میں بس سے کراچی جارہی تھی۔ کھڑکی کے پاس ایک عورت بیٹھی تھی، وہ میری طرح اکیلی ہی سفر کررہی تھی۔
مجھے تعجب ہوا تھا، عموماً جوان عورتیں تنہا سفر نہیں کرتیں۔ کیونکہ بعض شکاری مرد ایسے شکار کی گھات میں ہوتے ہیں اور پولیس ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے خوف زدہ اور ہراساں کرتی ہے۔ یہ کوئی معمر عورت نہ تھی۔ بھرپور جوان عورت تھی۔ خیر معمولی خوب صورت تھی۔ نقش و نگار تیکھے تیکھے اور دل کو متاثر کرنے والے تھے۔ میں نے اس کے چہرے سے اندازہ کیا کہ اس کی عمر چوبیس برس کے لگ بھگ ہوگی۔ وہ اپنے لباس سے آسودہ حال گھرانے کی لگ رہی تھی۔
میرا خیال تھا کہ بس چلنے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوگی۔ وہ خود کو متعارف کرائے گی تاکہ سفر آسانی سے کٹ جائے۔ ایسا سفر میں اکثر ہوتا تھا۔ ہم سفر بوریت سے بچنے کے لیے باتوں کا سہارا لیتے تھے اور سفر ختم ہونے کے بعد اپنی اپنی راہ لیتے تھے۔
اس نے میری طرف دیکھا اور نہ ہی مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی۔ وہ کھڑکی سے باہر جھانک رہی تھی۔ اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں خلا میں ایک ٹک دیکھ رہی تھیں۔ اس کے چہرے پر کرب اور آنکھوں میں درد کی پرچھائیاں تھیں۔ جانے اُسے کیا غم تھا، اس کے دل میں کون سا درد چھپا تھا۔
کچھ دیر بعد اس نے اپنی آنکھوں پر گھنیری پلکوں کی چلمن گرا کے بند کرلیں اور سیٹ کی پشت پر سر ٹکا دیا۔ اس کے چہرے پر غم کی پرچھائیاں پھیل گئیں۔ چند لمحوں بعد اس کی بند آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جو اس کے گلابی رخساروں سے ڈھلک کر اس کے دامن میں جذب ہورہے تھے۔
جانے کیوں مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں نے اپنے پرس سے رومال نکالا اور بہنے والے ان صاف و شفاف موتیوں کو جذب کرنے لگی۔ اگلے لمحے اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور مجھے حیرت سے دیکھنے لگی۔
’’کیا بات ہے بہن…؟‘‘ میں نے اس کی آنسو بھری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ ’’کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ آپ کیوں رو رہی ہیں؟‘‘
’’جب آپ نے مجھے بہن کہا ہے تو میں بتاتی ہوں کہ بات کیا ہے۔‘‘ وہ سسکتی ہوئی بولی۔ اس نے اپنی چادر میں اپنے آنسوئوں کو جذب کیا۔ اس کی آواز بھرا گئی تھی۔ چند ثانیوں کے بعد وہ اپنی آواز اور آنسوئوں پر قابو پا کر ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی۔ ’’مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔‘‘
’’کیسی قیامت…! عورت اسی لیے پیدا ہوتی ہے کہ اس پر کوئی نہ کوئی قیامت ٹوٹتی رہے۔‘‘ میں نے جذباتی لہجے میں کہا۔
’’آپ بھی دکھی معلوم ہوتی ہیں۔‘‘ اس نے میرے چہرے پر اپنی نگاہیں مرکوز کردیں۔ ’’اس لیے آپ نے میرے دکھ کو محسوس کیا ہے۔‘‘
’’جی ہاں…!‘‘ میں نے سر ہلایا۔ ’’ہر عورت کے نصیب میں کوئی نہ کوئی دکھ لکھا ہوتا ہے… وہ کوئی نہ کوئی زہر پیتی رہتی ہے۔ جو درد آشنا ہوتا ہے وہی درد بھی محسوس کرتا ہے۔ عورت، عورت کو سمجھتی ہے۔ مرد، عورت کو کبھی نہیں سمجھ سکتا۔‘‘
’’لیکن آپ اس بات کو تسلیم کریں گی کہ عورت ہی عورت کا گھر اُجاڑتی ہے۔ وہ عورت کو اس طرح کاٹتی ہے جیسے ہیرا ہیرے کو کاٹتا ہے۔‘‘
’’جی ہاں… یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے۔‘‘ اس کی بات سن کر میرے دل پر چوٹ سی لگی۔ سویا ہوا درد جاگ اٹھا۔ ’’کیا کسی عورت نے آپ کا گھر اُجاڑا ہے؟‘‘
’’جی!‘‘ وہ بڑے کرب سے بولی۔ ’’میری دیرینہ سہیلی نے میرے شوہر سے شادی رچالی ہے۔ میرا گھر اور میرا شوہر چھین لیا ہے۔‘‘
’’گویا وہ آستین کا سانپ نکلی…؟ کیا آپ کو اس کا احساس نہیں ہوسکا تھا؟ کیا آپ نے اپنی آنکھیں کھلی نہیں رکھی تھیں؟‘‘
’’کوئی عورت یہ کیسے جان سکتی ہے کہ اس کا شوہر گھر سے باہر کیا کررہا ہے… کسی کی زلف کا اسیر ہوچکا ہے… اگر مجھے ذرہ برابر بھی شک ہوجاتا کہ میری سہیلی آستین کا سانپ بنی ہوئی ہے تو شاید کوئی تدبیر کرکے اپنا گھر بچا لیتی۔‘‘
’’تم کیا تدبیر کرتیں…؟‘‘ میں نے تجسّس سے پوچھا۔
’’میں اپنا گھر بچانے کے لیے اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیتی۔‘‘ اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
یہ سن کر میری آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئیں۔ ’’یہ بہت بڑا جرم ہوتا… کیا آپ نے یہ سوچا تھا کہ اس کی پاداش میں آپ کو جیل ہوجاتی؟‘‘
’’ہاں… یہ سنگین جرم ہے۔‘‘ اس نے سر ہلایا۔ ’’مجھے اس بات سے انکار نہیں۔ مجھے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو برس کی سزا ہوجاتی… قید، جدائی کے جہنم سے بہتر ہوتی۔‘‘
’’اچھا! پھر آپ نے شادی کے بعد کیا کیا؟ کیا اس دوسری شادی کو قبول کرکے حالات سے سمجھوتہ کرلیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جی… جنگ اور محبت میں ہر چیز جائز ہوتی ہے۔‘‘ وہ بولی۔ ’’مجھے اطلاع ملی تھی کہ میرے شوہر نے حیدرآباد میں چوری چھپے شادی کرلی ہے۔ میں وہاں گئی تھی کہ اس کے منہ پر تھوکوں گی لیکن وہ مجھے نہیں ملی، اپنے کسی رشتے دار کے ہاں جاکر چھپ گئی۔ اُسے کسی نے میری کراچی سے روانگی کی اطلاع دے دی تھی۔ بے وفا، بے غیرت شوہر سے ملاقات ہوئی۔ اس نے کہا کہ میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا، تم اسی گھر میں رہو گی لیکن اگر تم طلاق لینے پر بضد ہو تو طلاق دے دوں گا۔ حق مہر میں مکان لکھ دوں گا۔‘‘
