Sunday, September 15, 2024

Bhatakne Say bacha Liya | Teen Auratien Teen Kahaniyan

میر ی شادی کو ایک ماہ گزرا تھا اور ابھی تک ہم کہیں سیر و تفریح کو نہیں نکلے تھے۔ ان دنوں شہر میں ایک سرکس کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ زید نے کہا۔ شیریں کیا تم سرکس دیکھو گی۔ میں نے خوشی سے نہال ہوکر جواب دیا۔ ہاں زید مجھے سرکس دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ کبھی ابو نے اجازت نہ دی تو یہ آرزو دل میں رہ گئی۔ میں پوری کروں گا تمہاری یہ آرزو… آج شام چلیں گے۔ تیار رہنا۔ وہ یہ کہہ کر کام پر چلے گئے اور میں بے چینی سے شام کا انتظار کرنے لگی ۔
ہمارا شہر چھوٹا سا تھا۔ یہاں تفریح کا کوئی سامان نہ تھا۔ سینما گھر بھی نہ تھے لے دے کر سال میں ایک بار بیساکھی کا میلہ لگتا تھا یا پھر سرکس آتا تھا۔ البتہ سرکس میں کبھی کبھار کچھ روشن خیال لوگ اپنی خواتین کو لے جاتے تھے۔
رات کے آٹھ بجے تھے جب ہم سرکس پہنچے۔ دوگھنٹے بعد واپس جانا تھا۔ میرے خاوند نے ایک ٹیکسی والے سے بات کرلی تھی کہ وہ دوگھنٹے سرکس کے باہر ہمارا انتظار کرے گا، کیونکہ رات گئے سواری کا ملنا مشکل تھا۔
جب ہم سرکس میں مختلف کمالات دیکھ رہے تھے تو ہمارے برابر ایک لڑکی آکر بیٹھ گئی۔ اس نے کالے رنگ کی چادر سے خود کو لپیٹ رکھا تھا ۔ وہ میرے بالکل ساتھ والی کرسی پر بیٹھی تھی۔ میں نے دیکھا کہ یہ لڑکی تنہا آئی ہے۔ ساتھ کوئی مرد نہیں ہے۔ تعجب ہوا۔ یہ ہمارے شہر کی روایت نہ تھی، کوئی لڑکی رات گئے اکیلی سرکس دیکھنے کیسے آسکتی تھی۔ سوچا کہ اس کے گھر والے کہیں آس پاس ہوں گے جوآتے ہی ہوں گے ۔ سرکس ختم ہوگیا۔ ہم جانے کو اٹھے وہ لڑکی ہمارے ساتھ اٹھ گئی اور ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ جیسے ہمراہ آئی ہو۔ باہر نکل کرہم ٹیکسی کی جانب چلے وہ بھی پیچھے پیچھے آئی۔ میں نے رک کر پوچھا۔ تم کون ہو؟ کس کے ساتھ جانا ہے۔ آپ کے ساتھ جانا ہے کیونکہ میں اکیلی ہوں اور ساتھ کوئی نہیں ہے۔
ایسا کیونکر ہوسکتا ہے تم اکیلی سرکس دیکھنے کیوں آگئیں۔
اسے آنا تھا مگر آیا نہیں۔ لڑکی نے اِدھر اُدھر دیکھ کر کہا۔ کس نے آنا تھا؟ میرے ماموں زاد زاہد نے میرا اس کے ساتھ نکاح ہوا تھا۔ اب ہم ٹیکسی کے پاس پہنچ چکے تھے۔ میرے شوہر نے سوالیہ نظروں سے اس لڑکی کی طرف دیکھا کیا تمہاری جاننے والی ہے؟
انہوں نے سرگوشی میں بات کی… نہیں لیکن … اچھا بیٹھو، زید نے گاڑی کا دروازہ کھولا… خدا کے لئے مجھے بھی ساتھ بٹھالو، لڑکی نے التجا کی۔
کہاں جانا ہے آپ نے بی بی… زید نے سوال کیا۔
اگلے چوک تک… وہاں میں اتر جائوں گی۔
