2008ء کے زلزلے نے بہت سی کہانیوں کو جنم دیا تھا۔ آزاد کشمیر کے اس خوفناک زلزلے میں ہماری خالہ کا گھر بھی تباہ ہوا اور خالہ، خالو کے ساتھ ان کے دو بیٹے جاں بحق ہوگئے ، البتہ دونوں بچیاں جو صبح سویرے اسکول جانے کو نکلی تھیں ،وہ راستے میں ایسی جگہ سے گزر رہی تھیں جہاں اردگرد بلڈنگ یا گھر موجود نہ تھے ، لہذا وہ چلتے چلتے میدان میں گر گئیں ، ان کو معمولی چوٹیں آئیں مگر جان بچ گئی۔ دونوں بہنوں کو میرے والدین اپنے گھر لے آئے۔ بڑی کا نام صبا اور چھوٹی کا نام شیبا تھا۔ ان کے والد نے ایک مکان ہمارے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر خریدا ہوا تھا، ان کا ارادہ اس گھر میں شفٹ ہونے کا تھا مگر قدرت کو یہی منظور تھا کہ انہوں نے اپنے آبائی گھرمیں زندگی کی آخری سانس لیں اور وہیں ان کی تربتیں بن گئیں۔ جب شیبا اور صبا بڑی ہوگئیں تو انہوں نے اپنے والد کے خریدے ہوئے گھر میں رہنے کی خواہش ظاہر کی، اس گھر کی چابی میرے والد کے پاس تھی اور وہی اس کی دیکھ بھال کرتے آ رہے تھے۔ دونوں اپنے والد کے گھر شفٹ ہوگئیں۔ وہ اپنے گھر میں تنہا رہتی تھیں تاہم میرے والدین ان کی ہر طرح سے خبرگیری کرتے رہتے تھے۔ ان بہنوں کو اللہ تعالیٰ کے بعد میرے والدین کا ہی آسرا تها. وقت گزرتارہا۔ صبا نے ایم اے میں داخلہ لے لیا اور چھوٹی کالج جانے لگی۔ اس تمام عرصے میں آمّی نے ہی ان کے گھر کی دیکھ بھال کی۔ ان کا کھانا ہماری ملازمہ گلابو پکاتی تھی – باقی کام وہ خود کر لیا کرتیں تعلیم مکمل کرنے کے بعد دونوں کی قسمت اچھی تھی کہ بڑی بہن کالج میں لیکچرار ہوگئی اور چھوٹی کو ایک لیب میں جاب مل گئی۔ صبا سنجیدہ مزاج تھی جبکہ شیبا شوخ و شنگ اور زندگی کے رنگوں میں دلچسپی لینے والی لڑکی تھی- وه پاس پڑوس کی لڑکیوں سے میل جول کو پسند کرتی تھی، تبھی اپنا کچھ وقت سہیلیوں اور عزیزوں کے ہاں آنے جانے میں صرف کرتی تھی جبکہ صبا کالج سے آنے کے بعد زیادہ وقت اپنے کمرے میں لکھنے پڑھنے میں گزار دیتی۔ اسے کہانیاں اور افسانے لکھنے کا بھی شوق تھا ۔ اس کی تحریریں رسائل و جرائد میں چھپتی رہتی تھیں، وہ ادبی کتب کا مطالعہ کرتی تھی اور اکثر کھڑکی کے پاس کرسی پر آنکھیں موندے گود میں کتاب رکھے بیٹھی نظر آتی۔ اس کے کمرے کی کھڑکی ہمارے پائیں باغ میں نکلتی تھی ،جو ہمارے گھر کی بالکونی سے صاف نظر آتی تھی۔ اس دن بھی کمرے میں قدرے اندھیرا تھا۔ جب میں صبا باجی سے اپنے کالج کے پروگرام کے لئے مضمون لکھوانے گئی۔ وہ کھڑکی کے پاس کرسی ڈالے بیٹھی تھیں، باہر سے آنے والی روشنی ان کے چہرے پر لیمپ کی طرح پڑ رہی تھی۔ صبا کے چہرے پر گہرا سکون تھا مگر وہ اپنی سوچوں میں جانے کب سے گم تھی۔ میں نے ان کو پکارا اور سلام کیا۔ انہوں نے چونک کر دیکھا۔ سلمى تم کب آئیں؟ اس سے قبل کہ میں جواب دیتی شیبا کمرے میں آ گئی۔ آتے ہی اس نے کمرے کی لائٹ جلا دی روشنی کی چمک سے صبا کو ناگواری ہوئی اور اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا۔
باجی آپ تو دن میں بھی شام کئے رکھتی ہیں۔ دیکھیں تو کون آیا ہے؟ شیبا کے پیچھے ایک اجنبی نوجوان کھڑا تھا۔ اس کو دیکھ کر صبا کے چہرے سے ناگواری کے تاثرات ختم ہو گئے۔ اس نے چھوٹی بہن کو ہدایت کی ہوئی تھی کہ وہ ملازمت ضرور کرے مگر کسی مرد سے بے تکلف نہ ہو اور نہ کسی کو گھر لائے۔ یہ خیام ہیں باجی میرے ساتھ کام کرتے ہیں۔ نجانے خیام میں کیا بات تھی کہ اُسے دیکھ کر صبا کا موڈ آف نہیں ہوا۔ اچھا! خیام تم باجی کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرو، میں چائے لاتی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ کچن میں چلی گئی۔ میں نے مہمان کو دیکھ کر باجی سے اجازت چاہی تووہ بولیں۔ تم بیٹھ کر مضمون لکھو اور اپنا کام کرتی رہو۔ مہمان تم کو کیا کہتے ہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے میں مضمون لکھنے میں محو ہوں لیکن مجھ سے کچھ بھی تو لکھا نہیں جا رہا تھا کیونکہ کمرے میں آج باجی کے ساتھ ایک غیر کی موجودگی کا احساس میری توجہ کو درہم برہم کئے ہوئے تھا۔ صبا نے میری اس کیفیت کو پا لیا اور کہا ۔ سلمیٰ اب تم گھر جائو – مضمون تیار کر کے لے آؤ ،میں ٹھیک کر دوں گی۔ گھر آ کر مجهے چین نہیں آیا کیونکہ اس معاملے سے خاصی دلچسپی ہوگئی تھی۔ میں بالکونی میں چلی گئی ، جہاں سے باجی کا گھر صاف نظر آ رہا تھا۔ ان کے گھر کے سامنے والی سڑک بھی دکھائی دیتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ مہمان واپس جا رہا تھا۔ وہ کافی ہشاش بشاش نظر آرہا تھا، جس سے اندازہ ہوا کہ صبا باجی نے اس سے اچھی طرح بات چیت کی تھی۔ اس کے بعد اکثر دن کے وقت خیام ان کے گھر آنے لگا۔ ہم نے اس پرکوئی اعتراض نہیں کیا، کیونکہ دونوں بہنیں اچھی، شریف لڑکیاں تھیں ، یوں کسی سے ملتی نہ تھیں۔