اس کی آواز بھرا گئی تھی۔ وہ بولتے بولتے رک گئی جیسے آواز حلق میں اٹک گئی ہو۔ پھر میں نے چند ثانیوں کے بعد اس سے پوچھا۔
’’آپ نے کیا سوچا؟ کیا فیصلہ کیا طلاق کے بارے میں…؟‘‘
’’میں نے ایک تلخ اور حقیقت پسندانہ فیصلہ کیا ہے۔‘‘ اس نے ایک گہری سانس لی۔ ’’میں نے اس سے کہہ دیا ہے کہ مجھے طلاق نہیں چاہیے۔‘‘
’’لیکن یہ حقیقت پسندانہ فیصلہ انتہائی کڑوا کسیلا ہے۔ اس کی کڑواہٹ آپ ساری زندگی برداشت کرتی رہیں گی۔ یہ سوچا آپ نے…؟‘‘
’’تھوڑی دیر پہلے آپ نے کہا تھا کہ عورت کو کوئی نہ کوئی دکھ سہنا پڑتا ہے۔ عورت کوئی نہ کوئی زہر پیتی رہتی ہے۔ اس لیے میں نے یہ زہر پینا پسند کرلیا۔ میں سب کچھ برداشت کرسکتی ہوں لیکن شوہر سے جدائی نہیں… گو وہ ایک سرد مہر شوہر ثابت ہوگا لیکن مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔‘‘
’’لیکن میرے خیال میں آپ نے طلاق نہ لینے کا فیصلہ کرکے بڑی غلطی کی ہے۔ آپ نے اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے۔‘‘
’’اس میں غلطی کی کیا بات ہے؟‘‘ اس نے ساکت پلکوں سے مجھے دیکھا۔
’’اس لیے کہ آپ جوان ہیں، خوبصورت بھی ہیں۔ مردوں کی تصوراتی عورت کی طرح… میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ آپ ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ایک مثالی حسین عورت ہیں۔ آپ سے کوئی بھی آنکھ بند کرکے شادی کرسکتا ہے۔‘‘ میں نے جو کچھ کہا، اس میں مبالغہ یا دل رکھنے والی بات نہ تھی۔
’’میں نے یہ فیصلہ بڑے سوچ بچار اور حالات کو دیکھتے ہوئے کیا ہے اور جذباتی طور پر نہیں کیا۔‘‘ وہ کہنے لگی۔ ’’اس طرح میرے سر پر ایک سائبان تو رہے گا۔ معاشرے میں عزت تو رہے گی۔ کیا معلوم کب اور کس وقت میرے شوہر کا اپنی دوسری بیوی سے دل بھر جائے اور وہ اُسے چھوڑ دے۔ نہ بھی چھوڑے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ معاشرے میں ایک مطلقہ عورت کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ وہ چاہے لاکھ حسین اور بلاکی پُرکشش کیوں نہ ہو، وہ داغ دار پھل کی طرح نظر آتی ہے۔ چاہے اس عورت کی کوئی غلطی نہ ہو اور پھر جب کسی مطلقہ عورت کی شادی ہوتی ہے تو ایسے مردوں سے ہوتی ہے جو بوڑھے اور بال بچے دار ہوتے ہیں۔ ان کے بچوں کو بھی پالو اور ان کے طعنے بھی سنو۔ اس کی حیثیت ایک نوکرانی سے بھی بدتر ہوتی ہے۔ میں ایسا ہرگز نہیں چاہتی۔‘‘
اس کی باتیں میرے دل کو لگیں جو سچ اور حقیقت پسندانہ تھیں۔ پھر میری نظروں میں جمیلہ، نسیم، شاداں اور شبانہ کے چہرے گھوم گئے جو مطلقہ تھیں اور ان کا شادی کے بعد کوئی عزت تھی، نہ مقام…میں نے اپنے سینے میں ایک وحشت سی محسوس کی۔ میں نے لمحے بھر کے لیے سوچا۔ کل میری زندگی میں بھی ایک ایسا ہی وقت آنے والا ہے۔ خدانخواستہ وہ دن آیا تو کیا میں بھی یہی حقیقت پسندانہ اور دوراندیشی کا فیصلہ کروں گی؟ کیا یہ فیصلہ درست ہوگا؟
اس کا نام فرحانہ تھا۔ سفر کے دوران ہم دونوں ایک دوسرے سے اس قدر قریب آگئیں کہ جیسے جنم جنم کی ساتھی ہوں۔ وہ دل کی ساری بھڑاس نکال کر نارمل ہوگئی تھی۔ اب وہ ہنسنے، بولنے لگی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ کسی لڑکی کو محبت کی شادی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ وہ جلد ہی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے اور اپنی کشش کھو دیتی ہے۔ ایسی شادیوں کا انجام بڑا حسرت ناک ہوتا ہے۔ مجھے اس کی باتوں سے اتفاق تھا۔ میں نے اُسے اپنے دکھ کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ ہم دونوں کے درمیان آج کل کی لڑکیوں کی بے راہ روی، موبائل فون کا جنون، جو انہیں لیلیٰ مجنوں بنا رہا تھا اور وہ داغدار ہورہی تھیں اور آئے دن اخبارات میں گھر سے فرار کی شرمناک خبریں چھپ رہی تھیں، ان موضوعات پر کھل کر گفتگو ہوتی رہی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس بُرائی میں فلموں، انٹرنیٹ اور موبائل فون سے زیادہ والدین کی کوتاہی اور غفلت کا زیادہ دخل ہے۔
وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوسکا۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کے پتوں کا تبادلہ کیا۔ وہ واٹر پمپ کے بس اسٹاپ پر اُتر گئی۔ اُترنے سے قبل اس نے کہا۔ ’’آپ کس قدر حسین، پُرکشش اور پیاری ہیں۔‘‘
ٹیکسی تیزی سے گھر کی جانب رواں دواں تھی۔ اس وقت میرے ذہن پر فرحانہ اور اس کی باتیں چھائی ہوئی تھیں۔ میں اس کے فیصلے کے بارے میں سنجیدگی اور گہرائی سے سوچ رہی تھی۔ بعض عورتیں شوہر کی خواہش کے باوجود دوسری بیوی بن کر رہنا پسند نہیں کرتیں۔ اس طرح ان کی تذلیل ہوتی ہے۔ کیونکہ شادی معاشرے کا ایک اہم اور سنگین مسئلہ ہے۔
٭…٭…٭
اس وقت بڑا حبس تھا، ہوا بالکل بند تھی۔ لیکن مشرقی اُفق پر سیاہ گہرے بادل چھائے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ایک دو گھنٹے کے بعد موسلادھار بارش ہوسکتی ہے۔ بادل ہر طرف سے آسمان کو ڈھکنے کے لیے بڑھ رہے تھے۔
میں دو تین مہینے بعد اپنے میکے کچھ دن رہنے جاتی تھی۔ میرے شوہر کی جانب سے مجھے پندرہ دن رہنے کی اجازت تھی۔ میں جب بھی اپنے میکے سے لوٹتی، اس وقت مجھ پر ایک سرشاری سی طاری ہوتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے شادی ہال سے رخصت ہوکر سسرال جارہی ہوں۔
