امتحان قریب تھے اور میری ہم جماعت سدرہ مجھ سے نوٹس لے گئی تھی۔ اس نے کہا تھا دو تین دن بعد دے جائوں گی وہ نہ آئی۔ ہفتہ گزر گیا مجھے اس کے گھر جانا پڑا، جب اس کے گھرپہنچی اسے مصروف پایا، کہنے لگی۔ میرا تایا زاد صنوبر گل آیا ہوا ہے، اس کے لئے کھانا بنا رہی ہوں۔ ان کے گھرمیں پردے کی پابندی نہ تھی اور گل جلد گھل مل جانے والا لڑکا تھا۔ کچن اپنی والدہ کے سپرد کرکے سدرہ میرے پاس آ بیٹھی تو گل بھی ہمارے بیچ تشریف فرما ہوگیا اور ادھر ادھر کی ہانکنے لگا۔ اس روز وہ مجھے اپنا سا لگا۔ بہرحال تھوڑی دیربعد میں اپنے نوٹس لے کر گھر لوٹ آئی۔
ہفتے بعد سدرہ کا فون آگیا۔ امی کو بخار ہے دو دن سے کام کررہی ہوں، ذرا بھی پڑھائی نہیں ہو پارہی، تم آجاتیں تو کتنا اچھا تھا۔ اس نے کچھ ایسے لجا کر یہ بات کہی کہ قدم نہ روک سکی اور اس کے گھر چلی گئی۔ خالہ جی ایک پڑوسن کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جاچکی تھیں گھر میں سدرہ اکیلی تھی۔ اس کا چہرہ اترا ہوا تھا اور وہ کچن میں گھسی برتن دھونے میں مصروف تھی۔ میں نے کہا۔ لائو میں مدد کرا دوں۔ بولی۔ کھانا بنانا ہے ایسا کرو تم پیاز کاٹ دو تب تک میں آٹا گوندھ لیتی ہوں۔
ہمیں کام کرتے تھوڑی دیر گزری تھی کہ دستک ہوئی، سدرہ نے در کھولا، اس کا کزن گل آیا تھا، بلاتکلف وہ اندر آگیا تو سدرہ نے اسے بتایا کہ امی گھر پر نہیں ہیں…میں نے بھی کہا کہ وہ ڈاکٹر کے پاس گئی ہیں۔
ہمارا خیال تھا کہ ہمیں اکیلے پاکر خود چلا جائے گا مگر وہ جانے کی بجائے برآمدے میں پڑے صوفے پر براجمان ہوگیا۔ ابھی ہم اسی شش و پنج میں تھے کہ کیا کریں، اس کے پاس بیٹھیں یا کام کریں۔ تب میں اس کے پاس جاکر بیٹھ گئی۔ اتنے میں سدرہ کے والد آگئے۔ اکیلے میرے ساتھ گل کو بیٹھا دیکھ کر ان کی تیوری پر بل پڑ گئے، میں شرمندہ ہوگئی اس دن کے بعد سدرہ کے والد اس طرح دیکھتے جیسے میرا آنا پسند نہ ہو اور مجھ پر شک کرنے لگے ہوں۔ میں نے اپنی سہیلی کے گھر جانا ہی چھوڑ دیا۔
امتحان ختم ہوگئے، زندگی کا بیزار کن وقت شروع ہوگیا جی چاہتا سدرہ سے ملوں مگرنہ جاتی۔ گھر میں دل نہ لگا تو سلائی سیکھنے کے لئے جانے لگی۔
ایک روز سلائی سینٹر سے گھر آرہی تھی۔ گیٹ پر ایک نوجوان کھڑا نظر آیا۔ کہنے لگا۔ میں افتخار کا دوست ہوں انہیں باہر بھیج دیں کہنا شفیق آیا ہے۔ بھائی گھر میں ہی تھے میں نے انہیں بتادیا کہ آپ کا دوست آیا ہے۔ افتخار، شفیق کو اندر لے آئے۔ امی سے کہا۔ میرے دوست کی آئو بھگت کریں، شفیق نے ایک دن میری مدد کی تھی اور کچھ غنڈے جو میرا سیل فون چھین رہے تھے، ان سے میری جان بچائی تھی۔ امی نے شفیق کو دعائیں دیں اور خوب خاطر مدارات کی۔ کہا کہ تم نے میرے بیٹے کی جان بچائی ہے آج سے تم بھی میرے بیٹے جیسے ہو۔
