Monday, April 21, 2025

Bin Khushboo Ka Phool | Teen Auratien Teen Kahaniyan

نازو ہمارے علاقے کی رہنے والی تھی، وہ اپنے نام جیسی کومل تھی جیسے صحرا میں کھلا ہوا پھول، جو ذرا سی تپش سے مرجھانے لگتا ہے… لیکن بدقسمتی سے ایک غریب کسان کے گھر پیدا ہوئی جہاں غربت کا سدا راج رہتا تھا، جہاں روٹی کے ساتھ گھر بسانا بھی ایک مسئلہ تھا۔ شادی ایسے جائز مقدس امر کے لیے بھی یہ لوگ عورت کو خریدنے اور فروخت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
نازو کا کوئی بھائی نہ تھا تبھی باپ کو بہو خرید لانے کی فکر نہ تھی۔ البتہ نازو کا گھر بسانا تھا۔ جلد ہی اس نے رشتہ تلاش کرلیا۔ خیر محمد اسے موزوں لگا۔ خیر محمد کے باپ سے بات چیت ہوگئی، اس نے بیلوں کے ایک جوڑے کے بدلے بیٹی کا ہاتھ ان لوگوں کے ہاتھ میں دیدیا۔ سودا برا نہ تھا، زمین کی کوکھ، بے اولاد عورت کی کوکھ کی طرح اجڑی ہوئی تھی۔ نازو رخصت ہوگئی اور بیلوں کی جوڑی اس کے بدلے میں آگئی۔
نازو سندر تھی، خیرو اسے پاکر بہت خوش تھا۔ وہ سگھڑ صابر اور اطاعت گزار بھی تھی۔ اس کا گھر بس گیا اور دل بھی آباد و شاد ہوگیا تو وہ اپنے طاقتور بازوئوں سے دگنی محنت کرنے لگا۔ پہلے تینوں بھائی مل کر زمین کا سینہ چیرتے اور فصل بوتے تھے، پاس بیلوں کی جوڑی بھی تھی۔ اسی وجہ سے نازو کی قدر کرنے لگے کہ اس کی آمد نے نکمے خیرمحمد کے بازوئوں میں بھی بجلیاں بھردی تھیں۔ وہ اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ کھیتی باڑی میں شریک ہوگیا تھا۔ یہ نازو کے مبارک قدم تھے کہ اس بار فصل نے دگنا بار اٹھایا تھا۔
نازو اور اس کی ساس کھیتوں میں کام کرنے نہیں جاتی تھیں کیونکہ گھر میں کام کرنے والے چار مرد موجود تھے۔ یہ دونوں عورتیں گھر کا کام کاج کرتی تھیں۔ ساس، سسر، ماں، باپ جیسا پیار دیتے تھے اور دیور چھوٹے بھائیوں کی طرح تھے۔ سسرال میں اتنا پیار ملا کہ وہ میکے کو بھلا بیٹھی۔
اللہ نے گود ہری کی توبیٹے ایسی نعمت مل گئی۔ دیکھتے دیکھتے وہ تین بچوں کی ماں بن گئی۔
زندگی قناعت سے بسر کی جائے تو آدمی سکون سے جیتا ہے۔ خواہشات کم تھیں لہٰذا وہ بھی آرام سے جی رہی تھی۔ اگر زندگی پھولوں کی سیج نہ تھی تو کانٹوں کا بستر بھی نہ تھی۔ وہ سہاگن تھی، ایسی سہاگن جس کا شوہر اس کو چاہتا تھا اور سسرال والے قدر کرتے تھے۔ اس سے بڑی نصیب والی بات کیا ہوسکتی تھی کہ ایک دیہاتی عورت ہر طرح سے خوشحال تھی۔
