زندگی بڑی عجیب ہے اکثر کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی اس کے اندیشے ماں کی نیندیں حرام کر دیتے ہیں- میرے سر پر باپ کا سایہ نہ رہا تھا تبھی ماں روز جتلاتی تھیں کہ بیٹی مجھے بیوہ کی لاج رکھنا۔ بھول کر بھی سیدھی راہ سے نہ بھٹک جانا۔ کوئی ایسا قدم نہ اٹھانا جو میرے لئے موت کا پیام ثابت ہو۔ میں تو سیدھی سادی ،اچھی لڑکی تھی ، نیک چلن ۔ پھر نجانے کیوں اماں مجھ کوایسی باتیں سناتی تھیں۔ باجی سے تو باتیں نہ امی ایسی کہتی تھیں۔ خدا جانے کیوں مجھ ہی کو اپنے اندیشے سنائیں۔ شاید اس لئے کہ باجی گھر میں رہتی تھیں اور میں کوایجو کیشن “ میں پڑھتی تھی ، حالانکہ میں نے کبھی کسی لڑکے کو لفٹ نہیں کرائی تھی۔ والد کے بعد جب رکھی ہوئی جمع پونجی ختم ہو گئی تو باجی نے ماں سے کہا کہ میں ملازمت تلاش کرتی ہوں لیکن انہوں نے اجازت نہ دی حالانکہ میری بہن گریجویشن کر چکی تھی ، مگر ماں کو زمانے سے اتنا خوف تھا کہ ہم بھی ان کی باتوں سے خوفزدہ ہو جاتے تھے ۔ یہ تو ماموں کی ہمت تھی کہ میں پڑھ رہی تھی دور نہ تومیری وہمی ماں والد کی وفات کے بعد مجھ کو اسکول سے بھی ہٹالیتیں۔ ہمارے ماموں بہت اچھے تھے ، وہ ہمارے ہمدرداور میری ماں سے محبت کرتے تھے ۔ ماں نے ان سے کہا کہ خرچہ کی تنگی ہے لیکن ثمینہ کو نوکری کرانے سے ڈرتی ہوں۔ زمانہ خراب ہے ، گھر سے بھی قدم نکالے تو نجانے کیا ہو جاۓ ؟ ماموں بولے ۔ آپا۔ میں ہوں نا۔ کیوں فکر کرتی ہیں۔ بے شک ثمینہ کو نوکری نہ کرائیں، میں ہر ماہ آپ کو خرچہ دیتا رہوں گا۔ آپ بس بچیوں کو ان کے گھر کا کرنے کی فکر کریں ماموں کوئی زیادہ امیر آدمی نہ تھے۔ ملازمت کرتے تھے ، واجبی تنخواہ تھی۔ وہ اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر ہر ماہ خرچ کے لئے میری والدہ کور تم دیتے۔ اس رقم سے جوں توں ہمارے روز وشب عزت سے گزر رہے تھے ۔ ہم نے اپنی بہت سی خواہشوں کو د بالیا تھا کہ روزی روٹی پوری ہوتی رہے ۔ اضافی چیزوں کا کیا کر نا کہ جن کے بغیر بھی ہم سانس لے سکتے تھے۔ میری ایک کلاس فیلو، جو جماعت میں میری ہم نشست بھی تھی ، ایک دن کہنے لگی کہ تم یہ خط اپنے پاس رکھ لو۔ بعد میں لے لوں گی۔ میں اسے اپنی بہن سے چھپاناچاہتی ہوں۔ میں نے خط لے کر اپنی کاپی میں رکھ لیا، نہ تو پوچھا کس کا ہے اور نہ ہی اس کو کھول کر پڑھا کہ میری سہیلی کی امانت تھی۔ ہمارے گھر کے سامنے شرجیل کی دکان تھی۔اس کو ہمارے حالات کا علم تھا۔ لہذا ہم لوگ اس سے ادھار پر بھی سودا منگوا لیتے تھے۔ وہ کھاتے میں لکھ لیتا اور جب ماموں پیسے دیتے اس کا قرضہ چلتا کر دیا کرتے ۔اس کی دکان پر سبھی اشیا ملتی تھیں۔ایک طرح سے وہ جنرل اسٹور بھی تھا۔ ایک کونے میں اس نے اسٹیشنری کا سامان بھی رکھا ہوا تھا۔ مجھے جب رجسٹر ، کاپی ، پنسل ، بال پین وغیرہ کی ضرورت پڑتی ، قریب ہونے کے سبب اس کی دکان سے خرید لیا کرتی تھی۔اس روز مجھی کا پیاں خریدنی تھیں ۔ کالج سے سید ھی اس کی دکان پر چلی گئی تو وہاںخط جو میری کاپی میں رکھا ہوا تھا، وہیں گر گیا۔ مجھے پتا نہ چلا۔ اگلے روز کالج گئی تو خط میری سہیلی نے مانگا۔ میں نے کاپی نکالی ، خط اس میں نہیں تھا۔ سب کا پیوں کو دیکھ لیا، نہ ملا، بہت پر یشان ہوئی ۔اس سے معذرت کی کہ شاید گھر پر رہ گیا ہے ، کل لادوں گی۔کالج سے سیدھی شرجیل کی دکان پر گئی ، اس سے پہلے کہ خط کے بارے میں پوچھتی ،اس نے خود ہی کہا کہ کل آپ گرا گئیں تھیں ، یہ لیجئے اپنی امانت … یہ کہہ کر اس نے تہیہ کیا ہو کاغذ مجھے دے دیا۔ گھر آ کر میں نے خط کو کھولا کہ دیکھوں کس کا ہے اور اس میں کیا لکھا ہے ؟ سوچ یہی تھی یقینا اسے شرجیل نے بھی پڑھا ہو گا۔ کیا خبر اس میں کوئی ایسی ویسی بات لکھی ہو۔ جب کاغذ کو کھولا تو یہ دیکھ کر غصہ آ گیا کہ شرجیل نے خط بدل دیاتھا۔ اس نے میرے نام خط لکھ دیا تھا، جس میں بڑے رومانوی قسم کے جملے لکھے تھے اور میری تعریف بھی کی تھی۔ شرجیل کی اس حرکت پر کافی دن کوفت کھاتی رہی مگر اس کی دکان پر نہ گئی۔ وہ خط البتہ میری کاپی میں رکھا تھا۔ سہیلی کو تو سارا حال بتا کر معذرت کر لی لیکن باجی کا کیا کرتی جنہوں نے میرے کمرے کی صفائی کرتے ہوئے کاپی سے خط نکال لیا تھا۔ اب وہ مجھ کو دھمکاتی تھیں کہ تیرا یہ خط میں ماموں کود کھادوں گی۔ ماموں سے میں بہت ڈرتی تھی۔ لہذا اگلے روز مجھے شرجیل کی دکان پر جاناہی پڑا۔ میں نے اسے کہا کہ تمہاری اس حرکت کی وجہ سے مجھے کتنی پریشانی اٹھانی پڑی ہے۔ اب تمہار اخط باجی کے پاس ہے اور جب ماموں آئیں گے وہ ان کو ضرور دکھائیں گی۔ بجاۓ پر یشان ہونے کے وہ ہنسنے لگا۔ بولا۔ بس اتنی سی بات پر گھبراگئی ہو ، خاطر جمع رکھو، تمہاری باجی ایسا ہر گز نہیں کریں گی ۔ وہ محض دھمکار ہی ہیں۔ بہر حال کیا کرتی اس کی طفل تسلیوں پر اس کو برا بھلا کہہ کر آگئی۔اس نے مجھ سے معافی بھی مانگی مگر میرا غصہ فرو نہ ہوا۔ کافی دن اس کے بعد میں شرجیل کی دکان پر نہ گئی لیکن پھر ضرورت کی چیزوں کی خاطر جانا ہی پڑا کہ گھر کے نزدیک یہی ایک دکان تھی۔دکان پر دوبارہ جانے سے جھجک ٹوٹ گئی۔اس نے بھی معافی مانگ لی تھی اور میری سہیلی والا خط بھی دے دیا۔ میں نے دل صاف کر لیا۔ یہ بھی مجبوری تھی کہ سودا ادھار اس سے لیتے تھے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ ایک پیسہ گھر میں نہ ہوتا اور مہمان آجاتے…تو میں دوڑ کر جو سامان در کار ہو تالے آتی۔ اس نے ادھار سوداسلف دینے پر بھی انکار نہ کیا تھا۔ وہ مجھے اچھی لڑکی سمجھتا تھا اور میں بھی اس کو اچھا انسان سمجھتی تھی۔ کبھی اس نے بد تمیزی والی کوئی بات کی ہی نہ تھی۔ شاید اس خط میں کچھ ایسا لکھا ہو گا کہ اس کو یہ جرات ہوئی کہ سونیا کے محبت نامے آتے ہیں تو میں بھی کیوں نہ لکھ دوں۔ بعد میں میں نے اسے بتادیا تھا کہ میرا نہیں ، میری سہیلی کا خط تھا، تو اس نے غالبا یقین کر لیا کیو نکہ اب وہ پہلے جیسا سیدھا سادا شریف بن کر پیش آنے لگا۔ بتاتی چلوں کہ میری منگنی ماموں نے اپنے ایک رشتے دار کے لڑکے مشرف سے بچپن میں کر دی تھی۔ رسم منگنی بہت خاموشی سے ہوئی تھی۔ حتی کہ والدہ نے پڑوسیوں کو بھی نہیں بلایا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ واویلا کرنے سے منگنیاں ٹوٹ جاتی ہیں ، لہذا تبھی بتلائیں گے جب شادی کا موقع آۓ گا۔ میری منگنی کا علم شرجیل کو بھی نہیں تھا۔ ایک روز اس نے مجھ سے کہا کہ عید کا موقع ہے ، جی چاہتا ہے کہ تم کو کوئی تحفہ دوں۔ کیا قبول کر لو گی ، ناراض تو نہ ہو گی ؟ اس نے یہ بات اس طرح لجا کر کہی کہ میں نے کہہ دیا۔ اچھادے دو میں ناراض نہ ہوں گی۔ کہنے لگا۔ وعدہ کرو کہ ناراض نہ ہو گی۔ ارے بھئی تحفے میں ناراض ہونا کیسا۔اگر کوئی لے تو ٹھیک ورنہ نہ لے۔ ناراضی کا کیاذ کر ہے۔ تب اس نے کہا۔ اچھا اپنی کلائی آگے لاؤ۔ میں نے کلائی آگے کر دی۔ برقع پہنے ہوئی تھی ،اس نے برقع کا باز وذراسا کلائی سے ہٹایا اور جاتا ہوا سگریٹ جو اس کی انگلیوں میں تھا آنافانامیری کلائی میں گاڑھ دیا۔ میں بلبلا تھی مگر اس نے اس وقت تک میرا ہاتھ نہ چھوڑا جب تک سگریٹ کلائی کی کھال میں نہ اتر گیا۔ا گر دکان میں اس کا نو کر موجود نہ ہو تاتو شاید میں چیخ پڑتی مگر اپنی رسوائی کے ڈر سے ضبط کیا اور آنسو پی لیے۔ وہ کہنے لگا۔ مجھے معاف کر دینا۔ میری خاطر تم نے درد سہا ہے ۔ یہ میری ایسی نشانی ہے جو کبھی نہ مٹے گی۔اسے دیکھ کر مجھ کو ہمیشہ یادر کھوگی۔اس کے ملازم کی موجودگی کی وجہ سے میں نے اسے کچھ نہ کہا کہ اس بات کو اگر وہ باہر کے لوگوں سے بیان کر تا تو میرا بھی نام لیتا اور میں اپنا پر چانہ چاہتی تھی۔ سوچا بعد میں جب شرجیل دکان پراکیلا ہو گا اس کی خبر لوں گی ۔ کلائی پر جلن کی وجہ سے میں وہاں ایک منٹ نہ رک سکتی تھی۔ گھر آکر خوب روئی اور دل کا غبار نکل گیا۔ رات بھر اس بارے سوچتی رہی کہ شرجیل نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا ؟ جوں جوں سوچتی جاتی تھی ، غصہ کم ہوتا جاتا تھا۔ نجانے کیوں مجھ کو احساس ہو گیا کہ وہ چپ رہتا ہے لیکن چپکے چپکے مجھ سے محبت کرتا ہے۔ محلے داری تھی ،امی کی عزت کرتا تھا اس لئے کچھ نہیں کہتا تھا۔ زبان سے اپنی محبت بیان نہیں کرتا تھا۔ آج میری کلائی جلا کر اس نے ظاہر کر دیا کہ اس کو اپنے دل پر اختیار نہیں رہا ہے۔ تبھی ماں کی باتیں یاد آنے لگیں کہ زمانہ خراب ہے ۔ ہاں واقعی لڑ کی لاکھ اچھی ہو مگر ٹکراؤ تو زمانے سے ہوتا ہے اور زمانے میں کتنی خرابیاں چھپی ہوتی ہیں ، یہ لڑکیاں نہیں جانتیں مگر مائیں جانتی ہیں۔ ان دنوں باجی کی شادی ماموں کے بیٹے سے ہو رہی تھی۔ اس وجہ سے میرار وز بازار کا چکر لگتا تھا۔ اکثر میرے ساتھ ہماری پڑوسن خالہ عذرا چلی جاتی تھیں۔ اس روز خالہ کی طبیعت ٹھیک نہ تھی ، سو چا خود ہی چلی جاتی ہوں۔ باجی کے جوڑے درزی کو دینے تھے۔ درزی کی دکان بازار کے شروع میں تھی۔ میں نے بیگ میں کپڑے ڈالے ،اماں کونہ بتایا کہ خالہ عذرا آج میرے ساتھ نہیں چار ہیں اور چپکے سے گھر سے نکل گئی۔ یہ جنوری کادوسرا ہفتہ تھا۔ سردی پڑ رہی تھی ، آج صبح سے بادل بنے ہوۓ تھے۔ابھی میں آدھے راستے میں تھی کہ بارش ہو گئی اور سیکنڈوں میں تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ مجھے کل سے کچھ حرارت محسوس ہورہی تھی۔ سوچا بخار نہ آئے۔ سر میں درد بھی محسوس ہورہا تھا۔ بارش میں بھیگنے سے کپکپی شروع ہو گئی۔ سامنے شرجیل کی دکان تھی۔اس نے مجھ کو برقع سمیت شرابور دیکھا تو دکان سے باہر نکل آیا۔ جدھر سے میں گزر رہی تھی وہ گلی نشیبی تھی ، پانی میری پنڈلیوں سے اوپر آرہا تھا۔ شرجیل دوڑ کر آیا اور میر اہاتھ پکڑ لیا۔ کہا۔ آگے گلی میں گٹر کھلے ہوۓ ہیں ۔ معلوم ہے اگر پاؤں پڑ گیاتواندر چلی جاؤ گی۔ پکڑو میرا ہاتھ ، میں تم کو گلی پار کرادوں ۔اب نخرہ چھوڑو، میں تم کو کھا نہیں جاؤں گا۔ غرض کہ ایسا کہتے ہوۓ اس نے میر اہاتھ پکڑ لیا اور بیچ بیچ کر مجھ کو پانی سے بھری گلی سے نکال لایا۔ اس کی دکان تک آتے آتے سردی سے مجھ پر لرزا طاری ہو گیا۔ آ جاؤ۔ اس نے کہا۔ میں ہیٹر چلاتا ہوں، ذراسا گرمی لے لو، پھر گھر چلی جانا۔ مجھ سے بھی ایک قدم چلا نہیں جارہا تھا۔ میں اس کی دکان کے اندر چلی گئی۔ اس نے ملازم کو کاؤنٹر پر بٹھادیا اور مجھے دکان کے اندر بنے اسٹور میں لے آیا۔ کہا کہ برقع اتار د واور یہ شال پہن لو ، میں ہیٹر لگادیتا ہوں۔اتنے میں اس کا دوست آ گیا۔ وہ بولا۔ یار چاۓ پلاؤ گرما گرم، سردی بہت ہے ، سودا لینے گھر سے نکلا تھا، بارش تیز ہو گئی۔ تمام بھیگ گیا ہوں۔اگر چھتری یا برساتی ہے تو وہ بھی دے دو تاکہ گھر تک جاسکوں۔ تم بیٹھو۔ میں ابھی چھتری لاتا ہوں اور چاۓ بھی گرما گرم گھر سے بنوا کر تھرماس میں لے آتا ہوں۔ یہ کہہ کر شرجیل باہر چلا گیا ۔شرجیل کا گھر نزدیک ہی تھا۔ دوست کو اس نے دکان میں بٹھادیا۔ میں تواسٹور میں بیٹھی تھی۔ سامنے ہیٹر جل رہا تھا۔ شرجیل کے دکان سے نکلتے ہی اس کے دوست نے اٹھ کر اسٹور میں جھانکا، مجھ کو بیٹھادیکھا تو بے دھڑک اندر آ گیا۔ میں گھبرا گئی۔ کہنے لگا۔ گھبراؤ نہیں ، تم بھی سردی اتار نے دکان میں آ بیٹھی ہو نا، میں بھی سردی کی وجہ سے ادھر آ گیا تھا۔ ابھی چاۓ آ جاتی ہے ۔ پیتے ہی ٹھنڈ اتر جاۓ گی۔ یہ کہہ کر وہ ہیٹر کے سامنے پڑے اسٹول پر چڑھ بیٹھا اور ہاتھ پاؤں تاپنے لگا۔ مجھ کو اس کا یہ بے تکلفانہ انداز بہت کھلا گر چپ تھی۔ مجبور خاموش بیٹھی رہی۔ سو چاد و چار منٹ اس برداشت کرنا پڑے گا۔ میرے کہنے سے تو یہ دفع ہو گا نہیں اور نوکروں کے کان کھڑے ہو جائیں گے ۔اس شخ کے اسٹور میں داخل ہوتے ہی میں نے شال سے منہ کو ڈھانپ لیا تھا۔ آپ پر دہ نشین ہیں بے شک پورا چہرہ ڈھانپ لیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ اسٹور خاصا بڑا تھا۔ وہاں کرسیاں اور پلنگ پڑا ہوا تھا۔ گویا یہ شرجیل کے آرام کرنے کا کمرہ تھا۔ میں ہمیٹر کے سامنے سے اٹھ گئی اور پلنگ پر جابیٹھی تا کہ اس شخص سے دوری رہے ۔ باہر بارش کے گرنے کی آواز آرہی تھی ، لگتا تھا کہ اور تیز برسنے لگی ہے۔ اچانک بجلی چلی گئی اور اسٹور میں اند ھیرا ہو گیا۔ ہیٹر بھی بند ہو گیا۔ تبھی وہ شخص اٹھ کھڑا ہوا۔ کہنے لگا۔ میں باہر جارہا ہوں۔ ابھی لائٹ بھجواتا ہوں۔ میں نے شکر کیا کہ خود ہی دفعان ہورہا ہے۔ وہ دروازے تک گیا ہی تھا کہ اندر سے چٹخنی چڑھانے کی آواز سنائی دی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتی وہ میرے قریب آ چکا تھا، تبھی اس نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور ایسی گھٹنا گزرگئی کہ جو عمر بھر کاروگ ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ میرے حواس درست ہوتے وہ دروازہ کھول کر جا بھی چکا تھا۔ اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد شرجیل چاۓ کی تھرماس لے کر آ گیا۔ نوکر نے اس کو بتادیا کہ آپ کے دوست ابھی ابھی چلے گئے ہیں۔ جب وہ تھرماس لے کر اندر آیاتو میں روتے ہوۓ کپکپار ہی تھی۔اس نے بیٹری لائٹ دکان سے لا کر اسٹور میں رکھی اور کہا کہ ابھی تک کانپ رہی ہو۔ او چاۓ پی لو۔ میں تم کو گھر پہنچا آتا ہوں۔ بڑے بھائی کی گاڑی لے آیا ہوں۔ بجلی جانے سے ہیٹر تو بند ہو گیا، بھلا سردی کیسے اترتی۔ میں نے چاۓ نہ پی۔ بڑی مشکل سے بس اس قدر کہہ پائی۔ مجھے تیز بخار چڑھ گیا ہے۔ تم مجھے گھر پہنچادو۔ تم نے اتنی دیر لگادی، اکیلا مجھے چھوڑ کر جانے کی کیا ضرورت تھی۔ دوست نے چاۓ کا کہا تو سوچا کہ تمہارے لئے گھر سے بھیا کی گاڑی بھی لیتا آؤں گا۔ اس کو میں نے اس کے دوست کے بارے میں نہ بتایا اور یہ بھی نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوا شرجیل نے بہت اصرار کیا ، ایک کپ چاۓ پی لوں ، مگر مجھ سے چاۓ کیا پی جاتی ،میر اتو سانس لیناد شوار ہو رہا تھا۔ شرجیل نے مجھے گھر کے سامنے اتارا، وہاں بھی کافی پانی تھا۔ جب میں گھر کے اندر چلی گئی تب اس نے گاڑی اسٹارٹ کی۔اماں نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ میں جانتی تھی کہ تم بھیگ گئی ہو گی ۔ آج بادل بنے ہوئے تھے نہ ہی جاتیں تو اچھا تھا۔ عذرا بے چاری بھی تیرے ساتھ خوار ہوئی ہو گی میں نے ماں کی بات کا جواب نہیں دیا۔ کمرے میں جاکر گیلے لباس کو تبدیل کیا اور لحاف میں گھس گئی۔ لحاف میں گھستے ہی میں بے ہوش ہو گئی جیسے کسی ڈرائونے خواب سے ڈر گئی ہوں۔ ہوش آیا تو کبھی ڈرائونے خواب کا اثر قائم تھا۔ پلکیں بھیگی ہوئی تھیں۔ جانے کب تک یہ پلکیں تکیے کو بھگوتی رہیں۔ایک بارش آسمان سے گر رہی تھی اور ایک برسات میری آنکھوں سے ہورہی تھی۔ نجانے کب نیند نے مجھ پر ترس کھا یا اور مجھے اپنی آغوش میں لیا۔ اس کے بعد میری زندگی کا دھارا، سوچ، سمجھ ، سدھ بدھ ہر شے بدل گئی ، جس نے مجھے لوٹا میں تو اس کا چہرہ بھی نہ دیکھ پائی تھی۔ جانے یہ کس جرم کی سزا تھی جو مجھے ملی ۔اتنی بزدل ہو گئی کہ شرجیل تک سے نہ کہہ سکی کہ تم کیوں مجھے اپنی دکان میں لے گئے تھے ۔اس سے تو اچھا تھا کہ میں دکان کے باہر گر پڑتی اور سردی سے مر جاتی۔ اس روز کے بعد میں نے شرجیل کی منحوس دکان میں جانا چھوڑ دیا۔ اس دکان کے سامنے سے گزرنے سے مجھ کو وحشت ہوتی تھی۔ کبھی میر امنگیتر آ جاتاتو میں کمرے میں چھپ جاتی۔ مجھ میں اس کا سامنا کرنے کی ہمت نہ رہی تھی۔ وہ بچپن سے میرا منگیتر تھا، مجھ سے محبت کر تا تھا۔ وہ اور میں کئی بار گھر میں اکیلے بھی رہے تھے لیکن کبھی اس نے میلی آنکھ سے نہ دیکھا۔ وہ مجھ کو اپنی عزت سمجھتا تھا۔ وہ حیران تھا کہ اس کو کیا ہو گیا ہے۔ وہ دن بھی آ گیا جب میں نے اپنے اندر گھبراہٹ کو محسوس کیا۔ مشرف نے مجھے دیکھا تو تاڑ گیا کہ کوئی غیر معمولی بات ہو چکی ہے۔ امی سے کہا کہ چلئے میرے ساتھ ۔ ہم سونیا کو ڈا کٹر کے پاس لے چلتے ہیں ، مجھے یہ بیمار لگتی ہے ۔ ماں اس کی باتوں میں آگئی اور دونوں اصرار کر کے مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر نے مجھ کو دیکھنے کے بعد ماں سے کہا کہ دیر مت کرو اور اس کی جلد از جلد شادی کر دو۔ یہ ہی آپ لوگوں کے حق میں بہتر ہے ۔ گھر آکر مشرف نے مجھ سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ کیا تمہارے ساتھ دھوکا ہوا ہے ؟ تم کو کس نے بر باد کیا ہے ؟ میں نے زبان نہ کھولی تو اس نے مجھ سے شادی سے انکار کر دیا۔ ماں کو بڑا صدمہ ہوا، وجہ پوچھتی رہیں مگر اس نے وجہ بھی نہ بتائی ماموں کے ایک دوست کی معرفت میرا ایک اور رشتہ آ گیا۔ ماموں مشرف کے انکار کی وجہ سے غمزدہ تھے ۔انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ دوسرار شتہ آیا ہے۔ آدمی شریف اور خوشحال ہے مگر عمر میں تم سے بارہ ، پندرہ سال بڑا ہے ، تم کو اعتراض نہ ہو تو ہم اس کو ہاں کہہ دیں۔ میں نے جواب دیا۔ آپ جو فیصلہ کر یں گے ، مجھے منظور ہوگا۔ ماموں اور امی نے جھٹ پٹ مجھ کو اس شخص سے بیاہ دیا کہ کیا خبر اور رشتہ کب ملے ۔ شادی کی رات میں ڈری سہمی بیٹھی تھی کہ اب میرا کیا بنے گا۔ میرے دولہا نے گھونگھٹ اٹھاتے ہی کہہ دیا۔ میں شادی کے قابل نہ تھا مگر ماں نے مجبور کر دیا۔ تم میرا یہ راز کسی پر ظاہر نہ کرنا۔ میں نے وعدہ کر لیا کہ میں کبھی آپ کاراز فاش نہ کروں گی۔ میں نے اس پر رحم کیا تو اس نے بھی مجھ پر رحم کیا اور میر ار از کسی پر فاش نہ کیا، کیو نکہ میں نے اپنے اوپر گزری قیامت کا واقعہ اس کو بتادیا تھا۔ اس نے کہا۔ میں تم کو عمر بھر اولاد نہ دے سکتا تھا، مگر خدا کے کاموں میں کسی کادخل نہیں۔ عورت پھر عورت ہوتی ہے۔ وہ ماں بنتی ہے تو سب کچھ بھول جاتی ہے۔ میں بھی شان کو پا کر اپنی بھول کو بھول گئی ، لیکن یہ میری بھول نہ تھی۔ میں مجرم تھی اور نہ گنہگار ۔ جو مجرم تھا مجھے یقین ہے کہ وہ ضر ور خدا کی پکڑ میں آ یا ہو گا۔ میرے لئے تو خدا نے میرے شوہر کو فرشتہ بنا کر مجھ سے ملادیا، جس نے مجھے اور سلمان کو قبول کر لیا کیونکہ اس نے مجھ سے پہلے روز التجا کی تھی کہ میر ابھرم رکھنا اور میں نے اس کا بھرم رکھا۔۔ کیو نکہ مجھ کو بھی تو اس سے یہی کہنا تھا کہ تم بھی میر ابھرم رکھنا۔ سو ہم دونوں نے ایک دوسرے کا بھرم رکھا۔ میری ساس ، ہماری شادی کے چھ ماہ بعد وفات پاگئیں ، وہ کینسر کی مرئضہ تھیں۔ میرے شوہر نے پندرہ سال تک شان کا خرچہ اٹھا یا پھر وہ وفات پاگئے۔ امی بھی اللہ کو پیاری ہو چکی ہیں مگر میں شان کے سہارے زندہ ہوں۔اس کے لئے جیتی ہوں۔ سوچتی ہوں کہ میرے رب کے فیصلے نیارے ہیں۔ جب وہ کسی کو بچانا چاہتا ہے تو کیسے کیسے سبب بنادیتا ہے۔ خدا نے میری عزت رکھی۔ میرے شوہر کی بھی عزت رکھی اور ہم دونوں کو ایک دوسرے کی چادر بنادیا کہ ہم کور سوا نہ کیا۔ وہ کتنی بڑی عظیم الشان ہستی ہے کہ بڑے بڑے عیب ڈھک لیتی ہے اور ہم انسان کتنے چھوٹے ہیں جو تنکے کو بھی شہتیر بنادیتے ہیں ۔ آج شان زندہ ہے ۔ خدا کی شان ہے ، خدا کی دی ہوئی زندگی جی رہا ہے ، خدا نے اس کو بھی اس دنیا میں آنے دینا تھا، زندور کھنا تھا۔ تو ہی میری اور وحید کی شادی ہمارے مقدر میں لکھ دی ور نہ جانے کیا حالات ہوتے کہ میں بھی زند درہتی یا نہیں۔ نجانے ہم لڑکیوں کی تربیت پر تو زور دیتے ہیں پر لڑکے کیوں اس سے محروم رہ جاتے ہیں – میرے غلطی یہ ضرور تھی کہ مجھے سیدھا گھر جانا چاہیے تھا نہ میں شرجیل کی دکان پر جاتی نہ یہ سب ہوتا –