Sunday, November 10, 2024

Bhyanak Haqeeqat

میرے شوہر لطیف جب ٹرانسفر ہو کر رام گڑھ ریلوے اسٹیشن آئے تو بہت خوش تھے، کیونکہ چھوٹے سے گاؤں سے شهر آنا ان کی دیرینہ خواہش تھی۔ ان کی ڈیوٹی اسٹیشن کے سگنل کیبن پر تھی۔ لطیف نے ایک دن مجھے بتایا تھا کہ رام گڑھ میں ان کے والد اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ اسی اسکول میں انہوں نے بھی تعلیم پائی، یوں لطیف کا بچپن یہاں گزرا۔ رام گڑھ سے ان کی بہت سی پرانی یادیں وابستہ تھیں۔ لطیف کی عادت تھی کہ وہ خوشگوار موڈ میں ہوتے تو خوب باتیں کرتے ورنہ خاموش ہی رہتے یا کسی سوچ میں ڈوبے رہتے۔ شادی کے ابتدائی دنوں میں ، ان کی عادات سے میں واقف نہ تھی ، لہذا ان کو خاموش دیکھ کر باتیں کرنے کی کوشش کرتی ۔ وہ ہوں ہاں کر کے ٹال دیتے تو میں دل مسوس کر رہ جاتی۔ بالآخر سمجھ لیا کہ ان کو بے وجہ ڈسٹرب کرنا درست نہیں۔ وہ اس طرح اور زیادہ خاموش ہو جاتے یا پھر بے دلی سے باتیں کرنے لگتے ، تب میرا دل اور پریشان ہو جاتا۔ جب بیوی اپنے شوہر کے مزاج کو سمجھ جائے اور ایسی بات نہ کرے جس سے اس کے جیون ساتھی کو الجھن ہو، تو زندگی سکون سے گزرتی ہے۔ یہ نکتہ سمجھ کر میں نے بھی ان کی توجہ زبردستی اپنی طرف مبذول کرنے کی کوشش چھوڑ دی۔ یوں بھی عورت اور مرد کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں ۔ باہر کی جو فکریں مرد کو ستاتی ہیں، بیوی کو ان سے آگہی نہیں ہوتی ۔ ہو سکتا ہے ان کی ڈیوٹی سخت ہو، نیند پوری نہ ہوتی ہو یا جس افسر کے ماتحت ہوں ، وہ سخت مزاج ہو۔ ملازمت میں کئی طرح کی دفتری فکریں ہوتی ہیں۔

پس یہ سوچ کر میں نے اپنے دل کو مطمئن کر لیا، کیونکہ وہ مجھ سے محبت کرتے تھے اور میرا ہر طرح سے خیال بھی رکھتے تھے، پھر مجھے ان کے خاموش رہنے سے کیا مسئلہ تھا۔ وہ عورتوں کی طرح ہر وقت کئی طرح کی باتیں نہیں کر سکتے تھے ، یہ ان کا مزاج تھا۔ ان کی ڈیوٹی حساس تھی۔ کبھی دن بھی رات کی ڈیوٹی ہوتی۔ اس رات بھی مال گاڑی آنے والی تھی ۔ وہ مجھے بتا کر گئے کہ آج رات میں دیر سے آؤں گا۔ تم میرا انتظار مت کرنا۔ میں دن بھر کے کام کاج سے تھک گئی تھی۔ رات ہوتے ہی بستر پر لیٹ گئی۔ یہ محکمے کی طرف سے دیا ہوا مکان تھا۔ رات بارہ بجے کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں نے پوچھا۔ کون ہے؟ باہر سے کسی نے جواب نہ دیا تو میں گھبرا کر اٹھی اور لالٹین جلا کر دیکھا کہ دروازے کی کنڈی خود ہی کھل گئی اور ساتھ ہی دروازہ بھی کھل گیا، مگر کوئی بھی نظر نہیں آیا ۔ تا ہم ، مجھ کو محسوس ہوا کہ کوئی ہے، جو گھر کے اندر آچکا ہے تبھی خوف سے ٹھنڈی سی پڑ گئی اور چپ چاپ بستر پر آ کر لیٹ گئی۔

