Monday, September 16, 2024

Bhaag Bhari

اے کلموہی ، مرن جوگی، اٹھ کر صحن کی جھاڑو نکال جلدی سے پھر آج کام پر چلنا میرے ساتھ ۔
زلیخاں نے اپنی بات رد ہوتی دیکھ کر بھاگ بھری کو دو دھموکے جڑے۔ جس نے قد کاٹھ تو خوب نکال لیا تھا مگر عقل کہیں گٹوں میں ہی دم توڑ چکی تھی۔ وہ ہاۓ ہوئی کرتی اٹھ کھڑی ہوئی اور کچے من میں بھاگتی مرغیوں اور چوزوں کو مخصوص آواز نکال کر ڈربے کی جانب دھکیلنے لگی۔
***
کمرہ خالی تھا اس کے دل کی مانند ویران ، وہ گئی تھی تو زندگی کے سارے رنگ اپنے ساتھ سمیٹ لے گئی تھی۔ جینے کی تمام تر آسائشات ہونے کے باوجود بھی زندگی اتنی بےآرام تھی کہ اسے ایک پل بھی قرارنصیب نہ تھا۔
واصیفہ مرزا شہر کے جانے مانے بزنس مین کی اکلوتی بیٹی تھی جو اس کی ماموں زاد تھی ، جو اپنی منگنی ٹوٹنے کا غم دل پر لے بیٹھی تھی۔ لوہا گرم تھا اور موقع بھی خوب۔ لہذا اس نے اپنی وفا کا مرہم ،محبت بنا کر واصفہ کے ٹوٹے دل پر لگانا شروع کر دیا یوں منگیتر کی بے وفائی کا اثر آہستہ آہستہ شکست خوردہ ہو کر بے دم ہو گیا اور وہ ابتسام کی زندگی میں شامل ہوگئی ۔اس کی زیست مثل بہاراں محو رقص ہوئی۔
***
واٹ؟ شہنیلا کو ہزارواٹ کا کرنٹ لگا۔ بات ہی ایسی تھی- توقع کے بر خلاف امید سے بڑھ کر-
فون پر دوسری جانب ابتسام کی بہن ملک کی جانی مانی ماڈل شہزین نے خفگی سے ابرو اچکا کر آنکھوں کو نخوت سے مٹکایا اور گردن کو حرکت دی۔
بے بی اور تمہارا ؟ حیرت تھی کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
کبھی پوری بات بھی سن لیا کرو۔ ابتسام بھائی کا بے بی میرے پاس ہے ۔ ابھی تو نوکر ہی سنبھال رہے ہیں مگر مجھے کسی اچھی میڈ کی تلاش ہے ۔ تمہاری نظر میں کوئی ہوتو پلیز بتا دینا۔
اچھا، ویسے تم کیوں بے بی کے چکر میں پڑ گئیں؟ ڈاکٹر ہونے کے ناتے ابھی پچھلے مہینے اس کا ابارشن اسے اچھی طرح یاد تھا۔
ارے ، وہ سیلفش واصفہ بچہ منہ پہ مار کر اپنے ایکس لور کے ساتھ گھوم رہی ہے آج کل- تعلقات بحال ہوۓ تو شادی سے بھی فارغ ہوگئی۔ شہرین کے لہجے میں نفرت گھلی ۔ شہنیلا کی تشفی ہوگئی۔
***
بھاگ بھری حیرت سے دیدے پھاڑے یہ شان دار گھر دیکھ رہی تھی ۔ ماں نے گھوری ماری تو ماں کے ساتھ کام میں لگ گئی ۔ کام ختم ہوا تو زلیخا بیگم صاحبہ فرحین کے ساتھ کھانا پکوانے لگی۔
دراصل آج ان کی بیٹی کے متوقع سسرالی رشتہ داروں نے آنا تھا لہذا کام معمول سے زیادہ تھا۔
صفائی کروا کر بھاگ بھری ماں سے نظر بچا کر لان کی طرف چل دی۔
کچھ دیر بعد مہمانوں کے ساتھ آۓ بچوں کے ساتھ مل کر اس نے لان میں خوب دھما چوکڑی مچائی۔
زلیخا دل ہی دل میں تلملائی ۔ بھاگ بھری کی ٹھکائی لگانے کی خواہش دل میں انگڑائی لے کر رہ گئی اور وہ بس ہاتھ کھجا کر صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گئی کہ جوان جہاں اولاد کی پرائے گھر میں درگت بنانا کچھ مناسب نہ لگا۔
نوکری عزیز تھی ۔ لہذا لشتم پشتم کام بھگتا کر بھاگ بھری کو لے کر گھر سدھاری۔ گھرآ کر جو حال کیا۔ وہ الگ کہانی ہے۔