لیکن آج اپنے گھر جاتے ہوئے میرے دل کے کسی کونے میں خوشی کی رمق تک نہ تھی۔ دل اندر سے بجھا بجھا تھا۔ میں اپنے آپ کو ٹوٹی ٹوٹی سی محسوس کررہی تھی۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ ٹیکسی اسی طرح
دوڑتی رہے، میرا گھر نہ آئے۔ جب میں گھر پہنچتی تھی تو ریاض میری آنکھوں میں جھانک کر کہتے تھے۔ ’’آج تم بہت خوش دکھائی دیتی ہو۔‘‘ میں شرما کر سر جھکا لیتی۔ پھر ان سے کہتی۔ ’’اتنے دنوں کے بعد جو گھر آئی ہوں تو کیا مجھے خوشی نہ ہوگی… آپ کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس رہی تھیں۔‘‘
’’یہ بات ہے۔‘‘ وہ قہقہہ مار کے ہنس پڑتے۔ ’’تم پوری لیلیٰ ہوگئی ہو۔ تم سے پندرہ دنوں کی جدائی بھی برداشت نہیں ہوتی۔‘‘
’’آپ کے لیے بے شک یہ پندرہ دن ہوں گے مگر میرے لیے یہ دن، پندرہ صدیوں سے کم نہیں تھے۔ آپ کیا جانیں میری محبت کو۔‘‘
میں ٹیکسی سے اُتر کے پرس میں سے کرایہ نکالنے لگی تو ٹیکسی ڈرائیور نے ڈگی کھول کر میرا سوٹ کیس اور دستی بیگ نکال کر باہر رکھا تو بچوں نے سنبھال لیا۔ جب میں کرایہ دے چکی تو میرے بیٹے نے کہا۔ ’’امی… ابو گھر پر نہیں ہیں، دروازے پر تالا پڑا ہے۔ ایک چابی آپ کے پاس بھی ہے نا؟‘‘
میں نے دروازے کی طرف دیکھا۔ اس پر تالا پڑا تھا۔ ویسے میرے علم میں یہ بات تھی کہ گھر مقفل ہوگا۔ میں نے کراچی واپسی کا پروگرام رات کو اچانک ہی بنا لیا تھا۔ مجھے میکے آئے ہوئے ابھی پانچ دن ہوئے تھے۔ جبکہ میں پندرہ دنوں کے لیے آئی تھی۔ نجانے کیوں میں ایک دن بھی اپنے میکے میں رہنا نہیں چاہتی تھی۔ جب سے میں یہاں آئی تھی میرے اندر ایک عجیب سی بے قراری اور سینے میں وحشت بھر گئی تھی۔ وسوسوں اور اندیشوں کے پھنکارتے ہوئے زہریلے سانپوں نے مجھے ڈسنا شروع کردیا تھا۔ میرا چین غارت ہوگیا تھا۔ مجھے ایک لمحے کو کسی پہلو چین نہیں تھا۔
رات جب میں نے واپسی کے بارے میں بتایا تو گھر والوں کو یقین نہیں آیا۔ انہیں بڑی حیرت ہوئی۔ ابو کو دکھ ہوا کیونکہ وہ مجھے بے انتہا چاہتے تھے۔ میں نے اپنی اچانک اور غیر متوقع روانگی کا بہانہ ڈھونڈ رکھا تھا جسے سن کر گھر والوں نے جانے کی اجازت دے دی تھی۔ میں ساری رات انگاروں پر لوٹتی رہی تھی۔ میں نے صبح ہوتے ہی جانے کی تیاری کرلی۔ ریاض کو دانستہ ٹیلیفون پر اطلاع نہیں دی تھی۔
اب ریاض میں پہلی جیسی بات نہیں رہی تھی۔ اگر میں انہیں اپنی آمد کی اطلاع دے بھی دیتی تو وہ مجھے لینے کے لیے بس اسٹاپ پر نہ آتے اور گھر بند ہی ملتا۔ چند برس پہلے تک تو وہ مجھے اور بچوں کو لینے بس اسٹاپ پر آجاتے تھے۔ اب انہیں میری واپسی کا انتظار نہیں رہتا تھا اور میں ان کی بیزاری محسوس کرنے لگی تھی چونکہ ہم دونوں کی شادی کو دس برس ہوگئے تھے۔ میں اب کوئی نوجوان لڑکی یا نئی نویلی دلہن نہیں رہی تھی۔ میں تینتیس برس کی عورت اور دو بچوں کی ماں تھی۔ اس عمر میں عورت کے شباب کا رنگ اُترنے لگتا ہے اور مرد غیر محسوس انداز سے اس سے دور ہوتا جاتا ہے۔ ایک رسمی سا تعلق رہ جاتا ہے جبکہ میں ان سے کچھ زیادہ ہی محبت کرنے لگی تھی۔ آج بھی میری چاہت میں سرد مہری نہیں گرم جوشی تھی۔
ان دس برسوں میں پہلی بار میں بغیر اطلاع دیئے میکے سے گھر آئی تھی۔ میرا میکہ حیدرآباد میں تھا۔ شادی کے بعد ایک ڈیڑھ برس تک میں ماں نہ بن سکی تھی۔ مجھے لینے کے لیے کوئی نہ کوئی میکے سے آجاتا تھا۔ لیکن چند دنوں بعد ہی وہ مجھے لینے کے لیے پہنچ جاتے تھے کیونکہ ان سے میری دوری برداشت نہ ہوپاتی تھی۔
جب میں دو بچوں کی ماں بن گئی۔ میرا بیٹا چھ برس کا اور بیٹی چار برس کی ہوگئی تو میں ان بچوں کے ہمراہ میکے چلی جاتی اور واپس بھی آجاتی۔ میرے اندر اعتماد پیدا ہوگیا تھا۔ دن کے سفر میں ڈر اور خوف کی کوئی بات نہیں تھی۔ بچوں کے ساتھ آنے جانے میں خود کو محفوظ سمجھتی تھی۔ گو بچے چھوٹے تھے مگر ان کی موجودگی سے مجھے ایک تحفظ کا سا احساس ہوتا تھا۔ پھر میں اس لمبے سفر کی عادی ہوگئی۔
گھر میں گھستے ہی بچے اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گئے۔ کیونکہ ان کا سفر کی تھکان اور گرمی سے بُرا حال ہوگیا تھا۔ مگر گھر میں قدم رکھتے ہی مجھے ایک عجیب قسم کی وحشت اور تنہائی کا احساس ہوا۔ ایسا لگا کہ میں کسی ویرانے میں اکیلی کھڑی ہوں۔ گھر خالی خالی سا لگ رہا تھا۔
میں نے پہلے کبھی واپس آکر ایسا محسوس نہیں کیا تھا۔ میں نے سوچا کہ کیا ریاض کو دفتر ٹیلیفون کرکے اپنی آمد کی اطلاع دے دوں؟ وہ میرے اتنی جلدی واپس آجانے پر خوشی کا اظہار کریں گے۔ پھر موسم بدل رہا تھا۔ سہانا ہوتا جارہا تھا اور ایک انجانی سی سرشاری محسوس ہونے لگی تھی۔ ایک دو گھنٹے کے بعد بارش ہوگی۔ ہم دونوں اور بچے بارش کا لطف لیں گے۔ میں گرم گرم پکوڑے بنائوںگی، جو ریاض کو بہت مرغوب ہیں۔ وہ کچے دھاگے سے بندھے فوراً چلے آئیں گے۔ لیکن میں نے دوسرے لمحے اپنا ارادہ بدل دیا کیونکہ میں جانتی تھی کہ اب پہلے جیسی بات نہیں رہی اور میں ان کی نظر میں جیسے بے کشش ہوگئی تھی۔ انہیں میرے اس قدر جلد اور اچانک واپس آنے پر خوشی اور حیرانی سے زیادہ غصہ آئے گا۔
میں نے سوچا کہ پہلے نہا لوں لیکن گھر کی حالت دیکھ کر نہانے کا ارادہ ترک کردیا۔کیونکہ گھر کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ تین چار دن میں اس گھر کی جو حالت ہوئی تھی اس کا یقین نہیں آیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا گھر جیسے تین چار ماہ سے بند پڑا ہو۔ میں نے ماسی نہیں رکھی تھی۔ میں اپنے گھر کا سارا کام خود ہی کرتی تھی۔ میں کام کی عادی ہوچکی تھی۔ اس لیے کسی ملازم کی محتاجی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ میں چاق و چوبند رہتی اور وقت ایسا کٹتا کہ پتا ہی نہیں چلتا تھا۔