اب ہم تذبذب میں تھے کیا کریں… لڑکی میرے اور قریب آگئی، تقریباً لگ کر کھڑی ہوگئی جیسے اس کو ڈر ہو میں اسے چھوڑ کر نہ چلی جائوں۔ وہ میرے سائے میں تحفظ محسوس کررہی تھی۔ میں جان گئی، تبھی زید سے کہا… بٹھالیں… آگے چوک پر اتر جائے گی۔ وہ کچھ نہ بولے۔ لڑکی میرے ساتھ جبکہ وہ آگے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ گئے۔
چند منٹوں میں اگلا چوک آگیا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے گاڑی روک کرکہا۔ اتر جائیے بی بی… لڑکی نہ اتری، اب ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم کسی مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ ہم دونوں دل ہی دل میں خود کو کوس رہے تھے کہ اسے کیوں ساتھ بٹھا لیا۔
بی بی اگلا چوک یہی ہے نا… زید نے کنفرم کیا۔ نہیں ذرا، آگے وہاں اترنا ہے۔ ٹھیک ہے آگے چلو۔ رات کا وقت ہے یہ جہاں کہتی ہیں وہاں تک لے چلو۔ اکیلی لڑکی کو بیچ راستے اتار دینا ٹھیک نہیں ہے۔ اندر سے ڈرے ہوئے زید نے بظاہر بہادر بنتے ہوئے اخلاق کا تقاضا نباہا۔
آگے چلتے جاتے تھے اور پوچھتے جاتے تھے بی بی… بتائو کہاں اترنا ہے اور لڑکی کوئی پتا نہ بتا رہی تھی، صاف بات تھی اسے نہیں معلوم تھا اس نے کہاں جانا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارا گھر آگیا۔
چلو بیگم اترو۔ انہوں نے مجھے کہا۔ سامنے گلی میں گھر ہے ہم پیدل چلے جائیں گے۔ وہ بھی اترنے لگی۔ کہا مجھے اپنے گھر لے چلئے۔
ارے بھئی کیوں… آپ نے جہاں جانا ہے وہاں جائیے۔ ہم کیوں آپ کو اپنے گھر لے چلیں۔
میرا کوئی گھر نہیں ہے۔ اف خدایا، اب کیا کریں، ٹیکسی والا ہماری الجھن سمجھ گیا۔ بولا۔ ایسی کئی لڑکیاں پہلے بھی میری ٹیکسی میں بیٹھ چکی ہیں۔ میں خوب جانتا ہوں ان کو کہاں اتارنا ہوتا ہے۔ آپ شریف لوگ ہیں، آپ جائیے میں اس بی بی کو اپنے ساتھ لے جاتا ہوں، آگے جہاں کہے گی پہنچا دوں گا۔
نہیں… نہیں وہ لڑکی رونے لگی۔ مجھے کسی کے حوالے نہ کریں۔ اپنے گھر لے چلیں، میں صبح ہوتے ہی چلی جائوں گی۔ جونہی ہم ٹیکسی سے اترے وہ بھی جلدی سے اتر گئی۔ زید لے چلو گھر… کل دیکھیں گے۔ مجھے اس کی بے بسی پر رحم آگیا۔
اس کا نام نفیسہ تھا۔ ہمارے شہر کے قریبی قصبے کی رہنے والی تھی۔ ماں سوتیلی تھی۔ سگی ماں نے اپنی زندگی میں اس کا نکاح اپنے بھانجے سے کروادیا تھا۔ اس کی وفات کے بعد نفیسہ کے والد نے دوسری شادی کرلی تو سوتیلی ماں نے اس کی رخصتی نہ ہونے دی۔ وہ اکلوتی تھی اور باپ کی ساری ملکیت کی وارث تھی۔ جبکہ سوتیلی ماں کی پہلے شوہر سے ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا اور اب وہ مزید بچے پیدا کرنے کی اہل نہ تھی۔ اس نے سوچا کہ وہ نفیسہ کا نکاح ختم کرادے اور پھر اس کی شادی اپنے بھائی سے کردے تاکہ گھر کی دولت گھر میں رہے۔ اس نے رفتہ رفتہ نفیسہ کے والد کو مٹھی میں لیا اور پھر نکاح کی تنسیخ کرادی۔