دراصل یہ شیبا کی شادی کا مسئلہ تھا۔ والدین تو تھے نہیں، اس لئے اس مسئلے کو صبا باجی نے ہی حل کرنا تھا۔ امی کو انہوں نے اسی قدر بتایا کہ وہ گائوں سے نوکری کی غرض سے آیا تھا۔ گائوں میں اس کی ماں تھی- بہن بھائی تھے نہیں اور باپ بھی اس دنیا میں نہ تھا۔ سب ہی زلزلے کی نذر ہو چکے تھے۔ اس کو اُسی لیب میں ملازمت مل گئی ، جہاں شیبا کام کرتی تھی۔ اس کو آدب سے لگائو تھا۔ وہ صبا کی تحریریں پڑھتا رہتا تھا جب اُسے شیبا کی زبانی پتا چلا کہ صبا اُس کی بڑی بہن ہے تو وہ اس سے ملنے کا مشتاق ہو گا۔ خیام اور شیبا کی ملاقاتیں لیبارٹری میں ہوتی تھیں۔ اس کو لگا کہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے ہیں، تبھی وہ اس کو بہن سے ملانے گھر لے آئی تھی۔ ایک دن خیام نے شیبا سے پوچھا کہ تمہاری باجی اس قدر سنجیدہ اور کم گو کیوں ہے؟ ہاں، لکھنے والے لوگ شاید ایسے ہی ہوتے ہیں۔ دراصل آمّی ابو کے خلا کو وہ بہت زیادہ محسوس کرتی ہیں۔ کسی سے زیادہ بات نہیں کرتیں، نہ کسی سے ملتی جلتی ہیں۔ بس اپنے کمرے میں کالج سے آ کر بند ہو جاتی ہیں۔ لکھتی پڑھتی رہتی ہیں ، باتیں اس لئے نہیں کرتیں کہ اپنی ساری باتیں، ساری سوچیں، تحریروں میں بیان کر دیتی ہیں۔ باجی کا مجهے بڑا سہارا ہے۔ یہ نہ ہوتیں تو پتا نہیں میرا کیا ہوتا ۔ یہ بھی شکر ہے کہ گھر اپنا ہے، اسی لئے میرے کالج کے خرچے سمیت ٹھیک ٹھاک گزارہ ہو جاتا ہے۔ شیبا اب تمام وقت خیام کے بارے سوچنے لگی تھی لیکن خیام کی سوچوں کا دھارا مڑ گیا تھا ۔وہ اس کے بارے نہیں ، بلکہ اس کی بڑی بہن سے ملنے کے بعد أسی کے متعلق سوچنے لگا تھا۔ شیبا تو اتنی پختہ ذہن نہیں تھی، اس میں بچپنا تھا جبکہ صبا اس سے زیادہ ذہین اور پختہ سوچوں کی مالک تھی، تاہم خیام نے اپنے احساسات شیبا سے چھپا رکھے تھے۔ ابھی وہ صبا کی شخصیت سے مزید آگہی چاہتا تھا۔ اس کے بعد ہی اس نے زندگی کے اہم فیصلے یعنی شادی کے بارے سوچنے کو ترجیح دی تھی ۔
انہی دنوں صبا نے طبیعت کی خرابی کے باعث کالج سے چھٹیاں لے لیں۔ میں ان سے ٹیوشن پڑھنے گئی تو بولیں۔ سلمیٰ ان دنوں مجھے یک سوئی چاہئے میں ڈائری لکھ رہی ہوں لہذا تم کچھ دن چھٹی کر لو۔ اس وقت بھی وہ میز پر جھکی کچھ لکھنے میں مصروف تھیں ، تبھی اطلاعی گھنٹی بجی ۔ آنے والا خيام تھا۔ میں نے گیٹ پر دیکھا۔ وہ بولیں کہ اس کو اندر آنے کا کہہ دو، وہ اندر آ گیا اور خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گیا۔ آج میں نے پہلی دفعہ غور سے صبا باجی کو دیکها تومجھے ان میں کافی تبدیلی نظر آئی۔ پہلے وہ اپنے آپ سے بے نیاز رہتی تھیں۔ انہیں اپنے سراپا کا ہوش نہیں ہوتا تھا لیکن آج وہ خاص طور پر مجھے بنی سنوری لگ رہی تھیں ،جیسے کوئی پہلے سے خود کو سنوار کر کسی کا انتظار کرتا ہے گرچہ ان کے سنگھار میں بھی سادگی تھی، لیکن اس سادگی میں بھی پُرکاری تھی۔ ان کے بال سلیقے سے بنے ہوئے تھے مگر لمبے سیاہ بالوں کا ڈھیلا ڈھالا جوڑا ان کی پشت پر رُوپ بڑھا رہا تھا اور سونے کی دو رُوپہلی چوڑیاں کلائی میں کھنکھنا رہی تھیں، گلابی ایڑیوں میں نئے نازک چپل تھے۔کمرے میں وہی ہلکا اندھیرا تھا مگر کھڑکی کھلی تھی، جس سے روشنی ایک خاص زاویئے سے آ رہی تھی۔ اس روشنی کے آرغوانی رنگ میں وہ کسی حسین خواب کی طرح جگمگا رہی تھیں۔ آج آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں، صبا- خیام کے اس انداز تخاطب پر میں حیران تھی اور میری حیرانگی سے باخبر باجی کہہ رہی تھیں۔ خیام تم جلد آ گئے جبکہ شیبا ابھی تک نہیں لوٹی۔ یہ بات انہوں نے میرے سامنے ایسے انداز کہی، جیسے خیام کو کسی بھولی ہوئی بات کی یاد دہانی کرا رہی ہوں۔ تبھی خیام نے میری موجودگی کو نظرانداز کرکے کہا۔ کیوں! کیا میں آپ سے نہیں مل سکتا؟ باجی نے ایک نظر مجھ پر ڈالی اور پھر گویا ہوئیں۔ ہاں کیوں نہیں مل سکتے، لیکن تم مجھ سے مل کر بور ہی ہوگے۔اس بوریت سے تو مجھے عقیدت ہوگئی ہے۔ وہ بولا۔ اور یہ آج سے نہیں، تبھی سے ہے جب سے آپ تحریریں پڑھ رہا ہوں۔ تبھی میں نے باجی سے اجازت چاہی اور گھر آ گئی۔ یہ سردیوں کے دن تھے۔ باجی باغ میں میز کرسی ڈالے کچھ لکھ رہی ہوتی تھیں اور خیام ان سے ملنے آ جاتا تھا۔ میں بالکونی سے دیکھتی، وہ دونوں باغ میں اس جگہ کرسیاں ڈال لیتے ، جدھر دھوپ ہوتی اور باتیں کرتے رہتے۔ یوں لگتا جیسے خیام ان کے افسانوں پر اظہار رائے کے بہانے خود باجی کی شخصیت کو پڑھنے کی کوشش کر رہا ہو۔یہ گفتگو تو ایک بہانہ تھا، دراصل وہ دل میں ٹھان چکا تھا کہ اس نے شادی شیبا سے نہیں، صبا سے کرنی ہے اوروہ بھی اس کے ارادے کو کسی حد تک سمجھ چکی تھی کیونکہ وہ اپنی دلی کیفیات کا اظہار ڈھکے چھپے لفظوں میں کیا کرتا تھا۔میں اکثر دیکھتی کہ صبا باتیں کرتیں اوروه چُپ چاپ سنتا رہتا اور جب کسی بات کا جواب دیتا تو صبا باجی کو اس کے دل میں چھپی محبت کا اشارہ ملتا اور وہ سر جھکا لیتی، جیسے کسی حقیقت کے رُوبرو ہونے سے آنکھیں چرا رہی ہو۔
رفتہ رفتہ ان کے مابین تکلف و حجاب محو ہوگیا۔ اپنائیت کا احساس عروج کو پہنچ گیا۔ ایک دن میں باجی کے پاس ٹیوشن پڑھنے گئی ،اس وقت شیبا بهی گھر پر تھی۔ اس نے خیام سے نہ آنے کی شکایت کی۔ صبا اور خیام دونوں اس شکوے پر چُپ ہوگئے ۔ ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ خیام تو یہاں روز آتا ہے لیکن اس وقت جب شیبا ڈیوٹی پر ہوتی ہے۔ ایک دن شیبا ڈیوٹی پر گئی مگر تین گھنٹے کے بعد چھٹی لے کر آگئی کیونکہ اس کی طبیعت خراب تھی۔ گھر آئی تو حیرت زدہ رہ گئی ۔ خیام کو بہن کے کمرے میں اس سے بات چیت کرتے پایا جبکہ اُس نے کہہ رکھا تھا کہ وہ چھٹی لے کر گائوں جا رہا ہے اور اب وہ اس کے گھر بیٹھا ہوا تھا۔ ادھر باجی نے بھی کالج سے چھٹی لی ہوئی تھی۔ لمحہ بھر کو اُسے جھٹکا لگا لیکن اگلے لمحے وہ سنبھل گئی کیونکہ اس کو اپنی بڑی بہن پر اندھا اعتماد تھا۔ اس روز باجی کا کمرہ بھی سلیقے سے سجا ہوا تھا اور پہلے کی نسبت اُجلا اجلا لگ رہا تھا۔ بالآخر وہ موڑ آ گیا جب خیام کو شیبا کی غلط فہمی دور کرنا تھی۔ یہ ایک مشکل آمر تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ لڑکی اس کے بارے بہت سے خواب دیکھ چکی ہے جبکہ صبا باجی کو محض گمان تھا کہ شاید اس کی بہن اس شخص سے محبت کرتی ہے۔ یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ شدّت سے اُسے چاہتی ہے اور زندگی کا ساتھی بنانے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ خیام کی محبت اب چنگاریاں برسانے لگی تھی اور وہ اندر ہی اندر بے چین رہنے لگا تھا۔ ڈھکے چھپے لفظوں میں تو اپنی چاہت کا اظہار کر بھی چکا تھا اور ذہنی طور پر باجی صبا کو شادی کے پیغام کی قبولیت کے لئے تیار کر رہا تھا، تاہم واضح الفاظ میں ابھی تک اس نے بات نہیں کی تھی۔ ڈر تھا کہیں اپنی بہن کی وجہ سے وہ انکار نہ کردے یا ناراض ہو جائے۔بالآخر اس نے واضح الفاظ میں کہہ دیا۔ صبا! میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میں بطور جیون ساتھی تم میں وہ ساری خوبیاں دیکھ رہا ہوں، مجھ کو ایسی ہی لڑکی کی تلاش تھی۔
ناراض ہونے کی بجائے وہ سوچ میں پڑ گئی ، البتہ صاف کہا کہ تم نے شیبا کے بارے کیا سوچا ہے جو تم کو غالباً پسند کرنے لگی ہے؟ کیونکہ وہ ہر وقت تمہارے گن گاتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو تم اس کا دل نہ توڑو گھر دو افراد کی رضامندی اور خوشنودی سے بنتا ہے، ایک فریق کی رضامندی سے نہیں۔ یہ تم ہی نے تو اپنے ایک افسانے میں لکھا تھا تو کیا جو کچھ تم لکھتی ہو، اس میں اور تمہارے اپنے کردار میں تضاد ہے۔ کیا تم ان نظریات کا پرچار کرتی ہو جن پر خود تم کو یقین نہیں ہے؟ خیام نے ایسی باتیں کیں کہ صبا لاجواب ہو گئی اور اس نے صبا کو قائل کر لیا کہ یہ صحیح ہے۔ شادی کے لئے صرف ایک فریق کا رضامند ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک دوسرا بھی اس معاہدے کو دل سے قبول نہ کرے۔ تاہم وہ سوچ میں پڑ گئی، کوئی دوسری لڑکی ہوتی تو بات اور تھی لیکن یہ اس کی چھوٹی بہن کا معاملہ تھا۔ اس نے کہا۔ خیام زندگی کے اہم فیصلے اس قدر جلد نہیں کئے جاتے۔ تم سوچ لو، میں بھی سوچ کر جواب دوں گی۔ کئی دن تک وہ کھوئی کھوئی اور گم صم رہی۔ اس کی کیفیت اتنی واضح تھی کہ چھوٹی بہن نے نہ سمجھتے ہوئے بھی اس کی پریشانی کو سمجھ لیا۔ دراصل صبا اپنی کیفیت اور احساسات چھپا ہی نہیں پا رہی تھی۔ وہ جو سوچتی تھی اس کے چہرے پر اس کا عکس نظر آنے لگتا تھا۔ چھوٹی بہن اتنی سیانی نہ لگتی تھی لیکن حقیقت میں سیانی نکلی اور آنِ واحد میں تمام معاملہ سمجھ گئی۔ اس نے خیام کی برائیاں بہن سے کرنا شروع کر دیں۔ ذرا دیکھو تو اس بندے کو ،میں نے تو اس کو محض ایک اچھے انسان کی طرح دیکھا تھا اور غلط اُمیدیں لگا بیٹھا۔ شاید وہ سمجھا تھا کہ میں اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں حالانکہ ایسا نہیں ہے، شادی کے نقطۂ نظر سے تو میں نے اس کو پسند نہیں کیا۔ خدا جانے یہ خیام کس غلط فہمی کا شکار ہے میرے بارے ۔ اس نے یہ باتیں اس مہارت سے کیں کہ اس کی بہن کو شک بھی نہ گزرا کہ وہ اس کی خاطر یہ سب باتیں کہہ رہی ہے ، تبھی صبا نے سوچ لیا کہ اس بار جب خیام اُسے شادی کا پیغام دے گا تو وہ اُسے مایوس نہیں کرے گی۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ خیام جیسے شخص کا پھر ملنا ممکن نہیں کیونکہ وہ اس کے دل کی بات سمجھتا ہے اور دونوں میں مکمل ذہنی ہم آہنگی تھی۔
اب جب خیام آیا تو صبا نے کہا تم اچھی طرح اندازہ کر لو، کہیں شیبا تم سے سچ مچ محبت نہ کرتی ہو۔ وہ پہلے تمہاری بہت تعریفیں کرتی تھی۔ جب وہ تم کو پہلی بار گھر لائی تھی تب میں یہی سمجھی تھی کہ وہ تم کو چاہنے لگی ہے اور مجھ سے شادی کی اجازت چاہتی ہے لیکن اب کچھ دنوں سے تمہارے بارے اس کا انداز دوسرا ہے۔ خُدا جانے اُسے کیا ہوا ہے؟تمہاری بہن کو مجھ سے اميديں ہیں کہ نہیں ،مجھے خبر نہیں، اس نے کبھی زبان سے ایسی کوئی بات نہیں کی، لیکن مجھے تم پسند ہو اور میں شادی تم سے کرنا چاہتا ہوں۔ خیام میں محبت کے چکروں پر یقین نہیں کرتی۔ اگر تم یقین نہیں کرتیں تو پھر ایسی تحریریں کیوں رقم کرتی ہو، جس میں محبت کے جذبات ہوتے ہیں ۔ کیا یہ سب کھیل ہے؟ تمہاری کہانیوں میں واضح طور پر ایک تڑپ، کسک اور انتظار کی کیفیت رہتی ہے اور تحریریں انسان کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ کیا تمہیں کسی کا انتظار نہیں؟ کیا تم اس زندگی سے خوش ہو۔ تم لاکھ چھپائو مگر تمہاری تحریریں تمہاری اندرونی کیفیت کی غماز ہیں۔ دیکھو صبا! کاغذ اور قلم سے باہر بھی ایک جیتی جاگتی خوبصورت دُنیا ہے اور تمہاری اس دنیا سے بہت زیادہ حقیقی اور بڑی ہے جو تم اپنی سوچ کی کھڑکی کے فریم سے دیکھتی ہو۔ کبھی اس سوچ سے، اس فریم سے اپنی تصوّراتی دنیا سے نکل کر تو دیکھو۔ حقیقی اور جیتی جاگتی محبت کو محسوس کرو، شاید تمہاری تحریروں سے شام کے سائے چھٹ جائیں۔
