ان دنوں عمر سولہ سترہ برس تھی، اچھے برے کی تمیز اور دنیا کو برتنے کا ڈھنگ نہیں آیا تھا۔ سوچوں میں گہرائی نہ تھی کہ زندگی اور مستقبل کے فلسفے کو سمجھتی ۔ بس اچھی شکلوں پر مرمٹنے کو جی چاہتا تھا۔ یہ عمر کا وہ دور تھا جب دل کو ساتھی تلاش ہوتی ہے۔ میں بھی بے مقصد نہیں جھانکتی تھی۔ نظریں کسی حسین ساتھی کی آرزو میں بے قرار رہتی تھیں اور میری بھولی ماں میری نظروں کا مفہوم نہ سمجھتی تھیں۔ تبھی انہوں نے کبھی چھت پر جانے سے منع نہیں کیا۔ ان کا خیال ہو گا یہ اور تو کہیں آتی جاتی نہیں، ایک چھت ہی تو ہے، کھلی فضا میں سانس لے لے۔
یہ اتوار کا دن تھا۔ کافی دنوں سے سامنے والی بلڈنگ میں بالائی منزل پر جو فلور خالی تھا، آج وہاں زندگی کے آثار نظر آئے۔ ایک خوبرو نوجوان گیلری سے جھانک رہا تھا۔ اچانک اس نے نظر اوپر اٹھائی اور مجھے چھت کی منڈیر سے اپنی جانب تکتے پایا۔ بے اختیار وہ معنی خیز انداز میں مسکرادیا اور میں جھینپ کر پیچھے ہو گئی، پر اب چین کہاں تھا۔ ذرادیر بعد پھر جھانکا۔ اس شوخ نے خوش دلی سے ہاتھ ہلا دیا۔ میری نوید سے شناسائی بس ایسے ہی ایک جھلک سے شروع ہو کر ایک مکمل داستان پر ختم ہوئی، مگر میری زندگی کا یہ سفرمنزل پا لینے کے باوجود بھی نامکمل رہ گیا۔ ایک روز جبکہ چھت سے جھانک رہی تھی اور نوید مجھے اشارے کر رہا تھا، میری شامت اعمال والد صاحب گلی سے نمودار ہو گئے۔ وہ گھر کی جانب آرہے تھے۔ میں تو اپنی دنیا کی رنگینی میں کھوئی ہوئی تھی، ان کے آنے کا احساس نہ ہوا لیکن ابو نے مجھ کو نگاہوں کی زبان میں نوید سے گفتگو کرتے دیکھ لیا۔ گھر آئے تو والدہ سے پوچھا۔ سلطانہ کدھر ہے۔ چھت پر ہو گی یا یہیں کہیں ہو گی۔انہوں نے شان بے نیازی سے جواب دیا اور اپنے کام میں مصروف ہو گئیں۔ صغرا بیگم ! کمال ہے تم جوان بیٹی کی ماں ہو اور تم کو خبر ہی نہیں کہ تمہاری بیٹی کہاں ہے۔ اگر چھت پر بھی ہے تو اس بھری دو پہر میں وہاں کیا کر رہی ہے ؟ اب مجھے کیا خبر بھئی … میں تو کچن میں کھانا بنانے میں مصروف ہوں۔ کھانے کو چھوڑو اور بیٹی کی خبر لو۔ چھت پر جاؤ د یکھو تو وہاں کڑکتی دھوپ میں کیا کر رہی ہے۔ والد صاحب کے سخت تیور دیکھ کر امی اوپر آنے کو زینے پر چڑھنے لگیں۔ ان کے قدموں کی آواز پر میرے کان کھڑے ہو گئے۔ زینے پر پہنچ گئی کہ ان کے چھت تک پہنچنے کی نوبت نہ آئے۔ چلو تمہارے ابو آ گئے ہیں اور تم کو پوچھ رہے ہیں۔ میرا دل دھڑک اٹھا۔ خدا نہ کرے مجھے نوید سے اشاروں میں باتیں کرتے تو نہیں دیکھ لیا۔ دل درست خدشے سے دھڑکا تھا۔ انہوں نے ڈپٹ کر پوچھا۔ اتنی تپش ہے اس وقت چھت پر کیا کر رہی تھیں۔ کیا سامنے کی بلڈ نگ میں تمہاری کوئی سہیلی رہتی ہے؟