اب مجھ میں اٹھنے کی ہمت تھی اور نہ گھر میں یہ دیکھنے کی طاقت کہ دیکھوں، کون آیا ہے؟ میں دم سادھے پڑی رہی۔ میری سانس اندر کی اندر اور باہر کی باہر رہ گئی تھی، پھر نجانے کسی وقت آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتی  ہوں کہ دروازہ کھلا ہوا ہے اور کوئی عورت گھر کے اندر چلی آئی ہے۔ میں اس سے پوچھتی ہوں کہ تو کون ہے اور میرے گھر کیوں آئی ہے؟ وہ کہتی ہے کہ میرا نام شاہدہ ہے اور میں آپ کے شوہر کو بیس سال سے جانتی ہوں ۔ میں نے اس کا بہت برس انتظار کیا ہے ۔ اب میرا انتظار ختم ہونے کو ہے۔ تم سے اس کو اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت لینے آئی ہوں ۔ پھر خواب میں ہی مجھ کو جھٹکا لگا اور میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس وقت سردی بہت تھی لیکن لحاف میں بھی مجھے ٹھنڈا پسینہ آرہا تھا اور سارا بدن کپکپا رہا تھا۔ باہر کچھ شور سنائی دے رہا تھا اور تیز بارش بھی کمرے سے باہر دیکھا۔ واقعی میرے مکان کا بیرونی دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ہمت یکجا کر کے میں صحن سے دروازے کی سمت گئی اور دوڑ کر کنڈی لگا دی اور فورا ہی ہانپتی کانپتی کمرے کے اندر آ گئی بستر پر لیٹتے ہی بے ہوش ہوئی ۔ مجھے کچھ ہوش نہیں کہ میرے شوہر کب گھر آئے اور مجھے کیسے ہوش میں لائے ۔ دروازہ کھٹکھٹاتے جب وہ تھک گئے تو دیوار پھاند کر گھر میں داخل ہوئے تھے۔ وہ ڈر گئے تھے کہ جانے مجھ کو کیا ہو گیا ہے کہ دروازہ نہیں کھولتی۔ میری حالت ذرا سنبھلی تو میں نے اپنے شوہر سے پوچھا۔ کیا آپ کسی شاہدہ نامی عورت کو جانتے ہیں؟ وہ یہ نام سن کر چونک گئے۔ کہنے لگے۔ تم کیوں پوچھ رہی ہو؟ تب میں نے انہیں بتایا کہ رات جب میں جاگ رہی تھی ، دروازے کی کنڈی کھلنے کی آواز سنی تھی، تب مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی اندر آ گیا ہو۔ ڈر کے مارے اٹھ کر دیکھا نہیں ۔ کمرے کا دروازہ بند کئے پڑی رہی ۔ جب آنکھ لگی تھی تب عجیب خواب دیکھا کہ ایک عورت آئی ہے اور کہتی ہے کہ میرا نام شاہدہ ہے اور میں تمہارے شوہر کو جانتی ہوں ، بس پھر میں ڈر کر اٹھ بیٹھی ۔ کمرے کا دروازہ کھول کر صحن میں جھانکا تو باہر کا دروازہ کھلا ہوا تھا حالانکہ میں آپ کے جانے کے بعد کنڈی لگا کر سوئی تھی۔ اسی خوف کے سبب کمرے میں آتے ہی میں بے ہوش ہو گئی تھی۔ یہ ساری بات میں نے شوہر کو بتا دی مگر یہ نہیں بتایا کہ خواب میں وہ عورت کہہ رہی تھی کہ میں تمہارے شوہر کو لے جانے آئی ہوں تم مجھے اجازت دو۔ نجانے کیوں یہ بات منہ سے نکالنے کو میرا دل نہیں چاہا۔ لطیف نے میرے لبوں سے شاہدہ کا نام سنا تو ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا ۔ کہنے لگے۔ کیا واقعی  خواب میں عورت شاہدہ نام لے رہی تھی ؟ میں نے کہا۔ کیوں ؟ آپ کو یقین کیوں نہیں آ رہا ؟ وہ سوچ میں پڑ گئے اور  چہرے کا رنگ پھیکا ہو گیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا۔