نفیسہ کو اس طلاق کا بہت صدمہ تھا جو اسے رخصتی سے پہلے مل گئی تھی۔ اس کے منگیتر ماموں زاد زاہد کو بھی کم صدمہ نہ تھا لیکن وہ والد اور پھوپھا کے ہاتھوں مجبور ہوگیا تھا۔
سوتیلی ماں کی بن آئی۔ اس نے نفیسہ کی زبردستی شادی اپنے بھائی سے کرادی۔ جس کو لوگ بھولا کہتے تھے۔ جبکہ وہ بھولا نہیں تھا بلکہ پیدائشی ابنارمل انسان تھا۔ جس کے منہ سے رال ٹپکتی تھی اور سر ایک دم چھوٹا تھا۔ یہ سارا کھیل سوتیلی ماں نے نفیسہ کی دولت ہتھیانے کی خاطر کیا تھا۔
جب پہلی بار اس نے اپنے شوہر کودیکھا تو وہ اس چھوٹے سر والے انسان کو دیکھ کر بیہوش ہوگئی۔ نفیسہ اپنے ماموں زاد سے بہت محبت کرتی تھی مگر نکاح ہوجانے کے باوجود اس کی ماں نے دو محبت بھرے دلوں کو آباد نہ ہونے دیا۔
ایک روز زبردستی نفیسہ کو اس کے والدین سسرال چھوڑ کر آگئے جبکہ وہ ہرگز وہاں نہیں رہنا چاہتی تھی۔ ماں دھمکی دے کرگئی تھی واپس نہیں آنا۔ اب یہی رہنا سہنا ہے ورنہ جان سے ماردوں گی۔
نفیسہ نے ماموں ممانی سے التجا کی کہ مجھے اس عذاب سے نجات دلوائیے۔ اس نے بھانجی کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا۔ کیونکہ وہ اب شادی شدہ تھی اور کسی اور کی بیوی تھی، گرچہ یہ شادی ایک فاترالعقل لڑکے سے ہوئی تھی، مگر گائوں میں یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ ماموں تھانے کچہری کے چکر میں پڑنا نہ چاہتا تھا، آخری امید خود اسکا محبوب زاہد تھا۔
ایک دن وہ کسی طرح زاہد سے ملنے میں کامیاب ہوگئی اور اس کی منت کی کہ مجھے یہاں سے نکال کر لے جائو… اگر ہم عدالت کو بتائیں گے کہ میرا شوہر ابنارمل ہے تو وہ میرے حق میں فیصلہ دے دیں گے۔ بس ایک بار تم میرا ساتھ دو۔ شہر جاکر ہم وکیل کرلیں گے۔
اس وقت تو جذبات سے مغلوب ہوکر زاہد نے ہامی بھرلی اور نفیسہ کو کہہ دیا کہ فلاں دن تم سرکس پر آجانا… میں گاڑی لے کر پہنچ جائوں گا اور ہم شہر نکل جائیں گے لیکن بعد میں شاید ڈر گیا یا کیا وجہ بنی، وہ نہیں آیا جبکہ نفیسہ اس کی بات کا اعتبار کرکے سرکس پہنچ گئی۔ اس نے زاہد کو ادھر ادھر دیکھا وہ نظر نہ آیا تو کٹھ پتلی والے تھیٹر میں آگئی، کیونکہ یہ سرکس سے باہر تنبو میں لگایا گیا تھا۔ جہاں زاہد نے آنا تھا۔
تماشا ختم ہوگیا اور وہ نہ آیا تو نفیسہ گھبرا گئی۔ اب اس کی میکے میں جگہ رہی تھی اور نہ سسرال میں وہ ہمارے ساتھ چپک گئی یہ سوچ کرکہ صبح وہ زاہد سے رابطہ کرلے گی۔ اس کا احوال جان کر ہم پریشان تھے۔ بہرحال رات کو پناہ دیے بنا چارہ نہ تھا۔ اس امید پر کہ وہ صبح اپنی راہ لگ جائے گی، میری ساس نے رات کو اسے اپنے کمرے میں سلا دیا۔
