ہماری پڑوسن رضیہ خالہ بہت قابل اور ہنر مند خاتون تھیں۔ میں جب پانچ سال کی تھی، ان سے سپارہ پڑھنے جاتی تھی۔ میرے شوق کو دیکھتے ہوئے یہ خاتون اردو کا قاعدہ بھی پڑھانے لگیں، یوں میں نے پڑھنا لکھنا سیکھ لیا۔ ہمارے گھر کا ماحول کشیدہ رہتا جس کی وجہ سے ہم سب پریشان رہتے۔ والدین کی آپس میں نہیں بنتی تھی۔ ہوش سنبھالا تو سمجھ میں آگیا کہ اصل وجہ غربت ہے۔ ہم آٹھ بہن بھائی تھے۔ جن کی پرورش کی خاطر والدین کو سخت مشقت کرنا پڑتی تھی۔
کنبہ بڑا اور آمدنی کم، اوپر سے روز بہ روز بڑھتی مہنگائی۔ سوچا کیوں نہ میں کچھ ایسا کروں کہ ماں باپ کا ہاتھ بٹاسکوں، گھر کی پریشانیاں کچھ تو کم ہوں گی۔
خالہ رضیہ عمدہ کڑھائی کے علاوہ گوٹے کناری کے کام میں بھی طاق تھیں۔ محلے کی لڑکیاں ان سے یہ ہنر سیکھنے آتی تھیں۔ میں بھی اس کارواں میں شامل ہوگئی۔ میں بہت جلد دستکاری کے ہنر میں طاق ہوگئی۔ حساس تھی اور ماں باپ کے دکھ کم کرنا چاہتی تھی۔ محلے والوں کے ملبوس پر گوٹے کناری سے بیل بوٹے بناکر خود کو منوالیا، اس طرح آمدنی کا اچھا ذریعہ میسر آگیا۔ میں ساری اجرت امی کے ہاتھ پر رکھ دیا کرتی۔
ان دنوں میری عمر سترہ برس تھی، جب والد صاحب نے اپنے بھتیجے احسن سے میرا نکاح کردیا۔ وہ لوگ کافی خوشحال تھے۔ اس نکاح پر میں خوش تھی، کیونکہ بچپن سے والدین کے گھر دکھ ہی دکھ دیکھے تھے۔ تنگدستی کا عذاب سہا تھا۔ میں اسی آس میں جیون گزار رہی تھی کہ آج نہیں تو کل جب میری شادی ہوجائے گی تو ان دکھوں سے جان چھوٹ جائے گی۔
نکاح کو تین سال گزر گئے۔ تایا میری رخصتی کے لیے ابا سے کئی بار کہہ چکے تھے، ان کو یہی جواب ملتا… تھوڑے دن اور صبر کرلو… جلد رخصت کردیں گے۔ ایک دن کراچی سے تائی تشریف لائیں اور میری رخصتی کی بات کی۔ اماں نے ان کو حسبِ معمول ٹال دیا ،وہ افسردہ ہوکر لوٹ گئیں۔
ان کے جانے کے بعد میری ماں، ابا سے کہہ رہی تھیں۔ ربیعہ کی رخصتی کیسے کردوں۔ یہ لڑکی ہمارا سہارا ہے۔ اس نے گھر کو سنبھالا ہوا ہے۔ سلائی کڑھائی کرکے ہماری مددگار بنی ہوئی ہے، اگر یہ ہاتھ نہ بٹاتی تو ہمارے حالات بہت خراب ہوجاتے۔
یہ باتیں سن کر دل کو ٹھیس پہنچی۔ سوچنے لگی والدین کبھی کبھی کتنے خود غرض ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے میری خوشیوں کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ کیا مائیں اتنی بے حس ہوجاتی ہیں۔ زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ میرے ماں باپ نے آپس میں طے کرلیا تھاکہ اس بار بڑے بھائی یا بھاوج ربیعہ کی رخصتی کا مطالبہ کرنے آئے تو ایسی شرط رکھیں گے جو وہ پوری نہ کرسکیں، یوں یہ آفت ٹل جائے گی۔