ریاض بہت بے پروا طبیعت کے مالک تھے، وہ پانی تک اٹھ کر نہیں پیتے تھے۔ ان کا مزاج افسرانہ تھا۔ انہیں میرے کام کی تکلیف اور مصروفیت کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے کبھی بھولے سے بھی میرے کسی کام میں ہاتھ نہیں بٹایا تھا جیسے میں کوئی ملازمہ ہوں بیوی نہیں۔ وہ گھر میں بھی کسی سرکاری افسر کی طرح رہتے تھے۔ شوہر معلوم نہیں ہوتے تھے۔ گریڈ بڑھتے ہی ان کا مزاج ساتویں آسمان پر جا پہنچا تھا۔
میں گھر کی صفائی میں لگ گئی۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں، میں نے گھر کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ گھر آئینے کی طرح چمک اٹھا۔ پھر میں نے بچوں کو جگا کر کھانا کھلایا جو امی نے ساتھ کردیا تھا۔ بریانی، شامی کباب، چکن کڑاہی اور روغنی روٹیاں تھیں۔ بچے کھانا کھا کر پھر سو گئے کیونکہ ان کی نیند پوری نہیں ہوئی تھی۔
میں خواب گاہ میں آئی، سنگھار میز کے سامنے کھڑے ہوکر میں نے اپنے آپ کو دیکھا۔ گھر کی صفائی کرتے ہوئے میں بھوت بن گئی تھی۔ میں نے سوچا کہ فوراً نہا لینا چاہیے۔
گرمی میں اضافہ ہوگیا تھا لیکن بارش ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ میں غسل خانے میں گھس گئی، بیس منٹ نہانے میں صرف کرکے نکلی تو موسم کی تبدیلی کا احساس ہوا۔ باہر گھپ اندھیرا چھا گیا تھا۔ ابھی سہ پہر کا ہی وقت تھا لیکن آدھی رات کا گمان ہونے لگا تھا۔ تیز ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے، طوفان آیا ہوا تھا۔ میں نے کھڑکی کے پاس جاکر باہر جھانکا۔ آسمان کالے کالے بادلوں سے ڈھک گیا تھا۔ مشرقی اُفق پر سرخ آندھی اُٹھتی ہوئی نظر آئی تھی۔ میں نے جلدی جلدی کمروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند کئے۔ چند لمحوں کے بعد آسمان پر چھائے ہوئے بادلوں میں بجلیاں کوندنے لگیں۔ ان کی دھمک سے فضا اور زمین لرزنے لگی۔ پھر موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ میری زندگی میں ایک ایسا ہی طوفان آنے کے لیے پر تول رہا تھا، باہر جیسا گھپ اندھیرا میرے وجود میں تھا۔
میں اپنے بال ڈرائیر سے خشک کرکے کھڑکی کے پاس آکھڑی ہوئی۔ بالوں میں برش پھیرتے ہوئے میں نے پردے کا کونا ذرا سا ہٹا کے باہر جھانکا۔ بارش لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی جارہی تھی۔ اس چانک بارش کی وجہ سے گرمی اور حبس سے نجات مل گئی تھی۔ موسم خوشگوار ہوگیا تھا، ہوا میں خنکی سی تھی جو خوابیدہ سپنے جگا رہی تھی۔
مجھے ریاض کی یاد ستانے لگی۔ اس وقت وہ گھر میں ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ پھر میں نے کمرے کا دروازہ بند کرکے آئینے میں اپنے آپ کو ناقدانہ نظروں سے دیکھا۔ میں کوئی موٹی، بھدی اور بے کشش نہیں ہوگئی تھی۔ میں دو بچوں کی ماں بھی نہیں لگتی تھی۔ میں نے اپنی جوانی کو متاثر نہیں ہونے دیا تھاکہ کہیں میرا شوہر مجھ میں دلچسپی لینا بند کردے۔
لیکن یک لخت اس روز کا خیال آتے ہی میں نے اپنے سینے میں ایک خنجر سا اُترتا محسوس کیا۔ میں نے ریاض کے پرس میں ایک نوجوان لڑکی کی تصویر دیکھی تھی۔ یہ چھ سات مہینے پہلے کی بات تھی۔ ریاض نہا رہے تھے۔ میرے پاس سبزی والے کو دینے کے لیے دس روپے کا نوٹ نہیں تھا، سو روپے کا تھا۔ سبزی والے کے پاس کھلا نہیں تھا۔ میں نے دس روپے لینے کے لیے ریاض کی پتلون کی جیب سے بٹوا نکالا۔ بٹوا کھولتے ہی مجھے ایسا لگا کہ اس کے اندر کوئی زہریلی ناگن چھپی بیٹھی ہے جو مجھے دیکھ کر پھنکار رہی ہے کہ اب میں نہ صرف تمہیں بلکہ تمہارے بچوں کو بھی ڈس لوں گی… میرا کاٹا پانی نہیں مانگتا ہے۔ وہ ناگن بڑی حسین و جمیل تھی۔ وہ بیس برس سے کم کی ہی لگ رہی تھی۔ خدوخال تیکھے اور بے ساختہ دل میں اُتر جانے والے تھے۔ اس پر جوانی ٹوٹ کر برس رہی تھی۔
میں نے دس روپے کا نوٹ نکال کر بٹوا فوراً ہی واپس جیب میں رکھ دیا جیسے وہ انگارہ ہو۔ سبزی والے کو پیسے دے کر اندر آئی۔ دروازہ بند کرکے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی۔ میرے سینے میں سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی بھونچال آگیا ہے۔ زمین لرز رہی ہے، سارا گھر گھوم رہا ہے۔
اب مجھ پر یہ انکشاف ہوا تھا کہ ان کی محبت میں سرد مہری کیوں آگئی ہے؟ مجھ سے قریب ہوکر بھی دور کیوں ہیں؟ بستر پر دراز ہوتے ہی اجنبی کیوں بن جاتے ہیں۔ اتوار کا دن باہر کیوں گزارتے ہیں۔ میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ ریاض کا گریبان پکڑ کے پوچھوں کہ یہ ڈائن کون ہے…؟ یہ میرا حق تھا، میں ان کی بیوی تھی۔ اس گھر کی مالکن تھی۔ میں اپنے گھر اور بچوں کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھ نہیں سکتی تھی۔ پھر میں نے سوچا۔ یہ موقع نہیں ہے۔ مناسب وقت نہیں ہے۔ رات کے وقت جب بچے سو جائیں گے تب میں ان سے بات کروں گی۔ پوچھوں گی کہ یہ ڈائن کون ہے جس کی تصویر آپ کے بٹوے میں ہے۔
لیکن میں نے ریاض سے اس لڑکی کے بارے میں کبھی نہیں پوچھا اور نہ ان پر ظاہر ہونے دیا کہ میں جان چکی ہوں کہ وہ کسی لڑکی میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ میرے سینے میں خلش کا جو خنجر پیوست ہوگیا تھا، اُسے میں باوجود کوشش کے نکال نہ سکی تھی۔ یہ خنجر وہ خود ہی نکال
