سڑک پر کھڑی رونا کو ایک شناسا چہرہ نظر آیا اور وہ گم صم ہوگئی ۔ رفیع نے آگے بڑھ کر اس کو سوچوں کے حصار سے نکال لیا۔ وہ اس کی سہیلی صوفیہ کا کلاس فیلو تھا۔ وہ اس سے کہہ رہا تھا۔ یہ تم ہو رونا! میں تو تم کو پہلی نظر میں پہچان بھی نہ سکا۔ تم تو اب واقعی خوبصورت ہوگئی ہو۔ خوبصورت ! یہ لفظ ایک دھماکے کی طرح اس کے دماغ میں پھٹا اور وہ سوچنے لگی۔ کہیں یہ طنز تو نہیں کر رہا؟ کیا یہ وہی رفع ہے یا اس کی آنکھیں بدل گئی ہیں یا خود اس کا اپنا رنگ بدل گیا ہے۔ یا پھر میری پھولی ہوئی ناک غائب ہوگئی ہے یا میرے بھدے ہونٹ کسی خوبصورت لبوں والی سے بدل گئے ہیں ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ میں تو خود کو دنیا کی بدصورت ترین عورت سمجھتی ہوں، آج میں کیسے اچانک خوبصورت ہو گئی؟ تبھی رفیع نے اس سوچوں میں گم لڑکی کو یہ کہہ کر چونکایا۔ آؤ میرے ساتھ، سامنے ریسٹورنٹ میں چل کر کافی پیتے ہیں۔ اس نے پیار سے رونا کا ہاتھ تھام لیا تبھی وہ ہر سوچ کو بھلا کر اس کے ہمراہ چلتے ہوئے خود کو شہزادی سمجھنے لگی۔
رونا بچپن سے ہی بدصورتی کے حصار میں قید تھی ۔ اس احساس نے اسے اذیت ناک احساس محرومی میں جکڑا ہوا تھا۔ رشتہ داروں کے بچے، پڑوسی حتی کہ اس کے اپنے بھائی بہن تک اس کو بدصورتی کا طعنہ دیتے تھے۔ اسکول میں لڑکیاں اس کی بدصورتی پر ترس کھاتیں، کچھ حقارت سے دیکھتیں۔ کالج پہنچ کر تو حد ہو گئی۔ لڑکوں نے اس کی شکل پر آوازیں کسیں اور بے وقوف بھی سمجھا۔ یہ حقارتیں اور ناکامیاں، یہ دل آزاریاں اس کی بڑی کمزوری بن گئیں اور پھر کالج چھوڑ کر اس نے ملازمت کر لی ، کیونکہ ایسے میں شادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اچھی اچھی صورتوں والی ماہ لقا ئیں، ابھی تک بر کی آس میں بیٹھی سوکھ رہی تھیں، پھر اس کی کیا اوقات تھی۔ اس نے سمجھ لیا کہ تنہائی میں ہی عافیت ہے، مگر پھر وہ اکیلے رہ رہ کر بھی اکتا گئی اور تنہائیاں اس کے لئے ببول کا درخت بن گئیں، جس میں کانٹے تو بھرے تھے مگر چھاؤں نہیں تھی۔ وہ کتنے دنوں سے کسی کی پکار کی منتظر تھی، کہ آج سڑک کنارے رفیع نے دیکھا اور پکار لیا۔ نہ صرف پکارا بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا وہ بے اختیار اس کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ انہوں نے بہت خوشگوار ماحول میں باتیں کیں۔ وہ دوسرے روز ملنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔ اس نے اگلے دن رونا کو فون کر کے ملنے کو کہا، پھر یہ ملاقاتیں بڑھتی چلی گئیں۔ اس کے لئے یہ ملاقاتیں خوشگوار احساس کے ساتھ ایک معمہ بھی تھیں ۔ وہ حیران تھی کہ رفیع جیسا خوبرو شخص جو صوفیہ کی موجودگی میں آنکھ اٹھا کر اس کی طرف دیکھنا پسند نہیں کرتا تھا، اب کیونکر اس کی بدصورتی کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اچانک زندگی کے پینتیسویں سال میں قدم رکھتی، رونا پر ملتفت ہو گیا تھا۔ وہ اس سے روز اصرار کر کے ملتا اور بہت پیار سے باتیں کرتا۔