والدین کے رویے سے مایوس ہوکر میرے ساس سسر ماموں کے پاس گئے۔ انہوں نے اماں کو سمجھایا کہ ہماری لڑکی کا نکاح ہوچکا ہے، رخصتی بہرحال کرنی ہے، اگر آپ لوگوں کے پلے کچھ نہیں تو ربیعہ کی شادی کا خرچہ میں اٹھالیتا ہوں، وقت پر بیٹی کی رخصتی کردو۔ کل حالات کیا کروٹ لے لیں کچھ پتا نہیں۔ نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔
والدہ پر اپنے بڑے بھائی کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا ۔ انہوں نے شرط رکھ دی، اگر لڑکا اور اس کے ماں باپ یہاں گائوں میں آکر مستقل رہائش اختیار کرلیں تو میں بیٹی کو رخصت کردوں گی ورنہ نہیں… میں اتنی دور انجان شہر میں ربیعہ کو کیسے بھیج دوں۔ جب اسے دکھ سکھ میں ہماری ضرورت پڑے گی ہم وہاں نہ جاسکیں گے۔ میرے سسرال والوں کے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ تایا کا وہاں جما جمایا کاروبار تھا۔ کراچی میں ذاتی گھر بھی بنالیا تھا۔ وہ گائوں آکر کیا کرتے۔ احسن کے والدین مایوس ہوکر چلے گئے۔
جب احسن کو میرے والدین کے انکار کا علم ہوا تو اسے بہت دکھ ہوا۔ ہماری محض منگنی نہ ہوئی تھی بلکہ نکاح ہوچکا تھا۔ وہ ہمارے گھر آیا تاکہ ابا سے بات کرے۔ اس کا میری اماں نے اس قدر برا منایا کہ اسے خوب برا بھلا کہا۔ وہ غمزدہ ہوکر لوٹ گیا۔ دکھ کی بات یہ تھی کہ ابھی وہ حرف مدعا بھی زبان پر نہ لایا تھا کہ میری ماں نے اسے آڑے ہاتھوں لیااور بے عزتی کرکے روانہ کردیا۔
مجھے یہ بات سخت ناگوار گزری۔ کیا کوئی عورت اپنے ہونے والے داماد سے ایسا برا سلوک روا رکھتی ہوگی، جس کے ساتھ اس کی بیٹی کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے۔ اس بات کا اس قدر دکھ ہوا کہ میں بیمار پڑگئی۔
میرا کھانا پینا چھوٹ گیا۔ انتہائی کمزور ہوگئی، کام کرنے کی سکت بھی نہ رہی۔ جن کے کپڑے سینے کے لیے آئے تھے وہ ادھورے رہ گئے۔ان کی شادیوں کی تاریخ قریب آگئی۔ محلے کی عورتیں لڑنے آگئیں، ہمارے ساکھ خراب ہوگئی۔ سلائی کڑھائی کا کام ملنا بند ہوگیا۔ اس ذریعۂ آمدنی پر تالا لگ گیا۔
مجھ سے دستکاری کا کام چھوٹا تو گھر کے مالی حالات میں بگاڑ پیدا ہوگیا۔ دس افراد کھانے والے اور ایک ابا کمانے والے۔ وہ بھی خراد کی دکان پر لوہا پگھلانے کی مزدوری کرتے تھے۔ یہ بڑا سخت کام تھا۔ گرمیوں میں نڈھال ہوکر گرپڑتے۔
میں دلہن کا ایک جوڑا تیار کرنے کے پانچ ہزار لیتی تھی، مہینے میں دو جوڑے بنتے تو ہر ماہ دس ہزار ماں کی ہتھیلی پر آجاتے، کبھی اس سے زیادہ۔