سکتے تھے۔ وہ اس لڑکی کی تصویر اب بھی اپنے بٹوے میں لیے پھر رہے تھے۔ میں نے ایک دو مرتبہ حوصلہ کیا کہ ان سے اس لڑکی کے بارے میں پوچھوں مگر ہمت نہ ہوئی۔
میں ریاض سے دانستہ اس لڑکی کے بارے میں پوچھنے سے گریز کرتی چلی آرہی تھی۔ اگر میں ان سے پوچھ لیتی تو جلتی پر تیل گر جاتا۔ میں نے انجان بنے رہنے میں ہی بہتری سمجھی۔ میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ کیا ریاض مجھے اس لڑکی کے بارے میں بتائیں گے؟ میرے پوچھنے پر شاید وہ ڈھیٹ بن جائیں۔ پھر ان کے لیے ایک دروازہ کھل جاتا، کوئی راستہ مل جاتا۔
کچھ دیر کے بعد بارش تھم گئی۔ میں نے چند لقمے زہر مار کئے۔ جب برتن دھو رہی تھی تو پھر سے بارش شروع ہوگئی۔ میں کام ختم کرکے نشست گاہ میں آگئی کہ شاید اس سہانے موسم کی وجہ سے ریاض گھر آجائیں۔ تھوڑی دیر بعد اطلاعی گھنٹی بجی تو میں دروازے کی طرف لپک گئی۔ اس طرح جس طرح شادی کے بعد لپکتی تھی۔ دروازے کے پاس پہنچتے ہی خیال آیا کہ ریاض تو گاڑی میں آتے ہیں اور ہارن بجاتے ہیں پھر اس وقت بارش میں بھیگتا ہوا کون آیا ہوگا؟ میں نے دروازے کے پاس پہنچ کر اونچی آواز میں پوچھا۔ ’’کون ہے…؟‘‘
’’جی… میں ایک لڑکی ہوں۔‘‘ باہر سے ایک دلکش آواز آئی۔ ’’کیا آپ مجھے بارش تھمنے تک اپنے ہاں پناہ دے سکتی ہیں پلیز!‘‘
میں نے بادل نخواستہ دروازہ کھول دیا۔ میری نظروں کے سامنے ایک غیر معمولی حسین لڑکی کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی۔
میں نے نیم وا دروازے کی اوٹ سے لڑکی سے پوچھا۔ ’’کیا آپ اکیلی ہیں یا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟‘‘
میں نے باہر جھانکا۔ مجھے اندھیرے میں اس کے سوا کوئی اور دکھائی نہیں دیا۔
’’جی… میں اکیلی ہوں۔‘‘ اس نے مترنم لہجے میں جواب دیا۔ ’’میں کچھ دیر کے لیے آپ کو زحمت دینا چاہتی ہوں۔ آپ خیال نہ کریں تو اندر آجائوں؟‘‘ میں نے اس کے بشرے سے محسوس کیا کہ وہ کچھ پریشان اور نروس سی لگ رہی ہے۔ میں سمجھ گئی کہ وہ گھر میں مردوں کی موجودگی کے خیال سے متفکر ہورہی تھی۔ میں نے لڑکی کے قریب ہوکر کہا۔ ’’آپ میرے گھر میں بڑے سکون اور اطمینان سے اس وقت تک بیٹھی رہیں جب تک بارش تھم نہیں جاتی… گھر میں دو چھوٹے بچوں اور میرے سوا کوئی نہیں ہے۔ بچے اپنے کمرے میں سو رہے ہیں۔ میرے شوہردیر سے گھر آتے ہیں۔ دس، گیارہ بجے سے پہلے نہیں آئیں گے۔‘‘
لڑکی اندر آئی۔ میں نے روشنی میں اُسے دیکھا۔ لڑکی بارش میں بُری طرح بھیگی ہوئی تھی۔ اس کے نفاست سے ترشے ہوئے سیاہ بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ میں نے ایک ہی نظر میں اس کے چہرے اور وضع قطع سے اندازہ کرلیا کہ لڑکی کا تعلق کسی اچھے گھرانے سے ہے اور وہ تعلیم یافتہ بھی ہے۔ اس کے اندر آنے کے بعد میں نے دروازہ بند کرکے کہا۔
’’آپ کے کپڑے بہت زیادہ بھیگ چکے ہیں۔ آپ ایسا کیجئے کہ میرے کپڑے پہن لیں۔ جتنی دیر میں بارش تھمے گی، آپ کے کپڑے بھی سوکھ جائیں گے۔‘‘
’’جی… جی نہیں… میرے کپڑے زیادہ گیلے نہیں ہوئے ہیں۔‘‘ وہ اپنے لباس پر ایک نظر ڈال کر انکساری سے بولی۔ ’’پلیز! آپ تکلیف نہ کریں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘
لڑکی کے اس تکلف کے باوجود میں نے اپنا ایک جوڑا اُسے دیا۔ لڑکی غسل خانے میں جاکر نہ صرف اپنے بال خشک کرکے آئی بلکہ اپنے گیلے کپڑے بھی بدل آئی۔ میں نے اس کے کپڑے کھانے کی میز پر پھیلا کر ٹیبل فین پوری رفتار سے چلا دیا۔ پھر میں نے ایک رسالہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’آپ آرام سے بیٹھ کر پڑھیں، میں کافی بنا کر لے آتی ہوں۔ ویسے اس وقت بلیک کافی مل سکتی ہے کیونکہ گھر میں دودھ نہیں ہے۔‘‘
’’آپ کے اس خلوص کا بہت شکریہ!‘‘ لڑکی رسالہ گود میں رکھ کر ممنونیت سے بولی۔ ’’آپ بہت زیادہ تکلف سے کام لے رہی ہیں۔‘‘
میں زیرِ لب مسکراتی ہوئی باورچی خانے میں داخل ہوگئی۔ جلدی سے کافی بنائی اور نمکو ٹرے میں رکھ کر نشست گاہ میں پہنچی تو لڑکی کوئی کہانی بڑی محویت سے پڑھ رہی تھی۔ جب ہم دونوں کافی پینے لگیں تو میں نے اس سے پوچھا۔ ’’کیا آپ کسی رشتے دار سے ملنے آئی ہیں؟‘‘
’’رشتے دار… جی نہیں۔‘‘ لڑکی کا چہرہ کسی انجانے خیال سے دمک اٹھا۔ ’’میں ٹیکسی سے اُتر کے ایک صاحب کا پتا تلاش کررہی تھی کہ ایک دم بارش شروع ہوگئی۔ میں نے ایک قریبی دکان میں پناہ لی۔ جب تھوڑی دیر کے بعد بارش تھم گئی تو پھر ان کا پتا تلاش کرنے لگی۔ دو تین اُوباش قسم کے لڑکے میرے تعاقب میں لگ گئے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کیا کروں؟ بارش کی وجہ سے سناٹا چھا گیا تھا اور گلیوں میں ایک بچہ بھی موجود نہیں تھا۔ راستے میں ایسا کوئی مکان دکھائی نہیں دیا کہ اس کا دروازہ کھٹکھٹائوں۔ پھر میں نے آپ کے گھر کا احاطہ بغیر گیٹ کے دیکھا تو آپ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ آپ کو زحمت دی، میں بہت شرمندہ ہوں۔‘‘
’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ میں نے اس کی طرف چپس کی پلیٹ بڑھاتے ہوئے پوچھا۔ ’’کیا آپ زیرِ تعلیم ہیں؟‘‘
’’میرا نام شازیہ رفیق ہے۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔ ’’میں ایک معروف دواساز کمپنی میں ملازمت کرتی ہوں۔ آج ہفتہ ہونے کی وجہ سے میرے دفتر کی چھٹی ہے۔‘‘