شفیق کی ماں اس کے بچپن میں فوت ہوگئی تھیں۔ اس کا بچپن ماں کی ممتا کا پیاسا تھا۔ والدہ نے پیار دیا تو وہ ان کا گرویدہ ہوگیا، یوں رفتہ رفتہ وہ ہمارے گھر کا فرد بن گیا۔ جانے کب اس نے اپنے دل میں مجھے بسا لیا، جس کا زبان سے اقرار نہ کیا، مگر ایک دن جب اپنے کمرے میں گئی تو اچانک نظر کتابوں کی الماری پر گئی، جہاں ایک پھول کتاب کی اوٹ میں رکھا ہوا تھا۔ حیران ہوئی یہاں یہ کون رکھ گیا ہے۔
اس کے بعد یہ اکثر ہونے لگا جس روز شفیق ہمارے گھر آتا۔ مجھے کتابوں میں ایک پھول رکھا ہوامل جاتا۔ میں نے اس بات کا کسی سے تذکرہ نہ کیا اور نہ اسے کچھ کہا، کسی قسم کی غلط فہمی یا انتشار کو میں پیدا نہ کرنا چاہتی تھی، جانتی تھی میری صورت اچھی تھی، اسی وجہ سے خاندان کے اکثر لڑکے مجھ سے شادی کے خواہش مند تھے۔ میں نے اس پھول کو بھی کوئی اہمیت نہ دی میرے دل میں شفیق کے لئے کسی قسم کے جذبات نہ تھے۔ لہٰذا کوئی ردعمل دکھایا اور نہ خفگی کا اظہار کرکے اس کا دل توڑا۔
ایک روز اکیلی تھی۔ وہ آگیا، اسے بتایا بھائی اور امی گھر پر نہیں ہیں۔ مگر وہ جانے کی بجائے بیٹھ گیا، کہنے لگا۔ انعم آج سر میں بہت درد ہے سوچا امی سے کہوں گا چائے بنادیں وہ تو نہیں ہیں تم بنادو مہربانی ہوگی۔ اس نے ایسی صورت بنا رکھی تھی کہ میں مجبوراً چائے بنانے کچن میں چلی گئی۔
ابھی میں نے چائے کا پانی چولہے پر رکھا تھا کہ میرے دوپٹے میں آگ لگ گئی۔ وہ سامنے بیٹھا تھا اس نے جو میری پشت پر جلتا ہوا دوپٹہ دیکھا دوڑ کر آیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے آگ بجھانے لگا۔ تب تک میری قمیض اورسر کے بال جل گئے تھے مگر میں مزید جلنے سے بچ گئی۔ تاہم اس کے دونوں ہاتھ بری طرح جھلس گئے تھے۔ اس دن اس کی قدر میرے دل کوہوئی، اور وہ مجھے اچھا لگنے لگا۔
ایک روز جبکہ امی بیمار تھیں اور اسپتال میں داخل تھیں وہ آگیا اور بولا کہ افتخار نے بھیجا ہے۔ امی کے لئے گھر کا کھانا لے کر اسپتال جانا ہے۔ میں نے جلدی جلدی کھانا ٹفن میں ڈالا اور اس کے ساتھ ہولی۔ امی کے پاس اسپتال میں ہم تھوڑی دیر بیٹھے بھائی نے کہا ڈاکٹر آنے والا ہے اور میرا اس وقت یہاں موجود رہنا ضروری ہے۔ تم شفیق کے ساتھ گھر واپس چلی جائو اور امی کے لئے سوپ بناکر بھجوائو۔ ابو دوائیں لینے گئے ہیں، وہ ڈاکٹر صاحب سے مل کر گھر آجائیں گے۔ میں دوبارہ شفیق کے ساتھ گھر آگئی۔ سوپ جلدی جلدی بناکر اسے دیا۔
