والد صاحب، اپنے ماموں کی بیٹی سے بہت محبت کرتے تھے لیکن ماموں ان کو داماد بنانا نہ چاہتے تھے۔ بڑی مشکلوں سے والد صاحب کی آرزو پوری ہوئی اور کو ثر خانم ان کی شریک حیات بن گئیں۔ شادی کو آٹھ برس گزر گئے، اس دوران تین بچے ہو گئے۔ زندگی خوش و خرم گزر رہی تھی۔ اچانک انہیں جانے کیا سوجھی کہ وفادار بیوی کو چھوڑ کر دوسری عورت سے شادی کر لی۔ وہ بہت خوبصورت اور والد صاحب سے عمر میں کم تھی، لیکن تن آسانی اس کی گھٹی میں پڑی تھی سو شرافت کی زندگی اس کو راس نہ آسکی۔ وہ عورت جو بھری محفل میں مجرا کرنے والی سج سنور کر ادائیں دکھانے والی تھی، جس پر نوٹوں کی برسات ہوتی تھی اور کئی دولت مندوں کی نگاہیں اس کے فن کی تحسین میں جھپکنا بھول جاتی تھیں، بھلا وہ چار دیواری میں قید پابندیوں بھری زندگی میں کیوں کر خوش رہ سکتی تھی ؟ دو سال مشکل سے گرہستی کا بوجھ اٹھا سکی۔ اس دوران مجھے بدنصیب نے اس کی کوکھ سے جنم لیا۔ اولاد پائوں کی زنجیر ہوتی ہے مگر اس خاتون نے مجھے پائوں کی زنجیر نہ سمجھا۔ جن دنوں میں ایک سال کی تھی۔ ماں نے ایک رئیس زادے سے مراسم بڑھائے، جس کا نام افروز احمد تھا۔ یہ شخص میرے والد کا دوست تھا۔ اس کی قیمتی جائیداد بیرون ملک میں بھی تھی، دولت بھی بے اندازہ تھی۔ میری ماں کو زیادہ کی ہوس نے خرد سے دیوانہ کیا اور اس نے چاہنے والے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ وہ امریکہ ، برطانیہ، فرانس گھومنا چاہتی تھی، سو میرے والد کو چھوڑ کر اس رئیس زادے کے ساتھ بیرون ملک چلی گئی۔ والد نے مجھے اپنے پاس رکھ لیا۔ تین برس کی تھی کہ والد صاحب کو دل کا دورہ پڑا۔ وہ بچ تو گئے مگر کام کرنے کے قابل نہ رہے۔ وہ میری بے وفا ماں سے دلی محبت کرتے تھے اور اپنی آدھی جائیداد اس کی نذر کر چکے تھے۔ اس کی بے وفائی کا غم ان کے دل کا ناسور بن گیا اور وہ بزنس کی دیکھ بھال سے ، اپنی کمزوری کے سبب قاصر ہو رہے۔ جس عورت کو دلدل سے نکال کر دل کے سنگھ اس پر بٹھایا تھا، اس نے عزت کو مٹی میں ملادیا۔ یہ داغ ایسا تھا کہ وہ اسے اپنے آنسوئوں کے سمندر سے بھی نہیں دھو سکتے تھے۔ یہی صدمہ ان کو لے ڈوبا اور دوسرا دورہ جان لیوا ہوا۔ والد کے وفات کے بعد میں بے یار و مددگار ہو گئی۔ سوتیلی ماں اور اس کے رشتہ داروں نے مجھے قبول نہ کیا۔ میں جائیداد میں حصے دار تھی اس لئے ایک دن سوتیلے ماموں نے مجھ کو یتیم خانے میں لا چھوڑا، جہاں میری ہسٹری لکھ لی گئی۔ اس کے بعد کوئی مجھے ملنے نہ آیا۔ میں یتیم خانے میں پلی بڑھی۔ اس جگہ کا کیا بیان کروں ؟ یہی کہوں گی صدر شکر کہ ایک چھت ، چار دیواری اور روکھی سوکھی بھی ہم جیسی بے آسراروں کو یہاں مل جاتی ہے تو سانس کی ڈوری بر قرار رہتی ہے۔ اکثر یتیم خانے بھی ایک طرح سے معصوم ذہنوں کے لئے عقوبت گھر جیسے ہوتے ہیں۔ میں یہاں اپنا نام فرضی لکھوں گی، کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ ناموں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اصل پہچان یہ ہے کہ آپ کا خاندان کون سا ہے اور کس کی بیٹی ہیں۔ یتیم خانے کے رجسٹر میں نام درج ہونے کے بعد میری اصل پہچان انہی کاغذوں میں گم ہو گئی۔ اب میرا کوئی اس دنیا میں نہیں تھا۔ میں نے اٹھارہ سال یتیم خانے میں گزار دیئے۔ ایک دن یتیم خانے کی نگراں نے بتایا کہ تمہارا رشتہ آیا ہے۔ بہت حیران ہوئی کیونکہ آج تک کسی یتیم دوشیزہ کار شتہ باہر سے نہیں آیا تھا۔ ہمارے ادارے والوں کو خود ہم بے سہارا لڑکیوں کے رشتے ڈھونڈنے پڑتے تھے۔ جب مسعود کی تصویر دکھائی گئی تو ان کی صورت مجھ کو بھا گئی۔ وہ خوبرو اور پر کشش انسان تھے۔ میں نے نگران سے کہہ دیا کہ مجھ کو یہ رشتہ منظور ہے ، وہ خوش ہو گئیں کہ ایک فرض سے سبکدوش ہو رہی تھیں۔ مدت بعد ادارے میں چہل پہل ہو گئی، ایک ایسا موقعہ آیا جب میرے گرد ساتھی لڑکیاں جمع تھیں۔ وہ گیت گا رہی تھیں۔ مجھ کو مہندی لگائی گئی اور میں دلہن بنا کر مسعود کے ساتھ رخصت کر دی گئی۔ شادی کی پہلی رات دولہا نے دھڑکتے دل کے ساتھ میرا گھونگٹ اٹھایا اور بولے۔ میں مل مالک کے ساتھ تمہارے ادارے کے فنکشن میں آیا تھا۔ وہ یہاں بطور مہمان خصوصی بلائے گئے تھے۔ میں نے اس تقریب میں تم کو دیکھا تھا، مجھ کو تم اچھی لگیں۔ میرا بھی اس دنیا میں کوئی نہ تھا، میں نے بھی زندگی یتیم خانے میں گزاری ہے، یتیمی میں ٹھوکریں کھائی ہیں۔ جب میں تمہارے ادارے میں آیا اور تم کو دیکھا تو تمہارے چہرے پر صبر ورضا اور معصومیت تھی، جس نے میرے دل کو تمہاری طرف کھینچا اور میں نے تم سے شادی کا ادارہ کر لیا۔ میں نے مل مالک کے والد سے تمہار ا ذکر کیا تو انہوں نے ادارے کے سر براہ سے ملاقات کی کہ یہ ایک نیکی کا کام تھا پس ان کی ضمانت پر ان لوگوں نے میر ارشتہ تمہارے لئے دینا منظور کر لیا۔ اب یہ تمہارا گھر اور تم میری عزت کی پاسبان ہو ۔ یہاں تمہیں کسی شے کی کمی نہ ہو گی۔ میں تم کو پیار دوں گا، خوش رکھوں گا، تحفے میں اپنا گھر تمہارے نام کرتا ہوں۔ یہ گفتگو آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے۔ وہ کتنا نفیس انسان تھا اور میں کتنی نادان کہ جس نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی جنت اجاڑ لی۔ میں نے چھ برس بہت آرام اور سکون سے گزارے۔ اپنے شوہر کا پیار میری خوشی میری زندگی تھا۔ انہی دنوں مسعود کو بیرون ملک ملازمت کی آفر ہوئی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ میں نے کہا۔ آپ جانا چاہتے ہیں تو چلے جائیے۔ میں ملازمہ کے ساتھ رو لوں گی مگر یہ بات انہیں گوارا نہ تھی۔ ان کا ایک دوست کمال ہمارے گھر کے فرد کی طرح تھا۔ میں اس کی ایک بھائی کی طرح عزت کرتی تھی۔ وہ بھی مجھے بھابھی، بھا بھی کہتے نہ تھکتا تھا اور بے حد احترام سے پیش آتا تھا۔ اس کا کاروبار بہت وسیع تھا۔ اس کے پاس دولت کی کمی نہ تھی، مگر طبیعت میں علیمی اور انکساری تھی۔ غرور نام کو نہ تھا۔ وہ ہمارے ساتھ خوشی خوشی دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھا لیتا تھا۔ مسعود میں میری طرح ایک خامی تھی وو ہر کسی پر اعتبار کر لیتے تھے وہ کمال کو اپنا بھائی سمجھتے تھے۔ جب کمال کو علم ہوا کہ مسعود بیرون ملک جانا چاہتے ہیں تو اس نے ان کو ڈھارس دی کہ تم بے فکر ہو کر جائو، میں اپنی خالہ کو بھابھی کے پاس چھوڑ دوں گا اور خود بھی ان کی خبر گیری کرتار ہوں گا۔ انہی دنوں میں نے مسعود کو خوشخبری سنائی کہ میں امید سے ہوں۔ وہ بہت خوش ہوئے، کہنے لگے۔ اب تو میں تم کو کسی صورت چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔ میں نے مشورہ دیا کہ وہ بچے کی پیدائش کے بعد جائیں۔ مسعود نے میری بات مان لی اور اس آفر کو قبول نہ کیا یعنی بیرون ملک نہ گئے۔ میں نے ایک بیٹی کو جنم دیا۔ ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ زندگی میں، کبھی کسی انسان کو اتنا خوش نہیں دیکھا تھا، جس قدر وہ خوش تھے۔ ایک یتیم بچہ ، جس کو کبھی ماں باپ، بہن بھائی عزیزوں، رشتہ داروں کا پیار ، نصیب نہ ہوا ہو، خود باپ بن جائے تو اس کے لئے یہ بات کتنی خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ سال بعد کمال نے ایک روز مسعود سے کہا۔ تم اگر بیرون ملک جانا چاہتے ہو تو میں تم کو امریکہ بھجواسکتا ہوں۔ مسعود بیٹی کی پیدائش کے بعد اب جانا نہ چاہتے تھے لیکن پھر بچی کے بہتر مستقبل کی خاطر راضی ہو گئے اور ہماری دیکھ بھال کمال کے سپرد کر گئے۔ ان کے جاتے ہی کمال اپنی خالہ کو لے آیا۔ ان سے مجھے بہت مدد اور حوصلہ ملا۔ کمال کا بھی میرے گھر آنا جانا لگارہا وہ ہفتہ میں تین چار بار آتا اور مجھ سے طرح طرح کی باتیں کرتا۔ باتوں باتوں میں اس نے میرے بارے میں ساری معلومات حاصل کر لیں۔ ایک دن اس نے کہا کہ میں تمہاری والدہ کا پتا کرتا ہوں کہ کہاں ہیں ؟ اگر سراغ مل گیا، تو ان کو گھر لے آئیں گے ۔ میں نے کہا۔ جو ماں مجھے اس وقت چھوڑ گئی جب اس کی ضرورت تھی تو اب میں اس کو ڈھونڈ کر کیا کروں گی تاہم کمال نے دلیلیں دے کر میرے دل میں ماں کا پیارا جگا دیا۔ وہ کہتا تھا کہ کیسی بھی ہو ماں پھر ماں ہوتی ہے۔ ایک بار ملو گی تو ان سے جدا ہونے کو تمہارا دل نہ چاہے گا۔ پتا نہیں، کیسے اس نے میری ماں کا کھوج لگا ہی لیا۔ ایک دن وہ ایک ادھیڑ عمر عورت کو لے آیا اور بولا۔ پہچانو یہ کون ہے ؟ میں بھلا کیونکر پہچانتی۔ اس نے بتایا کہ یہ تمہاری ماں ہے۔ ان کا نباہ دوسرے شوہر سے بھی نہ ہو سکا۔ یہ واپس تمہارے والد کے گھر گئیں لیکن وہ فوت ہو چکے تھے اور تمہاری سوتیلی ماں نے ان کو گھر میں گھنے دیا اور نہ ہی یہ بتایا کہ تم کہاہوں۔ ماں مدت بعد مجھ سے ملی تھی۔ لپٹ کر خوب روئی تو میر ادل بھی پسیج گیا اور میں نے ثواب جان کر ان کو قبول کر لیا۔ ماں نے خواہش کی کہ وہ میرے پاس رہنا چاہتی ہیں۔ مجھ کو بھی کسی کا سہار اچاہئے تھا کیونکہ مکمال کی خالہ بھی اب اپنے گھر جانا چاہتی تھیں ، یوں میں نے ماں کو اپنے پاس رکھ لیا۔ کہتے ہیں کہ انسان کی فطرت نہیں بدلتی۔ جو جیسا ہوتا ہے، ویسا ہی رہتا ہے۔ کم از کم میری ماں کے معاملے میں تو ایسا ہی تھا۔ ان کی لالچی طبیعت اب بھی تھی۔ کمال سے ان کی کافی بنتی تھی۔ وہ اس کی دولت سے مرعوب تھیں۔ روز اسے بلا لیتیں اور بار بار کہتی تھیں کاش تیری شادی اس کے ساتھ ہو جاتی تو اچھا تھا۔ مجھ کو ماں کی باتیں بری لگتیں مگر میں لحاظ کی وجہ سے کچھ نہیں کہتی تھی۔ مسعود کا فون آیا تو میں نے ان کو بتایا کہ ماں مل گئی ہیں، کمال نے ان کو ڈھونڈ نکالا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئے اور ماں سے فون پر بات بھی کی لیکن وہ ان سے بات کر کے خوش نہیں ہوئیں۔ وہ کہتی تھیں کمال کا بہت بڑا بزنس ہے۔ وہ صاحب جائیداد لگتا تھا۔ تم نے اس یتیم خانے میں پلے ہوئے لڑکے میں کیا دیکھا ہے جو اس کی وفاداری میں پڑی یہاں سڑ رہی ہو۔ میں ماں کی کسی بات کا جواب دینے کی بجائے خاموش ہو جاتی کیونکہ مجھ کو یتیم خانے میں یہی سکھایا گیا تھا۔ ماں کی کمال کے ساتھ خوب گاڑھی چھنے لگی۔ اب وہ ہر وقت ہمارے گھر بیٹھارہتا۔ ماں سے باتیں ہوتی رہتیں۔ مجھ کو یہ بات اچھی نہ لگتی مگر لحاظ کر جاتی، کچھ کہہ نہ پاتی۔ اس نے ہم پر بھی اپنی دولت کا سحر پھینکنا شروع کر دیا کبھی بچی کے لئے تو کبھی میرے لئے تحفے لانے لگا۔ مجھے برا لگتا لینے میں منع کرتی تو ماں کہتی رکھ لو۔ ماں نے مجھے غیر محسوس طریقے سے مسعود کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا۔ کہتے ہیں کہ اکثر عورتیں کانوں کچی اور عقل کی اندھی ہوتی ہیں۔ سچ ہی کہتے ہیں یا پھر مجھ میں ہی کوئی کمی تھی کہ میں اپنے شوہر کے پیار اور اس کی وفا کو بھول کر ماں کی باتوں میں آنے لگی اور مسعود کے بارے میں غلط سوچنے لگی۔ مسعود نے چار سال وہاں رہنا تھا اور میں نے ڈیڑھ سال بھی انتظار نہ کیا اور بد گمانیوں سے اپنے دل کے دامن کو بھر لیا۔ کمال کہتا کہ وہ کسی گوری کے چکر میں ہے ، اس سے شادی کرے گا تو امریکن شہریت ملے گی۔ وہی مدت پوری کر رہا ہو ۔ اب غیر ملک کے قانون میں کیا جانوں ؟ میں کمال کی باتوں میں آجاتی کہ یہ اتنا اچھا شخص، ہمارا خیر خواہ، بھلا کیوں مسعود کے بارے میں براسوچے گا؟ ضرور اسے کوئی ایسی ویسی سن گن ملی ہو گی۔ ماں کہتی اداس رہتی ہو، کبھی سیر و تفریح کو چلی جایا کرو۔ کس کے ساتھ ؟ میں جواب دیتی۔ میں لئے چلتی ہوں ، کمال سے کہتے ہیں گاڑی ہے نا اس کے پاس۔ غرض اس طرح اکسا کر وہ مجھے اپنے ساتھ ، کمال کی گاڑی میں سیر تفریح کو لے جانے لگیں۔ میں بھی انسان تھی۔ چار دیواری میں رہتے جی گھبرانے لگا تھا۔ سیر کو جاتی تو خوشی محسوس ہوتی۔ تھوڑی دیر کے لئے مسعود کو بھول جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا حال ہی ماں کا پھیلا ہوا تھا۔ اپنی حفاظت میں خود نہیں کر سکتی تھی اور جس کو وہ محافظ بنا کر چھوڑ گیا تھا، اس کی نیت خراب ہونے لگی تھی۔ وہ مجھے میلی نظروں سے دیکھنے لگا تھا۔ ایک دن اس نے کھلے لفظوں میں کہہ دیا کہ تم مسعود سے طلاق لے لو ۔ وہ اب واپس آنے کا نہیں۔ تم کب تک اس کا انتظار کرو گی۔ اس سے طلاق لے لو گی تو میں تم سے شادی کرلوں گا۔ میرے پاس دولت کی کیا کمی ہے۔ جو وہ کمانے گیا ہے ، وہ میرے پاس ڈھیروں کے حساب سے ہے۔ جب میں نے اس کو انکار کیا اور بے رخی برتنے لگی تو ماں نے ایک اور چال چلی۔ اس نے از خود مسعود سے رابطہ کیا اور فون پر بات کرنے لگی۔ میں سمجھی کہ داماد کے رشتے سے ویسے ہی باتیں کرتی ہیں لیکن ایک دن وہ کمال کے ساتھ گھر کے سودا لینے کے بہانے گئیں اور باہر جاکر میرے خاوند کو فون کیا اور ان کے دل میں بد گمانی ڈال دی۔ کہا کہ میرا جھکاو اب کمال کی طرف ہوتا جارہا ہے لہذا اسے جلد لوٹ آنا چاہئے۔ مسعود کو ایسے باور کرایا کہ ماں ہونے کے ناتے وہ اس کا گھر بچانا چاہ رہی ہیں کہ کہیں پانی سر سے اونچا نہ ہو جائے اور یہ بھی قسم دی کہ جو گفتگو وہ اس سے کرتی ہیں وہ مجھ کو نہ بتائیں گے تاکہ ماں بیٹی کا رشتہ خراب نہ ہو۔ مسعود پردیس میں پریشان ہو گئے اور ملازمت چھوڑ کر پاکستان آگئے۔ آتے ہی انہوں نے کہا کہ تم بچی کو گود میں اٹھا کر قسم کھائو کہ تم میری وفادار ہو۔ یہ سن کر میں رونے لگی کہ میرا محبوب شوہر اتنے دنوں بعد بجائے پیار و محبت سے ملنے کے یہ کیسی باتیں کر رہا ہے۔ میں تمہاری راحت اور آرام کے لئے گیا تھا تا کہ زیادہ کمائوں اور تم کو سکھ دوں۔ تمہیں کیا خبر کہ وہاں میں کمانے کی خاطر کتنی تکلیفوں سے گزرا ہوں تاکہ تم کو عیش دے سکوں۔ محنت تو میں پردیس میں تمہارے لئے کر رہا تھا اور تم مجھ سے طلاق لینے کی سوچ رہی تھیں۔ افسوس ہے میں نے تم کو عزت بنایا کیا اس کو وفا کہتے ہیں۔ میں نے رورو کر قسمیں کھائیں کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے یا پھر کسی بد خواہ نے آپ کو میرے بارے غلط باتیں کہی ہیں۔ میں تو آپ سے بے وفائی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ غرض میرے رونے دھونے سے وہ چپ ہو گئے ور نہ تو پستول نکال کر خود کو گولی مارنے چلے تھے۔ اس کے بعد وہ بجھے بجھے رہنے لگے ، واپس امریکہ بھی نہ گئے۔ مجھے سے بات نہ کرتے، کبھی بات کرتے تو بس اس قدر کہ تم یتیم تھیں اور میں بھی اب میں اپنی بچی کو یتیم کرنا نہیں چاہتا۔ انہوں نے کمال سے بھی قطع تعلق کر لیا۔ اپنا کمرہ الگ کر لیا۔ وہ مجھ سے گھر میں رہ کر بھی رابطہ نہ رکھتے۔ ماں سے کھانا لیتے ، جو بات کہنی ہوتی ان ہی سے کہتے۔ ایک دن میں نے رورو کر قسم دی کہ سچ بتا دو آخر یہ آگ کس کی لگائی ہوئی ہے ؟ بالآخر وہ پھٹ پڑے، کہنے لگے۔ ماں ، ماں ہوتی ہے ، دشمن نہیں ہوتی ، اس لئے میں نے یقین کیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ تم کمال کو چاہنے لگی ہو ، اس سے شادی کرنا چاہتی ہو اور مجھ سے طلاق کی خواہاں ہو ۔ بولو ! کیا یہ سچ نہیں ہے ؟ تم جھوٹی ہو یا تمہاری ماں جھوٹی ہے۔ میں نے کہا۔ ماں دولت کی پجاری ہے۔ ان کا تعلق جس گھرانے سے ہے اسے تم نہیں جانتے لیکن میری رگوں میں شریف باپ کا خون ہے۔ تم یتیم خانے نہیں جاتے تو میرے سوتیلے بھائیوں کے پاس جا کر میرے والد کے بارے میں معلوم کر لو۔ میں مر جائوں گی لیکن نہ تو تم سے طلاق لوں گی اور نہ بے وفائی کروں گی۔ اب تمہاری مرضی میری بات کا یقین کرو یا نہ کرو۔ خدا نے مجھ پر کرم کیا ان کو میری بات کا یقین آگیا۔ انہوں نے ماں کے گھرانے کا پتا کیا اور میرے والد کے خاندان کا بھی۔ میرے ایک چچا ان سے ملے تو تمام احوال ان کو بتایا۔ تب انہوں نے ماں سے کہا۔ امی جان! میں نے تو آپ کو ماں سمجھا تھا اور آپ کی بیٹی کو یتیم خانے سے اپنے گھر لا کر اپنی عزت بنایا۔ اگر آپ اچھی عورت ہو تیں تو اس پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر کر تیں لیکن شاید کہ آپ ماں کے روپ میں ایک بیو پاری ہیں۔ آپ نے عمر بھر بس بیوپار ہی کرنا سیکھا ہے۔ میری بیوی بے وفا ہے یا باوفا، میں نے اس سے اتنی محبت کی ہے کہ اس محبت کا خدا گواہ ہے۔ میں نے مرد ہو کر اسے مجازی خدا بنالیا اور آپ نے تو مجھے جیتے جی مار دیا تھا۔ مسعود کی باتیں سن کر ماں رونے لگیں اور پھر کچھ کہے بغیر ہمارے گھر سے چلی گئیں۔ مجھے ان کے چلے جانے کا دکھ تو بہت ہوا مگر میں ان کو روک نہیں سکی۔ بس سوچتی رہ گئی کہ بڑھاپے میں نجانے اب کہاں کہاں کے دھکے کھاتی پھریں گی ؟ اگر اپنی لالچی سوچ کی پرورش نہ کر تیں تو آج بھی وہ میرے ساتھ ، عمر بھر سکھی رہ سکتی تھیں۔