’’تو کیا آپ یہاں کسی عزیز کا پتا تلاش کررہی تھیں؟‘‘ میں نے اس کے چہرے پر نظریں مرکوز کرکے پوچھا۔
اس کے چہرے پر حیا، سرخی بن کر دوڑ گئی جس نے اس کے چہرے کے حُسن کو مزید نکھار دیا۔ اس نے اپنی نگاہیں اس طرح نیچی کرلیں جیسے کسی مرد کی محبت بھری نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز ہوگئی ہوں اور کانوں میں پیار بھرے الفاظ نے رس گھول دیا ہو۔ اس نے اپنی حیا آلود پلکیں اوپر اٹھا کے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ ’’آپ انہیں عزیز ہی سمجھ لیں۔ وہ میرے بہت دور کے کزن ہوتے ہیں۔‘‘ لڑکی کے چہرے پر پھر حیا چھا گئی۔ اس نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا تھا جیسے یہ جملہ غیر ارادی طور پر اس کی زبان سے نکل گیا ہو۔
’’اوہ… کیا آپ محبت کی شادی کررہی ہیں؟‘‘ میں نے اس کی کیفیت بھانپتے ہوئے پوچھا۔
’’جی ہاں…!‘‘ لڑکی نے جو اپنی پلکیں نیچی کرلی تھیں، اوپر اٹھا کر مجھے دیکھا۔ میں نے اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں محبت کے ان گنت دیئے جلتے ہوئے محسوس کیے۔ ’’آپ کا اندازہ درست ہے۔‘‘
’’کیا وہ اسی محلے میں رہتے ہیں…؟‘‘ میں نے اس کی طرف حیرت سے دیکھا۔ ’’وہ آپ کے کزن ہیں اور آپ ان کا گھر نہیں جانتی ہیں؟‘‘
’’میرے گھر والوں کے تعلقات ان سے برسوں سے کشیدہ تھے بلکہ آج بھی ہیں۔ انہوں نے دو ماہ پیشتر اس محلے میں نیا مکان لیا ہے۔‘‘
’’تو گویا آپ ان سے شادی اپنے والدین کی مرضی کے بغیر کررہی ہیں؟‘‘ میں بولی۔
’’جی ہاں۔‘‘ لڑکی نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’میرے والدین چونکہ بڑے تنگ نظر اور دقیانوسی خیالات کے ہیں۔ اس لیے میں ان کی اجازت کے بغیر شادی کررہی ہوں۔‘‘
’’مجھے آپ کے انتخاب، گھر کے ماحول اور والدین کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔‘‘ میں ناصحانہ انداز میں کہنے لگی۔ ’’مگر میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ والدین اپنی اولاد کی بہتری کے لیے سوچتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی لڑکی کسی ایسے گھر میں بہو بن کر جائے جہاں وہ اپنی ساری زندگی خوشیوں سے بھرپور گزارے۔ ان کی نیت بالکل صاف اور بے لوث جذبے سے پُر ہوتی ہے۔ ایسی لڑکیاں جو ماں، باپ کی مرضی سے شادی کرتی ہیں، سدا خوش رہتی ہیں۔‘‘ یہ بات کہتے ہوئے میرے دل میں دکھ کی لہر اٹھی کہ میں کون سی خوش ہوں۔
’’مجھے آپ کی اس بات سے انکار نہیں۔‘‘ لڑکی نے سر ہلایا۔ ’’میرے والدین میری شادی ایک ایسے لڑکے سے کرنا چاہتے ہیں جو ایک بینک میں سیکنڈ آفیسر ہے، جبکہ میرا آئیڈیل کچھ اور ہے۔ کم ازکم وہ شخص انجینئر، ڈاکٹر یا کوئی افسر ہو یا پھر کسی کمپنی میں ایم ڈی ہو۔‘‘
’’آج کل لڑکیوں نے آئیڈیل کے پیچھے اندھادھند بھاگ کر اپنی زندگیاں تباہ کرلی ہیں۔‘‘ میں بولی۔ ’’میں ایسی بہت ساری لڑکیوں کو جانتی ہوں جو اپنے آئیڈیل سے شادی کرکے پچھتا رہی ہیں۔ خوابوں اور عملی زندگی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔‘‘
’’تمام مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔‘‘ لڑکی نے اپنا دفاع کیا۔ ’’میری دو سہیلیاں اپنے آئیڈیل مردوں سے شادی کرکے بہت خوش ہیں۔‘‘
’’آپ کے کزن کا کیا نام ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’شاید ان کا نام میں نے سنا ہو۔ کیونکہ میں اس محلے میں دس گیارہ برسوں سے رہ رہی ہوں۔‘‘
’’ان کا نام ریاض احمد ہے۔ وہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہیں اور بہت جلد ملازمت چھوڑ کر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ایم ڈی کے عہدے پر فائز ہونے والے ہیں۔‘‘
ریاض احمد…؟ مجھ پر جیسے بجلی سی گری۔ میں سُن سی ہوگئی۔ میری رگوں میں لہو منجمد ہونے لگا۔ پھر مجھے دفعتاً یاد آیا کہ میں نے ان کے پرس میں جو تصویر دیکھی تھی وہ اسی لڑکی کی تھی۔ میں نے اس تصویر کو صرف ایک نظر دیکھا تھا، اس لیے اس کا چہرہ ذہن میں نہیں رہا تھا۔ تصویر پاسپورٹ سائز کی تھی اسی لیے پوری طرح اندازہ نہ ہوسکا کہ یہ لڑکی کیسی ہے۔ یہ لڑکی نہیں بلکہ قیامت تھی۔ معلوم نہیں کیسے ریاض کی اسیر ہوگئی تھی۔
لڑکی مجھے سکتے کی کیفیت میں پا کر حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ شاید وہ میرا بشرہ بھانپنے کی کوشش کررہی تھی۔ اس نے پوچھا۔ ’’کیا آپ انہیں جانتی ہیں؟‘‘
میرے لیے یہ بات غیر متوقع تھی۔ اس لیے میں نے جلدی سے خود پر قابو پا کر کہا۔ ’’جی ہاں… اتفاق سے میں انہیں بہت قریب سے جانتی ہوں مگر وہ تو شادی شدہ ہیں اور دو بچوں کے باپ بھی ہیں۔ کیا یہ بات آپ کو ریاض صاحب نے بتائی ہے؟‘‘
’’جی ہاں… یہ بات میرے علم میں ہے۔ انہوں نے مجھے سب کچھ صاف صاف بتا دیا تھا۔ مجھ سے کوئی بات نہیں چھپائی۔‘‘ وہ بڑے اطمینان سے بولی۔
’’آپ ان کے بارے میں سب کچھ جانتے بوجھتے بھی آنکھیں بند کرکے کنویں میں چھلانگ لگا رہی ہیں؟‘‘ میں نے تحیر زدہ لہجے میں کہا۔ ’’ایک شادی شدہ مرد سے شادی کررہی ہیں؟‘‘
’’آخر اس میں حرج ہی کیا ہے؟‘‘ لڑکی میں ذرا بھی جھجک نہیں تھی اور نہ کوئی تذبذب تھا۔
’’حرج کیوں نہیں ہے۔ مرد دوسری شادی کرنے کے بعد تقسیم ہوکر رہ جاتا ہے۔ ان دونوں بیویوں میں سے پوری طرح کسی ایک کا ہوکر نہیں رہتا۔‘‘
’’اگر آپ بیگم ریاض خان کو یہ بات نہ بتانے کا وعدہ کریں تو میں آپ کو راز کی ایک بات بتائوں۔ پلیز…!