ایک روز ڈرتے ڈرتے ، رونا نے بالآخر رفیع سے دل کی بات کہہ ڈالی۔ تمہیں مجھ میں ایسی کیا دلکشی نظر آنے لگی کہ بے اختیار میری جانب کھنچے چلے آتے ہو؟ وہ تمہاری اتنی خوبصورت محبوبہ ، دلنواز صوفیہ کہاں چلی گئی ہے؟ یہ سن کر رفیع پہلے ہنسا، پھر بولا ۔ عقل مند خاتون ! خوبصورتی سے چوٹ کھایا ہوا انسان ہی تو بدصورتی میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ کم از کم بدصورتی بے وفا تو نہیں ہوتی۔ تب رونا نے اس کو غنیمت جانا اور سمجھی کہ وفا شعاری بدصورتوں ہی کی میراث ہے اور وہ خلوص کے ساتھ اس کی جانب قدم بڑھانے لگی۔ اس کو حالات کے بدل جانے پر یقین نہیں آتا تھا۔ وہ تو اس وقت کو ایک عارضی حسین خواب سمجھ رہی تھی۔ تب ہی ایک دن اس نے رفیع سے شادی کا تذکرہ کر دیا۔ جواب میں، غیر متوقع ایسا باعتماد اور مثبت انداز ملا کہ وہ حیران رہ گئی۔ اس خوشی کی تو اس سے توقع ہی نہ تھی۔ اب اس کی زندگی میں بھی بہار کے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی تھی اور وہ اپنے گھر کی آرائش کے متعلق سوچنے لگی۔ اس نے اپنی برسوں کی جمع پونجھی گھر کی اشیاء خریدنے پر صرف کر دی اور اپنے اجڑے پجڑے گھر کو سنوار نے لگی ۔ خود کو بھی نک سک سے درست رکھنے لگی۔ بیوٹی پارلر سے بالوں کو انداز میں ترشوایا، جدید فیشن کے خوبصورت ملبوسات خریدے۔ رفع نے اس کی بنت ٹھنت دیکھ کر اسے شادی کا پروپوزل دیا تو رونا خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھ بیٹھی ۔ شادی کا دن مقرر ہوا، کارڈ چھپ گئے اور پھر دونوں کے دوست ، احباب میں تقسیم ہو گئے۔ ہر شخص حیران تھا یہ کیسا جوڑ ہے۔ کہاں حسین و جمیل رفیع اور کہاں بے چاری پینتیس برس کی بد شکل بھدی ناک والی رونا…! مگر یہ اپنی اپنی پسند کی بات ہے کہ حسن تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے۔ جو جسے چاہے، پسند کر لے۔ یہ سب کھیل بھی خدا کی قدرت کے ہی ہوتے ہیں کہ کون اس کا جوڑا بنتا ہے اور جوڑے تو سنا ہے کہ آسمان پر بن جاتے ہیں۔ بہرحال جس نے بھی سنا کہ رفیع اور رونا رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے جارہے ہیں، وہ انگشت بہ دنداں رہ گیا۔ کسی کو بھی یقین نہ آرہا تھا مگر یقین تو کرنا تھا کہ شادی کے کارڈ آنکھوں کے سامنے تھے اور حقیقت عیاں تھی۔ ایک کارڈ رفیع نے اپنی روٹھی ہوئی محبوبہ کو بھی بھیجا اور وہ جس رد عمل کا متمنی تھا ، وہی ہوا۔ وہ اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ صوفیہ آگئی ۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس سے اتنی محبت کرتی ہے کہ کسی اور لڑکی کے نام کے ساتھ اس کا نام برداشت نہیں کر سکتی اور وہ بھی رونا جیسی بدصورت کے ساتھ، یہ تو اس کے حسن اور محبت کی سراسر توہین تھی۔ رفیع جانتا تھا کارڈ ملتے ہی وہ ساری نخوت چھوڑ کر آجائے گی۔
