Sunday, April 27, 2025

Beti Ki Zid

انیلا اور میں کالج میں ساتھ پڑھتی تھیں۔ اچھی عادات کی وجہ سے میری اس کے ساتھ دوستی ہو گئی۔ وہ بہت محنتی تھی اور ہمیشہ اچھے نمبر لاتی تھی۔ جب میٹرک کا رزلٹ آیا تو اس کی ماں مزید پڑھانے کے حق میں نہ تھی، مگر انیلا نے ہمت کی اور کالج میں داخلہ لے لیا۔ جب اس کا نام کالج کے نوٹس بورڈ پر آیا تو وہ خوشی خوشی گھر گئی اور کہا، بابا، میرا کالج میں داخلہ ہو گیا ہے، اب فیس جمع کرانی باقی ہے۔باپ نے جواب دیا، اچھا، کل فیس لے جانا۔وہ اپنے والد کی لاڈلی تھی کیونکہ وہ اکلوتی بیٹی تھی۔ اس کا والد تاجر تھا، لہٰذا یہ ایک متمول گھرانہ تھا، اسی لیے اس کے تمام ناز نخرے اٹھائے جاتے تھے۔ والدین زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے، لیکن وہ تعلیم کی اہمیت کو جانتے تھے۔

انیلا نے دو سال محنت کی اور اچھے نمبروں سے ایف ایس سی کیا، مگر اسے میڈیکل میں داخلہ نہ مل سکا، لہٰذا اس نے بی ایس سی کرنے کا ارادہ کر لیا۔ وقت گزرنے میں دیر نہیں لگتی، پلک جھپکتے دو سال بیت گئے، اور انیلا اور میں نے ایک ساتھ بی ایس سی مکمل کر لیا۔ اب اس نے اپنے والد سے کہا کہ وہ یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتی ہے۔باپ نے کہا، تم نے بی ایس سی کر لیا ہے، اب گھر کے کام کاج میں دلچسپی لو۔وہ بولی، مجھے اپنے مستقبل کی فکر ہے، میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی۔تب اس کے والد سمجھانے لگے بیٹی، کیسی نادانی کی باتیں کر رہی ہو؟ کل کو تمہیں بیاہ کر دوسرے گھر جانا ہے۔ تعلیم کے ساتھ ہنر بھی ہونا چاہیے۔ سسرال والوں کو پڑھی لکھی سے زیادہ سگھڑ بہو پسند آتی ہے۔انیلا کا لہجہ سنجیدہ تھا۔ بابا! اگر امی کو میری ضرورت ہے تو وہ دو نوکر اور رکھ لیں، لیکن اپنی مدد کے لیے مجھے پڑھنے سے نہ روکیں۔ مجھے ایم ایس سی کرنے دیجیے، یہ میرا خواب ہے۔باپ بگڑ کر بولے، واہ واہ! یعنی تمہاری ماں کا خیال نوکر رکھیں؟ انہیں نوکروں کی کیا ضرورت، جنہیں صرف پیسوں کی طلب ہوتی ہے؟ پھر انہوں نے نرمی سے سمجھایا، بیٹی، لڑکیوں کو تعلیم نوکریاں کروانے کے لیے نہیں دلائی جاتی بلکہ ان کے سیرت و کردار کی تکمیل کے لیے دی جاتی ہے تاکہ وہ دوسری نسل سے پیچھے نہ رہ جائیں۔بابا، آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ واقعی لڑکیوں کو تعلیم اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ آج کل کمپیوٹر کا دور ہے۔ اگر ہم جدید تعلیم حاصل نہ کر پائیں تو یقیناً پیچھے رہ جائیں گے۔یہ بات ان کے دل کو لگی کیونکہ بابا خود اس عمر میں کمپیوٹر سیکھ رہے تھے۔ آخر کار انہوں نے ہی ہتھیار ڈال دیے، اور انیلا نے ایم ایس سی میں داخلہ لے لیا۔ اس نے اپنے سبجیکٹ میں ٹاپ کیا اور اسے گولڈ میڈل ملا۔ بعد میں، کینیڈا سے نوکری کی آفر آ گئی، تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔جس روز اسے گولڈ میڈل ملا، اس کے والد بزنس کے سلسلے میں دوسرے شہر گئے ہوئے تھے۔ باپ کے آتے ہی اس نے تقریب کی روداد سنائی۔ انکل بھی خوش ہو گئے اور انہوں نے مٹھائی منگوا کر سب کو کھلائی۔ کچھ دن بعد جب انیلا نے بتایا کہ مجھے کینیڈا جانا ہے اور وہاں جاب کرنی ہے تو اس کے والد بگڑ گئے۔چاہے تم دس ایم ایس سی کر لو، لیکن تم کو ملازمت نہیں کرنی، خواہ آفر کینیڈا کی ہی کیوں نہ ہو۔ابو، آپ مجھے آگے بڑھنے سے کیوں روک رہے ہیں؟بے وقوفی کی باتیں مت کرو! آخر تمہیں نوکری کی کیا ضرورت ہے؟ ویسے بھی تمہارے رشتے آ رہے ہیں۔ میں اپنی زندگی میں ہی تمہاری شادی کرنا چاہتا ہوں۔بابا، مجھے شادی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مجھے صرف نوکری کرنی ہے، چاہے آپ چاہیں یا نہ چاہیں۔انکل خفا ہو گئے۔ کیا تم کو اعلیٰ تعلیم نے یہی سکھایا ہے کہ باپ کی عزت نہ کرو؟ میرا خیال تھا کہ تم پڑھ لکھ کر مزید فرمانبردار ہو جاؤ گی، لیکن تم نے تو کچھ بھی تعلیم سے حاصل نہ کیا۔ اس سے بہتر تھا کہ تم جاہل ہی رہتیں!یہ کہہ کر وہ غصے سے کمرے سے چلے گئے۔ انیلا کی ماں بیٹی کی آنکھوں میں ایک آنسو برداشت نہیں کر سکتی تھیں، مگر وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔ وہ شام تک روتی رہی۔ ماں نے بڑی مشکل سے اسے باہر نکالا اور سمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ نہ مانی۔ وہ ہر قیمت پر باہر جانا چاہتی تھی اور چلی گئی۔انیلا نے وہاں محنت کی اور نمایاں مقام حاصل کیا۔ انہی دنوں اس کی ملاقات منیجر کے ایک دوست، ابرار، سے ہوئی۔ وہ اچھا پڑھا لکھا اور خوبرو شخص تھا۔ انیلا اس کی قابلیت سے متاثر ہوئی۔وہ جہاں بھی ہوتی، ہمیشہ مجھ سے رابطے میں رہتی۔ اکثر رات کو اس کا فون آتا اور ہم باتیں کرتے۔ ایک دن میں نے پوچھا، تمہیں کوئی پسند آیا؟ تمہارے معیار پر پورا اترا؟وہ ہنس کر کہتی، ابھی ایسا کوئی نہیں ملا۔ جب ملے گا، سب سے پہلے تمہیں بتاؤں گی۔پھر ایک دن وہ بہت خوش لگ رہی تھی۔ میں نے کہا، انیلا! سچ بتاؤ، تمہیں کون سا قارون کا خزانہ مل گیا ہے؟وہ بولی، مجھے واقعی قارون کا خزانہ ہی ملا ہے، اور وہ ہے ایک ایسا شخص جو بہت پڑھا لکھا ہے۔ اس کا نام ابرار ہے کب شادی کر رہی ہو؟یہ بعد میں بتاؤں گی، ابھی کچھ پتہ نہیں۔کچھ دن وہ ایسے ہی ابرار کی باتیں کرتی رہی، پھر ایک دن خوشخبری سنائی کہ اس نے ابرار سے شادی کر لی ہے۔ میں نے کہا، مبارک ہو! لیکن امی ابو سے بھی تو دعائیں لے لیتیں؟وہ خاموش ہو گئی، پھر بولی، بابا تو ابھی تک مجھ سے ناراض ہیں۔ فون بھی کروں تو بات نہیں کریں گے۔میں نے کہا، ایک بار کوشش تو کرتیں؟کی تھی، لیکن وہاں سے وہی جواب ملا کہ تم ہمارے لیے مر چکی ہو۔یہ سن کر میں خاموش ہو گئی۔ پھر وہ ابرار کی باتیں کرتی رہی، اور میں سنتی رہی۔وہ بے غرض نہ تھا، بلکہ مفاد پرست تھا۔ شادی کے کچھ عرصے بعد اس نے اپنی مالی مشکلات کا بہانہ بنا کر انیلا کا اکاؤنٹ اپنے نام کروا لیا۔ وقت کے ساتھ اس نے اسے خوب لوٹا۔ یہاں تک کہ جب قرض اتارنے کی نوبت آئی، تو ابرار نے کہا، یہ قرض تم نے لیا ہے، تم ہی لوٹاؤ گی یہ سن کر انیلا ششدر رہ گئی۔ اس نے زیور بیچ کر قرض کا کچھ حصہ ادا کیا، مگر باقی رقم کے لیے بے بس تھی۔۔۔