ان کا ذو معنی جملہ مجھے تازیانے کی طرح لگا اور میں نے جھرجھری لی۔ نہیں تو ابو … ! بس اسی قدر کہہ سکی۔ وہ بھی اس وقت تو غصہ پی گئے لیکن ان کے دل میں جس خدشے نے سر اٹھایا تھا، اس نے ایک ایسی فکر کا روپ دھار لیا جو تپ دق کی مانند بابا جانی کی ہڈیوں کو گھلانے لگی۔ والدہ کچھ ٹھنڈے مزاج کی تھیں اور بالکل بھی عجلت پسند نہ تھیں۔ جو کام مائوں کا ہوتا ہے ، وہ بھی والد صاحب نے خود سر انجام دینے کی ٹھان لی۔ وہ دن، رات مجھے بیاہنے کی چارہ سازی میں لگ گئے۔ قریبی دوستوں سے ذکر کیا کہ میری بیٹی کا رشتہ تلاش کرنا ہے۔ خاندان میں اس کے لئے کوئی اچھار شتہ موجود نہیں ہے۔ آدمی کسی جستجو میں لگ جائے تو کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔ ایک دوست کے توسط سے والد صاحب کو بھی میرے لئے مناسب رشتہ مل گیا۔ ایک روز والد کے دوست شاکر صاحب کی بیگم ہمارے گھر آئیں۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور پسند کر لیا۔ جب والدہ نے آگاہ کیا کہ تمہارے ابو نے ایک لڑکا پسند کر لیا ہے تو میں پریشان ہو گئی، تاہم ماں کی تسلی کو کہا۔ مجھے اس لڑکے کی فوٹو تو دکھائے، تبھی ہاں کروں گی۔ اگلے روز امی نے ایک فوٹود کھائی۔ موصوف کی شکل ایک آنکھ مجھ کو نہ بھائی۔ ذرا بھی خوبصورت نہ تھے اوپر سے کچھ پختہ عمر لگتے تھے کہ سر پر بال بہت کم تھے۔ دیکھتے ہی میں نے فوٹو کو پرے پھینک دیا اور کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا۔ توبہ … توبہ ! کیا آپ کو میرے لئے یہی بر جڑا ہے ؟ ہر گز اس سے شادی نہ کروں گی۔ مر جانا پسند کروں گی۔ اماں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ انہوں نے یہ کہہ کر مجھ کو مزید اس معاملے پر بحث کرنے سے روک دیا کہ تمہارے ابا آجائیں تو ان سے بات کروں گی۔اگلے روز جب ابو دفتر چلے گئے۔ ماں نے کہا۔ میں نے بات کی ہے۔ انہوں نے یہی سوال کیا کہ بیٹی سے پوچھو انکار کی کیا وجہ ہے ؟ محض صورت ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ اصل شے سیرت ہوتی ہے۔ اماں ! سیرت کے ساتھ لڑکی، لڑکے کی پسند کو بھی تو خاطر میں رکھنا پڑتا ہے۔ تو کوئی پسند ہے تیری؟ بتادے یہ بھی میں تیرے باوا سے پوچھ لوں گی۔ سوچا موقع اچھا ہے ، ماں کے کان میں ڈال ہی دوں۔ ایسا نہ ہو بعد میں کہیں میں نے تو پوچھا تھا لیکن تم نے ہی اپنی پسند نہ بتلائی۔ ماں … سامنے والی بلڈ نگ میں جو لوگ آئے ہیں، ان کا لڑکا ہے۔ نوید نام ہے۔ میں زیادہ نہیں جانتی لیکن مجھے وہ لڑکا پسند ہے۔ وہ بھی مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ ابا سے کہیں میرا رشتہ اس کے ساتھ کر دیں۔ لڑکا کون ہے، کیا کرتا ہے، کس خاندان سے ہے ؟ ارے بھئی کچھ تو معلوم ہو۔ مجھے نہیں معلوم اماں … ! میں اس سے ملتی تھوڑی ہوں، بس چھت سے ہم بات کر لیتے ہیں۔ وہ نئے لوگ آئے ہیں اور معلومات لینا تو ابا کا کام ہے۔