یہ آمدنی بند ہوگئی تو گھر میں چولہا جلنا ناممکن ہوگیا۔ اوپر سے ایک بہن معذور تھی، جس کی دیکھ بھال اور خدمت گزاری کا فریضہ بھی میرے ذمے تھا۔ گھر کے حالات بگڑتے دیکھ کر ماں نے ابا سے کہا۔ دیکھ لو، تم ربیعہ کی رخصتی کی حمایت کر رہے تھے، بیماری کی وجہ سے کام بند ہوا ہے تو فاقوں تک نوبت آگئی ہے۔ یہ اگر رخصت ہوکر چلی گئی تو ہمارے بچوں کا کیا ہوگا۔
میں مایوس ہوچکی تھی لیکن آخری بار پھر میری ساس آگئیں۔ کہا کہ ابھی وقت ہے، آپ لوگ سوچ لیں منکوحہ بیٹی کو تم نے رخصت تو کرنا ہے۔ ہم اپنے ہیں اس لئے اتنی تاخیر برداشت کی ہے۔ غیر ہوتے تو لوگوں کے ایسے رویے پر طلاق تھما کر چلے جاتے۔ ماں نے جواب دیا ۔ بھاوج ہمیں بیٹی کی رخصتی نہیں کرنی، ہمیں طلاق ہی چاہئے، کیونکہ ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ ربیعہ کو ٹی بی ہے، اس کی شادی نہیں کرنا ورنہ جس کے گھر جائے گی وہ بھی اس بیماری کا شکار ہوجائیں گے۔
ماں نے صریحاً جھوٹ بولا تھا۔ تائی بھی ان کے جھوٹ کو سمجھتی تھیں، جواب دیا۔ ربیعہ ہماری اپنی بچی ہے ٹی بی ہے یا جو بھی بیماری ہے ہم علاج کروالیں گے، تم بس رخصتی کردو۔ جواب ملا ۔تو پھر کراچی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر آجائو۔ یہاں آگئے تو کیا کریں گے؟ کھیتی باڑی یا مزدوری ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ میں سمجھ لوں کہ تمہاری طرف سے صاف انکار ہے، رشتہ توڑنا چاہتے ہو۔ ماں نے کہا ۔ ہاں کہہ تو دیا ہمیں طلاق چاہئے اور کیسے کہوں۔
ماں کی بات سن کر میں بیہوش ہوگئی۔ تائی نے بھی محسوس کیا کہ مجھے سخت صدمہ ہوا ہے۔ وہ ایک دن اور ٹھہر گئیں۔ جب مجھے ہوش آیا تو موقع پاکر کہہ گئیں۔ تم ہمارا ساتھ دو۔ ہم طلاق نہیں دیں گے تمہاری ماں کو بعد میں منالوں گی۔ وہ چلی گئیں اور میں ان کی بات پر غور کرنے لگی۔ تائی تایا کا ساتھ دوں، ان کی پناہ میں چلی جائوں یا مطلقہ ہونے کا داغ لگوالوں… احسن بھی مجھے چاہتا تھا۔ میں کسی صورت اس کے ساتھ نکاح کے بندھن کو نہیں توڑنا چاہتی تھی۔ سوچتی تھی اگر اس بندھن کو توڑنا ہی تھا تو میرے ماں باپ نے اسے باندھا ہی کیوں تھا۔
تائی کا گھر ہمارے مکان کے برابر تھا۔ جب کراچی سے چند دن کے لیے آتے،اسی میں قیام کرتے۔ رات کو جب والدین سوگئے ،میں کنڈی کھول کر ان کے گھر چلی گئی۔ میں نے ان سے کہا۔ مجھے طلاق نہ دیں، ہر طرح سے آپ کا ساتھ دوں گی۔ جتنا ہوسکا ماں باپ کا بھی ساتھ دیا ہے۔ اب گھر
بسانا میرا حق ہے… اپنے بچوں کی ذمے داری وہ خود اٹھائیں۔ میں میکے کی غربت سے تنگ ہوں، اب مزید محنت نہیں کرسکتی… ٹوٹے ہوئے دل سے لوگوں کے قیمتی ملبوسات کو گل بوٹوں سے نہیں سجاسکتی۔شادی کے بعد یہ محنت کرلوں گی اور جو اجرت ملے گی اپنے غریب والدین کی نذر کردوں گی۔