آپ اپنے تک ہی رکھیں۔‘‘ اس نے التجا کے سے انداز میں کہا۔
’’آپ مجھ پر پورا پورا بھروسہ کرسکتی ہیں۔ آپ کے اور میرے درمیان جو گفتگو ہورہی ہے، اس کی بھنک اس کے تو کیا میرے شوہر کے کان میں تک نہیں پڑے گی۔‘‘
’’ریاض نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ شادی کرنے کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دے دیں گے کیونکہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتی ہیں۔‘‘
طلاق کا سن کر میں اس طرح اُچھل پڑی جیسے مجھے دہکتے انگاروں پر پھینک دیا گیا ہو۔ میں سناٹے میں آگئی، میرا دل اس بُری طرح دھڑکنے لگا جیسے سینہ شق کرکے نکل آئے گا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میری حالت غیر ہورہی ہے اور میں فرش پر گر پڑوں گی۔ میں نے خود کو بہ دِقّت سنبھالا اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی۔ ’’بالفرضِ محال وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں لیکن کیا آپ نے اس بات کو نوٹ کیا کہ آپ کی اور ان کی عمروں میں کتنا فرق ہے؟‘‘
’’وہ زیادہ عمر کے تو نہیں معلوم ہوتے… میں نے ان سے کبھی ان کی عمر نہیں پوچھی… ویسے میرا اندازہ ہے کہ ان کی عمر تیس اور چھتیس برس کے درمیان ہوگی۔‘‘
’’ان کی عمر چھتیس برس نہیں بلکہ اڑتالیس برس ہے چونکہ وہ وجیہ، دراز قد، اسمارٹ اور خوش پوش شخص ہیں۔ اس لیے ان کی صحیح عمر کا اندازہ نہیں ہوتا۔ ان کی عمر کے بارے میں اکثر لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں خصوصاً عورتیں…!‘‘
’’ایسا لگتا ہے کہ آپ انہیں بہت قریب سے جانتی ہیں؟‘‘ وہ اپنی پلکیں جھپکاتی ہوئی بولی۔
’’جی ہاں… کچھ زیادہ ہی قریب سے۔‘‘ میرا لہجہ نیزے کی طرح چبھتا ہوا سا تھا۔ سینے میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ ’’دراصل ان کی بیوی میری بچپن کی دوست ہے ۔ ریاض احمد کا مکان پچھلی گلی میں ہے۔ وہ تقریباً روز ہی مجھ سے ملنے آتی ہے۔‘‘
’’شاید میں ان کی اچھی صحت اور چھریرے بدن کی وجہ سے دھوکا کھاتی رہی ہوں۔ لیکن عمروں کے فرق سے کیا ہوتا ہے۔ محبت میں یہ کہاں دیکھا جاتا ہے۔‘‘
’’مگر ایک سمجھدار اور نوجوان لڑکی کو صرف عملی زندگی میں ہی نہیں بلکہ محبت کے معاملے میں بھی پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے۔ اگر پڑھی لکھی لڑکی حقیقت پسند نہ ہو تو وہ ساری زندگی پچھتاتی رہے گی۔ میرے اندازے کے مطابق آپ کی عمر بیس برس سے زیادہ نہیں ہوگی۔ کیوں…؟‘‘ میں نے سانس لینے کے لیے توقف کیا۔
لڑکی نے سر ہلا کر میرے اندازے کی توثیق کی۔ پھر میں نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’اگر آپ کی عمر پورے بیس برس ہے تو آپ سے ریاض پورے اٹھائیس برس بڑے ہیں۔ آپ کی زندگی، حُسن اور جوانی کا سب سے خوبصورت دور یہی ہے۔ جبکہ ریاض ایک ایسی پُرشکوہ اور عظیم الشان عمارت ہے جو اندر سے کھوکھلی ہے۔ دس برس کے بعد وہ آپ کے شوہر نہیں باپ معلوم ہوں گے… ان کے سر کے بال سفید ہورہے ہوں گے، دانت بھی گر رہے ہوں گے۔ ان کی محبت اور جذبات میں وہ گرم جوشی جس کی ضرورت ایک عورت محسوس کرتی ہے وہ نہ ہوگی۔ دس برس کے بعد آپ میں ایک عورت کی حقیقی آرزوئوں کا ہی نہیں بلکہ پُرجوش محبت کا آغاز ہوگا۔ پھر ان کے پاس وہ عہدہ، وہ حیثیت اور شان و شوکت نہ ہوگی۔ وہ خواب نہ ہوں گے جو آپ آج دیکھ رہی ہیں۔ پھر آپ کو یہ گھر چلانے کے لیے اپنے کندھوں پر یہ بوجھ اٹھانا ہوگا۔ آپ نے یہ سب کچھ سوچنے کی کبھی کوشش کی…؟‘‘
لڑکی میری ہر بات بڑے غور سے سن رہی تھی۔ میں نے اس کے بشرے کے بدلتے تاثرات سے محسوس کیا کہ میرا ایک ایک لفظ جیسے اس کے دل کی گہرائیوں میں اُترتا جارہا ہے۔ اس نے جیسے پہلے کبھی اس پہلو پر سوچا نہ تھا۔ وہ اپنی جگہ بے حس و حرکت سی ہوگئی تھی۔
میں نے اُسے گنگ پا کر پوچھا۔ ’’کیا میں نے غلط کہا ہے…؟‘‘
لڑکی چونک کر سوچوں کی دنیا سے نکل آئی۔ اس نے نفی میں اپنا سر ہلایا اور بولی۔ ’’میں نے تصویر کا دوسرارخ کبھی نہیں دیکھا اور نہ کچھ سوچنے کی کوشش کی… سچ پوچھیے تو میں ریاض پر مر مٹی ہوں… ان کی شخصیت ہی ایسی دلکش ہے… آپ میرے اس خیال سے اتفاق کریں گی۔‘‘
’’آپ سچ کہتی ہیں… ریاض احمد واقعی کہانیوں کے شہزادے کی طرح ہیں۔ لڑکیوں کے تصوراتی محبوب جس کی وہ تمنا کرتی اور سپنے دیکھتی ہیں۔ وہ آج بھی جوان معلوم ہوتے ہیں لیکن یہ سب چیزیں عارضی ہیں۔ حُسن و جوانی ڈھلنے والی چیزیں ہوتی ہیں۔‘‘ میں نے بولتے بولتے ایک لمحے کے لیے توقف کیا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ ریاض کے نام پر جو دیئے جل اٹھے تھے، وہ اب ایک ایک کرکے بجھ رہے تھے۔ اس کے حسین چہرے پر ایک کرب سا چھا گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں حزن و ملال تھا۔ میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’آپ نے کبھی ریاض سے پوچھا کہ وہ برسوں سے بسا بسایا گھر کیوں اُجاڑ رہے ہیں… بیوی، بچوں کو کس بات کی سزا دے رہے ہیں…؟‘‘