***
وہ اس کے کاٹ کے قریب بیٹھا تھا جو خالی تھا جس کی بدولت اس کے دل کا ایک نرم گوشہ لہو رنگ تھا۔
آج پرشہزین کا فون آیا تھا کہ میڈ نہیں ملی ۔ طلحہ ہنوز ناتجربه کار ملازمین کے پاس تھا۔ اس کا دل دکھ سے بھر گیا۔ دور دور تک ایک یہی بہن کا رشتہ تھا۔ جس پر وہ اعتبار کر سکتا تھا یا یوں کہیں کہ جس کے لیے وہ محسوس کرتا تھا کہ وہ اس کے بچے سے محبت کر سکتی ہے؟
مگر محبت کرنا اور محبت سے پرورش کرنا دو مختلف چیزیں ہیں اور یقیناً آخر الذکر سے پرشہزین مستشنی تھی۔
***
ماں کام پر نکلی اور بھاگ بھری کو سمجھو، آزادی کا پیام مل گیا۔ فورا اردگرد کے گھروں کے اسکول مدرسوں سے فارغ بچوں کو آنگن میں جمع کیے شور مچانے لگی۔
حتی کہ کمرے میں کونے میں پڑی چار پائی پر پڑے نحیف و بیمار باپ کو بانگ دہل گالیاں، کوسنے جاری کرنے پڑے تب کہیں جا کر بھاگ بھری نے بچوں کو ان کے گھروں کو روانہ کیا اور خود بھی سکون سے بیٹھی۔ اس دوران وہ بری طرح ہانپ چکی تھی۔ سانولی رنگت پسینے اور گرمی کی بدولت مزید پکا پن اختیار کرگئی۔
شام کو ماں گھر آئی تو باپ نے شکایتوں کا وہ دفتر کھولا کہ ماں کو آج جو شبہ تھا، وہ بھی دور ہو گیا کہ یہ کمبخت بھاگ بھری ہی اس کے بھاگ بند کروانے کے لیے اس کی زندگی میں وارد ہوئی ہے۔ ساری عمر کی پریشانیاں ایک طرف اور بھاگ بھری کی نحوست ایک طرف-
وہ سر پکڑ کر بیٹھی بس یہی سوچتی رہی جبکہ بھاگ بھری صحن میں بیھٹی جانے کیا سوچے مسکراۓ جاری تھی-
***
یہ وہ فون پر بے حد عجلت بھرے انداز میں بات کر رہی تھی۔ایم رئیلی سوری بھائی، روشن والوں کے ساتھ کام کرنا میرے لیے بڑی اچیومنٹ ہے۔ چھوٹی موٹی آفر ہوتی تو انکار کر دیتی۔ امریکہ کی شوٹنگ مکمل ہوئیں تو پاکستان آ کر ضرور طلحہ کو لک آفٹر کر پاؤں گی۔ ابھی میں نائلہ (ملازمہ ) کے ساتھ واپس بھیج رہی ہوں اسے۔
فون بند ہوا تو وہ بے بس سا بیٹھا رہ گیا۔ چند ثانیے بعد اپنی کنپٹیاں سہلا کر آفس سے نکل آیا کیونکہ نائلہ سے پہلے یقینا اسے گھر پہنچنا تھا۔
اس نے نائلہ کو بھاری بھر کم معاوضے کی پیشکش کر کے ہائر کرلیا۔
بچے اور میڈ کی نگرانی کے لیے بھی کسی خاتون کا ہونا بےحد ضروری تھا۔ لہذا کافی سوچ بچار کے بعد اسے اپنی مرحومہ ماں کی دوست آنٹی فرحین کا خیال آیا تو انہیں فون پر تمام تفصیلات سے آگاہ کر کے مدد کی اپیل کر دی۔
بیٹا، میڈ ہے تو یقینا وہ طلحہ کا بہتر طور پر خیال رکھ لے گی۔ تم ضرورت سے زیادہ پوزیسو ہو رہے ہو۔
پس و پیش کر کے انہوں نے دامن بچانا چاہا۔ اس کا دل بند سا ہو گیا۔ انہوں نے مکمل طور پر انکار بھی نہ کیا تھا سو گنجائش ابھی باقی تھی ۔
آنٹی پلیز، واصفہ نے خلع کا نوٹس نہ بھیجا ہوتا تو میں کسی طرح اسے ہی منا لیتا۔ ایکچولی طلحہ کے لیے میرا کسی پرٹرسٹ کرنے کو دل نہیں مانتا۔ آپ اگر—
اس کی رندھی ہوئی آواز سن کر آ نئی فرحین کو تو رحم آ ہی گیا۔
ٹھیک ہے بیٹا ، تم طلحہ کومیڈ کے ساتھ یہاں چھوڑ دو۔ میں کمرہ سیٹ کروا دیتی ہوں۔
بہت شکریہ آنٹی ، شہزین کے پاکستان لوٹنے تک آپ کو زحمت اٹھانا پڑے گی۔ وہ متشکرہوا، ساتھ ہی وضاحت بھی مقدم جانی۔
***