تایا ابو کو میری یہ بات پسند آئی۔ انہوں نے تائید کی۔ صبح منہ اندھیرے میرے تایا، تائی اور احسن بس اڈے گئے۔ میں بھی انہی کپڑوں میں جو پہنے ہوئے تھے، ان کے ہمراہ تھی۔ ہم بس سے سفر کرکے اگلی صبح کراچی پہنچ گئے۔
میرے پیچھے جو ہوا بیان سے باہر ہے۔ ماں نے بہت شور مچایا مگر میں نے ان کی ایک نہ سنی۔ ماموں کو مجھے لینے کراچی بھیجا لیکن میں نہ گئی۔ اب میں اپنے شوہر کے گھر بطور ان کی بیوی موجود تھی۔ تایا نے ولیمے کی ایک چھوٹی سی تقریب کا اہتمام کیا، جس میں محلے والوں کے علاوہ ان کے کاروباری دوست احباب بھی شریک تھے۔
میرے شوہر اور ساس سسر نے اتنا میرا خیال رکھا کہ میں ان پر فریفتہ ہوگئی۔ سسرال آکر پہلی بار مجھے زندگی اور خوشی کا احساس ہوا۔ مدت بعد اچھے کپڑے پہنے اور اچھا کھانا نصیب ہوا۔ سکون کی نیند میسر آئی۔ ماں باپ کی روز کی ڈانٹ پھٹکار سے جان چھوٹ گئی۔ تیزی سے روبہ صحت ہونے لگی۔ جلد ہی رنگ روپ نکل آیا۔
میکے میں دستکاری سے زیادہ مجھے چھوٹے بہن بھائیوں کی خدمت نے تھکا دیا تھا۔ سب سے بڑی ہونے کے ناتے ہوش سنبھالتے ہی والدین کی اولاد کو سنبھالنا پڑا تھا۔ ماں جنم دیتی جاتی اور میں ان کے بچوں کو نہلانے دھلانے، کھلانے پلانے اور پالنے کی ڈیوٹی سر انجام دیتی رہتی۔
یہاں سکون تھا۔ تایا اور تائی میں ذہنی ہم آہنگی تھی، ان میں لڑائی نہ ہوتی تھی۔سب صلح اور پیار محبت سے رہتے، اب تو میں خواب میں بھی میکے لوٹ کر جانا نہیں چاہتی تھی۔
میری شادی کو چھ ماہ گزرچکے تھے، اس دوران والدہ نے کئی رشتے داروں کو بھیجا کہ تایا پر دبائو ڈالیں، وہ ہماری بیٹی کو بھیج دیں، میں نے انکار کردیا۔ عید میں ایک ہفتہ باقی تھا کہ ایک دن اچانک ماں آگئی۔ آتے ہی مجھ سے لپٹ کر دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ ان کو بلکتا دیکھ کر میں بھی رونے لگی۔ وہ میری ماں تھی جس نے مجھے جنم دیا تھا۔ احسن نے والدہ کو تسلی دی۔ معافی مانگی اور کہا… چچی جان یہ آپ کی بیٹی ہے۔ گھبرائیے نہیں ہم اسے میکے آنے جانے سے کبھی نہیں روکیں گے۔ میں خود ربیعہ کو لے کر آئوں گا۔ اماں کی میرے سسرال میں بہت عزت و خاطر مدارات کی گئی۔ سب نے انہیں آنکھوں پر بٹھایا… یہ دن ایسے تھے جیسے کوئی خوبصورت خواب ہو۔
عید میں دو روز باقی تھے، اماں بولیں ۔اب گھر جانا ہے، مہربانی کرو میری بیٹی کو عید پر میرے ساتھ جانے دو۔ اس کے بہن بھائی بہت اداس ہیں۔ اس کا باپ بیمار پڑا ہے۔ جب سے یہ گئی ہے کسی نے ٹھیک طرح کھانا کھایاہے اور نہ سکون کی نیند سویا ہے۔
