محبت قربانی مانگتی ہے لیکن میرے بھائی نے جیسی قربانی دی اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہما، ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ وہ تقریبا روز ہی ہمارے گھر آجاتی اور میرے کاموں میں ہاتھ بٹانے لگتی تبھی مجھے وہ اور بھی بھانے لگی۔ ایک روز وہ میرے بچوں کے کچھ کپڑے، جن کی سلائی کہیں کہیں سے کھل گئی تھی ، سی رہی تھی کہ میر ابھائی افتخار آگیا۔ وہ مجھ سے دو برس چھوٹا تھا۔ ہما کو سلائی کرتے دیکھ کر بھائی نے مجھ سے کہا۔ بجو میری قمیض کی آستین ذراسی اُدھڑ گئی ہے اس لڑکی سے کہو سلائی لگا دے۔ ٹھیک ہے، تم اندر جائو اور قمیض اتار کر مجھے دو۔ میں ابھی سلائی لگوادیتی ہوں۔ بھائی نے ایسا ہی کیا۔ کف سے تھوڑی سی آستین ادھڑ گئی تھی۔ ہما نے ایک منٹ میں ہی ٹھیک کر کے دے دی۔ افتخار قمیض پہن کر باہر آیا اور ہما کا شکریہ ادا کیا لیکن اس لڑکی نے جواب میں ایک لفظ بھی نہ کہا بلکہ مشین پر جھکی سلائی کرنے میں محو رہی افتخار اپنا سا منہ لے کر چلا گیا لیکن اب وہ روز میرے گھر کے چکر لگانے لگا حالانکہ پہلے تو ہفتہ دس دن بعد آتا تھا۔ ایک دن وہ آیا تو ہما کو موجود دیکھ کر اس کا چہرہ کھل اٹھا، جیسے اس کی مراد بر آئی ہو۔ افتخار نے اس کو متوجہ کرنے کے لئے ادھر ادھر کی باتیں کیں مگر وہ متوجہ نہ ہوئی۔ تب اس نے مجھ کو مجبور کیا کہ کسی طرح اس کی ہما سے بات کرا دوں کیونکہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ میں نے کہا۔ بھیا! یہ کام آسان نہیں ہوتے ، پھر بھی کوشش کروں گی۔ اگلے روز افتخار پھر شام کے وقت آیا کیونکہ ہما بھی اکثر شام کو آتی تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نے ہما سے بات کی تھی مگر وہ بگڑ گئی۔ کہنے لگی کہ میں آپ سے ملنے آتی ہوں اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کے بھائی صاحب مجھ سے عشق فرمانے لگیں۔ مجھے آپ سے یہ امید نہ تھی۔ میں نے ہم سے کہا کہ میں نے اپنے بھائی کا پیغام دیا ہے تو کیا برا کیا ہے ؟ شادی کا پیغام دینا عزت کی بات ہوتی ہے اس میں برائی والی تو کوئی بات نہیں۔ اس نے کہا کہ یہ برائی والی بات نہیں لیکن شادی کا پیغام لڑکی کو نہیں اس کے والدین کو دیا جاتا ہے۔ ہما کا موڈ آف دیکھ کر میں نے بھائی کو سمجھایا کہ تم اس لڑکی کا خیال چھوڑ دو لیکن افتخار نے میرے سمجھانے کا کوئی اثر نہیں لیا بلکہ ایک پرچے پر یہ لکھ کر اسے دے دیا کہ کہ تم اپنے ہاتھ سے ”ہاں“ یا ”نہ “ لکھ کر جواب دے دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں ہر آدھ گھنٹے میں تم کو ایک پر چہ لکھ کر جواب مانگتا رہوں گا یہاں تک کہ تم تنگ آکر کوئی تو جواب دو گی۔ تب میں اپنے دل کو سمجھالوں گا اور پھر کبھی تم کو تنگ کروں گا، نہ تمہارے سامنے آئوں گا۔ اس کی تحریر نے اثر کیا اور ہما میرے گھر آگئی۔ اس نے مجھے سے کہا کہ اسے میرے بھائی افتخار کارشتہ منظور ہے۔ بزرگوں کے ذریعے بات چلائیں ، اگر میرے والدین مان گئے مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ ہفتے بعد میں والدہ کے ہمراہ ہما کے گھر گئی یوں بات پکی ہو گئی۔ اب افتخار میرے گھر آتا وہ بھی آجاتی، دونوں آپس میں بات کرتے تھے۔ افتخار اور ہما ابھی پڑھ رہے تھے، تبھی ان کی شادی میں کافی وقت تھا مگر ان کے درمیان محبت بڑھتی جارہی تھی۔ لگتا تھا ایک دوسرے سے دوری بہت کھلتی تھی تاہم دونوں کی ملاقات کبھی تنہائی میں نہ ہوئی۔ وہ میرے سامنے بات چیت کر لیتے تھے۔ ان کا یہ سلسلہ ایک سال چلا ، وہ بھی میرے گھر اور میرے روبرو۔ایک دن ہما آئی تو کچھ اُداس اور پریشان تھی۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگی۔ افتخار سے کچھ ضروری بات کرنا ہے ،ان کو بلوا دیں۔ ایسی کیا بات ہے جو اسی سے کہنی ہے ؟ وہ خاموش ہو گئی۔ میں نے بیٹے کو بھیج کر بھیا کو گھر بلوالیا۔ اس دوران ہمانے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک خط میرے ہاتھ میں تھما دیا، جسے پڑھ کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ بھیا نے آکر پوچھا۔ بجیا کیوں بلوایا ہے ، خیر تو ہے؟ میرا لہجہ بو جھل تھا، افتخار کو شک پڑ گیا کہ ضرور کوئی غیر معمولی بات ہے۔ بھیا! اس کو تم سے کوئی کام ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہم تم سے بے وفائی کی مرتکب ہوئی ہے جس کے نتیجے میں وہ اب مشکل میں پھنس گئی ہے۔ یہ سن کر بھائی کے چہرے پر مردنی چھا گئی۔ میں نے جب بھائی کو ہما کا اصل مسئلہ بتایا تو اس کے کان سلگ اُٹھے۔ اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ہما سے تو بالکل بھی ایسی امید نہ تھی۔ سخت سردی میں بھی یوں لگا جیسے میرے بھائی پر ہزاروں سورج گر پڑے ہوں اس کا وجود ایک دہکتی ہوئی بھٹی بن گیا تھا۔ میں نے اپنے بھائی کی حالت غیر دیکھی تو گھبراگئی۔ دوڑ کر پانی لائی اور اس کو پلایا لیکن حلق سے تو ایک گھونٹ پانی نہیں اتر رہا تھا۔ وہ اتنی گھٹن محسوس کر رہا تھا جیسے اس کے سانس کی نالی بند ہوتی جارہی ہو۔ میں نے کہا۔ وہ اپنے کئے پر بہت ہی شرم سار ہے اور تم سے مدد چاہ رہی ہے ، ورنہ جیتے جی مر جائے گی۔ تو مر جانے دو۔ میں اس کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟ کیا چھوڑا ہے اس نے میرے پاس۔ بہت ناز تھا مجھے اس کی محبت پر فخر کیا کرتا تھا اس کی وفا اور پاکیزگی پر اپنے آپ سے بڑھ کر میں نے اس کو چاہا، اپنی شریک حیات سمجھ کر اتنی عزت سے بات کرتا تھا کہ کبھی اس کے آنچل کو اپنی انگلی سے چھوا تک نہیں اور یہ انعام دیا ہے اس نے مجھے ! ہما بھائی کو غصے میں دیکھ کر چلی گئی لیکن افتخار کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کے پائوں پتھر کے ہو گئے ہیں اور اب وہ ایک قدم بھی چل نہیں پائے گا۔ جاتے جاتے میں نے ہما کا خط افتخار کی جیب میں ڈال دیا۔ وہ منتیں کر کے گئی تھی کہ میں یہ خط کسی طرح افتخار کو پہنچا دوں۔ خط میں ہما نے بھائی سے مدد مانگی تھی لیکن وہ کس سے مدد مانگتا؟ کون تھا جو مدد کرتا ؟ میرے بھائی عزت ہی نہیں، ساری زندگی ختم ہو کر رہ گئی۔ بھائی گھر گیا اور سیدھا اپنے کمرے میں جا کر اندر سے دروازہ بند کر کے رونے بیٹھ گیا۔ آج منگیتر نے اتنا بڑ از خم لگایا تھا کہ وہ اپنا مردوں والا حوصلہ کھو بیٹھا تھا۔ ہما کے خط نے اس کا خون کھولا کر رکھ دیا تھا۔ ہما ! یہ تم نے کیا کیا؟ کس جرم کی سزا دی ہے مجھے تم نے ؟ وہ فریاد کرتارہا۔ اگلے دن دکان پر نہ گیا تو شکیب نے بلوا بھیجا کہ آئے کیوں نہیں ؟ نہ آنے کی وجہ دریافت کرنے پر بھائی کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ سوچا کہ اس کو کیسے کہوں کہ اب کمانے سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ دولت کمائوں تو کس کے لئے ؟ شکیب بھائی افتخار کی پریشانی بھانپ گیا اور بولا۔ کیا ہما سے جھگڑا ہو گیا ہے یا وہ ناراض ہو گئی ہے ؟ شکیب نہ صرف بزنس پارٹنر تھا بلکہ بھیا کا بچپن کا دوست اور غمگسار بھی تھا۔ بلا تامل بھائی نے اس کو سارا حال سنادیا۔ بات کرتے ہوئے میرے بھائی کی آنکھیں آنسوئوں سے لبریز تھیں۔ شکیب نے دلاسہ دیا، دیر تک سمجھاتار ہا مگر بھائی کے پلے کچھ نہ پڑا۔ وہ آدھے دن میں ہی دکان سے واپس چلا آیا۔ دوسرے روز دکان پر جاتے ہوئے اس کی موٹر سائیکل کسی کی کار سے ٹکرا گئی پھر خبر نہ رہی کہ کیا ہوا۔ ہوش آیا تو کیچڑ میں پڑا ہوا تھا۔ لوگوں نے اٹھایا اور گھر تک پہنچایا۔ شکیب حالت پوچھنے آیا۔ ابھی افتخار بھائی کی حالت نہ سنبھلی تھی۔ اس نے نیند کی گولیاں کھائی ہوئی تھیں۔ دوست کو اسی حالت میں ہما کا خط دے دیا۔ اس نے خط پڑھا اور پھر بھیا کو سلادیا۔ دو دن وہ سوتارہا اور جب جاگا تو موت کا سا جھٹکا لگا۔ طبیعت میں کسل مندی اپنی انتہا کو تھی۔ اس نے شکیب کو بلوایا۔ آج وہ قدرے اس موضوع پر بات کرنے کو تیار تھا۔ چاہتا تھا کوئی حل نکل آئے۔ دوست سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا۔ میں نے خط پڑھا ہے۔ اس نے تم سے بے وفائی ضرور کی ہے لیکن خود سے بھی کچھ کم دشمنی نہیں کی ہے۔ اب اسے اگر کچھ امید ہے تو وہ بھی تم سے ہی ہے، باقی ہر طرف اسے اپنی ہلاکت ہی نظر آرہی ہے۔ تم چاہو تو اس کو سزا دو مگر اس نے اپنے گناہ کو تم سے چھپایا نہیں ہے۔ تم بھی کیا سزا دے سکتے ہو۔ تعلق ہی ختم کر دو گے ، سو وہ تو ہو چکا۔ میرے نزدیک اب اسے مصیبت میں پھنسا ہوا ایک انسان جان کر اس کی مدد کر دو تو بہتر ہے۔ خط میں ہما نے لکھا تھا۔ مجھے معاف کر دینا۔ میں دو کشتیوں میں سوار تھی ، اسی وجہ سے بھنور میں پھنسی ہوں۔ میں بہت پریشان ہوں۔ برباد کرنے والا مجھے دھوکا دے گیا ہے۔ انسانیت کے ناتے ، تمہیں، تمہاری شرافت کا واسطہ دیتی ہوں کہ میری مدد کرو اور مجھے مرنے سے بچالو۔ میں برے حالات میں گھر چکی ہوں۔ تم نے مدد نہ کی تو مجھے خود کشی کرنا پڑے گی۔ اس کے سوا میرے لئے نجات کا اب کوئی راستہ نہیں ہے۔ اب میں اس لڑکی کے لئے کیا کر سکتا ہوں ؟ جس نے میری خوشیوں کو الٹی چھری سے ذبح کیا ہے۔ میں تو خود بکھر کر ریزہ ریزہ ہو گیا ہوں، ٹوٹ گیا ہوں۔ شکیب نے میرے بھائی کو دلاسہ دیا اور اس بات پر آمادہ کیا کہ فوری طور پر وہ ہما سے شادی کرلے۔ خود کو اور دوسروں کو دھوکا دینا محال تھا مگر بڑی نیکی تو یہی تھی کہ جس سے رواں رواں نفرت کر رہا ہو انسان اس ڈوبتے ہوئے کو بچا لے۔ اس کے لئے کوہ ہمالیہ سے بھی بڑا ظرف چاہیئے ۔ ہما کی زندگی بچانے کے لئے بالآ خر دوست نے بھائی کو آمادہ کر لیا کہ وہ فی الحال فوری طور پر اپنی منگیتر سے نکاح کرلے۔ یوں جلدی ہیں نکاح ہو گیا اور اگلے روز رخصتی ہو گئی۔ صرف لڑکی کی ماں اس راز سے واقف تھی کہ اس کی بیٹی نے دنیا کو دکھانے کے لئے سرخ جوڑا پہنا ہے اور افتخار نے ان شریف والدین کی عزت کو بچانے کے لئے قربانی دی ہے۔ ہما کے ہاتھوں میں مہندی بھی لگائی گئی مگر وہ لٹی پٹی اور اجڑی ہی رہی۔ سہاگ رات کو افتخار نے اس سے کوئی بات نہیں کی۔ کلام تو کیا اس کی طرف دیکھا تک نہیں۔ جب تمام گھر والے سو گئے تو وہ اٹھ کر چھت پر چلا گیا اور فرش پر بغیر تکیہ اور بستر کے ہی لیٹ گیا۔ تمام رات آسمان کے اندھیروں کو سکتے ہوئے گزار دی، خبر نہیں ہما نے وہ رات کیسے گزاری؟ شادی کے بعد تین دن گھر رہا اور ان تین دنوں میں ہما سے کوئی بات نہیں کی۔ اس کے بعد کراچی آکر ویزا کی کوشش شروع کر دی۔ ایک دوست کی مدد سے افتخار بھائی کو ویزا مل گیا، وہ ریاض چلے گئے اور وہاں ایک جنرل اسٹور پر ملازمت کر لی۔ دنیا کے دکھاوے کو ہر ماہ خرچہ کی رقم بھی بھجواتا رہا مگر ایک بار بھی اسے خط لکھا اور نہ فون کیا۔ جب امی کے فون سے اطلاع ملی کہ ہما ایک بچے کی ماں بن گئی ہے۔ قربانی کی حد بس یہاں تک تھی۔ افتخار بھائی نے خط پھاڑ کر چولہے میں ڈال دیا۔ چھ ماہ اور گزر گئے۔ بھائی نے بچے کی صورت نہ دیکھی اور پھر بہت سوچ سمجھ کر ہما کو طلاق ارسال کر دی۔ بھائی جانتا تھا کہ ہما کو بھی اس طلاق کا صدمہ نہیں ہوا ہو گا کیونکہ اسے بھی اس امر کا انتظار ہو گا۔ اس کے لئے یہی احسان کم نہ تھا کہ افتخار نے جانتے بوجھتے اس سے نکاح کر کے اسے بدنامی کے گڑھے میں گرنے سے بچا لیا تھا بلکہ موت کے منہ سے نکال لیا تھا اسے منکوحہ بنانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ ہما کو مرنے سے بچالیا گیا۔ طلاق کے کاغذ ملتے ہی خاندان میں کہرام برپا ہو گیا۔ برادری نے افتخار پر تھو تھو کی۔ کسی کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ اس نے ہما کو طلاق کیوں دی ہے ؟ بظاہر لوگوں کی نظروں میں وہ بے قصور تھی۔ میرے گھر والوں کو بھی اس سے کوئی شکایت نہ تھی۔ اگر لوگوں کو شکایت تھی تو بھائی سے کہ تین دن کی دلہن کو چھوڑ کر چلا گیا تھا اور پھر سال بھر بعد خود آنے کی بجائے طلاق کے کاغذات بھیج دیئے۔ ہما کو تو ایسی چپ لگی کہ وہ اپنی بر بادی پر آنسو تک نہیں بہاتی تھی۔ سبھی میرے بھائی کو برابھلا کہتے تھے کہ جس نے بلا قصور اپنی نئی نویلی بیوی کو طلاق دی تھی مگر میں جانتی تھی کہ جتنی ہما میرے افتخار بھائی کی مشکور ہے، اتنا کوئی نہیں ہو گا۔ اس کو تو اب طلاق کا بھی غم نہ ہو گا کہ بھائی نے ایسے حالوں میں اس کو پناہ دی کہ جب سگے باپ اور بھائی تک لڑکی کو شوٹ کر دیتے ہیں۔ آج کوئی کچھ کہے مگر میں اپنے بھائی کو مجرم نہیں سمجھتی کیونکہ وہ کسی حال اس کے ساتھ ایک جھوٹی اور بے روح زندگی نہیں گزار سکتا تھا۔ وہ بیوی یا مطلقہ ہوتی تو اور بات تھی۔ تب اس کے بچے کو بھی باپ مل جاتا لیکن اب میرا بھائی اس کے بچے کو باپ کا پیار نہیں دے سکتا تھا۔ یہی کیا کم تھا کہ جس بچے سے افتخار نفرت کرتا تھا، اس کو باپ کے طور پر اپنا نام دے دیا تھا۔ اب وہ بن باپ کا بچہ نہیں کہلائے گا اور لوگ اس سے نفرت کر کے اس کی زندگی اجیرن نہیں کریں گے ، بلکہ وہ جہاں جائے گا اس کی ایک پہچان ہو گی۔ اس کی ولدیت کے خانے پر ایک ایسے شخص کا نام ہو گا، جس نے اس کی ماں سے نکاح کیا تھا۔ بے شک وہ ایک مطلقہ کا بیٹا کہلائے گا تب بھی دنیا اس کو عزت سے جینے کا حق دے گی۔ یہ احسان وہ تھا جو بھی کوئی مرد کسی عورت پر نہیں کرتا۔ میں سوچتی ہوں، ممکن ہے میرے بھائی کو ایک بے وفا لڑ کی سے قدرت نے اس لئے ملایا ہو کہ اس کی مخلوق کو جینے کا حق مل جائے اور بھائی کی اعلیٰ ظرفی کے باعث ایک معصوم جان کوڑے کے ڈھیر پر دم توڑنے سے بچ گئی۔ بھائی کہتے تھے ممکن ہے کہ مجھے ناکارہ اور گنہ گار سے قدرت نے یہی کام لینا ہو ورنہ میں کون سانیکو کار تھا۔ بعد میں سنا تھا کہ کچھ عرصہ ہما اپنے والدین کے گھر رہی پھر اس کے والدین نے ایک رشتہ ڈھونڈ کر اسے اس کے گھر کا کر دیا۔ وہ بھی کوئی نیک آدمی تھا جس نے مطلقہ کے ساتھ ساتھ اس کے بیٹے کو بھی گلے لگا لیا۔ سنا ہے کہ وہ اپنے گھر میں خوش و خرم آباد ہے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو لیکن دلوں کا کون جانے ؟ کہ دلوں کی نگری تو سب کی نظروں سے چھپی رہتی ہے تبھی تو کہتے ہیں۔ پرایا دل پردیس اسے لاکھ آپ جانے کی کوشش کریں، نہیں جان پاتے –