امی نے اپنا کہا نبھا دیا۔ میری پسند سے ابو کو آگاہ کر دیا۔ وہ تو چراغ پا ہو گئے کہ سب جانتا ہوں، مجھے معلومات لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہاں کوئی فیملی نہیں بلکہ ایک لڑکا تنہا رہتا ہے ، کرائے پر فلیٹ لیا ہے۔اس کے گھر والوں کا اتا پتا کیا معلوم کروں، مجھے وہ سرے سے پسند نہیں ہے۔ اوباش لگتا ہے ، اس کی فیملی بھی ہوتی تب بھی وہ مجھے قبول نہیں ہوتا۔ جو رشتہ شاکر صاحب کے توسط سے آیا ہے ، وہ ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ بیٹی کو سمجھا دو کہ یہ تاک جھانک کا سلسلہ بند کر دے، ورنہ ایسی مار ماروں گا کہ بچے گی نہیں۔ اماں مجھے کیا بتاتیں، وہ یہ سب بلند آواز کے ساتھ گرج برس کر کہہ رہے تھے کہ اب ان کا کہا پتھر کی لکیر ہے اور مزید کچھ کہنے سننے کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ کسی اجنبی سے رشتہ نہ کریں گے۔ اگلے روز شام کو شاکر صاحب کے ہمراہ ان کے عزیز اور میرے رشتے کے طالب قیوم صاحب اور ان کے صاحبزادے بھی تشریف لے آئے۔ ان لوگوں کو والد صاحب نے چائے پر بلایا تھا تا کہ امی بھی لڑکے کو دیکھ لیں۔اس سے بات چیت کر لیں کہ ماں کی تسلی بھی ہونی چاہئے۔ والدہ نے بات چیت کر لی اور انہیں بھی فہد پسند آ گیا بلکہ وہ تو اس رشتے کی زیادہ طرف دار ہو گئیں۔ جب یہ لوگ ڈرائنگ روم میں تھے، میں چھت پر گئی اور ان لوگوں کو جاتے ہوئے دیکھا۔ پہلی ہی نظر میں مجھے یہ شخص بے حد بر الگا جو کہ اس گھر کا متوقع داماد تھا۔اس وقت سوچ لیا کہ جان دے دوں گی مگر شادی اپنے خوابوں کے شہزادے نوید سے کروں گی جو اس قدر خوبصورت اور ہینڈسم تھا جیسے کسی ملک کا پرنس ہو۔ جب ابلتے چشمے کو راستہ نہ ملے تو وہ پہاڑ کو شق کر ڈالتا ہے۔ میں نے بھی عجلت میں ایک خط لکھ کر نوید کی طرف اچھال دیا۔ وہ دوڑ کر آیا اور خط گلی سے اٹھا لیا۔ خط میں تمام احوال درج کر کے استدعا کی تھی۔ کسی طرح ایک بار ملو تا کہ ہم اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لیں۔ ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔ شام کو اس نے گیلری سے قریبی پارک کی جانب اشارہ کیا اور دو انگلیوں سے گیارہ بجے کا وقت بتایا۔ والد صبح دفتر چلے جاتے۔ میں نے کبھی امی سے نہ کہا تھا کسی سہیلی کی طرف جانا ہے۔ پہلی باران کی منت کی کہ رافعہ سے ملنا ہے ۔ وہ بولیں۔ ذرا کام سے فارغ ہولوں تو چلتی ہوں۔ آپ کبھی بھی فارغ نہیں ہو سکتیں کیونکہ آپ کے کام تو ختم ہونے میں نہیں آتے۔ تب تک ابو کے گھر لوٹ آنے کا وقت ہو جائے گا۔ رافعہ کا گھر نزدیک ہی تو ہے ، ساتھ والے پارک کے پاس ! بھولی ماں کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ میری منت سے باتوں میں آگئیں۔ بولیں۔ اچھا جائو لیکن جلدی واپس آجانا۔ آدھ گھنٹے سے زیادہ دیر نہ لگانا، ورنہ میں خود تم کو لینے رافعہ کے گھر آجائوں گی۔ خدا کا شکر ادا کیا۔ دوڑی ہوئی کمرے میں گئی، جلدی سے لباس تبدیل کر کے گھر سے نکل گئی۔ پارک کاراستہ صرف پانچ سات منٹ کا تھا۔ وہ پہلے سے منتظر تھا۔