دو تین دن وہ اسی طرح صبح شام آتا رہا۔ امی کا پرہیزی کھانا بنوا کر اسپتال لے جاتا جب والدہ صحت مند ہوکر گھر آگئیں تو ایک روز اس نے کہا کہ امی کی صحت یابی کی خوشی میں تمہیں ایک بار آئس کریم کھلانا چاہتا ہوں تم میرے ساتھ باہر چلو گی؟
بھائی اور ابو گھر پر نہ تھے، میں نے والدہ سے کالج کی کچھ اشیاء لانے کا بہانہ کیا اور اس کے ساتھ باہر آگئی۔ دراصل وہ مجھے سیر کے لئے لایا تھا مگر ہماری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کہاں جائیں۔ ہم گھر سے زیادہ دور بھی نہیں جانا چاہتے تھے، واپس جلد لوٹنا تھا ادھر ادھر بازارمیں گھوم رہے تھے کہ شفیق کا ایک دوست مل گیا، اس نے کہا۔ شفیق یار کہاں گھوم رہے ہو۔ میں سامنے دکان سے کافی دیر سے تمہیں ادھر ادھر گھومتے دیکھ رہا ہوں، کسی نے دیکھ لیا تو تمہارے ساتھ اس لڑکی کی بھی بدنامی ہوگی، اگر کہیں بیٹھ کر بات کرنا چاہتے ہو تو نزدیک ہی میرے بڑے بھائی کا مکان ہے، وہاں جاکر بیٹھو اور بات کرلو۔ اصرار کرکے وہ شخص ہمیں ایک قریبی مکان میں چھوڑ گیا… جہاں کوئی مرد نہ تھا مگر ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی، اس نے کہا میں مدثر کی بہن ہوں۔
ہم نے کب اس کی بہن کو دیکھا تھا یہی جانا کہ وہ سچ کہہ رہی ہے۔ وہ لڑکی چائے بناکر لائی ہم نے وہاں آدھ گھنٹے سے بھی کم وقت بیٹھ کر باتیں کیں اور پھر گھر آگئے۔ بس یہ ہماری محبت کی پہلی اور آخری سیر تھی۔ اس کے بعد میں کبھی شفیق کے ساتھ باہر نہ گئی۔ کچھ دنوں بعد وہ لڑکی جس نے اپنا نام رخسانہ بتایا تھا۔ میرے گھر آئی، میں نے خاطر تواضع کی۔ وہ میری سہیلی بن گئی۔ ہفتہ پندرہ دن بعد آجاتی، تھوڑی سی گپ شپ کرتی اور چلی جاتی۔
ایک روز وہ آئی اور بولی۔ سدرہ کل شام میری سالگرہ ہے تمہیں دعوت دینے آئی ہوں ضرور آنا۔ میں نے کہا۔ تمہارا گھر ایک بار دیکھا ہے وہ بھی شفیق کے ساتھ۔ اکیلے نہیں آ سکتی۔ وہ بولی۔ تم فکر نہ کرو میں خود آکر تمہیں لے جائوں گی بس تم تیار رہنا۔
اگلے دن وہ شام کو مجھے اپنی گاڑی پر لینے آگئی۔ والدہ نے اس کے اصرار پر اجازت دے دی کہا کہ جلدی آجانا ورنہ والد خفا ہوں گے۔ جب اس کی گاڑی شہر سے دور جانے لگی تو مجھے خطرے کا احساس ہوا، میرا اندازہ درست تھا، وہ مجھے اس گھر میں نہیں لے گئی جہاں پہلے میں اورشفیق تھوڑی دیر کے لئے بیٹھے تھے بلکہ یہ کوئی اور جگہ تھی جہاں پہلے سے کچھ لڑکے اور لڑکیاں موجود تھے اور ہلا گلا کر رہے تھے۔ یہ سالگرہ کی بجائے کچھ اور طرح کی پارٹی تھی۔ ماحول کو دیکھ کرمیں گھبرا گئی۔ رخسانہ سے کہا کہ یہ کیسی سالگرہ کی پارٹی ہے، میں تو سمجھی تھی تمہارے گھر پر سالگرہ کی تقریب ہے۔