ایک دن انیلا کی طبیعت خراب تھی۔ ابرار باہر سے آیا اور کھانا مانگنے لگا۔ انیلا نے جواب دیا کہ اس نے آج کچھ نہیں پکایا ہے۔ اس پر ابرار کو غصہ چڑھ گیا۔ اس نے کہا کہ ایک تو میں تھکا ماندہ گھر آیا ہوں، اوپر سے تم ادائیں دکھا رہی ہو۔ گھر سے بھاگ کر آنے والی لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ مجھے پتا ہوتا کہ تم ایسی بیکار عورت ہو، تو میں تم سے کبھی شادی نہ کرتا۔ میں نے تو سنا تھا کہ تم امیر تاجر کی بیٹی ہو اور تمہارے پاس ہیرے کے سیٹ ہیں۔ آخر وہ سیٹ کہاں ہیں؟ ان کو فروخت کر کے باقی قرضہ اتار سکتی ہو۔

روز روز کی لڑائی سے انیلا بیمار رہنے لگی، پھر ایک دن معمولی سی بات پر ابرار نے اس کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا۔ وہ اس اہانت کے لیے تیار نہ تھی، پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ آج اسے اپنے باپ کے وہ الفاظ یاد آ رہے تھے کہ  ڈگریاں کچھ نہیں، اصل چیز انسانیت اور اخلاق ہے۔ اس نے بتایا کہ ہیرے کے سیٹ تو وہ پاکستان میں ہی چھوڑ آئی تھی، اپنے ساتھ صرف سونے کے چند زیورات ہی لے گئی تھی۔ بہرحال، اس لڑائی کے بعد ابرار چلا گیا اور پھر واپس نہ آیا۔ بیچاری اس کی پریشانی میں کوئی کام بھی نہ کر سکتی تھی کیونکہ اسے اپنے شوہر سے واقعی محبت تھی۔ ٹینشن کی وجہ سے بیمار پڑ گئی اور نوکری بھی چھوٹ گئی۔ دفتر کی طرف سے ملا ہوا فلیٹ بھی خالی کرنا پڑا۔

انیلا نے مجھے خط لکھا کہ  جاب چھوڑ دی ہے اور اب گوروں کا ملک بھی چھوڑنا پڑے گا۔ یہاں کی نوکری بھی سخت ہوتی ہے۔ سوچتی ہوں پاکستان آ کر کیا کروں گی، کہاں جاؤں گی؟ بابا بہت یاد آتے ہیں۔   مجھے انیلا پر بہت غصہ آیا اور رحم بھی۔ غصہ اس بات پر کہ ترقی کے شوق میں اس نے یہ سب کیوں نہ سوچا۔ جاتے وقت میں نے بھی سمجھایا تھا کہ ماں باپ کی دعا لے کر ہی اولاد کامیاب ہوتی ہے اور سچی خوشیاں ملتی ہیں۔ پہلے ان کو راضی کر کے ان کی دعائیں لو، پھر جانا، مگر وہ نہیں مانی۔ اس کی آنکھوں میں تو اپنے خواب تھے۔ پھر شادی کے لیے اس کا انتخاب غلط ثابت ہوا، پھر بھی وہ ایسے شخص پر سب کچھ لٹاتی رہی جو اس کے ساتھ مخلص نہیں تھا۔

