اس دن میرا کزن احسان ہمارے گھر آیا ہوا تھا۔ ہم صحن میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک ہمارے سامنے والے گھر سے ایک لڑکی پانی بھرنے آگئی، کیونکہ ان کے گھر میں پانی کی قلت تھی۔ وہ پانی بھر کر چلی گئی۔ میں نے نوٹ کیا کہ احسان اسے محویت سے دیکھتا رہا تھا۔ میں نے اس کا کندھا ہلایا۔ احسان! وہ چلی گئی ہے، اب کس کو دیکھ رہے ہو؟ تب وہ چونکا۔ باجی، یہ کون تھی؟ کیا نام ہے اس کا؟ ہماری پڑوسن ہے، حسینہ۔ میں نے شرارتاً کہا۔ حسینہ! کیا واقعی؟ کسی نے صحیح نام رکھا ہے۔ احسان سچ سمجھا تو میں ہنس پڑی اور بولی، اس کا نام ثوبیہ ہے۔ خیر، بات آگئی، ہو گئی۔ اسی دن احسان نے ڈیک پر گانا لگایا۔ گانا بہت اچھا تھا، لیکن ڈیک کی آواز ذرا اونچی تھی، باہر تک جارہی تھی۔ اتنے میں ثوبیہ دوبارہ آگئی، جیسے اسے بلایا گیا ہو، اور آتے ہی مجھ سے پوچھا، باجی، یہ گانا کس نے لگایا ہے؟ کیوں، تم کیوں پوچھ رہی ہو؟ گانا بہت اچھا ہے۔ اس گانے نے میرا دل کھینچ لیا ہے۔ وہ بولی۔ تب میں نے اٹھ کر آواز آہستہ کر دی۔ اس نے پوچھا، باجی، یہ کیسٹ آپ کی ہے؟ نہیں، یہ میرے کزن احسان کی ہے۔ مجھے گھر میں سنائی دے تو پھر آواز اونچی رکھیں۔ یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔ احسان نے ہماری گفتگو سن لی تھی اور مسکرا رہا تھا۔ اس کے والد شام کو اسے لینے آگئے، لیکن وہ جانے کو تیار نہیں تھا۔ تایا سے بولا، ابا جان، مجھے واپس ساہیوال نہیں جانا۔ تایا ابو حیران رہ گئے۔ کیا کہہ رہے ہو؟ وہاں اچھا کام سیکھ رہے ہو، یہاں رہ کر کیا کرو گے؟ میں یہاں کام سیکھوں گا، یہ بڑا شہر ہے۔ اس وقت میرے شوہر بھی وہاں موجود تھے، کہنے لگے، تایا جی! اگر احسان ساہیوال جانا نہیں چاہتا تو اس کو یہیں رہنے دیجیے۔ میں اسے اپنی نگرانی میں کام سیکھنے پر لگا دوں گا۔ بیٹا احمر! یہ وہاں جس شخص سے کام سیکھ رہا ہے، وہ بھی بہت اچھا کاریگر ہے۔ یہ یہاں رہ کر کیا کرے گا؟ تب میں بول پڑی، تایا جی، یہ یہاں بہت خوش ہے، رہنے دیجیے نا! وہ بولے، چلو ٹھیک ہے، اس کی یہی مرضی ہے تو یہی سہی، لیکن تم دونوں اس پر نظر رکھنا، یہ وقت ضائع نہ کرے۔ وہ احسان کو ہمارے گھر چھوڑ کر واپس چلے گئے۔اگلے دن وہ احمر کے ساتھ کام پر جانے لگا۔ وہ بہت دل لگا کر کام سیکھ رہا تھا۔ چند دنوں میں ہی اس کے ہاتھ میں اتنی صفائی آگئی کہ ہم سب حیران رہ گئے۔ گویا اس پر لکھے ہونے کا الزام غلط ثابت ہو گیا تھا۔