ہماری سالگرہ پارٹی ایسی ہی ہوتی ہے۔ اندازہ ہوگیا کہ اب یہاں طوفان بدتمیزی شروع ہونے والا ہے۔ دل میں دعا کرنے لگی۔ اللہ مجھے یہاں سے بہ حفاظت گھرپہنچانے کی سبیل کردے۔ خوفزدہ بھی تھی رخسانہ تو ہلا گلا کرنے میں مگن ہوچکی تھی، اس کی کئی بار منت کی کہ اللہ کے واسطے مجھے گھر پہنچا دو تم مجھے کس طرح کی پارٹی میں لے آئی ہو، مگر وہ کچھ نہیں سن رہی تھی۔
پچھتانے لگی یااللہ میں کیسے لوگوں میں آپھنسی ہوں جو نشے میں رفتہ رفتہ آپے سے باہر ہوتے جارہے تھے، اب مجھے خود کو اور اپنے والدین کے ناموس کو بچانا تھا۔ اچانک دروازہ کھلا اور وہاں صنوبر گل آگیا۔ اسے دیکھتے ہی میری جان میں جان آگئی دوڑ کر اس کے پاس گئی اور ہاتھ جوڑ کر منت کی کہ گل مجھے یہاں سے لے چلو اور گھر پہنچا دو، رخسانہ مجھے دھوکے سے اپنی سالگرہ کا کہہ کر لے آئی ہے، جانے یہ کونسی جگہ ہے مجھے اپنے گھر کا رستہ بھی نہیں آتا۔
میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اسے یقین آگیا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ باہر لے آیا۔ گل آج میرے لئے فرشتہ رحمت بن کر آیا تھا۔ کہنے لگا۔ میرا ایک دوست یہاں آیا ہوا ہے اور اس کی والدہ کو دل کا دورہ پڑ گیا ہے، اس کے والد نے فون کیا کہ جمشید کو ڈھونڈو اسے ڈھونڈنے ادھر آیا تھا۔ شاید اللہ کو تمہاری مدد کرنا مطلوب تھی۔ والدہ بہت خفا تھیں میں خود حواس باختہ تھی۔ وہ بولیں… وہ لڑکی اصرار کررہی تھی تو کیسے منع کرتی تمہیں خود عقل سے کام لینا چاہئے تھا، اپنے والد کا خیال کرتیں اور اسے منع کردیتیں جانے کہاں کہاں کی لڑکیوں کو سہیلیاں بنالیتی ہو۔ اگر تمہارے ساتھ آج کوئی حادثہ ہوجاتا تو کیا ہوتا۔
اس واقعے کے بعد میں گل کی احسان مند ہوگئی اور دوبارہ اس کی خاطر سدرہ کے یہاں آنا جانا شروع کردیا۔ ایک روز میں وہاں بیٹھی تھی کہ گل اپنی والدہ کے ہمراہ آگیا، اس کی ماں نے مجھ سے کچھ دیر باتیں کیں اور پھر وہ میرا رشتہ لینے ہمارے گھر آگئیں۔ میں سمجھتی تھی کہ سدرہ میرے اور اپنے کزن کے رشتے پر خوش ہوگی،اس کی والدہ جو مجھے بیٹی کہتی تھیںاور بہت پیار سے ملتی تھیں لیکن… جب اسے بتایا کہ تمہاری پھپھو میرا رشتہ گل کے لئے مانگ رہی ہیں، ان کے علم میں یہ بات آتے ہی جانے انہوں نے گل کے والدہ سے کیا کیا کہا کہ وہ دوبارہ نہ آئیں۔