انہوں نے اس قدر مجبور کیاکہ تایا اور تائی کو اجازت دیتے ہی بنی۔ کہا کہ احسن ساتھ جائے گا اور ساتھ لے آئے گا۔ اماں بولیں۔ کیا مجھ پر اعتبار نہیں ہے؟ میں خود پہنچانے آجائوں گی۔ احسن تو دو دن بعد واپس جانے کا کہے گا، جب کہ میں ربیعہ کو چند دن اپنے پاس رکھنا چاہوں گی۔ اب تو شادی ہوچکی ہے۔ شادی شدہ لڑکی کو کون ماں باپ اس کے گھر واپس جانے سے روک سکتے ہیں۔ ماں یہ کہتے ہوئے روتی رہی تو سبھی کا دل پسیج گیا۔ احسن نے کہا۔ امی جان ربیعہ کو چچی کے ساتھ جانے دیجئے۔ میں ہفتہ دس دن بعد خود جاکر لے آئوں گا۔ میں نے بھی ساس سے التجا کی تو وہ راضی ہوگئیں اور اماں مجھے ساتھ لے کر گائوں آگئیں۔
دس دن بعد میں نے بیگ میں کپڑے رکھے اور جانے کی تیاری کرلی کہ آج کل میں احسن آنے والے تھے، مگر وہ نہیں آئے، البتہ والد صاحب مجھے بتائے بغیر کراچی روانہ ہوگئے۔ ابا دو دن بعد لوٹے تو ان کے ہاتھ میں طلاق کے کاغذات تھے۔ نجانے انہوں نے وہاں جاکر کیا فساد کھڑا کیا کہ تایا نے بیٹے کو حکم دے دیا۔ میرا بھائی بیٹی کے ماتھے پر ہر صورت طلاق کا ٹیکہ سجانا چاہتا ہے تو اس کی منشا پوری کردو۔
میں دیوانی سی ہوگئی۔ پہروں خلائوں میں تکتی تھی۔ کسی بات کا ہوش نہ رہا۔ مسلسل بخار رہنے لگا۔ پہلے ٹی بی نہ تھی، اب سچ مچ اس موذی بیماری نے پکڑلیا۔ والدین کی غربت کا بوجھ بانٹنے کے بجائے خود ان پر بوجھ بن گئی۔
والدین گھبراگئے۔ ایک بچی پہلے ہی پولیو زدہ تھی،اوپر سے میں ٹی بی میں مبتلا ہوگئی۔ علاج کے پیسے کہاں تھے۔ سوچا کہ کسی ایسے شخص سے اس کی شادی کردیتے ہیں جو میرا علاج کرائے اور کچھ ان کی مالی مدد بھی کرے۔ یہ ماموں کا ایک دوست فیضان تھا۔ اسکول کا ہیڈ ماسٹر تھا۔ بیوی کی وفات کو کافی سال گزرچکے تھے۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی شادی شدہ تھے اور فیضان اب تنہا زندگی گزار رہے تھے۔ کوئی روٹی پکاکر دینے والا تھا اور نہ گھر سنبھالنے والا۔ تنہائی سے تنگ تھے۔ ماموں نے میرا ذکر کیا، لیکن ٹی بی کا نہ بتایا۔ اس شخص نے مجھے نکاح میں لینے کی خواہش کا اظہار کردیا۔ بدلے میں والد کی شرط بھی بتادی کہ شادی کے خرچے کی مد میں پانچ لاکھ دینا ہوں گے۔
ماسٹر صاحب خوشحال آدمی تھے۔ انہوں نے یہ سودا بخوشی قبول کرلیا۔ میرے ماں باپ کی غربت کا وقتی حل نکل آیا اور ٹی بی کی مریضہ بیٹی سے بھی نجات مل گئی۔ ماسٹر نے جلد ہی محسوس کرلیا کہ میں بیمار ہوں کیونکہ ہلکی کھانسی اور ہر وقت حرارت سے انہوں نے اندازہ لگالیا کہ صحت کا کوئی مسئلہ ہے۔ شہر لے جاکر ایکسرے کرایا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ ٹی بی کی پہلی اسٹیج ہے چونکہ مرض کی شروعات ہے علاج سے صحت یابی ممکن ہے۔