ایک روز وہ چھوٹے بیٹے کو پالنا جھلارہی تھی کہ اس کا چھوٹا دیور بھاگتا ہوا آیا اور پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان بتایا کہ خیرمحمد کو گولی لگ گئی ہے۔ اس نے بتایا کہ یہ سارا کیا دھر اس خبیث زمیندار کا ہے کہ ہمارا شیر سا بھائی مارا گیا ہے۔
پالنے کی ڈوری نازو کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ اس کے اوسان جاتے رہے کہ رونے کا بھی ہوش نہ رہا۔ جب ہوش آیا دنیا بدل چکی تھی بلکہ دنیا لٹ چکی تھی۔ سامنے تین معصوم بچے تھے، وہ مکان تھا جس کو وہ اپنا ’’گھر‘‘ کہتی تھی… وہ لوگ تھے جن کو وہ اپنے لوگ کہتی تھی۔ مگر اب جانے کیا ہونے والا تھا کیونکہ سارے رشتے تو مرنے والے کے دم سے تھے۔ رو رو کر وہ امید بھری نظروں سے کبھی ساس سسر اور کبھی جیٹھ کو دیکھتی تھی۔
خیرمحمد کا بڑا بھائی ناظر محمد شریف النفس تھا اور اپنے بھائی سے محبت کرتا تھا۔ خیرو کے بچے تو اس کی جان تھے۔ ناظر کی بیوی دو سال قبل وفات پاچکی تھی، اولاد سے محروم تھا تبھی بھائی کے بچوں کو عزیز از جان رکھتا تھا۔
جب نازو کے بارے میں گھر میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں تو اس نے ماں سے کہا کہ نازو کو کہیں دھکا دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بچے چھوٹے ہیں وہ معصوم ہیں، ماں سے جدائی کو برداشت نہ کرسکیں گے۔ میں اس کے ساتھ نکاح کرلوں گا۔
جیٹھ کی بات سن کر ڈری سہمی نازو کی جان میں جان آگئی۔ اس کے دل سے بے سروسامانی کا خوف اور بچے چھن جانے کا ڈر ختم ہوگیا تھا۔
دل سے جیٹھ کی مشکور ہوئی کہ جس نے اس کی بے چارگی پر ترس کھایا تھا اورکسی دوسرے در پر جانے سے بچالیا تھا۔ تاہم اس کے دیور شیر محمد کو یہ بات اچھی نہ لگی۔کیونکہ نازو کے فروخت کرنے پر ان کو اتنی رقم مل جاتی جس میں وہ دو بیگھ زمین مول لے سکتے تھے اور اس کے لیے ایک نئی نویلی دلہن آسکتی تھی۔
بڑے بھائی کے آگے بولنے کی مجال نہ تھی، وہ خاموش ہورہا۔ مگر شومئی قسمت کہ زمیندار سے تکرار پر ناظر محمد کو جیل جانا پڑا اور وہ کچھ عرصے کے لیے قید ہوگیا۔ اب شیر محمد کے لیے بڑا اچھا موقع تھا، اس نے ایک ترکھان سے بات پکی کرلی اور چند ہزار کے عوض نازو کا سودا کردیا۔
شام کو شیر محمد آیا تو اس نے بیوہ بھابی سے کہا، تیار ہوجائو یہاں تمہارا موجود رہنا ٹھیک نہیں۔ شام کو پولیس تفتیش کے لیے آئے گی، ایسا نہ ہو تم کو گرفتار کرکے لے جائیں۔
ویرا … مگر وہ کیوں مجھے گرفتار کریں گے میں نے کیا قصور کیا ہے؟ نازو نے حیرت سے پوچھا۔