وہ چاہتی تو ابرار کے خلاف کارروائی کر سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہ کیا۔ وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہ کر نوکری تلاش کرنے لگی۔ ان دنوں وہ بہت دکھی تھی کیونکہ ابرار اور اس کے درمیان طلاق ہو چکی تھی۔ میں نے انکل کو تمام صورتحال سے آگاہ کر دیا۔ تب انہوں نے فوراً اس سے رابطہ کیا۔ وہ اپنی بیٹی کے بارے میں بہت فکرمند تھے۔ جب انیلا حد درجہ مایوس تھی، اسے ایک خط موصول ہوا، جو اس کے باپ کی طرف سے تھا۔

اس میں تحریر تھا:

 پیاری بیٹی! کیسی ہو؟ تمہیں کبھی ہماری یاد نہ آئی لیکن ہم تمہاری یاد میں جیتے مرتے ہیں۔ مجھے معاف کر دو، میں تمہیں پیار سے سمجھاتا تو تم مان جاتیں، لیکن میں غصے میں آ گیا اور تمہاری ماں کی بھی بات نہ مانی۔ اس کو چپ سی لگ گئی اور مرتے دم تک اس کے لبوں پر تمہارا نام رہا۔ شاید تمہیں علم نہیں کہ ان کی موت کو آج چوتھا دن ہے۔ میں تم کو یہ اطلاع دینے والا تھا، یہ مت سمجھنا کہ مجھے تمہاری پرواہ نہ تھی۔ میرے پاس تمہاری کمپنی کا ایڈریس تھا۔ میں تمہارے بارے میں جانتا ہوں کہ تم اکیلی ہو۔ انیلا، میں چاہتا ہوں کہ تم واپس آ جاؤ۔ گھر کے دروازے تمہارے لیے کھلے ہیں اور میری آنکھیں تمہاری دید کی منتظر ہیں۔ تمہارا بابا۔

جب اس نے یہ خط پڑھا، تو آنسوؤں کی لڑیاں اس کے رخساروں پر بہنے لگیں۔ وہ سوچ رہی تھی کہ واقعی والدین اتنے عظیم ہوتے ہیں، ان کے دل دریاؤں جیسے ہوتے ہیں۔ اس نے مجھے فون کر کے اپنے بابا کا خط سنایا اور بولی،  خط پڑھ کر میں جی بھر کر رونا چاہتی تھی تاکہ ان تین سالوں کو اپنے ذہن سے دھو ڈالوں، مگر ماں کی موت کے دکھ نے مجھے تمام رات رلایا، ایک پل کو بھی سونے نہ دیا۔ اے کاش میں اپنے وطن میں ہوتی اور آخری لمحات میں اپنی پیاری ماں کے پاس ہوتی۔

آج انیلا ایک کامیاب بزنس ویمن ہے، مگر اس کی زندگی کے تجربات اسے ہمیشہ یاد رہیں گے۔ اس کے والد کا انتخاب صحیح ثابت ہوا۔ اس نے اپنے والد کا کاروبار سنبھال لیا اور زندگی کے نشیب و فراز سے سیکھ کر مزید مضبوط ہو گئی۔ اس نے سمجھ لیا کہ والدین کے فیصلے ہمیشہ اولاد کے حق میں بہتر ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس زیادہ تجربہ اور دور اندیشی ہوتی ہے۔

Latest Posts

Related POSTS