وہ طلحہ کو گود میں اٹھاۓ گیٹ سے اندر داخل ہوا تو بڑی سی فٹ بال نے اس کی قدم بوسی کی۔ اس نے ناگواری سے جیسے اپنی کھیڑی کی نوک رسید کر دی۔
دفعتاً سامنے سے گلے میں دو پٹہ پھیلائے ، گھبرائی ہوئی بھاگ بھری وارد ہوئی۔ ابتسام کی گود میں گول مٹول خوب صورت بچہ دیکھ کر اس کی گھبراہٹ مسرت میں سرایت کر گئی ۔اس نے ڈرتے ڈرتے ذرا سا اچک کر بغور طلحہ کو دیکھا۔
صاحب جی، بچہ …..اللہ کتنا پیارا ہے۔
اس کی آنکھوں میں جگنو چمکے جو اس کی سانولی رنگت کو مات دے کر اسے بے حد حسین مورت میں تبدیل کر گئے۔
ابتسام نے ان محبت سے مزین الوہی دلکش رنگوں کو بے حد انہماک و دلچسپی سے دیکھا۔ وہ رنگ جو لاشعوری طور پر اپنے بچے کے لیے ہر آنکھ میں تلاش رہا تھا۔ پہلے واصفہ ، پھر شہر ین ، نائلہ اور اب فرحین آنٹی کے پاس بھی اسی مقصد کے تحت آیا تھا مگر وہ محبت و بے قراری بھاگ بھری کی آنکھوں میں لکھ دی گئی تھی۔اس نے پڑھی اور بہت دل سے پڑھی۔
بھاگ بھری پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، جب اس نے بنا نفرت و کراہت طلحہ کو اس کی پھیلائی بانہوں میں تھما دیا۔ وہ مسرت بھرے انداز میں اس سے کھیلنے لگی-
ابتسام نے پرسوچ انداز میں اس کے ساتھ بیرونی جانب قدم بڑھا دیے کہ بھاگ بھری کی سنگت کے حصول کے لیے آنٹی فرحین سے بات کرنا ضروری تھی-
انہیں تو مارے باندھے اپنے سر پڑ جانے والی ذمہ داری سے چھٹکارا مقصود تھا، لہذا کوئی اعتراض نہ ہوا۔
چند ہی دنوں میں زلیخاں کو اندازہ ہو گیا کہ بھاگ بھری واقعی بھاگ بھری تھی۔

(ختم شد)
حمیرا عروش

Latest Posts

Related POSTS