یہ ایک کہانی ہے۔ میرے اصرار پر انہوں نے یہ کہانی مجھے سنا دی، شاید میرے تجسس پر یا اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ، انہوں نے بتایا۔ آج سے انیس سال قبل جب میں اس گاؤں میں اپنے والد صاحب کے ساتھ رہتا تھا، ایک لڑکی والد صاحب کے پاس ٹیوشن پڑھنے آئی تھی۔ ایک دن اتفاق سے وہ گھر پر موجود نہ تھے۔ اس وقت بادل چھائے ہوئے تھے اور ہوا بھی بہت ٹھنڈی چل رہی تھی۔ گھر میں ہم دونوں کے سوا اور کوئی موجود نہ تھا۔ لڑکی ٹھنڈی ہوا سے کانپ رہی تھی۔ میں نے اس کو سردی سے بچنے کے لئے ایک موٹا کمبل دیا، اس کے باوجود اس کی کپکپی نہ گئی۔ وہ مجھ سے کہنے لگی کہ میرے ہاتھ دیکھو کتنے ٹھنڈے ہیں۔ جب میں نے اس کے ہاتھ چھو کر دیکھے وہ بہت ٹھنڈے تھے۔ اس کے بعد جانے کیسے جذبات نکلے کہ مجھ سے غلطی ہو گئی۔ اگلے دن وہ ٹیوشن پڑھنے نہیں آئی ۔ اسی اثنا میں والد صاحب کا تبادلہ رام گڑھ سے جودھ پور ہو گیا اور پھر میری شادی تم سے ہوئی ۔ دو ماہ بعد والد صاحب بھی وفات پا گئے۔ میں نے تمہاری خوشیوں میں شریک رہنے کی خاطر پچھلے تمام واقعات بھلا  دیے اور تمہارے  ساتھ  زندگی کا آغاز کر دیا۔ آج تم نے شاہدہ کا نام لے کر میری پچھلی زندگی پھرسے یاد دلا دی۔ ابھی لطیف مجھ سے یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ریلوے کا ملازم آیا اور کہنے لگا۔ لطیف صاحب، بارش اور تیز ہوا کی وجہ سے اگلا سگنل گر گیا ہے اور گاڑی آنے میں  تھوڑا سا وقت رہ گیا۔ میرے شوہر نے اس سے کہا۔ تم یہاں بیٹھوں میں ابھی سگنل  صحیح کر کے آتا ہوں ۔ لطیف کا انتظار کرتے کرتے میری آنکھ لگ گئی تھی کچھ لوگوں کے شور و غل سے آنکھ کھلی تو میں باہر گئی۔ ہمارے دروازے پر ریلوے کا ملازم ابھی تک   تھا۔ میں نے پوچھا۔ صاحب ابھی تک نہیں آئے  بی بی نہیں آئے ۔ وہ بولا ۔ کچھ لوگ البتہ  یہاں سے گزرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ صبح چار بچے والی مال گاڑی کے ڈرائیور نے لوگوں کو بتایا ہے کہ سگنل خراب ہونے کی وجہ سے میں گاڑی کنٹرول نہ کر سکا اور ایک آدمی ریل کی  بوگیوں کی زد میں آکر جاں بحق ہو گیا۔  بیٹی میں  بہت عرصے سے ریلوے کا ملازم ہو۔ یہ سگنل بڑا خونی ہے۔

بہت پہلے کی بات ہے۔ ایک شاہدہ نامی عورت تھی ، وہ کسی مشکل میں گرفتار ہیں۔ عزت کی خاطر اسی سگنل کے قریب اس نے ٹرین کے نیچے آ کر جان دے دی تھی۔ بوڑھے ملازم کی بات سن کر مجھے چکر سا آ گیا۔ میں نے کہا۔ بابا  خدا کے لئے جا کر دیکھو، صاحب کیوں نہیں آئے۔تمہاری بات سن کر میرا دل ڈوب رہا ہے۔ کون آدمی تھا جو  ٹرین کی زد میں آ کر….. ابھی میں جملہ پورا بھی نہ کر پائی تھی کہ لوگ میرے دروازے پر آ گئے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ بی بی کو بتا دو لطیف صاحب ٹرین کی زد میں آ کر جاں بحق ہوگئے۔ میں نے اتنا ہی سنا تھا کہ بے ہوش ہو کر گر گئی۔ جب ہوش آیا تو اسپتال میں بھی ۔ ارد گرد میرے رشتہ دار بیٹھے ہوئے تھے۔ میری دنیا لٹ چکی تھی۔ اس کے  بعد زندگی کیسے گزری ، قافلے والوں کے ساتھ کیسے پاکستان آئی، یہ الگ داستان ہے۔ اب قبر میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھی ہوں۔ زندگی کی سب تلخیاں، بہت سے واقعات، خود پر گزری بھی بیتیاں بھلا چکی ہوں۔ نہیں بھلا سکی تو اس واقعے کو، اس خواب کو، جس نے مجھے خبردار کر دیا تھا کہ تمہارے اوپر کوئی طوفان آنے والا ہے۔ میں یونہی خوفزدہ نہیں ہوئی تھی۔ کچھ خواب ہم دیکھتے ہیں، بھلا دیتے ہیں کچھ یاد رہتے ہیں مگر وہ بے معنی بے اثر سے ہوتے ہیں لیکن کوئی خواب ایسا ہوتا ہے جو روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے۔ خدا کرے، ایسا خواب کسی سہاگن کو نہ آئے، جو ایک بھیانک حقیقت کے روپ میں آج بھی شعور میں ایک جیتی جاگتی تصویر کی طرح زندہ ہے۔

Latest Posts

Related POSTS