ایک روز میں نے گل کو فون کیا اور پوچھا کہ آپ لوگ پھرکیوں نہیں آئے۔ اس نے کہا… سدرہ کی والدہ کو بتائے بغیر امی کو لایا تھا لیکن تم نے بھانڈا پھوڑ کر معاملہ خراب کردیا۔ انہوں نے امی سے کچھ ایسی الٹی سیدھی باتیں کی ہیں کہ ان کا دل پلٹ کیا ہے۔ انہوں نے چچا جان سے بھی کہلوا دیا ہے کہ تمہارا رشتہ ٹھیک نہیں ہے اور غلط قسم کی لڑکی ہو۔ میں امی کو لاکھ سمجھاتا ہوں مگر وہ نہیں مان رہی ہیں، کہتی ہیں کہ سدرہ کیا بری ہے وہ اپنی ہے تمہیں شادی اسی سے کرنی ہوگی۔
گل کی زبانی یہ باتیں سن کر میرا دل ٹوٹ گیا۔ میں نے اپنی دوست سمجھ کر سدرہ کو بتایا تھا کہ وہ اس رشتے میں میری اور گل کی مدد کرے گی، اس نے الٹا کام خراب کردیا۔ اگر جانتی تو اس سے راز دل نہ کہتی… ساتھ دینے کے بجائے وقتی طورپر اس نے میری ہاں میں ہاں ملائی اور پھر مجھے بدنام کردیا۔ صرف گل کی والدہ کو ہی بدظن نہیں کیا بلکہ ہمارے محلے میں بھی کچھ گھروں میں ایسی باتیں کیں کہ لوگ مجھے غلط قسم کی لڑکی سمجھنے لگے۔ ہم لوگ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔
والد صاحب نے لوگوں کی باتیں سنیں تو گھر بدل لیا اور میں سوچوں کے اندھے کنویں میں جاگری، جہاں مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیرے کے سوا کچھ نہ تھا۔
اب شفیق کی یاد آئی جس کو اس لئے ٹھکرا دیا کہ اس کی وجہ سے اس کے دوست کے گھر جا بیٹھنے کی غلطی کی اوررخسانہ کی بدولت غلط لوگوں کے ہتھے چڑھتے چڑھتے بچی، تب گل نے ہی صحیح سلامت گھر پہنچایا تھا تو اس کی احسان مند ہوکر اس کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا خواب دیکھ لیا اورشفیق سے شادی سے انکار کردیا۔ مگر اپنی ہی غلطی کی وجہ سے اس خواب کی تعبیر نہ پاسکی، کیونکہ راز دل کو راز نہ رکھا اور سدرہ کو وقت سے پہلے سب بتادیا۔
کاش گل نے ہی منع کیا ہوتا کہ یہ معاملہ اس کے رشتہ داروں کو نہیں بتانا ہے۔ مگر اب پچھتانے سے کیا حاصل تھا، جو کھونا تھا کھودیا تھا۔ اور جو شے ایک بار کھو جائے پھر کہاں ملتی ہے۔
اب احساس ہوا کہ شفیق زیادہ اچھا انسان تھا وہ ہم سے مخلص تھا اور میرے والدین بھی اسے چاہتے تھے لیکن ایک غلط فہمی کی بناء پر میں نے اسے مورد الزام گردانا تھا اور اسے ٹھکرا دیا تھا۔ وہ خود نہیں جانتا تھا کہ اس کے دوست کے بھائی کے گھر کوئی غلط قسم کی گرل فرینڈ موجود تھی، تاہم وہ اپنے بھائی کی عزت رکھنے کے لئے خاموش ہوگیا تھا۔
