یہ تیس سال پہلے کی بات ہے جب ایک صبح میرے سرتاج کے زندہ ہونے کی خبر آئی تھی اور یہ سن کر میں غش کھا کر گر پڑی تھی ، تب ہی میرا بیٹا اشعر مجھے اٹھا کر اسپتال لے گیا تھا۔ باپ تو اس سے عمر بھر دور رہا تھا۔ میں ہی اس کا سب کچھ تھی۔ اس کا واحد سہارا تھی۔ وہ ملازمت پر ہوتا تھا اور ان دنوں چھٹیاں لے کر آیا ہوا تھا۔ میری مخدوش حالت کے سبب وہ واپس نہ گیا، تھوڑے دنوں کے لئے ٹھہر گیا۔ جب مجھے ہوش آگیا تو اسپتال سے گھر لے آئے لیکن قرار نہ تھا۔ نیند کے لئے ڈاکٹر نے گولیاں دیں، اس کے باوجود آج نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ یادوں نے ٹڈی دل کی طرح مجھ پر یلغار کر دی تھی ۔ آنکھوں میں آنسوامنڈ سے آرہے تھے۔ وہ دن آنکھوں میں پھرنے لگے جب میری شادی طے ہوئی تھی ۔ گلابی رنگ اشفاق کو پسند تھا اس لئے میرا اصرار تھا کہ بارات والے دن مجھے گلابی لہنگا پہننا ہے جبکہ امی سرخ رنگ کا لہنگا لے آئی تھیں ۔ اس روز امی اپنے ہونے والے داماد کی بلائیں لیتے نہیں تھکتی تھیں ، آخر کو وہ ان کا چہیتا بھانجا تھا تب ہی تو وہ اپنی حسین ترین بیٹی اس کے ساتھ بیاہنے پر تیار تھیں۔ اشفاق خاندان کا معقول اور سلجھا ہوا خوبصورت لڑکا ہے۔ امی جان اترا کر کہتی تھیں، یہ میرا داماد ہوگا۔ ان کی دعا مقبول ہوئی ، وہ ان ہی کا داماد بنا۔ دونوں خاندانوں نے پہلے نکاح کا فیصلہ کیا۔ بارات والے دن بلیک کلر کے ٹوپیس سوٹ میں وہ کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا لیکن نکاح کے بعد جب مجھے کو اس کے پہلو میں بٹھایا گیا تو وہ میرے حسن میں کھو گیا اور مجھ کو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ اشفاق کیمرے کی طرف دیکھو، دلہن کی طرف نہیں۔ اس کی لاڈلی بہن نے ٹہوکا دیا تو وہ جھینپ کر کیمرے کی جانب دیکھنے لگا۔ گلابی رنگ کے کام والے لہنگے میں، میں کسی شہزادی سے کم نہیں لگتی تھی، اوپر سے ماتھے کا جھومر میرے حسن کو اور چار چاند لگا رہا تھا۔ کھانے وغیرہ سے فارغ ہوتے ہی تمام لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور لڑکیاں بالیاں ڈھولکی پر شادی کے پرانے گیت چھیڑ کر بیٹھ گئیں۔ نکاح کے ایک سال بعد رخصتی ہونا تھی اتنا انتظار اشفاق کو منظور نہ تھا۔ ایک دن میرے گھر والے شادی پر شہر سے باہر گئے تو اتفاق سے اشفاق آگئے۔ میں نے ہی دروازہ کھولا۔ سامنے ان کو دیکھ کر حیران ہوگئی۔ اندر آنے کو کہا۔ وہ گرین کلر کے سوٹ میں ملبوس تھے اور میں نے گلابی کام دار لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ ہم دونوں ہی جچ رہے تھے۔ وہ میرے سامنے بیٹھے تھے اور شرم کے مارے مجھ سے بات نہ ہو پارہی تھی ۔۔ اچانک زور کی ہوا چلنے لگی ، آندھی آگئی تھی۔ میں کھڑکی بند کرنے کو اٹھی۔ لگتا تھا آج طوفان سب کچھ اڑا کر لے جائے گا۔ میں نے دل میں کہا، خدا خیر کرے ایسی آندھی کے بعد بارش بھی آتی ہے۔ کیسے اس کو کہوں کہ اب چلے جاؤ۔ اشفاق کی محبت کی آندھی بھی زور آور تھی کہ اس کے آگے میری کچھ نہ چلی۔ آخر وہ میرا شوہر تھا، میرا اس کے ساتھ نکاح بھی ہو چکا تھا۔ خیر جو ہونا تھا ہو گیا۔ کچھ دنوں بعد خبر سننے کو ملی کہ اشفاق گھر سے لاپتہ ہے۔ بہت ڈھونڈ مگر اس کا کہیں پتا نہ چل سکا۔ پولیس انسپکٹر کو بھلا کون اغواہ کر سکتا ہے۔ یہی سوال ہر ایک کی زبان پر تھا۔۔ میری تو جان پر بنی تھی۔ جوں جوں دن گزرتے جارہے تھے میری پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ کس کو اپنی مشکل بتاؤں ، یہ رشتہ جائز ہے، پر دنیا والوں کو کون سمجھاتا، پھر میں نے ابھی تک امی جان یا گھر والوں کو نہ بتایا تھا کہ فلاں دن جب آپ لوگ گاؤں شادی میں گئے تھے تو آپ کی غیر موجودگی میں اشفاق آیا تھا۔ اگر پتا ہوتا کہ ایسا کچھ ہو جائے گا کہ ان کی ملاقات چھپا نہ سکوں گی تو روز اول ہی بتا دیتی مگر اب شرم سے زبان نہیں کھلتی تھی۔ بتانے پر بھی وہ یقین نہ کرتے تو کیا کرتی۔
گھر والوں نے دوسری جگہ شادی کا ارادہ کر لیا مگر میں نے انکار کیا۔ امی سمجھدار تھیں وہ اپنے بھائی کے گھر گئیں۔ بھائی اور بھاوج کو باور کرایا کہ اب بہتری ہماری اسی میں ہے کہ اشفاق کے بغیر ہی سادگی سے شکیلہ کی رخصتی لے لو تو وہ بدنامی سے بچ جائے گی اور آپ کو اشفاق کی اولاد کی صورت میں دل کی ڈھارس کا سامان مل جائے گا۔ کیا خبر اشفاق آئے نہ آئے۔ مرتا نہ کیا کرتا کے مصداق ایسا کرنا پڑا کیونکہ میں بھی تو کسی صورت کسی اور سے شادی پر اب راضی نہیں تھی۔ میں اشفاق کی یادوں کے سہارے جینا چاہتی تھی ۔ میری رخصتی بغیر اشفاق کے سادگی سے ہو گئی کیونکہ وہ لاپتا تھے۔ میں ساس سسر کے گھر پہنچ گئی، یہاں آکر سکون ملا۔ لوگوں کی باتوں کا جو خوف تھا اس سے نجات مل گئی۔ دن گزرتے رہے، اشفاق کی کچھ خبر نہ ملی مگر مجھے مقررہ وقت پر خدا نے چاند سا بیٹا عطا فرما دیا۔ میرے ساس سسر نے خوشی سے اس کو گود میں اٹھایا کیونکہ وہ ہو بہو ان کے بیٹے کا ہم شکل تھا۔ وہ کہنے لگے ہمارا بیٹا لا پتہ ہے، خدا جانے وہ زندہ ہے یا نہیں لیکن اس پوتے کی شکل میں اللہ تعالی نے ہم کو دوبارہ اشفاق سے نوازا ہے۔ ہم اسی سے اپنا دل بہلائیں گے اور اپنے بیٹے کی یاد کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کریں گے۔ مرنے والے کا صبر آجاتا ہے مگر جو گم شدہ ہوں ان کا صبر نہیں آتا۔ ماں باپ اور میں ابھی تک اسی انتظار میں سلگ رہے تھے کہ ایک دن اشفاق آئیں گے۔ دن رات ان کی سلامتی کی دعائیں کیا کرتے تھے۔ صبر کرنا چاہتے تھے مگر زندوں کی جدائی پر صبر کہاں سے لاتے۔ اسی انتظار میں میری ساس اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ وقت گزرتا رہا میرا نور نظر اشعر بڑا ہو گیا اور یکے بعد دیگرے میرے والدین بھی رخصت ہو گئے۔ اب میں اپنے بیٹے کے ساتھ بھری دنیا میں تنہا رہ گئی ۔ میری نند امریکا میں تھی اور سسر صاحب ان کے پاس تھے۔ انہیں روپے پیسے کی کمی نہ تھی مگر اشفاق کی کم شدگی کا زخم ہر ا تھا۔ وقت گزرتا رہا، میرے بیٹے نے بی اے پھر ایل ایل بی کر لیا اور وہ ایک سینئر وکیل کے ساتھ مشق کرنے لگا۔ اس کی مشق رفتہ رفتہ کامیاب ہوتی گئی اور اس نے وکلا برادری میں اپنا نام اور مقام بنا لیا۔ ایک روز ہم ماں بیٹا ٹی وی پر خبریں دیکھ رہے تھے کہ ایک خبر دکھائی گئی کہ لاپتا انسپکٹر اشفاق ہمسایہ ملک کی قید میں تھا۔ یہ خبر سن کر میرا دل دھڑکنے لگا اور میں فون کی طرف دوڑی۔ خبر کی تصدیق کرنا چاہی، خبر درست تھی۔ تھوڑی دیر بعد خبر کی تفصیل آئی ، ساتھ اشفاق کی تصویر بھی تھی جو کافی بوڑھا ہو گیا تھا۔ ان پر جاسوسی کا الزام تھا اور میں ان سے ملنے کو بے قرار تھی۔ میرے بیٹے نے وکالت کی ڈگری لی تھی سینئر وکلا کے ساتھ تمام صورتحال کا جائزہ لیا اور اب وہ اپنے باپ کا کیس لڑنے کو تیار تھا۔ اس کو یقین تھا کہ اس کا باپ جاسوس نہیں ہو سکتا۔ میں نے جب سے ان کی تصویر ٹی وی پر دیکھی تھی میں ان سے سارے گلے شکوے بھول چکی تھی۔ اب تو بس ایک ہی دھن تھی کہ ان سے کسی طرح ملوں اور پوچھوں کہ آپ کہاں چلے گئے تھے ، یوں اچانک کیسے گم ہو گئے اور کیوں دیار غیر میں گئے کہ اتنی طویل مدت تک قید برداشت کی مگر ہم کو اطلاع تک نہ ہو سکی۔ یہ ایسے سوالات تھے کہ جن کے وہی جوابات دے سکتے تھے لیکن اب وہ قید سے رہائی پا کر بھی ہم سے نہیں مل سکتے تھے کیونکہ جاسوسی کا الزام شدید قسم کا تھا۔ اخبار والے طرح طرح کی خبریں اور باتیں چھاپ رہے تھے۔ میرے بیٹے نے اپنے باپ کے لئے اپیل دائر کر دی۔ اب وہ کیس کی تیاری نہایت انہماک سے کر رہا تھا کہ اس کے باپ نے ہمسایہ ملک کو اپنے وطن کے قیمتی راز نہیں بیچے بلکہ وہ خود ان کی قید میں سختیاں سہتا رہا اور اس کو تپتے پتھروں پر لٹایا گیا۔ خدا کی مرضی کہ ابھی دنیا نے اپنے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا تھا کہ اللہ تعالی نے موت کے فرشتے کو بھیجا اور اس نے جیل میں ہی اشفاق کی روح قبض کر کے ان کو ہر طرح کی سختی سے آزاد کرا لیا۔ راز دل کے دل میں رہ گئے اور وہ دوسری دنیا میں چلے گئے کیونکہ جب وہ غیر ملک کی قید سے رہائی پا کر آئے تھے تو حالت بہت مخدوش تھی صحت انتہائی خراب تھی ، وہ لاغر ہو چکے تھے۔