’’جی… ایک بار پوچھا تھا۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔ ’’انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ ان کے والدین نے ایک ایسی عورت سے زبردستی شادی کردی جو نہ صرف پھوہڑ اور جاہل ہے بلکہ بد زبان اور بد مزاج بھی ہے۔ اس عورت نے گھر جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔ میری زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے۔‘‘
’’انہیں دس گیارہ برسوں کے بعد اس کا خیال آیا؟ وہ اتنے برسوں تک اپنی بیوی کو برداشت کرتے رہے اور عذاب جھیلتے رہے؟‘‘
’’تو کیا آپ کے خیال میں ریاض نے اپنی بیوی کے بارے میں مجھ سے غلط بیانی کی ہے؟ اس میں کوئی صداقت نہیں ہے؟‘‘ لڑکی نے حیرانی سے دریافت کیا۔
’’جی ہاں۔‘‘ میں کہنے لگی۔ ’’ان کی بیوی گریجویٹ ہے اور ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ سلیقہ شعار ہے۔ خوبصورت اور پُرکشش ہے۔ شائستہ اور نفیس مزاج کی ہے۔ اس نے اپنے گھر کو جنت کا نمونہ بنا رکھا ہے… اگر آپ کو میری بات کا یقین نہیں ہے تو بارش رکنے کے بعد میرے ساتھ اس کے ہاں چلیں، اس سے ملیں، اس کے گھر کو دیکھیں۔ اگر اُسے یہ بتا دیا جائے کہ آپ اس کے شوہر کی ہونے والی دوسری بیوی ہیں تو اس کی پیشانی پر بل تک نہیں آئے گا۔ وہ نہ صرف آپ سے کھلے دل بلکہ خندہ پیشانی سے ملے گی۔ کیا آپ چلیں گی میرے ساتھ اس سے ملنے کے لیے…؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ اس کی پیشانی عرق آلود ہوگئی تھی۔ ’’ریاض نے مجھ سے اس قدر دروغ گوئی کیوں کی؟ کس لیے کی؟ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘
’’اس لیے کہ مرد کی ذات کسی ناگ سے کم نہیں ہوتی… وہ پرائی لڑکیوں اور عورتوں کو محبت کا فریب دے کر ڈسنے سے کبھی نہیں چوکتا ہے۔‘‘
’’میری آنکھیں کھلتی جارہی ہیں۔‘‘ وہ بولی۔ ’’آپ سے ملاقات نہ ہوتی تو میں راستہ بھول جاتی۔ کسی دلدل میں گر جاتی۔‘‘
’’آپ ریاض سے ملنے اس کے گھر کیوں جارہی تھیں…؟‘‘ میں نے اُسے ٹٹولا۔
’’انہوں نے آج مجھے تین بجے گھر پر ملنے کے لیے بلایا تھا تاکہ اطمینان سے بیٹھ کر شادی کا پروگرام بنا سکیں۔ ان کی بیوی حیدرآباد گئی ہوئی ہے۔ شادی سے پہلے میں اس گھر کو ایک نظر دیکھنا چاہتی تھی جہاں مجھے زندگی گزارنی تھی۔ ایک اتفاق نے مجھے آپ کے ہاں پہنچا دیا۔‘‘
’’کیا آپ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ریاض سے ملنے ان کے گھر جارہی تھیں کہ وہ اکیلے ہوں گے… اتفاق سے آج ان کی بیوی اچانک حیدرآباد سے واپس آگئی ہے۔ اچھا ہوا آپ ان کے گھر نہیں پہنچیں۔ ریاض کو بیوی کی واپسی کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’اگر وہ مخلص ہوتے اور ان کی نیت میں فتور نہیں ہوتا تو وہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے کر آپ کے لیے، اپنے لیے راستہ صاف کرتے… وہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتے۔‘‘
’’کیوں طلاق نہیں دے سکتے؟ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں کھڑے کھڑے طلاق دے سکتا ہوں۔‘‘
’’اس لیے کہ ان کی بیوی کا خاندان بڑا با رسوخ ہے۔ پھر وہ اپنی بیوی، بچوں سے بہت محبت کرتے ہیں… ایک شخص طویل رفاقت کے بعد اس سے اُکتاتا نہیں بلکہ اور قریب ہوجاتا ہے کیونکہ بیوی ہم مزاج اور ہم نفس بن جاتی ہے۔‘‘
’’پھر ریاض نے کس لیے مجھ سے شادی کا وعدہ کیا؟‘‘ وہ افسردگی سے بولی۔
’’آپ خود سمجھتی ہیں کہ بھونرے کا کیا کام ہے… مرد ایک بھونرا ہی تو ہوتا ہے۔‘‘
لڑکی یکلخت اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے کھڑکی کا پٹ کھول کر باہر جھانکا پھر پٹ بند کرکے میرے پاس آئی اور بولی۔ ’’بارش فی الحال تھم گئی ہے۔ ویسے آثار اچھے نہیں ہیں پھر شروع ہوسکتی ہے… یہ سلسلہ شاید رات تک چلے۔‘‘
پھر اس نے میز سے کپڑے اٹھائے اور غسل خانے میں جاکر بدل آئی۔ رخصت ہوتے وقت ممنونیت سے بولی۔ ’’آپ نے میری آنکھیں کھول کر مجھ پر جو احسان کیا ہے، میں اُسے زندگی بھر بھلا نہ سکوں گی۔ آپ مجھ پر ایک احسان اور کریں۔ رکشا یا ٹیکسی منگوا دیں۔ کہیں وہ اُوباش لڑکے باہر نہ کھڑے ہوں۔‘‘
اتفاق سے ایک رکشا گلی میں آکر رکا۔ میں نے اُسے اس میں سوار کرا دیا۔ میں اُسے اس وقت تک دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی۔ میں سوچ رہی تھی کہ احسان کس نے کیا…؟ احسان تو اس نے راستہ بھول کر مجھ پر اور میرے بچوں پر کیا… اگر وہ راستہ نہ بھولتی تو پھر کیا ہوتا… میں یہ سوچ کر لرزہ براندام ہوتی رہی… میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ یہ خوشی کے آنسو تھے۔
(ختم شد)