میں اب جینا نہ چاہتی تھی۔ احسن سے بچھڑنے کا گہرا قلق تھا۔ میرے دل و دماغ پر اپنے سابقہ شوہر کی محبت کے نقوش ثبت تھے۔ جس سے مجھے زبردستی جدا کیا گیا تھا۔ میں نے ماسٹر صاحب کو دل سے قبول نہ کیا۔ وہ مجھے ایک غیر شخص لگتا تھا، جس کے ساتھ بادل نخواستہ رہنے پرمجبور تھی۔ وہ ایک دانا اور حوصلہ مند آدمی تھے۔ انہوں نے میری بیزاری کی پروانہ کی اور سب سے پہلے میری بیماری پر توجہ دی۔ دل جمعی سے علاج کراتے رہے۔ وہ کہتے میکے جانا ہے، لیکن میں منع کردیتی، کیونکہ مجھے اپنے میکے سے نفرت ہوگئی تھی۔
فیضان نے میرا بہت توجہ سے علاج کرایا۔ میں مکمل طور پر صحت یاب ہوگئی۔ ان کی مشکور تھی، لیکن محبت پھر بھی نہ کرسکی، کیونکہ احسن کی یاد ابھی تک میرے دل میں گھر کئے ہوئے تھی، جسے بھلا دینا میرے بس کی بات نہ تھی۔ مجھے ماسٹر کا گھر اپنا گھر محسوس نہ ہوتا تھا، مجھے احسن کا گھر ہی اپنا گھر لگتا تھا۔
ایک دن میڈیکل اسٹور پر دوا لے رہی تھی کہ اچانک احسن وہاں آگیا۔ میں نے شکوہ کیا۔تم نے مجھے طلاق کیوں دی ؟وہ بولا۔ چچا اپنے آپ کو چھرا مار کر ختم کرنے والے تھے۔ بڑی مشکل سے ہم سب نے پکڑا اور ان کے ہاتھ سے چھرا لیا۔ انہوں نے مجبور کردیا، ورنہ میں تمہیں کبھی طلاق نہ دیتا۔ وہ شکوہ جو رات دن میرے اندر شور برپا کرتا رہتا تھا، آج کہہ دینے کا موقع آگیا تھا۔
ابھی ہم بات کر رہے تھے کہ ماسٹر صاحب وہاں آگئے۔ وہ ہماری پشت پر کھڑے تھے۔ ساری باتیں انہوں نے خود اپنے کانوں سے سن لیں، مگر اسٹور پر چپ رہے اور خاموشی سے پلٹ کر چلے گئے۔ جب وہ دکان سے نکلے تو میری نظر ان پر پڑی۔ سوچنے لگی، یا اللہ اب کیاہوگا۔
مجھے سہما ہوا دیکھ کر احسن نے کہا۔ ڈرو نہیں کچھ نہ ہوگا۔ چلو میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آئوں۔ راستے میں تھانہ پڑتا تھا ہم دونوں جب وہاں سے گزرے، ایک پولیس والا ہمیں دیکھ رہا تھا۔ وہ ہمارے قریب آکر بولا۔ آپ لوگ کہاں جا رہے ہو؟ اس سوال پر میں سہم گئی اور احسن
چہرہ بھی فق ہوگیا۔
جانے کیوں اس نے اس طرح پوچھ لیا تھا، لیکن جب ہماری گھبراہٹ دیکھی تو اسے شک گزرا۔تم لوگ آپس میں کیا لگتے ہو؟ احسن نے جان چھڑانے کو کہہ دیا… بھائی صاحب یہ بیوی ہے میری، مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو۔ آخر تمہیں کیا لینا دینا ہے۔ وہ تنک مزاج شخص تھا۔ کہنے لگا۔ جو بھی لینا دینا ہے ابھی پتا چل جائے گا، چلو اندر ۔ اس سے تکرار کرنے کا مطلب اپنی جان مصیبت میں ڈالنا تھا۔ احسن نے سوچا، اسے پیسے چاہئیں۔ اس کے ساتھ تکرار کرنے سے بہتر ہے کہ کچھ نوٹ نذر کرکے جان چھڑالیں۔
