شانی بڑی نٹ کھٹ تھی۔ کسی کو خاطر میں نہ لاتی تھی۔ خالہ عذرا نے اس کا خوب لاڈ کیا تھا۔ وہ جو من میں آتا کر گزرتی اور خالہ ممتا کی ماری، بیٹی کی ہر ادا پر مسکرادیتیں۔ چاہے شانی کی یہ ادائیں دوسروں کو کتنی ہی کھٹکیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ شانی خود سر اور ضدی ہوتی گئی۔مجھے ڈر لگنے لگا تھا کہ کہیں میری بچپن کی ساتھی مزید پر پرزے نہ نکال لے۔ امی مجھے سمجھاتیں کہ شانی سے ذرا بچ کر رہا کرو۔ یہ بے وقوف لڑکی ہے۔ جدھر کوئی لے جائے، یہ اس کے ساتھ چل پڑتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی حماقتوں کی وجہ سے کل تمہارا نام خراب ہو جائے۔امی جان، شانی بے وقوف سہی، لیکن میں تو نہیں ہوں۔ وہ آپ کی بھانجی ہے، ہمارا فرض ہے کہ اس کا خیال رکھیں۔ وہ کوئی غیر تھوڑا ہی ہے کہ ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ خالہ بھی تو کہتی ہیں، سعدیہ، تم شانی کا خیال رکھا کرو۔ میں جواب دیتی، اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل۔
گریجویشن کے بعد میرا مزید پڑھائی کا کوئی ارادہ نہیں تھا، لیکن شاہانہ بضد تھی کہ میں اس کے ساتھ یونیورسٹی میں داخلہ لوں۔ ہم ہمیشہ اسکول سے اکٹھی آتی جاتی تھیں، تو کالج میں بھی اکٹھے پڑھیں۔ خالہ نے امی سے منت کی کہ سعدیہ کو داخل کرا دیں، فیس وغیرہ میں دے دوں گی۔ میری بیٹی بھولی ہے، اسے اکیلا نہیں جانے دے سکتی۔خالہ کی مجبوری دیکھ کر امی راضی ہو گئیں اور یوں میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔شانی کے ابو کی وفات کو پانچ برس گزر چکے تھے، اور ماں کی وجہ سے بھائی اسے کچھ نہیں کہتے تھے۔ اس آزادی کے سبب وہ فیشن کرنے لگی، جبکہ امی مجھے سادہ رہنے کی تلقین کرتی تھیں۔ کہتی تھیں کہ گھر میں بھی سادہ لباس پہنو اور کالج جاؤ تو بالوں کو سمیٹ کر۔اسی لیے میں کالج جاتی تو چوٹی کس کر بناتی، جبکہ شاہانہ نے اپنے بال نئے فیشن کے مطابق کٹوا لیے تھے اور دوپٹہ بھی نہیں لیتی تھی۔ یونیورسٹی میں تو ہم لڑکوں کے ساتھ پڑھتے تھے۔ میں نہیں کہتی کہ فیشن کرنا بری بات ہے، لیکن امی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ شانی دوپٹے کی پٹی بنا کر گلے میں ڈالتی اور امی مجھے چادر اوڑھا کر بھیجتیں تو وہ ہنستی کہ سعدیہ، تم تو بالکل ماسی لگتی ہو۔ معلوم ہے لڑکیاں تمہارا مذاق اڑاتی ہیں؟ تم زمانے کے ساتھ نہیں چل سکتی۔میں جواب دیتی کہ اچھا بھئی، میں ماسی اور تم بیگم صاحبہ۔ لیکن کیا کروں، امی کو ناراض نہیں کر سکتی۔