صوفیہ کی صورت اتری ہوئی تھی۔ روتے روتے اس کی آنکھیں سوج گئی تھیں۔ غم سے اس کا برا حال تھا، جیسے ابھی جان سے چلی جائے گی۔ رفیع بھی اس سے محبت کرتا تھا ۔ اسے دکھ نہیں دینا چاہتا تھا لیکن اسے اپنی طرف موڑ لانے کا اور کوئی طریقہ بھی نہ تھا، تبھی اس نے یہ ترپ کا پتا کھیلا تھا۔ صوفیہ کو اذیت میں دیکھ رفیع کا دل بھی تڑپ گیا۔ گلے شکوے ہوئے پھر رونا کا وجود دودھ میں سے مکھی کی طرح ان کے درمیان سے نکال پھینکا گیا۔ اگلے روز اخبار میں اشتہار آگیا کہ چند نا گزیر وجوہ کے سبب رفیع اور رونا کی شادی منسوخ ہو گئی ہے۔ کارڈ بھی منسوخی کے اشتہار میں ساتھ چھپا ہوا تھا۔ لکھا تھا، ہم دعوت کی منسوخی کے لئے معذرت خواہ ہیں۔ صبح صبح جب رونا نے اخبار میں شادی کی منسوخی کا اشتہار دیکھا، اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ سر چکرا کر رہ گیا۔ اس نے فوراً اپنے دفتر جا کر رفیع کو فون کیا۔ یہ سب کیا ہے رفیع ! ڈیئر رونا! جو کچھ میں کھو چکا تھا، تمہاری وجہ سے مجھے دوبارہ مل گیا ہے۔ میں تمہارا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔ میری طرف سے تمہارے ساتھ زیادتی ہوئی لیکن میں بے بس ہوں، مجھے معاف کر دو۔ امید ہے، تم اتنی عظیم اور اعلیٰ ظرف ضرور ہوگی کہ مجھ کو معاف کر دو گی۔ یقین کرو، میں تمہاری سہیلی کی وجہ سے بہت مجبور ہو گیا ہوں ۔ نہیں چاہتا کہ ہم دونوں تو خوشیوں بھرے رستے پر گامزن ہو جائیں اور وہ موت کی راہ کی مسافر ہو جائے۔ ہم دونوں اس کے دوست ہیں تبھی اس کی زندگی بھی پیاری ہے۔ میں تم سے شادی نہیں کر سکتا ۔ خدارا رونا ! ہم کو معاف کر دینا۔ رفیع نے جواب دیا۔
فون رونا کے ہاتھ سے گر پڑا ۔ اس کا سر گھومنے لگا۔ وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ کوئی اسے کھلونا سمجھ کر اس کے ساتھ اتنا بھیانک مذاق کر سکتا ہے۔ وہ پریشان نہیں دم بخود رہ گئی ۔ اسے اپنی اس قدر توہین محسوس ہوئی کہ وہ اس اذیت کو سہنے کی متحمل نہ ہو سکی۔ شام کو اس نے خواب آور گولیوں کی پوری شیشی معدے میں انڈیل لی۔ پڑوسی اسے اسپتال لے گئے۔ اس کی پڑوسن کسی کام سے اس کے گھر آئی تو رونا کو فرش پر بے سدھ پڑا پایا۔ اس کے شوہر نے پولیس کو فون کیا اور اسے اسپتال پہنچا دیا گیا۔ ڈاکٹروں نے اس کی جان بچانے کی پوری کوشش کی مگر ناکام رہے۔ وہ اس بے رحم دنیا سے منہ موڑ چکی تھی۔ یہ تھی ہماری ہم جماعت اور سہیلی کی مختصر سی کہانی ، جو آج تک میرے دل پر لکھی ہوئی ہے۔