احسن نے جیب سے بٹوہ نکالا، کیونکہ میں اس کی سابقہ بیوی ضرور تھی لیکن اب کسی اور کی تھی۔ اپنی عزت بچانے کی خاطر ہم تھانے کے اندر چلے گئے۔ اس نے اندر پہنچ کر کہا کہ تم لوگ جو بھی ہو، دوہزار نکالو ورنہ نکاح نامہ پیش کرو۔ نکاح نامہ ہر وقت کوئی اپنی جیب میں نہیں رکھتا۔ تم کیسی بات کرتے ہو۔
اچھا تو جاکر لے آئو جب تک بی بی ادھر بیٹھی ہے۔ ڈرو نہیں، ہم بھی بہن بیٹیوں والے ہیں، نکاح نامہ لے آنا اور اپنی امانت کو لے جانا۔ دراصل وہ ہم لوگوں کی گھبراہٹ دیکھ کر شیر ہوگیا تھا۔ احسن نے ذرا تیکھے لہجے میں بات کی تو وہ اور اکڑ گیا۔ سچ سچ بتادو تم لوگ آپس میں کون ہو ورنہ حدود کیس میں اندر کردوں گا۔
میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاگیا۔ اب سوائے فیضان کے کوئی نجات دھندہ نظر نہ آیا۔ میں نے ان کا نام لیا کہ وہ میرے موجودہ شوہر ہیں… احسن کزن ہیں ،اتفاقاً میڈیکل اسٹور پر ان سے ملاقات ہوگئی تو انہوں نے میری خیریت دریافت کی اور کہاکہ چلو گھر تک چھوڑ دیتا ہوں۔ جو سچ تھا بتادیا۔ اس نے مجھ سے فیضان کا نمبر لیا اور ان کو فون کردیا۔
وہ اسی وقت تھانے آگئے۔ کسی طرح اس بدگمان انسان کو راضی کرکے مجھے وہ اپنے ساتھ گھر لے آئے۔ احسن کو اس پولیس والے نے پھر بھی نہ چھوڑا۔ میں نے فیضان کو بتایا کہ اتفاقاً اسٹور پر میری احسن سے ملاقات ہوگئی۔ وہ مجھے گھر تک چھوڑنے آرہا تھا۔ بس اتنی ہی بات ہے۔ فیضان نے میری بات کا یقین کرلیا، وہ ایک رحم دل آدمی تھا۔ میری آنکھوں سے بہتے آنسو میری سچائی کی گواہی دے رہے تھے۔
فیضان کو اپنی عزت کا پاس تھا، اس واقعے پر خاموشی اختیار کرلی اور کسی کو کچھ نہ بتایا۔ چند دن احسن حوالات میں رہا، پھر اسے تایا چھڑاکر لے گئے۔ اس واقعے کے بعد میں فیضان کی عظمت کی دل سے قائل ہوگئی۔ اس شخص نے نہ مجھے طعنہ دیا اور نہ باز پرس کی اور نہ ہی میرے ساتھ برا رویہ اختیار کیا۔
اللہ جو کرتا ہے اس میں انسان کا بھلا ہوتا ہے۔ اس واقعے سے میرے دل میں فیضان کی عزت بہت بڑھ گئی۔ سوچا کہ اللہ کے فیصلوں پر سرجھکالینا ہی عین عبادت ہے۔ یہ شخص جیسا بھی ہے مجھے تحفظ تو دے سکتا ہے۔تحفظ جو ماں باپ سے ملا اور نہ ہی تایا اور احسن سے۔
جب تک فیضان زندہ رہے میرا بہت خیال رکھا۔ وفات سے کچھ دن قبل مکان اور اتنی نقدی میرے نام کر گئے کہ میں باقی زندگی عزت سے گزار سکوں۔ فیضان جیسے لوگ نایاب ہوتے ہیں اور کم ہی کسی عورت کے نصیب میں ایسا شوہر ہوتا ہے۔
( ف… ملتان)