ان کی میت میرے بیٹے نے وصول کی اور جس کو زندہ گھر آنا تھا وہ مرنے کے بعد آیا۔ میں نے اتنے برس رات دن ان کی سلامتی اور زندہ گھر لوٹ کر آنے کی دعائیں کیں، ان کے اور میرے والدین نے بھی دن رات ایسی ہی دعائیں مانگیں۔ یہ دعائیں مانگتے مانگتے وہ بھی راہی ملک عدم ہو گئے لیکن دعا قبول ہوئی تو کس صورت میں کہ ہم ان کا آخری دیدار کر سکے۔ میرے بیٹے کی شدید خواہش تھی کہ وہ ایک بار اپنے باپ کی صورت دیکھ سکے جس نے پیدا ہونے کے بعد کبھی باپ کی شکل دیکھی تھی اور نہ آواز سی تھی۔ وہ کہا کرتا تھا، ماں میں دل سے ایک ہی دعا کرتا ہوں، اے اللہ ! مجھے کو صرف ایک بار اپنے والد کا دیدار کرا دے اور ان کی آواز سنا دے۔ میری دعا بھی قبول ہوئی مگر کسی روپ میں؟ ایک بار ٹی وی پر ان کی آواز سنی اور ایک بار ان کا دیدار بھی کر لیا اور وہ تھا ان کا آخری دیدار، ان کے مرنے کے بعد ۔ اے کاش میں ایسی دعا نہ کرتا بلکہ یہ کہتا کہ اے اللہ ! میرے والد کو مجھ سے زندہ ملا دے اور وہ ہم میں زندگی کے باقی ایام بہ خیر و خوشی بسر کریں۔ امی جان! دعائیں بھی واضح الفاظ میں اور سوچ سمجھ کر مانتی چاہئیں۔ میرے دل پر ایک بہت بڑا گھاؤ ہے، اپنے شوہر سے طویل جدائی کا۔ میں صرف نکاح پر دلہن بنی مگر حقیقت میں ان کے بغیر بیوہ جیسی زندگی گزاری حالانکہ وہ زندہ تھے مگر چونکہ ایسے زنداں میں تھے کہ جہاں سے کسی کی خبر نہیں آتی اور جب خبر آئی پچیس برس بعد تو وہ اتنے نحیف و لاغر ہو چکے تھے کہ اپنے قدموں پر چل کر آنے سے پہلے ہی مر گئے۔ خدا سے دعا ہے جیسی میری زندگی گزری ایسی کسی عورت کسی سہاگن کی نہ گزرے اور دعا ہے کہ بھی کوئی بھولے سے بھی ہمسایہ ملک کی سرحد پار نہ کرے، ورنہ اس پر قید و بند تو لازم ہو ہی جاتی ہے اس پر جاسوسی کا الزام بھی لگ سکتا ہے۔ ایسا شخص جو رستہ بھٹک جائے اور بھول کر اپنے وطن کی سرحد پار کر لے تو اس کو معاف نہیں کیا جاتا اور پھر قید و بند کی سختیاں ان کا مقدر بن جاتی ہیں۔ میرے خاوند جیسے نہ جانے کتنے اور لوگ ہوں گے جو دونوں اطراف کے ملکوں میں مشکوک قرار پانے کی وجہ سے جیلوں میں عمر بھر کے لئے پڑے ہوں گے۔ خواہ ان کا کوئی قصور تھا یا وہ بے قصور دھرے گئے ۔ میں تو یہی کہوں گی کہ یہ بھی عتاب الہی ہی ہے۔ لہذا بھولے سے بھی بغیر پاسپورٹ وغیرہ ناجائز طریقے سے کسی دوسرے ملک کی سرحد پار کرنے کی غلطی کبھی مت کرنا۔