صبا گنگ سی کسی گہری سوچ میں ڈوبی کھڑکی سے باہر نظریں جمائے سُن رہی تھی۔ اگر وہ اچھی افسانہ نگار تھی تو وہ بھی بہترین مقرر اور نقاد تھا۔ صبا کو محسوس ہوا کہ وہ تصوراتی دنیا کا نہیں ، حقیقی زندگی کا باسی ہے۔ اس نے برسوں خوابوں کی دنیا میں رہنے بسنے والی صبا کو پل بھر میں حقیقت کی دنیا میں کھینچ لیا تھا۔ شادی کبھی تو کرنا ہوگی۔ اس نے سوچا۔ اگر شیبا اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی اور یہ بھی میرے ساتھ گھر بسانا چاہتا ہے تو کیوں نہ میں ہی اس کے ساتھ گھر بسا لوں ۔ اسی وقت شیبا آ گئی۔ فضا میں رچی ہوئی خاموشی نے اُسے سب کچھ بتا دیا کہ کچھ دیر پہلے کیا گفتگو ہورہی تھی تبھی آگے بڑھ کر اس نے بڑی بہن کا ہاتھ خیام کے ہاتھ میں تھما دیا۔ جو فیصلہ کرتے ہوئے آپ لوگ جھجک رہے ہو، وہ میں نے کر دیا ہے اب اس بندھن کی لاج رکھنا۔ اس کو عمر بھر نبابنا، توڑنا نہیں ۔ فیصلہ تو بڑی بہن نے کرنا تھا لیکن آج چھوٹی بہن بڑی سے بھی بڑی ثابت ہوئی تھی۔ صبا کی شادی اس نے بڑی خوشی سے اس شخص سے کروا دی جس کوخود پسند کرتی تھی۔ یہ بھی نہ سوچا کہ بعد میں وہ اکیلی رہ جائے گی تو اس کا کیا ہوگا۔ صبا باجی کی شادی ہوگئی تو خیام نے اُسے گائوں لے جانے کی ضد کی، وہ سسرال چلی گئی۔ آج کمرے کی کھڑکی سے روشنی نہیں آ رہی تھی، بلکہ کھڑکی بند تھی اور مکمل اندھیرا تھا۔ چلو باجی کی شام کا دن تو چڑھا۔ میں نے سوچا اور شیبا کو ڈھونڈتی اس کے پاس جا پہنچی۔ کیونکہ جانتی تھی کہ وہ اکیلی ہے۔شیبا، صبا باجی کے کمرے میں ان کی کرسی پر بیٹھی تھی۔ کمرے کی لائٹ آف تھی۔ میں نے بتی جلائی اس نے ہاتھ منہ سے ہٹا کر مجھے دیکھا۔ وہ رو رہی تھی۔یہ تنہائی کا عذاب تھا کہ بہن کی یاد ، یا پھر خیام کی بے وفائی تھی جو آنسو بن کر اس بے چاری کی آنکھوں میں سما گئی تھی۔ میں نے اُسے پیار کیا ، گلے سے لگایا تو اس نے میرے کندھے پر سر رکھ دیا اور جی بھر کر روئی۔ یہ درد جُدائی تھا جو اس کو رلا رہا تھا۔ تبھی گھر آ کر میں نے سوچا کہ آج میں بھی کہانی لکھوں گی، اس کی جو کہانیاں لکھتی تھی لیکن اسی بہن کو ایک ادھوری کہانی کا رنگ دے کر تنہائی کے آلائو میں جلتا ہوا چھوڑ کر پیاسنگ چلی گئی۔ محبتیں اور رشتے، آخر کوئی کس پر اعتبار کرے۔