پولیس غریب کی جوان عورت دیکھتی ہے اس کا قصور نہیں دیکھتی۔ ادھر زمیندار دشمن ہے، اُدھر بڑا بھائی جیل میں ہے۔ اب ہماری کس نے سننی ہے۔ بس اتنا قصور ہمارا بہت ہے۔ ہماری عزت پولیس والوں کے بوٹوں کے نیچے ہے۔ تم چلو میں تم کو کچھ دن خالہ کے پاس چھوڑ آتا ہوں۔ جب پولیس والے پوچھ گچھ کرکے چلے جائیں گے۔ ہم تم کو گھر واپس لے آئیں گے۔
بھولی بھالی نازو تیار ہوگئی تو دیور نے کہا بچوں کو مت لے جائو یہ تو ادھم مچا کر ہم کو رستے میں ہی پکڑوادیں گے۔ان کو یہیں رہنے دو، روئیں گے تو اماں بہلالے گی۔ جب نازو تنہا گھر کی دہلیز پارکررہی تھی، تب اس کا ماتھا ٹھنکا تھا … مگر کیا کرتی دیوروں کا حکم کیسے نہ مانتی۔ اب وہی تو اس کے مالک تھے اس کے اور اس کے بچوں کے نگہبان تھے۔
شام کو جب وہ ساتھ والے گائوں پہنچے تو اللہ یار کی بیٹھک میں انہوں نے ترکھان اور اس کے بھائیوں کو اپنا منتظر پایا۔
بھابی ہم نے تیرا سودا کردیا ہے تاکہ ہنسی خوشی اپنا گھر بسا سکے۔ ابھی تو کم عمر ہے، زندگی ایسے نہ گزر سکے گی جاکر اپنا گھر آباد کرلے۔ ہم تیرے بچوں کو کوئی تکلیف نہ ہونے دیں گے۔ وہ بالآخر تو ہمارے ہی بچے ہیں۔
یہ سن کر نازو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، بولی مجھے مت بیچو۔ میں یہ رقم تم کو محنت مزدوری کرکے ادا کردوں گی… مگر میرے بچوں کو مجھ سے جدا مت کرو، ناظر محمد کو آلینے دو، وہ جو کہے گا ہم سب مان لیں گے وہ خیر محمد کا بڑا بھائی ہے۔
وہ آہ و زاری کرتی رہ گئی لیکن چھوٹے دیوروں نے اس کی ایک نہ سنی۔ انہوں نے رقم گن کر جیب میں رکھی اور نازو کو زبردستی ان لوگوں کے حوالے کرکے واپس چل دیے جو ذات کے ترکھان تھے۔
احمد ترکھان نازو کو اپنے نکاح میں لانے کو خرید لایا تھا مگر وہ ایک سمجھدار اور رحم دل انسان تھا۔ اس نے عورت کو یوں بلکتے تڑپتے دیکھا تو دلاسا دیا کہ خاطر جمع رکھو میں تجھ سے زبردستی نکاح نہ کروں گا جب تک کہ تو خود راضی نہ ہوجائے گی۔ تو میرے گھر میں بطور مہمان رہ۔
نازو کا سب سے چھوٹا لڑکا ابھی صرف نو ماہ کا تھا۔ احمد ترکھان اس کی ممتا کی تڑپ سمجھتا تھا۔
آخر کب تک… ایک روز اس نے سمجھایا کہ تجھے عمر بھر کا آسرا تو کرنا ہے۔ آخر یہ رونا دھونا کب تک… تیری جو قسمت میں تھا ہو کر رہا۔ میں بھی مجبور ہوں، ایسے تجھے نہیں رکھ سکتا۔ مجھ سے نکاح کرنا ہی ہوگا۔ راضی بہ رضا رہے گی تو ہنسی خوشی سے زندگی گزرے گی ورنہ میرے بھائی تیرا سودا کہیں اور طے کردیں گے اور میں کچھ نہ کرسکوں گا۔
نکاح کا خیال چھوڑ دے احمد تو میرا بھائی ہے، میں تیری بہن… چند ماہ کی مہلت دے۔ میرا جیٹھ جیل میں ہے وہ چھوٹ کر آجائے گا تو میری قیمت واپس کرکے مجھے میرے بچوںکے پاس لے جائے گا۔ وہ ایک سخی انسان ہے اور اپنے بھائی کے بچوں سے پیار کرتا ہے۔ وہ ان سے ماں کو جدا نہ ہونے دے گا۔