ہم چار بہنیں تھیں، جبکہ شانی چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ سب نے اس کے ناز اٹھانے تھے۔ شانی میں یہ خوبی تھی کہ وہ اپنی پڑھائی پر توجہ دیتی تھی۔ پوزیشن نہ لیتی، لیکن کسی سے پیچھے بھی نہیں رہتی تھی۔ اس کی زندگی میں کوئی غم نہ تھا، سوائے اس خلش کے کہ اسے اپنے باپ کی شفقت کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ اکثر کہتی کہ سعدیہ، تم کتنی خوش نصیب ہو کہ تمہیں اپنے باپ کا سایہ نصیب ہے۔ بھائی جتنا بھی خیال رکھیں، وہ باپ کی جگہ تو نہیں لے سکتے۔یونیورسٹی کا پہلا برس بخیریت گزرا، لیکن دوسرے سال شانی کچھ اور بے باک ہو گئی۔ایک ہفتے کا دن تھا، موسم سہانا ہو رہا تھا۔ ہم دونوں کینٹین میں چائے پینے گئے۔ وہاں ایک لڑکا موجود تھا، جس نے شانی سے دو منٹ بات کی۔ اس کے بعد شانی اس کی راہ تکنے لگی۔شانی کی نگاہیں اب ہر وقت اسی کو ڈھونڈتی رہتیں۔ جہاں بات کرنے کا موقع ملتا، وہ اس کا ذکر چھیڑ دیتی۔ میں سمجھاتی کہ دیکھو شانی، ہم یہاں پڑھنے آتے ہیں۔ ہماری مائیں ہم پر اعتبار کر کے ہمیں یہاں بھیجتی ہیں۔ ہمیں بھی صرف اپنی پڑھائی سے غرض رکھنی چاہیے۔لیکن میری باتوں کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ وہ ہنسی میں ٹال دیتی یا کہتی کہ تم بہت دقیانوسی ہو۔ زندگی مزے سے گزارنے کا نام ہے۔ ہم کوئی ن تھوڑی ہیں کہ خشک زندگی گزاریں۔اب یہ معمول بن گیا کہ خالی پیریڈ میں وہ مجھے گھسیٹ کر کینٹین لے جاتی، اس امید پر کہ شاید وہاں اس لڑکے سے ملاقات ہو جائے جو اس کے خیالوں میں بس گیا تھا۔ آخر کار ایک دن اس کی مراد بر آئی۔ ہم کینٹین میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ وہ لڑکا آ گیا۔ جیسے وہ بھی شانی کا انتظار کر رہا ہو۔
شاہانہ کی آنکھوں میں تو جیسے بہت سے چراغ ایک ساتھ روشن ہو گئے۔ موصوف کی جھلک دیکھ کر اس کی آنکھوں کی چمک دیدنی تھی۔ چہرہ خوشی سے دمک اٹھا۔ اس کے چہرے پر خوشی کے گلال دیکھ کر لڑکے کو بھی احساس ہو گیا کہ کسی کو اس کا شدت سے انتظار تھا۔ وہ لمحے بھر کے توقف کے بعد ہماری طرف آیا اور نزدیک پڑی خالی کرسی پر بیٹھنے کی اجازت چاہی۔اس کو اجازت کی کیا ضرورت تھی؟ یہ تو دلوں کے معاملے تھے۔ دونوں طرف ہی امید کے دیئے جل بجھ رہے تھے۔ تبھی دونوں آپس میں یوں بات کرنے لگے جیسے یہ ان کی پہلی یا دوسری ملاقات نہ ہو، بلکہ دونوں مدتوں سے ایک دوسرے کے شناسا ہوں۔ میرا ماتھا اسی دن ٹھنک گیا کہ یہی لڑکا شانی کی بربادی کا سبب بنے گا۔
اس لڑکے کا نام نعمان تھا، بہت پرکشش شکل و صورت اور جگمگاتی شخصیت کا مالک تھا۔ مطلب یہ کہ ظاہری ٹپ ٹاپ سے اے ون لگتا تھا۔ ایسے لڑکے جو اپنے لباس اور بالوں کے اسٹائل سے منفرد ہوں، اپنے پہناوے پر خاص دھیان دیتے ہوں، عموماً لڑکیوں کی توجہ جلد اپنی طرف مبذول کر لیتے ہیں۔ دلچسپ گفتگو میں تو وہ ید طولیٰ رکھتا تھا۔ ایک منٹ کی گفتگو میں وہ کسی کا بھی دل موہ لیتا تھا۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ دونوں ضرور ایک دوسرے سے ربط رکھنے والے ہیں اور ان کا یہ تعلق آگے تک جائے گا۔