پہلی بار ملی تھی، روبرو ایک دوسرے سے قریب، ایک دوجے کو دیکھ رہے تھے۔ میری مسرت کا کوئی کنارہ نہ تھا لیکن جس خوف سے یہ جرات کی تھی،اظہار ضروری تھا۔ اس نے کہا۔ مجھ سے بچھڑنے کا ڈر ہے تو مضبوط قدم اٹھانا ہو گا۔ کہو تو تمہارے والد سے رشتے کی بات کروں، وگرنہ میرے ساتھ چلو، کورٹ میں نکاح کر لیتے ہیں۔ وہ رشتہ نہ دیں گے ۔ ابو فیصلہ کر چکے ہیں، فہد سے ہی رشتہ کریں گے ۔انہوں نے وہاں ہاں کہہ دی ہے۔ تو پھر کیا کرنا ہے… کورٹ میرج ؟ کچھ سوچ کر میں نے سر جھکا لیا۔ دیکھو میں تن تنہا ہوں، اپنے بزنس کے سلسلے میں یہاں رہ رہا ہوں۔ میرا کوئی رشتہ دار نہیں ہے، نہ بزرگ کہ تمہارے ابا سے رشتہ لینے آئے،البتہ دوا ایک دوست ہیں، وہ آسکتے ہیں میرے ساتھ ! بس رہنے دو ابا کہیں گے کہ خاندان کا اتا پتا نہیں اور چلے آئے ہو رشتہ مانگنے۔ کیارشتے یوں طے ہوتے ہیں۔ مجھے پتا ہے کہ وہ ایسا ہی کہیں گے ۔ دو تین دن سوچ بچار میں گزر گئے۔ ادھر اماں باوا میری شادی کے تذکروں میں لگے تھے۔ ادھر میں نوید کے ساتھ ہمیشہ زندگی گزارنے کے خواب بن رہی تھی۔ آخر اس کے ہمت دلانے پر ایک رات جبکہ امی، ابو سور ہے تھے، چپکے سے در کھول کر نکل آئی اور اس کی کار میں بیٹھ کر ہمیشہ کے لئے گھر چھوڑ دیا۔ یوں والدین کی بے خبری میں ان کی مرضی کے خلاف اپنی پسند کی شادی کر لی۔ نوید نے اس واقعے سے چند دن قبل سامنے والا فلیٹ چھوڑ دیا تھا۔ وہ اس دوسرے فلیٹ میں مجھے لے آیا جو کرائے پر لے لیا تھا۔ نوید سے کورٹ میرج کر کے خوش تھی۔ گرچہ والدین کو دھوکا دینے کا قلق ضرور تھا مگر اس وقت اپنی خوشی اور اپنے خواب زیادہ عزیز تھے۔ نوید نے کوئی کمی نہ کی، اچھا کھلایا پلایا، روز شام کو سیر پر جاتے۔ یہ فلیٹ ہمارے گھر سے کافی دور ایک پوش علاقے میں تھا۔ مجھ کو اپنے شوہر کے ساتھ کبھی خرچے کی تنگی محسوس نہ ہوئی، لیکن اس بات کا بھی علم نہ تھا کہ وہ کیا کام کرتے ہیں، بس یہی کہتے تھے کہ ایک چھوٹا موٹا اپنا بزنس ہے۔ تم کو میرے بزنس کی تفصیل جاننے سے کیا غرض، تمہیں تو بس خرچے سے مطلب ہونا چاہئے ، وہ تم کو مل جاتا ہے۔ چار سال سکون کے گزر گئے۔ ایک بار نوید سے چھپ کر امی سے فون پر بات کی۔ فون رافعہ کے گھر لگا ہوا تھا۔ اس کو منت کر کے کہا۔ امی کو بلا لائو۔ والدہ نے مجھ سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔
اب میں دو بیٹیوں کی ماں بن چکی تھی۔ جس فلیٹ میں ہم رہتے تھے ، اس کے برابر والے فلیٹ میں ایک عمر رسیدہ نرس مریم رہا کرتی تھی۔ جب بچیوں کی پیدائش ہوئی، اس کو بلا لیتی۔ وہ میرے شوہر کی بہن بنی ہوئی تھی اور نوید اس کو مریم آپا بلاتے تھے۔ نوید چلے گئے اور پھر ان کی خبر نہ آئی۔ آپا کو پتا تھا کہ وہ کسی ایجنٹ کے ذریعے گئے ہیں۔ انہوں نے اس آدمی کا کھوج لگایا اور پوچھا کہ نوید کو گئے ایک ماہ ہو گیا ہے ، کوئی خیر خبر نہیں آرہی۔ تب اس نے بتایا کہ وہ غیر قانونی طریقے سے جانے کی وجہ سے پکڑے گئے ہیں اور انہوں نے ان کو قید کر لیا ہے ، وہ دیار غیر میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ تین سال گزر گئے نوید لوٹے، نہ کوئی رابطہ کیا۔ میں کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گئی۔ دو چھوٹی بچیوں کا ساتھ تھا، زیادہ پڑھی لکھی نہ تھی کہ نوکری کر لیتی۔ آپا خود بیوہ تھی اور ایک اسپتال میں جزوقتی کام کرتی تھی۔ بیچاری کی تنخواہ ہی کیا تھی۔ اس کی اپنی مشکل سے پوری ہو رہی تھی پھر بھی جہاں تک بن سکا، سہارا دیا۔ آخر جمع پونجی ، زیور سب ختم ہو گیا۔ میں فلیٹ کا کرایہ دینے سے بھی قاصر تھی۔ ایک روز مالک مکان نے میر اسامان باہر نکلوادیا۔ رہنے کا بھی آسرا نہ رہا۔ آپا نے رحم کھا کر مجھے کچھ دنوں کے لئے اپنے گھر میں رکھ لیا مگر یہی کہا کہ اب تم خود اپنے قدموں پر کھڑی ہونے کا چارہ کرو، میں تم کو مستقل سہارا نہیں دے سکتی۔ نوکری کی تلاش کو نکلی، گھریلو کام کے لئے ملازمہ جیسی نوکری ہی کر سکتی تھی، وہ بھی نہ ملی۔ دو چھوٹی بچیوں کا ساتھ تھا جن کی وجہ سے کوئی مجھے اپنے گھر ملازمہ رکھنے پر بھی تیار نہ تھا، جبکہ بچیاں دودھ کے لئے روتی تھیں۔ ایک کوٹھی میں ملازمہ ہونے کے لئے گئی۔ یہ کسی فوٹو گرافر کا گھر تھا۔ اس نے مجھے بغور دیکھا۔ کہنے لگا۔ اگر ماڈلنگ پر تیار ہو جائو تو ملازمت مل سکتی ہے ، سرونٹ کوارٹر بھی رہنے کو مل جائے گا۔ تم بہت خوبصورت ہو۔ ایسا چہرہ لاکھوں میں ایک ہوتا ہے۔ دنوں میں مفلسی دور ہو جائے گی ۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب لڑکیوں کے لئے ماڈلنگ اور اداکاری معیوب سمجھی جاتی تھی لیکن میری مجبوری تھی۔ پیٹ میں روٹی تھی اور نہ سر پر چھت…. راضی ہو گئی۔ اس نے میرے چند فوٹو لئے اور پھر مجھ پر دولت کے در کھل گئے۔ قسمت نے یوں ماڈل گرل بنا دیا۔ مجھ کو کسی شے سے بھی زیادہ اپنی بچیوں کا پیٹ پالنا مقدم تھا۔ یہ میری اشد ضرورت اور مجبوری تھی۔ پھر ان کی اچھی تعلیم کی خاطر روپوں کی حاجت تھی۔ میں دولت کمانے کی مشین بنتی گئی اور وقت گزرتا گیا۔ اب ایک کوٹھی کی مالک تھی، بچیاں بڑی ہو رہی تھیں۔ وہ اچھا کھاتیں، بہترین پہنتیں اور اعلیٰ تعلیمی ادارے میں پڑھ رہی تھیں۔ ان کے شاندار مستقبل کی خاطر میں نے کسی بات کی پروانہ کی۔ ان کے لئے گھر میں نوکر، آیا، خانساماں تھے اور میرے وارڈروب نت نئے فیشن ڈیزائن کے ملبوسات سے بھرے تھے۔ اب میں ایک نئی جگمگ کرتی دنیا میں تھی جہاں امارت کی چکا چوند غریبوں کو شرماتی تھی، دولت کی ریل پیل تھی۔ میرے اشاروں پر مشہور مصنوعات بنانے والی کمپنیاں دولت میرے پائوں میں رکھتی تھیں۔