شفیق کی نیت خراب تھی اورنہ مدثر نے کسی بری نیت سے ہمیں اپنے بڑے بھائی کے گھربٹھایا تھا۔ کسی کو بھی رخسانہ کے بارے میں علم نہ تھا۔ یہ میں ہی تھی جس نے بنا جانے بوجھے رخسانہ کو اپنا پتا لکھ کر دے دیا اور اپنے گھر آنے کا کہا تھا۔ وہ آگئی تو غلطی کس کی تھی۔
یہ میں ہی تھی جس نے رخسانہ سے دوستی کرلی اور اسے سہیلی بنالیا، اتنی جلد اعتبارکرلیا والدہ نے منع بھی کیا تو ان کی بات کو نظرانداز کردیا۔ جب میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سب میری کم عقلی اور اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہوا تھا، ساری بربادی کی ذمہ دار میں خود تھی۔ پھرکسی کو الزام دینا کیا معنی رکھتا ہے۔
اب تو ہر ایک سے یہی کہتی ہوں جو کہو سوچ سمجھ کر اور جو قدم اٹھائو سو بار پہلے سوچ لو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہاری ایک لغزش ہمیشہ کے لئے تمہیں کسی گہری کھائی میں گرا دے، مجھے غم ہے کہ گل سے میری شادی نہ ہوسکی تو خوشی ہے کہ اس نے پھر سدرہ سے بھی شادی نہیں کی۔ وہ مجھے نہ ملا تو میری بدخواہ سہیلی کو بھی حاصل نہ ہوا، جس نے میری خوشیاں ہی نہیں سارے خواب خاک میں ملادئیے۔
شفیق اب بھی کبھی کبھی امی جان سے ملنے آتا ہے اس کے جلے ہوئے ہاتھ دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ تم ہی تھے وفا اور بھروسے کے قابل۔ یہ میری بھول تھی کہ گل کی حسین صورت پر مر مٹی اور تمہیں نہ گردانا۔ اب شفیق کی قدر آئی ہے مگر دیر سے۔
وہ شادی کرچکا ہے۔ اس کی دنیا بسی ہوئی ہے۔ امی نے اس کی شادی اپنی بھانجی سے کرا دی تھی۔ وہ بہت اچھا شوہر ثابت ہوا۔ مگر میں جانتی ہوں وہ آج بھی اپنے دل میں میرے لئے چاہ رکھتا ہے، وہ قصور وار نہیں، میں قصور وارہوں، وہ بے وفا نہیں، میں بے وفا ہوں۔
امی ابو نے اس کے ساتھ میری شادی کرنا چاہی تھی تو میں نے انکارکیا اور گل کو چن لیا۔ کیا جانتی تھی کہ وہ بے وفا، وعدہ کرکے وفا نہ کرے گا۔ سدرہ اور اس کے گھر والوں کی بات پر یقین کرلے گا اور مجھے غلط لڑکی کا خطاب دے کر چھوڑ دے گا۔
میں دو کشتیوں کی سوار تھی اور آج میں نے دونوں کو ہی کھودیا ہے۔ آج یہ دکھ ایک بھاری سل کی طرح میرے وجود پر دھرا ہے کہ کاش میں والدین کا کہا مان لیتی۔
آج میرے بال سفید ہوچکے ہیں۔ مگر آج بھی جی چاہتا ہے کہ وہ گزرا وقت واپس آجائے،جو غلطیاں مجھ سے ہوئیں انہیں دوبارہ سدھار لوں۔ جن غلطیوں کی وجہ سے ایک خاردار زندگی میری جھولی میں آگئی انہیں دوبارہ نہ دہرائوں لیکن جانتی ہوں کہ یہ آرزو اب کبھی پوری نہ ہوگی جو وقت گزر جاتا ہے تو وہ پھر لوٹ کر نہیں آتا۔
(الف۔م … لاہور)