نازو کو اتنا مجبور دیکھ کر وہ کچھ دن اور اسے مہلت دینے پر راضی ہوگیا۔ اس نے کہا اگر تیرا جیٹھ جیل سے اچھا جواب دے اور میری رقم کی واپسی کا ذمہ اٹھالے تو میں تجھے اسی کی امانت سمجھوں گا۔
احمد نے جیل میں خط ناظر محمد کو بھجوادیا اور جواب کا انتظار کرنے لگا۔ نازو ہاتھ جوڑتی تھی کہ اگر جیٹھ نے رقم کا ذمہ نہ اٹھایا تو وہ خود محنت مزدوری کرکے رقم لوٹا دے گی۔ وہ بچوں کی خاطر آزادی مانگتی تھی، جن معصوموں کے بنا اس کو رات بھر نیند نہ آتی تھی۔
جیل سے ناظر کا جواب آگیا۔ اس نے نازو کو نصیحت کی تھی کہ اب جس شخص نے بھی تم کو خرید لیا ہے تو اس کی وفادار ہوجائو اور اس سے نکاح کرلو۔ مجھے جانے کب جیل سے رہائی ملے… اتنے عرصے میں یقینا میرے بھائی دوبارہ تمہیں بیچ دیں گے۔
نازو کی آس ٹوٹ گئی، پھر بھی اس نے آخری کوشش کی اور احمد کو مجبور کیا کہ وہ اس کے سسر کے پاس جاکر کہے کہ اسے بچوں کی خاطر گھر میں رہنے دے۔ وہ محنت مزدوری کرکے اپنی قیمت خود چکادے گی۔
احمد نے بات مانی اور جا کر اس کے سسر کو نازو کا پیغام دیا۔ سسر نے جواب دیا۔اب عورت تمہارے حوالے ہے اور یہ تمہاری ذمہ داری بن چکی ہے۔ ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ تم اس کے ساتھ نکاح کرلو تاکہ تم پر کوئی حرف نہ آئے اور ہم پر لوگ انگلیاں نہ اٹھائیں۔ ورنہ لوگ ہم کو برا بھلا کہیں گے۔ بچے ہمارے ہیں ہم خود ان کی پرورش کریں گے۔ نازو سے کہو کہ ان کی فکر چھوڑ دے۔ جب یہ الفاظ احمد نے آکر بتائے تو نازو کا سارا مان خاک میں مل گیا۔ اس کی امیدوں کے تمام دیے گل ہوگئے۔ اس نے سوچا کسی اور دربھٹکنے سے احمد ترکھان کا در پھر بہتر ہے۔ ایسا اچھا آدمی اور نہیں ہوسکتا۔ اگر میں نکاح پر رضامند نہ ہوئی اس کے والد اور بھائی مجھ کو اور جگہ بیچ کر اپنے دام وصول کرلیں گے۔ آگے جانے کس قسم کے انسان کی غلام بنوں۔ بس یہ سوچ کراس نے جینے کا یہ آسرا قبول کیا اور احمد سے کہا۔
تم نے میری سب باتیں مانیں اب مجھے زیب نہیں دیتا کہ تم کو ٹھکرا کر کہیں اور جائوں۔ جانے آگے میرا کیا حشر ہو… سو بہتر ہے میں تم سے نکاح قبول کرلوں۔ تم نے اچھی نیت سے مجھے خریدا ہے۔ لہٰذا اب تمہاری مرضی ہی میری مرضی ہے۔
ہاں، اب تم نے درست فیصلہ کیا ہے۔ احمد نے کہا اور پھر نازو سے نکاح کرلیا۔ وہ نکاح کے وقت خاموش تھی۔ دلہن بن گئی مگر اپنے بچوں کے بغیر وہ ایسی سہاگن تھی، جیسے خوشبو کے بغیر پھول ڈالی پر سج رہتا ہے۔
(س۔ م… ڈیرہ غازی خان)

Latest Posts

Related POSTS