Sunday, April 20, 2025

Bewafai Ka Injam

ایک روز احمد گھر آئے تو بتایا کہ آج رات کا کھانا پڑوسی ہمارے گھر کھائیں گے۔ کون سے پڑوسی ؟ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔ آپ مجھ کو بتائے بغیر دعوت بھی دے آئے۔ دعوت دینی تھی تو دو دن پہلے بتاتے، کچھ بندوبست بھی تو کرنا ہوتا ہے۔ میں نے ایک سانس میں اتنا کچھ کہ ڈالا۔ کہنے لگے ۔ گھبرانے کی بات نہیں ، ہمار اپڑوسی مشہود ، میرے بچپن کا دوست ہے ، اس کو یہ کو ٹھی میں نے ہی دلوائی ہے۔ بس سادہ سا کھانا بنا دو۔ تم بچوں میں مصروف تھیں تو میں نے بتایا نہیں، خود ہی دعوت دے آیا ہوں۔ ایک دو دن تو کھانا یوں بھی پڑوسیوں کو دینا چاہئے۔ ابھی ان کا کچن سیٹ نہیں ہوا، کل ہی تو شفٹ ہوئے ہیں۔ انہوں نے بھی ایک سانس میں میری ساری باتوں کا جواب دے دیا اور اسی وقت جاکر دعوت کا سامان بھی خرید کر لے آئے۔ مشہود صاحب کی عمر چالیس کے لگ بھگ تھی جبکہ بیوی ان سے آدھی عمر کی یعنی بیس سال کی تھی، نام آئمہ تھا اور اچھی ٹال تھی۔ مشہود بھائی تحمل میزاج تھے وہی زیادہ تر باتیں کرتے رہے جبکہ گفتگو کے دوران آئمہ خاموش رہی۔ وہ خاموش ضرور تھی لیکن افسردہ نظر نہ آرہی تھی۔ ان کے جانے کے بعد میں نے احمد سے پوچھا کہ عمروں کا اتنا فرق کیوں ؟ وہ بولے۔ مشہود نے شادی اب کی ہے۔ کیا یہ ان کی دوسری شادی ہے ؟ نہیں پہلی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے والدین اس کے بچپن میں ، حادثے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس وقت مشہود صرف نو برس کا تھا۔ تبھی اس کے نانا گھر لے آئے کہ ان کے سوا کوئی قریبی رشتہ دار سہارانہ دے سکتا تھا۔ نانا کی محبت پاکر مشہود تو سنبھل گیا لیکن اس کی ممانیوں کو اس کا گھر میں رہنا بار گراں گزرتا تھا۔ ان عورتوں کو اس کا رہنا کھلتا تھا کہ کہیں، سسر صاحب، اپنی جائیداد میں نواسے کو حصہ دار نہ بنالیں۔ نانا اس کو پڑھائی کے ساتھ ہنر بھی دینا چاہتے تھے کہ وہ ان کے بعد کسی کا محتاج نہ رہے۔ لہذا شام کو اپنے ایک دوست کی ورکشاپ پر بٹھادیا تا کہ مشہود اچھا میکینک بھی بن جائے۔ وہ اس کو ایک مضبوط انسان کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ مشہود نے تعلیم بھی حاصل کی اور ساتھ میں وہ ایک قابل میکینک بھی بن گیا۔ اس نے گاڑیوں کا کام اچھے طریقے سے سیکھ لیا تھا۔ جلد ہی اس کو ایک اچھی ملازمت بھی مل گئی۔ ایک دن جھگڑا ہو گیا کیونکہ ممانیاں نہیں چاہتی تھیں کہ وہ اب گھر میں رہے۔ وہ بر سر روزگار ہو چکا تھا گھر میں روز روز کا جھگڑا ختم کرنے کی خاطر اس کے نانا نے دل پر پتھر رکھ کر نواسے کو رخصت کر دیا۔ اس روز پہلی بار مشہود کو احساس ہوا کہ وہ دنیا میں تنہا ہے تاہم اسے کسی قسم کا ڈد نہ تھا۔ وہ اس قابل ہو گیا تھا کہ دنیا کا مقابلہ کر سکے۔ وہ کرایے کا کمرہ لے کر رہنے لگا۔ اس کی عادت تھی ہر کام توجہ اور دلجمعی سے کرتا تھا۔ لہذاد فتر میں اس کی یہ عادت وجہ ترقی بنی۔ اس کی جلد ترقی بد خواہوں کو ایک آنکھ نہ بھائی، دفتری رقیبوں نے سازش کر کے اسے دفتر سے نکلوادیا۔ اس کے پاس کچھ رقم تھی اور ہنر بھی تھا، بس کرایے پر چھوٹی سی دکان لے لی اور اوزار خرید کر گاڑیوں کی ریپئرنگ کا کام شروع کر دیا۔ دنوں میں اس کی دُکان مشہور ہو گئی اور بہت سا کام ملنے لگا۔ اسی حساب سے آمدنی بھی روز به روز بڑھنے لگی۔ زندگی کی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے اس کو احساس بھی نہ ہوا کہ گزرتے دنوں کی دھوپ بالوں میں چاندی بن کر اتر آئی ہے۔ جب احساس ہواوقت گزر چکا تھا۔ اس نے ایک بڑا گیراج لے لیا۔ اپنا کاروبار بھی سیٹ کر لیا۔ اب اس کے بہت سے شاگرد تھے اور یہ اپنے دفتر میں بیٹھ کر حکم دیتا اور اس کے ملازم کام کرتے تھے۔ جب فکر معاش سے آسودہ ہو گیا تو گھر بسانے کا خیال آیا لیکن ایسا کوئی نہیں تھا جو اس کے مزاج اور عمر کے مطابق لڑکی تلاش کرتا۔ اتنی دولت کما لینے کے باوجود ابھی تک وہ ایک کمرے کے کرایے کے مکان میں ہی رہ رہا تھا۔ دن یونہی گزرتے رہے اور ہم دوست اس کو مجبور کرتے رہے کہ وہ شادی کرلے ، وہ خاموش ہو جاتا۔ ایک دن جب میں اس سے ملنے گیا، وہ کچھ خاموش سا تھا۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگا۔ کل میں گیراج سے واپس آرہا تھا، راستے میں ایک لڑ کی نظر آئی، وہ بہت پریشانی کے عالم میں جارہی تھی، اسے ارد گرد کا کوئی ہوش نہ تھا، اسے دیکھا تو بس دیکھتا رہ گیا۔ وہ میری نظر کے معیار پر پوری اتری ہے۔ اب سوچ رہا ہوں کہ کیسے اس کا پتا معلوم کروں اور اس کے حالات سے واقفیت حاصل کروں اس کی کیفیت عجب تھی، جتنی دیر اس کے پاس بیٹھارہاوہ اسی لڑکی کے بارے میں بات کرتا رہا۔ وہ مستقل اس لڑکی کو حاصل کرنے کی الجھن میں گرفتار تھا، میرے سوا کسی کو نہیں بتاتا تھا کہ مسئلہ کیا ہے۔ ایک دن اس نے بتایا کہ آج میراپھر اس لڑکی سے سامنا ہو گیا ہے۔ میں نے اس کو سلام کیا، وہ مسکرا دی۔ اس کی مسکراہٹ میں بڑی تھکن تھی مگر مجھے امید کی کرن دکھائی دی۔ آج میں بہت خوش ہوں۔ ایک دن وہ میرے پاس آیا اور اصرار کر کے اپنے ساتھ لے گیا۔ اس جگہ جہاں سے وہ لڑکی روز مقررہ وقت پر گزرتی تھی، سو ہم اس کے پیچھے گئے، قریب ہی گلی میں اس کا گھر تھا۔ اس کا گھر معلوم کر کے میرا دوست بڑا خوش تھا۔ دراصل وہ بری نیت سے اس کا پیچھا نہ کر رہا تھا، شادی کرنا چاہتا تھا۔ میں نے سمجھایا کہ اپنی ملازمہ کو اس کے گھر بھیج کر پہلے حالات تو معلوم کر لو۔ مشہود نے بات مان لی۔ اس کی ملازمہ سمجھ دار اور جہاں دیدہ تھی، وہ اس لڑکی کے گھر گئی اور باتوں باتوں میں کچھ حالات معلوم کر لئے۔ لڑکی نے بتایا کہ اس کے ماں باپ وفات پاچکے ہیں اور وہ اپنے ماموں کے پاس رہتی ہے ، ماما اس کا نشہ کرتا ہے اور وہ خود اسکول ٹیچر ہے ، ساری تنخواہ ماما لے لیتا ہے۔ رقم نہ دے تو مارنے پر آجاتا ہے۔ لڑکی کا نام آئمہ تھا۔ بہت شائستہ تھی۔ اس نے تمام باتیں مشہود کو بتائیں۔ مشہود نے اسے سمجھایا کہ اماں رحمہ تم میری ہر بات اسے صاف صاف بتادو پھر اس کا فیصلہ پوچھ لینا جو وہ کہے گی، ویسا کر لیں گے۔ یوں ملازمہ کی معرفت مشہود کی ملاقات آئمہ سے ہو گئی۔ لڑکی بھی کھری اور صاف گو تھی۔ اس نے بتایا کہ ماماجی کے سوا میرا اس دُنیا میں کوئی نہیں ہے۔ بے شک وہ مجھ سے تنخواہ لے لیتا ہے لیکن بھیڑیوں کے اس جنگل میں، میں ماماجی کی وجہ سے محفوظ ہوں ، ان کے گھر کو چھوڑ دوں تو کہاں جائوں گی ؟ مشہود نے بھی اپنے بچپن سے لے کر اب تک کے تمام حالات آئمہ کو بتادیئے اور کوئی بات پوشیدہ نہ رکھی۔ آئمہ کو مشہود اچھا لگا۔ یوں انہوں نے باہم رضامندی سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ وہ دونوں آپس کے صلاح مشورے سے کچھ سامان خرید رہے تھے کہ آئمہ کے ماماجی نے ان کو ساتھ شاپنگ کرتے دیکھ لیا اور وہ آئمہ کو بُرا بھلا کہتا ہوا، اپنے ساتھ گھر لے گیا۔ آئمہ نے اگلے روز بتایا کہ گھر لے جا کر ماماجی نے بہت مارا۔ اس نے ہر بات ان کو بتادی ہے، اب اگر شادی ہو گی تو ان کی مرضی سے ہی ہو گی۔ آپ کو ان سے ملنا ہوگا اور ماما جی کو راضی کرنا ہو گا۔ دوسرے روز مشہود نے اپنی ملازمہ کو ماما کے پاس بھیجا۔ اس شخص نے کہلواد یا آ کر مجھ سے خود ملو – میں کچھ شرائط پر آئمہ کو تم سے شادی کی اجازت دے سکتا ہوں۔ مشہود ملازمہ کے ہمراہ اس شخص سے ملا۔ اس آدمی نے کہا کہ دو شرطیں ہیں، پوری کر دو تو میں اپنی بھانجی کار شتہ دوں گا۔ اول جس گھر میں ہم رہتے ہیں، یہ گروی ہے۔ اس کا پیسہ بھر کر گروی سے چھڑا دو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ آئمہ اگر شادی کے بعد ملازمت جاری رکھے گی تو آدھی تنخواہ میرے گزارے کے لئے مجھے دے گی ، اگر ملازمت نہیں کرے گی تو تم کو ہر ماہ گزارے لائق خرچہ مجھ کو دینا ہوگا کیونکہ میں کمانے سے قاصر ہوں۔ مشہود نے دونوں شرطیں خوشی سے مان لیں۔ یوں ان کی شادی ہو گئی۔ کچھ ماہ بعد ہی ماما جی کو لگا کہ رقم کم ہے۔ وہ مشہود کے سر ہو گیا کہ خرچے میں اضافہ کرو۔ پوری نہیں پڑتی ہے۔۔ مشہود نے رقم بڑھادی۔ اس کے بعد تو اس بندے کو رقم بٹورنے کی عادت پڑ گئی۔ وہ تھوڑے تھوڑے دنوں بعد ر قم مانگنے آجاتا۔ ماموں کی اس حرکت پر آئمہ کو اپنے شوہر سے شرمندگی ہوتی، وہ منع کرتی کہ اب اور روپے ان کومت دو۔ مگر وہ بیوی کے کہنے کی پروانہ کرتا اور رقم دے دیتا۔ وہ جس قدر اس کی ضرورتیں پوری کر رہا تھا، اس شخص کے مطالبے بڑھتے ہی جارہے تھے ۔ آخر کار مشہود تنگ آگیا۔ اس نے وہ گھر بیچ دیا اور ہمارے گھر کے برابر والا بنگلا خرید لیا ہے۔ احمد نے یہاں تک بات ختم کر کے کہا کہ اب تم آئمہ بھابی سے ملتی رہنا، اس کی شادی کو ڈیڑھ سال ہوا ہے اور وہ اکیلے اتنے بڑے گھر میں رہنے سے گھبراتی ہے۔ ملازمہ تو اپنے کاموں میں لگی رہتی ہے۔ یوں میں اکثر اس سے ملنے چلی جاتی۔ آئمہ اپنے گھر میں بہت خوش تھی لیکن کبھی کبھی وہ بجھی بجھی اور اداس لگتی۔ ایک دن میں گئی تو دیکھا کہ آئمہ نے میلے کپڑے پہن رکھے ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو بولی۔ کس کے لئے اچھا لباس پہنوں ؟ مشہود کو تو اپنے کاروبار سے ہی فرصت نہیں ہے۔ وہ زیادہ وقت اپنے گیراج کو دیتے ہیں، گھر آتے ہیں تھکے ماندے، میری جانب توجہ ہی نہیں کرتے۔ میں نے اسے سمجھایا۔ مشہود بھائی نیک ہیں، پختہ عمر اور سلجھے ہوئے، ہر وقت تمہارے پیچھے پھرتے اور محبت جتلانے کو ٹھیک نہیں جانتے ہوں گے ، محبت تو انسان کے دل میں ہوتی ہے، باقی ہر طرح سے تمہارا خیال رکھتے ہیں۔ تم بد گمانی میں نہ پڑو۔ میری باتیں آئمہ نے خاموشی سے سنیں مگر کچھ نہ بولی۔کافی دنوں بعد میں دوبارہ اس کے پاس گئی، وہ پہلے سے بھی زیادہ بجھی بجھی تھی۔ اس بار اس نے مشہود کے بارے کوئی بات نہ کی۔ اس کے بعد میں نے مشہود بھائی سے بات کی۔ ان سے کہا کہ آپ آئمہ کا خیال رکھا کریں، وہ سارا دن اکیلی گھر میں پڑی آپ کا انتظار کرتی رہتی ہے اور آپ رات کو آکر سو جاتے ہیں، اس کو کہیں گھمانے پھر انے بھی لے کر نہیں جاتے۔ انہوں نے میری بات غور سے سنی اور اس کے بعد وہ ہر جمعہ کو اسے باہر گھمانے پھرانے لے کر جانے لگے۔ شادی کو پانچ برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کے یہاں ابھی تک کوئی اولاد بھی نہ ہوئی تھی۔ ایک دن احمد بہت پریشان گھر میں داخل ہوئے کہنے لگے۔ کیا تم آئمہ بھابی کے پاس جاتی ہو ؟ تم نے وہاں کوئی خاص بات نوٹ کی ہے۔ میں نے بتایا کہ کوئی ایسی بات نہیں دیکھی ، سب معمول کے مطابق تھا، کیا کوئی پریشانی والا معاملہ ہے ؟ کہنے لگے۔ ہاں، پریشانی والا معاملہ تو ہے مشہود جیسا سمجھ دار اور صابر آدمی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے۔ وہ بہت پریشان ہے ، تم ذرا آئمہ بھابی کے پاس جائو اور پتا کرو کیا بات ہے؟ دوسرے دن میں آئمہ کے پاس گئی۔ وہ بنی ٹھنی اور بہت خوش نظر آرہی تھی۔ ہلکے میک آپ میں جیولری پہنے بہت حسین لگ رہی تھی۔ اس روپ میں آئمہ کو دیکھ میں خوش ہو گئی کہ چلو وہ پھر سے اپنے گھر میں سیٹ ہو گئی ہے، پچھلے دونوں تو بہت بد حال لگتی تھی۔ ابھی وہاں بیٹھی تھی کہدر پر دستک ہوئی۔ گیراج سے لڑ کا روٹی لینے آیا ہے۔ ملازمہ نے بتایا۔ میں نے دیکھا کہ آئمہ کے چہرے پر رونق آ گئی۔ وہ ٹفن اٹھا کر خود در پراس لڑکے کو کھانا دینے چلی گئی۔ جب کافی دیر ہو گئی تو میں اٹھ کر جانے لگی تبھی ملازمہ نے مجھے کہا۔ ذرا ٹھہریئے میں جا کر دیکھتی ہوں۔ ملازمہ نے مجھے روک لیا اور خود دروازے کی طرف چل دی۔ یہ صورت حال دیکھ کر میں پریشان ہو گئی۔ اب سمجھ میں آیا کہ کچھ اور معاملہ ہے اور میرے شوہر کیوں پریشان تھے۔ ذرا دیر بعد ملازمہ آگئی اس کے چہرے پر گھبراہٹ تھی۔ میں جانے کو ہوئی، دروازے تک پہنچی ہی تھی کہ آئمہ اندر آگئی۔ اصرار کرنے لگی کہ بیٹھو مگر میں نے معذرت کرلی کہ بچے اسکول سے آنے والے ہیں اور مجھ کو دیر ہو رہی ہے۔ شام کو احمد آئے تو میں نے ان کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا اور پوچھا کہ کیا معاملہ ہے۔ وہ بولے۔ پچھلے دنوں مشہود نے کاروبار بڑھایا تو اس کو سنبھالنے کے لئے ایک نوجوان کی ضرورت تھی۔ انہوں نے فرحان نامی لڑکا ملازم رکھ لیا۔ وہی دُکان سے روز کھانا لینے آتا۔ کچھ دنوں سے دیر کر دیتا تھا۔ انہوں نے پوچھا۔ کیوں دیر ہو جاتی ہے ؟ فرحان نے جواب دیا کہ جب میں جاتا ہوں کھانا تیار نہیں ہوتا، گھر سے مجھے انتظار کرنے کو کہا جاتا ہے تو میں وہاں انتظار کرنے بیٹھ جاتا ہوں۔ مشہود کو کوئی شک نہ ہوا۔ اس نے گھر آکر ملازمہ سے پوچھا۔ وہ بولی۔ صاحب جی ! کھانا تو وقت سے پہلے تیار ہو جاتا ہے ، جب لڑکا آتا ہے ٹفن تیار ہوتا ہے۔ یہ بات ملازمہ نے اس وقت کہی جب آئمہ واش روم میں تھی۔ مشہود کو آئمہ پر تو شک نہ ہوا لیکن ملازم اس کی نظر میں مشکوک ہو گیا کہ وہ کھانا لینے کے بعد کہیں اپنے کسی کام سے نکل جاتا ہو گا۔ دو تین بار کی تنبیہ کے باوجود لڑکے کو آنے میں تاخیر ہوتی رہی تو مشہود نے سوچا معلوم تو کروں کیا معاملہ ہے ؟ انہوں نے جب اس کا پیچھا کیا۔ دیکھا کہ اس کی بیوی ٹفن ہاتھ میں لئے گھر سے باہر نکلی اور پاس بنی بیٹھک میں چلی گئی جہاں فرحان بیٹھا تھا۔ مشہود کافی دیر باہر انتظار کرتارہا۔ آدھے پونے گھنٹے کے بعد اس کی بیوی بیٹھک سے گھر میں گئی اور لڑ کا باہر نکل کر گیراج کی طرف روانہ ہو گیا۔ مشہود نے اب بھی آئمہ پر شک نہ کیا۔ وہ سمجھا کہ تمام عورتوں کی طرح میری بیوی بھی میری جاسوسی میں لگی ہے، تبھی اس سے معلومات کریدنے کو یہ طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ اس نے بیوی کو تو کچھ نہ کہا مگر ملازم کو ہدایت کی کہ اگر میری بیگم تم سے میری باہر کی سر گرمیوں کے بارے احوال لینے کی کوشش کرے تو اس سے بات کرنے کی بجائے مجھ کو آگاہ کر دینا اور اس سے یا مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ملازم سمجھ گیا کہ اب اس کا بیٹھک میں رکنا خطرے سے خالی نہیں لہذا اس نے آئمہ کو آگاہ کیا اور دونوں نے ملاقات کا ایک اور راستہ ڈھونڈ لیا۔ گھر سے قریب ایک ریسٹورنٹ تھا۔ آئمہ مقررہ وقت پر وہاں چلی جاتی اور ٹفن دینے کے بہانے دونوں تھوڑی دیر بیٹھ کر چائے پینے کی آڑ میں ملاقات کر لیتے جبکہ اس نے ملازمہ کو سختی سے منع کر دیا کہ صاحب کو اس کے باہر جانے کا نہیں بتائے گی۔ اب آئمہ بہت بدل گئی تھی اس کا بنائو سنگھار اس کی نئی سوچ کی چغلی کھا رہا تھا۔ ایک دن مشہود کوئی پر زہ لینے بازار گیا۔ واپسی میں اس نے سوچا گھر کا چکر لگالوں اور کھانا بھی گھر آکر کھالوں۔ وہ گاڑی میں تھا۔ جو نہی اس کی گاڑی ریسٹورنٹ کے سامنے سے گزری اس نے فرحان کو وہاں سے نکلتے دیکھا، اس کے ہاتھ میں کھانے کا ٹفن تھا۔ اس نے سوچا یہ بدبخت شاید یہاں بیٹھ کر پہلے خود میرے کھانے پر ہاتھ صاف کرتا ہے اور بعد میں بچا ہوا کھانا گیراج لے آتا ہے تبھی اس کو دیر ہو جاتی ہے۔ مشہود ریسٹورنٹ میں گیا۔ فرحان سے پہلے ہی آئمہ جا چکی تھی۔ اس نے ویٹر سے پوچھا۔ ابھی جو نوجوان ٹفن ہاتھ میں لئے باہر نکلا ہے ، کیا وہ یہاں بیٹھ کر ٹفن سے کھانا کھاتا ہے۔ اس نے کہا۔ نہیں صاحب، یہ لوگ ریسٹورنٹ سے ہی کچھ نہ کچھ لے کر کھاتے ہیں اور کافی پیتے ہیں۔ کتنے لوگ ہوتے ہیں؟ دو تین ، ان کے ساتھ ایک عورت بھی ہوتی ہے، وہ پانچ منٹ پہلے آجاتی ہے اور ان کے یہاں سے نکلنے سے تین منٹ پہلے نکل جاتی ہے۔ مشہود کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجی۔ اب اس کو ٹوہ لگی کہ دیکھو اس بات کی تہہ میں کیا ہے۔ اگلے دن وہ مقررہ وقت سے دس منٹ بعد ریسٹورنٹ میں داخل ہوا، آئمہ اور فرحان ٹیبل کے آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے اور ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔ آئمہ نے جو مشہود کو دیکھا، گھبراگئی۔ میرے دوست نے ریسٹورنٹ میں اپنا تماشا بنانا مناسب نہ سمجھا۔ بیوی کو کہا، گھر چلو۔ وہ کمال ضبط سے اس کو خاموشی کے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر گھر لے آیا اور الٹا چور کو توال کو ڈانٹے والی مثال صادق ہو گئی کہ آتے ہی آئمہ نے شور مچادیا۔ مجھ کو طلاق دے دو، میں اب تمہارے ساتھ مزید نہیں رہ سکتی۔ اس سے پہلے کہ وہ بیوی سے کچھ پوچھتا، آئمہ ہی اس پر برس پڑی۔ وہ بولا۔ ابھی تو میں نے تم سے کچھ بات نہیں کہی اور تم طلاق مانگنے لگیں جبکہ پہلے تو تم کہتی تھیں کہ میں تمہارے گھر سے مر کر ہی نکلوں گی اوراب یہ بات کہہ رہی ہو ۔ ہاں تب حالات اور تھے لیکن اب میرا تمہارا گزارا مشکل ہے، میں قید تنہائی سے تنگ آگئی ہوں، تمہارے ساتھ رہنے کا مطلب ہے گھٹ گھٹ کر مر جانا۔ اس سے تو اچھی شادی سے پہلے تھی، اسکول جا کر دو سہیلیوں سے بات تو کر لیتی تھی۔ گھر میں تو اب مجھے لگتا ہے کہ میری شادی تم سے نہیں بلکہ اماں رحمہ سے ہوئی تھی کہ سارا دن ملازمہ ہی کا منہ دیکھتی رہتی ہوں۔ مشہود نے اس کو ڈانٹ کر چُپ کرا دیا۔ اس وقت تو وہ چپ ہو گئی لیکن دل سے علیحدگی کا خیال نہیں نکالا۔ تبھی روز روز کا جھگڑارہنے لگا۔ زندگی کا مضبوط بندھن اعتماد کے آئینے میں عکس ثبت کرنے کا نام ہے۔ یہ عکس بگڑ جائے تو ۔۔ تو اعتبار کا آئینہ بھی چکنا چور ہو جاتا ہے۔ تبھی پیار کا بندھن بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ اب مشہود کا یہ حال کہ وہ روز و شب کرب کی آگ میں سلگتا۔ اس کے رات دن کانٹوں پر بسر ہو رہے ہیں مگر طلاق کا فیصلہ نہیں کر پارہا جبکہ آئمہ طلاق لینے پر مصر ہے۔ مشہود جانتا تھا، جب وہ گیراج میں ہوتا ہے اس کی بیوی فرحان سے ملتی ہے، تبھی وہ کرب کا شکار ہے۔ احمد نے کہا۔ میں نے مشہود کو بہت سمجھایا کہ وہ تم سے عمر میں کم ہے اور یہ اس کا جذباتی فیصلہ ہے۔ کچھ دن ٹھہر جائو ، وہ تم سے طلاق لے کر پچھتائے گی اور تم اس کو طلاق دے کر پچھتائو گے۔ وہ میری وجہ سے رُکا ہوا ہے۔ اب تم بتائو، تم کیا کہتی ہو۔ میں نے حالات کا اندازہ کر لیا اور کہا۔ احمد آپ ان کو نہ روکئے کیونکہ آئمہ اب ان کے گھر میں نہ ٹھہرے گی۔ فرحان نے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے ، وہ اب مشہود بھائی سے وفانہ کرے گی۔ بہتر ہے کہ مشہود بھائی اس کو طلاق دے دیں۔ ورنہ وہ خدا نا خواستہ ان کو نقصان نہ پہنچادے۔ چند دن میں میرا خد شہ درست ثابت ہوا۔ آئمہ اور مشہود کا اکائونٹ مشترکہ تھا۔ اس نے فرحان کے ساتھ مل کر نقدی اور زیورات اور گھر کے کاغذات اور قیمتی چیزیں غائب کر دیں۔ اب پانی سر سے اونچا ہو گیا تھا۔ آخر کار مشہود بھائی نے اس کو طلاق دے دی کہ زندگی ان کے لئے عذاب ہو گئی تھی۔ وہ اب اس مکان اور اس شہر میں نہیں رہ سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے شہر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ کو ٹھی اور گیراج فروخت کر دیا۔ اس بات کو چند ماہ گزرے تھے۔ صبح انہوں نے جانا تھا۔ رات کو دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو آئمہ کھڑی تھی۔ اس کی حالت خراب تھی۔ اس نے مشہود بھائی کو بتایا کہ فرحان نے سارا مال ہتھیا لیا اور اس کو بے آسرا کر کے بھاگ گیا ہے۔ بولی۔ آپ جیسے اچھے شوہر کو چھوڑنے کی سزا مجھے مل گئی ہے۔ ماما بھی گھر بیچ کر کہیں چلا گیا ہے۔ میں کدھر سر چھپائوں؟ مشہود نے اس کو بٹھایا اور خود ہوٹل میں سونے چلے گئے۔ یہ کہہ کر کہ اب تو ہمارا اکٹھے رہنا مشکل ہے، تم اس گھر میں رہو۔ میں نے ابھی گھر خریدنے والے کو قبضہ نہیں دیا ہے۔ دوسرے شہر چلا جائوں گا۔ آئمہ روکتی رہ گئی ، وہ نہ رکے۔ رات بھر وہ سوچتے رہے۔ صبح تک انہوں نے ایک اچھا فیصلہ کر لیا۔ وہ گھر واپس آئے کہ آئمہ معاف کر کے اس سے دوبارہ نکاح کر لیں گے لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ آئمہ نے ناامید ہو کر اپنی جان لے لی تھی اور اب وہ اس دنیا کو  چھوڑ کر جاچکی تھی۔ کاش وہ ہی صبح تک انتظار کر لیتی تو مشہود بھائی اس کو دوبارہ اپنا لیتے لیکن تقدیر کو یہی منظور تھا کہ بے وفا کو اس کے کئے کا انجام ملے

Latest Posts

Related POSTS