سبھی کچھ مل گیا مگر نوید نہ تھے اور ان کی یاد میرے دل میں ہر دم چٹکیاں لیتی تھی۔ مجھ کو ان سے واقعی محبت تھی۔ ان کے ساتھ گزارے دن جنت کا خواب معلوم ہوتے تھے۔ جب شوہر سے جدائی کا خیال روح کو مجروح کرتا تو دل بے بس ہو جاتا۔ وہ موسم سرما کی ایک سرد رات تھی۔ سات سال بعد مریم کے ہمراہ اچانک نوید آگئے۔ مریم میرا گھر جانتی تھی۔ ان کو سامنے دیکھ کر آنکھوں پر یقین نہ آرہا تھا۔ سوچ رہی تھی جب صبح بچیاں اپنے باپ کو دیکھیں گی تو ان کا کیا رد عمل ہو گا، خوشی سے پاگل ہو جائیں گی۔ نوید کو تمام رات اپنے اوپر گزرے دکھوں کا ایک ایک لمحہ بتاتی رہی۔ میں نے کہا۔ مجھے معاف کر دو، یہ سب مجبوراً کیا ہے۔ اب تم آگئے ہو تو ہر گز گھر سے قدم نہیں نکالوں گی، میں ماڈلنگ ترک کر دوں گی اور اپنی بچیوں کے لئے ایک مثالی ماں بن جائوں گی۔ ہم ایک نئے دور کا آغاز کریں گے۔ یقین تھا کہ نوید اب ہمارے لئے کچھ کریں گے۔ میری اور میری بچیوں کی خاطر … انہوں نے مجھے معاف کر دیا اور کہا کوئی بات نہیں تم نے ماڈلنگ کی ہے اور میں دنیا گھوم آیا ہوں۔ کوئی بھی کام برا نہیں، بشرط یہ کہ آدمی خود برا نہ ہو۔ دنیا گھومنے سے میرے خیالات میں تبدیلی آگئی ہے ۔ وہ ہمارے ساتھ کوٹھی میں رہنے لگے لیکن ان کو اب بیکار بیٹھنے سے غرض تھی، کمانے سے کوئی سروکار نہ رہا تھا۔ کہتے تھے بھٹکتے بھٹکتے تھک گیا ہوں، اب ذرا آرام کرنا چاہتا ہوں، سستانا چاہتا ہوں، مجھے سانس لینے دو۔ انہوں نے اتنا لمبا آرام کیا تھا کہ کمانے جو گے نہ رہے۔ آرام کی سانسیں ہی راس آ گئیں۔ مجھے کہتے ۔ ماڈلنگ نہ چھوڑنا، اب اتنی محنت کر چکی ہو، اپنے پیشے کو ترک مت کرنا۔ وقت ٹھہرتا نہیں۔ میں بھی سن رسیدگی کی طرف جارہی تھی، حسن میں وہ کشش وہ بات نہ رہی تو میں نے کام چھوڑ دیا کیونکہ نئی، خوبصورت ، تازہ رو لڑکیاں آرہی تھیں۔ ان کی مانگ تھی۔ مجھ ادھیڑ عمر کا کیا کام ! ایسے میں عزت سے گھر بیٹھ جانا بھلا تھا۔ بچیاں جوان ہو گئی تھیں۔ جب کمائی کا راستہ بند ہوتا گیا۔ نوید کو پھر سے جگانے لگی کہ بہت ہو چکا آرام ، اب تم کچھ کام کرو۔ ہاتھ ، پیر ہلائو ، تم مرد ہو۔ کما کر کھلانا اور گھر چلانا تمہاری ذمہ داری ہے۔ میں نے تو آدھی زندگی گنوادی ہے۔ وہ میری زندگی کی بچی کچھی خوشیوں اور امید کا آخری دن ثابت ہوا جب اس نے کھل کر کہہ دیا۔ میں کچھ نہیں کر سکتا، کوئی کام نہیں آتا۔ مجھے کمانے کی عادت نہیں رہی ہے۔ ہم اپنی بیٹیوں کو ماڈلنگ کے میدان میں لے آتے ہیں۔ یہ تم سے زیادہ خوبصورت ہیں، نوخیز چہروں کی مانگ ہوتی ہے نا! تم آرام کرو، یہ تمہاری جگہ لے لیں گی۔ بیٹیوں کے باپ کے اس ارادے پر میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ کیا اسی خاطر میں نے کٹھن راستہ چنا تھا اور اتنے کشٹ اٹھائے تھے۔ اب میرے چمن کی ان نوخیز کلیوں پر ان کے باپ کی نظر تھی کہ یہ کمائیں گی اور وہ کھائے گا۔ جب بھرم کا رشتہ ٹوٹ گیا تو میں نے بھی طلاق حاصل کر کے جان چھڑالی تاکہ بچیوں کو وقت پر ان کے گھروں کا کر سکوں۔