صبح ہوئی میں نے نفیسہ کو ناشتہ دیا۔ اور زید نے اس کے سسرال کا پتا دریافت کیا۔ اس نے کہا… اگر میرے شوہر کو دیکھنا ہے تو جاکر پیرجی کے مزار پر دیکھ لیں۔ وہ وہاں آپ کو نظر آجائے گا۔ اس نے جیسا حلیہ بتایا تھا اس کو پہچان لینا مشکل نہ تھا۔
میرے شوہر کا دفترگائوں کی طرف تھا۔ مزار میرے شوہر کے دفتر کے رستے میں پڑتا تھا۔ صبح دفتر جاتے ہوئے وہ مزار پر اتر گئے اور ان کو وہ آدمی نظر آگیا۔ وہ وہاں سے واپس گھر آگئے۔
دفتر نہیں گئے آپ؟ میں نے پوچھا۔ بہت دکھ ہوا ہے۔ یہ لڑکی صحیح کہتی ہے اس کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ میں اس ابنارمل کودیکھ آیا ہوں وہ مزار پر پڑا رہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسے گھر سے نہیں نکالنا چاہیے بلکہ سوچنا چاہیے کہ اس کے والد کو کیونکر راضی کریں وہ اس کو لے جائے۔
ابھی ہم لوگ یہ باتیں کررہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ وہی ٹیکسی والا جو ہم کو پچھلی شب سرکس سے گھر پہنچانے آیا تھا ایک شخص کے ساتھ موجود تھا اور یہ نفیسہ کا باپ تھا۔
اس نے اپنا تعارف کروایا اور سسر صاحب نے اس کو اندر بٹھاکر تواضع کی اور بتایا کہ آپ کی بیٹی رات سے ہمارے گھر پر ہے۔ شکر ہے محفوظ ہے۔
اس نے شکریہ ادا کیا اور نفیسہ کو بلایا۔ کہا بیٹی گھر چلو تم جیسے کہوگی میں ویسا فیصلہ کروں گا لیکن اب مجھے دنیا میں رسوا مت کرو۔ نفیسہ کسی صورت باپ کے ساتھ جانے پر راضی نہ ہوئی۔ اس نے کہا… بابا جان آپ نے جو فیصلہ کرنا ہے اسی گھر میں انہی لوگوں کے سامنے کریں۔ میں ہرگز اس گھر سے باہر قدم نہ رکھوں گی جہاں آپ کی دوسری بیوی کی حکمرانی ہے۔
ہم سب نے بہت سمجھایا۔ میرے سسر نے ضمانت دی مگر لڑکی نہ مانی، کہنے لگی میں نہر میں چھلانگ لگادوں گی مگر باپ کے ساتھ نہیں جائوں گی۔ بالآخر ہم بھی نفیسہ کے ہمنوا ہوگئے۔ اس کے والد اس کو ہمارے سپرد کرکے چلے گئے۔
انہوں نے اپنی سوتیلی بیوی کی مخالفت مول لے لی اور بیٹی کا خلع لے کر اس کو اس کے ماموں کے سپرد کرنے پر راضی ہوگئے لیکن ماموں نے کہا۔ تمام شرعی اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد وہ اس کو اپنی بہو بناکر لے جائیں گے، ایسے نہیں۔
بالآخر نفیسہ کی شادی کی تجدید اس کے ماموں زاد زاہد سے ہوگئی اور وہ باضابطہ طریقے سے اپنے ماموں کی بہو بن کر ہمارے گھر سے رخصت ہوگئی۔ شکر ہے اس نیکی کے موقع کو ہم نے ضائع نہیں کیا، ورنہ جانے اس بچاری کا کیا حشر ہوتا۔ ہم اب بھی اس اندھیری

رات میں خوفزدہ التجاکرتی نفیسہ کو یاد کرتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
آج نفیسہ خوش وخرم اپنے محبوب شوہر زاہد کے گھر آباد ہے اس کے چار بچے ہیں اور اس کا سابقہ شوہر جو فاترالعقل تھا گلیوں میں مارا مارا پھرتا ہے۔
( ل… ش… ملتان)

Latest Posts

Related POSTS