ایک دن وہ شام کو دکان سے آکر میرے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا، باجی! آپ سے ایک بات کروں؟ کسی سے کہیں گی تو نہیں؟ میں نے پوچھا، کیا بات ہے؟ وہ بولا، میں کسی سے نہیں کہوں گی۔ باجی! بات دراصل یہ ہے کہ میں آپ کی پڑوسن لڑکی ثوبیہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ میں اس کی بات سن کر حیران رہ گئی اور بولی، ایک بار دیکھ کر ہی اتنا بڑا فیصلہ کر لیا؟ اس نے جواب دیا، نہیں، وہ روز ہی احمر بھائی کی دکان کے سامنے سے گزر کر اسکول جاتی ہے۔ میں روز اسے دیکھتا ہوں۔ کیا آپ اس کی مرضی پوچھ کر مجھے بتا سکتی ہیں؟ میں نے کہا، ہاں، بتا دوں گی۔ میں نے اسے ٹالنے کی کوشش کی۔ کچھ دن گزرے تھے کہ تایا ابو آ گئے اور بولے، سیکھ لیا نگینے جڑنا! اب اپنی دکان پر چلو اور میرے ساتھ کام کرو۔ یہ سن کر احسان کا منہ اُتر گیا اور اس نے باپ کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا کہ میں مکمل کام سیکھنے کے بعد ہی گھر جاؤں گا۔ استاد مجھے بہت محنت سے سکھا رہے ہیں۔ تایا اسے ڈانٹنے لگے، تبھی وہ رونے لگا۔ تایا ابو دراصل سنار کا کام کرتے تھے اور احسان زیورات میں نگینے جڑنے اور موتی لگانے کا کام کرتا تھا۔ آخر تایا نے پوچھا، کسی وجہ سے تم اپنا گھر چھوڑ کر ان کے گھر رہنا چاہتے ہو؟ مجھے سچ سچ بتاؤ تو میں تم کو یہاں رہنے دوں گا، ورنہ میرے ساتھ چلنا ہی ہوگا۔ احسان نے ہمت سے کام لے کر سچ بات کہہ دی، میں اس محلے میں رہنے والی ایک لڑکی ثوبیہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ تایا نے سوال کیا، کون لوگ ہیں وہ؟ تب معاملے کی نزاکت سمجھتے ہوئے میرے شوہر بول پڑے، لڑکی کے والد ہمارے پرانے پڑوسی ہیں۔ اچھے لوگ ہیں، ہمارے جاننے والے ہیں۔ تایا نے کہا، اچھا ٹھیک ہے، اگر آپ کے جاننے والے ہیں تو ان سے بات کریں، پھر مجھے بتائیں۔ میں نے کہا، آپ فکر نہ کریں تایا جی! میں بات کر کے آپ کو بتاؤں گا۔ تایا کے جانے کے بعد میرے شوہر نے بات بنانے کی بجائے بگاڑ دی، کیونکہ وہ اس معاملے سے خوش نظر نہیں آتے تھے۔ انہوں نے کچھ اس طرح بات کی کہ ثوبیہ کے بھائیوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے نہ صرف بہن کو مارا بلکہ اس کا گھر سے نکلنا بھی بند کر دیا۔ احسان نے اس لیے بات بگاڑی تھی کہ وہ چاہتا تھا کہ احسان باز آجائے، ورنہ وہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ احسان نے لگن سے کام سیکھ لیا تھا اور ان کی دکان پر محنت سے کام کر رہا تھا۔ وہ اس کے ہنر سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے اور اس کو اپنی بہن سے بیاہنے کی پلاننگ کر رہے تھے، اس لیے نہیں چاہتے تھے کہ اس کا رشتہ کہیں اور ہو جائے۔ صورت حال بھانپ کر احسان نے جرات کی اور خود ثوبیہ سے جا کر بات کی اور کہا کہ تم ہمت کرو تو ہم کورٹ میں شادی کر لیتے ہیں۔ مجھے اس بات کا علم نہ ہوا، ورنہ میں ان کو روکتی۔ ایک دن دونوں اکٹھے گھر سے نکل گئے۔ جب احمر رات کو دکان بند کر کے گھر لوٹے تو پوچھا، احسان کہاں ہے؟ آپ کے ساتھ دکان پر گیا تھا۔ وہاں سے تو شام کو نکل گیا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں، گھر جا رہا ہے۔ وہ کہیں غلط راستے پر تو نہیں چلا گیا؟ اتنی رات گئے کسی لڑکی سے تو ملنے نہیں گیا؟ تبھی انہوں نے مڑ کر ثوبیہ کے گھر کی طرف دیکھا۔ ان کی سیڑھیوں کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ان کو شک ہوا۔ وہ اسی وقت ثوبیہ کے گھر کی طرف گئے اور ان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس کا بھائی باہر نکلا تو احمر نے پوچھا، کیا وہ گھر میں موجود ہے؟ اس نے کمرے میں جا کر دیکھا، وہ وہاں موجود نہیں تھی۔ سارے گھر میں تلاش کر لیا، مگر وہ گھر میں ہوتی تو ملتی۔ وہ احسان کے ساتھ نکل چکی تھی۔ اب تو سبھی کے چھکے چھوٹ گئے۔ احمر کے مشورے سے وہ انہیں تلاش کرتے ہوئے ریلوے اسٹیشن آئے اور لاہور جانے والی گاڑی میں ان کو پکڑ لیا۔ وہ ثوبیہ کو مارتے ہوئے گھر لائے اور احسان سے کہا کہ اگر اب تم نے ہمارے گھر کی طرف دیکھا بھی تو تم کو جان سے مار دیں گے۔ احمر نے احسان کو ساہیوال بھیج دیا اور کہا کہ اب تمہارا ادھر رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ ثوبیہ کے بھائیوں نے تمہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔ احسان کے دل پر تو قیامت ٹوٹ گئی۔ باپ نے بھی جوتے لگائے اور زبردستی اپنی دکان پر بٹھا دیا۔ جب انسان کا دل کسی کام نہ چاہے اور زبردستی کرنا پڑے تو اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا مشکل ہوتا ہے۔
کچھ دنوں میں تایا نے بھانپ لیا کہ یہ بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں ہے۔ انہوں نے کئی بار بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی کہ بیٹا، پہلے کچھ بن جاؤ۔ کما کر دکھاؤ، پھر شادی بھی ہو جائے گی۔ لڑکی والے بھی کمائو لڑکے کو ہی رشتہ دیتے ہیں۔ تمہارا اگر یہاں دل نہیں لگتا تو کسی دوسرے ملک چلے جاؤ۔ دبئی میں ہمارے چاچو کی دکان تھی۔ سمجھا بجھا کر تایا نے احسان کو چھوٹے بھائی کے پاس دبئی بھیج دیا۔ شرط یہ رکھی کہ کما کر لاؤ گے تو ہم تمہاری شادی ثوبیہ سے کروادیں گے۔ ان وعدوں پر وہ دبئی چلا گیا۔ ثوبیہ جب مجھے ملتی تو اس کے بارے میں ضرور پوچھتی۔ میں اسے گول مول جواب دے دیا کرتی۔ سال بعد دبئی سے آتے ہی وہ ہمارے گھر آیا۔ اتفاق سے ثوبیہ نے اپنے گھر کی چھت سے اسے ہمارے گھر آتے دیکھ لیا۔ وہ خوشی سے نہال ہو گئی۔ فوراً قریبی سہیلی کے گھر جا کر اس کو ہماری طرف بھیج دیا۔ یوں اس لڑکی کی بدولت ان کا رابطہ بحال ہو گیا۔ احسان نے اپنے والد کو وعدہ یاد دلایا کہ وہ اب ثوبیہ کے والدین سے جا کر رشتے کی بات کریں۔ تایا جی بیٹے کے اصرار پر ہمارے گھر آئے اور ہم رشتہ مانگنے بھی گئے، لیکن ثوبیہ کے والد اور بھائیوں نے انکار کر دیا۔ یوں ہم بے نیل و مرام واپس آگئے۔ احسان بھی بہت زیادہ پریشان ہو گیا۔ ہم سب نے اسے سمجھایا کہ اب اسے بھول جاؤ۔ اس نے مجھے کہا کہ باجی، میں اُسے نہیں بھول سکتا، یہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ بھولنا تو پڑے گا، میں نے کہا۔ احسان نے دل پر صبر کی سل رکھ لی، مگر اس کے بعد وہ غلط راستوں پر چلا گیا۔ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کر لی جنہوں نے اسے شراب نوشی پر لگا دیا۔ ادھر احسان کے والدین نے اس کے زخم کا مرہم تلاش کرنا شروع کر دیا۔ سوچا کہ بیٹے کی شادی کر دیں۔ بیوی آجائے گی تو پرانے زخم بھر ہی جائیں گے۔ تایا جی نے احسان کی شادی اپنے ہم زلف کی بیٹی سے طے کر دی۔ اسے جب اس امر کا پتا چلا تو بہت جزبز ہوا اور جھگڑنے لگا کہ میں ہرگز فاریہ سے شادی نہیں کروں گا۔ کچھ دنوں بعد فاریہ کے والدین شادی کی تاریخ لینے آ گئے۔ اس دن وہ بہت پریشان تھا۔ پریشانی کے عالم میں اس نے شراب پی اور جا کر اپنے کمرے میں لیٹ گیا۔ تایا اس کے پاس گئے اور پیار سے کہا کہ بیٹا، گھر میں مہمان آئے ہیں اور تم نے یہ حال بنا رکھا ہے۔ باہر آؤ اور اپنے خالو اور خالہ سے بات کرو۔ اس نے جواب دیا کہ میں کمرے سے باہر نکلوں گا اور نہ ہی میری منگنی یا شادی ہو گی۔ تب تایا غصے میں بولے کہ اگر تم نے ہمیں شرمندہ کیا تو میں تم کو گھر سے نکال دوں گا۔ یہ بات احسان کے دل پر لگی۔ اس نے اسی وقت کپڑے بیگ میں رکھے اور گھر سے نکل گیا۔ ماں نے جب اسے بیگ لے جاتے دیکھا تو رونے لگی۔احسان نے ایک ہوٹل میں کمرہ لیا اور وہاں رہنے لگا۔ وہاں اس کی ملاقات اشرف نامی شخص سے ہوئی۔ باتوں باتوں میں اس نے اپنی پریشانی سے اسے آگاہ کر دیا۔ اشرف نے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر کہا کہ دوستی کی ہے تو نباہ کر کے دکھاؤں گا۔ پھر بیگ سے پستول نکال کر بولا کہ اگر سیدھی طرح کام نہ ہوا تو زبردستی چھین لیں گے۔ جو راستے میں آیا، اس سے نمٹ لیں گے، تم فکر نہ کرو۔ احسان کو اس کا ایسا سہارا ملا، جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل جاتا ہے۔ ایک دن احسان ثوبیہ کی گلی میں اس کی سن گن لینے گیا۔ اشرف ساتھ تھا۔ ثوبیہ نے کھڑکی سے اسے دیکھ لیا۔ اس کا دل خوشی سے بے اختیار ہو گیا۔ اس نے جلدی جلدی ایک پرچہ لکھ کر کھڑکی سے باہر گرا دیا۔ لکھا تھا کہ احسان! اس گلی میں دیکھ کر آیا کرو۔ کہیں میرے بھائیوں کی نظر تم پر نہ پڑ جائے۔ وہ تمہارے خون کے پیاسے ہیں، جان سے مار دیں گے۔ رقعہ پڑھ کر وہ پریشان ہو گیا۔ تب اشرف بولا کہ تم پریشان نہ ہو۔ میں ہر وقت سائے کی طرح تمہارے ساتھ ہوں۔ میرے ہوتے ہوئے کوئی تمہارا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ احسان نے کہا کہ میری باجی کا گھر وہ سامنے ہے۔ میں ان سے مل کر دو منٹ میں واپس آتا ہوں ، تب تک تم یہیں کھڑے رہنا۔ یہ کہہ کر اس نے سڑک پار کی اور ہمارے گھر کی طرف آ گیا۔ اشرف وہاں کھڑا تھا کہ ایک کار نے اسے ٹکر مار دی۔ وہ بال بال بچا اور غصے سے بولا۔ کیا تم لوگوں کو گاڑی چلانا نہیں آتی ؟ اس بات پر کار سے دو آدمیوں نے اتر کر اس کو مار ناشروع کر دیا، یہاں تک کہ وہ لہولہان ہو گیا۔ احسان مجھ سے دعا سلام کے بعد باہر نکلا تو دیکھا اشرف زخمی تھا اور لوگ اس کے گرد جمع تھے۔ اسے فورا اسپتال لے گیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اس کا خون بہت بہہ گیا ہے۔ یہ پولیس کیس ہے۔ احسان نے فورا جا کر تھانے رپورٹ درج کروائی اور اشرف کو ایمر جنسی وارڈ میں داخل کروا دیا۔ وہ تین دن اسپتال میں رہنے کے بعد دم توڑ گیا ادھر پولیس کار والوں کو ڈھونڈتی رہ گئی۔
اشرف کے مرنے کا میرے کزن کو بہت صدمہ تھا۔ وہ ہمہ وقت اس کے غم میں ڈوبار ہنے لگا۔ ادھر پولیس نے مجرموں کو پکڑ کر جیل بھیج دیا۔ تین ماہ کیس چلا ، ان کی ضمانت ہو گئی تو احسان نے سوچا کہ جب یہ جیل سے باہر آئیں گے تو میں خود اپنے دوست کا بدلہ لوں گا۔ وہ جیل سے باہر ، موٹر سائیکل پر بیٹھا ، ان کے نکلنے کا انتظار کرنے لگا۔ جب وہ باہر آئے احسان کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور اس نے ان پر فائرنگ شروع کر دی۔ وہ بھاگنے لگے لیکن دو زخمی ہو گئے۔ اتنے میں پولیس پہنچ گئی اور احسان کو پکڑ لیا، اسے جیل ہو گئی۔ زخمی غنڈے بچ گئے۔ اس کے والدین کو علم ہو چکا تھا کہ وہ جیل میں ہے۔ اولاد کی محبت سے مجبور ہو کرتا یا اس سے ملنے گئے۔ اسے تسلی دی کہ گھبر اومت، ہم تمہاری ضمانت کروالیں گے لیکن تم کو بھی ہماری عزت رکھنی ہو گی۔ تمہیں فاریہ سے شادی کرنا ہو گی۔ اس پر احسان نے کہا۔ آپ لوگ چلے جائیے ، مجھے ضمانت کی ضرورت نہیں ہے۔ جب اللہ نے چاہا جیل سے باہر آجاؤں گا۔ تایا جی اس کے تیور دیکھ کر مایوس لوٹ گئے۔ احسان کو تین برس کی قید ہو گئی۔ یہ خبر اخبار میں چھپی ثوبیہ نے بھی پڑھی تو رودی اور شدت سے اس کا انتظار کرنے لگی۔ احسان اچھا اور دل لگا کر کام کرنے والا لڑکا تھا، جو احمر کی ذرا سی بھول سے کتنا بھٹک گیا۔ ایک اچھا سنار، دل کے ہاتھوں تھک ہار کر جیل کے جبڑوں میں تھا۔ عشق نے اسے کہیں کا نہ رکھا تھا۔ ایک سیدھی سادی بات کو زمانے نے کتنا ٹیڑھا میڑھا بنا دیا تھا، جبکہ ہماری ذرا سی کوشش سے ثوبیہ کے ساتھ احسان کی شادی ہو سکتی تھی۔ اس کے والدین کو منا لینا ہمارے لیے کچھ مشکل نہ تھا۔ میں اور احمر اس سے ملنے جیل گئے۔ اس نے مجھ سے ثوبیہ کے بارے میں پوچھا۔ میں نے بتایا کہ وہ خیریت سے ہے۔ والدین اس کا رشتہ طے کر رہے ہیں۔ یہ سن کر وہ فکر میں ڈوب گیا۔ اس کا چہرہ متغیر ہو گیا۔ وہ سخت پریشان نظر آرہا تھا۔ ایک دن کسی نے بتایا کہ وہ جیل سے فرار ہو گیا ہے۔ اسی رات وہ موٹر بائیک پر ہمارے گھر آیا۔ اس کے ساتھ ایک لڑکا بھی تھا۔ احسان نے اسے دوسرے کمرے میں بٹھا دیا۔ میں نے پوچھا کہ احسان تم یہاں کہاں؟ تم تو جیل میں تھے۔ وہ بولا کہ کھانا لاؤ باجی، کھانا کھالوں پھر بتاؤں گا۔ اس کے پاس ایک شاپنگ بیگ تھا۔ کہنے لگا کہ یہ بیگ رکھ لو، میں بعد میں لے جاؤں گا۔ وہ نہانے چلا گیا۔ مجھے بیگ بھاری لگا۔ میں نے اسے کھول کر دیکھا تو اس میں پستول اور گولیاں تھیں۔ میں پریشان ہو گئی، پھر اس کے قدموں کی آہٹ پر بیگ بند کر کے الماری میں رکھ دیا۔ اس نے کہا کہ میرے ساتھ ایک مہمان بھی ہے، جس کی بائیک پر آیا ہوں۔ اسی وقت احمر آگئے۔ وہ احسان سے ملے اور کہا کہ تمہارے آنے کا یہاں کسی کو علم نہ ہونے پائے۔ کھانے کے بعد احمر باہر چلے گئے۔ تب میں نے اس سے پوچھا کہ تم جیل میں تھے، کیسے اتنی جلدی باہر آگئے؟ وہ بولا کہ بس بھاگنے کا موقع مل گیا۔ وہ مجھے اسپتال لے جا رہے تھے، تو میں بھاگ نکلا۔ اس نے بیگ مانگا جو میں نے دے دیا۔ اتنے میں احمر واپس آ گئے اور احسان سے کہنے لگے کہ تمہاری سزا تو باقی تھی، پھر کیسے آ گئے ہو؟ جب سنا کہ ثوبیہ کی شادی کسی اور سے طے کی جا رہی ہے تو میں نکل آیا۔ میں نے یہ سب کچھ اس کے لیے کیا ہے۔ چاہے مجھے جان دینی پڑے یا لینی پڑے، میں اسے حاصل کر کے رہوں گا۔ اس کی باتیں سن کر میں سہم گئی۔ میرے شوہر نے اسے سمجھایا کہ دیکھو احسان، ایسا کوئی قدم نہ اٹھانا، جس سے تم کو مزید نقصان ہو۔ پہلے ہی کافی نقصان ہو چکا ہے۔ احسان نے مجھے موبائل نمبر لکھ کر دیا کہ یہ ثوبیہ کو دے دینا اور قسم دی کہ میرا یہ کام ضرور کرنا۔ تب میں نے نمبر اس کو دے دیا اور ان کا پھر سے رابطہ ہو گیا۔ احسان نے کسی نئی آبادی میں کرایے پر مکان لے لیا اور پھر ایک روز ثوبیہ اس کے ساتھ چلی گئی۔ ادھر گھر والے بہت پریشان تھے اور ثوبیہ کو ڈھونڈ رہے تھے۔ میرے شوہر نے احسان کو فون کر کے کہا۔ تم کہیں چلے جاؤ، کیونکہ لڑکی کے بھائی تمہاری جان کے دشمن ہیں اور تم کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ بے شک وہ میری جان کے دشمن سہی مگر میں ان کا دشمن نہیں ہوں۔ ہم نے اپنا حق حاصل کیا ہے۔ مجھے کسی کا ڈر نہیں ہے اگر ڈر ہے تو پولیس کا، کہ وہ میرے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ پولیس نے تمہیں پکڑ لیا تو ثوبیہ کا کیا ہو گا ؟ احسان نے کہا۔ میں نے اُسے فون پر صلاح دی کہ تم ماموں کے پاس چلے جاؤ، پھر ان کے توسط سے لڑکی کے گھر والوں سے صلح کی کوشش کرو۔ اسے والدین کے پاس چھوڑ کر خود تھانے پیش ہو جاؤ۔ باقی جتنی سزا ہے کاٹ لو اور پھر باقی زندگی آزادی اور بے خوفی سے بسر کرو۔ میں ماموں کے پاس نہیں جا سکتا البتہ خالہ کے پاس لاہور چلا جاتا ہوں۔ یوں ثوبیہ کو لے کر وہ خالہ کے گھر چلا گیا اور ان کو حالات بتا کر کچھ رقم مانگی۔ وہ پریشان ہو گئیں تاہم کچھ رقم کا انہوں نے بندوبست کر دیا۔ خالہ یہ روپے کم ہیں۔ احسان نے کہا۔ بعد میں کہیں سے کردوں گی ، فی الحال اتنے ہی ہیں۔ اچھا خالہ ، تم یہ رقم کل تک اپنے پاس رکھو۔ ثوبیہ کو بھی ہیں صبح آکر لے جاؤں گا۔ وہ سیدھا جوئے کے اڈے پر گیا، جہاں اس کے دوست اور کچھ دوسرے لوگ جو اکھیل رہے تھے۔ احسان نے ان پر پستول تان لیا اور کہا۔ مجھے رقم کی اشد ضرورت ہے۔ تم لوگ یہ سارے پیسے مجھے دے دو، ورنہ تم سب کو گولیاں مار دوں گا۔ لوگوں نے خوفزدہ ہو کر ساری رقم اس کے بیگ میں ڈال دی۔ اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے شور مچانا شروع کر دیا، تب احسان نے اس پر فائرنگ شروع کر دی۔ وہ شدید زخمی ہو کر زمین پر گر گیا، یوں احسان وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہو گیا اور سیدھا خالہ کے گھر گیا۔ خالہ نے سوال کیا۔ اتنی رات گئے آئے ہو، کہاں چلے گئے تھے ؟ ایک دوست کے پاس چلا گیا تھا ، ، قم لینی تھی۔ صبح ہم ماموں کے پاس اسلام آباد چلے جائیں گے۔ احسان نے جواب دیا۔
صبح ہوئی وہ ثوبیہ کو لے کر ماموں کے گھر جانے کی بجائے ایک دوست کے گھر پہنچا اور اسے تمام حالات بتائے۔ دوست نے تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں ، بے شک آج رات میرے پاس رکو۔ کل میں بھی تمہارے ساتھ اسلام آباد چلوں گا۔ تمہارا اکیلے جانا درست نہ ہو گا، جبکہ تمہاری منکوحہ ساتھ ہے اور تمہارے پاس رقم بھی ہے۔ ٹھیک ہے۔ احسان نے سوچا کہ رات کو سفر کرنا دشوار ہو گا کہ موسم خراب ہے، لہٰذا دوست پر بھروسہ کر کے وہ ثوبیہ کے ساتھ ، اس کے گھر رہ گیا۔ رات کو جب دونوں سورہے تھے ، تو اس کے دوست نے تھانے فون کر کے مخبری کر دی کہ مجرم میرے گھر پناہ لینے آیا ہے ، آکر گرفتار کر لیں۔ پولیس پہنچ گئی اور احسان کو گرفتار کر لیا گیا۔ تمہارے ساتھ یہ لڑکی کون ہے ؟ تھانے دار نے پوچھا۔ یہ میری بیوی ہے تھانے دار صاحب ! براہ مہربانی، میرے والد کو فون کر کے یہاں بلوا لیں تاکہ وہ اپنی بہو کو گھر لے جائیں۔ تھانے دار نے نمبر ملادیا۔ احسان نے باپ سے بات کی۔ بتایا کہ میں نے سے بات شادی کر لی ہے آکر بہو کو گھر لے جائیں۔ یہ سن کرتایا جی نے فون بند کر دیا اور تھانے نہ گئے۔ تب احسان نے ثوبیہ کے بھائیوں کو فون کیا کہ آکر بہن کو لے جاؤ جاؤ کیونکہ مجھے تو تو جیل جانا ہے۔ فون سُن کر وہ وہ آئے اور اپنی اپنی بہن کو لے گئے۔ گئے۔ پولیس نے احسان کا چالان کر کے جیل بھیج دیا۔ ایک سال وہ جیل میں رہا، جہاں اسے بیماری نے جکڑ لیا۔ اس کا جگر خراب ہو گیا تھا، پھر ایک دن وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ یہ عشق کی درد ناک کہانی ہے۔ نجانے یہ عشق کتنے عاشقوں کو لے ڈوبا۔ شاید رہتی دنیا تک عشق دلوں کا شکار کرتا رہے گا اور یہ کہانیاں جنم لیتی رہیں گی۔