وہی ہوا، جیسا میں نے سوچا تھا۔ شانی کلاس سے تھوڑی دیر پہلے نکلنے لگی۔ مجھ سے کہتی کہ میری طبیعت خراب ہے، آخری پیریڈ تک نہیں رک سکتی، گھر جا رہی ہوں۔ اس طرح وہ آخری ایک دو پیریڈ چھوڑ کر جانے لگی۔ میں جان چکی تھی کہ وہ کہاں جاتی اور کیوں؟ایک دن میں نے شانی سے کہا کہ تم لوگ کب تک یونہی چھپ چھپ کر ملتے رہو گے؟ تم نعمان سے کہو کہ وہ اپنے والدین کو لے کر تمہارے گھر آئے اور رشتے کی بات کرے۔ اس نے جب نعمان سے یہ بات کہی تو اس نے جواب دیا کہ تم کیوں فکر کرتی ہو شاہانہ؟ تم تو میری زندگی ہو۔ میں شادی کروں گا تو صرف تم ہی سے، کسی اور سے کبھی نہیں۔اس بات پر ہی شانی خوش ہو گئی کہ اسے اس کا آئیڈیل مل گیا تھا۔ میری بات کب سننے والی تھی؟ میں اسے متعدد بار سمجھا چکی تھی، لیکن اب میں نے اسے سمجھانا عبث جانا۔ کیا کرتی؟ جانتی تھی کہ وہ جس راستے پر جا رہی ہے، اب پلٹے گی نہیں جب تک کہ خود سے ٹھوکر نہ کھا لے۔ میں تو اسے اسی ٹھوکر سے بچانا چاہتی تھی۔
کچھ دن یونہی گزر گئے۔ دل کو اس کی فکر تو تھی ہی۔ آخر میری خالہ زاد تھی اور ہم بچپن کی دوست تھیں۔ ایک دن پھر میں نے اس کی کلاس لی۔ پوچھا کہ تم نعمان سے ملنے سے باز نہیں آ رہی ہو۔ اگر گھر والوں کو پتہ چل گیا تو؟ سوچا ہے تم نے اس بارے میں؟ تمہارے چار بڑے بھائی ہیں اور باپ کے نہ ہونے کی وجہ سے تم انہی کی محتاج ہو۔ ابھی تو وہ تم سے محبت کرتے ہیں، لیکن اگر تمہاری لاپروائی کی وجہ سے ان کی محبت ختم ہو گئی تو تمہارے لیے گھر میں کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی۔میری بات سن کر وہ حقیقت کا آئینہ دیکھ کر خوف زدہ ہو گئی۔ بولی کہ سعدیہ، اس طرح مجھ کو ڈراؤ تو مت۔ میں نے کہا کہ میں تمہیں ڈرا نہیں رہی، جو حقیقت ہے، وہی یاد دل رہی ہوں۔ اور صداقت یہی ہے کہ اگر تم باز نہ آئیں تو نہ صرف تمہاری درگت بنے گی بلکہ نعمان کی بھی خیر نہیں ہو گی۔اس نے ایک بار پھر نعمان سے بات کی اور پوچھا کہ کیا تم نے اپنے والدین سے میرا ذکر کیا ہے؟ وہ کیا کہتے ہیں؟ نعمان نے کہا کہ کل جا کر بات کروں گا، اور اس طرح وہ بات کو ٹالتا رہا۔مجھے یقین ہونے لگا کہ نعمان میری خالہ زاد کو دھوکے میں رکھے ہوئے ہے۔ وہ اسے بے وقوف بنا رہا ہے۔ ایک دفعہ پھر میں نے اس جذباتی لڑکی کو سمجھایا کہ دیکھو، یوں کسی پر اعتبار نہ کرنا چاہیے۔ اجنبی کبھی کسی کے نہیں ہوتے اور انہیں بدلتے دیر نہیں لگتی۔میری بار بار کی باز پرس اور روک ٹوک سے وہ پریشان ہو گئی اور کچھ دن نعمان سے ملنے نہ گئی۔ پہلے کی طرح چھٹی تک میرے ساتھ رہتی اور ساتھ ہی گھر آ جاتی۔ایک روز خود نعمان ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں آیا اور شانی کو چائے پلانے لے گیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ تم بھی ساتھ چلو، لیکن میں نہیں گئی اور سیدھی گھر آ گئی۔ شانی اس روز بھی گھر لیٹ پہنچی۔ وہ تو تقریباً روز ہی دیر سے پہنچتی۔ خالہ پوچھتیں کہ دیر کیوں ہوئی؟ تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ کر دیتی۔
