں ہے ، آج مجھے سچ سچ کہہ دو، کیا خبر دوبارہ یہ بات کہنے کا موقع ملے نہ ملے۔ قیصر بے شک تم میرے چچا کے بیٹے ہو مگر میری بہن کے دیور بھی ہو۔ اس رشتے کے لئے تم کو پہلے باجی سے بات کرنا ہو گی، وہ جیسا چاہیں گی ویسا ہو گا۔ میں نے جواب دیا۔ ٹھیک ہے اُن سے تو بات ہو گی ہی، مگر تم کیا کہتی ہو ؟ باجی راضی ہو جائیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ میں نے کچھ جھجکتے، کچھ شرماتے ہوئے اپنا عندیہ دے دیا۔ یہ بات سُن کر اس کا دل خوشی سے لبریز ہو گیا۔ میں تو نجانے کب سے یہ بات سننے کو بے تاب تھا۔ اس نے جواب دیا۔ تمہاری باجی کو اعتماد میں لینا میرا اکام ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ میری مخالفت نہیں کریں گی۔ ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی اور سائرہ باجی کی آواز سُنائی دی، تبھی قیصر جلدی سے کھڑکی کے راستے اپنے گھر چلا گیا۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے باجی، کامل بھائی اور ان کی والدہ کھڑے تھے۔ کامل بھائی اور چچی کمرے میں چلے گئے تو باجی میرے پاس آئیں اور سوال کیا کہ کیا ہماری غیر موجودگی میں یہاں کوئی آیا تھا؟ میں نے جھوٹ بولنا مناسب نہیں سمجھا اور ان کو بتادیا کہ ہاں قیصر آئے تھے تبھی باجی نے رومال مجھے دکھا کر کہا۔ یہ باہر چار پائی پر پڑا تھا اور میں پہچانتی ہوں کہ یہ قیصر کا     رومال ہے ، اسی وجہ سے تم سے پوچھا۔ اچھا ہوا کہ تم نے جھوٹ نہیں بولا ، شاید جلدی میں وہ اسے یہاں بھول گیا ہے، اچھا وہ کیا کہنے آیا تھا؟ ہماری غیر موجودگی میں اس کا آنا کسی مقصد سے ہی ہو گا۔ جی باجی، وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے اور یہی پوچھنے آیا تھا کہ میری اس بات میں رضا ہے کہ نہیں۔ چلو ٹھیک ہے اور مجھے یہ رشتہ منظور ہے۔ میں نے مسکرا کر سر جھکا لیا۔ وہ کہنے لگیں۔ پریشان مت ہونا، میں تم دونوں کے ساتھ ہوں۔ میں خود امی جان سے بات کرلوں گی۔ باجی کی ان باتوں نے میری ہمت بڑھائی، ہم اور زیادہ قربت سے ملنے لگے۔ قیصر باجی کی بہت عزت کرتا تھا۔  ہم دونوں سکون سے تھے اور اپنی منزل سامنے نظر آرہی تھی۔ انہی دنوں اس نے کالج میں داخلہ لے لیا۔ اب اس کو گائوں سے شہر جانا پڑتا تھا۔ شہر ہمارے گائوں سے پچیس کلو میٹر دور تھا۔  انہی دنوں قیصر بھائی کے ایک کزن آئے ، ان کا نام فائز تھا۔ یہ لڑکا تعلیم حاصل کرنے کی خاطر آیا تھا، اس کا گائوں ہمارے گائوں سے آگے تھا۔ یہ ہماری چچی کا بھانجا تھا، سو اس کی ذمہ داری اُن کی بہن نے ہماری چچی پر ڈال دی تھی۔ کہلوا بھیجا تھا کہ یہ اب تمہارے بیٹے قیصر کے ساتھ پڑھے گا۔ اس کا بھی اوکاڑہ کے کالج میں داخلہ کروا دو تا کہ دونوں ساتھ کالج آجا سکیں۔ فائز کے آنے سے قیصر خوش ہو گیا کیونکہ اس کو ایک دوست میسر آگیا تھا۔ اس نے فائز کو اپنا رازداں بنالیا۔ وہ میری تعریفیں کرتے نہ تھکتا تھا۔ فائز جب بور ہو کر موضوع بدلتا تو قیصر باتوں باتوں میں پھر میرا ہی ذکرکر دیتا تھا – قیصر بس  کے ذریعے سفرطے کرتا تھا۔ شہر میں ہمارے چھوٹے چچا رہتے تھے۔ کالج ان کے گھر کے پاس تھا، انہوں نے قیصرسے کہا۔ تم یہاں شہر میں میرے پاس ٹھہر جائو۔ کیونکہ یہاں سے کالج نزدیک ہے، تمہیں آنے جانے میں آسانی رہے گی۔ چھٹی والے دن گھر چلے جایا کرنا، مگر وہ وہاں نہیں رہنا چاہتا تھا۔ وہ ایک خود دار اور دوراندیش نوجوان تھا، اس نے بہانہ کر دیا کہ میرا روز گھر جانا ضروری ہے کیونکہ میں گھر جا کر والدین کا ہاتھ بٹانا چاہتا ہوں۔ بات یہ بھی تھی کہ وہ میری خاطر روزگائوں میں واپس آ جانا چاہتا تھا لیکن وہ یہ معاملہ کسی اور پر ظاہر بھی نہ کرنا چاہ رہا تھا- اکثر، فائز، قیصر کو کہا کرتا کہ عورت ذات پر اتنا بھروسا مت کرو۔ وہ ارادے کی کچی ہو تو ایک دن دھوکا بھی دے سکتی ہے اور جواب میں قیصر اسے کہتا کہ سُورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکل سکتا ہے لیکن ماہرہ مجھ کو دھوکا نہیں دے سکتی۔ ایسا کرنا تو دور کی بات، وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔ یہ بات قیصر کی تب ٹھیک تھی کہ میں نے اس کا ساتھ نباہنے کا عہد کیا تھا۔ اسے کہا تھا کہ تمہارے ساتھ عمر بھر رہوں گی۔ تمہارے ساتھ جیوں گی اور ساتھ مروں گی۔ فائز میری باجی کو بھا بھی کہتا تھا۔ ان کے شوہر کا خالہ زاد تھا سو ہمارے گھر آتا جاتا تھا۔ مجھ کو بیراور گنے پسند تھے۔ وہ یہ دونوں چیزیں لاتا اور میری بہن کو دے کر کہتا۔ جس کو پسند ہوں، ان کو دے دیں۔ انہی دنوں کالج جاتے ہوئے بس کا حادثہ ہو گیا۔ فائز کو معمولی چوٹیں آئیں لیکن قیصر دونوں ٹانگوں سے معذور ہو گیا۔  قیصر کی تو زندگی برباد ہو گئی ، اس کا مستقبل اندھیروں میں ڈوب گیا۔ تاہم یہی خُدا کی مرضی تھی، کوئی کیا کر سکتا تھا۔ قیصر کا کالج جانا ختم ہو گیا، اس دُکھ میں فائز برابر کا شریک تھا۔ میرے بعد سب سے زیادہ صدمہ اُسی کو ہوا۔ ماں باپ کو تو تھا ہی ان کے دُکھ کی تو انتہانہ تھی کہ ان کا جواں سال بیٹا وہیل چیئر پر آگیا تھا۔ جب قیصر کا دل مجھ سے بات کرنے کو چاہتا، وہ فائز کو کہتا کہ میری وہیل چیئر کو بھائی صاحب کے گھر لے چلو، مجھے ماہرہ سے بات کرنا ہے۔ فائز نے کچھ دن تو خوش دلی سے اس فرض کو انجام دیا پھر وہ اس مشقت سے کترانے لگا۔ پہلے قیصر روزانہ ہمارے گھر آتا تھا، اب تیسرے چوتھے دن آ پاتا کیونکہ فائز پڑھنے کا بہانہ بناتا اور کبھی دوستوں سے ملنے باہر نکل جاتا۔ میں ہر روز چچی کے گھر قیصر سے ملنے نہیں جاسکتی تھی کیونکہ وہاں چچا تھے اور مجھے چچا سے حجاب آتا تھا۔ رفتہ رفتہ میرا دل قیصر سے کھیچنے لگا۔ اب پتا چلا کہ وہ وقتی جذبہ تھا کیونکہ جب امی اور باجی مل بیٹھ کر میرے بارے مایوس کن باتیں کرتیں تو رونا آنے لگتا۔ وہ کہتی تھیں کہ ماہرہ بھلا اب قیصر سے کیا پھل پا سکے گی۔ وہ بیچارا تو معذور ہو گیا ہے ، وہ کیسے ازدواجی زندگی بسر کر سکتا ہے۔ وہ ایسی باتیں کر کے مستقبل کے اندیشوں سے ڈرانے لگیں۔ گویا انہوں نے میرے ذہن میں قیصر کی محبت کو دور کرنے کی خاطر زہر گھولنا شروع کر دیا تھا۔ ان کی توجہ کا مرکز اب فائز ہو گیا تھا، خاص طور پر میری باجی کو اس میں بے شمار خوبیاں نظر آنے لگی تھیں۔ وہ کہتیں۔ اگر قیصر اپنا ہے تو فائز بھی غیر نہیں ہے۔ یہ بھی تو اپنے ہی گھر کا لڑکا ہے۔ ہم نے قیصر سے ماہرہ کی شادی کر کے اسے خود کشی تو نہیں کروانی ، جب لڑکا ہی اس لائق نہیں تو جان بوجھ کر ہم اپنی بیٹی کو کنویں میں دھکا نہیں دے سکتے ۔ ایسی باتیں سُن سُن کر میرا ذہن کھولنے لگتا، سمجھ میں نہیں آتا تھا کیا کروں؟ کبھی سوچتی میری والدہ اور بہن میری دشمن نہیں ہیں۔ وہ میرے بھلے کا ہی سوچ رہی ہیں اور کبھی قیصر کا مجبور اور معصوم چہرہ نظروں میں پھرنے لگتا تھا جو میرا سہارا چاہتا تھا۔ قیصر اب بھی میری بات کو حکم کا درجہ دیتا تھا۔ اگر میں کہہ دیتی کہ کل ضرور آنا، وہ اپنی ماں سے التجا کرتا کہ مجھے آپ بھائی صاحب کے گھر لے چلئے۔ ان سب باتوں کو جان کر بھی خُدا جانے مجھے کیا ہوتا جارہا تھا، میں کیوں اتنی خود غرض ہوتی جاتی تھی کہ اب قیصر کی باتیں میرے دل کو نہ لبھاتی تھیں۔ مجھ کو اس کے آنے کی ایسی خوشی نہ ہوتی جیسے پہلے ہوا کرتی تھی۔ اس کے برعکس اب مجھے فائز کا آنا اچھا لگتا، اس سے باتیں کر کے دل خوش ہوتا اور باجی بھی پہلے کی طرح بالکل ویسے ہی میرا ساتھ دے رہی تھیں جیسا قیصر کے معاملے میں دیا کرتی تھیں۔ کامل بھائی تو صبح ہی ڈیوٹی پر چلے جاتے اور رات گئے لوٹتے، باجی اکثر وقت کچن میں ہو تیں۔ ایسے میں فائز آ جاتا، وہ گھنٹوں میرے پاس بیٹھا باتیں کرتا اور باجی کو احساس تک نہ ہوتا کہ ان کی ساس کا بھانجا بیٹھا ہوا ہے جبکہ قیصر کی اور بات تھی وہ تو ان کا دیور تھا۔ باجی کا گھر بھی اسی کے والد کا گھر تھا جبکہ فائزدور کارشتے دار تھا۔ میں جانتی تھی کہ وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہی ہیں۔ باجی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئیں۔ انہوں نے اپنی باتوں سے میرے دل میں قیصر سے دوری اور فائز سے قربت جان بوجھ کر پیدا کر دی اور میں نے اب فائز کے ساتھ آئندہ زندگی کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے۔ قیصر کو ابھی تک ہماری نیتوں کا علم نہ تھا۔ وہ اب بھی ہمیں اپنا مخلص اور غم خوار ہی سمجھتا تھا۔ وہ مجھ پر اور باجی پر خاص طور پر بھروسہ کئے ہوئے تھا۔ وقت آہستہ آہستہ گزرتا گیا لیکن اب میں پہلے والی ماہرہ نہ رہی تھی۔ اب میں قیصر کے آنے سے نہ تو مسکراتی تھی اور نہ اپنائیت سے بات کرتی تھی بلکہ سپاٹ چہرہ لئے اپنے کمرے میں چلی جاتی اور جب فائز آجاتا تو اس کے ساتھ والہانہ باتیں کرنے لگتی۔ اس کی ہر بات کو اہمیت دیتی تھی۔ آخر کار قیصر نے اس بات کو محسوس کر لیا۔ اس نے کئی بار مجھ سے بے رخی کی وجہ پوچھی، میں نے کوئی جواب نہ دیا، البتہ میں نے اس کے سامنے ہی فائز سے خوش ہو کر باتیں شروع کر دیں تو اس کی پریشانی میں اضافہ ہونے لگا، یہاں تک کہ اس کو یقین ہونے لگا کہ میں اب اس کی بجائے فائز میں دلچسپی لینے لگی ہوں۔ ایک دن موقع پا کر اس نے کہا۔ ماہرہ کیا یہ سچ ہے کہ تم مجھے رد کر چکی ہو اور تمہارے خیالات میری معذوری کی وجہ سے بدل چکے ہیں اور میں نے بے رحم بن کر کہہ دیا۔ ہاں قیصر یہ سچ ہے کہ میرے خیالات بدل گئے ہیں کیونکہ میں ایک معذور کی لاٹھی بننے کی بجائے اچھی زندگی گزارنا چاہتی ہوں اور یہ میرا نہیں بلکہ میری والدہ اور بہن کا فیصلہ ہے۔ تم براہ مہربانی ! فائز کے سامنے مجھ سے بات کرنے کی کوشش مت کیا کرو، اس کو یہ اچھا نہیں لگتا۔ اس کے بعد قیصر نہیں آیا۔ میں نے دل پر پتھر رکھ کر یہ سخت بات اس لئے کہی کہ آخر مجھے ایک دن فیصلہ تو کرنا ہی تھا اور یہ فیصلہ قیصر کو بھی بتاتا تھا۔ کوئی مجھے بے رحم کہے یا کہ انسانیت سے گرا ہوا مگر یہ حقیقت تھی کہ میں تمام عمر ایک معذور آدمی کے ساتھ نہیں گزار سکتی تھی اور حقیقتیں بے رحم ہی ہوتی ہیں۔ بہر حال اس بات کا قیصر کے دل پر گہرا اثر ہوا، اس نے گھر سے باہر آنا چھوڑ دیا۔ وہ اپنے کمرے میں رہتا تھا۔ اس نے سگریٹ نوشی کو اپنا شعار بنا لیا، شیو بڑھ گئی ۔ کئی دنوں تک کپڑے بدلنے سے گریز کرنے لگا۔ اس نے اپنا حال درویشوں کا سا بنا لیا۔ فائز اس کو سمجھاتا تھا کہ پیارے یہ وہ دنیا ہے جس کے بارے میں تم کو کہا کرتا تھا کہ اس کا اعتبار نہیں ہے ، یہاں ایسا ہی ہوتا ہے تمہارے ساتھ کوئی انہونی بات نہیں ہو رہی۔ تم کہو تو میں ماہرہ کو دھتکار دوں اور یہاں سے چلا جائوں۔ اگر ماہرہ تمہارے ساتھ خوش ہے تو ایسا مت کرنا بلکہ تم ہی اس کا ہاتھ تھام لو کیونکہ اسے کسی نہ کسی کا ہاتھ تو تھامنا ہی ہے پھر تم ہی کیوں نہیں ۔ میرے بارے میں مت سوچو، میرے لئے سوچنے کو میرے والدین کافی ہیں۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ ماہرہ پر اتنا اعتماد مت کرو، کل یہی اعتبار تمہاری زندگی کا روگ بن جائے گا۔ فائز نے بات کو دہرایا۔ اب جو ہو نا تھا، ہو گیا۔ میں نے اسے دل سے نکال دیا ہے۔ وہ بے وفا لڑکی ہے۔ میرا اس سے کوئی سروکار نہیں، تاہم میں اسے زندگی کی راہوں پر پھلتا پھولتا اور خوش و خرم دیکھنا چاہتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ ٹھنڈی آہ بھر کر خاموش ہو جاتا۔ والدین سے اس کی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔ ظاہر ہے والدین اپنی اولاد کودکھ میں نہیں دیکھ سکتے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ میری والدہ سے قیصر کے لئے میرا ہاتھ مانگ لیتے ہیں اور بغیر جھجھکے بیٹے کی محبت میں سر شار وہ امی کے پاس رشتے کے لئے چلے آئے۔ امی نے باجی سے رابطہ کیا۔ برملا انکار کی جرات ان میں بھی نہ تھی لہذا انہوں نے میرے کہنے پر یہ شرط رکھ دی کہ میری بہن کے تحفظ کی خاطر ماہرہ کے نام ایک مکان شہر میں خرید کر لکھ دیں کیونکہ قیصر معذور ہے تبھی ہمیں لڑکی کا تحفظ در کار ہے۔ باجی کا خیال تھا کہ چچا اور چچی کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں، لہذاوہ رشتے کے مطالبے سے دست بردار ہو جائیں گے لیکن کچھ ہی دن بعد چچا اور چچی دوبارہ امی کے پاس گئے اور کہا کہ ہم نے شہر میں دس مرلے کا نیا مکان خرید لیا ہے ، ہم ماہرہ کے نام وہ مکان لکھے دیتے ہیں ، آپ رشتے کے لئے ہاں کر دیں۔ جب انہوں نے یہ بات کی۔ میں سُن ہو کر رہ گئی۔ میں نے والدہ کو باجی کے پاس بلوایا اور کہا کہ مجھے اس رشتے سے انکار ہے۔ آپ کیوں مجھے ایک معذور کے پلے باندھ کر خود کشی پر مجبور کر رہی ہیں ، ان کو مکان واپس کردیں، مجھے قیصر سے نہیں بلکہ فائز سے شادی کرنی ہے۔ میرے لہجے کی سختی کو محسوس کرتے ہوئے امی نے میرارشتہ دینے سے انکار کر دیا اور مجھے باجی کے گھر سے اپنے گھر لے آئیں۔ میرے سوتیلے والد کو سمجھا بجھا کر فائز کے گھر روانہ کر دیا۔ یوں میری شادی فائز سے ہو گئی۔ یقینا قیصر پر تو بجلی گری ہی مگر ہماری شادی کامیاب ہو گئی ۔ ہم عرصہ تک خوش و خرم رہے۔ تاہم فائز کو جب جب اپنے کزن کی مجبوری کا خیال آتا وہ رنجیدہ ضرور ہو جاتا اور بھی مجھ سے الجھ بھی پڑتا کہ تم نے پہلے قیصر سے محبت کی ، نباہ کے وعدے کئے پھر اپنا فائدہ دیکھ محبت کو پس پشت ڈال دیا۔ میں تو مرد تھا اور میں نے کسی سے دھو کا کبھی نہیں کیا مگر تم عورت ذات تھیں، اسی لئے دھو کا کیا، تم عورتوں کا کوئی اعتبار نہیں، تمہاری جگہ میں ہوتا تو کبھی اپنی محبت کا رخ تبدیل نہ کرتا۔ میں شرمندہ ہوتی، مگر فائز سے یہی کہتی کہ وہ ماضی تھا، گزر گیا، اب لکیر پیٹنے سے کیا حاصل۔ قیصر بھی تو اب اس دُنیا میں نہیں ہے ، ہماری شادی کے بعد وہ صرف چھ برس جی پایا۔ شاید اس کی زندگی ہی اتنی تھی۔ فائز کو ہی نہیں مجھے بھی قیصر کا دکھ ہے۔ آج بھی اسے یاد کرتی ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔

Latest Posts

Related POSTS