اکثر راز راز نہیں رہتے کیونکہ راز تو کھلنے کے لیے ہوتے ہیں۔ شانی کی سخت تاکید کی وجہ سے بے شک میں نے اپنی زبان بند رکھی تھی، لیکن ایک روز جب وہ نعمان کے ساتھ اس کی موٹر سائیکل پر جا رہی تھی، اس کے بھائی نے انہیں دیکھ لیا۔ گھر آکر بھائی نے ماں کو بتایا کہ میں نے شانی کو کسی لڑکے کے ساتھ موٹر سائیکل پر دیکھا ہے۔ اس طرح دوسرے بھائیوں کو بھی اس معاملے کی خبر ہو گئی۔بس پھر کیا تھا، سبھی غصے میں تھے۔ جب شانی گھر پہنچی تو وہ سب اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اسے آڑے ہاتھوں لیا گیا، اور بڑے بھائی نے تو اسے مارا بھی۔ اس کا یونیورسٹی جانا بند کر دیا گیا۔کئی دنوں تک جب وہ یونیورسٹی نہ آئی تو میں اس کے گھر گئی۔ ان کا مکان ہمارے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ہی تھا۔ وہ مجھ سے خفا تھی۔ بھلا مجھ سے خفا ہونے کا کیا جواز تھا جبکہ جو کچھ ہوا، اس کی ذمہ دار وہ خود تھی، جس کی سزا وہ بھگت رہی تھی۔ میں نے تو اس کا راز خالہ پر بھی اس لیے ظاہر نہیں کیا تھا کہ کہیں وہ اسے تعلیم سے نہ ہٹا دیں۔ میں تو اسے مسلسل سمجھاتی اور روکتی رہی تھی۔وہ تھوڑی دیر چپ بیٹھی مجھے ڈبڈباتی آنکھوں سے گھورتی رہی اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔اب اپنے کیے کی سزا بھگت رہی ہوں، اس نے کہا۔میں نے جواب دیا، پہلے دن سے تمہیں سمجھا رہی تھی، مگر تم میری بات مان کر نہ دیتی تھیں۔ اسی دن سے روک رہی تھی میں تمہیں۔کچھ دیر وہ روتی رہی، پھر بولی، سعدیہ، پلیز میری اتنی مدد کرو کہ نعمان کو ساری بات بتا دو، کیونکہ میرا تو اب گھر سے نکلنا بند کر دیا گیا ہے۔
سچ یہ تھا کہ شانی کو اس کے بھائیوں نے سخت پابندیوں میں جکڑ دیا تھا۔ اب وہ بالکل گھر سے باہر نہ نکل سکتی تھی، یہاں تک کہ ہمارے گھر آنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ ان حالات کی تاب نہ لا کر وہ بیمار پڑ گئی، کیونکہ بھائیوں کا رویہ اس کے ساتھ اچھا نہ رہا اور ماں بھی ہر وقت اسے طعنے دیتی تھی کہ میرے پیار کا یہی صلہ دیا کہ ہماری ناک کٹوائی۔مایوسی نے اس کی رگوں میں اندھیرا بھر دیا۔ اسے ہر وقت بخار رہنے لگا۔ گھر والوں کی نظروں سے گر جانے کا احساس اسے اندر سے کھا رہا تھا۔ ایک ماہ تک اس کا بخار نارمل نہ ہوا تو ماں کو تشویش ہوئی اور وہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔ ڈاکٹر اس کے بخار کی اصل وجہ نہ جان سکا۔ مختلف دوائیاں دیتا رہا، مگر بخار نہ اترا تو انجکشن دیے گئے۔مرض کچھ اور تھا اور دوا کچھ اور دی جا رہی تھی۔ وہ بہت کمزور ہو گئی۔ پہلے تھوڑا بہت کھا لیتی تھی، مگر اب کھانا پینا بھی بند ہو گیا۔ وہ مزید کمزور اور زرد پڑ گئی۔ آخرکار حکیم کے پاس لے جایا گیا، جس نے بتایا کہ اسے یرقان ہے اور اس کا جگر متاثر ہو چکا ہے۔ حکیم کی دوا سے بھی کوئی خاص افاقہ نہ ہوا تو اسے اسپتال لے جایا گیا، جہاں اسے داخل کر لیا گیا۔جب مجھے پتہ چلا کہ شانی اسپتال میں داخل ہے، تو میرا دل اداس ہو گیا۔ عیادت کے لیے گئی تو مجھے دیکھ کر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ سعدیہ، نعمان کو ڈھونڈ کر میری حالت کے بارے میں ضرور بتا دینا۔ میں اب اس سے مل تو نہیں سکتی، مگر کم از کم اسے میرا حال بتا دو۔ تم ہی میرا آخری سہارا ہو۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں ضرور بتاؤں گی۔
میں نے نعمان کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی۔ اس کی کلاس ہماری کلاس سے کافی دور تھی، مگر وہ مجھے کہیں نہ ملا۔ جب میں نے یہ بات شانی کو بتائی تو وہ بہت روئی۔ میں نے اسے تسلی دی کہ تم صحت یاب ہونے کی دعا کرو، ایک دن اسے تمہارے پاس لے آؤں گی۔افسوس ہوتا کہ شانی اب وہ شانی نہیں رہی تھی۔ جو لڑکی کبھی زندگی سے بھرپور تھی، وہ اب ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھی۔ اسپتال میں ٹیسٹوں کے بعد معلوم ہوا کہ اسے جگر کا کینسر ہے۔ یہ خبر سب کے لیے قیامت سے کم نہ تھی۔خالہ اب روتی تھیں اور کہتی تھیں، کاش مجھے پتہ ہوتا کہ میری بیٹی اس حال کو پہنچ جائے گی۔ کبھی اسے تعلیم سے نہ روکتی، خود نعمان سے مل کر بات کر لیتی۔وہ اب مجھ سے کہنے لگیں کہ اس لڑکے کو ڈھونڈو، کیونکہ شانی کے دن کم رہ گئے ہیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ شانی کی آخری خواہش پوری ہو سکے۔خالہ نے منت مان لی کہ اگر شانی صحت یاب ہو گئی تو وہ اس کی شادی اسی لڑکے سے کریں گی جسے وہ پسند کرتی ہے۔ مگر شانی کی حالت روز بروز بگڑتی جا رہی تھی۔میں نے نعمان کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ کہیں نظر نہ آیا۔ شاید اس نے یونیورسٹی چھوڑ دی تھی۔
ایک دن یہ عقدہ بھی حل ہو گیا۔ چھٹی کے بعد گھر لوٹ رہی تھی کہ راستے میں وہ مجھے مل گیا، لیکن وہ اکیلا نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی۔ نعمان کے اچانک نظر آجانے سے اتنی خوشی ہوئی کہ کار میں اس کے برابر براجمان ہم سفر لڑکی کی موجودگی کا بھی احساس نہ رہا۔ میں نے اس کو ہاتھ کے اشارے سے روکا اور دوڑ کر اس کی کار کے پاس گئی، شانی کی حالت کے بارے میں بتایا، تو اس نے کہا کہ کون؟ میں تو کسی شانی کو نہیں جانتا۔ ایسا اس نے یقیناً اس لڑکی کی وجہ سے کہا تھا، کیونکہ وہ اس کے سامنے شانی کا ذکر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پھر وہ بولا، آپ کو ضرور غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں تو آپ کو بھی نہیں جانتا۔یہ الفاظ سن کر میرا سر چکرانے لگا اور اس نے کار آگے بڑھا دی۔ اس کے بعد مجھے نہیں پتا کہ گھر کیسے پہنچی، اسپتال گئی، اور سوچ رہی تھی کہ اب کیا کہوں؟ شانی سوالیہ نظروں سے مجھے تکتی تھی۔ میری خاموشی سے اس نے بھانپ لیا کہ معاملہ سنگین ہے۔ وہ کہنے لگی، سعدیہ، جانتی ہوں تم حقیقت مجھ سے چھپانے کی سوچ بچار میں ہو، کہہ دو۔ تم تو ہمیشہ مجھے حقیقت کا آئینہ دکھاتی رہی ہو، تو اب یہ سوچ بچار کیسی؟ مجھ میں حوصلہ ہے، سہ لوں گی، مگر تم سچ کہنا، جھوٹ مت کہنا۔اب میں سچ نہیں چھپاسکی، اور شانی کے بارے میں بتایا کہ مجھے نعمان ملا تھا، لیکن اس نے مجھے اور تمہیں پہچاننے سے انکار کر دیا ہے۔ شانی کے چہرے پر مایوسی کے بادل چھا گئے۔
میں اتنی سفاک تو نہیں تھی، لیکن سچ اس لیے بتا دیا تاکہ وہ خواہ مخواہ جھوٹی امید میں نہ رہے، کیونکہ جھوٹی امید بھی انسان کو اذیت دیتی رہتی ہے۔ انتظار بہت بری چیز ہے۔ جب انسان کی امید ٹوٹ جاتی ہے تو دکھ ہوتا ہے، لیکن وہ آخرکار حقیقت کو تسلیم کر لیتا ہے۔ کسی کے انتظار میں آنکھیں دروازے پر لگی ہوں تو انسان سکون سے مر بھی نہیں سکتا۔ جان کنی کی اذیت میں بھی آنے والے کے انتظار میں آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔آج شانی اس دنیا میں نہیں ہے۔ مجھے احساس ہو چکا ہے کہ کسی راہ چلتے پر اندھا اعتماد کرنے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ نعمان بھی انہی راہ چلتے لڑکوں میں سے ایک تھا جو مل کر بھی نہیں ملتے۔ وہ دھوکہ دیتے ہیں۔ جب بھی اس کا خوبصورت عکس ماضی کے پردے پر ابھرتا ہے، دل سے آہ کے ساتھ بددعا نکلتی ہے، حالانکہ بددعا دینا اچھی بات نہیں، مگر شانی کی تصویر، اس کی زندگی کے آخری ایام کی تکلیف، مجھے زہر کی طرح تکلیف دیتی ہے۔ اس معصوم کا دکھ کیسے بھلا دوں جسے بے وفا نعمان نے برباد کر دیا؟ جھوٹے خواب دکھائے، پھر خبر نہ لی اور مزے سے ایک اور لڑکی سے شادی کر لی۔
وہ بے آس ہو کر موت کے منہ میں چلی گئی۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس کو نعمان کے ساتھ موٹر بائیک پر جاتے دیکھ کر اپنوں نے بہت برا سلوک کیا تھا۔ بعد میں اپنی نفرت کا اظہار اس طرح کرنے لگے جیسے شانی ان کی بہن نہیں، بلکہ اجنبی ہو۔ اگر وہ بھائی اس کو پیار سے سمجھاتے، محبت میں کمی نہ لاتے اور معاف کر دیتے تو وہ نعمان کو بھلا دیتی اور شاید روبہ صحت ہو جاتی۔ انہوں نے علاج میں بھی شروع دنوں کوتاہی کی، جس کے باعث اسے غلط دوائیں ملتی رہیں۔ اگر پہلے دن کسی ماہر ڈاکٹر سے علاج کرایا ہوتا تو اس کی جان بچ سکتی تھی۔ بے شک بیماری سے شفا بروقت علاج سے ملتی ہے، مگر دل تو کانچ کے کھلونے ہوتے ہیں، جو ٹوٹ جائیں تو پھر نہیں جڑتے۔